تاریخ اسلام میں ایسے بے شمار نام محفوظ ہیں جن کے کارہائے نمایاں رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے لیکن جب ذکر سیدنا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ کا آجائے تو تاریخ ڈھونڈتی ہے کہ ان جیسا دوسراکوئی ایک ہی اسے اپنے دامن میں مل جائے ۔ کوئی کسی فن کا امام ہے تو کوئی کسی علم کا ماہر لیکن سیدنا اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ ہر علم ، ہر فن کے آفتاب و ماہتاب ہیں

جس سمت دیکھئے وہ علاقہ رضا کا ہے

جہاں مالک قدیر نے آپ کو ،نامور آباؤ اجداد اور معزز و مقدس قبیلہ میں پیدا فرمایا وہیں آپ کی اولاد اورخاندان میں بھی بے شمار بے مثال ولاجواب افراد پیدا فرمائے ۔ استاد زمن ، حجۃ الاسلام ، مفتئ اعظم ،مفسر اعظم ،حکیم الاسلام، ریحان ملت ، صدر العلماء ، امین شریعت جس کسی کو دیکھ لیجئے ہر ایک اپنی مثال آپ ہے ۔

انہی میں ایک نام سر سبز وشاداب باغِ رضا کے گل شگفتہ ، روشن روشن فلک رضا کے نیر تاباں قاضی القضاۃ فی الہند ، جانشین مفتئ اعظم ،حضور تاج الشریعہ حضرۃ العلام مفتی محمد اختر رضا خاں قادری ازہری دام ظلہ علینا کا بھی ہے ۔

حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا مفسر اعظم ہند حضرت علامہ مفتی محمد ابراہیم رضا خاں قادری جیلانی کے لخت جگر ، سرکار مفتئ اعظم ہند علامہ مفتی مصطفی رضاخاں قادری نوری کے سچے جانشین ،حجۃ الاسلام حضرت علامہ مفتی محمد حامد رضا خاں قادری رضوی کے مظہر اور سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خاں قادری برکاتی بریلوی کی برکات و فیوضات کا منبع اور ان کے علوم و روایتوں کے وراث و امین ہیں۔

ان عظیم نسبتوں کا فیضان آپ کی شخصیت میں اوصاف حمیدہ اور اخلاق کریمانہ کی صورت میں جھلک رہا ہے ۔استاذ الفقہأ حضرت علامہ مفتی عبد الرحیم صاحب بستوی دامت برکاتہم القدسیہ حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علیناپر ان عظیم ہستیوں کے فیضان کی بارشوں کاتذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:” سب ہی حضرات گرامی کے کمالات علمی و عملی سے آپ کو گراں قدر حصہ ملا ہے ۔ فہم و ذکا ،قوت حافظہ و تقویٰ سیدی اعلیٰ حضرت سے ،جودت طبع و مہارت تامہ (عربی ادب ) میں حضور حجۃ الاسلام سے ،فقہ میں تبحر و اصابت سرکار مفتئ اعظم ہند سے ، قوت خطابت و بیان والد ذی وقار مفسر اعظم ہند سے یعنی وہ تمام خوبیاں آپ کووارثتہً حاصل ہیںجن کی رہبر شریعت و طریقت کو ضرورت ہوتی ہے ۔ ” [پیش گفتار، شرح حدیث نیت/صفحہ:٤ ]

جانشین رضا شاہ اختر رضا ۔ ۔ ۔ فخر اہل سنن شاہ اختر رضا
ہیں میری زندگی شاہ اختر رضا ۔ ۔ ۔ ان کا سایہ سروں پر رہے دائما
ان کی نورانی صورت پہ لاکھوں سلام ۔ ۔ ۔ مصطفیٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام


ولادت باسعادت:

حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کی ولادت باسعادت ٢٦/محرم الحرام ١٣٦٢ھ بمطابق ٢/فروری ١٩٤٣ء بروز منگل ہندوستان کے شہر بریلی شریف کے محلہ سوداگران میں ہوئی ۔

اسم گرامی :

آپ کااسم گرامی ”محمداسماعیل رضا” جبکہ عرفیت ”اختر رضا” ہے ۔ آپ اخترتخلص استعمال فرماتے ہیں۔ آپ کے القابات میں تاج الشریعہ، سلطان الفقہاء، جانشین مفتئ اعظم، شیخ الاسلام و المسلمین زیادہ مشہور ہیں۔

شجرہ نسب :

اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت تک آپ کا شجرہ نصب یوں ہے۔ محمد اختررضا خاں قادری ازہری بن محمد ابرہیم رضا خاں قادری جیلانی بن محمد حامد رضا خاں قادری رضوی بن امام احمد رضا خاں قادری برکاتی بریلوی

آپ ٥/ بھائی اور٣/بہنیں ہیں۔٢/بھائی آپ سے بڑے ہیں ۔ ریحان ملت مولانا ریحان رضا خاں قادری اورتنویر رضا خاں قادری (آپ پچپن ہی سے جذب کی کیفیت میں غرق رہتے تھے بالآ خر مفقود الخبرہوگئے) اور٢/ آپ سے چھوٹے ہیں۔ ڈاکٹر قمر رضا خاں قادری اور مولانا منان رضا خاں قادری

تعلیم و تربیت:

جانشین مفتئ اعظم حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کی عمر شریف جب ٤/سال ،٤/ ماہ اور٤/ دن ہوئی توآپ کے والد ماجد مفسر اعظم ہند حضرت ابراہیم رضا خاں جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ نے تقریب بسم اللہ خوانی منعقد کی ۔اس تقریب سعید میں ”یاد گار اعلی حضرت دارالعلوم منظر الاسلام” کے تمام طلبہ کو دعوت دی گئی۔ رسم بسم اللہ نانا جان تاجدار اہلسنّت سرکار مفتئ اعظم ہند محمد مصطفی رضاخاں نور ی نے ادا کرائی۔ حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا نے ”ناظرہ قرآن کریم ”اپنی والدہ ماجدہ شہزادیئ مفتی اعظم سے گھر پرہی ختم کیا ،والدماجد سے ابتدائی اردو کتب پڑھیں۔ اس کے بعد والد بزرگوار نے ”دارالعلوم منظرالاسلام” میں داخل کرا دیا ، درس نظامی کی تکمیل آپ نے منظر الاسلام سے کی ۔اس کے بعد١٩٦٣ء میں حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا ”جامعۃ الازہر”قاہرہ ،مصرتشریف لے گئے ۔وہاں آپ نے ”کلیہ اصول الدین” میں داخلہ لیااورمسلسل تین سال تک” جامعہ ازہر، مصر” کے فن تفسیر و حدیث کے ماہر اساتذہ سے اکتساب علم کیا۔ تاج الشریعہ ١٩٦٦ء /١٣٨٦ھ میںجامعۃ الازہر سے فارغ ہوئے۔ اپنی جماعت میں اول پوزیشن حاصل کرنے پر آپ کواس وقت کے مصر کے صدر کرنل جمال عبدالناصر نے ”جامعہ ازہر ایوارڈ” پیش کیا اور ساتھ ہی سند سے بھی نوازے گئے۔ [بحوالہ : مفتئ اعظم ہند اور ان کے خلفاء /صفحہ :١٥٠/جلد :١]

اساتذہ کرام :

آپ کے اساتذہ کرام میں حضور مفتی اعظم الشاہ مصطفےٰ رضاخاں نوری بریلوی ، بحر العلوم حضرت مفتی سید محمد افضل حسین رضوی مونگیری،مفسر اعظم ہند حضرت مفتی محمد ابراہیم رضا جیلانی رضوی بریلوی،فضیلت الشیخ علامہ محمد سماحی ،شیخ الحدیث و التفسیر جامعہ ازہر قاہرہ، حضرت علامہ مولانا محمود عبدالغفار ،استاذالحدیث جامعہ ازہر قاہرہ، ریحان ملت ،قائداعظم مولانا محمد ریحان رضا رحمانی رضوی بریلوی، استاذ الاساتذہ مولانا مفتی محمد احمد عرف جہانگیر خاں رضوی اعظمی کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ [مفتئ اعظم ہند اور ان کے خلفاء /صفحہ :١٥٠/جلد :١]

ازدواجی زندگی:

جانشین مفتی اعظم کا عقد مسنون حکیم الاسلام مولانا حسنین رضا بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ کی دختر نیک اخترکے ساتھ ٣/نومبر١٩٦٨ء/ شعبان المعظم١٣٨٨ھ بروز اتوار کو محلہ کا نکر ٹولہ شہر کہنہ بریلی میں ہوا۔ آپ کے ایک صاحبزادہ مخدوم گرامی مولانا عسجد رضا قادری برےلوی اور پانچ صاحبزادیاں ہیں۔

درس وتدریس :

حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا نے تدریس کی ابتدادارالعلوم منظر اسلام بریلی سے ١٩٦٧ء میں کی۔ ١٩٧٨ء میں آپ دارالعلوم کے صدر المدرس اور رضوی دارالافتاء کے صدر مفتی کے عہدے پر فائز ہوئے ۔ درس و تدرےس کا سلسلہ مسلسل بارہ سال جاری رہالیکن حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کی کثیر مصروفیات کے سبب یہ سلسلہ مستقل جاری نہیں رہ سکا ۔ لیکن آج بھی آپ مرکزی دارالافتاء بریلی شریف میں ”تخصص فی الفقہ ” کے علمائے کرام کو ”رسم المفتی،اجلی الاعلام” اور ”بخاری شریف ” کا درس دیتے ہیں۔

بیعت وخلافت :

حضورتا ج الشریعہ کو بیعت و خلافت کا شرف سرکار مفتئ اعظم سے حاصل ہے۔ سرکار مفتئ اعظم ہند نے بچپن ہی میں آپ کوبیعت کا شرف عطا فرمادیا تھااور صرف ١٩/ سال کی عمر میں١٥/جنوری١٩٦٢ئ/١٣٨١ ھ کو تمام سلاسل کی خلافت و اجازت سے نوازا۔ علاوہ ازیں آپ کو خلیفہ اعلیٰ حضرت برہان ملت حضرت مفتی برہان الحق جبل پوری، سید العلماء حضرت سید شاہ آل مصطفی برکاتی مارہروی،احسن العلماء حضرت سید حیدر حسن میاں برکاتی ،والد ماجد مفسر اعظم علامہ مفتی ابراہیم رضا خاں قادری سے بھی جمیع سلاسل کی اجازت و خلافت حاصل ہے ۔ [تجلیّات تاج الشریعہ / صفحہ: ١٤٩ ]

بارگاہ مرشد میں مقام:

حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کو اپنے مرشد برحق ،شہزادہ اعلیٰ حضرت تاجدار اہلسنّت امام المشائخ مفتئ اعظم ہند ابو البرکات آل رحمن حضرت علامہ مفتی محمد مصطفی رضاخاں نوری صکی بارگاہ میں بھی بلند مقام حاصل تھا۔ سرکار مفتی اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو آپ سے بچپن ہی سے بے انتہا توقعات وابستہ تھیں جس کا اندازہ ان کے ارشادات عالیہ سے لگایا جاسکتاہے جو مختلف مواقع پر آپ نے ارشاد فرمائے :
” اس لڑکے (حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا) سے بہت اُمید ہے۔”

سرکار مفتی اعظم ہند نے دارالافتاء کی عظیم ذمہ داری آپ کو سونپتے ہوئے فرمایا: ”اختر میاں اب گھر میں بیٹھنے کا وقت نہیں، یہ لوگ جن کی بھیڑ لگی ہوئی ہے کبھی سکون سے بیٹھنے نہیں دیتے ، اب تم اس کام کو انجام دو، میں تمہارے سپرد کرتا ہوں۔”لوگوں سے مخاطب ہو کر مفتی اعظم نے فرمایا:”آپ لوگ اب اختر میاں سلمہ، سے رجوع کریں انہیں کو میرا قائم مقام اور جانشین جانیں۔ ” حضور مفتی اعظم نے اپنی حیات مبارکہ کے آخری دور میں حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کوتحریراًاپنا قائم مقام و جانشین مقرر فرمایا تھا۔

بتاؤں کیسے کتنے پر ضیاء تاج شریعت ہیں ۔ ۔ ۔ شبیہ اعلیٰ حضرت با خدا تاج شریعت ہیں
نبی کے عشق کا جلوہ نظر آتا ہے چہرے میں ۔ ۔ ۔ سراپا پیکر صدق و صفا تاج شریعت ہیں
شجاعت کے ،عدالت کے ،سخاوت کے ہیں وہ پیکر ۔ ۔ ۔ علی ، فاروق ، عثمان کی ادا تاج شریعت ہیں
ہر اک لمحہ ،ہر اک ساعت، شب و دن دیکھئے چل کر ۔ ۔ ۔ ہمیشہ محو ِ عشق مصطفی تاج شریعت ہیں
حبیب ناتواں کو حشر کی گرمی کا کیوں غم ہو ۔ ۔ ۔ شہ بطحاکے دامن کی ہوا تاج شریعت ہیں


فتویٰ نویسی :

١٨١٦ء میںروہیلہ حکومت کے خاتمہ ،بریلی شریف پرانگریز وں کے قبضہ اور حضرت مفتی محمد عیوض صاحب کے روہیلکھنڈ(بریلی) ٹونک تشریف لے جانے کے بعد بریلی کی مسند افتاء خالی تھی ۔ایسے نازک اور پر آشوب دور میں امام العلماء علامہ مفتی رضا علی خاں نقشبندی رضی اللہ تعالی عنہ نے بریلی کی مسند افتاء کورونق بخشی ۔ یہیںسے خانوادہ رضویہ میں فتاویٰ نویسی کی عظیم الشان روایت کی ابتداء ہوئی۔ [بحوالہ:مولانا نقی علی خاں علیہ الرحمہ حیات اور علمی وادبی کارنامے/ صفحہ ٧٨ ]

لیکن مجموعہ فتاویٰ بریلی شریف میں آپ کی فتویٰ نویسی کی ابتداء ١٨٣١ء لکھی ہے ۔ (غالباً درمیانی عرصہ انگریز قابضوں کی ریشہ دوانیوں کے سبب مسند افتاء خالی ہی رہی) الحمدللہ! ١٨٣١ء سے آج ٢٠٠٩ء تک یہ تابناک سلسلہ جاری و ساری ہے ۔ یعنی خاندان رضویہ میں فتاویٰ نویسی کی ایمان افروز روایت ١٧٨/ سال سے مسلسل چلی آرہی ہے ۔امام الفقہأ ،حضرت علامہ مفتی محمد رضا علی خاں قادری بریلوی،امام المتکلمین ،حضرت علامہ مولانامحمد نقی علی خاں قادری برکاتی،اعلیٰ حضرت ،مجدد دین وملت ،حضرت علامہ مولانا مفتی محمد احمد رضا خاں قادری برکاتی ،شہزادہئ اعلیٰ حضرت ،حجۃ الالسلام ،جمال الانام حضرت علامہ مولانا مفتی حامد رضا خاں قادری رضوی، شہزادہئ اعلیٰ حضرت تاجدار اہل سنت ،مفتئ اعظم ہند ،علامہ مولانا مفتی محمد مصطفی رضا خاں قادری نوری، نبیرہ اعلیٰ حضرت ،مفسر اعظم ہند حضرت علامہ مفتی ابراہیم رضا خاں قادری رضوی اوراب ان کے بعد اب قاضی القضاۃ فی الہند ،تاج الشریعہ ،حضرت علامہ مولانا مفتی اختر رضا خاں قادری ازہری دام ظلہ، علینا١٩٦٧ء سے تادم تحریر٤٢/سال سے اس خدمت کو بحسن و خوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ [بحوالہ: فتاویٰ بریلی شریف /صفحہ:٢٢]

آپ خود اپنے فتوی نویسی کی ابتداء سے متعلق فرماتے ہیں:”میں بچپن سے ہی حضرت (مفتی اعظم) سے داخل سلسلہ ہو گیا ہوں، جامعہ ازہر سے واپسی کے بعد میں نے اپنی دلچسپی کی بناء پر فتویٰ کا کام شروع کیا۔ شروع شروع میں مفتی سید افضل حسین صاحب علیہ الرحمتہ اور دوسرے مفتیانِ کرام کی نگرانی میں یہ کام کرتا رہا۔ اور کبھی کبھی حضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر فتویٰ دکھایا کرتا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد اس کام میں میری دلچسپی زیادہ بڑھ گئی اور پھر میں مستقل حضرت کی خدمت میں حاضر ہونے لگا۔ حضرت کی توجہ سے مختصر مدت میں اس کام میں مجھے وہ فیض حاصل ہوا کہ جو کسی کے پاس مدتوں بیٹھنے سے بھی نہ ہوتا ۔” [مفتئ اعظم ہند اور ان کے خلفاء صفحہ :١٥٠/جلد :١]

حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کے فتاویٰ سارے عالم میں سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ وہ دقیق و پیچیدہ مسائل جو علماء اور مفتیان کرام کے درمیان مختلف فیہ ہوں ان میں حضرت کے قول کو ہی فیصل تسلیم کیا جاتا ہے اور جس فتوے پر آپ کی مہر تصدیق ثبت ہو خواص کے نزدیک بھی وہ انتہائی معتبر ہوتاہے۔ حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کے فتاویٰ سے متعلق جگرگوشہ صدرالشریعہ ، محدث کبیر حضرت علامہ مفتی ضیاء المصطفیٰ اعظمی دامت برکاتہم العالیہ رقم طراز ہیں: ”تاج الشریعہ کے قلم سے نکلے ہوئے فتاویٰ کے مطالعہ سے ایسا لگتا ہے ہم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رضی اللہ تعالی عنہ کی تحریر پڑھ رہے آپ کی تحریرمیںدلائل اور حوالہ جات کی بھر مار سے یہی ظاہر ہوتاہے ۔” [حیات تاج الشریعہ/صفحہ٦٦]

حج وزیات:

حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا نے پہلی مرتبہ حج وزیارت کی سعادت ١٤٠٣ھ/ ١٩٨٣ء میں حاصل کی ۔ دوسری مرتبہ ١٤٠٥ھ/ ١٩٨٥ء اور تیسری مرتبہ ١٤٠٦ھ/١٩٨٦ء میں اس سعادت عظمیٰ سے مشرف ہوئے ۔جبکہ چوتھی مرتبہ ١٤٢٩ھ/٢٠٠٨ء میں آپ نے حج بیت اللہ ادا فرمایا۔ نیز متعدد مرتبہ آپ کو سرکار عالی وقار کی بارگاہ بے کس پناہ سے عمرہ کی سعادت بھی عطا ہوئی ۔

اعلائے کلمۃ الحق:

احقاق حق و ابطال باطل ،خانوادہئ رضویہ کی ان صفات میں سے ہے جس کا اعتراف نہ صرف اپنوں بلکہ بیگانوں کو بھی کرنا پڑا۔یہاں حق کے مقابل نہ اپنے پرائے کا فرق رکھا جاتا ہے نہ امیر و غریب کی تفریق کی جاتی ہے۔ سیدی اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کا دور تو تھا ہی فتنوں کا دور ہر طرف کفرو الحاد کی آندھیاں چل رہی تھیں لیکن علم بردار حق سیدی اعلیٰ حضرتص نے کبھی باطل کے سامنے سر نہ جھکایاچاہے ذبحِ گائے کا فتنہ ہویاہندو مسلم اتحاد کا ، تحریک ترک موالات ہو یا تحریک خلافت یہ مرد مومن آوازہئ حق بلند کرتا ہی رہا۔ سرکارمفتئ اعظم صکی حق گوئی وبے باکی بھی تاریخ کا درخشندہ باب ہے شدھی تحریک کا زمانہ ہو یانسبندی کاپر خطر دور ہوآپ نے علم حق کبھی سرنگوں نہ ہونے دیا۔ اللہ رب العزت نے جانشےن مفتی اعظم کواپنے اسلاف کا پرتو بنایاہے ۔آپ کی حق گوئی اور بے باکی بھی قابل تقلید ہے۔ وقتی مصلحتیں،طعن و تشنیع ، مصائب وآلام یہاں تک کہ قید و بند کی صعوبتیں بھی آپ کو راہ حق سے نہ ہٹا سکی ۔آپ نے کبھی اہل ثروت کی خوشی یا حکومتی منشاء کے مطابق فتویٰ نہےں تحرےر فرماےا، ہمیشہ صداقت و حقانےت کا دامن تھامے رکھا ۔اس راہ میں کبھی آپ نے اپنے پرائے ، چھوٹے بڑے کافرق ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔ ہر معاملہ میں آپ اپنے آباء و اجدادکی روشن اور تابناک روایتوں کی پاسداری فرماتے رہے ہیں۔شیخ عالم حضرت علامہ سیدشاہ فخر الدین اشرف الاشرفی کچھوچھوی دامت برکاتہم القدسیہ زیب سجادہ کچھوچھہ مقدسہ تحریر فرماتے ہیں: ”علامہ (حضورتاج الشریعہ کا) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر حال میں باد سموم کی تیز و تند،غضبناک آندھیوں کی زد میں بھی استقامت علی الحق کا مظاہر ہ کرنا اور ثابت قدم رہنا یہ وہ عظیم وصف ہے جس نے مجھے کافی متاثر کیا۔” [تجلیّاتِ تاج الشریعہ /صفحہ :٢٥١]

اس سلسلہ میں ٢/ واقعات درج ذیل ہیں ۔تیسری مرتبہ١٩٨٦ئ/١٤٠٦ھ حج کے موقع پرسعودی حکومت نے آپ کو بیجا گرفتار کرلیااس موقع پر آپ نے حق گوئی و بے باکی کاجومظاہرہ کیا وہ آپ ہی کاحصہ ہے۔ سعودی مظالم کی مختصرسی جھلک خود حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کی زبانی ملاحظہ فرمائیں:”مختصر یہ کہ مسلسل سوالات کے باوجود میرا جرم میرے بار بار پوچھنے کے بعد بھی مجھے نہ بتایا بلکہ یہی کہتے رہے کہ : ”میرا معاملہ اہمیت نہیں رکھتا۔” لیکن اس کے باوجود میری رہائی میں تاخیر کی اور بغیر اظہار جرم مجھے مدینہ منورہ کی حاضری سے موقوف رکھا اور١١/ دنوں کے بعد جب مجھے جدہ روانہ کیا گیا تو میرے ہاتھوں میں جدہ ائیر پورٹ تک ہتھکڑی پہنائے رکھی اور راستے میں نماز ظہر کے لیے موقع بھی نہ دیا گیا اس وجہ سے میری نماز ظہر قضاہو گئی۔” [مفتئ اعظم ہند اور ان کے خلفاء صفحہ :١٥٠/جلد :١]

ذیل کے اشعار میںحضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا نے اسی واقعہ کا ذکرفرمایا ہے ۔

نہ رکھا مجھ کو طیبہ کی قفس میں اس ستم گر نے
ستم کیسا ہوا بلبل پہ یہ قید ستم گر میں
ستم سے اپنے مٹ جاؤ گے تم خود اے ستمگارو
سنو ہم کہہ رہے ہیں بے خطرہ دورِستم گر میں


سعودی حکومت کے اس متعصب رویہ ،حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کی بیجا گرفتاری اور مدینہ طیبہ کی حاضری سے روکے جانے پر پورے عالم اسلام میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ، مسلمانان اہل سنت کی جانب سے ساری دنیا میں سعودی حکومت کے خلاف احتجاجات کا سلسلہ شروع ہوگیا ، اخبارات و رسائل نے بھی آپ کی بےجا گرفتاری کی شدید مذمت کی۔ آخر کاراہل سنت و جماعت کی قربانیاں رنگ لائیں ، سعودی حکومت کو سر جھکانا پڑا ،اس وقت کے سعودی فرمانروا شاہ فہد نے لندن میں یہ اعلان کیا کہ ”حرمین شرفین میں ہر مسلک کے لوگوں کو ان کے طریقے پر عبادات کرنے کی آزادی ہو گی۔” نیز آپ کو زیارت مدینہ طیبہ اور عمرہ کے لئے ایک ماہ کا خصوصی ویزہ بھی دیا۔ اس معاملہ میں قائد اہلسنّت حضرت علامہ ارشد القادری رضی اللہ تعالی عنہ کی کاوشیں قابل ذکر ہیں۔

خلیفہ سرکار مفتی اعظم ہند ، علامہ بدر الدین احمد قادر ی حضور تاج الشریعہ دام ظلہ علینا کی حق گوئی سے متعلق رقم طراز ہیں : ”حضرت سرکار خواجہ غریب نواز کے سالانہ عرس پاک کے موقع پر میں اجمیر مقدس حاضر ہوا، چھٹویں رجب ١٤٠٩ھ بروز دوشنبہ مبارکہ (پیر) مطابق ١٣/فروری١٩٨٩ء کو حضرت سید احمد علی صاحب قبلہ خادم درگاہ سرکار خواجہ صاحب کے کاشانہ پر قل شریف کی محفل منعقد ہوئی ۔ محفل میں حضرت علامہ مولانا اختر رضاازہری قبلہ مدظلہ، العالی اور حضرت مولانا مفتی رجب علی صاحب قبلہ ساکن نانپارہ بہرائچ شریف نیز دیگر علماء کرا م موجود تھے ۔ قل شریف کے اس مجمع میں سرکار شیر بیشہئ اہلسنّت امام المناظرین حضور مولانا علامہ محمد حشمت علی خاں علیہ الرحمۃ والرضوان کے شاہزادے حضرت مولانا ادریس رضا خاں صاحب تقریر کر رہے تھے ۔ اثنائے تقریر میں مولانا موصوف کی زبان سے یہ جملہ نکلا کہ:” ہمارے سرکار پیارے مصطفی اپنے غلاموں کو اپنی کالی کملی میں چھپائیں گے ۔ ” فوراً حضرت علامہ ازہری صاحب قبلہ نے مولانا موصوف کو ٹوکتے ہوئے فرمایا کہ (کالی کملی کے بجائے )نوری چادر کہو۔ یہ شرعی تنبیہ سنتے ہی مولانا موصوف نے اپنی تقریر روک کر پہلے حضرت علامہ ازہری قبلہ کی تنبیہ کو سراہا ، بعدہ، بھرے مجمع میں یہ واضح کیا کہ ”کملی ”تصغیر کا کلمہ ہے جس کو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرکے بولنا ہر گز جائز نہیں اور چوں کہ میری زبان سے یہ خلاف شریعت کلمہ نکلا اس لئے میں بارگاہ الٰہی د میں اس کلمہ کے بولنے سے توبہ کرتاہوں ۔ اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے ۔ (ھٰذَا اَوْکَمَا قَالَ )پھر توبہ کے بعد موصوف نے اپنی بقیہ تقریر پوری کی ۔ ” [عطیہ ربانی در مقالہ نورانی ،صفحہ :٢٣،٢٤]

جس طرح بے مثال ہے اختر رضا کی ذات ۔ ۔ ۔ اس طرح باکمال ہے اختر رضا کی بات
فلک رضا کا اختر کامل ہے دوستو! ۔ ۔ ۔ کس درجہ پُرضیاء ہے اختر رضا کی ذات
چپ رہ رقیب روسیہ بدخواہ بدنصیب ۔ ۔ ۔ سونے کے مول تلتی ہے آخر کہیں پہ دھات
کیوں کر نہ گونجے دھر میں نغمہ رضا کا پھر ۔ ۔ ۔ فکر رضا کی بین ہے اختر رضا کے ہاتھ
عرفان گرچہ عارفِ راہِ سخن نہیں ۔ ۔ ۔ کہہ دی وفور عشق میں اختر رضا کی بات


زہد و تقویٰ :

حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینااخلاق حسنہ اور صفات عالیہ کا مرقع ہیں۔حکمت و دانائی ، طہارت و پاکیزگی ،بلندیئ کردار،خوش مزاجی و ملنساری ،حلم و بردباری ، خلوص و للّٰہیت،شرم و حیا،صبر و قناعت ،صداقت و استقامت بے شمار خوبیاں آپ کی شخصیت میں جمع ہیں ،وہیں آپ زہد و تقویٰ کا بھی مجسم پیکر ہیں۔آپ کے تقویٰ ایک جھلک ذیل کے واقعات میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔

مولانا غلام معین الدین قادری (پرگنہ ،مغربی بنگال)لکھتے ہیں:”حضورتاج الشریعہ سے حضرت پیر سید محمد طاہر گیلانی صاحب قبلہ بہت محبت فرمایا کرتے ان کے اصرار پر حضرت پاکستان بھی تشریف لے گئے واہگہ سرحد پر حضرت کا استقبال صدر مملکت کی طرح ٧/ توپوں کی سلامی دے کر کیا گیا۔حضرت کا قیام ان کے ایک عزیزشوکت حسن صاحب کے یہاں تھا راستے میںایک جگہ ناشتہ کا کچھ انتظام تھاجس میں انگریزی طرز کے ٹیبل لگے تھے حضرت نے فرمایا :”میں پاؤں پھیلاکر کھانا تناول نہیںکروں گا۔” پھر پاؤں سمیٹ کر سنت کے مطابق اسی کرسی پر بیٹھ گئے یہ سب دیکھ کر حاضرین کا زور دار نعرہ ”بریلی کا تقویٰ زندہ باد ” گونج پڑا ۔ ” [تجلیّاتِ تاج الشریعہ /صفحہ :٢٥٥]

مولانا منصور فریدی رضوی (بلاسپور ،چھتیس گڑھ)حضرت کے ایک سفر کا حال بیان کرتے ہیں:”محب مکرم حضرت حافظ وقاری محمد صادق حسین فرماتے ہیںکہ ، حضرت تاج الشریعہ کی خدمت کے لئے میں معمور تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنے مقدر پر ناز کررہا تھا کہ ایک ذرہئ ناچیز کو فلک کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہورہا تھا اچانک میری نگاہ حضوروالا(تاج الشریعہ ) کی ہتھیلیوں پر پڑی میں ایک لمحہ کے لئے تھرا گیا آخر یہ کیا ہورہا ہے میری نگاہیں کیا دیکھ رہی ہیں مجھے یقین نہیں ہورہا ہے ۔ آپ تو گہری نیند میں ہیں پھر آپ کی انگلیاں حرکت میں کیسے ہیں؟ میں نے مولانا عبد الوحید فتح پوری جو اس وقت موجود تھے اور دیگر افراد کو بھی اس جانب متوجہ کیا تما م کے تما م حیرت و استعجاب میں ڈوب گئے تھے ، معاملہ یہ ہے کہ آپ کی انگلیاں اس طرح حرکت کررہی تھیں گویا آپ تسبیح پڑھ رہے ہوں اور یہ منظرمیں اس وقت تک دیکھتا رہا جب تک آپ بیدار نہیں ہوگئے ۔ان تمام تر کیفیات کو دیکھنے کے بعد دل پکار اٹھتا ہے کہ ؎ سوئے ہیں یہ بظاہر د ل ان کا جاگتا ہے ” [تجلیّاتِ تاج الشریعہ /صفحہ :٣١٤]

ولی باکرامت :

حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا جہاں ایک عاشق صادق، باعمل عالم ،لاثانی فقیہ ، باکمال محدث ،لاجواب خطیب ،بے مثال ادیب ، کہنہ مشق شاعرہیں وہیں آپ باکرامت ولی بھی ہیں۔ کہا جاتا ہے استقامت سب سے بڑی کرامت ہے اور حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کی یہی کرامت سب سے بڑھ کر ہے ۔ ضمناًآپ کی چند کرامات پیش خدمت ہیں۔

مفتی عابد حسین قادری (جمشید پور، جھارکھنڈ )لکھتے ہیں:”٢٢/جون ٢٠٠٨ء محب محترم جناب قاری عبد الجلیل صاحب شعبہ قرأت مدرسہ فیض العلوم جمشید پور نے راقم الحروف سے فرمایا کہ، ٥/ سال قبل حضرت ازہری میاں قبلہ دار العلوم حنفیہ ضیا القرآن ،لکھنؤ کی دستار بندی کی ایک کانفرنس میں خطاب کے لئے مدعو تھے ۔ ان دنوں وہاں بارش نہیں ہو رہی تھی ،سخت قحط سالی کے ایام گزررہے تھے، لوگوں نے حضرت سے عرض کی کہ حضور بارش کے لئے دعا فرمادیں ۔ حضرت نے نماز ِ استسقاء پڑھی اور دعائیں کیں ابھی دعا کرہی رہے تھے کہ وہاں موسلادھار بارش ہونے لگی اور سارے لوگ بھیگ گئے ۔ ” [تجلیّاتِ تاج الشریعہ /صفحہ :٢٢٩]

ڈاکٹر غلام مصطفی نجم القادری (ممبئی) لکھتے ہیں :” میسور میں حضرت کے ایک مرید کی دکان کے بازو میں کسی متعصب مارواڑی کی دکان تھی ، وہ بہت کوشش کرتاتھا کہ دکان اس کے ہاتھ بیچ کر یہ مسلمان یہاں سے چلا جائے ، اپنی اس جدو جہد میں وہ انسانیت سوز حرکتیں بھی کرگزرتا ، اخلاقی حدوں کو پار کرجاتا، مجبور ہو کر حضرت کے اس مرید نے حضرت کو فون کیا ، حالات کی خبر دی ، معاملات سے مطلع کیا ،حضرت نے فرمایا:”میں یہاں تمہارے لئے دعا گو ہوں، تم وہاں ہر نماز کے بعد خصوصاً اورچلتے پھرتے ، اٹھتے بیٹھے سوتے جاگتے عموماً یاقادرکا ورد کرتے رہو۔”اس وظیفے کے ورد کو ابھی ١٥/دن ہی ہوا تھا کہ نہ معلوم اس مارواڑی کو کیا ہوا ، وہ جو بیچارے مسلمان کو دکان بیچنے پر مجبور کردیا تھااب خود اسی کے ہاتھ اپنی دکان بیچنے پر اچانک تیار ہوگیا ۔ مارواڑی نے دکان بیچی ،مسلمان نے دکان خریدی، جو شکار کرنے چلا تھا خود شکار ہو کر رہ گیا۔ آج وہ حضرت کا مرید باغ و بہار زندگی گزار رہا ہے ۔ ” [تجلیّاتِ تاج الشریعہ /صفحہ :١٧٥،١٧٦]

موصوف مزیدلکھتے ہیں:”ہبلی میں ایک صاحب نے کروڑوں روپے کے صرفے سے عالیشان محل تیار کیا ، مگر جب سکونت اختیار کی تو یہ غارت گرسکون تجربہ ہوا کہ رات میں پورے گھر میں تیز آندھی چلنے کی آواز آتی ہے ۔ گھبرا کر مجبوراً اپنا گھر چھوڑ کر پھر برانے گھر میں مکین ہونا پڑا۔ اس اثناء میں جس کو بھی بھاڑے (کرایہ )پر دیا سب نے وہ آواز سنی اور گھر خالی کردیا۔ ایک عرصے سے وہ مکان خالی پڑا تھا کہ ہبلی میں حضرت کا پروگرام طے ہوا ، صاحب مکان نے انتظامیہ کو اس بات پر راضی کرلیا کہ حضرت کا قیام میرے نئے کشادہ مکان میں رہے گا ، مہمان نوازی کی اوردیگر لوازمات کی بھی ذمہ داری اس نے قبول کرلی ، حضرت ہبلی تشریف لائے اور رات میں صرف چندہ گھنٹہ اس مکان میں قیام کیا ، عشاء اور فجر کی ٢/وقت کی نماز باجماعت ادا فرمائیں،اس مختصر قیام کی برکت یہ ہوئی کہ کہاں کی آندھی اورکہاں کا طوفان ، کہاں کی سنسناہٹ اور کہا ں کی گڑگڑاہٹ سب یکسر معدوم ، آج تک وہ مکان سکون و اطمینان کا گہوارہ ہے ۔ [تجلیّاتِ تاج الشریعہ /صفحہ :١٧٦]

تصانیف :

حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا اپنے جد امجد مجدد دین ملت سیدنا اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کے مظہر اتم اور پر تو کامل ہیں ۔ اعلیٰ حضرت کی تحریری خدمات اور طرز تحریر محتاج تعارف نہیں ہے۔ حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا میدان تحریر میں بھی اعلیٰ حضرت کا عکس جمیل نظر آتے ہیں۔ آپ کی تصانیف و تحقیقات مختلف علوم و فنون پر مشتمل ہیں۔تحقیقی انداز ،مضبوط طرزا ستدال ، کثرت حوالہ جات، سلاست وروانی آپ کی تحریر کو شاہکار بنا دیتی ہے۔ آپ اپنی تصانیف کی روشنی میں یگانہئ عصر اور فرید الدہر نظر آتے ہیں۔حضرت محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ اعظمی دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: ”تاج الشریعہ کے قلم سے نکلے ہوئے فتاویٰ کے مطالعہ سے ایسا لگتا ہے کہ ہم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا صکی تحریر پڑھ رہے ہیں، آپ کی تحریر میں دلائل اور حوالہ جات کی بھر مار سے یہی ظاہر ہوتا ہے ۔”[حیات تاج الشریعہ/صفحہ :٦٦]

حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا افتاء و قضا، کثیر تبلیغی اسفار اوردیگر بے تحاشہ مصرفیات کے باوجود تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔آپ کی تصانیف کی فہرست درج ذیل ہے۔

اردو

١۔۔۔۔۔۔ ہجرت رسول
٢۔۔۔۔۔۔ آثار قیامت
٣۔۔۔۔۔۔ ٹائی کا مسئلہ
٤۔۔۔۔۔۔ حضرت ابراہیم کے والد تارخ یا آزر
٥۔۔۔۔۔۔ ٹی وی اور ویڈیوکا آپریشن مع شرعی حکم
٦۔۔۔۔۔۔ شرح حدیث نیت
٧۔۔۔۔۔۔ سنو چپ رہو
٨۔۔۔۔۔۔ دفاع کنز الایمان (2جلد)
٩۔۔۔۔۔۔ الحق المبین
١٠۔۔۔۔۔۔ تین طلاقوں کا شرعی حکم
١١۔۔۔۔۔۔ کیا دین کی مہم پوری ہوچکی ؟
١٢۔۔۔۔۔۔ جشن عید میلاد النبی
١٣۔۔۔۔۔۔ سفینہ بخشش (نعتیہ دیوان )
١٤۔۔۔۔۔۔ فضیلت نسب
١٥۔۔۔۔۔۔ تصویر کا مسئلہ
١٦۔۔۔۔۔۔ اسمائے سورۃ فاتحہ کی وجہ تسمیہ
١٧۔۔۔۔۔۔ القول الفائق بحکم الاقتداء بالفاسق
١٨۔۔۔۔۔۔ سعودی مظالم کی کہانی اختر رضا کی زبانی
١٩۔۔۔۔۔۔ العطایاالرضویہ فی فتاویٰ الازہریہ المعروف ازہرالفتاویٰ (زیر ترتیب 5جلد)

عربی تصانیف

١۔۔۔۔۔۔ الحق المبین
٢۔۔۔۔۔۔ الصحابۃ نجوم الاھتداء
٣۔۔۔۔۔۔ شرح حدیث الاخلاص
٤۔۔۔۔۔۔ نبذۃ حیاۃ الامام احمد رضا
٥۔۔۔۔۔۔ سد المشارع
٦۔۔۔۔۔۔ حاشیہ عصیدۃ الشہدہ شرح القصیدۃ البردہ
٧۔۔۔۔۔۔ تعلیقاتِ زاہرہ علی صحیح البخاری
٨۔۔۔۔۔۔ تحقیق أن أباسیدنا إبراہیم ں (تارح)لا(آزر)
٩۔۔۔۔۔۔ مراۃ النجدیہ بجواب البریلویہ (2جلد)
۱۰۔۔۔۔۔۔ نهاية الزين في التخفيف عن أبي لهب يوم الإثنين
۱۱۔۔۔۔۔۔ الفردۃ فی شرح قصیدۃ البردۃ

تراجم

١۔۔۔۔۔۔ انوار المنان فی توحید القرآن
٢۔۔۔۔۔۔ المعتقد والمنتقد مع المعتمد المستمد
٣۔۔۔۔۔۔ الزلال النقیٰ من بحر سبقۃ الاتقی

تعاریب

١۔۔۔۔۔ ۔برکات الامداد لاہل استمداد
٢۔۔۔۔۔۔ فقہ شہنشاہ
٣۔۔۔۔۔۔ عطایا القدیر فی حکم التصویر
٤۔۔۔۔۔۔ اہلاک الوہابین علی توہین القبور المسلمین
٥۔۔۔۔۔۔ تیسیر الماعون لسکن فی الطاعون
٦۔۔۔۔۔۔ شمول الاسلام لاصول الرسول الکرام
٧۔۔۔۔۔۔ قوارع القھارفی الردالمجسمۃ الفجار
٨۔۔۔۔۔۔ الہاد الکاف فی حکم الضعاف
٩۔۔۔۔۔۔ الامن والعلی لناعیتی المصطفی بدافع البلاء
۱۰۔۔۔۔۔۔ سبحان السبوح عن عيب كذب المقبوح
۱۱۔۔۔۔۔۔ حاجز البحرين الواقي عن جمع الصلاتين

علاوہ ازیںچند مضامین مفتی اعظم ہند ،علم فن کے بحرذخاراوررویت ہلال کا ثبوت وغیرہ شامل ہیں ۔

کتنا مقام اعلیٰ اختر رضا کا ہے ۔ ۔ ۔ ولیوں میں نام اونچا اختر رضا کا ہے
رضوی چمن کے جیسے رنگیں گلاب کا سا ۔ ۔ ۔ ایسا حسین چہرہ اختر رضا کا ہے
عالم بھی کہہ رہے ہیں اب تو مقام والا ۔ ۔ ۔ سب سے بلند و بالا اختر رضا کا ہے
دل دشمنانِ دین کے لرزاں ہیں اس قدر ۔ ۔ ۔ اعداء پہ رعب ایسا اختر رضا کا ہے
میرے لئے نہیں ہے کچھ آفتاب محشر ۔ ۔ ۔ مجھ پر زمان سایہ اختر رضا کا ہے


عربی ادب :

حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علیناعربی ادب پر بھی کمال مہارت اور مکمل دسترس رکھتے ہیںآپ کی عربی تصانیف بالخصوص تعلیقاتِ زاہرہ (صحیح البخاری پرابتداء تا باب بنیان الکعبہ آپ کی گرانقدر تعلیقات) اور سیدنا اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کی جن کتب کی آپ نے تعریب فرمائی ہے ہمارے دعوے کی بین دلیل ہیں۔حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کی عربی زبان و ادب پر کامل عبور کا اندازہ سیدنا اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کے رسالہ” شمول الاسلام لاصول الرسول الکرم ”جس کی تعریب آپ نے فرمائی ہے اورآپ کے رسالہ ”أن أباسیدنا ابراہیم ں تارح لاآزر”پر علمائے عرب کی شاندار تقاریظ اور حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کو دیئے گئے القابات و خطابات سے کیا جاسکتاہے ۔

حضرت شیخ عبداللہ بن محمد بن حسن بن فدعق ہاشمی (مکہ مکرمہ) فرماتے ہیں: ”ترجمہ: یہ کتاب نہایت مفیدواہم مباحث اور مضامین عالیہ پر حاوی ہے ،طلبہ و علماء کو اس کی اشد ضرورت ہے ۔” آپ حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کو ان القاب سے ملقب کرتے ہیں: ”فضیلۃ الامام الشیخ محمد اختر رضا خاں الازہری، المفتی الاعظم فی الہند،سلمکم اللّٰہ وبارک فیکم”

ڈاکٹر شیخ عیسیٰ ابن عبداللہ بن محمد بن مانع حمیری(سابق ڈائریکٹر محکمہئ اوقاف وامور اسلامیہ،دبئی و پرنسپل امام مالک کالج برائے شریعت و قانون،دبئی) ڈھائی صفحات پر مشتمل اپنے تاثرات کے اظہار کے بعد فرماتے ہیں: ”الشیخ العارف باللّٰہ المحدث محمد اختر رضا الحنفی القادری الازہری”

حضرت شیخ موسیٰ عبدہ یوسف اسحاقی (مدرس فقہ و علوم شرعیہ،نسابۃ الاشراف الاسحاقیہ ،صومالیہ) محو تحریرہیں:”استاذالاکبرتاج الشریعہ فضیلۃ الشیخ محمد اختر رضا ، نفعنااللہ بعلومہ وبارک فیہ ولاعجب فی ذلک فانہ فی بیت بالعلم معرف وبالارشاد موصوف وفی ھذا الباب قادۃ اعلام”

حضرت شیخ واثق فواد العبیدی (مدیر ثانویۃ الشیخ عبدالقادرالجیلانی) اپنے تاثرات کا اظہار یو ں کرتے ہیں:”ترجمہ:حضرت تاج الشریعہ کی یہ تحقیق جو شیخ احمد شاکر محدث مصر کے رد میں ہے قرآن و سنت کے عین مطابق ہے آپ نے اس تحقیق میں جہد مسلسل اور جانفشانی سے کام لیاہے میں اس کے مصادر و مراجع کامراجعہ کیا تو تمام حوالہ جات قرآن وحدیث کے ادلہ عقلیہ و نقلیہ پر مشتمل پائے ، اور مشہور اعلام مثلاً امم سبکی ، امام سیوطی ، امام رازی اور امام آلوسی وغیرہ کے اقوال نقل کئے ہیں۔” اور آپ حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کا تذکر ہ ان الفاظ میں کرتے ہیں: ”شیخنا الجلیل ،صاحب الرد قاطع ، مرشدالسالیکن ، المحفوظ برعایۃ رب العالمین،العالم فاضل ،محمد اختر رضا خاں الحنفی القادری الازہری ،وجزاء خیر مایجازی عبد امین عبادہ”

حضرت مفتی اعظم عراق شیخ جمال عبدالکریم الدبان حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کو ان القابات سے یاد کرتے ہیں:”الامام العلامۃ القدوۃ ،صاحب الفضیلۃ الشیخ محمد اختر رضاالحنفی القادری ، ادامہ اللّٰہ وحفظہ ونفع المسلمین ببرکۃ”

علم حدیث:

حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا اس میدان کے بھی شہہ سوار ہیں۔ علم حدیث ایک وسیع میدان ، متعدد انواع ،کثرت علوم اور مختلف فنون سے عبارت ہے جو علم قواعدمصطلحات حدیث ،دراستہ الاسانید ، علم اسماء الرجال ، علم جرح و تعدیل وغیرہم علوم و فنون پر مشتمل ہے ۔ علم حدیث میں حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کی قدرت تامہ ، لیاقت عامہ،فقاہت کاملہ،عالمانہ شعور ،ناقدانہ بصیرت اور محققانہ شان وشوکت علم حدیث سے متعلق آپ کی تصانیف شرح حدیث الاخلاص (عربی ،اردو)،اصحابی کالنجوم فایھم اقتدیتم اہتدیتم (الصحابہ نجوم الاھتدائ)، تعلیقات زاہرہ ، آثار قیامت سے خصوصاً ودیگر کتب سے عموماً آشکار ہے ۔مولانا محمد حسن ازہری (جامعۃ الازہر ،مصر)رقم طراز ہیں:”اصحابی کالنجوم الخ کے تعلق سے حضورتاج الشریعہ مدظلہ، العالی نے جو تحقیقی مرقع پیش کیاہے اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اصول حدیث پر حضورتاج الشریعہ کو کس قدر ملکہ حاصل ہے ۔” [تجیلیّاتِ تاج الشریعہ /صفحہ٣٨٦]

ترجمہ نگاری :

ترجمہ نگاری انتہائی مشکل فن ہے ۔ترجمہ کا مطلب کسی بھی زبان کے مضمون کو اس انداز سے دوسری زبان میں منتقل کرنا ہے کہ قاری کو یہ احساس نہ ہونے پائے کہ عبارت بے ترتیب ہے یا اس میں پیوند کاری کی گئی ہے۔ کماحقہ، ترجمہ کرنا انتہائی مشکل امر ہے۔ اس میں ایک زبان کے معانی اور مطالب کودوسری زبان میں اس طرح منتقل کیا جاتاہے کہ اصل عبارت کی خوبی اور مطلب ومفہوم قاری تک صحیح سلامت پہنچ جائے۔یعنی اس بات کا پورا خیال رکھاجائے اصل عبارت کے نہ صرف پورے خیالات و مفاہیم بلکہ لہجہ و انداز ،چاشنی و مٹھاس ، جاذبیت و دلکشی ،سختی و درشتگی،بے کیفی و بے رنگی اسی احتیاط کے ساتھ آئے جو محرر کا منشا ء ہے اور پھر زبان و بیان کا میعار بھی نقل بمطابق اصل کامصداق ہو۔

علمی و ادبی ترجمے تو صرف دنیاوی اعتبار سے دیکھے جاتے ہیں لیکن دینی کتب خاص کر قرآن وحدیث کا ترجمہ انتہائی مشکل اور دقت طلب امرہے ۔یہاں صرف فن ترجمہ کی سختیاں ہی درپیش نہیںہوتیں بلکہ شرعی اعتبار سے بھی انتہائی خطرہ لاحق رہتاہے کہ کہیں اصل معنی میں تحریف نہ ہوجائے کہ سارا کیا دھرا برباد اور دنیا و آخرت میں سخت مؤاخذہ بھی ہو۔ اس کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جس کاا س سے واسطہ پڑ اہو۔

حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا جہاں دیگر علوم و فنون پر مکمل عبور اور کامل مہارت رکھتے ہیں وہیں ترجمہ نگاری کے میدان میں بھی آپ اپنی مثال آپ ہیں۔ حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کی ترجمہ نگاری سے متعلق نبیرہئ محدث اعظم ہند ،شیخ طریقت علامہ سیدمحمد جیلانی اشرف الاشرفی کچھوچھوی دامت برکاتہم العالیہکا یہ تبصرہ ملاحظہ فرمایں ۔ ”ارے پیارے! ”المعتقدو المنتقد” فاضل بدایونی نے اور اس پر حاشیہ ” المعتمد المستند ” فاضل بریلوی نے عربی زبان میں لکھا ہے اور جس مندرجہ بالا اقتباس کو ہم نے پڑھا اسے اہل سنت کی نئی نسل کے لئے تاج الشریعہ ،ملک الفقہاء حضرت العلام اختر رضا خاںازہری صاحب نے ان دونوں اکابر ین کے ادق مباحث کو آسان اور فہم سے قریب اسلوب سے مزین ایسا ترجمہ کیا کہ گویا خود ان کی تصنیف ہے ۔ ”المعتمد” کے ترجمہ میں اگر ایک طرف ثقاہت و صلابت ہے تو دوسری طرف دِقتِ نظر و ہمہ گیریت بھی ہے ۔ صحت و قوت کے ساتھ پختگی و مہارت بھی ہے ۔ ترجمہ مذکورہ علامہ ازہری میاں کی ارفع صلاحیتوں کا زندہ ثبوت ہے ۔ اللّٰھم زد فزد” [تجلیّاتِ تاج الشریعہ/صفحہ:٤٣]

وعظ و تقریر:

والد ماجد حضورتاج الشریعہ مفسر اعظم ہند علامہ مفتی ابراہیم رضا خاں جیلانی میاں رضی اللہ تعالی عنہ کو قدرت نے زورِ خطابت وبیان وافر مقدار میں عطا فرمایا تھا اور حضورتاج الشریعہ کو تقریروخطاب کا ملکہ اپنے والد ماجد سے ملا ہے ۔آپ کی تقریرانتہائی مؤثر، نہایت جامع ، پرمغز،دل پزیر،دلائل سے مزین ہوتی ہے۔ اردو تو ہے ہی آپ کی مادری زبان مگر عربی اور انگریزی میں بھی آپ کی مہارت اہل زبان کے لئے بھی باعث حیرت ہوتی ہے ۔ اس کا اندازہ حضرت محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ اعظمی دامت برکاتہم العالیہ کے اس بیان سے باآسانی کیا جاسکتا ہے ،آپ فرماتے ہیں:”اللہ تعالیٰ نے آپ کو کئی زبانوں پر ملکہ خاص عطا فرمایا ہے۔زبان اردو تو آپ کی گھریلو زبان ہے اورعربی آپ کی مذہبی زبان ہے ۔ ان دونوں زبانوں میں آپ کو خصوصی ملکہ حاصل ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عربی کے قدیم وجدید اسلوب پر آپ کو ملکہئ راسخ حاصل ہے ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے انگلینڈ ، امریکہ ،ساؤتھ افریقہ ،زمبابوے وغیرہ میں برجستہ انگریزی زبان میں تقریر ووعظ کرتے دیکھاہے اور وہاں کے تعلیم یافتہ لوگوں سے آپ کی تعریفیں بھی سنیں ہیں اور یہ بھی ان سے سنا کہ حضرت کو انگریزی زبان کے کلاسکی اسلوب پرعبور حاصل ہے ۔” [تجلیّاتِ تاج الشریعہ/صفحہ:٤٧]

مرے مرشد کا سچا جانشیں ، اختررضا خاں ہے ۔ ۔ ۔ کمال و فضل کا پیکر حسیں ، اختر رضا خاں ہے
رضا کے علم کا وارث ، رضا والوں کا تو قائد ۔ ۔ ۔ ترے آگے جھکی سب کی جبیں، اختررضا خاں ہے
لقب ” تاج شریعت ” کا دیا عالم کے علماء نے ۔ ۔ ۔ وقارِ علم کا مسند نشیں ، اختر رضا خاں ہے
ترا فتویٰ ، ترا تقویٰ ، جزاک اللہ ، جزاک اللہ ۔ ۔ ۔ برائے حق ، برائے نکتہ چیں ، اختر رضا خاں ہے


شاعری :

بنیادی طور پر نعت گوئی کا محرک عشق رسول ہے اور شاعر کا عشق رسول جس عمق یاپائے کا ہوگا اس کی نعت بھی اتنی ہی پر اثر و پرسوز ہو گی۔سیدنا اعلیٰ حضرت صکے عشق رسول نے ان کی شاعری کو جو امتیاز و انفرادیت بخشی اردو شاعری اس کی مثال لانے سے قاصرہے ۔ آپ کی نعتیہ شاعر ی کا اعتراف اس سے بڑھ اور کیا ہوگا کے آج آپ دنیا بھر میں ”امام نعت گویاں ”کے لقب سے پہچانے جاتے ہیں۔

امام احمد رضاصکی اس طرز لاجواب کی جھلک آپ کے خلفاء و متعلقین اور خاندان کے شعراء کی شاعری میں نظر آتی ہے ۔حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کو خاندان اور خصوصاً اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ سے جہاں اور بے شمار کمالات ورثہ میںملے ہیں وہیں موزونیئ طبع، خوش کلامی ، شعر گوئی اور شاعرانہ ذوق بھی ورثہ میں ملا ہے ۔آپ کی نعتیہ شاعری سیدنا اعلیٰ حضرتص کے کلام کی گہرائی و گیرائی ، استادِ زمن کی رنگینی و روانی ، حجۃ الاسلام کی فصاحت وبلاغت ، مفتی اعظم کی سادگی و خلوص کا عکس جمیل نظر آتی ہے ۔ آپ کی شاعری معنویت ، پیکر تراشی ، سرشاری و شیفتگی ، فصاحت و بلاغت ، حلاوت و ملاحت، جذب وکیف اورسوز وگدازکا نادر نمونہ ہے۔ علامہ عبد النعیم عزیزی رقم طراز ہیں:”حضرت علامہ اختر رضا خاں صاحب اختر کے ایک ایک شعر کو پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتاہے کہ حسن معنی حسن عقیدت میں ضم ہوکر سرمدی نغموں میں ڈھل گیا ہے ۔ زبان کی سلاست اور روانی ،فصاحت و بلاغت ،حسن کلام، طرز ادا کا بانکپن،تشبیہات و استعارات اور صنائع لفظی و معنوی سب کچھ ہے گویا حسن ہی حسن ہے ،بہار ہی بہار ہے اور ہر نغمہ وجہ سکون و قرار ہے ۔ [نغمات اختر المعروف سفینہئ بخشش/صفحہ:٤]

حضرت علامہ بدر الدین احمد قادری ، سیدنا اعلیٰ حضرت کی شاعری سے متعلق تحریرفرماتے ہیں:”آپ عام ارباب سخن کی طرح صبح سے شام تک اشعار کی تیاری میں مصروف نہیں رہتے تھے بلکہ جب پیارے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد تڑپاتی اور دردِ عشق آپ کو بے تاب کرتا تو از خود زبان پر نعتیہ اشعار جاری ہوجاتے اور یہی اشعار آپ کی سوزش عشق کی تسکین کا سامان بن جاتے ۔” [سوانح اعلیٰ حضرت / صفحہ:٣٨٥]

بعینہ یہی حال حضور تا ج الشریعہ کا ہے ، جب یاد مصطفی ادل کو بے چین کردیتی ہے توبے قراری کے اظہار کی صورت نعت ہوتی ہے ۔آپ نے اپنی شاعری میں جہاں شرعی حدود کا لحاظ رکھا ہے وہیں فنی و عروضی نزاکتوںکی محافظت میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ ہونے دیا اور ادب کو خوب برتا، استعمال کیا ، سجایا،نبھایاتاکہ جب یہ کلام تنقید نگاروں کی چمکتی میز پر قدم رنجہ ہو توانہیں یہ سوچنے پر مجبور کردے کہ فکر کی یہ جولانی ،خیال کی یہ بلند پرواز ،تعبیر کی یہ ندرت،عشق کی یہ حلاوت واقعی ایک کہنہ مشق اور قادر الکلام شاعر کی عظیم صلاحیتوںکی مظہر ہے۔فن شاعری،زبان و بیان اورادب سے واقفیت رکھنے والاہی یہ اندازہ کرسکتاہے کہ حضرت اختر بریلوی کے کلام میںکن کن نکات کی جلوہ سامانیاں ہیں، کیسے کیسے حقائق پوشیدہ ہیں، کلمات کی کتنی رعنائیاںپنہاں ہیں اور خیالات میں کیسی وسعت ہے؟

آپ کا کلام اگرچہ تعداد میں زیادہ نہیں ہے لیکن آپ کے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مظہر، شرعی قوانین کی پاسداری کی شاندار مثال ہے ،آپ کے اسلاف کی عظیم وراثتوں کابہترین نمونہ اور اردو شاعری خصوصاً صنف نعت میں گرانقدر اضافہ بھی ہے

آپ کو نئے لب ولہجہ اور فی البدیہہ اشعار کہنے میں زبردست ملکہ حاصل ہے۔ اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے جسے خلیفہ مفتی اعظم ہند حضرت مولانا قاری امانت رسول قادری رضوی صاحب مرتب ”سامانِ بخشش” ( نعتیہ دیوان سرکار مفتئ اعظم ہند) نے مفتئ اعظم ہند کی مشہور نعت شریف

تو شمع رسالت ہے عالم تیرا پروانہ
تو ماہ نبوت ہے اے جلوہ جانانہ

سے متعلق حاشیہ میں لکھتے ہیں :”مولوی عبد الحمید رضوی افریقی یہ نعت پاک حضور مفتئ اعظم ہند قبلہ قدس سرہ، کی مجلس میں پڑھ رہے تھے، جب یہ مقطع

آباد اسے فرما ویراں ہے دل نوری
جلوے تیرے بس جائیں آباد ہو ویرانہ

پڑھا تو حضرت قبلہ نے فرمایا ،بحمدہ تعالیٰ فقیر کا دل تو روشن ہے اب اس کو یوں پڑھو۔۔۔۔۔۔ع

آباد اسے فرما ویراں ہے دل نجدی

جانشین مفتی اعظم ہند مفتی شاہ اختر رضا خاں صاحب قبلہ نے برجستہ عرض کیا، مقطع کو اس طرح پڑھ لیا جائے

سرکار کے جلوؤں سے روشن ہے دل نوری
تا حشر رہے روشن نوری کا یہ کاشانہ

حضرت قبلہ (سرکار مفتئ اعظم ہند )پسند فرمایا۔” [سامانِ بخشش/صفحہ:١٥٤]

حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا اور علمائے عرب:

سیدنااعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کو جو عزت و تکریم اور القاب وخطابات علمائے عرب نے دیئے ہیںشاید ہی کسی دوسرے عجمی عالم دین کو ملے ہوں۔ بعینہ پرتو اعلیٰ حضرت ،حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کاجو اعزاز و اکرام علمائے عرب نے کیا شاید ہی فی زمانہ کسی کو نصیب ہوا ہو۔ اس کے چند نمونے” علم حدیث” کے عنوان کے تحت گزرے ہیں بعض یہاں ملاحظہ فرمائیں۔

مئی ٢٠٠٩ء میںحضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کے دورہئ مصر کے موقع پرکعبۃ العلم والعلماء جامعۃ الاہر قاہر ہ مصر میں آپ کے اعزاز میں عظیم الشان کانفرنس منعقد کی گئی ۔ جس میں جامعہ کے جید اساتذہ اور دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے طلباء نے شرکت کی ۔ اس کانفرنس کی انفرادیت یہ تھی کہ برصغیر کے کسی عالم دین کے اعزاز میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی کانفرنس تھی۔

اسی دورہ مصر کے موقع پر جامعۃ الازہر کی جانب سے آپ کو جامعہ کا اعلیٰ ترین اعزاز ”شکر و تقدیر(فخر ازہر ایوارڈ)” بھی دیا گیا۔

جید علمائے مصر خصوصاً شیخ یسریٰ رشدی (مدرس بخاری شریف ،جامعۃ الازہر) نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت بھی کی اور اجازت حدیث و سلاسل بھی طلب کیں۔

حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کے رسائل اصحابی کالنجوم فبایھم اقتدیتم اہتدیتماورأن أباسیدنا ابراہیم ں تارح لاآزرکے مطالعہ کے بعد جامعۃ الازہر ، قاہرہ مصر کے شیخ الجامعہ علامہ سید محمد طنطاوی نے اپنے سابقہ موقف سے رجوع کیا اور حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کے موقف کو قبول فرمایا ۔قبل ازیں آپ کا موقف اس کے برعکس تھا آپ مذکورہ حدیث کو موضوع خیال کرتے اور”آزر” جو ابراہیم ں کا چچا اور مشرک تھا کو آپ ںکا والد قرار دیتے تھے ۔[بحوالہ:سہہ ماہی سفینہئ بخشش/ربیع الثانی تا جمادی الثانی١٤٣٠ھ /صفحہ ٣٤]

یاد رہے یہ حضورتا ج الشریعہ کا جامعۃ الازہر سے سند فراغت کے حصول کے بعد پہلا دورہ تھا ۔ درمیان کے ٤٣/سالوں میں کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں ہوا۔

٢٠٠٨ء اور٢٠٠٩ء میں شام کے دوروں کے موقع پر مفتئ دمشق شیخ عبدالفتاح البزم ،اعلم علمائے شام شیخ عبدالرزاق حلبی ،قاضی القضاۃ حمص (شام)اور حمص کی جامع مسجد ”جامع سیدنا خالد بن ولید”کے امام و خطیب شیخ سعید الکحیل،مشہور شامی بزرگ عالم دین شیخ ہشام الدین البرہانی،جلیل القدر عالم دین شیخ عبدالہادی الخرسہ ،خطیب دمشق شیخ السید عبد العزیز الخطیب الحسنی ،رکن مجلس الشعب (قومی اسمبلی) و مدیر شعبہ تخصص جامعہ ابو النوردکتور عبدالسلام راجع، مشہور شامی عالم و محقق شیخ عبدالہادی الشنار، مشہور حنفی عالم اور محشی کتب کثیرہ شیخ عبدالجلیل عطاء ودیگر کئی علماء نے سلاسل طریقت و سند حدیث طلب کی اور کئی ایک آپ سے بیعت بھی ہوئے ۔

٢٠٠٨ء میں آپ نے شام کے علماء کے سامنے جب اپنا مشہورزمانہ عربی قصیدہ اللّٰہ ، اللّٰہ ،اللّٰہ ہومالی رب الا ہو پڑھا۔ جب آپ نے مقطع ہذا اخترادنا کم؛ ربی أحسن مثواہ، پڑھاتو خطیب دمشق الدکتور عبد العزیز الخطیب الحسنی نے برجستہ یہ الفاظ کہے :”أختر سیدنا وابن سیدنا”

مفتئ دمشق عبدالفتاح البزم نے ٢٠٠٩ء میں حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا دورہئ شام کے موقع پراپنی ایک تقریر میںاپنے بریلی شریف کے سفر کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ”جب میں آپ (حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا ) سے محبت کرنے والوں کو دیکھا تو مجھے صحابہ کی محبت کی یاد تازہ ہوگئی کہ ایمان یہ کہتاہے کہ اپنے اساتذہ اور مشائخ کی اسی طرح قدر کرنی چاہئے ۔”

مولانا کلیم القادری رضوی (بولٹن ،انگلینڈ) ٢٠٠٨ء کے دورہ شام کی روئیداد میں لکھتے ہیں:”اسی دن فخر سادات ،صاحب القاب کثیرہ ، عظیم روحانی شخصیت سیدنا موسیٰ الکاظم رضی اللہ تعالی عنہ کے شہزادے الشیخ الصباح تشریف لائے ۔آپ نے فرمایاکہ چند روز قبل میں اس علاقے کے قریب سے گزرا تو مجھے یہاں انوار نظر آئے میں سمجھ گیا کہ یہاں کوئی ولی اللہ مقیم ہیں، معلومات کرنے پر پتہ چلا کہ حضرت تشریف لائے ہوئے ہیںتو ملاقات کے لئے حاضر ہوا۔ ” [تجلیّاتِ تاج الشریعہ /صفحہ :٥٦٦،٥٦٧]

اللہ والوں کی باتیں قلم و قرطاس کی قید سے ماورا ہیں ۔ولی کامل حضورتاج الشریعہ کے ذات بھی وہ آئینہ ہے جس کے بے شمار زاویے ہیں اور ہر زاویہ ہزار جہتوں پر مشتمل ہے ۔جن کا تذکرہ نہ میرے بس کی بات ہے نہ ہی اس مختصر سے کتابچے میں ممکن ہے ۔میں برادر طریقت مولانا منصور فریدی رضوی کے ان الفاظ پر مضمون کا اختتام کرتا ہوں کہ : ”مصدر علم وحکمت ،پیکر جام الفت،سراج بزم طریقت،وارث علم مصطفیا،مظہر علم رضا، میر بزم اصفیا،صاحب زہد وتقویٰ ،عاشق شاہ ہدیٰ ا،غلام خیر الوریٰ ا،حامل علم نبویہ ، سیدی آقائی ،حضورتاج الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی الحاج الشاہ اختررضاخاں ازہری مدظلہ، النورانی اس عظیم شخصیت کا نام ہے جن کی زندگی کے کسی ایک گوشہ پر اگر سیر حاصل گفتگو کی جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہزاروں صفحات کی ضرورت ہے ۔” [تجلیّات ِتاج الشریعہ /صفحہ:٣١١]

یا خدا چرخ اسلام پر تا ابد ۔ ۔ ۔ میراتاج شریعت سلامت رہے

یا کوکب من بھاء الدین ذاألق ۔۔۔ ومنھا من دقیق العلم متسق
اقدام فولک في التحقیق مصدرہ ۔۔۔ اھل التمکن في النبراس کالشفق
ولادته ونسبه:

ولد قاضي قضاة الهند الشيخ الإمام تاج الشريعة محمد أختر رضا خان الحنفي القادري الأزهري يوم الاثنين السادس والعشرين (26) من شهر محرم لعام (1362هـ) الموافق (2) من شهر فبراير لعام 1943م بمدينة بريلي في شمال الهند.

ولد سيدي الشيخ حفظه الله في بيت عامر بالعلم والعلماء المعروفين في القارة الهندية منذ أكثر من مائتي عام، حيث إنه ابن حفيد الشيخ الإمام الهمام، وحيد الزمان، فريد الأوان، المجدد لأوائل القرن الرابع عشر الهجري، سيدي أحمد رضا خان الحنفي البريلوي، فنسبه إليه يصل عن طريق والديه، فهو ابن الشيخ المفسر الأعظم بالهند مولانا إبراهيم رضا (المكنى جيلاني ميان) ابن حجة الإسلام الشيخ محمد حامد رضا ابن الشيخ أحمد رضا الحنفي البريلوي، ومن جهة والدته… فإن جده من والدته هو المفتي الأعظم بالهند الشيخ محمد مصطفى رضا خان القادري الحنفي البركاتي، ابن الشيخ أحمد رضا خان الحنفي البريلوي.

نشأته وتعلمه العلوم وأساتذته:

أخذ الشيخ حفظه الله الدروس الأولية والعلوم الابتدائية العقلية والدينية عن العلماء الأكابر المعروفين في وقته، وعن والده وجده من والدته الشيخ محمد مصطفى رضا، وحصل على شهادة خريج العلوم الدينية من دار العلوم منظر الإسلام بمسقط رأسه مدينة بريلي، ثم أكمل أدامه الله تعليمه في جامعة الأزهر الشريف بالقاهرة في الفترة ما بين (1963م) إلى (1966م) درس فيها العلوم المتداولة من التفسير، الحديث، اللغة العربية، والفلسفة الإسلامية وغيره من العلوم وتخصص في الحديث وتخرج من كلية أصول الدين بارعا في الأحاديث وعلومها ومتضلعا بها.

حياته العملية والعلمية:

بعد عودة الشيخ حفظه الله من القاهرة إلى الهند، انخرط في التدريس بدار العلوم منظر الإسلام وأسس بعد فترة دار الإفتاء بعد أخذ الإجازة من مرشده و معلمه المفتي الأعظم بالهند الشيخ محمد مصطفى رضا خان المتوفى سنة (1402هـ)، وترك التدريس بدار العلوم منظر الإسلام.

وقد استخلف المفتي الأعظم بالهند الشيخ محمد مصطفى رضا خان قبل وفاته، الشيخ محمد أختر رضا خليفةً في حياته، وقد برع الشيخ في الإفتاء وحلِّ المسائل المعقدة المتعلقة بالفقه، ولا غرو في ذلك لتعلم الشيخ حفظه الله الطريقة على يد أستاذه عن جده الشيخ أحمد رضا.

إن سماحة الشيخ كثير السفر لنشر الدين والتوعية الفكرية والعقَدية، وله تلامذة ومحبون منتشرون ليس في الهند فحسب بل في سائر المعمورة، ويعتبر سماحته المربي لهم، وهم ينهلون من علمه ومكانته الروحانية، وقد أُعطي الشيخ لقب تاج الشريعة من قِبلِ كبار العلماء.

وللشيخ ميل كبير لكتابته الشعر والمدائح وإلقائها في المحافل والمناسبات، وقد تم نشر ديوانه المسمى: “نغمات أختر” ولاحقًا ديوانه باسم: “سفينة بخشش” بمعنى (سفينة العفو) عام (1986م)، وتم إصدار طبعة جديدة ومنقحة في أوائل سنة (2006م)، والديوان يشتمل على مدائح الشيخ باللغتين العربية والأردية، كما توجد مدائح وقصائد للشيخ لم تنشر بعد.

وللشيخ عدة تصانيف ورسائل باللغتين الأردية والعربية، وجاري ترجمة بعضها إلى اللغتين العربية والإنجليزية، من هذه المصنفات:

(1) الدفاع عن كنز الإيمان- في جزئين.
(2) حكم التصوير
(3) حكم عمليات التلفزيون والفيديو
(4) الحق المبين
(5) الهاد الكاف في حكم الضعاف – تعريب
(6) شمول الإسلام لأصول الرسول الكرام – تعريب
(7) تحقيق أن أبا إبراهيم تارح لا آزر
(8) أزهر الفتاوى خمس مجلدات
(9) أزهر الفتاوى باللغة الإنجليزية
(10) حاشية على صحيح البخاري
(11) صيانة القبور
(12) مرآة النجدية
(13) الأمن والعلى لناعتي المصطفى بدافع البلاء – تعريب
(14) قوارع القهار على المجسمة الفجار – تعريب
(15) سد المشارع على من يقول أن الدين يستغني عن الشارع
(16) الصحابة نجوم الإهتداء
(17) نهاية الزين في تخفيف عن أبي لهب يوم الإثنين
(18) سبحان السبوح عن عيب كذب المقبوح – تعريب
(19) حاجز البحرين الواقي عن جمع الصلاتين – تعريب
(20) الفردة في شرح قصيدة البردة للبوصيري

إن دار الإفتاء القائم بمدينة بريلي والذي يديره الشيخ بنفسه، لا يعتبر دار إفتاء لمنطقته الجغرافية فقط، وإنما ساهم في تقديم الفتاوى إلى سائر العالم على طريقة أهل السنة والجماعة، وقد بلغ عدد فتاوى الدار ما يزيد على خمسة آلاف فتوى.

إن الشيخ العلامة أدام الله بركاته ليس بارعا في اللغتين العربية والأردية فحسب. بل إن له ملكة عظيمة في اللغة الإنجليزية، وقد قام سماحته بالإفتاء والإملاء باللغة الإنجليزية، وصدر كتاب فيها.

نسأل الله العلي القدير أن يديم الصحة والعافية لشيخنا العلامة محمد أختر رضا، ويلبسه حلل التقوى واتباع السنة النبوية الشريفة، وأن يطيل الله في عمره، وأن يبقيه ذخرا للإسلام والمسلمين، منصورًا على أعدائه ويحفظه منهم، وأن ينفعنا بعلومه وأنواره في الدارين. اللّهم آمين.

وصلى الله على سيدنا ومولانا محمد، وعلى آله وآبائه الطيبين، وزوجاته أمهات المؤمنين، وأصحابه الكرام والتابعين لهم إلى يوم الدين.

 

ولو تباھی رسول اللہ افي أحد ۔۔۔ مثل طلعتکم یا فاتح العبق
محمد أختر جاء الرضا به ۔۔۔ فمر حبافي منبع الحصن الدرق

ولادت باسعادت:

حضرت محدث اعظم پاکستان مولانا ابو الفضل محمد سردار احمد قدس سرہ ١٣٢٣ھ /١٩٠٥ء کو موضع دیال گڑھ ضلع گورداسپور (مشرقی پنجاب ، انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ دیال گڑھ ضلع گورداسپور کا مشہور قصبہ ہے جو بٹالہ سے چار میل کے فاصلے پر ہے۔

اسم گرامی:

والدین نے آپ کا نام (باقی بھائیوں کے ناموں کی مناسبت سے) سردار محمد رکھا۔ لیکن جب آپ علم دین کے حصول کیلئے بریلی شریف تشریف لے گئے تو وہاں کے اکابر اساتذہ ، احباب اور ہم درس طلبہ آپ کو سردار احمد کے نام سے یاد کرتے تھے ۔ اس صورت حال میں آپ نے والدین کا تجویز کردہ نام بھی ترک نہ فرمایا اور اساتذہ کرام کا عطا کردہ نام بھی استعمال میں رکھا ۔ یوں آپ اپنا نام محمد سردار احمد تحریر فرمایا کرتے تھے۔

کنیت:

مناظرہ بریلی (١٣٥٤ھ /١٩٣٥ء) میں دیو بندیوں کے منظور نظر مناظر مولوی منظور سنبھلی کے مقابلہ میں عدیم المثال کامیابی پر آپ کی کنیت ابو المنظور مشہور ہوگئی۔ بعد میں صاحبزادہ محمد فضل رسول صاحب کی ولادت پر ابو الفضل ہوئی اور بمقتضائے ” الاَسْمَاءُ تَتَنَزَّلُ مِنَ السَّمَائِ” اس عظیم المرتبت صاحب علم و فضل کے لئے یہی کنیت موزوں بھی تھی۔

نائبِ دینِ نبی سردار احمد تیرا نام
یعنی تو فضل خدا سے قوم کا سردار ہے

خاندان:

آپ کا تعلق سیہول جٹ خاندان سے ہے ۔ شرافت ، دیانت ، پاکبازی اور مہمان نوازی میں یہ خاندان علاقہ بھر میں شہرت رکھتا تھا۔ پوراخاندان مشائخ کرام کامرید اور عقیدت مند تھا ۔ حضور غوث پاک رضی اﷲ عنہ سے کمال درجہ کی محبت رکھتا تھا۔

والدین کریمین:

آپ کے والد ماجدکا اسم گرامی چوہدری میراں بخش چشتی تھا ۔ ان کا پیشہ کاشت کاری تھا ۔ زمین گاؤں کے قریب ہی تھی۔ تقریباً پچاس بیگھہ مزروعہ زمین کے مالک تھے۔ اس میں نصف زمین چاہی اور اتنی ہی بارانی تھی۔ زمین زرخیر ہونے کی وجہ سے نہایت عمدہ فصل اور اعلیٰ قسم کا کماد پیدا ہوتا تھا۔

چوہدری میراں بخش چشتی دیہاتی ماحول کی برائیوں سے الگ تھلگ رہتے ۔ کسی کی غیبت نہ کرتے ۔ کسی کے نقصان میں راضی نہ ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی دشمنی کسی سے پیدا نہ ہوئی۔ یونہی حضرت محدث اعظم پاکستان کی والدہ محترمہ نہایت پاک سیرت عفیفہ تھیں۔ پابند صوم و صلوٰۃ اور حضور غوث پاک رضی اﷲ عنہ کی فدائی و شیدائی تھیں۔

چوہدری میراں بخش چشتی رحمۃ اﷲ علیہ کا وصال محرم الحرام ١٣٣٧ھ/ ١٤ اکتوبر ١٩١٨ء کو ہوا۔ جبکہ والدہ محترمہ دو برس قبل انتقال فرما چکی تھیں۔

پیرو مرشد جیسا ہو جاؤں:

شریعت و طریقت سے محبت کی بناء پر آپ نے اسکول کی تعلیم کے دوران ہی سراج العارفین حضرت شاہ سراج الحق چشتی قدس سرہ کے دستِ اقدس پر بیعت کرلی ۔ یہ بیعت مروجہ رسمی بیعت نہ تھی بلکہ حقیقی بیعت تھی ۔ شیخ طریقت سے عقیدت ایسی پختہ تھی کہ اکثر و بیشتر اس تمنا کا شدت سے اظہار فرمایا کرتے تھے کہ :

“میرا دل چاہتا ہے کہ میں پیر و مرشد صوفی سراج الحق صاحب جیسا ہوجاؤں۔”

تحصیل علم

قرآن پاک ناظرہ پڑھنے کے بعد حضرت محدث اعظم پاکستان کو اس دور کے رواج کے مطابق پرائمری اسکول میں داخل کرادیا گیا ۔ یہا ں پر آپ نے مولانا ذوالفقار علی قریشی سے ابتدائی تعلیم حاصل کی جو پرائمری اسکول میں صدر مدرس ہونے کے ساتھ گاؤں کی مسجد کے امام و خطیب بھی تھے۔قرائن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے قرآن مجید ناظرہ بھی مولانا قریشی سے پڑھا تھا۔ مولانا موصوف حضرت شیخ الحدیث پر خصوصی توجہ فرماتے اور پیشانی میں سعادت ِازلی کے نمایاں آثار دیکھ کراکثر بزبانِ پنجابی فرماتے :

“اوئے جٹّا! توں تے وڈا نامور مولوی عمل والا ہو ویں دا۔”

میٹرک کا سالانہ امتحان جو اُن دنوں پنجاب یونیورسٹی لیا کرتی تھی فرسٹ ڈویژن میں پاس کرنے کے بعد آپ نے پٹواری کا امتحان دینے کا ارادہ فرمایا وجہ یہ تھی کہ آپ کے شیخِ طریقت حضرت شاہ سراج الحق چشتی علیہ الرحمۃ نے بھی پٹوار ی کا امتحان پاس کر رکھا تھا۔ لہٰذا ان کی پیروی میں آپ نے بھی پٹوار ی کا امتحان پاس کیا لیکن ملازمت نہ فرمائی۔پولیس کی ملازمت کی بھی پیشکش ہوئی لیکن آپ نے انکار فرمادیا۔

دینی تعلیم کا آغاز:

ایف ۔اے کا امتحان دینے کیلئے آپ لاہور تشریف لائے اور یہاں امتحان کی تیاری میں مصروف ہوگئے۔ انہی دنوں انجمن حزب الاحناف کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا۔ دین سے فطری محبت و عقیدت آپ کو کشاں کشاں اس اجلاس میں لے گئی۔ یا یوں کہئیے کہ “فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنابندی” کے مصداق قدرت کو اب یہی منظور تھا کہ آپ کو اس عظیم کام کی جانب متوجہ کیا جائے جس کی خاطر آپ کو پیدا کیا گیا۔

دورانِ اجلاس حضرت صدرالافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی نے تقریر کرتے ہوئے شہزادہ اعلیٰ حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان کی بریلی سے تشریف آوری کا اعلان نہایت شاندار الفاظ میں یوں فرمایا:

“اعلیٰ حضرت ،عظیم البرکت ، مجدد مائۃ حاضرہ ،مؤید ملت طاہرہ ، صاحب الدلائل القاہرہ ، ذی التصانیف الباہرہ، امام اہلسنت مولانا الشاہ احمد رضاخان صاحب بریلوی قدس سرہ کے شہزادے حامی سنت، ماحی بدعت، رہبر شریعت، فیض درجت، مفتی انام ، مرجع الخواص والعوام ،حجۃ الاسلام مولانا الشاہ حامد رضا خان صاحب تشریف لارہے ہیں۔”

حضرت شیخ الحدیث نے سوچا کہ جب اعلان کرنے والا خود اس درجہ عظیم الشان عالم ہے تو جس کی آمد کا اعلان کیا جارہا ہے وہ کس پائے کا عالم ہوگا لہٰذا آنے والے کی عظمت و شان کا تصور رکے آپ زیارت کے مشتاق ہوگئے۔ آخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور حضرت حجۃ الاسلام جو حسن باطنی کے ساتھ حسن ظاہری سے بھی مالامال تھے جلسہ گاہ میں رونق افروز ہوئے۔ مشتاقانِ دید پروانوں کی طرح آپ کے جمال ِ پاک پر نثار ہورہے تھے۔ اس ہجوم میں حضرت شیخ الحدیث بھی تجلیات ِ دیدار سے اپنے قلب و ذہن کو منور کررہے تھے ۔ اس زیارت کا فوری اثر یہ ظاہر ہوا کہ آپ نے ایف ۔ اے پاس کرنے کا ارادہ ترک کر کے حصول علم دین اور تبلیغ اسلام کا پختہ عزم کرلیا اور اس عظیم مقصد کو حاصل کرنے کے لئے حضرت حجۃ الاسلام کے ہمراہ بریلی جانے کا ارادہ فرمالیا۔ لیکن ابھی حضرت سے اجازت لینے کا مرحلہ باقی تھا لہٰذا دھڑکتے دل کے ساتھ حضرت حجۃ الاسلام کی قیام گاہ آستانہ عالیہ حضرت شاہ محمد غوث علیہ الرحمۃ حاضر ہوئے ۔

عرض مدّعا:

آپ نے حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں کی خدمت میں اپنی کیفیت اور قلبی انقلاب کا ذکر کر کے بریلی ساتھ جانے اور علم دین حاصل کرنے کی تمنا کا اظہار کیا حضرت حجۃ الاسلام پہلی نظر میں ہی کشتہ تیر نظر کو پہچان گئے اور پیشانی پر چمکتے ہوئے سعادت ِ ازلی کے آثار دیکھ کر بھانپ گئے کہ یہ نوجوان ملت اسلامیہ کے ماتھے کا جھومر اور اہلسنت کا عظیم رہبر ہوگا۔ لہٰذا بکمالِ شفقت حضرت شیخ الحدیث کی درخواست کو شرف ِ قبولیت عطا فرمایا اور دو دن مزید قیام کے بعد آپ کو اپنے ساتھ بریلی شریف لے گئے۔

مرکز علم و عرفاں بریلی میں:

بریلی پہنچ کر آپ نے دارالعلوم منظر اسلام میں تعلیم شروع فرمائی۔ دارالعلوم کے دیگر طلبہ کا قیام شہر کی مساجد میں ہوتا تھا لیکن نو وارد طالب علم محمد سردار احمد کو حضرت حجۃ الاسلام نے خاص اپنے آستانے پر ٹھہرایا۔ حضرت شیخ الحدیث کے قیام، طعام اور دیگر تمام اخراجات کا ذمہ بھی آپ نے لے لیا۔ جس قسم کا لباس اپنے صاحبزادوں کیلئے بنواتے اسی قسم کا لباس آپ کے لئے بھی سلواتے ۔ یہاں تک کہ لباس کے رنگ میں بھی یکسانیت اختیار فرماتے۔

جب دیکھتا، پڑھتے دیکھتا:

حضرت مفتیئ اعظم فرماتے ہیں :”میں جب ان (حضرت شیخ الحدیث) کو دیکھتا، پڑھتے دیکھتا۔ مدرسہ میں ، قیام گاہ پر، حتّٰی کہ جب مسجد میں آتے تو بھی کتاب ہاتھ میں ہوتی ۔اگر جماعت میں تاخیر ہوتی تو بجائے دیگر اذکار و اوراد کے مطالعہ میں مصروف ہوجاتے ۔ ان کے اس والہانہ ذوق ِ تحصیل علم سے میں بہت متاثر ہوا ۔
میرے پاس دوسرے پنجابی طالب علم مولوی نذیر احمد سلمہ پڑھتے تھے ان سے دریافت کرنے پر انہوں نے ان کی ساری سرگزشت سنائی پھر ان کے ذریعے وہ میرے پاس آنے جانے لگے ان کے باصرار درخواست کرنے اور مولوی نذیر احمدکی سفارش پر میں نے انہیں منیہ ، قدوری، کنز اور شرح جامی تک پڑھایا۔”

بریلی سے اجمیر:

یہ وہ زمانہ تھا کہ حضرت صدرالشریعہ مولانا محمد امجد علی اعظمی دارالعلوم معینیہ عثمانیہ اجمیر شریف میں صدرالمدرسین تھے۔ اور حضرت کی بے مثال تدریس کا ڈنکا پوری دنیا میں بج رہاتھا۔ حضرت شیخ الحدیث کو اﷲ تعالیٰ نے جس عظیم الشان خدمت دین کیلئے پیدا فرمایا تھا اس کیلئے حضرت صدرالشریعہ جیسے بحر العلوم مربی کی ضرورت تھی۔ چنانچہ جب خود خانوادہئ رضویت کے بعض افراد مثلاً مولانا محمد ادریس رضاخاں اجمیر مقدس بغرض تعلیم جانے لگے تو آپ بھی ہر دو صاحبزادگانِ اعلیٰ حضرت سے اجازت لیکر حضرت صدرالشریعہ کی خدمت میں اجمیر مقدس حاضر ہوگئے۔ سلطان الہند خواجہئ اجمیر قدس سرہ کی بارگاہ عرش پناہ میں علم و فضل کے قطب اوحد( حضرت صدرالشریعہ) سے انہیں کیا ملا؟ اس بارے میں حضور مفتیئ اعظم مولانا مصطفی رضا خاں قدس سرہ کی شہادت کافی ہے۔ فرماتے ہیں:

“پھر تو بحر العلوم کے پاس گئے اور خود بھی بحر العلوم ہوگئے۔”

تدریس

حضرت محدث اعظم پاکستان مولانا ابو الفضل محمد سردار احمد قدس سرہ بے مثل محدث ، عظیم فقیہ، کہنہ مشق مدرس ، کامیاب مناظر ،بالغ نظر مفتی، بہترین مصنف ، با فیض شیخ طریقت اور اعلیٰ پائے کے خطیب تھے۔ چاہتے تو دین کی خدمت کیلئے تدریس کے بجائے کوئی اور میدان منتخب فرمالیتے لیکن اس شعبے میں قحط الرجال کو دیکھتے ہوئے اپنے اُستاذِ محترم حضرت صدر الشریعہ کی اتباع میں آپ نے خود کو دینی علوم کی تدریس کیلئے ہمہ تن وقف کردیا ۔ خوش قسمتی سے فارغ التحصیل ہوتے ہی آپ نے اپنی مادر علمی دارالعلوم منظر اسلام بریلی سے ١٣٥٢ھ/ ١٩٣٣ء میں تدریس کا شاندار آغاز کیا ۔

فیصل آباد تشریف آوری:

آپ نے مفتیئ اعظم مولانا شاہ مصطفی رضاخاں بریلوی جو ان دنوں بغرض ِحج حرمین شریفین میں مقیم تھے سے استصواب کیا کہ آیا ساروکی رہ کر دین کی خدمت کروں یا لائل پور میں ؟ مفتیئ اعظم کی دوربین نگاہوں نے بھانپ لیا کہ حضرت شیخ الحدیث کی عالمی تبلیغی سرگرمیوں کیلئے ساروکی کا دیہاتی ماحول نہیں بلکہ لائل پور جیسا مرکزی شہر زیادہ موزوں ہے لہٰذا آپ نے دیارِ حبیب سے جو جواب مرحمت فرمایا اس میں لائل پور میں خدمتِ دین انجام دینے کی طرف اشارہ تھا۔ رمضان المبارک ١٣٦٨ھ/جولائی١٩٤٩ء میں آپ لائل پور (فیصل آباد ) تشریف لے آئے۔ ابتداء میں آپ کا قیام محلہ سنت پورہ میں تھا ۔ آپ کا ارادہ یہ تھا کہ نئے تعلیمی سال (شوال ١٣٦٨ھ ) سے تدریس کا آغاز کردیا جائے ۔

وعظ و تقریر

اگرچہ تدریس، تبلیغ کی احسن صورت ہے۔ لیکن عوام الناس پر براہِ راست اثرات مرتب کرنے کے حوالے سے تقریر کی اہمیت کا انکار بھی ممکن نہیں۔ حضرت شیخ الحدیث قدس سرہ، اس ذریعہئ تبلیغ کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے۔لہٰذاآپ دن کو تدریس کے فرائض سر انجام دیتے اور رات کو فیصل آباد کی گلی گلی ، کوچے کوچے میں عشق مصطفی علیہ التحیہ و الثناء کی خوشبوئیں اور حسنِ عمل کے موتی بکھیرتے۔

تحریکِ پاکستان میں شرکت:

مسلمانوں کے علیحدہ وطن پاکستان کے قیام کیلئے آپ نے بھر پور جد وجہد فرمائی۔ اس مقصد کیلئے قائم اہل سنت کی ملک گیر تنظیم آل انڈیا سُنی کانفرنس کے کئی اجلاسوں میں آپ نے شرکت فرمائی۔

قیام ِ پاکستان پر اظہارِ مسرت:

جمعۃ الوداع (٢٧رمضان المبارک ١٣٦٦ھ/ ١٥ اگست ١٩٤٧ء ) کا خطبہ آپ نے اپنے آبائی قصبہ دیال گڑھ میں دیا۔اس موقع پر آپ نے قیامِ پاکستان پر اظہارِ مسرت فرماتے ہوئے اﷲ کا شکر ادا کیا اور لوگوں کو نئے اسلامی ملک کے قیام پر مبارکباد دی۔

ذوقِ عبادت:

عبادت کا ایسا ذوق و شوق تھا کہ بچپن میں ہی چلتے پھرتے ذکر کرتے اور نعت پڑھتے رہتے ۔ والد ماجد کی انگلی پکڑ کر مسجد میں جاتے اور باجماعت نماز ادا کرتے۔ آپ کی نماز روایتی نماز نہ ہوتی بلکہ بارگاہِ خداوندی میں حاضری کا تصور ذہن پر غالب رہتا۔ اجمیر شریف کے زمانہ طالب علمی میں آپ کی نمازوں کی کیفیت بیان کرتے ہوئے حافظ ملت مولانا عبد العزیز مبارکپوری علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :” سلسلہ کے وظائف اور نماز با جماعت کے پابند تھے۔ خشیّتِ ربّانی کا یہ عالم تھا کہ نماز میں جب امام سے آیت ترہیب سنتے تو آپ پر لرزہ طاری ہوجاتا حتیٰ کہ پاس والے نمازی کو محسوس ہوتا تھا یہ طالب علمانہ مقدس زندگی کی کیفیات ہیں۔ اس سے آپ کی روحانیت کا اندازہ ہوسکتا ہے اور آپ کے مقامِ رفیع کا پتہ چل سکتا ہے۔

توکل علی اﷲ :

آپ کی حیات طیبہ کا طائرانہ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ زندگی کے ہر موڑ پر اﷲ تعالیٰ پر توکل اور کامل بھروسہ جلوہ آراء نظر آتا ہے ۔ چشمِ تصور سے ذرا دیکھئے کہ فیصل آباد کا اجنبی اور مخالفانہ ماحول اور بریلی کے نامور شیخ الحدیث کا ایک چبوترے پر بیٹھ کردرسِ حدیث شروع کردینا،مخالفوں کی ریشہ دوانیوں کے باوجود مدرسہ اور پاکستان کی عظیم الشان مسجد کی بنیاد رکھ دینا۔ اپنوں، بیگانوں کی جانب سے سازشوں حتیٰ کہ قاتلانہ حملوں کے باوجود پایہئ ثبات میں لغزش نہ آنابغیر خدا پر توکل اور بھروسے کے کیا ممکن نظر آتا ہے؟

عشقِ مصطفی علیہ التحیہ و الثناء:

اس عقیدے پر پوری اُمت کا قطعی ، یقینی اجماع ہے کہ ایمان کی جان عشقِ مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم ہے۔ تمام رشتوں، ناتوں، دوستیوں اور تعلقات سے بڑھ کر اگر سرکارِ دوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت نہیں تو ایمان نا مکمل ہے۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:

مغزِ قرآں، روحِ ایماں ، جانِ دیں
ہست حُبِّ رحمۃ للعلمین

حضرت محدث اعظم علیہ الرحمۃ کے اخلاق و عادات کی سب سے نمایاں بات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے والہانہ محبت ہے۔ ان کے اس وصف ِ خاص کا اظہار صرف ان کی زبان ہی سے نہیں ہوتا تھا بلکہ یہ ان کے دل میں رچا ہوا اور رگ و ریشہ میں سمایاہوا تھا۔

اَلْحُبُّ ِﷲِ وَالْبُغْضُ ِﷲِ:

اﷲ کی رضا کی خاطر دوستی اور اسی کی خاطر دشمنی تکمیل ایمان کیلئے ضروری ہے ۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے:

مَنْ اَحَبَّ ِﷲِ وَ اَبْغَضَ ِﷲِ وَ اَعْطٰی ِﷲِ وَ مَنَعَ ِﷲِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ
جس نے اﷲ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کسی سے محبت کی ، اﷲ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کسی سے عداوت کی، اﷲ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کسی کو کچھ دیا اور اﷲ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کسی کو کچھ نہ دیا اس نے ایمان کو مکمل کرلیا۔

حضرت محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمۃ نے اس حدیث پاک پر یہاں تک عمل کیا کہ اﷲ اور اس کے پیارے حبیب صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمنوں سے تعلقات تو کجا عمر بھر مصافحہ تک نہ کیا۔ عمر کے آخری ایام میں حضرت سیدمعصوم شاہ نوری سے فرمایا: “شاہ صاحب ! میری دو باتوں کے گواہ رہنا۔ایک تو یہ کہ یہ فقیر حضور غوث پاک رضی اﷲ عنہ کا مرید اور غلام ہے دوسری یہ کہ اس فقیر نے عمر بھر کسی بے دین سے مصافحہ نہیں کیا۔”

صدارت نہیں سدا ردّ:

جس طرح آپ بد مذہبوں اور بے دینوں سے مصافحہ نہیں کرتے تھے ویسے ہی آپ ان کے جلسوں اور جلوسوں میں بھی شرکت سے گریز فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ دیوبندیوں ، وہابیوں کا ایک وفد حضرت محدث اعظم علیہ الرحمۃ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے پروگرام کے مطابق ایک مخلوط مشترکہ جلسہ کی صدارت کیلئے آپ سے عرض کیا تو آپ نے فوراً جواب دیا: ” فقیر ایسے جلسوں کی صدارت نہیں کرتا بلکہ ان کا سداردّ کرتا ہے۔” اس پر وفد کے ارکان لاجواب ہوکر چل دیئے۔

اساتذہ و مشائخ:

الماس و یاقوت بے شک قیمتی ہوتے ہیں مگر الماس تراش کی تراش خراش انہیں کہیں سے کہیں پہنچادیتی ہے۔اسی طرح بڑے بڑے علماء کی علمیت و قابلیت ان کے اساتذہ کی مرہون منت ہے ۔ ذیل میں حضرت محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمۃ کے اساتذہ کرام کے اسمائے گرامی پیش خدمت ہیں:

حضرت صدرالشریعہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ
حضرت حجۃ الاسلام مولانا شاہ محمد حامد رضا خاں بریلوی علیہ الرحمۃ
حضرت مفتیئ اعظم مولانا شاہ محمد مصطفی رضا خاں بریلوی علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ شاہ محمد سراج الحق چشتی صابری علیہ الرحمۃ
مولانا حاجی پیر محمد خان علیہ الرحمۃ
حکیم مولوی ذوالفقار علی قریشی علیہ الرحمۃ

علالت و آخری ایام :

شب و روز کی جاں گسل مصروفیات کا اثر حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمۃ کی صحت پر پڑا جس کے نتیجے میں آپ کی طبیعت بگڑنے لگی۔پہلے پہل تو آپ نے بالکل پرواہ نہ کی اور اسی ضعف و نقاہت کے عالم میں حسب معمول درس و تدریس ، وعظ و تقریر اور دعوت و ارشاد کا سلسلہ جاری رکھا۔ ٢٥ صفر المظفر ١٣٨١ھ/٨ اگست ١٩٦١ء کو عرسِ اعلیٰ حضرت کے موقع پر آپ جلسہ گاہ تک بڑی مشکل سے تشریف لائے۔ ملک کے طول و عرض سے آئے ہوئے ہزاروں تلامذہ و مریدین اور اکابر علماء و مشائخ آپ کی ناسازیئ طبع سے بہت مغموم اور سخت متفکر ہوئے۔

اسی عرس کے موقع پر حضرت مولانا عنایت اﷲ صاحب نے خدمت ِ اقدس میں عرض کیا کہ صاحبزادہ محمد فضل رسول کو دستارسجادگی عطا فرمائیں اور انہیں اپنا خلیفہ اور قائم مقام مقرر فرمائیں۔ فرمایا : “اچھا پگڑی لاؤ یہ کام بھی ہوجائے۔ اﷲ تعالیٰ ان کے درجات بلند کردے گاجس طرح حضرت صدر الافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی کے صاحبزادے کی دستار بندی پہلے ہوگئی تھی، وہ بھی درجات حاصل کرگئے”۔ چنانچہ بطور خلیفہ و جانشین حضر ت صاحبزادہ محمد فضل رسول کی دستار بندی تمام احباب کی موجودگی میں سنی رضوی جامع مسجد میں کی گئی۔

وصال شریف:

حضرت محدث اعظم پاکستان نے وصال شریف سے تقریباً چھ ماہ قبل اشارے ، کنایے میں اپنے وصال کا ذکر کرنا شروع کردیا تھا تاکہ احباب ہجر و فراق کے اس صدمے کو سہنے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہوجائیں۔

وصال شریف سے تقریباً چھ ماہ قبل آپ نے خواب دیکھا جس میں اکابر اُمت، مشائخِ عظام ، حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں بریلوی قدس سرہ،، حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں بریلوی ، صدر الافاضل بدر المماثل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی، صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی، مرشدِ برحق خواجہ شاہ محمد سراج الحق چشتی صابری اور دیگر پاکانِ اُمت علیہم الرحمۃ کی زیارت فرمائی۔ یہ خواب احباب و خدام سے بیان فرما کر ارشاد فرمایا:

” ان مشائخ عظام کی زیارت و ملاقات سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ وقت قریب ہے کہ یہ فقیر خود ان سے جا ملے”۔

دمِ آخر آپ کے کان میں اذان دی گئی اور سورہ یٰسین شریف ، شجرہ قادریہ رضویہ، درود تاج اور قصیدہ غوثیہ پڑھا گیا۔ اسی عالم میں رات ایک بج کر چالیس منٹ پر اﷲ ہو کہتے ہوئے یہ آفتابِ علم و فضل جس کی نورانی کرنوں سے عالمِ اسلام برسوں منور ہوتا رہا، ہمیشہ کیلئے روپوش ہوگیا۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔

یکم شعبان المعظم ١٣٨٢ھ / ٢٩ دسمبر ١٩٦٢ء کی شب کو سورج ڈوبا اور صبح ہوتے ہوتے دنیائے علم و حکمت میں اندھیرا پھیل گیا۔

غسل و جنازہ:

کراچی میں آپ کو غسل دیا گیا۔ غسل دینے والوں کے نام درج ذیل ہیں:

مولانا عبد المصطفیٰ الازہری ، مولانا محمد عمر نعیمی ، مولانا محمد محسن فقیہ شافعی ، مولانا محمد معین الدین شافعی ، مولانا عبد الحمید ، سیٹھ حاجی اسمٰعیل جمال ، حاجی صوفی اﷲ رکھا۔

بعد غسل آپ کو کفن پہنایا گیا، ظفر علی نعمانی صاحب نے کفن پر کلمہ طیبہ لکھا۔ علامہ عبد المصطفیٰ الازہری نے ” یا شیخ سیدعبد القادر جیلانی شیأاً ﷲ ” لکھا اور مولانا محمد معین الدین شافعی نے” یا غوث اعظم دستگیرما” لکھا ۔ حضرت محدث اعظم کی موجودگی میں ایک مرتبہ سرکار غوثِ پاک کی منقبت پڑھتے ہوئے یہ شعر پڑھا گیا :

عزیزوں کر چکو تیار جب میرے جنازے کو
تو لکھ دینا کفن پر نام والا غوثِ اعظم کا

آپ نے اسی وقت وصیت فرمائی کہ مولوی معین ! یاد رکھنا میرے کفن پر حضور آقائے کرم ، سرکار غوثِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا اسم گرامی ضرور لکھنا۔ چنانچہ آپ کی وصیت کو پورا کرتے ہوئے سیدنا غوثِ اعظم رضی اﷲتعالیٰ عنہ کا اسمِ گرامی کفن پر تحریر کیا گیا۔ جنازہ تیار کرکے آرام باغ لایا گیا۔ راستے میں حسبِ وصیت درود شریف، کلمہ طیبہ، نعت شریف، منقبت غوثِ پاک اور صلوٰۃ و سلام پڑھا گیا۔ نمازِ جنازہ کی امامت کے فرائض شہزادہ صدر الشریعہ حضرت علامہ عبد المصطفیٰ الازہری نے انجام دئیے۔ ہزاروں افراد جنازے میں شریک تھے۔ کراچی کے تقریباً تمام علماء کرام و مشائخ عظام موجود تھے۔ جن میں مولانا عبدالحامد بدایونی، مولانامحمد عمر نعیمی، مفتی ظفر علی نعمانی، پیرزادہ سید عبد القادر گیلانی سفیر عراق، مولانا شاہ ضیاء القادری ، مولانا قاری محمد محبوب رضا خاں اور مولانا عبد السلام باندوی قابل ذکر ہیں۔

نمازِ جنازہ کے بعد چہرہ انور کی زیارت کرائی گئی۔ بعدہ، تابوت میں رکھا گیا۔ اب “رضوی دولھا” کو ہزاروں باراتی بڑی شان و شوکت اور پیار و محبت سے کندھوں پر اٹھائے کراچی اسٹیشن تک لائے، راستہ بھر نعت خوانی کا سلسلہ جاری رہا۔ آخر میں اسٹیشن پر صلوٰۃ و سلام ہوا پھر ہزاروں اشک بار آنکھوں نے اپنے محبوب مرشد و قائد کو رخصت کیا۔

عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے:

فیصل آباد پہنچنے پر جنازہ اُٹھایا گیا اور ہزاروں افراد اشک بار آنکھوں کے ساتھ درود وسلام کی صداؤں میں مرکز اہلسنت جامعہ رضویہ کی جانب بڑھ رہے تھے۔ اس جلوس میں علماء بھی تھے اور مشائخ بھی، مدرس بھی تھے اور محقق بھی، مریدین بھی تھے اور معتقدین بھی، ہم سبق رفیق بھی تھے اور شاگرد بھی، اپنے بھی تھے اور بیگانے بھی، چھتوں پر خواتین اور بچے بھی اس نورانی جلوس کا نظارہ کررہے تھے۔

انوار کی بارش:

سرکلر روڈ سے گزر کر جنازہ جب کچہری بازار میں داخل ہوا تو عشقِ رسالت کے جلوؤں نے اور ہی رنگ اختیار کرلیا۔اس کے اثرات نمایاں اور بہت واضح ہوگئے اور محسوس صورت میں نظر آنے لگے۔ ہوا یوں کہ تابوت مبارک پر انوار و تجلیات کی بارش ہر آنکھ کو صاف طورپر نظر آنے لگی۔ بچے، بوڑھے، جوان ہر قسم کے لوگ وہاں موجود تھے اور بڑے استعجاب کے عالم میں انوار کی اس بارش کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہے تھے۔ جب یہ بے مثال جلوس گھنٹہ گھر پہنچا تو یکایک اس نور نے دبیر چادر کی صورت اختیار کرلی اور سارا تابوت اس میں چھپ گیا۔ چمکیلے تانبے کے باریک پتروں کی طرح نور کی سنہری کرنیں اس طرح تابوت پر گر رہی تھیں کہ ہزاروں نے تعجب سے اس آسمانی رحمت کو دیکھا، نور کی اس لطیف اور محسوس دھند میں جب جنازہ چھپ گیا تو جنازہ اُٹھانے والوں کو پکار کر ایک دوسرے سے پوچھنا پڑا کہ تابوت کہاں گیا؟

چند لمحات یہی کیفیت رہی پھر تابوت کے پاؤں کی طرف سے کمان کی طرح نور اُڑا اورلوگوں کو دوبارہ سب کچھ نظر آگیا۔ اس واقعہ کے عینی شاہد ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں۔ ان میں اپنے ہی نہیں وہ بھی شامل ہیں جنہیں حضرت کی ذات سے خوامخواہ اختلاف تھا۔

فقید المثال جنازہ:

حضرت صاحبزادہ قاضی محمد فضل رسول خلف اکبر حضرت محدث اعظم کی اجازت سے مولانا عبدالقادر احمد آبادی نے نمازِ جنازہ بعد ظہر پڑھائی۔ لاکھوں افراد پر مشتمل نمازِ جنازہ کے عظیم اجتماع کو دیکھ کر ہر مکتبِ فکر کے افراد نے اعتراف کیا کہ فیصل آباد کی ستر سالہ تاریخ میں کبھی اتنا بڑا اجتماع نہیں ہوا۔

آخری دیدار:

نمازِ جنازہ کے بعد جسد مبارک کو سنی رضوی جامع مسجد سے ملحق انجمن فدایانِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے دفتر میں رکھ دیا گیا۔ تاکہ آخری زیارت سہولت سے ہوسکے۔ زیارت کرنے والے ایک دروازہ سے داخل ہوتے اور دوسرے دروازہ سے نکل جاتے۔ وصال فرمائے ہوئے دو دن اور دو راتیں گزرنے کے باوجود چہرہ مبارک کی تازگی کا عالم یہ تھا کہ پھولوں میں سجا ہوا چہرہ خود بھی پھول لگ رہا تھا۔ اس حسین اور دل نواز منظر کو جو دیکھتا، دیکھتا ہی رہ جاتا اور ہٹنے کا نام نہ لیتا، مجبوراً اسے ہٹا کر دوسروں کو زیارت کا موقع دیاجاتا، آخری دیدار کیلئے مشتاقوں کا ہجوم اتنا زیادہ تھا کہ اگر یہ سلسلہ صبح تک جاری رکھا جاتا تو بھی ختم نہ ہوتا۔ ناچار شام سواسات بجے تک چہرہئ مبارک دکھایا گیا اس کے بعد تدفین کیلئے لے جایا گیا۔

آخری آرام گاہ:

سنی رضوی جامع مسجد اور دارالحدیث کے درمیان واقع عارضی کمرہ جس سے درجہ حفظ کے طلباء کی درس گاہ کا کام لیا جاتا تھا۔ آپ کی وصیت کے مطابق آخری آرام گاہ بنا۔ ذکر و درود و سلام کی گونج میں آپ کا جسد مبارک یہاں لایا گیا۔ ہزاروں عقیدت مند اشکبار آنکھوں سے آخری زیارت کررہے تھے۔ حضرت صاحبزادہ قاضی محمد فضل رسول حیدر رضوی ، شارح بخاری علامہ غلام رسول رضوی، مولانامفتی نواب الدین اور حاٖظ محمد شفیع رضوی کی موجودگی میں مولانا عبد القادر ، مولانا معین الدین اور صوفی اﷲ رکھا قبر شریف کے اندر اترے اور آپ کے جسد اطہر کو رات ساڑھے سات بجے ہمیشہ کیلئے آخری آرام گاہ میں اُتارا۔

تلامذہ وخلفاء :

درخت اپنے پھل سے اور اُستاذ اپنے شاگردوں سے پہچانا جاتاہے ۔ یوں تو حضرت محدثِ اعظم کے تلامذہ کی تعداد ہزاروں میں ہے جو نہ صرف پاکستان کے مختلف شہروں، قصبوں دیہاتوں بلکہ بیرون ملک سے آپ کے درس کی شہرت سن کر حاضر خدمت ہوئے۔ حضرت محدثِ اعظم کے جلیل القدر تلامذہ میں سے چند کے اسماء
گرامی پیشِ خدمت ہیں:

مفسر اعظم مولانا ابراہیم رضا خاں بریلوی،
شارح بخاری حضرت مفتی شریف الحق امجدی،
اُستاذ العلماء مولانا علامہ سید جلال الدین شاہ صاحب،
اُستاذ العلماء علامہ محمد عبد الرشید جھنگوی،
نبیرہ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ حماد رضا نعمانی میاں،
پیر طریقت حضرت مولانا پیر محمد فاضل نقشبندی،
اُستاذ العلماء حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی،
شمس العلماء علامہ مفتی محمد نظام الدین سہسرامی،
مفتیئ اعظم کراچی علامہ مفتی محمد وقار الدین قادری رضوی،
شیر اہل سنت مولانا محمد عنایت اﷲ قادری رضوی،
مخدوم ملت علامہ سبطین رضا خاں بریلوی،
اُستاذ العلماء علامہ تحسین رضا خاں بریلوی،
ریحانِ ملت مولانا محمد ریحان رضا خاں بریلوی،
علامہ ابو الشاہ عبد القادر احمد آبادی،
شیخ الفقہ مولانا محمد شمس الزماں قادری رضوی،
اُستاذ العلماء مولاناصاحبزادہ عزیز احمد سیالوی،
اُستاذ العلماء مولانا معین الدین شافعی رضوی،
مجاہد ملت علامہ الحاج ابو داؤد محمد صادق قادری رضوی،
اُستاذ الاساتذہ حضرت علامہ مفتی محمد عبد القیوم ہزاروی،
عالمی مبلغ اسلام مولانا محمد ابراہیم خوشتر صدیقی،
اُستاذ العلماء علامہ مفتی محمد حسین قادری رضوی،
شیخ الحدیث علامہ ابو الفتح محمد نصر اﷲ خان افغانی،
خطیبِ پاکستان مولانا محمد بشیراحمد رضوی وغیرہ۔

اولاد امجاد:

حضرت محدث اعظم کو اﷲ تعالیٰ نے چار صاحبزادے اور چھ صاحبزادیاں عطا فرمائیں۔ صاحبزادگان کے اسمائے گرامی مندرجہ ذیل ہیں:

(١) محمد فضل رسول
(٢) محمد فضل رحیم
(٣) محمد فضل احمد رضا
(٤) محمد فضل کریم

صاحبزادہ محمد فضل رحیم کا بچپن ہی میں انتقال ہوگیا تھا۔ جبکہ تینوں صاحبزادگان اور چھ صاحبزادیاں حضرت محدث اعظم کے وصال کے وقت بقید حیات تھیں۔

نام و نسب:

مصلح اہل سنت حضرت مولانا قاری محمد مصلح الدین صدیقی قادری جنہیں گھر کی بزرگ عورتیں پیار سے ”محبوب جانی” کہا کرتی تھیں۔ صبح صادق، بروز پیر ١١/ربیع الاول سن ١٣٣٦ھ سن ١٩١٧ء قندھار شریف ضلع نانڈھیڑ، ریاست حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے ۔ والد ماجد کا نام نامی غلام جیلانی تھا، جنہوں نے گھریلو تعلیم کے علاوہ حکومت دکن کے تحت امامت کا امتحان پاس کیا تھا۔ نہایت دیندار صوفی باصفا خطیب عالم تھے۔ اپنے وطن کے اندر قلعہ کی مسجد اور دیگر مساجد میں ٥٥/سال تک امامت و خطابت کے فرائض بحسن و خوبی انجام دیتے رہے پاکستان پہنچ کر ٢٥/ نومبر ١٩٥٥ء کو کراچی میں انتقال فرمایا اور میوہ شاہ قبرستان میں مدفون ہوئے ۔ علم و ادب کے قدرداں اور علماء و سلف کے جوہر شناس تھے۔ حافظ ملت علیہ الرحمہ سے گہری عقیدت رکھتے تھے۔

مصلح اہل سنت کے آباء و اجداد شرفاء دکن میں سے تھے اور پشتہا پشت سے خدمت دین اور فروغ اسلام کے فرائض سر انجام دیتے آرہے تھے، شاہان سلف نے انہیں جاگیریں دے رکھی تھیں اس لیے ”انعامدار” کہلاتے تھے۔ جاگیریں ان کے معاش کا ذریعہ تھیں خاندانی شجرہ اس طرح ہے حضرت قاری مصلح الدین بن غلام جیلانی بن محمد نور الدین بن شاہ محمد حسین بن شاہ غلام جیلانی عرف شبر استاد (آپ فضیلت جنگ بہادر مولانا انوار اللہ خان کے استاذ عربی ہیں ) بن شاہ غلام محی الدین بن شاہ محمد یوسف بن شاہ محمد بن شاہ محمد یوسف۔

صدر الشریعہ کا فیضان علمی و روحانی :

مصلح اہل سنت کے مقدر میں اسلام اور سنیت کی عظیم خدمات لکھی تھیں ، اسی لحاظ سے رب تعالیٰ نے ان کی تعلیم و تربیت کے وسائل پیدا فرمائے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ بر صغیر ہندو پاک میں چودھویں صدی ہجری کے آخری ٧٥/سالہ دور کو خلفائے امام احمد رضا بریلوی بالخصوص صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی اور ان کے تلامذہ نے اسلاف کرام کے طریقہ پر تعلیم و تربیت سے بہرہ ور کرنے میں مثالی کارنامے انجام دیئے ہیں ۔

جنہیں سیراب کرنے بدلیاں رحمت کی آتی ہیں:

(حافظ ملت علیہ الرحمہ دارالعلوم معینیہ عثمانیہ کے دور میں صدر الشریعہ سے حصول علم فرمارہے تھے۔ اسی دور کی بات ہے) قندھار شریف ریاست حیدر آباد کے ایک بزرگ مولانا سید شاہ اسماعیل صاحب قبلہ خاندانی مرشد تھے، اس علاقے میں ان کے اہل ارادت کی خاصی تعداد موجود تھی سید صاحب ہر سال عرس خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کے موقع پر ، پابندی سے اجمیر مقدس حاضری دیتے تھے۔ حضرت صدرالشریعہ علیہ الرحمہ سے بھی پیر صاحب قبلہ کے گہرے مراسم تھے۔ انہوں نے حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ سے درخواست کی کہ رمضان المبارک کے موقع پر قندھار شریف کے تعلقہ شہر میں کسی اچھے حافظ قرآن کو روانہ فرمائیں ۔ چنانچہ حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے اپنے شاگرد رشید ”حافظ ملت” کو قندھار روانہ فرمایا ۔ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے قندھار پہنچ کر صرف قرآن مجید نہیں سنایا بلکہ نہ جانے کتنے قلوب کی محرابوں کو بیداری فکر کی دولت عطا کردی ۔ قندھار شریف ، محراب سنانے کے بہانے حافظ ملت کی تشریف ارزانی کا سلسلہ پانچ سال یا اس سے زیادہ قائم رہا اور اگر ہم یہ کہیں کہ حافظ ملت سال میں ایک ماہ ایک ایسے روحانی پودے کی داشت و پرداخت کے لئے صرف کیا کرتے تھے۔ جسے آگر چل کر ”مصلح دین” اور ”مصلح ملت” بننا تھا تو غلط نہ ہوگا۔ اس کمسن بچے کے ضمیر میں قرآن عظےم کے نور کے ساتھ ساتھ اخلاق قرآن کی حلاوتیں کس طرح اتریں اسے خود قاری صاحب کی زبان سے سنئے:

”ہمارے خاندان میں ایک مولانا علیم الدین صاحب تھے ۔ ان کو میں قرآن کریم سنایا کرتا تھاتو انہوں نے کہا کہ میں باہر جارہا ہوں لہٰذا آپ ان (حافظ ملت حضرت علامہ مولانا حافظ عبدالعزیزمبارکپوری علیہ الرحمہ) کو قرآن کریم سنائیے ۔ میں ان کو قرآن کریم سنانے کے لیے گیا تو انہوں نے بڑی شفقت کا اظہار کیا اور بڑی اچھی اچھی باتیں کیں میں نے گھر آکر اپنی والدہ کو بتایا اور والدہ نے والد سے کہا ، آپ جائیے ایسے بزرگ اور شفیق آئے ہیں ، ان سے ملاقات کریں ۔ والد صاحب آئے اور ان سے بہت متاثر ہوئے اور کہا اپنی آخرت کی درستگی کے لیے میں نے اپنے بچے کو حفظ قرآن کی طرف لگایا ہوا ہے۔ آپ (حافظ ملت علیہ الرحمہ ) نے مشورہ دیا ، بچے کی تعلیم کے لیے دو چیزیں بہت ضروری ہیں یا تو اس شخص سے پڑھایا جائے جس کو خود غرض ہو یا وہ پڑھا سکتا ہے جس کو درد ہو اور باپ سے زیادہ غرض بھی کسی کو نہیں ہو سکتی اور باپ سے زیادہ درد بھی کسی کو نہیں ہوتا۔ بہتر یہی ہے کہ آپ خود پڑھائیں”

اندازہ ہوتا ہے کہ قاری مصلح الدین صاحب علیہ الرحمہ کی عمر اس وقت آٹھ یا نو سال رہی ہوگی ۔ اس وقت حضور حافظ ملت بھی جامعہ معینیہ اجمیر شریف میں مصروف درس تھے۔ اس پہلی ملاقات نے قاری مصلح الدین صاحب اور ان کے والدین کریمین کے دل میں حافظ ملت علیہ الرحمہ کی شفقت و مروت اور اخلاص و محبت کے وہ انمٹ نقوش ثبت کیے جو تاریخ کا ایک عظےم الشان دور بن کر ابھرے۔ وہ اس طرح کہ اس کم سن بچے کے تحفیظ قرآن کا سلسلہ حافظ ملت کی ہدایات کے مطابق خود اس کے والد کے ذریعہ شروع کرادیاگیا اور پانچ سال کے عرصے میں وہ بچہ حافظ قرآن بن گیا وہ کس طرح قاری صاحب خود فرماتے ہیں:

”سال بھر میں پانچ پارہ ناظرہ ، استاد صاحب پڑھادیا کرتے تھے ، اور والد صاحب مجھے وہ پانچ پارے یاد کرادیا کرتے تھے اور اگلے رمضان میں استاذ مکرم (حافظ ملت) وہاں سے آتے تھے وہ سن بھی لیا کرتے تھے اور اس میں جو غلطیاں ہوتی تھیں وہ درست بھی کرادیا کرتے تھے اس طرح پانچ سال میں حفظ کرلیا”

اس طرح ننھا مصلح الدین چودہ سال یا اس سے بھی کم عمر ہی میں حافظ قرآن بن گیا اور حافظ ملت نے اس کے سرپر دستار باندھی تکمیل حفظ کے بعد حضرت قاری صاحب پرائمری اسکول میں داخل کرادیئے گئے ۔ آپ اپنے والدین کے اکلوتے چشمہ و چراغ تھے ، اس لیے وہ لوگ انہیں آنکھوں سے اوجھل نہیں کرنا چاہتے تھے۔ مگر حافظ ملت جیسے روحانی اور عرفانی باغباں نے قاری صاحب کے باطن میں علوم دینیہ اور عرفان و حق شناسی کے جو بیج بوئے تھے اسے پروان تو چڑھنا تھا۔ اسکول کی تعلیم بھی قاری صاحب نے نہایت سرعت سے حاصل کی اور اپنی ذہانت اور ذکاوت سے دو دودرجات ایک سال میں طے کیے تا آنکہ جماعت ہفتم میں جا پہنچے۔ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی سرپرستی اور ہدایت کے زیر سایہ قاری صاحب نے جب تکمیل حفظ کلام اللہ کرکے درجہ ہفتم تک کی پرائمری تعلیم بھی پالی ، اور اس وقت تک سن شعور کی دہلیز تک پہنچ گئے تو انہوں نے قاری صاحب کو ان کے والدین سے اپنی روحانی اور علمی فرزندی میں پروان چڑھانے کے لیے مانگ لیا۔ اس واقعہ کو قاری صاحب کی زبان ہی سے ملاحظہ کیجئے :

”استاذ مکرم کا مسلسل اصرار رہا کہ جس طرح آپ نے اپنے لڑکے کو حافظ قرآن بنایا ہے اسی طرح اسے عالم دین بھی بنائیے۔ چونکہ میں اپنے ماں باپ کا اکلوتا تھا اس لیے باہر بھیجنے کے لیئے والدہ ماجدہ راضی نہ تھیں ۔ البتہ والد صاحب کچھ راضی تھے بہر حال قسمت میں لکھا تھا یہ دونوں حضرات راضی ہوگئے اور میں اپنی دینی تعلیم حاصل کرنے کیلئے مبارک پور اعظم گڑھ روانہ ہوا ۔ اس وقت استاذ مکرم حافظ ملت مولانا عبدالعزیز مبارکپوری (علیہ الرحمہ ) فارغ التحصیل ہوکر مبارک پور میں صدر المدرسین کے عہدے پر فائز تھے اور میں نے وہاں جاکر تعلیم حاصل کی اور اس تعلیم کا سلسلہ تقریباً آٹھ سال تک رہا ”


دستار بندی:

مصلح اہل سنت نے اپنی پوری تعلیم مبارک پور میں مکمل کی اور حافظ ملت کچھ روز کے لیے مبارک پور چھوڑ کر ناگپور تشریف لے گئے تو وہاں دورئہ حدیث پڑھ کر دستار فضیلت حاصل کی قاری صاحب کے انٹرویو میں ہے:

”اور یہیں سے فراغت حاصل کی البتہ دستار بندی اس وقت وہاں نہ ہو سکی ۔ اس لیے کہ ١٩٤٢ء میں گاندھی کا سینہ گرہ شروع ہوا تھا۔ جس کی وجہ سے مدارس بھی بند رہے ۔ ٹرینیں بھی الٹ دی گئیں ۔ لائنیں بھی اکھاڑی گئیں ۔ آمد و رفت بہت دشوار ہو چکی تھیں اتفاق سے میں اس سے کچھ پہلے ہی اپنے گھر چلا گیا تھا ۔ تقریباً کئی مہینے یہ سلسلہ جاری رہا ۔ والد محترم نے ہمیں پھر دوبارہ جانے نہیں دیا اور کہا تم یہاں رہو۔ اسی عرصہ میں میری شادی ہوئی اور شادی کے بعد پھر معاش کی فکر لگی ۔ اتفاق سے استاذ محترم (حافظ ملت علیہ الرحمہ) مبارکپور سے کچھ اختلاف کی وجہ سے ناگپور تشریف لے آئے ۔ وہاں سے دورئہ حدیث جاری ہوچکا تھا ”

استاد مکرم نے خط لکھا کہ :

”تمہارے جتنے ساتھی ہیں سب واپس آچکے ہیں اور کچھ آنے والے ہیں ، بہتر یہی ہے کہ تم بھی یہاں آکر دورئہ حدیث کی تکمیل کرو اور اس کے بعد جہاں بھی تمہارے روزگار کا ارادہ ہو وہاں جا سکتے ہو”

چنانچہ میں ناگپور آیا اور وہاں تین چار مہینے درس حدیث کی تکمیل کی اس کے بعد دستار فضیلت کاجلسہ ہوا جو ١٩٤٣ء میں ہوا۔

والدہ کا انتقال اور ناگپور میں تقرری:

حضرت مصلح اہلسنت ناگپور سے دستار بندی کے بعد ابھی اپنے وطن نہیں گئے تھے بلکہ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ اور دیگر اساتذہ کرام کی خدمت ہی میں تھے کہ انہیں ان کی والدہ کی علالت کا ٹیلیگرام ملا اور وہ فوراً چل پڑے والدہ ماجدہ عرصہ سے علیل رہتی تھیں۔ ایک ماہ کے بعد ہی ان کا انتقال ہوگیا ۔ حضرت قاری صاحب مبارکپور سے ١٩٤٢ء میں آنے کے بعد ہی چونکہ ازدواجی بندھن سے منسلک ہوچکے تھے اور گھر میں ایک بیٹی بھی تولد ہوچکی تھی ۔ اس لیئے انہیں ذریعہ معاش کی فکر لاحق ہوئی۔ضعیف باپ اور اہل و عیال کے خیال سے انہوں نے حیدر آباد ہی کے اندر کوئی ملازمت تلاش کی مگر جس ماحول میں ان کی ذہنی و فکری اور علمی نشو و نما ہوئی تھی اس کے لحاظ سے دکن کا ماحول مختلف تھا۔

خود حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ بھی قاری صاحب کو بے حد پیار کرتے تھے اس لحاظ سے ان کی یہ بھی خواہش تھی کہ وہ حضرت سے قریب ہی کہیں رہ کر علمی مشاغل کو جاری رکھیں چنانچہ ان کی خواہش کے مطابق قدرتی طور پر ناگپور ہی میںقاری صاحب کے لیے ایک جگہ نکل آئی ، اس طرح وہ پھر حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ اپنے محسن و مربی کے قریب پہنچ گئے ، خود فرماتے ہیں:

”بہرحال ہم کوشش میں تھے کہ حیدر آباد دکن میں کہیں کوئی نہ کوئی سروس مل جائے لیکن اسی اثناء میں ناگپور میںجامع مسجد کی امامت و خطابت کی جگہ خالی تھی ، تو مفتی عبدالرشید خاں صاحب جو وہاں کے بانی تھے ادارے کے تو انہوںنے حافظ ملت سے کہا ”ان کو یہاں بلا لیجئے، وہ یہاں کے لیئے موزوں ہوں گے”۔ استاذ مکرم نے حیدر آباد دکن خط لکھا آپ جو کچھ بھی وہاں کوشش کررہے ہیں ، بہر حال کوشش کرتے رہیں ۔ البتہ یہاں ایک جگہ خالی ہے اور ہمارا خیال ہے کہ آپ یہاں آئیں گے تو آپ ہمارے قریب بھی رہیں گے۔ چنانچہ والد صاحب سے اجازت لے کر میں ناگپور گیا ۔ وہاں جانے کے بعد ایک جمعہ وہاں پڑھایا ، تو انہوں نے کہا یہ ٹھیک ہیں ہمارے لیے خوشی کی بات ہے کہ یہ یہاں پر امامت و خطابت کرتے رہیں۔ چنانچہ میں وہاں امام مقرر ہوا اور وہاں پانچ سال تک خطیب رہا”


جامع مسجد سکندر آباد کی خطابت:

اتحاد المسلمین کے عروج کا دور تھا سید تقی الدین صاحب اور صدر یار جنگ کے توسط سے قاری صاحب سکندر آباد مسجد کے خطیب مقرر ہوگئے شہر حیدر آباد کے نواحی شہر سکندرآباد کی اس جامع مسجد کے ہر چہار جانب آریہ سماجی متعصّب غیر مسلم کثرت سے آباد تھے اور مسلمان اقلیت میں تھے اس لیے وہاں اکثر ہندو مسلم فسادات ہوا کرتے تھے۔اس جامع مسجد کی بنیاد حضرت مولانا قاری عثمان علی شاہ قادری نے رکھی تھی اور مدتوں انہی کے خانوادہ کے علماء وہاں امامت کرتے آرہے تھے۔ تقسیم ہندوپاک کے زمانے میں دکن کے سیاسی افق پر بھی نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں اور نواب بہادر یار جنگ نے وہاں کے مسلمانوں کو متحرک کرنے کیلئے مجلس اتحاد المسلمین کی بنیاد رکھی تھی ۔ آج بھی اتحاد المسلمین پورے ہندوستان میں مسلمانوں کی نمایاں تنظیم ہے ۔ قاری صاحب نے اس پر آشوب دور میں اپنی مجاہدانہ تقاریر کا سلسلہ شروع کیا ۔ مہاجر مسلمانوں کے لٹے پٹے قافلے حیدرآباد میں آکر پناہ لے رہے تھے۔ حیدر آباد دکن ایک آزاد مسلم ریاست تھی اس لحاظ سے مسلمان اسے اپنی ایک پناہ گاہ خیال کرتے تھے۔ قاری صاحب فرماتے ہیں :

”اتحاد المسلمین نے جو اپنا محاذ بنایا تھا، اس کے لحاظ سے خطباء بھی مقررین بھی سیاسی موضوع پر بولنے لگے تھے۔ چونکہ جوش تھا اور میں خود بھی بڑی پر جوش تقریر کرتا تھا، اور جمعہ کے خطبوں میں وزیر عبدالحمید خان بھی آیا کرتے تھے اور اطراف میں بڑی بڑی چھاؤنیاں تھیں وہاں کے بڑے بڑے عہدیداران و افسران بھی آیا کرتے تھے تو میں نے وہاں ڈیڑھ سال تک خطابت بھی کی اور وہاں حیدر آباد میں پڑھاتا بھی رہا ۔ پھر وہاں حیدر آباد کے خلاف ہنگامہ بھی ہوا ، ہنگامے کے وقت عجیب و غریب کیفیت تھی ”

سقوط حیدر آباد اور قاری صاحب کا سفر پاکستان:

سقود حیدر آباد سے قبل دکن کے مسلمانوں نے پولیس ایکشن کے نام پر کی گئی زیادتی کے جواب میں جو مدافعانہ قدم اٹھایا اس میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ہندوستانی فوج سے مقابلہ کرتے ہوئے سات لاکھ مسلمان شہید ہوئے دور طالب علمی میں حضرت مفتی ظفر علی نعمانی صاحب حضرت قاری صاحب کے جگری دوست تھے۔ دونوں ایک دوسرے سے والہانہ تعلق رکھتے تھے۔ مبارک پور سے حافظ ملت نے جب ناگپور کا سفر کیا تو وہ اس وقت ناگپور بھی گئے ۔ وہ پاکستان پہلے ہی آچکے تھے سقوط حیدر آباد کے بعدحضرت قاری صاحب کو پاکستان بلوانے کے سلسلہ میں انہوں نے سلسلہ جسبانی (بہت محنت) کی جس کے نتیجہ میں قاری صاحب کراچی آگئے۔ قاری صاحب کے ذاتی انٹرویوکی روشنی میں سفر کی کچھ باتیں یہ ہیں ۔

سقوط حیدر آباد کے چار ماہ بعد ١٩٤٩ء میں بحری جہاز کے ذریعہ قاری صاحب کراچی پہنچے۔ پورٹ پر مفتی ظفر علی نعمانی صاحب نے ان کا استقبال کیا اور انہیں اپنے مدرسہ میں لاکر اتارا۔ اس کے ایک ماہ بعد سے قاری صاحب نے اخوند مسجد کی امامت و خطابت شروع کی ۔

پاکستان میں خطابت و تدریس:

اخوند مسجد کی خطابت کے دور میں ہی حضرت مولانا مفتی مظہر اللہ صاحب دہلوی کے نام سے آرام باغ میں دارالعلوم مظہریہ میں قاری صاحب نے تدریس بھی شروع کردی ۔ اس وقت حضرت مولانا عبدالحفےظ صاحب آگرہ صدر مدرس تھے قاری صاحب ان کے نائب کی حیثیت سے درس دیتے تھے۔ واہ کینٹ جامع مسجد کی خطابت سنبھالنے سے قبل تک آپ اس دارالعلوم سے وابستہ رہے ۔ واہ کینٹ سے واپس آکر آپ نے اخوند مسجد کی امامت سنبھال لی ۔ اس وقت دارالعلوم امجدیہ بن چکا تھا۔ کچھ عرصہ بعد امجدیہ سے وابستہ ہوگئے اور یہ وابستگی آخری عمر تک قائم رہی ۔

حضرت قاری صاحب دارالعلوم امجدیہ کے محض ایک مدرس ہی نہیں تھے بلکہ انہیں اس ادارے سے قلبی لگاؤ تھا، اپنی علالت کے زمانے میں بھی دارالعلوم ضرور جاتے تھے۔ ٢٨/اپریل کو انہیں جب ہارٹ اٹیک ہوا اور ڈاکٹروں نے آنے جانے پر پابندی عائد کردی تو قاری صاحب نے پہلے تو پندرہ روز کی پھر اس کے بعد ڈیڑھ ماہ کی رخصت حاصل کی ۔ مگر طلبہ کے تعلیمی نقصان کا خیال کرکے قاری صاحب نے دارالعلوم کے ارکان کو اپنا استعفیٰ نامہ پیش کردیا انتظامیہ نے اسے منظور نہیں کےااس وقت انہوں نے فرمایا:

”میں دارالعلوم آنے کے لئے تیار ہوں آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے طاقت دے اور صحت اچھی ہوجائے کیوں کہ گذشتہ دنوں میں بعض اوقات جب کبھی میری طبیعت خراب بھی رہتی تھی جب بھی میں دارالعلوم امجدیہ جاتا تھا کیونکہ یہ میرے پیرومرشد کا مدرسہ ہے ”

بیعت:

حضرت قاری صاحب علیہ الرحمہ نے اپنی پوری زندگی کو حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی ہدایات کے مطابق استوار کیا ۔ ابتدائی تعلیم سے لے کر تکمیل دورہ حدیث تک اور روحانی میدان میں داخل ہونے کے لئے بھی ان کے مرشد اولین حافظ ملت ہی تھے وہ حافظ ملت کے سانچے میں ڈھل جانا چاہتے تھے۔ دوسری جانب حضور حافظ ملت کو ان سے اس قدر والہانہ پیار تھا کہ وہ انہیں اپنے مربی و مقتداء اور مرشد کامل کے دامن سے بلا واسطہ مربوط کرنا چاہتے تھے۔ قاری صاحب فرماتے ہیں :

”میری عمر تقریباً ٢١/سال یا اس سے کچھ کم تھی ، اس وقت میں ہدایہ کا امتحان دے چکا تھا، استاذ مکرم (حافظ ملت) سے ہم نے کہا کہ حضرت ہمیں مرید بنادیجئے ، تو انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے میں وقت پر تمہیں لے چلوں گا۔ جیسے ہی امتحان سے فارغ ہوئے تو مجھے اور میرے ساتھ مولانا سید عبدالحق جو انڈیا میںپیر طریقت کے نام سے مشہور ہیں ، ہم دونوں سے کہا کہ تم لوگ تیار ہوجاؤ میں تمہیں لے چلتا ہوں صدر الشریعہ سے بیعت کرنے کے لئے چنانچہ راستہ میں ہمیں ، پیر کے ساتھ کیا کرنا چاہیے بتاتے رہے مغرب کے بعد گاڑی پہنچی ۔ حضرت (صدر الشریعہ ) سے ملاقات ہوئی ۔ حافظ ملت نے حضرت سے عرض کی کہ میں ان کو سلسلہ میں داخل کرنے کے لئے لایا ہوں ، حضرت نے فرمایا ٹھیک ہے ، عشاء کی نماز کے بعد حضرت نے ہمیں اپنی غلامی میں لے لیا، یہ تقریباً ١٣٥٨ھ کا واقعہ ہے”

اس طرح حضور حافظ ملت نے قاری صاحب اور مولانا سید عبدالحق صاحب گجہڑوی کو گھوسی ”قادری منزل” لے جاکر خود حضرت صدر الشریعہ بدر الطریقہ علامہ حکیم ابو العلاء امجد علی قادری رضوی قدس سرہ کے دست مبارک پر بیعت کرایا ، قاری صاحب کے شجرہ شریف پر شعبان ١٣٥٨ھ تحریر ہے۔

سلسلہ بیعت کے علاوہ حافظ ملت علیہ الرحمہ کی کرم فرمائیوں سے ان حضرات نے حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ سے بخاری شریف کی آخری حدیث کا سبق بھی پڑھا اور شرف تلمذ حاصل کیا۔ اپنے ان محبوب تلامذہ کو صدر الشریعہ علیہ الرحمہ سے شرف تلمذ دلانے کے لئے بھی حافظ ملت نے ان کے ساتھ گھوسی کا سفر فرمایا۔

خلافت:

جس ہونہار بچے نے کمسنی میں حافظ ملت علیہ الرحمہ کے ہاتھوں علم کی چاشنی پالی تھی اور انہی کی زیر تربیت مبارکپور میں علوم اسلامیہ کی آگہی میںلگا ہوا تھا۔ شعور کی پختگی کے ساتھ اس میں توجہ الی اللہ اور سلوک کی راہ پر چلنے کا اشتیاق خود بخود ابھرنے لگا۔ چنانچہ بیعت کے بعد ایک مرتبہ حضور دصدر الشریعہ علیہ الرحمہ مبارکپور تشریف لائے تو قاری صاحب نے خدمت میں التجا کی کہ مجھے کچھ وظیفہ وغیرہ تعلیم فرمائیں۔

حضور صدر الشریعہ نے مسکرا کر جواب دیا:

”یہ جو کچھ کام (حصول علم دین) آپ کررہے ہیں آپ کے لئے یہی سب سے بڑا وظیفہ ہے ۔ ان شاء اللہ آگے چل کر میں آپ کو وظیفہ بتاؤں گا”

ناگپور کے زمانہ خطابت میں حضرت قاری صاحب کو اپنے پیرومرشد سے ملاقات کے مواقع ملتے رہے اور وہ اپنی روحانی ارتقائی منازل پر گامزن رہے۔ جامعہ رضویہ کا سالانہ اجلاس ہوا۔ حضرت صدر الشریعہ کی تشریف آوری ہوئی ۔ پروانوں کی بھیڑ میںحضرت قاری صاحب نے بھی قدمبوسی کا شرف پایا ۔ اختتام جلسہ کے بعد حضرت چھلواڑہ کے لئے روانہ ہوئے اور قاری صاحب کو بھی ہمراہ چلنے کا حکم فرمایا ۔ وہاں پہنچ کر جناب حاجی عبدالقادر صاحب کے دولت کدہ پر بزم نعت پاک کا انعقاد ہوا۔ حضور صدر الشریعہ کے جلو میں حضرت مولانا اشرف علی قادری اور مولانا نثار احمد مبارکپوری بھی موجود تھے۔ حب رسول کی سرمستی کا عالم تھا۔ لوگوں پر کیف و سرور چھایا ہوا تھا اور آنکھیں نم تھیں ۔ نعت خواں حضرات حضور سرور عالمیان محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں قصائد پڑھ رہے تھے اور مجلس پر وجد طاری تھا۔ اتنے میں حضرت قاری صاحب اپنی جگہ سے اٹھ کر پیرومرشد کے روبرو پہنچے اور عرض گزار ہوئے کہ سرکار ! آپ کے وسیلہ سے حضرت جامی علیہ الرحمہ کے اشعار کا سہارا لے کر میں بھی بارگاہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں ۔

پیرو مرشد نے اجازت دے دی ، پھر کیا تھا حضرت قاری صاحب نے اپنے محبت و عقیدت بھرے لہجے میں

 

غوث اعظم بمن بے سرو ساماں مددے
قبلہ دیں مددے کعبہ ایماں مددے


عشق رسول کے سوزو گداز نے قاری صاحب کی آواز کو تیرونشتر بنادیا تھا۔ ہر سینہ چھلنی اور ہر قلب بے قرار ہو اٹھا حضرت خود بھی روئے اور قاری صاحب نے بھی ہچکےاں بھر کر نعت نا تمام چھوڑ دی ۔ حضور صدر الشریعہ یہ دیکھ کر اپنی مسند سے اٹھے اور قاری صاحب کو بٹھالےا اور اسی روز اپنی خلافت سے سرفراز کیا۔ حضرت قاری صاحب کہنے لگے حضرت ! میں اس لائق نہیںہو ںیہ بوجھ بھلا میںکےسے برداشت کر سکتا ہوں ، فرمایا! جس کا کام ہے وہی اٹھائے گا۔ یہ واقعہ ١٩٤٦ء کا ہے ۔ اس وقت حضرت قاری صاحب کی عمر تقریباً ٢٩/سال تھی ۔

اس کے علاوہ آپ کو شہزادہ اعلیٰ حضرت حضور مفتی اعظم ہند مصطفی رضا خاں صاحب بریلوی قدست اسرار ہم نے ١٣٧٦ھ میں اپنی خلافت سے سرفراز کیا ۔ نیز ضیاء الامت حضرت مولانا ضیاء الدین صاحب مدنی خلیفہ امام احمد رضا قادری علیہ الرحمہ مقیم مدینہ منورہ کی طرف سے بھی حضرت قاری صاحب قبلہ کو سلسلہ قادریہ ، رضویہ ، سلسلہ سنوسیہ سلسلہ شاذلیہ ، سلسلہ منوریہ سلسلہ معمریہ اور سلسلہ اشرفیہ کی اجازت و خلافت سے نوازا گیا۔

حضرت مولانا ضیاء الدین مدنی اور مصلح اہلسنّت:

اپنی مودبانہ شرست (سادہ طبیعت) اور حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی اعلیٰ تربیت کے طفیل قاری صاحب کو شیخ العرب و العجم حضرت علامہ ضیاء الدین احمدمدنی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں بڑا قرب حاصل تھا، بلکہ وہ ان کے فرزند کی طرح تھے۔ قاری صاحب مدینہ طیبہ حاضری کے دوران مسجد نبوی شریف کے بعد سب سے زیادہ وقت حضرت کی خدمت میں دیتے اور حضرت کی خانقاہ ہی میں قیام کرتے اور خود حضرت کا یہ عالم تھا کہ وہ بھی حضرت قاری صاحب کو بہت پیار کرتے تھے اور مجلس ہوتی تو قاری صاحب سے زیادہ نعت سماعت فرماتے تھے۔ مدینہ طیبہ کی ملاقات کے دوران قاری صاحب نے راقم الحروف کو بتایا کہ حضرت ضیاء الملت علیہ الرحمہ اپنے کرم خاص سے فرماتے ہیں کہ میرے تمام مریدین آپ کے ہیں


واہ کینٹ کی خطابت:

پاکستان کے اکابر علماء اہلسنت کی نگاہ میں حضرت قاری صاحب کی کتنی وقعت اور قدرومنزلت تھی اس کا اندازہ لگانے کے لئے ایک واقعہ حاضر خدمت ہے ۔ علامہ عبدالحامد بدایونی محدث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد لائلپوری ، حضرت مولانا عارف اللہ شاہ صاحب اور حضرت پیر صاحب دیول شریف ، غزائی دوراں علامہ احمد سعید کاظمی ، پیر طریقت علامہ سید قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین اہلسنت کی ٹھوس بنیادی خدمات کے لئے آپ پر بے حد اعتماد کرتے تھے۔

واہ کینٹ کی جامع مسجد پاکستان میں بڑی مرکزی مساجد میں شمار ہوتی ہے جہاں بد مذہب گھسنے کی کوششیں کرتے رہے۔ ایک مرتبہ وہاں کے لئے امام کا تقرر ہونے والا تھا، جس کے لئے بڑی تعداد میں امیدوار تھے ۔

اس سلسلہ میںحضرت محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمہ نے قاری صاحب کو ٹیلی گرام بھجوایا کہ آپ اخوند مسجد میں کسی کو اپنی جگہ رکھ کر واہ کینٹ مسجد امامت کےلئے انٹرویو میں ضرور تشریف لے جائیں ، دوسری طرف سے حضرت مولانا عارف اللہ شاہ صاحب اور پیر صاحب دیول شریف نے بھی اسی مقصد کے لئے قاری صاحب کو ٹیلی گرام بھیجے ۔ بعد میں محدث اعظم پاکستان نے قاری صاحب کو اس بارے میں خط بھی تحریر فرمایا۔ بہر حال قاری صاحب نے اس معرکہ کو کسی طرح سر کیا اور صرف ڈیڑھ سال کے قلیل عرصے میںکتنی مقبولیت حاصل کی اور لوگوں کے دلوں میں کےسا مقام پیدا کیا کہ اس کے بعد جب انہیں اپنی کچھ ذاتی دشواریوں کے باعث وہاں کی خطابت سے ہٹنا پڑا تو وہاں کے لوگ دھاڑیں مار مار کر روتے تھے اور قاری صاحب کی راہ میں آنکھیں بچھاتے تھے۔ فیکٹری کی اس شاندار جامع مسجد میں ائمہ کو مسجد کمیٹی کے لوگ خود ہی تقریرکا موضوع دیتے تھے اور ائمہ کو ان ہی موضوعات پر تقریر کرنی ہوتی تھی ۔ حضرت قاری صاحب کی یہ خصوصیت تھی کہ وہ ہر موضوع کو عشق رسول ، اور محبت مصطفی کے سانچے میں ڈھال لیا کرتے تھے اور قرآن و احادیث کے حوالوں میںجب درد و سوز بھری آواز سے نعت حبیب پڑھتے تھے تو سننے والوں پر وجدانی کیفیت طاری ہوجایا کرتی تھی ۔

وہاں تقرری سے لے کر سبکدوشی تک کے واقعہ کو قاری صاحب خود بیان کرتے ہیں :

”ان حضرات کا اصرار تھا کہ آپ وہاں خو دجائیں ۔ چنانچہ میں وہاں پہنچا ، بارش بڑی شدید تھی ۔ بہر حال شام کے وقت میں وہاں پہنچا اور اس وقت مولانا عارف اللہ صاحب نے گاڑی کا بندوبست کیا اور ہم رات کو واہ کینٹ پہنچے اور وہاں رات کو سرکاری بنگلے میں قیام ہوا اور دن میں پھر وہاں پہنچے ۔ بہر حال یہ کہ پہلی تقریر مفتی لدھیانوی کی اور اس کے بعد دوسری تقریر میری ہوئی ۔ اس کے علاوہ اور تقریریں بھی ہوئیں اور اس کے بعد جو کمیٹی نے فیصلہ کیا ۔ زیادہ میرے حق میں دیا کہ آپ کو بحیثیت خطیب کے یہاں رکھا جاتا ہے ۔ چنانچہ میں ڈیڑھ سال تک خطیب رہا اور مغرب کے بعد درس قرآن ہوتا تھا اور صبح درس حدیث ہوا کرتا تھا۔ لوگ کثرت سے حاضر ہوا کرتے تھے اور پانچ دن کی محنت سے فیکٹری کا دیا ہوا موضوع جو ہوتا تھا۔ اس موضوع پر میں پوری تیاری کر کے آتا تھا۔ تو چنانچہ جب میں واہ کینٹ میں تھا، اجتماع بڑھتا رہا، چنانچہ حکومت کو مجبوراً ٣٥/ہزار کے شامےانے خریدنے پڑے اور بہت کافی انہوں نے انتظام کیا اور تقریباً مسجد بھری ہوتی تھی ۔ تقریباً ١٨/یا ١٩/ ہزار کا مجمع ہوا کرتا تھا اور ڈیڑھ سال کے بعد ہم پھر واپس اخوند مسجد آگئے ۔ کچھ اپنی مجبوریوں کی وجہ سے لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے”

 

زبان اہل دل سے بات جو باہر نکلتی ہے
تو لگتا ہے دلوں پر حیدری شمشیر چلتی ہے (بدر)


لائیں کہاں سے دوسرا تم سا کہیں جسے؟:

میمن مسجد میں عرس حامدی کی تقریب تھی ، بریلی شریف سے حجۃ الاسلام کے پوتے حضرت مولانا اختر رضا خاں ازہری مدظلہ العالی بھی آئے ہوئے تھے قاری صاحب نے ”روح اور موت” کے عنوان پر تقریر کی ۔ رات گزری دوسرا دن آیا ظہر کی امامت کرکے دولت خانے میں گئے تاکہ فاتحہ غوث الاعظم کی محفل میں شرکت کے لئے تیاری کریں ۔ اچانک دل کا دورہ پڑا اعزہ فوراً علاج کے لئے شفاء خانے لے کر چلے۔ مگر شافی حقیقی نے وہاں پہنچنے سے قبل ہی اپنے قرب میں بلالیا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون (بروز چہار شنبہ ساڑھے چار بجے دن ٧/جمادی الثانی ١٤٠٣ھ/ ٢٣/مارچ ١٩٨٣ء)

دوسرے روز ساڑھے دس بجے دن کم و بیش تیس ہزار مسلمانوں نے نماز جنازہ ادا کی جس کی امامت حضرت علامہ اختر رضا خاں قادری بریلوی جانشین مفتی اعظم ہند مدظلہ العالی نے فرمائی ۔ حکومت پاکستان نے آپ کے اعزاز میں کھوڑی گارڈن کا نام تبدیل کرکے آپ کے نام پر مصلح الدین گارڈن رکھا۔

کراچی میں حضرت قاری صاحب علیہ الرحمہ سیدنا امام احمد رضا قدس سرہ کے مشن کے مبلغ تھے۔ آج ان کے روضے کا گنبد ، بریلی شریف کے رضوی گنبد کا مثنی اہل محبت کی نگاہوں کا نور بنا ہوا ہے ۔ حضرت مصلح اہلسنت نے اپنی نیابت و خلافت کا باقاعدہ اعلان اپنی حیات ہی میں پنج شنبہ ٢٧/ جمادی الثانی ١٤٠٢ھ /٢٢/اپریل ١٩٨٢ء عشاء کی نماز کے بعد بمقام میمن مسجد مصلح الدین گارڈن ، بہت سے علماء مشائخ کی موجودگی میں ، اپنی روانگی عمرہ سے قبل کی تقریب سعید میں اپنے داماد حضرت مولانا سید شاہ تراب الحق قادری دامت برکاتہم العالیہ کے حق میں فرمادیا تھا اور انہیں خلافت نامے اور دستار سے سرفراز کردیا تھا۔ انتقال کے بعد سوئم کی فاتحہ کے موقع پر اس کی تجدید کے طور پر حضرت علامہ اختر رضا قادری قبلہ نے شاہ صاحب کی دستار بندی فرمائی اور قاری صاحب علیہ الرحمہ کے فرزند مصباح الدین کو ان کے سپرد کیا ۔ حضرت مصلح اہلسنت کے وصال پر جناب راغب

مراد آبادی نے تاریخ وفات لکھی

خوشا مصلح تھے قاری مصلح الدین
ہوئے دنیا سے رخصت سن کے یاسین
یہ تاریخ وفات ان کی ہے راغب
”تھے جان عصر قاری مصلح الدین” ٣ ٠ ٤ ١ ھ

حضرت مصلح اہلسنت علیہ الرحمہ نے ١٢/ حج کیے پہلا حج ١٩٥٤ء میں کیا اور ١٩٧٠ء میں سرکارغوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے دردولت پر بغداد شریف حاضری دی اور اپنا دامن شوق مرادوں سے بھرا۔

ازواج اور اولاد:

آپ کا پہلا نکاح والدین کریمین کی مرضی سے مبارک پور دارالعلوم اشرفیہ سے فراغت کے بعد ٢٤/ سال کی عمر میں ہوگیا تھا۔ اہلیہ محترمہ ٢/صاحبزادیاں چھوڑ کر انتقال کر گئیں ۔ ٣٠/سال کی عمر میں دوسرا نکاح جناب صوفی محمد حسین صاحب عباسی کی صاحبزادی سے ہوا۔ رب تعالیٰ نے حضرت قاری صاحب کو چار صاحبزادیاں اور تین فرزند محمد صلاح الدین ، محمد مصباح الدین ، محمد معین الدین عطا کیے۔ (اسعدھم اللہ تعالیٰ)

کہتی ہے ان کو خلق خدا غائبانہ کیا کیا:

حضرت مصلح اہلسنت نے دنیا میں اپنا مہد سے لحد تک کا وقفہ پور اکرلیا ، اب ہم لوگوں میں ان کی یادیں ان کے تذکرے اور کارناموں کے نقوش باقی ۔ لوگ زبان خلق کو نقارہ خدا کہتے ہیں ۔ حضرت مصلح اہلسنت کی ذات و صفات اور ان کے اخلاق و کردار کے بارے میں علماء مفکرین اور اہل دین و دیانت کیا کہتے ہیں ۔ اس آئینے میں ان کی گرانقدر شخصیت کو دیکھنا آسان ہے ۔ اس لئے ہم ”عرفان منزل ” کے ”مصلح الدین نمبر” سے کچھ اقوال منتخب کرتے ہیں

 

زر بکف ، گل پیرہن رنگین قباء آتش بجام
ایک قطرہ سو طرح سے سرخرو ہوکر رہا


٭۔۔۔۔۔۔ وہ حضرت مولانا قاری مصلح الدین صاحب ، اسم بامسمی ہیں۔ (حضرت شیخ ضیاء الدین مدنی علیہ الرحمہ)
٭۔۔۔۔۔۔ دنیا چند لوگوں کی وجہ سے قائم ہے اور ان میں سے ایک قاری مصلح الدین صدیقی ہیں۔ (حضرت شیخ ضیاء الدین مدنی علیہ الرحمہ)
٭۔۔۔۔۔۔ اگر کسی کو نیک طالب علم دیکھنا ہو تو مصلح الدین کو دیکھے، مصلح الدین میرا بیٹا ہے ۔(حافظ ملت محدث مبارکپوری علیہ الرحمہ )
٭۔۔۔۔۔۔ آپ کی ذات گرامی ایسی نہیں تھی جسے باآسانی فراموش کیا جاسکے ، یا اعتداد زمانہ ان کی یاد قلوب و اذہان سے محو کر سکے ۔ اس لئے کہ آپ صرف عالم ہی نہیں بلکہ عالم با عمل تھے۔ (حضرت علامہ تقدس علی خاں علیہ الرحمہ)
٭۔۔۔۔۔۔ انہوں نے مسلمانوں کو اپنی عملی زندگی کے ذریعہ اسلاف کی تعلیمات کے مطابق یہ درس دیا کہ وہ دین پر سختی سے قائم رہیں ۔ (علامہ مفتی وقار الدین علیہ الرحمہ)
٭۔۔۔۔۔۔ مختصر سی ملاقات ہوئی تھی دیکھنے سے علماء سلف کی یاد تازہ ہوگئی ۔( مولانا فیض احمد فیض ، گولڑہ شریف ، مصنف مہر منیر)
٭۔۔۔۔۔۔ وہ ایک عاشق رسول تھے تقویٰ عبادت اور ریاضت یہ تمام خوبیاں (ان میں) بدرجہ اتم موجود تھیں ۔ (علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری علیہ الرحمہ)
٭۔۔۔۔۔۔ اپنے معمولات کو انہوںنے خاص ترتیب سے رکھا ہوا تھا اور وہ ان پر تقریباً آخری دم تک قائم رہے۔ (علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری علیہ الرحمہ)
٭۔۔۔۔۔۔ (انہوں نے ) اپنے پیچھے اہلسنت کا ایک فیض و تربیت یافتہ عظیم قافلہ چھوڑا ہے جو ان کی پوری زندگی کا سرمایہ ۔ (مولانا مشاہد رضا خان قادری علیہ الرحمہ )
٭۔۔۔۔۔۔ وہ کبھی بھی بدمذہبوں اور بد عقیدہ افراد کے میل جول کو قطعاً پسند نہیں فرماتے تھے بلکہ ملنے جلنے سے بھی پرہیز فرماتے تھے۔ (ظفر علی نعمانی)
٭۔۔۔۔۔۔ قابل رشک ہے وہ شخصیت جس کی ہم نشینی خدا و رسول  کی محبت سے سرشار کردے۔ (علامہ عبدالحکیم شرف قادری لاہور)
٭۔۔۔۔۔۔ آپ کی ذات گرامی علماء اورصوفیائے کرام میں خاص توجہ اور عقیدت و محبت کا مظہر تھی جسے بھی آپ کی صحبت اور محبت میسر آئی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گرویدہ اور شیدائی بن کر رہ گیا ۔ (مولانا سید شاہ تراب الحق قادری )

خلیفہ اعلیٰ حضرت ، صدر الشریعہ ، بدر الطریقہ
مفتی ابو العلیٰ محمد امجد علی اعظمی
— علیہ الرحمۃ والرضوان —

 

شریعت کے صدرِشھیر ، طریقت کے بدر منیر ، محسنِ اھلسنّت ، خلیفہ اعلیٰ حضرت ، مصنفِ بہارِ شریعت حضرتِ علامہ مولانا الحاج مفتی محمد امجد علی اعظمی رضوی سنّی حنفی قادِری برکاتی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ۱۳۰۰ھ مطابق 1882ء میں مشرقی یوپی (ہند) کے قصبے گھوسی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدِ ماجد حکیم جمال الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور دادا حُضُور خدابخش رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فنِ طِب کے ماہِر تھے۔ اِبتدائی تعلیم اپنے دادا حضرت مولانا خدا بخش رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے گھر پر حاصل کی پھراپنے قصبہ ہی میں مدرَسہ ناصر العلوم میں جا کر گوپال گنج کے مولوی الہٰی بخش صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کچھ تعلیم حاصل کی۔ پھرجو نپورپہنچے اور اپنے چچا زاد بھائی اور اُستاذ مولانا محمد صدیق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کچھ اسباق پڑھے۔ پھرجامع معقولات ومنقولات حضرت علامہ ہدایت اللہ خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے اکتساب فیض کیا۔ پھر دورہ حدیث کی تکمیل پیلی بھیت میں اُستاذُ المحدثین حضرت مولانا وصی احمد محدث سُورَتی علیہ الرحمۃ سے کی۔ حضرت محدثِ سُورَتی علیہ الرحمۃ نے اپنے ہونہار شاگرد کی عَبقَری  صلاحیتوں کا اعتراف ان الفاظ میں کیا:

”مجھ سے اگر کسی نے پڑھا تو امجد علی نے۔”

حیرت انگیز قوتِ حافِظہ

آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا حافظہ بہت مضبوط تھا۔ ایک مرتبہ کتاب دیکھنے یا سننے سے برسوں تک ایسی یاد رہتی جیسے ابھی ابھی دیکھی یا سنی ہے۔ تین مرتبہ کسی عبارت کو پڑھ لیتے تو یاد ہو جاتی۔ ایک مرتبہ ارادہ کیا کہ” کافیہ” کی عبارت زَبانی یاد کی جائے تو فائدہ ہو گا تو پوری کتاب ایک ہی دن میں یاد کر لی!

تدریس کا آغاز

صوبہ بہار (ہند پَٹنہ) میں مدرسہ اھلسنّت ایک ممتاز درس گاہ تھی جہاں مُقتَدِر ہستیاں اپنے علم وفضل کے جوہر دکھا چکی تھیں۔ خود صدرالشَّریعہ رضی اللہ تعالی عنہ کے استاذِ محترم حضرت مُحدِث سُورَتی رحمۃ اللہ تعالی علیہ برسوں وہاں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہ چکے تھے۔ مُتَولّی مدرَسہ قاضی عبدالوحید مرحوم کی درخواست پر حضرت مُحدِّث سُورَتی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے مدرسہ اھلسنّت (پَٹنہ) کے صدر مُدَرِّس کے لئے صدرُالشَّریعہ رضی اللہ تعالی عنہ کا انتخاب فرمایا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ استاذ ِمحترم کی دعاؤں کے سائے میں”پٹنہ” پہنچے اور پہلے ہی سبق میں عُلوم کے ایسے دریا بہائے کہ عُلَماء وطَلَبہ اَش اَش کراُٹھے۔ قاضی عبدالوحید رحمۃ اللہ علیہ (جو خُود بھی مُتَبَحِّر عالم تھے) نے صدرُ الشریعہ رضی اللہ تعالی عنہ کی علمی وَجاہت اور انتِظامی صلاحیَّت سے مُتَأَثِّر ہوکر مدرَسہ کے تعلیمی اُمور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سِپُرد کر دئیے۔

اعلیٰ حضرت کی پہلی زیارت

کچھ عرصہ بعد قاضی عبدالوحید رحمۃ اللہ تعالی علیہ بانی مدرسہ اھلسنّت (پَٹنہ) شدید بیمار ہوگئے۔ قاضی صاحب ایک نہایت دیندار و دین پرور رئیس تھے۔ انکی پرہیزگاری ہی کی کشِش تھی کہ اعلٰی حضرت اورحضرت قبلہ مُحدِّث سُورَتی رحمۃ اللہ تعالی علیہ جیسے مصروف بُزُرگانِ دین قاضی صاحِب کی عیادت کے لئے کَشاں کَشاں روہیلکھنڈ سے پٹنہ تشریف لائے۔ اسی موقع پر حضرت صدر الشریعہ نے پھلی بار اعلیٰ حضرت کی زیارت کی اور آپ کا دل اعلی حضرت کی طرف مائل ہو گیا اور اپنے استاذِ محترم کے مشورے سے سلسلہ عالیہ قادریہ میں اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ سے بَیعَت ہوگئے۔ انہی دنوں میں قاضی صاحب نے وفات پائی۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور محدِّث سورَتی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے قبر میں اُتارا۔ اللہُ رَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ھماری مغفِرت ہو۔

عِلْمِ طِبّ کی تحصیل اور مراجعت

قاضی صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی رِحلت کے بعد مدرسہ کا انتظام جن لوگوں کے ہاتھ میں آیا ، ان کے نامناسب اقدامات کی وجہ سے صدر الشریعہ علیہ رحمۃُ ربِّ الورٰی سخت کبیدہ خاطر اور دل برداشتہ ہوگئے اور سالانہ تعطیلات میں اپنے گھر پہنچنے کے بعد اپنا استعفاء بھجوادیا اور مطالعہ کُتُب میں مصروف ہوگئے۔ پٹنہ میں مغرب زدہ لوگوں کے بُرے برتاؤ سے متاثر ہو کر ملازمت کی چپقلش سے بیزار ہو چکے تھے۔ معاش کے لئے کسی مناسب مشغلہ کی جستجو تھی۔ والد محترم کی نصیحت یاد آئی کہ

میراثِ پدر خوا ہی علمِ پدر آموز
یعنی والد کی میراث حاصل کرنا چاہتے ہوتو والد کا علم سیکھو

خیال آیا کہ کیوں نہ علم طب کی تحصیل کر کے خاندانی پیشہ طبابت ہی کو مشغلہ بنائیں۔ چنانچہ شوال ۱۳۲۶ھ میں لکھنؤ جا کر دو سال میں علم طب کی تحصیل و تکمیل کے بعد وطن واپس ہوئے اور مطب شروع کر دیا۔ خاندانی پیشہ اور خداداد قابلیت کی بنا پر مطب نہایت کامیابی کے ساتھ چل پڑا۔

صدر ِ شریعت اعلیٰ حضرت کی بارگاہِ میں

ذریعہ معاش سے مطمئن ہوکر جُمادِی الاوُلیٰ ۱۳۲۹ھ میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کسی کام سے” لکھنؤ ”تشریف لے گئے۔ وہاں سے اپنے اُستاذِ محترم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں ”پیلی بھیت” حاضر ہوئے۔ حضرت محدث سورتی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کو جب معلوم ہوا کہ ان کا ہونہار شاگرد تدریس چھوڑ کر مطب میں مشغول ہوگیا ہے تو انہیں بے حد افسوس ہوا۔ حضرت صدر الشریعہ بریلی شریف جانے لگے تو ایک خط اعلی حضرت کی خدمت میں تحریر فرما کر دے دیا اس میں اعلی حضرت سے مولانا امجد علی کو علم دین کی جانب متوجہ کرنے کی گزارش کی گئی تھی۔

طَبابت سے دینی خدمت کی طرف مُراجَعَت

صدرُ الشریعہ رضی اللہ تعالی عنہ خود فرماتے ہیں:

 

میں جب اعلیٰ حضرت کی بارگاہ میں حاضِر ہوا تو دریافت فرمایا: مولانا کیا کرتے ہیں؟ میں نے عرض کی: مَطَب کرتا ہوں۔ اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : ”مطب بھی اچھا کام ہے ، اَلْعِلْمُ عِلْمَانِ عِلْمُ الْاَدْیَانِ وَعِلْمُ الْاَبْدَان (یعنی علم دو ہیں ؛ علمِ دین اور علمِ طبّ)۔ مگر مطب کرنے میں یہ خرابی ہے کہ صبح صبح قارورہ (یعنی پیشاب) دیکھنا پڑتا ہے۔” اِس ارشاد کے بعد مجھے قارورہ (پیشاب) دیکھنے سے انتہائی نفرت ہوگئی اور یہ اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کا کشف تھا کیونکہ میں اَمراض کی تشخیص میں قارورہ (یعنی پیشاب) ہی سے مدد لیتا تھا (اور واقعی صبح صبح مریضوں کا قارورہ ( پیشاب) دیکھنا پڑ جاتا تھا) اور یہ تَصَرُّف تھا کہ قارُورہ بینی یعنی مریضوں کا پیشاب دیکھنے سے نفرت ہوگئی۔

بریلی شریف میں دوبارہ حاضِری

گھر جانے کے چند ماہ بعد بریلی شریف سے خط پہنچا کہ آپ فوراً چلے آئیے۔ چُنانچِہ صدر الشریعہ علیہ رحمۃُ ربِّ الورٰی دوبارہ بریلی شریف حاضِر ہوگئے۔ اس مرتبہ ”انجمن اھلسنّت” کی نظامت اور اس کے پریس کے اہتمام کے علاوہ مدرسہ کا کچھ تعلیمی کام بھی سِپُرد کیا گیا۔ گویا اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت نے بریلی شریف میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مستقل قِیام کا انتِظام فرما دیا۔ اس طرح صدرُ الشریعہ رضی اللہ تعالی عنہ نے 18 سال اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کی صحبت بابرکت میں گزارے۔

بریلی شریف میں مصروفیات

بریلی شریف میں دو مستقل کام تھے ایک دار العلوم منظر الاسلام  میں تدریس ، دوسرا اہلسنت  پریس کا کام یعنی کاپیوں اورپُرُوفوں کی تصحیح ، کتابوں کی روانگی ، خُطوط کے جواب ، آمد وخرچ کے حساب ، یہ سارے کام تنہا انجام دیا کرتے تھے۔ ان کاموں کے علاوہ اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کے بعض مُسَوَّدات کا مَبِیضہ کرنا (یعنی نئے سرے سے صاف لکھنا) ، فتووں کی نقل اور ان کی خدمت میں رہ کر فتوٰی لکھنا یہ کا م بھی مستقل طور پر انجام دیتے تھے۔ پھر شہر و بیرونِ شہر کے اکثر تبلیغِ دین کے جلسوں میں بھی شرکت فرماتے تھے۔

کاموں کی تقسیم یوں تھی کہ بعد نمازِ فَجر ضَروری وظائف و تلاوتِ قراٰن کے بعد گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ پریس کا کام انجام دیتے۔ پھر فوراً مدرَسہ جاکر تدریس فرماتے۔ دوپَہَر کے کھانے کے بعد مُستَقِلا کچھ دیر تک پھر پریس کا کام انجام دیتے۔ نماز ِظہر کے بعد عَصر تک پھر مدرَسہ میں تعلیم دیتے۔ بعد نَمازِ عصر مغرِب تک اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں نشست فرماتے۔ بعدِ مغرِب عشاء تک اور عشاء کے بعد سے بارہ بجے تک اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں فتوٰی نَویسی کا کام انجام دیتے۔ اسکے بعد گھر واپَسی ہوتی اور کچھ تحریری کام کرنے کے بعد تقریباً دو بجے شب میں آرام فرماتے۔ اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کے اخیر زمانہ حیات تک یعنی کم وبیش دس برس تک روزمرَّہ کا یہی معمول رہا۔ حضرتِ کی اس محنت شاقّہ وعزم واستقلال سے اُس دَور کے اکابِر علماء حیران تھے۔ اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کے بھائی مولانا محمد رضاخان علیہ رحمۃاللہ تعالی علیہ فرماتے تھے کہ مولانا امجد علی کام کی مشین ہیں اور وہ بھی ایسی مشین جو کبھی فیل نہ ہو۔

اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کے کئے ہوئے قرآنِ پاک کا ترجمہ ”کنزالایمان” آپ ہی کی کاوشوں کا ایک ناقابل فراموش کارنامہ ہے۔اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کو خود قرآن پاک کے ترجمہ کی ضرورت کا احساس تھا، لیکن تصنیف وتالیف اور دیگر علمی مصروفیات کے بے پناہ ہجوم کی وجہ سے اس کام میں تاخیر ہوتی رہی۔ آخر ایک دن صدر الشریعہ نے ترجمہ شروع کرنے کی درخواست کی۔ اعلی حضرت نے اسی وقت ترجمہ شروع کردیا۔ پہلے پہل ایک آیت کا ترجمہ ہوتا، پھر محسوس کرکے کہ اس طرح تکمیل میں بہت دیر لگ جائے گی۔ ایک ایک رکوع کا ترجمہ ہونے لگا۔ اس سلسلے میں حضرت صدر الشریعہ بعض اوقات رات کے دودو بجے تک مصروف رہتے۔

صدرُ الشَّریعہ کا خطاب کس نے دیا؟

حضرت مولانا امجد علی اعظمی رضی اللہ تعالی عنہ کو اللہ تعالی نے جملہ علوم و فنون میں مہارت تامہ عطا فرمائی تھی  لیکن انہیں تفسیر ، حدیث ، اور فقہ سے خصوصی لگاؤ تھا۔ فقہی جزئیات ہمیشہ نوک زبان پر رہتی تھیں۔ اسی بنا پر دور حاضر کے مجدد امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ نے آپ کو صدر الشریعہ کا لقب عطا فرمایا تھا۔

قاضی شرع

ایک دن صبح تقریباً 9 بجے ، اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَھلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رضا خان رضی اللہ تعالی عنہ مکان سے باہَر تشریف لائے ، تخت پرقالین بچھانے کا حکم فرمایا۔ سب حاضِرین حیرت زدہ تھے کہ حضور یہ اِہتمام کس لئے فرمارہے ہیں! پھر اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ ایک کرسی پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا کہ میں آج بریلی میں دارُ القَضاء بریلی کے قِیام کی بنیاد رکھتا ہوں اور صدرُ الشریعہ کو اپنی طرف بلا کر ان کا داہنا ہاتھ اپنے دستِ مبارَک میں لے کر قاضی کے منصب پر بٹھا کر فرمایا:

 

”میں آپ کو ہندوستان کے لئے قاضی شَرع مقرَّر کرتا ہوں۔ مسلمانوں کے درمیان اگر ایسے کوئی مسائل پیدا ہوں جن کا شرعی فیصلہ قاضی شَرع ہی کرسکتا ہے وہ قاضی شَرعی کا اختیار آپ کے ذمّے ہے۔”

پھرتاجدارِ اھلسنّت مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مصطَفٰے رضاخان علیہ الرحمۃ اوربُرہانِ ملّت حضرتِ علامہ مفتی محمد برہانُ الحق رضوی علیہ الرحمۃ  کو دارالقَضاء بریلی میں مفتی شَرع کی حیثیَّت سے مقرر فرمایا۔ پھر دُعا پڑھ کر کچھ کلمات ارشاد فرمائے جن کا اقرار حضرتِ صدرُ الشَّریعہ علیہ الرحمۃُ نے کیا۔ صدرُ الشَّریعہ علیہ الرحمۃُ نے دوسرے ہی دن قاضی شَرع کی حیثیَّت سے پھلی نِشَست کی اور وِراثَت کے ایک معامَلہ کا فیصلہ فرمایا۔

اعلٰی حضرت کےجنازے کے لئے وصیت

اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی نَمازِ جنازہ کے بارے میں یہ وصیَّت فرمائی تھی کہ

”المنّۃُ المُمْتازہ” میں نمازِ جنازہ کی جتنی دعائیں منقول ہیں اگر حامد رضا کو یاد ہوں تو وہ میری نماز ِجنازہ پڑھائیں ورنہ مولوی امجد علی صاحِب پڑھائیں۔

حضرتِ حُجَّۃُ الْاِسلام (حضرت مولانا حامد رضا خان) چُونکہ آپ کے” وَلی” تھے اسلئے انکو مقدَّم فرمایا ، وہ بھی مَشرُوط طور پر اور انکے بعد اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کی نگاہِ انتخاب اپنی نمازِ جنازہ کے لئے جس پر پڑی وہ بھی بلا شرط ، وہ ذات صدرُ الشَّریعہ ، بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی کی تھی۔

فرائض واجبات اور سنن پر مدامت

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے معمولات قراٰن وسنّت کے مطابِق تھے ، گفتگو بھی نِہایت مہذَّب ہوتی ، کوئی ناشائستہ یا غیر مُہذَّب لفظ استعمال نہ فرماتے اور آپ کی مجلس غیبت ، چغلی ، دوسروں کی بدخواہی ، عیب جوئی وغیرہ سے پاک ہوتی تھی۔

حضرتِ حافِظِ ملّت فرماتے ہیں:

”میں دس سال حضرتِ صدرُ الشریعہ رضی اللہ تعالی عنہ کی کفش برداری (یعنی خدمت) میں رہا ، آپ کو ہمیشہ مُتَّبِع سنّت پایا۔

حضرتِ صدرُ الشَّریعہ ، بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رضی اللہ تعالی عنہ اس پربَہُت سختی سے پابند تھے کہ مسجد میں حاضِر ہو کر باجماعت نماز پڑھیں۔ بلکہ اگر کسی وجہ سے مؤذِّن صاحِب وقتِ مقرَّرہ پر نہ پہنچتے تو خود اذان دیتے۔ قدیم دولت خانے سے مسجد بِالکل قریب تھی وہاں تو کوئی دِقّت نہیں تھی لیکن جب نئے دولت خانے قادِری منزل میں رہائش پذیر ہوئے تو آس پاس میں دو مسجدیں تھیں۔ ایک بازار کی مسجد دوسری بڑے بھائی کے مکان کے پاس جو” نوّاکی مسجد” کے نام سے مشہور ہے۔ یہ دونوں مسجدیں فاصلے پر تھیں۔ اس وقت بینائی بھی کمزور ہو چکی تھی ، بازار والی مسجد نِسبتاً قریب تھی مگر راستے میں بے تکی نالیاں تھیں۔ اسلئے ”نوا کی مسجد” نماز پڑھنے آتے تھے۔ ایک دَفعہ ایسا ہوا کہ صبح کی نَماز کے لئے جا رہے تھے ، راستے میں ایک کُنواں تھا ، ابھی کچھ اندھیرا تھا اور راستہ بھی ناہموار تھا ، بے خیالی میں کُنوہں پر چڑھ گئے قریب تھا کہ کنویں کے غار میں قدم رکھ دیتے۔ اتنے میں ایک عورت آگئی اور زور سے چِلائی ! ”ارے مولوی صاحِب کُنواں ہے رُک جاؤ! ورنہ گر پڑیو!” یہ سنکر حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے قدم روک لیا اور پھر کنویں سے اتر کر مسجِد گئے۔ اس کے باوُجود مسجد کی حاضِری نہیں چھوڑی۔

صبر و تحمل

بڑے صاحبزادے حضرت مولانا حکیم شمسُ الہُدٰی صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا انتقال ہو گیا تو صدر الشریعہ رضی اللہ تعالی عنہ اُس وقت نمازِ تراویح ادا کر رہے تھے۔ اطلاع دی گئی تشریف لائے۔ ”اِنا للہ وانا الیہ راجعون ” پڑھا اور فرمایا: ابھی آٹھ رَکعت تراویح باقی ہیں ، پھر نَماز میں مصروف ہوگئے

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی شہزادی ”بنو” سخت بیمار تھیں۔ اِس دَوران ایک دن بعد نمازِ فجر حضرت صدر الشَّریعہ رضی اللہ تعالی عنہ نے قراٰن خوانی کے لیے طَلَبہ و حاضِرین کو روکا۔ بعدِ ختم ِقراٰنِ مجید آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مجلس کو خطاب فرمایا کہ میری بیٹی” بنو” کی علالت (بیماری) طویل ہو گئی ، کوئی علاج کارگر نہیں ہوا اور فائدے کی کوئی صورت نہیں نکل رہی ہے ، آج شب میں نے خواب دیکھا کہ سروَرِ کونین ، رحمتِ عالم روحی فداہ گھر میں تشریف لائے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ ”بنو” کو لینے آئے ہیں۔ سیِّدالانام حضورِ اکرم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کو خواب میں دیکھنا بھی حقیقت میں بِلا شُبہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم ہی کو دیکھنا ہے۔ بنو کی دنیُوَی زندگی اب پوری ہوچکی ہے۔ مگر وہ بڑی ہی خوش نصیب ہے کہ اسے آقا و مولیٰ ، رحمتِ عالم ، محبوبِ ربُّ الْعٰلمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم لینے کے لیے تشریف لائے اور میں نے خوشی سے سِپرد کیا۔

اصلاح کرنے کا انداز

اولاد اور طلبہ کی عملی تعلیم وتربیت کا بھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خُصُوصی خیال فرماتے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا تقویٰ وَتَدیُّن (یعنی دین داری) اس اَمر کا مُتَحَمِّل ہی نہ تھا کہ کوئی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سامنے خِلافِ شرع کام کرے۔ اگر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے علم میں طَلَبہ یا اولاد کے بارے میں کوئی ایسی بات آتی جو احکامِ شریعت کے خِلاف ہوتی تو چِہرہ مبارَکہ کا رنگ بدل جاتا تھا ، کبھی شدید ترین بَرہمی کبھی زَجروتَوبیخ (ڈانٹ ڈَپَٹ) اور کبھی تَنبِیہ وسزا اور کبھی مَوعِظہ حَسَنہ غرض جس مقام پر جو طریقہ بھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مناسِب خیال فرماتے استِعمال میں لاتے تھے۔

خلیلِ ملّت حضرتِ مفتی محمد خلیل خان برکاتی علیہ رحمۃ الباقی فرماتے ہیں:

طَلَبہ کی طرف التِفاتِ تام (یعنی بھر پور توجُّہ )کا اندازہ اس واقِعہ سے لگایئے کہ فقیر کو ایک مرتبہ ایک مسئلہ تحریر کرنے میں اُلجھن پیش آئی ، الحمد للہ میرے استاذِ گرامی ، حضرتِ صدرُ الشَّریعہ علیہ رحمۃُ ربِّ الورٰی نے خواب میں تشریف لا کر ارشاد فرمایا:”بہارِ شریعت کافُلاں حصہ دیکھ لو۔” صبح کو اُٹھ کر بہارِ شریعت اٹھائی اور مسئلہ حل کر لیا۔ وصال شریف کے بعد فقیر نے خواب میں دیکھا کہ حضرتِ صدرُ الشَّریعہ علیہ رحمۃُ ربِّ الورٰی درسِ حدیث دے رہے ہیں ، مسلم شریف سامنے ہے اورشَفاف لباس میں ملبوس تشریف فرما ہیں ، مجھ سے فرمایا: آؤ تم بھی مسلم شریف پڑھ لو۔

حضرتِ شاہِ عالم کا تخت

حضرتِ سیِّدُنا شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ بَہُت بڑے عالمِ دین اور پائے کے ولیُّ اللہ تھے۔ ایک بار بیمار ہوکر صاحبِ فَراش ہوگئے۔ تقریباً چالیس دن کے بعد صحّت یاب ہوئے اور مدرَسے میں تشریف لاکر حسبِ معمول اپنے تخت پر تشریف فرما ہوئے۔ چالیس دن پہلے جہاں سبق چھوڑا تھا وَہیں سے پڑھانا شروع کیا۔ طَلَبہ نے متَعَجِّب ہوکر عرض کی: حضور: آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ مضمون تو بَہت پہلے پڑھادیا ہے گزَشتہ کل تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فُلاں سبق پڑھایا تھا! یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فورًا مُراقِب ہوئے۔ اُسی وقت سرکارِ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی زِیارت ہوئی۔ سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے لبہائے مبارَکہ کو جنبش ہوئی، فرمایا: ”شاہِ عالم! تمہیں اپنے اَسباق رہ جانے کا بہت افسوس تھا لہٰذا تمہاری جگہ تمہاری صورت میں تخت پر بیٹھ کر میں روزانہ سبق پڑھا دیا کرتا تھا۔” لہٰذا فورًا تخت پر سے اُٹھ گئےاور تخت کو مسجِد میں مُعَلَّق کردیا گیا۔ اس کے بعد حضرتِ سیِّدنا شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کیلئے دوسرا تخت بنایا گیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے وِصال کے بعد اُس تخت کو بھی یہاں مُعلّق کردیا گیا۔اِس مقام پر دُعا قَبول ہوتی ہے۔

ایک بار خلیفہ صدر الشریعۃ قاری محمد مصلح الدین صدیقی رحمۃ اللہ علیہ صدر الشریعۃ کے ہمراہ حضرت سیدنا شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے دربار میں حاضری کی سعادت حاصل کی اور دونوں تختوں کے نیچے حاضر ہوکر اپنے اپنے دل کی دعائیں کیں۔ جب فارغ ہوئے تو قاری صاحب نے عرض کی : حُضور! آپ نے کیا دعا مانگی؟ فرمایا: ”ہر سال حج نصیب ہونے کی۔” میں سمجھا حضرت کی دُعا کا مَنشا یِہی ہوگا کہ جب تک زِندہ رہوں حج کی سعادت ملے۔ لیکن یہ دُعا بھی خوب قبول ہوئی کہ اُسی سال حج کا قَصد فرمایا۔ سفینہ مدینہ میں سَوار ہونے کیلئے اپنے وطن مدینۃ العلماء گھوسی ( ضِلع اعظم گڑھ) سے بمبئی تشریف لائے۔ یہاں آپ کو نُمونیہ ہوگیا اورسفینے میں سوار ہونے سے قبل ہی ۱۳۶۷ کے ذیقعدۃُ الحرام کی دوسری شب 12 بجکر 26 مِنَٹ پر بمطابِق 6 ستمبر 1948 کوآپ وفات پاگئے۔

سبحٰنَ اللہ مبارَک تخت کے تحت مانگی ہوئی دُعا کچھ ایسی قبول ہوئی کہ اب آپ اِن شَاءَ اللہ عزّوجل قِیامت تک حج کا ثواب حاصِل کرتے رہیں گے۔ خود حضرتِ صدرالشّریعہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی مشہور زمانہ کتاب بہارِ شریعت حصّہ 6 صَفْحَہ 5 پر یہ حدیثِ پاک نقل کی ہے:

جو حج کیلئے نکلا اور فوت ہوگیا تو قِیامت تک اُس کے لئے حج کرنے والے کا ثواب لکھا جائے گا اور جو عمرہ کیلئے نکلا اور فوت ہوگیا اُس کیلئے قِیامت تک عمرہ کرنے والے کا ثواب لکھا جائے گا اور جو جہاد میں گیا اور فوت ہوگیا اس کیلئے قِیامت تک غازی کا ثواب لکھا جائے گا۔ (مسند أبي یعلی ، حدیث ۶۳۲۷ دارالکتب العلمیۃ بیروت)

اس آیتِ مبارَکہ سے آپ کی وفات کامادَّہ تاریخ نکلتا ہے۔

اِنَّ الْمُتَّقِیۡنَ فِیۡ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوۡنٍ
7        6         3        1

بعدِ وفات حضرتِ صدُر الشَّریعہ رضی اللہ تعالی عنہ کے وُجود ِ مسعود کو بذریعہ ٹرین بمبئی سے مدینۃُ العُلَماء گھوسی لے جایا گیا۔ وہیں آپ کا مزارِ مبارک مرجعِ خواص وعوام ہے۔

اللہ رب العزت عزوجل کی صدر ِشریعت پر رحمت ہو اوران کے صدقے ہماری مغفِرت ہو۔۔۔ آمین!!

آزادی کی بنیاد ڈالنے والا سب سے بڑا مجاہد جس کو تاریخ دانوں نے بُھلا دیا، مؤرّخین نے جس کے ساتھ انصاف نہیں کہا، لکھنے والوں نے جس کے ساتھ عدل نہیں کیا۔ وہ آپ جانتے ہیں کون ہے جس نے آزادی کا سب سے پہلا پتھر رکھا؟ جس نے آزادی کا سب سے پہلے سنگ بنیاد رکھا؟ وہ مرد مجاہد حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اﷲ علیہ تھے۔

ہندوستان کی سر زمین پر فرنگی نصرانیوں کی آمد عہد جہانگیری میں شروع ہوئی جبکہ اس کیلئے اکبری دو رمیں راہ ہموار ہوچکی تھی۔ دولتِ ہندوستان کی طمع نے برطانیہ کے انگریزوں، فرانسیسیوں اور پرتگالیوں کو ایشیاء کے اس خطہ برصغیر کی طرف متوجہ کیا۔ انگریزوں نے تجارت کی آڑ میں ایسٹ انڈیا کمپنی قائم کی اور اپنے مفادات کے اہداف کا دائرہ وسیع کرتے کرتے پہلے جنوبی ہندوستان پر اپنا تسلط قائم کرنیکی کوشش کی ، ہندوستان کے مغل فرمانرواؤں کی خاموشی سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے دیگر ریاستوں کے حکمرانوں (جن میں ہندواور مسلمان دونوں شامل ہیں) سے دوستی شروع کی۔ ولی صفت مغل فرمانروا حضرت مجدد مأتہ اثنا عشر محی الدین اورنگزیب عالمگیر علیہ الرحمۃ کے وصال کے بعد انگریزوں کی ریشہ دوانیوں اور مکاریوں کا دائرہ وسیع ہوگیا، اورنگزیب عالمگیر علیہ الرحمۃ کے جانشینوں کی کمزوری کے باعث مغل سلطنت سمٹنے لگی دیگر ہندو راجاؤں اور مسلمان نوابوں کو انگریزوں نے آپس میں ایک دوسرے سے بر سر پیکار کردیا اور ہر دو فریق مسلمانوں اور ہندؤوں کو جدید وسائل کے لالچ میں مکارانہ دوستی اختیار کرنے کی تلقین کرنے لگے ۔ ایسے ہی موقع پر اللہ تعالیٰ نے سلطان حیدر علی علیہ الرحمۃ ، سلطان ٹیپو شہید علیہ الرحمۃ اور سراج الدولہ علیہ الرحمۃ کو اسلامیانِ برصغیر کی قیادت عطا کی لیکن نظام دکن، راجہ پونا، نواب اراکاٹ اور مغلوں کی عدم توجہ ، سلطنتِ عثمانیہ کے اپنے مسائل اور بعض غدارانِ وطن (میر جعفر، میر صادق وغیرہ) کے باعث پورے ہندوستان پر انگریزوں کا غاصبانہ قبضہ ہوگیا ازاں بعدہندوستان کے وسائل سے اہل ہندوستان کو محروم رکھا جانے لگا، ظلم و ستم سے عوام و خواص، نوابین و حکما ء اور دانشور وعلماء کوئی بھی محفوظ نہ رہے۔ سلطنت مغلیہ کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کو ایک صبح ناشتے میں ان کے شہزادگان کے کٹے ہوئے سر پیش کئے ۔ ایسے موقع پر اسلامیانِ ہندوستان کی قوت کو ایک مرکز پر مجتمع کرنے کیلئے اور روح جہاد پھونکنے کیلئے علماء اہلسنّت کا ایک گروہ بطلِ حریت امام المتکلمین علامہ فضل حق خیر آبادی کی قیادت میں انگریزوں کے خلاف صف آراء ہوا۔ ہندو فطرتاً بزدل واقع ہوئے ہیں لہٰذا ان سے کسی خیر کی توقع نہ تھی اس لئے مسلمانوں میں جذبہ حریت بیدار کرنے کیلئے علامہ فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمۃ نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا۔ ہندوستان کے تمام اجلّہ و مقتدر علماء کرام نے اس کی تائید و توثیق فرمائی۔

بطلِ حریّت، مجاہد ملت، میرکاروان جنگِ آزادی علامہ فضل حق خیر آبادی عمری حنفی ماتریدی چشتی ١٢١٢ھ بمطابق ١٧٩٧ء میں اپنے آبائی وطن خیر البلاد خیر آباد میں پیدا ہوئے، آپ کے والد ماجد مولانا فصل امام خیر آبادی علماءِ عصر میں ممتاز اور علوم عقلیہ کے اعلیٰ درجہ پر سرفراز تھے، حضرت علامہ کے دادا حضرت مولانا راشد ہرگام پور سے خیر آباد تشریف لا کر سکونت پذیر ہوئے تھے۔ (سیرت علامہ فضل حق خیر آبادی، ماخوذ از خون کے آنسو، ص٦، تذکرہ علماء ہند، ص١٦٤)

تمام علوم عقلیہ و نقلیہ اپنے والد حضرت فضل امام خیر آبادی سے حاصل کئے اور حدیث شریف محدِّث شہیر شاہ عبدالقادر محدّث دہلوی سے دہلی میں حاصل کی (مقدمۃ الیواقیت المہریہ، ص٤)، چنانچہ حضرت علامہ نے ١٢٢٥ھ بمطابق ١٨٠٩ء تیرہ سال کی عمر میں تمام مروجہ علوم عقلیہ و نقلیہ کی تکمیل کی اور چار ماہ کچھ روز میں قرآن شریف حفظ کیا۔ (سیرت علامہ فضل حق خیر آبادی، ص١٢۔ مقدمۃ الیواقیت المہریہ، ص٤)

علامہ مشتاق احمد نظامی لکھتے ہیں: مولانا فضل حق نے آنکھ کھولی تو گرد و پیش علم و فضل، عمارت و ریاست کو جلوہ گر دیکھا۔۔۔۔۔۔جس وقت علامہ فضل خیر آباد سے دہلی پہنچے تو ایک سے بڑھ کر ایک باکمال نظر آئے، مُفسِّرین، محدِّثین، فقہاء، فلاسفہ، اولیاء، شعراء۔۔۔۔۔۔ جس طبقے پر نظر ڈالئے تو سب ہی موجود تھے، آپ کے والد ماجد مکان کے علاوہ ہاتھی اور پالکی پر بھی دربار جاتے وقت ساتھ بٹھا کر درس دیتے تھے، اور صغر سنی ہی سے معقولات میں اپنے جیسا یگانہ روزگار بنا لیا تھا اور منقولات کی تحصیل کے لئے شاہ عبدالقادر مُحدِّث رحمۃ اللہ علیہ، شاہ عبدالعزیز مُحدِّث رحمۃ اللہ علیہ کی درس گاہ تک پہنچا دیا۔ (سیرت علامہ فضل حق خیر آبادی، ص١٢)

حضرت کے علمی مقام اور ان کی علمی جلالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ اپنے معاصرین میں بی نظیر اور حد درجہ ممتاز تھے۔ آپ تقدیس الٰہی جلّ و علا اور ناموسِ رسالت علیہ التحیۃ و الثناء کے محافظ اور اسلام اور اہلِ اسلام کے خیر خواہ اور اہلسنّت کے ان علماء میں سے تھے جن کا نام ”تاریخ ہند” میں ہمیشہ سنہری حرفوں سے لکھا جائے گا۔

علامہ محمد فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمۃ میں ایمانی غیرت و حمیت دیگر علماء کے مقابلہ میں بام عروج پر نظر آتی ہے، اس کی وجہ یقینا یہ ہے کہ آپ بتیس ٣٢ واسطوں سے خلیفہ ثانی سید نا فارقِ اعظم رضی اللہ عنہ، کی اولاد میں سے ہیں۔

آپ علیہ الرحمہ دہلی آئے اور تاریخ سے آپ کی بہادر شاہ ظفر سے ملاقات بھی ثابت ہے۔ منشی جیون لال کا ”روزنامچہ” ١٦/ اگست ، ٢ ستمبر، ٦ ستمبر اور ٧ ستمبر ١٨٥٧ء کو ملاقات ثابت کرتا ہے (دیکھئے غدر کی صبح و شام، ”روزنامچہ منشی جیون لال”، ص٢١٧، ٢٤٠، ٢٤٦، ٢٤٧)

اور علامہ عبد الحکیم شرف قادری اس کے تحت لکھتے ہیں: اس ”روزنامچہ” سے علامہ کی باخبری اور انقلابی سرگرمیوں کا اندازہ ہوتا ہے، اور علامہ نے موجودہ صورت حال کے متعلق بادشاہ سے گفتگو کی۔ (باغی ہندوستان ترجمۃ الثورۃ الہندیۃ،حرف آغاز، ص١٤١، مطبوعہ: الممتاز پبلی کیشنز، لاہور)

اور اس کے بعد میں علامہ فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمہ نے دیکھا کہ یہ انگریز ہمارے ذہنوں میں چھا جائے گا۔ مسلمان کی نسل کشی کرے گا۔ ہمارے مذہب اور تشخّص کو تباہ وبرباد کردے گا۔ علامہ فضل حق خیر آبادی نے ١٨٥٧ء میں دہلی میں بیٹھ کر انگریز کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا۔ علامہ مشتاق احمد نظامی نے اسے اِ ن الفاظ میں بیان کیا کہ ”آخر علامہ فضل حق نے ترکش سے آخری تیر نکالا، بعد نمازِ جمعہ جامع مسجد میں علماء کے سامنے تقریر کی اور استفتاء پیش کیا، مفتی صدر الدین خان، مولوی عبدالقادر، قاضی فیض اللہ، مولانا فیض احمد بدایونی، وزیر خان اکبر آبادی، سید مبارک حسین رامپوری نے دستخط کر دئیے”۔ (سیرت فضل حق خیر آبادی، ص٢٣)

جب فتویٰ مرتّب کیا سب اکابر علماء سے اس فتویٰ پر دستخط کرائے۔ سارے اکابر علماء نے اس جہاد کے فتوے پر دستخط فرمائے۔ علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اﷲ علیہ کا جہاد کا فتویٰ جاری کرنا تھا کہ ہندوستان بھر میں انگریز کے خلاف ایک بہت بڑی عظیم لہر دوڑگئی اور گلی گلی، قریہ قریہ، کوچہ کوچہ، بستی بستی، شہر شہر وہ قتال وہ جدال ہوا کہ انگریزحکومت کی چولہیں ہل گئیں۔ مگر آپ جانتے ہیں کہ انگریز بڑا مکار اور خبیث ہے اس نے اپنی تدبیر یں لڑا کر بڑے بڑے لوگوں کو خرید کر اور ڈرا دھمکا کر بے شمار لوگوں کو قتل کرنے کے بعد اس نے تحریک کو کُچل دیا۔ آزادی کی تحریک کوکُچل تودیا مگر حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی نے آزادی کا سنگ بنیادرکھ دیا تھا اس کو بظاہر انگریز نے وقتی طور پر کُچل دیا۔

 

مجاہدِ اہلسنّت نے جہاد کا فتویٰ واپس نہ لیا


انگریزوں کے دلوں میں یہ بات تھی کہ اگر چہ ہم نے اس تحریک کو بظاہر کچل دیا ہے مگر مسلمانوں کے دلوں سے جذبہ جہاد نہیں نکال سکتے یہ بہت مشکل کام ہے ملکہ وکٹوریہ نے ایک مکارانہ چال چلی وہ مکارانہ چال یہ تھی کہ ہندوستان میں یہ اعلان کردیا جائے کہ جتنے بھی باغی ہیں سب کو معاف کردیا ہے چنانچہ انگریزوں نے یہ اعلان کردیا علامہ فضلِ حق خیر آبادی صاحب ابھی گرفتار نہیں ہوئے تھے وہ مجاہدین کی دہلی میں تربیت کرتے تھے دہلی سے آپ علی گڑھ تشریف لے گئے علی گڑھ میں آپ کچھ عرصے رہے وہاں مجاہدین کی مدد کرتے رہے جب انگریزنے یہ اعلان کیا کہ باغیوں کو معاف کردیا گیا ہے سارے مجاہدین باہر آگئے علامہ فضلِ حق خیر آبادی صاحب بھی اپنے وطن خیرآباد تشریف لے آئے۔

آپ خیر آباد پہنچے تھے کہ کچھ دنوں کے بعد کسی نے یہ مُخبر ی کردی کہ یہ وہی علامہ فضلِ حق صاحب ہیں جنہوں نے انگریزکے خلاف جہاد کا پہلا فتویٰ دیا تھا چنانچہ سازش کے تحت آپ کو گرفتار کرلیا گیا۔ گرفتار کرنے کے بعد آپ کو لکھنو لے جایا گیا وہاں آپ پر بغاوت کا مقدمہ چلا۔ جیسے ہی کاروائی شروع ہوئی گواہ نے آپ کو پہچاننے سے انکار کردیا جس جج کے سامنے آپ پیش ہوئے اس جج نے بھی آپ سے کچھ کتابیں پڑھیں تھیں وہ جج بھی یہی چاہتا تھا کہ علامہ صاحب کسی طرح مقدمے سے نکل آئیں اورسزا سے بچ جائیں۔

چنانچہ گواہ نے کہا کہ انگریز کے خلاف جنہوں نے جہاد کا فتویٰ دیا تھا وہ عالم دین نہیں ہیں یہ ساری کاروائی کے بعد جب آپ کے رہا ہونے کی منزل قریب آئی تو جج نے آپ کے کان میں کہا کہ علامہ صاحب آپ صرف اتنا کہہ دیں کہ یہ فتویٰ میں نے نہیں دیا ،آپ سزا سے بچ جائیں گے جج یہ کہہ کر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا یہ سمجھ کر کہ علامہ صاحب میری بات سمجھ گئے ہوں گے، جب جج نے آ پ سے پوچھا کہ آپ نے انگریز حکومت کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا ہے؟

آپ نے گرج دار لہجے میں کہا کہ اس گواہ نے مروت میں آکر مجھے پہچاننے سے انکار کردیا ہے میں نے ہی انگریز حکومت کے خلاف جہاد کافتویٰ دیا ہے اوراس کے عوض مجھے جو سزاملے گی میں قبول کروں گا۔

جج اورگواہ سرپکڑ کر بیٹھ گئے آپ کو اس جرم کی سزا عمر قید سنائی گئی. آپ علیہ الرحمہ کو انگریزوں نے (فتویٰ جہاد اور اہلِ ہند کو انگریز کے خلاف جہاد کے لئے تیار کرنے کے جُرم میں) فسادِ ہند کے زمانے میں جزیرہ رنگون (یعنی جزیرہ انڈمان جسے کالا پانی کہا جاتا تھا) میں قید کر دیا، وہیں تین برس کے بعد ١٢ صفر المظفر ١٢٧٨ھ بروز پیر بمطابق ۱۹ اگست ١٨٦١ء کو امام حریت نے عالم کو فیضیاب فرمانے کے بعد اسیری ہی کی حالت میں جزائر انڈیمان میں جام شہادت نوش فرمایا اور وہیں آپ کا مزار شریف ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مجاہد کو انگریز کی آزادی سے پہلے ہی اپنے نیک بندے کو آزاد کرلیا۔ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ونوراللہ مرقدہ)۔ (تذکرہ علماء ہند فارسی، مصفنہ مولوی رحمان علی، ص١٦٥)

جہاد آزادی کے فتویٰ دینے پر انگریزوں نے آپ کو گرفتار کیا اور آپ کے کئی رفقاء علماء بھی اسیر ہوئے جن میں حضرت مولاناکفایت علی کافی (انہیں انگریزوں نے پھانسی دے کر شہید کیا) ، علامہ مفتی عنایت احمد کا کوروی علیہ الرحمۃ جبکہ بعض ترک وطن (ہجرت) کرکے مکہ یا مدینہ آباد ہوئے (جن میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی، شیخ الدلائل مولانا عبدالحق مہاجر مکی ،شاہ احمد سعید مجددی ، مولوی ڈاکٹر وزیر خاں اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہم اللہ شامل ہیں) جبکہ مولانا فیض احمد بدایونی علیہ الرحمۃ کے بارے میں تا حال محققین کو علم نہیں کہ انگریزوں نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا۔

 

اسلامیانِ ہند کی سیاسی آزادی کے محاذ کے علاوہ علامہ فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمۃ نے مسلمانوں کے عقیدہ کی حفاظت و صیانت کی جنگ بھی لڑی، ہندوستان میں وہابی تحریک کے آغاز ہی میں (جب انگریزوں کی سر پرستی میں مسلمانوں کے اندر سے عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کو نکالنے کی سازش شروع ہوئی) امام حُریت نے سب سے پہلے مولوی اسماعیل دہلوی کی کتاب ”تقویۃ الایمان” کے کئی رد لکھے جس میں آپ کی تصنیف ”تحقیق الفتویٰ” قابلِ ذکر ہے جس کے آخر میں کئی مشاہیر کے علاوہ حضرت شاہ احمد سعید مجددی علیہ الرحمۃ کی مُہریں ثبت ہیں۔ مولوی اسماعیل دہلوی، مولوی محبوب علی جعفری، مولوی اسحق دہلوی (نواسہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمۃ) اور مولوی عبدالحئی نے جب مل کر مسلمانانِ ہند کی خوش عقیدگی پر حملے کئے ، میلاد، توسل، عقیدہ شفاعت اور اعراس بزرگانِ دین کو شرک و بدعت کہنا شروع کیا تو مولانا فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمۃ اور ان کی تحریک پر ہم عصر علماء، سیف اللہ المسلول، معین الحق، مولانا شاہ فضل رسول بدایونی (مصنف سیف الجبار علی الاعداء الابرار مکتوبہ ١٢٦٥ھ، بوارق محمدیہ، المعتقد المنتقد شرح فصوص الحکم، حاشیہ میر زاہد و ملا جلال وغیرہ) مولانا شاہ احمد سعید مجددی (مصنف اثبات مولد و القیام عربی، سعید البیان فی سید الانس و الجان اردو، الذکرا الشریف فی اثبات المولد المنیف فارسی) حضرت مولانا غلام محی الدین قصوری (ماموں حضرت مولانا غلام دستگیر قصوری)، مولانا مفتی نقی علی خاں بریلوی (والد اعلحٰضرت) اور دیگر (رحمہم اللہ) نے تحریر اور تقریر کے میدان میں نکل کر علمی جہاد کیا اور اسلامیان ہند کے مسلک حق اہلسنّت و جماعت کے عقائد کا دفاع کیا۔ مولوی اسماعیل دہلوی کے نظریہ امکان کذب اور امکانِ نظیر رسول پر حضرت العلام نے قتیل بالا کوٹ کی پہلے فہمائش کی ۔ہر طرح سمجھایا لیکن وہ نہ مانے تو تحریری و تقریری ردّ فرمایا۔

آپکے مشہور تلامذہ میں حضرت تاج الفحو ل مولانا شاہ عبدالقادر بدایونی، حضرت مولانا شاہ عبدالحق ابن مولانا شاہ غلام رسول، مولانا رسول نما کانپوری، مولانا سید عبداللہ بلگرامی، حضرت مولانا سید ہدایت علی بریلوی، حضرت مولانا خیر الدین دہلوی (والد ابولکلام آزاد)، حضرت مولانا ہدایت اللہ خاں رام پوری، مولانا فیض الحسن سہارنپوری، نواب یوسف علی خاں رام پوری، مولانا عبدالعلی رامپوری، (استاد اعلیٰ حضرت ) نواب کلب علی رامپوری اور فرزند ارجمند شمس العلماء مولانا عبدالحق خیر آبادی شامل ہیں۔

تصانیف:

(١) تاریخ فتنہ الہند (فارسی)
(٢) الثورۃ الہندیہ (عربی)
(٣) عقائد فتنہ الہند
(٤) الجنس العالی فی شرح الجوہرالعالی
(٥) حاشیہ افق المبین
(٦) حاشیہ تلخیص الشفاالابن سینا
(٧) حاشیہ قاضی مبارک شرح
(٨) رسالہ فی تحقیق الاجسام
(٩) رسالہ فی تحقیق الکلی الطبعی
(١٠) الروض المجود فی مسئلہ وحدۃ الوجود
(١١) الہدیہ السعیدیہ
(١٢) تحقیق الفتویٰ فی ابطال الطغویٰ
(١٣) امتناع النظیر

ولادت با سعادت

مرجع العلماء و الفقہاء سیدی حضور مفتی اعظم ہند حضرت علامہ الشاہ ابو البرکات محی الدین جیلانی آل رحمٰن محمد مصطفی رضا صاحب قبلہ نور اللہ مرقدہ کی ولادت با سعادت ۔ ۲۲ذوالحجہ ۱۳۱۰ھ بروز جمعہ صبح صادق کے وقت بریلی شریف میں ہوئی ۔

پیدائشی نام ’’ محمد ‘‘ عرف ’’مصطفی رضا‘‘ ہے ۔ مرشد برحق حضرت شاہ ابو الحسین نوری قدس سرہ العزیزنے آل الرحمن ابو البرکات نام تجویز فرمایا اور چھہ ماہ کی عمر میں بریلی شریف تشریف لا کر جملہ سلاسل عالیہ کی اجازت و خلافت عطا فرمائی اور ساتھ ہی امام احمد رضا قدس سرہ کو یہ بشارت عظمیٰ سنائی کہ یہ بچہ دین و ملت کی بڑ ی خدمت کرے گا اور مخلوق خدا کو اس کی ذات سے بہت فیض پہونچے گا۔ یہ بچہ ولی ہے ۔

مرشد کامل کی بشارت

سید المشائخ حضرت شاہ سیدابوالحسین احمد نوری رضی اللہ عنہ نے حضرت مفتی اعظم کو بیعت کرتے وقت ارشاد فرمایا!!!”یہ بچہ دین وملت کی بڑی خدمت کرے گا اور مخلوقِ خدا کو اس کی ذات سے بہت فیض پہنچے گا۔ یہ بچہ ولی ہے۔ اس کی نگاہوں سے لاکھوں گم راہ انسان دینِ حق پر قائم ہوں گے۔ یہ فیض کادریا بہائےگا”۔

سید المشائخ حضرت نوری میاں علیہ الرحمہ نے حلقہئ بیعت میں لینے کے بعد قادری نسبت کا دریائے فیض بناکر ابوالبرکات کو امام احمد رضا علیہ الرحمہ کی گود میں دیتے ہوئے ارشاد فرمایا!!!”مبارک ہو آپ کویہ قرآنی آیت،واجعل لی وزیرا من اھلی کی تفسیر مقبول ہوکر آپ کی گود میں آگئی ہے۔ آل الرحمن۔ محمد۔ ابوالبرکات محی الدین جیلانی مصطفی رضا”۔

اس مبارک نام پر اگر غور کیا جائے تو سب سے پہلے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب کسی شخص میں محاسن کی کثرت ہوتی ہے تو اس کاہر کام تشنہ تو صیف محسوس ہوتا ہے۔ اور ذوق ستائش کسی جامع الصفات شخصیت کو مختلف ناموں سے پکارنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اس نام میں پہلی نسبت رحمن سے ہے۔ دوسری نسبت سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ تیسری نسبت سیدنا حضرت غوث اعظم شیخ عبد القادر محی الدین جیلانی علیہ الرحمہ سے ہے۔

تیسری نسبت کے بعد عزیمت میں اعلیٰحضرت امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ سے نسبت ملحوظ رکھی گئی ہے۔ یہ اہتمام تو اکابرکی بالغ نظری نے کیا تھا۔ مگر لاکھوں افراد نے جب اس منبعِ خیر وفلاح اور سرچشمہ ہدایت سے قریب ہوکر فیوض وبرکات حاصل کیے تو وہ بھی اپنے جذبہئ ستائش پر قابونہ پاسکے۔ آج حضرت مفتی اعظم مختلف ناموں سے یاد کیے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے اسمائے صفات کا پر تو انہیں پرڈالتا ہے جو اس کی بارگاہ میں مقبول ومحبوب ہوجاتے ہیں۔

حصول علمسخن آموزی کے منزل طے کرنے کے بعد آپ کی تعلیم کا باقاعدہ آغاز ہوا ا ور آپ نے جملہ علوم و فنون اپنے والد ماجد سیدنا امام احمد رضا فاضل بریلوی قدس سرہ ۔ برادر اکبر حجۃ الاسلام حضرت علامہ شاہ محمد حامد رضا خاں صاحب علیہ الرحمۃ و الرضوان۔ استاذ الاساتذہ علامہ شاہ رحم الہی منگلوری ۔ شیخ العلماء علامہ شاہ سید بشیر احمد علی گڑ ھی ۔ شمس العلماء علامہ
ظہور الحسین فاروقی رامپوری سے حاصل کئے اور
۱۸ سال کی عمر میں تقریباً چالیس علوم و فنون حاصل کر کے سند فراغت حاصل کی ۔

تدریس

فراغت کے بعد جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی شریف ہی میں مسند تدریس کو رونق بخشی۔، تقریبا ًتیس سال تک علم و حکمت کے دریا بہائے ۔ بر صغیر پاک و ہند کی اکثر درسگاہیں آپ کے تلامذہ و مستفیدین سے مالا مال ہیں ۔

طریقہ تعلیم

فقیہ ذی شان مفتی محمد مطیع الرحمن رضوی مدیر عام”الادارۃ الحنفیہ” کشن گنج بہار حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کے طریقہئ تعلیم اور درس افتاء میں امتیازی شان بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں۔

حضور مفتی اعظم درسِ افتاء میں اس کا التزام فرماتے تھے کہ محض نفسِ حکم سے واقفیت نہ ہو بلکہ اس کے ماعلیہ ومالہ کے تمام نشیب وفراز ذہن نشین ہوجائیں۔ پہلے آیات واحادیث سے استدلال کرتے، پھر اصولِ فقہ وحدیث سے اس کی تائید دکھاتے اور قواعدِ کلیہ کی روشنی میں اس کا جائزہ لے کر کتب فقہ سے جزئیات پیش فرماتے ،پھر مزید اطمینان کےلئے فتاویٰ رضویہ یا اعلیٰحضرت علیہ الرحمہ کا ارشاد نقل فرماتے۔ اگر مسئلہ میں اختلاف ہوتا تو قولِ راجح کی تعیین دلائل سے کرتے اور اصولِ افتا کی روشنی میں ماعلیہ الفتویٰ کی نشاندہی کرتے۔ پھر فتاویٰ رضویہ یااعلیٰحضرت علیہ الرحمہ کے ارشاد سے اس کی تائید پیش فرماتے۔ مگر عموماً یہ سب زبانی ہوتا۔ عام طور سے جواب بہت مختصر اور سادہ لکھنے کی تاکید فرماتے۔ ہاں کسی عالم کا بھیجا ہوا استفتا ہوتا اور وہ ان تفصیلات کا خواستگار ہوتا تو پھر جواب میں وہی رنگ اختیار کرنے کی بات ارشاد فرماتے۔

فقیہ العصر شارح بخاری مولانا محمد شریف الحق امجدی صدر مفتی الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور حضرت امام الفقہاء مفتی اعظم علیہ الرحمہ کے درسِ افتا اور اصلاح فتاویٰ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں!!

”میں گیارہ سال تین ماہ خدمت میں حاضر رہا۔ اس مدت میں چوبیس ہزار مسائل لکھے ہیں، جن میں کم از کم دس ہزار وہ ہیں جن پر حضرت مفتی اعظم کی تصحیح وتصدیق ہے۔ عالم یہ ہوتا کہ دن بھر بلکہ بعد مغرب بھی دوگھنٹے تک حاجت مندوں کی بھیڑرہتی۔ یہ حاجت مند خوشخبری لے کر نہیں آتے،سب اپنا اپنا دکھڑا سناتے، غم آگیں واقعات سننے کے بعد دل ودماغ کا کیا حال ہوتا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ اتنے طویل عرصے تک اس غم آفریں ماحول سے فارغ ہونے کے بعد، عشا بعد پھر تشریف رکھتے اور میں اپنے لکھے ہوئے مسائل سناتا۔ میں گھساپٹا نہیں،بہت سوچ سمجھ کر، جانچ تول کر مسئلہ لکھتا،مگر واہ رے مفتی اعظم۔اگر کہیں ذرا بھی غلطی ہے، یالوچ ہے یا بے ربطی ہے۔ یاتعبیر غیر مناسب ہے۔ یا سوال کے ماحول کے مطابق جواب میں کمی بیشی ہے۔ یا کہیں سے کوئی غلط فہمی کا ذرا بھی اندیشہ ہے فوراً اس پر تنبیہ فرمادیتے اور مناسب اصلاح۔تنقید آسان ہے مگر اصلاح دشوار۔ جو لکھا گیا ہے وہ نہیں ہونا چاہیے، اس کو کوئی بھی ذہین نقاد کہہ سکتا ہے،مگر اسکو بدل کرکیا لکھاجائے،یہ جوئے شیرلانے سے کم نہیں ہے۔ مگر ستر سالہ مفتی اعظم کا دماغ اور علم ایسا جوان تھاکہ تنقیدکے بعد فوراً اصلاح فرمادیتے اور ایسی اصلاح کہ پھر قلم ٹوٹ کررہ جاتا”۔

کبھی ایسے جاں فزاتبسم کے ساتھ کہ قربان ہونے کا جذبہ حد اضطرار کو پہنچ جائے۔ کبھی ایسے جلال کے ساتھ کہ اعصاب جواب دے جائیں۔ مگر اس جلال کو کون سانام دیں جس کے بعد مخاطب کی جرأت رندانہ اور بڑھ جاتی۔ کیا کیجئے گا اگر جلال سے مرعوب ہوکر چپ رہتے تو اور جلال بڑھتا،بڑھتا رہتا،یہاں تک کہ مخاطب کو عرض ومعروض کرنا ہی پڑتا۔ یہ جلال وہ جلال تھا کہ جو اس کا مورد بناکندن ہوگیا۔

یہ مجلس آدھی رات سے پہلے کبھی ختم نہ ہوتی۔ بار ہارات کے دوبج جاتے اور رمضان شریف میں توسحری کا وقت روز ہوجاتا۔

بارہا ایسا ہوتا کہ حکم کی تائید میں کوئی عبارت نہ ملتی تو میں اپنی صواب دیدسے حکم لکھ کردیتا۔ کبھی دوردراز کی عبارت سے تائید لاتا۔مگر مفتی اعظم ان کتابوں کی عبارتیں جودارالافتاء میں نہ تھیں زبانی لکھوادیتے۔ میں حیران رہ جاتا۔ یا اللہ کبھی کتاب کا مطالعہ کرتے نہیں،یہ عبارتیں زبانی کیسے یاد ہیں؟پیچیدہ سے پیچیدہ دقیق سے دقیق مسائل پر بداہۃً ایسی تقریر فرماتے کہ معلوم ہوتا تھا اس پر بڑی محنت سے تیاری کی ہے۔

سب جانتے ہیں کہ کلام بہت کم فرماتے مگر جب ضرورت ہوتی تو ایسی بحث فرماتے کہ اجلہ علماء انگشت بدنداں رہ جاتے۔ کسی مسئلہ میں فقہا کے متعدد اقوال ہیں تو سب دماغ میںہروقت حاضر رہتے۔ سب کے دلائل،وجوہ ترجیح اور قولِ مختار ومفتی بہ پر تیقن اور ان سب اقوال پر اس کی وجہ ترجیح سب ازبر۔ باب نکاح میں ایک مسئلہ ایسا ہے جس کی بہتّر صورتیں ہیں اور کثیر الوقوع بھی ہیں۔ پہلی بار جب میں نے اس کو لکھا،سوال مبہم تھا۔ میں نے بیس،پچیس شق قائم کرکے چارورق فل اسکیپ کا غذپر لکھا جب سنانے بیٹھا تو فرمایا!!!”یہ طول طویل شق درشق جواب کون سمجھ پائےگا؟ پھر اگر لوگ ناخداترس ہوئے تو جوشق اپنے مطلب کی ہوگی اس کے مطابق واقعہ بنالیں گے۔ آج ہندوستان میں یہ صورت رائج ہے اسی کے مطابق حکم لکھ کر بھیج دیں یہ قیدلگا کر کہ آپ کے یہاں یہی صورت تھی تو حکم یہ ہے”۔

یہ جواب فل اسکیپ کے آدھے ورق سے بھی کم پر مع تائیدات آگیا۔

اس واقعہ نے بتایا کہ کتب بینی سے علم حاصل کرلینا اور بات ہے اور فتویٰ لکھنا اور بات۔

مجاہدانہ زندگیآپ کی

۹۲ سالہ حیات مبارکہ میں زندگی کے مختلف موڑ آئے ۔ کبھی شدھی تحریک کا قلع قمع کرنے کیلئے جماعت رضائے مصطفی کی صدارت فرمائی اور باطل پرستوں سے پنجہ آزمائی کیلئے سر سے کفن باندھ کر میدان خارز ارمیں کود پڑ ے ، لاکھوں انسانوں کو کلمہ پڑ ھایا اور بے شمار مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت فرمائی ۔ قیام پاکستان کے نعرے اور خلافت کمیٹی کی آوازیں بھی آپ کے دور میں اٹھیں اور ہزاروں شخصیات اس سے متاثر ہوئیں۔ نسبندی کا طوفان بلا خیز آپ کے آخری دور میں رونما ہوا اور بڑ ے بڑ ے ثابت قدم متزلزل ہوگئے لیکن ہر دور میں آپ استقامت فی الدین کا جبل عظیم بن کر ان حوادث زمانہ کا مقابلہ خندہ پیشانی سے فرماتے رہے ۔آپ نے اس دور پر فتن میں نسبندی کی حرمت کا فتوی صادر فرمایا جبکہ عموما دینی ادارے خاموش تھے ، یا پھر جواز کا فتوی دے چکے تھے ۔

عبادت و ریاضت

سفر و حضر ہر موقع پر کبھی آپ کی نماز پنجگانہ قضا نہیں ہوتی تھی، ہر نماز وقت پر ادا فرماتے ، سفر میں نماز کا اہتمام نہایت مشکل ہوتا ہے لیکن حضر ت پوری حیات مبارکہ اس پر عامل رہے ۔ اس سلسلہ میں چشم دید واقعات لوگ بیان کرتے ہیں کہ نماز کی ادائیگی و اہتمام کیلئے ٹرین چھوٹنے کی بھی پرواہ نہیں فرماتے تھے ، خود نماز ادا کرتے اور ساتھیوں کو بھی سخت تاکید فرماتے ۔

زیارت حرمین شریفین

آپ نے تقسیم ہند سے پہلے دو مرتبہ حج و زیارت کیلئے سفر فرمایا، اس کے بعد تیسری مرتبہ ۱۳۹۱ ھ / ۱۹۷۱

ء میں جب کہ فوٹو لازم ہو چکا تھا لیکن آپ اپنی حزم و احتیاط پر قائم رہے لہذا آپ کو پاسپورٹ وغیرہ ضروری پابندیوں سے مستثنی قرار دے دیا گیا اور آپ حج و زیارت کی سعادت سے سرفراز ہوئے۔سفرحج و مسئلہ تصویر

آپ نے تین مرتبہ حج و زیارت کی سعادت حاصل کی مگر کبھی تصویر نہیں بنوائی بلکہ ہر بار بغیر تصویر کے پاسپورٹ سے حج پر تشریف لے گئے۔ تیسری مرتبہ حج بیت اللہ پر جاتے وقت حکومت بھارت کی جانب سے پاسپورٹ پر تصویر لگانےکا قانون سخت ہو گیا تھا۔ چنانچہ آپ سے تصویر لگانے کا کہا گیا تو آپ نے برجستہ انکار کرتے ہوئے فرمایا” مجھ پر جو حج فرض تھا وہ میں نے کرلیا، اب نفل حج کیلئے اتنا بڑا ناجائز کام کرکے دربار مصطفوی میں کیسے حاضر ہوسکتا ہوں، میں تصویر ہرگز نہیں کھینچواؤں گا۔ جب اس سے قبل گیا تھا، اس وقت تصویر کی پابندی نہیں تھی۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ جس رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت مطہرہ میں تصویر کھینچوانا،رکھنا،بنانا سب حرام ہے،میں اس رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں تصویر کھینچوا جاؤں، یہ مجھ سے نہیں ہوگا”۔ حضور تاجدار مدینہ سرور قلب و سینہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اس غلام کی استقامت و اتباع سنت کی یہ ادا پسند آئی تو اپنے دربار میں حاضری کیلئے خصوصی انتظام فرمایا اور احباب نے جب بغیر تصویر پاسپورٹ کیلئے کوشش کی تو حکومت ہند اور حکومت سعودی عرب نے آپ کو خصوصی اجازت نامہ جاری کیا اور پھر جب آپ جدہ پہنچے تو آپ کا شاندار استقبال کیا گیا اور جب مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو برہنہ پاپیادہ آنکھوں سے آنسو جاری اور جسم پر رقت طاری تھی اور حاضری مدینہ طیبہ کا بڑا پُر کیف و ایمان افروز منظر تھا۔

فتوی نویسی کی مدت

آپ کے خاندان کا یہ طرہ امتیاز رہا ہے کہ تقریبا ً ڈیڑ ھ سو سال سے فتوی نویسی کا گراں قدر فریضہ انجام دے رہا ہے ۔ ۱۸۳۱

ھ میں سیدنا اعلیٰ حضرت قدس سرہ کے جد امجد امام العلماء حضرت مفتی رضا علی خاں صاحب قدس سرہ نے بریلی کی سر زمین پر مسند افتاء کی بنیاد رکھی ، پھر اعلیٰ حضرت کے والد ماجد علامہ مفتی نقی علی خاں صاحب قدس سرہ نے یہ فریضہ انجام دیا اور متحدہ پاک و ہند کے جلیل القدر علماء میں آپ کو سر فہرست مقام حاصل تھا ، ان کے بعد امام احمد رضا قد س سرہ نے تقریبا نصف صدی تک علوم و معارف کے دریا بہائے اور فضل و کمال کے ایسے جوہر دکھائے کہ علمائے ہندہی نہیں بلکہ فقہائے حرمین طیبین سے بھی خراج تحسین وصول کیا اور سب نے بالاتفاق چودہویں صدی کا مجدد اعظم تسلیم کیا ۔آپ کے وصال اقدس کے بعد آپ کے فرزند اکبر حجۃ الاسلام نے اس منصب کو زینت بخشی اور پھر باقاعدہ سیدنا حضور مفتی اعظم کو یہ عہدہ تفویض ہوا جس کا آغاز خود امام احمد رضا کی حیات طیبہ ہی میں ہو چکا تھا ۔

آپ نے مسئلہ رضاعت سے متعلق ایک فتوی نو عمری کے زمانے میں بغیر کسی کتاب کی طرف رجوع کئے تحریر فرمایا تو اس سے متاثر ہو کر امام احمد رضا نے فتوی نویسی کی عام اجازت فرمادی اور مہر بھی بنوا کر مرحمت فرمائی جس پر یہ عبارت کندہ تھی ’’ابو البرکات محی الدین جیلانی آل الرحمن محمد عرف مصطفی رضا‘‘

یہ مہر دینی شعورکی سند اور اصابت فکر کا اعلان تھی۔ بلکہ خود امام احمد رضا نے جب پورے ہندوستان کے لئے دار القضاء شرعی کا قیام فرمایا تو قاضی و مفتی کا منصب صدر الشریعہ ، مفتی اعظم اور برہان الحق جبل پوری قدس اسرارہم کو عطا فرمایا ۔

غرضکہ آپ نے نصف صدی سے زیادہ مدت تک لاکھوں فتاوی لکھے ۔ اہل ہندو پاک اپنے الجھے ہوئے مسائل آپ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوتے اور ہر پیدا ہونے والے مسئلہ میں فیصلہ کے لئے نگاہیں آپ ہی کی طرف اٹھتی تھیں ۔ آپ کے فتاوی کا وہ ذخیرہ محفوظ نہ رہ سکا ورنہ آج وہ اپنی ضخانت و مجلدات کے اعتبار سے دوسرا فتاوی رضویہ ہوتا۔

تصنیفات و ترتیباتآپ کی تصانیف علم و تحقیق کا منارہ ہدایت ہیں ۔ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں حق تحقیق ادا فرماتے ہیں ، فقیہ ملت حضرت مفی جلال الدین صاحب قبلہ علیہ الرحمہ نے آپ کی تصانیف کا تعارف تحریر فرمایا ہے اسی کا خلاصہ ہدیۂ قارئین ہے ۔

1 المکرمۃ النبویۃ فی اللفتاوی المصطفوی (یہ پہلے تین حصوں میں عالی جناب قربان علی صاحب کے اہتمام میں شائع ہو ا تھا ۔ اب ایک ضخیم جلد میں حضرت فقیہ ملت علیہ الر حمہ کی نگرانی میں رضا اکیڈمی بمبئی سے شائع ہو ا ہے جو حسن صوری و معنوی سے مالا مال ہے.)
2 اشد العذاب علی عابد الخناس (۱۳۲۸) تحذیر الناس کا رد بلیغ
3 وقعات السنان فی حلق المسماۃ بسط البنان (۱۳۳۰) بسط البنان اور تحذیر الناس پر تنقید اور۱۳۲سوالا ت کامجموعہ
4 الرمح الدیانی علی راس الوسواس الشیطانی (۱۳۳۱) تفسیر نعمانی کے مولف پر حکم کفر وارتداد گویا یہ حسام الحرمین کا خلاصہ ہے
5 النکتہ علی مراۃ کلکتہ (۱۳۳۲) اذان خارج مسجد ہونے پر ائمہ کی تصریحات کا خلاصہ
6 صلیم الدیان لتقطیع حبالۃ الشیطان (۱۳۳۲)
7 سیف القہار علی عبد الکفار (۱۳۳۲)
8 نفی العار عن معائب المولوی عبد الغفار (۱۳۳۲)
9 مقتل کذب وکید (۱۳۳۲)
10 مقتل اکذب و اجہل (۱۳۳۲) اذان ثانی کے تعلق سے سے مولوی عبد الغفار خاں رامپور ی کی متعدد تحریروں کے رد میں یہ رسائل لکھے گئے
11 ادخال السنان الی الحنک الحلق البسط البنان (۱۳۳۲)
12 وقایۃ اہل السنۃ عن مکر دیوبند و الفتنۃ (۱۳۳۲) اذان ثانی سے متعلق آیک کانپوری دیوبندی کا رد
13 الہی ضرب بہ اہل الحرب (۱۳۳۲)
14 الموت الاحمر علی کل انحس اکفر (۱۳۳۷) موضوع تکفیر پر نہایت معرکۃ الآراء بحثیں اس کتاب میں تحقیق سے پیش کی گئی ہیں
15 الملفوظ ، چار حصے (۳۳۸ا) امام احمد رضا قدس سرہ کے ملفوظات
16 القول العجیب فی جواز التثویب (۱۳۳۹) اذان کے بعد صلوۃ پکارنے کا ثبوت
17 الطاری الداری لہفوات عبد الباری (۱۳۳۹) امام احمد رضا فاضل بریلو ی اور مولانا عبد الباری فرنگی محلی کے درمیان مراسلت کا مجموعہ
18 طرق ا لہدی و الارشاد الی احکام الامارۃ و الجہاد (۱۳۴۱) اس رسالہ میں جہاد، خلافت ، ترک موالات ، ، نان کو آپریشن اور قربانی گاؤ وغیرہ کے متعلق چھہ سوالات کے جوابات
19 فصل الخلافۃ (۱۳۴۱) اس کا دوسر ا نام سوراج در سوراخ ہے اور مسئلہ خلافت سے متعلق ہے
20 حجۃ واہرہ بوجوب الحجۃ الحاضرہ (۱۳۴۲) بعض لیڈروں کا رد جنہوں نے حج بیت اللہ سے ممانعت کی تھی اور کہا تھا کہ شریف مکہ ظالم ہے
21 القسورۃ علی ادوار الحمر الکفرۃ (۱۳۴۳) جس کا لقبی نام ظفر علی رمۃ کفر۔۔اخبار زمیندار میں شائع ہونے والے تین کفری اشعارکارد بلیغ
22 سامان بخشش (نعتیہ دیوان) ( ۱۳۴۷)
23 طرد الشیطان (عربی) نجدی حکومت کی جانب سے لگائے گئے حج ٹیکس کا رد
24 مسائل سماع
25 سلک مرادآباد پر معترضانہ رمارک
26 نہایۃ السنان  بسط البنان کا تیسرارد
27 شفاء العی فی جواب سوال بمبئی  اہل قرآن اور غیر مقلدین کا اجتماعی رد
28 الکاوی فی العاوی و الغاوی (۱۳۳۰)
29 القثم القاصم للداسم القاسم (۱۳۳۰)
30 نور الفرقان بین جند الالہ و احزاب الشیطان (۱۳۳۰)
31 تنویر الحجۃ بالتواء الحجۃ
32 وہابیہ کی تقیہ بازی
33 الحجۃ الباہرہ
34 نور العرفان
35 داڑ ھی کا مسئلہ
36 حاشیہ الاستمداد ( کشف ضلال ویوبند)
37 حاشیہ فتاوی رضویہ اول
38 حاشیہ فتاوی رضویہ پنجم
بعض مشاہیر تلامذہبعض مشہور تلامذئہ کرام کے اسماء اس طرح ہیں جو بجائے خود استاذ الاساتذہ شمار کئے جاتے ہیں ۔

۱۔ شیر بشیۂ اہل سنت حضرت علامہ محمد حشمت علی خاں صاحب قدس سرہ
۲۔ محدث اعظم پاکستان حضرت علامہ مفتی سردار احمد صاحب علیہ الرحمۃ و الرضوان
۳۔ فقیہ عصر مولانا مفتی محمد اعجاز ولی خاں صاحب بریلی شریف علیہ الرحمۃ و الرضوان
۴۔ فقیہ عصر شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی دامت علیہ الرحمہ
۵۔ محدث کبیر علامہ محمد ضیاء المصطفی اعظمی شیخ الحدیث الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور
۶۔ بلبل ہند مفتی محمد رجب علی صاحب نانپاروی ، بہرائچ شریف
۷۔ شیخ العلماء مفتی غلام جیلانی صاحب گھوسوی
مستفیدین اور درس افتاء کے تلامذہ کی فہرست نہایت طویل ہے جن کے احاطہ کی اس مختصر میں گنجائش نہیں ، صرف اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ آسمان افتاء کے آفتاب و ماہتاب بنکر چمکنے والے مفتیان عظام اسی عبقری شخصیت کے خوان کرام کے خوشہ چین رہے جس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ حضور مفتی اعظم ہند کو افتاء جیسے وسیع و عظیم فن میں ایسا تبحر اور ید طولیٰ حاصل تھا کہ ان کے دامن فضل و کرم سے وابستہ ہو کر ذرے ماہتاب بن گئے ۔بعض مشاہیر خلفاء

۱۔ مفسر اعظم ہند مولانامحمد ابراہیم رضا خاں جیلانی میاں بریلی شریف
۲۔ غزالی دوراں علامہ سید احمد سعید صاحب کاظمی، ملتان پاکستان
۳۔ مجاہد ملت علامہ حبیب الرحمن صاحب رئیس اعظم اڑ یسہ
۴۔ شیر بیشہ اہل سنت مولانا حشمت علی خاں صاحب، پیلی بھیت
۵۔ رازی زماں مولانا حاجی مبین الدین صاحب امروہہ ، مرآد اباد
۶۔ شہزادۂ صدر الشریعہ مولانا عبد المصطفی صاحب ازہری کراچی ، پاکستان
۷۔ شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق صاحب امجدی گھوسی، اعظم گڑ ھ
۸۔ شمس العلماء مولانا قاضی شمس الدین احمد صاحب جونپور
۹۔ محدث اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمد صاحب لائل پور ، پاکستان
۱۰۔ خطیب مشرق مولانا مشتاق احمد صاحب نظامی الہ آباد۔
۱۱۔ پیر طریقت مولانا قاری مصلح الدین صاحب کراچی پاکستان
۱۲۔ استاذ العلماء مولانا محمد تحسین رضا خاں صاحب بریلی شریف
۱۳۔ قائد ملت مولانا ریحان رضا خاں صاحب بریلی شریف
۱۴۔ تاج الشریعہ مولانا محمد اختر رضا خاں صاحب بریلی شریف
۱۵۔ پیر طریقت مولانا سید مبشر علی میاں صاحب بہیڑ ی بریلی شریف
۱۶۔ فاضل جلیل مولانا سید شاہد علی صاحب الجامعۃ الاسلامیہ رامپور
۱۷۔ حضرت مفتی محمد خلیل خاں برکاتی، پاکستان
۱۸۔ حضرت سید امین میاں قادری برکاتی، مارہرہ شریف، انڈیا
۱۹۔ حضرت مفتی محمد حسین قادری، سکھر، پاکستان
۲۰
۔ حضرت علامہ مولانا سید شاہ تراب الحق قادری، کراچی، پاکستان
۲۱۔ حضرت مولانا عبد الحمید پالمر، ساوتھ افریقہ
۲۲۔ حضرت علامہ مولانا شیخ عبد الھادی القادری، ساوتھ افریقہ وغیرہ
تاریخ وصال اور عمر شریفلفظ طہ میں ہے مضمران کی تاریخ وصال
چودھویں کی رات کو وہ بے گماں جاتا رہا

محبوب ذوالجلال کا عاشق صادق، اسلام وسنت کا مہکتا گلشن شریعت وطریقت کا نیرتاباں، علم وفضل کا گوہ گراں، امام ابوحنیفہ کی فکر، امام رازی کی حکمت، امام غزالی کا تصوف، امام احمد رضا کی آنکھ کا تارا اور ہم سنیوں کا سہارا، اکانوے سال اکیس دن کی عمر میں مختصر علالت کے بعد ١٤، محرم الحرام ١٤٠٢ھ بمطابق ١٢ نومبر١٩٨١ء رات ایک بج کر چالیس منٹ پر کلمہ طیبہ کا ورد کرتا ہوا خالقِ حقیقی سے جاملا۔ اناللّٰہ واناالیہ راجعون

حضرت مفتی اعظم کے وصال پر ملال کی خبر دنیا کے مشہور ریڈیو اسٹیشنوں نے نشر کی۔ اگلے روزنماز جمعہ کے بعد اسلامیہ کالج کے وسیع میدان میں تین بج کر پندرہ منٹ پر نمازجنازہ ہوئی اور تقریباً چھ بجے اعلیحضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے بائیں پہلو میں سپرد خاک کردیا گیا۔ نماز جنازہ میں لاکھوں افراد کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ جو حضور مفتی اعظم کی مقبولیت وشہرت اور جلالتِ شان کا کھلا ثبوت تھا۔

ولد إمامنا الأكبر المجدد أحمد رضا خان البَرَيلَوي القادري في الهند سنة 1272 الهجرية وأخذ العلوم عن والده العلامة الكبير المفتي نقي علي خان وغيره، والطريقة عن العلامة الكبير السيد آل الرسول المارَهرَوي تلميذ الشاه عبد العزيز الدهلوي. تبحر في كل علم وفن وصنف فيها وترك في التراث العلمي أكثر من ألف كتاب ما بين تأليف وحواشي طبع أكثرها في باكستان والهند وبعضها من تركيا [1]. إتفق علي إمامته العلماء الأعلام من الحرمين، والمغرب، والشام الشريف، وتونس، وحضرموت، والهند، وشهدوا له بالعلم والفضل والإتقان في كل العلوم، واستغربوا من غزارة علمه وقوة ذاكرته. منهم من قرظ علي كتبه منها “فتاوي الحرمين برجف ندوة المين” سنة 1317 هـ، و”المعتمد المستند بناء نجاة الأبد” [2] حاشية في العقيدة رد فيها علي كبراء الوهابية في الهند وعلي غيرهم، و”الدولة المكية بالمادة الغيبية” [3] ومنهم من استجازه في العلوم والطرق الصوفية فأجازهم بنصوص مختلفة جمعها نجله الأكبر حجة الإسلام حامد رضا خان في كتاب سماه “الإجازات المتينة لعلماء بكة والمدينة” [4]. قرض العلامة محمد علي بن حسين المالكي المكي والعلامة موسي علي الأزهري وغيرهم قصائد في مدحه. لما رأه العلامة الإمام السيد حسين جمل الليل بن صالح بن سالم المكي الخطيب أخذ جبينه وقال: “إني لأجد نور الله من هذا الجبين” ولقبه “ضياء الدين أحمد” وأجازه بسنده الخاص وأدخله في الطريقة وذلك قرب المقام في المسجد الحرام وطلب منه أن يشرح كتابه المنظوم “الجوهرة المضيئة” في مناسك الحج في اللغة الأردية فشرحه خلال ساعات وقارنه بالفقه الحنفي وسماه “نقاء النيرة” وذلك سنة 1295 هـ [5]، وفي نفس السفرة للحج أجازه مفتي مكة عبد الرحمن سراج والعلامة الشهير أحمد بن زيني دحلان. توفي – تغمده الله تعالي في رحمته- ببَرَيلِي و دفن بها سنة 1340 هـ.
مكانة الإمام في أنظار علماء الهند

العلامة السيد آل الرسول المارَهْرَوِي- تلميذ الشاه عبد العزيز الدهلوي، شيخ الإمام أحمد رضا خان في الطرق الصوفية:
قال عنه شيخه الشاه السيد آل الرسول “لو يسألني ربي يوم العرض عليه بماذا أتيت يا آل الرسول؟ فأقدم ذاك اليوم مريدي أحمد رضا”.
العلامة المعمر المحدث الشيح فضل الرحمن المرادآبادي – تلميذ الشاه عبد العزيز الدهلوي-: زاره الإمام أحمد رضا خان في المرادآباد في عام 1311هـ لأول مرة وكان معه في هذه السفرة التاريخية المحدث وصي أحمد السورتي والعلامة أحمد حسن الكانفوري-خليفة الحاج إمداد الله المكي- فلما وصلوا البلد استقبلهم الشيخ استقبالا حافلا مع مريديه مع أنه كان معمرا ضعيفا، فلقي الإمام وأخبره بأنه يري في وجوده نورا قدسيا. [6]
العلامة المفسر الشاه عبد الحق الإلهآبادي المكي- خليفة الحاج العارف إمداد الله المكي، شيخ الدلائل بمكة المكرمة، مؤلف “الإكليل علي مدارك التنـزيل” في سبعة مجلدات -:
يقول عن إمامنا البَرَيلَوِي “العلامة الحبر الطمطام المقوال المفضال المنعام النكر البحر الهمام الأريب اللبيب القمقام، ذو الشرف والمجد المقدام الذكي الزكي الكرام، مولانا الفهامة الحاج أحمد رضا خان…” [7]
العلامة المحدث الأصولي وصي أحمد السُورَتي- تلميذ السيد أحمد علي السهارنفوري والعلامة فضل الرحمن المرادآبادي، ومحشي سنني النسائي والترمذي وأنوار التنزيل وشرح معاني الآثار-:
عاصرالمحدث السورتي الإمام المجدّد أحمد رضا خان البَرَيْلوي وكان أقرب الناس إليه. كان يبجله ويكرمه ويراه “مجددا للمئة الرابعة عشر” مع كونه أسنّ منه بعشرين سنة، وكان بينهما علاقة إنسجامية ومودة أكيدة. يقول المحدث السورتي عن مقام هذا الهمام في “التعليق المجلي لما في منية المصلي” ص418:
“زبدة العلماء المحققين، عمدة الفضلاء المدققين، صاحب الحجة القاهرة، مجدد المائة الحاضرة، ناشر السنة، قامع البدعة، سيدنا العلامة ومولانا الفهامة المولوي أحمد رضا خان البَرَيلَوِي”.
ومدحه العلامة عبد السميع الرامفوري- أجل خلفاء الحاج إمداد الله المكي وتلاميذ الحاج رحمة الله الكيرواني في الأنوار الساطعة [8] له ص 574: “الطمطام العزير والصلهام الكبير مفخم المناظرين مسكت المجادلين مروج عقائد أهل الحق والدين قالع أصول المبتدعين فريد العصر ووحيد الزمان مولانا محمد أحمد رضا خان”.
العلامة مولانا الشيخ أحمد بن ضياء الدين الصابري الإمدادي الهندي أصلا المكي نشأ– أجل خلفاء الحاج الشاه إمداد الله المكي وأقدم تلاميذ الحاج رأس العلماء بالبلد الحرام رحمة الله الكيرواني، مدرس الحرم والمدرسة الأحمدية بمكة المكرمة-:
“هو التقي الفاضل، والنقي الكامل، عمدة المتأخرين، وأسوة المتقدمين، فخر الأعيان، مولانا المولوي الشيخ محمد أحمد رضا خان…” [9]
ويقول في تقريظه لـ “فتاوي الحرمين برجف ندوة المين” ص56: “… كيف لا وهو التقي النقي العالم العامل والفاضل الكامل الأديب الأريب الحسيب النسيب الحاوي جميع العلوم من المنطوق والمفهوم محي الشريعة السنية ومؤيد الطريقة المرضية الملك السعيد والفلك الفريد سراج الزمان مولانا المولوي الحاج أحمد رضا خان ابن الفاضل مولانا المولوي محمد تقي علي خان”
خطبة تاريخية ألقاها في حفلة تأسيس “مدرسة الحديث” بمشهد الأعيان:
بذل مولانا المحدث السورتي جهوده المقلة لتعمير “مدرسة الحديث” بـ”بِيلي بِهيت” واستدعي محبوبه العالم الفائق في جميع العلوم الإمام أحمد رضا خان لتأسيسها سنة 1301- وذلك يشهد لصفاء قلبه ونقاء سريرته وحسن عشرته ومودته بالعلماء- فأتي وألقي خطبة عظيمة استغرقت ثلاث ساعات بمشهد أكابر علماء سَهَارَنْفُور وكَانْفُور وجَونْفُور وبَدَايُون ولاهَوْر، تكلم فيها عن تاريخ علوم الحديث وأصوله وفروعه، ونثر الدراري المكنونة وذكر الأسرار المخزونة وكل ذلك من ذاكرته، فأدهش العلماء وأعجب الفضلاء لقوة ذاكرته وسعة اطلاعه في أسماء الرجال، وكثرة حفظ متون الأحاديث مع أسانيدها ومصادرها وعمق فهمه لدقائق المباحث واستحضارها، فاعترفوا بعلمه وأثنوا عليه لعبقريته فقام منهم العلامة النبيل خليل أحمد ابن المحدث الجليل الشهير في الآفاق السيد أحمد علي السهارنفوري وقال: “لو كان والدي حيا لأعترف بمهرتك في علم الحديث”، وأقر ذلك مولانا المحدث وصي أحمد السورتي والشيخ محمد علي المَوْنكِيْرِي (ناظم ندوة العلماء) وجميع الحاضرين.
مكانة الإمام أحمد رضا خان عند قضاة عصره من علماء العرب

قال مفتي مكة المكرمة العلامة محمد سعيد بابصيل المكي الشافعي عن “الدولة المكية” للإمام أحمد رضا في تقريظه عليه ص 142: “أنها وقعت عند علماء الحرمين موقعا جليلا وقرضوا له عليها وأجادوا فيما قالوا به له وهو قليل من قدره” وفي الختام: “هذا ما تيسر لي من نصرة هذا الإمام الكامل”. وقال في تقريظه علي المعتمد المستند ص69 [10]: “…وأحله (الله) من قلوب أهل الكمال المحل الجليل”.
وحرر مفتي الحنفية عبد الله بن عبد الرحمن سراج بمكة المكرمة علي الدولة المكية ص 143: ” …أما بعد: فله الحمد جل وعلا قد أوجد العلماء في الأعصار والأمصار، وجدد بهم الدين، وأودع في قلوبهم من الأسرار والأنوار، ما أوزعت به نفوسهم تمام التبيين، وضمائرهم كمال التحقيق واليقين، وإن منهم العلامة الفهامة الهمام والعمدة الدراكة ألا! إنه ملك العلماء الأعلام الذي حقق لنا قول القائل الماهر: “كم ترك الأول للآخر”.”
قال مفتي المالكية عابد حسين المالكي المكي في تقريظه علي المعتمد المستند ص 103: “لما وفق الله لإحياء دينه القويم في هذا القرن ذي الفتن والشر العميم، من أراد به خيرا من ورثة سيد المرسلين، سيد العلماء الأعلام، وفخر الفضلاء الكرام، وسعد الملة والدين أحمد السير والعدل الرضا في كل طر العالم العامل ذو الإحسان حضرة المولي أحمد رضا”.
حرر مفتي الحنابلة عبد الله حميد المكي علي الدولة المكية ص 146: “فقد نظرت إلي هذه الرسالة التي قابلها بالقبول كل رئيس” وقال عن الإمام : “و لو كنت علي وضوء لسجدت للله شكرا، علي أن من الله علينا بهذا العالم المحقق المدقق لازالت شجرة علمه نامية علي ممر الأزمان وثمرة عمله مقبولة لدي الملك الديان”.
وقال مفتي الحنفية العلامة محمد صالح بن العلامة صديق كمال المكي في تقريظه علي الدولة ص 148: “اللهم زد وبارك وأطل عمر هذا الأستاذ الكبير والعالم النحرير ليكون غصة وشوكة في حلق كل مبتدع جهول لايقدر قدر سيدنا ونبينا ومولانا محمد الرسول وصل وسلم عليه وعلي آله وأصحابه وزد ترقيه في العلوم الدينية والفيوضات الإحسانية والكمالات الجمالية”. وعلي المعتمد المستند حرر ص 72: “العالم العلامة بحر الفضائل وقرة عيون العلماء الأماثل مولانا الشيخ المحقق بركة الزمان أحمد رضا خان البريلوي حفظه الله وأبقاه، ومن كل سوء ومكروه وقاه”.
رقم مفتي الشافعية بالمدينة المنورة العلامة السيد أحمد بن إسماعيل البرزنجي في مدحه علي المعتمد المستند ص128: ” أيها العلامة النحرير والعلم الشهبر ذو التخقيق والتحرير والتدقيق والتحبير عالم أهل السنة والجماعة جناب الشيخ أحمد رضا خان البريلوي ، أدام الله توفيقه وارتفاعه”.
قال مفتي الحنفية بالمدينة المنورة الشيخ محمد تاج الدين إلياس في تقريظه علي المعتمد ص112: “العالم النحرير والدراكة الشهير، جناب المولي الفاضل الشيخ أحمد رضا خان”.
حرر مفتي المالكية بالمدينة المنورة العلامة أحمد الجزائري علي الدولة المكية ص116 : “علامة الزمان وفريد الأوان ومنبع العرفان وملحظ أنظار سيد عدنان، جناب حضرة مولانا الشيخ أحمد رضا خان” ص167 وعلي المعتمد المستند: “حضرة الشيخ أحمد رضا خان متع الله المسلمين بحياته ومتعه بطول العمر والخلود في جناته”.
وقال العلامة مفتي الشام عطاء الله الكسم في تقريظه علي الدولة المكية: ” العالم العامل والفاضل الماجد الكامل الشيخ أحمد رضا خان لا زال مظهر النفع العام بين الخاص والعام”. مخطوط
وقرض العلامة القاضي يوسف النبهاني علي الدولة المكية ص41: “لا يصدر مثله إلا عن إمام كبير علامة نحرير فرضي الله عن مؤلفه…”
حبر مفتي الحنابلة بالشام العلامة مصطفي الشطي علي الدولة المكية: ” والذي ظهر لي أحقيته ما قاله هذا الهمام و قد دل علي كثرة فضله وسعة اطلاعه وسبره” وقال: ” والحمد لله تعالى على وجود أمثاله في هذه الأمة التي هي خير أمة أخرجت للناس ونرجو دوام ذلك”. مخطوط
 القبول العام لدي علماء عصره

قال العلامة القاضي الشيخ عبد الرحمن الدهان المكي مولدا ومدفنا– مدرس الصولتية وخليفة الحاج العلامة رحمة الله الكيرواني-: “عمدة العلماء العاملين، زبدة الفضلاء الراسخين، علامة الزمان، واحد الدهر والأوان، الذي شهد له علماء البلد الحرام بأنه السيد الفرد الإمام سيدي وملاذي، الشيخ أحمد رضا خان البريلوي…” [11]
العلامة السيد إسماعيل بن خليل المكي – خليفة الحاج إمداد الله المكي، حافظ كتب الحرم-: “…كيف لا وقد شهد له عالمو مكة بذلك، ولو لم يكن بالمحل الأرفع لما وقع منهم ذلك، بل لو أقول: لو قيل في حقه: إنه مجدد هذا القرن لكان حقا وصدقا، وليس علي الله بمستنكر أن يجمع العالم في واحد”. [12]
وقد سبق معنا ما قاله مفتي مكة المكرمة العلامة محمد سعيد بابصيل المكي الشافعي ومفتي الحنابلة الشيخ عبد الله حميد في تقريظيه علي “الدولة المكية” في هذا المعني.
كان علماء الحرمين يذكرون محاسن الإمام وجودة تحقيقاته الرائعة في تأليفاته في مجالسهم قبل رؤيتهم إياه وكذلك بعد الإجتماع به. يقول العلامة الفقيه أبو الحسين المرزوقي الملقب بـ”أبي حنيفة الصغير”: “قد كنت سمعت بجميل ذكره، وعظيم قدره، وتشرفت بمطالعة بعض مؤلفاته التي يضئ الحق بها نور مشكاته، فوقرت محبته بقلبي، واستقرت بخاطري ولبي “والأذن تعشق قبل العين أحيانا”…” [13]
كما أن علماء الحرمين كانوا يذكرون فضائله في إجازاتهم للمستجيزين أنظر مثلا إجازة العلامة محمد المرزوقي أبو حسين للعلامة الراوية محمد ياسين الفاداني المكي يذكر فيها الإمام احمد رضا وذلك في 17 صفر سنة 1363هـ: “وقد أجازني الإجازة العظيمة العامة النفع، مولانا بركة الوجود وزينة الدنيا، تاج العلماء الأعلام، صاحب التآليف الكثيرة، والفضائل الشهيرة، المولوي الحاج أحمد رضا علي البريلوي رحمه الله رحمة واسعة، وقد بسط نجله محمد [14] إجازته لي ولكثير من علماء مكة والمدينة المنورة وفضلائهما في رسالة سماها ((الإجازات المتينة لعلماء مكة والمدينة)) وكان اسمها مشعرا بتأريخ تأليفها سنة 1324 هـ. وقد طبعت تلك الرسالة وعم نفعها…” [15]
ويقول سيدي العلامة إسماعيل بن خليل المكي- حافظ كتب الحرم- في رسالته المؤرخة 12 رجب 1324 هـ إلي الإمام أحمد رضا خان: “وسيدي الشيخ صالح كمال ما من مجلس إلا ويذكر كمالاتكم، وبحمد الله قد بنيتم بأرض الحرم عمودين وأي عمودين عظيمين، وإن شاء الله شاع ذكركم في سهل الأرض وعاليها وأقصي البلاد ودانيها، فإن بلدتنا أم البلاد، وليست الأم كالأولاد”. [16]

أسماء 228 كتب من كتب عن سيدنا الإمام أحمد رضا القادري

1. أجلى الإعلام أن الفتوى مطلقا على قول الإمام
2. الطرس المعدل في حد ماء المستعمل
3. جمان التاج في بيان الصلاة قبل المعراج
4. نهج السلامة في حكم تقبيل الإبهامين في الإقامة
5. إيذان الأجر في أذان القبر
6. اجتناب العمال عن فتاوى الجهال
7. أوفى اللمعة في أذان يوم الجمعة
8. سرور العيد السعيد في حل الدعاء بعد صلوة العيد
9. وشاح الجيد في تحليل معانقة العيد
10. الحرف الحسن في الكتابة على الكفن
11. المنة الممتازة في دعوات الجنازة
12. بذل الجوائز على الدعاء بعد صلوة الجنائز
13. النهي الحاجز عن تكرار صلوة الجنائز
14. اهلاك الوهابيين على توهين قبور المسلمين
15. بريق المنار بشموع المزار
16. جمل النور في نهي النساء عن زيارة القبور
17. اتيان الأرواح لديارهم بعد الرواح
18. جلي الصوت لنهي الدعوة أمام الموت
19. طرق اثبات هلال
20. درء القبح عن درك وقت الصبح
21. العروس المعطار في زمن دعوة الإفطار
22. صيقل الرين عن أحكام مجاورة الحرمين
23. أنوار البشارة في مسائل الحج والزيارة
24. النيرة الوضية شرح الجوهرة المضية مع حاشية الطرة الرضية
25. إزالة العار بحجر الكرائم عن كلاب النار
26. إعلام الأعلام بأن هندوستان دار الإسلام
27. دوام العيش في الأئمة من القريش
28. رد الرفضة
29. المبين خاتم النبيين
30. الجبل الثانوي على كلية التهانوي
31. سبحن السبوح عن عيب كذب مقبوح
32. دامان باغ سبحن السبوح
33. قهر الديان على المرتد بقاديان
34. الجراز الدياني على المرتد القادياني
35. الكوكبة الشهابية في كفريات أبي الوهابية
36. سل السيوف الهندية على كفريات بابا النجدية
37. كفل الفقيه الفاهم في أحكام قرطاس الدراهم
38. الذيل المنوط لرسالة النوط
39. كاسر السفيه الواهم في ابدال قرطاس الدراهم
40. سبل الأصفياء في حكم الذبح للأولياء
41. الصافية الموحية لحكم جلود الأضحية
42. جلي النص في أماكن الرخص
43. بركات الإمداد لأهل الإستمداد
44. فقه شهنشاه وأن القلوب بيد المحبوب بعطاء الله
45. بدر الأنوار في آداب الآثار
46. شفاء الواله في صور الحبيب ومزاره ونعاله
47. مقال العرفاء بإعزاز شرع وعلماء
48. الياقوتة الواسطة في قلب عقد الرابطة
49. مروج النجا لخروج النساء
50. صفائح اللجين في كون التصافح بكفي اليدين
51. الزبدة الزكية لتحريم سجود التحية
52. لمعة الضحى في إعفاء اللحى
53. رد القحط والوباء بدعوة الجيران ومواساة الفقراء
54. إراءة الأدب لفاضل النسب
55. هادي الناس في رسوم الأعراس
56. الأدلة الطاعنة في أذان الملاعنة
57. حك العيب في حرمة تسويد الشيب
58. خير الآمال في حكم الكسب والسؤال
59. مسائل سماع
60. الحق المجتلى في حكم المبتلى
61. تيسير الماعون في حكم الطاعون
62. الحقوق لطرح العقوق
63. مشعلة الإرشاد في حقوق الأولاد
64. أعجب الإمداد في مكفرات حقوق العباد
65. أعالى الإفادة في تعزية الهند وبيان الشهادة
66. العطايا القدير في حكم التصوير
67. النور والضياء في أحكام بعض الأسماء
68. حقة المرجان لمهم حكم الدخان
69. الشريعة البهية في تحديد الوصية
70. الصمصام على مشكك في آية علوم الأرحام
71. الفضل الموهبي في معنى إذا صح الحديث فهو مذهبي
72. نزول آيات فرقان به سكون زمين وآسمان
73. معين مبين بهر دور شمس وسكون زمين
74. فوز مبين در رد حركت زمين
75. النيرة الشهابي على تدليس الوهابي
76. السهم الشهابي على خداع الوهابي
77. دفع زيغ زاغ
78. الحجة الفائحة لطيب التعين والفاتحة
79. أطائب التهاني في النكاح الثاني
80. إزاخة العيب بسيف الغيب
81. التحبير بباب التدبير
82. ثلج الصدر بإيمان القدر
83. تجلي اليقين بأن نبينا سيد المرسلين
84. شمول الإسلام لأصول الرسول الكرام
85. تمهيد ايمان بآيات قرآن
86. الأمن والعلى لناعتي المصطفى بدافع البلاء
87. نفي الفئ عمن استنار بنوره كل شيء
88. الهداية المباركة في خلق الملائكة
89. اسماع الأربعين في شفاعة سيد المحبوبين
90. القول المسعود المحمود في مسئلة وحدة الوجود
91. الدولة المكية بالمادة الغيبية
92. الوظيفة الكريمة
93. الميلاد النبوية في الألفاظ الرضوية
94. حقيقت بيعت
95. التبصر المنجد بأن صحن المسجد مسجد
96. مرقاة الجمان في الهبوط عن المنبر لمدح السلطان
97. رعاية المذهبين في الدعاء بين الخطبتين
98. الهادي الحاجب عن جنازة الغائب
99. حياة الموات في بيان سماع الأموات
100. الوفاق المتين بين سماع الدفين وجواب المبين
101. تجلي المشكوة لإنار أسئلة الزكوة
102. أعز الأكتناه في رد صدقة مانع الزكوة
103. رادع التعسف عن الإمام أبي يوسف
104. أفصح البيان في حكم مزارع هندوستان
105. الزهر الباسم في حرمة الزكوة على بني هاشم
106. أزكى الإهلال بإبطال ما أحدث الناس بأمر الهلال
107. البدور الأجلة في أمور الأهلة مع شرح نور الأدلة للبدور الأجلة مع حاشية رفع العلة عن نور الأدلة
108. الإعلام بحال البخور في الصيام
109. تفاسير الأحكام لفدية الصلوة والصيام
110. هداية الجنان بأحكام رمضان
111. عباب الأنوار أن لا نكاح بمجرد الإقرار
112. ماحي الضلالة في أنكحة الهند و بنجالة
113. هبة النساء في تحقيق المصاهرة بالزنا
114. الجلي الحسن في حرمة ولد أخي اللبن
115. تجويز الرد عن تزويج الأبعد
116. البسط المسجل في إمتناع الزوجة بعد الوطي للمعجل
117. رحيق الإحقاق في كلمات الطلاق
118. آكد التحقيق بباب التعليق
119. الجوهر الثمين في علل نازلة اليمين
120. نابغ النور على سؤالات جبلفور
121. المحجة المؤتمنة في آية الممتحنة
122. أنفس الفكر في قربان البقر
123. ابحاث اخيرة
124. الدلائل القاهرة على الكفرة النياشرة
125. تدبير فلاح و نجات و اصلاح
126. القمع المبين لآمال المكذبين
127. باب العقائد والكلام
128. السوء والعقاب على المسيح الكذاب
129. حجب العوار عن مخدوم بهار
130. جزاء الله عدوه بإبانة ختم النبوة
131. جوال العلو لتبين الخلو
132. التحرير الجيد في حق المسجد
133. إبانة المتواري في مصالحة عبد الباري
134. أنصح الحكومة في فصل الخصومة
135. الهبة الأحمدية في الولاية الشرعية والعرفية
136. فتح المليك في حكم التمليك
137. أجود القرى لطالب الصحة في إجارة القرى
138. كتاب المنى والدرر لمن عمد مني آردر
139. هادي الأضحية بالشاة الهندية
140. الرمز المرصف على سؤال مولانا السيد آصف
141. نقاء السلافة في أحكام البيعة والخلافة
142. النميقة الأنقى في فرق الملاقي والملقى
143. الهنيء النمير في الماء المستدير
144. رحب الساحة في مياه لا يستوي وجهها وجوفها في المساحة
145. هبة الحبير في عمق ماء كثير
146. النور الرونق لإسفار الماء المطلق
147. عطاء النبي لإفاضة أحكام ماء الصبي
148. الدقة والتبيان لعلم الرقة والسيلان
149. حسن التعمم لبيان حد التيمم
150. سمح الندرى بما يورث العجز من الماء
151. الظفر لقول الزفر
152. المطر السعيد على نبت جنس الصعيد
153. الجد السديد في نفي الإستعمال عن الصعيد
154. قوانين العلماء في متيمم علم عند زيد ماء
155. الطلبة البديعة في قول صدر الشريعة
156. مجلي الشمعة لجامع حدث ولمعة
157. سلب الثلب عن القائلين بطهارة الكلب
158. الأحلى من السكر لطلبة سكر روسر
159. حاجزالبحرين الواقي عن جمع الصلاتين
160. منير العين في حكم تقبيل الإبهامين
161. الهاد الكاف في حكم الضعاف
162. هداية المتعال في حد الإستقبال
163. نعم الزاد لروم الضاد
164. إلجام الصاد عن سنن الضاد
165. النهي الإكيد عن الصلاة وراء عدى التقليد
166. القلادة المرصعة في نحر الأجوبة الأربعة
167. القطوف الدانية لمن أحسن الجماعة الثانية
168. تيجان الصواب في قيام الإمام في المحراب
169. أنهار الأنوار من يم صلاة الأسرار
170. أزهار الأنوار من صبا صلاة الأسرار
171. وصاف الرجيح في بسملة التراويح
172. الجود الحلو في أركان الوضوء
173. تنوير القنديل في أوصاف المنديل
174. لمع الأحكام أن لا وضوء من الزكام
175. الطراز المعلم فيما هو حدث من أحوال الدم
176. نبه القوم أن الوضوء من أي نوم
177. خلاصة تبيان الوضوء
178. الأحكام والعلل في إشكال الإحتلام والبلل
179. بارق النور في مقادير ماء الطهور
180. بركات السماء في حكم إسراف الماء
181. ارتفاع الحجب عن وجوه قرآءة الجنب
182. الطيب الوجيز في أمتعة الورق والإبريز
183. أبر المقال في استحسان قبلة الإجلال
184. الكشف شافيا حكم فونوجرافيا
185. الفقه التسجيلي في عجين النار جيلي
186. المقصد النافع في عصوبة الصنف الرابع
187. طيب الإمعان في تعدد الجهات والأبدان
188. تجلية السلم في مسائل من نصف العلم
189. نطق الهلال بأرخ ولاد الحبيب والوصال
190. جمع القرآن وبم عزوه لعثمان
191. إقامة القيامة على طاعن القيام لنبي تهامة
192. كشف حقائق وإسرار دقائق
193. مقامع الحديد على خد المنطق الجديد
194. الكلمة الملهمة في الحكمة المحكمة لوهاء الفلسفة المشئمة
195. حسام الحرمين على منحر الكفر والمين
196. وصايا شريف
197. أحكام شريعت
198. عرفان شريعت
199. ملفوظات اعليحضرت
200. شمائم العنبر في أدب النداء أمام المنبر
201. فتاوى كرامات غوثية
202. الزلال الأنقى من بحر سبقة الأتقى
203. طرد الأفاعي عن حمى هاد رفع الرفاعي
204. تنزية المكانة الحيدرية عن وصمة عهد الجاهلية
205. غاية التحقيق في إمامة العلي والصديق
206. قوارع القهار على المجسمة الفجار المعروف به ضرب قهاري
207. خالص الإعتقاد
208. إنباء المصطفى بحال سر وأخفى
209. أنوار الإنتباه في حل نداء يا رسول الله
210. شرح المطالب في مبحث أبي طالب
211. إعتقاد الأحباب في الجميل والمصطفى والآل والأصحاب
212. أمور عشرين در امتياز عقائد سنيين
213. رماح القهار على كفر الكفار
214. منية اللبيب أن التشريع بيد الحبيب
215. منبه المنية بوصول الحبيب إلى العرش والرؤية
216. صلات الصفاء في نور المصطفى
217. قمر التمام في نفي الظل عن سيد الأكوان
218. هدي الحيران في نفي الفئ عن سيد الأكوان
219. الإجازات المتينة لعلماء بكة والمدينة
220. أطائب الصيب على أرض الطيب
221. سيف المصطفى على الأديان الافتراء
222. النكتة على مراء كلكته
223. چراغ أنس
224. قصيدتان رائيتان
225. ذكر أحباب ودعاء أحباب
226. إظهار الحق الجلي
227. مسائل معراج
228. فتاوى أفريقة
جميع الكتب المذكورة أعلاه يمكن تحميلها من

الحواشي

[1] من تأليفاته المدهشة فتاواه سماها “العطايا النبوية في الفتاوي الرضوية ” في ثلاثين مجلدا ضخاما طبعها “مؤسسة رضا” بمدينة لاهور، و “جد الممتار علي رد المحتار” في خمسة مجلدات طبع المجلدان منها من مباركبور بالهند، والمجلد الأول من “المدينة العلمية” ومن “دار أهل السنة” بكراتشي.
[2] كتبها في 1320 هـ بالهند ثم اجتمع مع علماء الحرمين المحترمين في عام 1324هـ أثناء سفرته للحج فعرضها عليهم وقرظوا عليها تقريظات رفيعة الشأن فأفرد تقاريظها وهي 33 تقريظا مع مقدمة وسماها “حسام الحرمين علي منحر الكفر والمين” طبعت سنة 2006هـ من “دار أهل السنة” بمدينة كراتشي.
[3] أثار بعض الوهابية من الهند علي الإمام أحمد رضا سؤالا في علم غيب النبي صلي الله عليه وسلم بمكة المكرمة في عام 1324هـ وأشاعوا بين العلماء حتي أمام شريف مكة حسين بن علي أنه يقول بمساواة علم الله وعلم الرسول و أن عقيدته باطلة، فأجابهم بأكمل جواب مع أنه كان منقطعا من كتبه ومستعجلا إلي بلد الرسول عليه ألف صلوة وسلام فأتم الحجة عليهم ببراهين ساطعة وحجج قاطعة فولوا مدبرين وسمي رسالته هذه “الدولة المكية بالمادة الغيبية” كتبها خلال ثماني ونيف ساعات! وقرأ العلامة صالح كمال الحنفي مفتي الحنفية هذا الكتاب المستطاب في مجلس شريف مكة بمشهد رؤوس العلماء فصدقوه وأيدوه وجاؤا إلي الإمام مهرعين سائلين مستفيدين أو متلمذين ومستجيزين، وقرظ عليه أكثر من “سبعين” عالما ومفتيا من جميع البلاد الإسلامية، طبعت أكثر تقاريظها في طبعة جديدة صدرت من “مؤسسة رضا” بمدينة لاهور في 2001 م. والفقير- بعونه ومدده تعالي- أول من خدم تقاريظ علماء دمشق منها وهي لم تطبع قبل. ولما رأي الوهابية أن عزمهم قد كسر، هربوا من مكة إلي جدة وخمدوا وهم “خليل أحمد السهارنفوري” وطائفته كما هو مذكور في تقريظ العلامة المفتي صالح كمال الحنفي المكي علي الدولة المكية ص147 ورسالته المطبوعة في هذه القصة إلي السيد إسماعيل بن خليل المكي في المجلد الثاني من “الملفوظ” للإمام أحمد رضا، واستتر بعضهم بالتقية في المدينة المنورة أظن علي غالب الرأي هو شيخهم”حسين أحمد التَانْدَوي المدني” مساعد السهارنفوري أو غيره، كما حذر عنهم الشيخ أحمد الجزائري مفتي المالكية بالمدينة المنورة في تقريظه علي المعتمد المستند، المطبوعة في حسام الحرمين ص116.
[4] طبع من “مؤسسة رضا” بلاهور سنة 2003 م.
[5] ذكر هذه القصة مولانا رحمن علي- تلميذ وخليفة الحاج إمداد الله المكي- في كتابه “تذكرة علماء الهند” طبع في عام 1312هـ من مطبع “نول كِشَور بَرَيس” بلكنؤ.
[6] “سيدي ضياء الدين” ص713 للشيخ محمد عارف المدني و”الإمام أحمد رضا خان وشيئ من حياته” للدكتور مسعود أحمد .
[7] حسام الحرمين ص 76
[8] قرظ علي هذا الكتاب أعيان العلماء منهم الإمام إمداد الله المكي ورأس العلماء بالبلد الحرام الشيخ رحمة الله الكيرواني والعلامة عبد الحي اللكنوي وغيرهم وهو في الرد علي فتن أثارها رشيد أحمد الكنكوهي وتلميذه خليل السهارنفوري، موجود في السوق متداول في أيدي العلماء.
[9] حسام الحرمين علي منحر الكفر والمين ص 101
[10] أرقام الصفحات التالية من تقاريظ “المعتمد المستند” من “حسام الحرمين علي منحر الكفر والمين” للإمام أحمد رضا ط. “مؤسسة رضا” و”دار أهل السنة” سنة 2006م.
[11] حسام الحرمين ص 97
[12] حسام الحرمين ص 78
[13] حسام الحرمين ص 80
[14] يريد به العلامة الكبير “حجة الإسلام” حامد رضا خان رحمه الله.
[15] “إتحاف الباحث السري بأسانيد الوجيه الكزبري” للشيخ محمد ياسين الفاداني المكي ص 108.
[16] الإجازات المتينة ص 34.

علم تاریخ نے اپنے دامن میں اچھی اور برُی ہر دوصفت کی حامل شخصیات کو سمیٹ کر پناہ دی ہے اس طرح انہیں زمانے کی دست برد اور شکستگی سے محفوظ کردیا ہے تاکہ آئینہ تاریخ میں ماضی کے عکس و نقش کا مشاہدہ حال و استقبال کو جاندار اور شاندار بنانے میں معاون ہو۔ لیکن بعض شخصیات کا پیکرِ احساس اتنا جاندار و شاندار ہوتا ہے کہ جنہیں تاریخ محفوظ رکھنے کا اہتمام کرے یا نہ کرے وہ شخصیات اپنی تاریخ آپ مرتب کرلیتی ہیں اس لئے کہ وہ عہد ساز اور تاریخ ساز ہستیاں ہوتی ہیں یہ شخصیات اپنی پہچان کیلئے مؤرخ کی محتاج نہیں ہوتیں بلکہ ان نادر زمن ہستیوں کے خوبصورت تذکرے کو تاریخ اپنے صفحات کی زینت بنانے کیلئے خود محتاج ہے اور مؤرخ ان کے تذکرے لکھ کر خود کو متعارف کرانے کا محتاج ہوتا ہے۔ ایسی ہی عہد ساز ہستیوں میں ایک مہر درخشاں وہ بھی ہے جسے شرق تا غرب شیخ الاسلام و المسلمین، محدث عصر، فقیہہ دہر، مجدد دین و ملت ، حامی سنّت، قامع بدعت، اعلیٰ حضرت وغیر ہم القابات و خطابات سے پہچانا جاتا ہے ۔ امام احمد رضا فاضل و محدث بریلوی علیہ الرحمۃ کے اسم گرامی کے اعزاز و اکرام کے بارے میں علامہ ہدایت اللہ بن محمود سندھی حنفی قادری مہاجر مدنی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں۔

 

”وہ (امام احمد رضا علیہ الرحمۃ) اس کے اہل ہیں کہ ان کے نام سے قبل اور بعد میں کوئی بھی فضیلت کا خطاب لگایا جائے۔” (معارف رضا 1986ء ، صفحہ 102)


مجدد اما م احمد رضا علیہ الرحمۃ علم و فضل کا وہ خورشید ہیں کہ جس کی جلوہ گری انیسویں صدی عیسویں کے نصف آخر تا بیسویں صدی کے ربع اوّل کے عرصہ پر محیط ہے، اور یہ دور جس قدر پر آشوب تھا بلاد اسلامیہ میں کوئی دور بھی ایسا نہیں گذرا، فتنوں کی بیخ کنی اور فسادِ اُمت کے ذمہ دار مفسدین کو بے نقاب کرنے کیلئے امام احمد رضا نے فقہی بصیرت اور مدبرانہ فراست کے ذریعے ملت کی راہنمائی کا جو فریضہ انجام دیا وہ صرف آپ ہی کا خاصہ تھا۔ آپ نے جو شمع عشق رسالت فروزاں کی وہ آج بھی ملت کیلئے مینارہئ نور ہے۔ اور آئندہ بھی اس کی چمک دمک ماند نہیں پڑے گی۔ (انشاء اللہ جل مجدہ، و الرّسول علیہ الصلوٰۃ والسلام)

امام احمد رضا کا سینہ علوم و معارف کا خزینہ اور دماغ فکر و شعور کا گنجینہ تھا، اپنے بیگانے سب ہی معترف ہیں کہ شخصی جامعیت، اعلیٰ اخلاق و کردار، قدیم و جدید وعلوم و فنون میں مہارت ، تصانیف کی کثرت ، فقہی بصیرت ، احیاء سنت کی تڑپ، قوانین شریعت کی محافظت، زہد و عبادت اور روحانیت کے علاوہ سب سے بڑھ کر قیمتی متاع و سرمایہ عشق ختمی مرتبت (علیہ الصلوٰۃ والتسلیم) میں ان کے معاصرین میں ان کا کوئی ہم پلہ نہ تھا اور غالباً نہیں، بلکہ یقینا آج بھی سطور بالا صفات میں عالم اسلام میں امام احمد رضا کا ہمسر کوئی پیدا نہیں ہوا۔ آپ کی اسی انفرادیت کے بارے میں سید ریاست علی قادری علیہ الرحمۃ کہتے ہیں:

 

”امام احمد رضا کی شخصیت میں بیک وقت کئی سائنس داں گم تھے ، ایک طرف ان میں ابن الہیثم جیسی فکری بصارت اور علمی روشنی تھی تو دوسری طرف جابر بن حیان جیسی صلاحیت، الخوارزمی اور یعقوب الکندی جیسی کہنہ مشقی تھی، تو دوسری طرف الطبری ، رازی اور بو علی سینا جیسی دانشمندی، فارابی ، البیرونی ، عمر بن خیام، امام غزالی اور ابن ارشد جیسی خداداد ذہانت تھی دوسری طرف امام ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کے فیض سے فقیہانہ وسیع النظری اور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمۃ سے روحانی وابستگی اور لگاؤ کے تحت عالی ظرف امام احمد رضا کا ہر رخ ایک مستقل علم و فن کا منبع تھا ان کی ذہانت میں کتنے ہی علم و عالم ،گُم تھے۔” (معارف رضا جلد ششم صفحہ 124)


شمسی تقویم کی بیسویں صدی عیسوی اور قمری تقویم کی چودھویں صدی ہجری میں شانِ تجدّد اور محی ملت و دین کی حامل ذات امام احمد رضا کے سوا کسی اور کی قرار نہیں دی جاسکتی، اور اس صدی کو جیسے مجدّد و مصلح کی ضرورت تھی وہ تمام کمالات و اوصاف بدرجہ اتم اعلیٰ حضرت میں نظر آتے ہیں۔ دین اسلام کی اساسیات اور ایمان کی جملہ فروعات و جُزئیات پر بیک وقت مشرق و مغرب سے حملے ہورہے تھے ، ایسے موقع پر ضرورت تھی کہ مشرق میں فتنہ اُٹھانے والے مُنافقین کا مقابلہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لازوال ہتھیار سے کیا جائے اور مغرب کے مُلحد سائنس دانوں کے کائنات سے متعلق گمراہ کن نظریات کا مقابلہ کلامِ الٰہی کی شایانِ شان تفسیر، ”لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہ” کی بَدیہیات و یقینیات کے اجالے میں کیا جائے۔ چودھویں صدی ہجری میں ملت اسلامیہ کی اصلاح کیلئے جن علمی گوشوں اور شعبہ ہائے حیات میں قولاً و عملاً کام کی ضرورت تھی وہ تمام تقاضے امام احمد رضا علیہ الرحمۃ نے پورے کئے ایک ایک علم پر لکھا ۔۔۔۔۔۔ اور ایک ایک فن پر لکھا ۔۔۔۔۔۔ اور لکھتے ہی چلے گئے ۔۔۔۔۔۔ مردہ علوم کو کئی صدیوں بعد زندہ کیا، بعض علوم اپنی اختراعات سے خود ایجاد فرمائے۔ امام کے اسلوب تحریر میں امام اعظم سے لے کر دیگر علماء و دانشور اور ہئیت دان کے کارناموں سے مزین دوسری صدی تا ساتویں صدی ہجری کی تصویر نظر آنے لگی، اسلامیان ہند ہی نے نہیں بلادِ عرب ومغرب اور افریقہ نے بھی اپنے اسلاف کے ماضی کو جیتا جاگتا محسوس کیا، تہذیب و تمدن اسلامی کے تابناک دور کی روشنی امام احمد رضا کی تحریروں سے پھوٹتی محسوس ہوئی۔

ماہر رضویات ، پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود مظہری مجدّدی ایجاد و اختراع کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں:

 

”ایجاد و اختراع کا دار و مدار فکر و خیا ل پر ہے، خیال کو اساسی حیثیت حاصل ہے ، قرآن کریم میں خیالوں کی ایک دنیا آباد ہے اور عالم یہ ہے کہ

مجبور یک نظر آ، مختار صد نظر جما!

ہر خیال اپنے دامن میں صدیوں کے تجربات و مشاہدات سمیٹے ہوئے ہے ، جس نے قرآن کی بات مانی اس نے مختصر زندگی میں صدیوں کی کمائی کمالی۔ امام احمد رضا انہیں سعادت مندوں میں سے تھے جنہوں نے سب کچھ قرآن سے پایا، وہ قرآن کا زندہ معجزہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو علم لدّنی اور فیض سماوی سے نوازا تھا۔” (امام احمد رضا اور علوم جدیدہ و قدیمہ ، مطبوعہ اداریہ مسعودیہ کراچی، صفحہ ۷/۸)


زمانہ طالب علمی میں ایک مرتبہ امام احمد رضا کو جیومیٹری کی گتھیاں سلجھاتے ہوئے دیکھ کر والد گرامی حضرت مولانا نقی علی خان نے فرمایا، ”بیٹا یہ تمام علوم تو ذیلی و ضمنی ہیں تم علوم دینیہ کی طرف متوجہ رہو، بارگاہِ رسالت سے یہ علوم تمہیں خود عطا کر دیے جاءیں گے۔” پھر واقعی دنیا نے دیکھا کہ کسی کالج و یونیورسٹی اور کسی سائنسی علوم میں ماہر کی شاگردی کے بغیر تمام سائنسی علوم عقلیہ و نقلیہ حاصل ہوئے اور ایسے مشاق ہوگئے کہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سر ضیاء الدین کو ریاضی کے ایک لاینحل مسئلہ کے جواب کیلئے امام احمد رضا سے رجوع کرنا پڑا اور امام احمد رضا نے فی البدیہہ جواب لکھ کر دیا، جبکہ ڈاکٹر سر ضیاء الدین صاحب مسئلہ کے حل کیلئے جرمنی جانا چاہتے تھے۔ بریلی کے بوریا نشین کی جدید علوم و فنون پر اس مہارت کو ڈاکٹر سر ضیاء الدین ملاحظہ کرکے حیران و ششدر تو تھے ہی مزید حیرانگی اس وقت بڑھی جب یہ معلوم ہو اکہ اس مولوی صاحب نے کسی غیر ملکی درسگاہ سے علوم جدیدہ کی تحصیل کیلئے کبھی رجوع نہیں کیا بلکہ یہ ذات خود ہی مرجع ہے۔ خلائق میں سے کوئی دنیا کیلئے اور کوئی دین کیلئے یہیں رجوع کرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بے ساختہ کہا کہ علم لدنی کے بارے میں صرف سنا ہی تھا آج آنکھوں سے دیکھ لیا۔ اعلیٰ حضرت نے علوم سائنس میں اپنی خداداد مشاقی کی بنیاد پران علوم کی قد آور شخصیات بابائے طبعیات ڈیمو قریطس (٣٧٠ قبل مسیح) بطلمیوس (قبل مسیح) ، ابن سینا (٩٨٠ تا ١٠٣٧ء) نصیر الدین طوسی (متوفی ٦٧٢ء) ، کوپر نیکس (١٤٧٣ء تا ١٥٤٢ء) کپلر (١٥٧١ ء تا ١٦٣٠ء) ، ولیم ہر شل (سترہویں صدی عیسویں) ، نیوٹن (متوفی ١٧٢٧ء) ملا جونپوری (متوفی ١٦٥٢ء) گلیلیو (١٦٤٢ء) آئن اسٹائن (١٨٧٩ تا ١٩٥٦ء) اور البرٹ ایف پورٹا (١٩١٩ء) کے نظریات کا ردّ اور ان کا تعاقب کیا ہے ، جبکہ ارشمیدس (متوفی ٢١٢ ق۔م) کے نظریہ وزن ، حجم و کمیت ، محمد بن موسیٰ خوارزمی (٢١٥ھ/٨٣١ء ) کی مساوات الجبراء اور اشکال جیومیٹری، یعقوب الکندی (٢٣٥ھ /٨٥٠ء) ، امام غزالی (٤٥٠ھ تا ٥٠٥ھ/١٠٥٩ء تا ١١١٢ء)، امام رازی (٥٤٤ھ تا ٦٠٦ھ /١١٤٩ء تا ١٢١٠ء) کے فلسفہ الہٰیات، ابو ریحان البیرونی (٣٥١ھ تا ٤٤٠ھ/٩٧٣ء تا ١٠٤٨ء) ، ابن الہیثم (٤٣٠ھ/١٠٣٩ء) ، عمر الخیام (٥١٧ھ /١١٢٣ء) کے نظریاتِ ہیّت و جغرافیہ، ڈیمو قریطس کے نظریہ ایٹم اور جے جے ٹامس کے نظریات کی تائید کی اور دلائل عقلیہ سے پہلے آیات قرآنیہ پیش کیں۔ امام احمد رضا پر یہ عطا ۔۔۔۔۔۔ یہ نوازش ۔۔۔۔۔۔ یہ کرم ۔۔۔۔۔۔ یہ عنایت ۔۔۔۔۔۔ یہ التفات ۔۔۔۔۔۔ یہ فیض ۔۔۔۔۔۔ سب کچھ محض اس بنا پر تھا کہ اعلیٰ حضرت کو اسلام کی عظیم انقلابی قوت جذبہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حاصل تھا اور اسی والہانہ عشق سے مسلمانوں کی دینی ترقی ، سیاسی کامیابی ، علم کی ترویج ، معاشی و عمرانی استحکام اور ثقافتی و تمدنی الغرض ہر سطح کی کامیابیاں و کامرانیاں وابستہ ہیں حقیقت ہے کہ جسے محبت رسول کا صادق جذبہ ہاتھ آگیا دین و دنیا کی تما م دولت اسی کے دامن میں آکر سمٹ جاتی ہیں ، امام احمد رضا کا یہی تجدیدی کارنامہ ہے جس کے سب ہی معترف ہیں۔

دنیا میں جہاں کہیں بھی غلبہ دین اسلام یا احیاء اسلامی کی تحریکیں اٹھی ہیں وہ عشق رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مرہونِ منت رہی ہیں انگلستان کے ایک مشہور مستشرق پروفیسر ایچ ۔ اے گب نے اپنی کتاب اسلامک کلچر میں لکھا ہے،

 

”تاریخ اسلام میں بارہا ایسے مواقع آئے ہیں کہ اسلام کے کلچر کا شدت سے مقابلہ کیاگیا ہے لیکن بایں ہمہ مغلوب نہ ہوسکا اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ صوفیا کا اندازِ فکر فوراً اس کی مدد کو آجاتا تھا اور اس کو اتنی قوت و توانائی بخش دیتاتھا کہ کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہ کرسکتی تھی۔” (اسلامک کلچر ، صفحہ ٢٦٥، مطبوعہ لندن ١٩٤٢ء)


صوفیا کا یہی پیغام ”محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ” تھا کہ جسے اعلیٰ حضرت نے اپنی تمام زندگی اپنا کر اپنی تصنیفات و تالیفات کی روشنائی کے ذریعے ملت اسلامیہ کو منور کیا، آپکو معلوم تھا کہ اگر مسلمانوں کے دل عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے خالی ہوگئے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی نہ تو انہیں اپنی کھوئی عظمت واپس دلا سکتی ہے اور نہ اصلاح و تجدید کی ہزاروں تحریکیں انہیں اپنی منزل مراد تک پہنچا سکتی ہیں۔ مغربی استعمار کی مذمو م سازش یہی تھی کہ مسلمانوں میں سے جذبہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نکال دیا جائے، جس کی طرف شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال نے بھی یوں اشارہ کیا ہے:۔

یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو

فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو

اعلیٰ حضرت کا یہ تجدیدی کارنامہ ہے کہ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بشری و انسانی اوصاف و کمالات کے ساتھ ساتھ معجزاتی و نورانی پہلوؤں کے بلند و بالا کمالات نبوت اور فضائل و شمائل کو احاطہ تحریر میں لاکر ملت اسلامیہ کی روحانی اقدار کو تنزلی کا شکار ہونے سے بچالیا ، آپ نے اپنی علمی درسگاہ اور روحانی خانقاہ بریلی سے ، اس پر فتن دور میں ملتِ اسلامیہ کے سفینے کو ساحل مراد تک پہنچانے کیلئے جو کچھ ضروری تھا وہ اقدامات کیے۔ ہندوستان کے مشہور و ممتاز عالم و ادیب مولانا عبدالجبار رہبر اعظمی اپنے مقالہ میں نہایت جامعیت سے اعلیٰ حضرت کا تذکرہ یوں فرماتے ہیں،

 

”جب شاطرانِ مذہب نے قرآن کے تراجم میں کتر بیونت کرکے اسلامیوں کے عقائد پر حملہ کرنا چاہا تو اس قوم کو قرآن عظیم کا صحیح ترجمہ دیا، جب فریب کاروں نے اس کی تفسیر میں اپنی رائے شامل کرکے قوم کو گمراہ کرنا چاہا تو مسلمانوں کو ہوشیار رکھنے کیلئے”تمہید ایمان بآیات القرآن” دیا، جب اہل ضلالت نے ملت کو سنت کا نام لیکر احادیث کے غلط معانی و مطالب بتانے شروع کیے تو اس نے اہلِ ایمان کو سینکڑوں کتابیں دیں۔ جب اہل بدعت نے تقلید کے لباس میں غیر مقلدیت اور فقہ کے روپ میں حیلہ سازیوں اور گمراہیوں سے امت کے اعتقادات و اعمال کو زخمی کرنا چاہا تو اس نے قوم کو وہ لازوال فتاویٰ دیے جو اپنے دلائل و براہین سے ہمیشہ تابندہ رہیں گے۔ دشمنانِ اسلام نے جب اس ذات قدوس اور بے عیب خدا پر کذب کے معنی درست کرکے اسلامی عقیدہ توحید پر ضرب لگانے کی کوشش کی تو اس کا قلم ان کیلئے شمشیر خار شگاف بنا، جب شاتمانِ نبوت نے مسلمانوں کے عقائد نبوت کو مجروح کرنا چاہا تو اس کا قلم ان پر ذوالفقارِ حیدری بن کر ٹوٹا۔ جب دین و مذہب کے ڈاکوؤں نے مومنوں کے سینوں سے عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھین لینے کا خواب دیکھا تو ان کے خوابوں کے قلعے کو تعبیر سے پہلے اسکی زبان، قلم اور عمل نے مسمار کر کے رکھ دیا، جب مکاروں نے پیری اور شیخی کے لبادے اوڑھ کر ملت کے دل کے فانوس میں بزرگانِ دین و عمائدین اسلام کی عقیدت کے جلتے چراغ کو بجھانے کیلئے ناپاک تمناؤں کے محلات تعمیر کئے تو اس نے سعی پیہم سے ان کو زمین بوس کرکے تہس نہس کردیا۔ جب مولویت نما عیاروں نے آثار اسلام اور مقامات مقدسہ کی عزمت و حرمت کو غلامان محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دماغ سے نکال پھینکنے کی جرأت کی تو اس کی زبان پاک اور قلم بیباک نے ان کی چالاکیوں کے پردوں کو چاک کیا سنئے کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے، مسیح موعود کے نام کا فتنہ ہو یا مہدی معہود کے نام کا ، شانِ نبوت کی توہین کا ہو یا فضائل رسالت کی تنقیص کا ، نیچریت کا ہو یا دہریت کا ، تقلیدی ہو یا غیر مقلدیت کا ، تفضیلیت کا ہو یا رافضیت کا ، خارجیت کا ہو یا بدعیت کا ان تمام فتنوں کے سینوں میں اس کا قلم اسلام و سنیت کی شمشیر و سناں بن کر اُترگیا اور اس کی زبانِ حق ترجمان اسلامیوں کیلئے سپر بن گئی۔

وہ رضا کے نیزے کی مار ہے کہ عدو کے سینے میں غار ہے
کسے چارہ جوئی کا وار ہے ؟ کہ یہ وار وار سے پار ہے

(ماہنامہ قاری دہلی امام احمد رضا صفحہ ٢٧٠)


امام احمد رضا کے تمام مجددانہ کمالات جذبہ عشق رسول میں مضمر ہیں۔

جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی

امام احمد رضا کے علم نے تمام شعبہ ہائے علوم کا آپ کی شخصیت نے بحیثیت قائد و راہنما تمام شعبہ ہائے حیات کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ جناب سید محمد جیلانی بن سید محامد اشرف ایڈیٹر ”المیزان” بمبئی امام احمد رضا کے تبحر علمی کے متعلق یوں ر قمطراز ہوتے ہیں،

 

”اگر ہم ان کی علمی و تحقیقی خدمات کو ان کی 66 سالہ زندگی کے حساب سے جوڑیں تو ہر 5 گھنٹے میں امام احمد رضا ایک کتاب ہمیں دیتے نظر آتے ہیں ، ایک متحرک ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا جو کام تھا امام احمد رضانے تن تنہا انجام دے کر اپنی جامع شخصیت کے زندہ نقوش چھوڑے۔” (المیزان، امام احمد رضا نمبر مارچ ١٩٧٦ء)


سچ کہا ہے شاعر نے۔

وادی رضا کی کوہِ ہمالہ رضا کا ہے
جس سمت دیکھئے وہ علاقہ رضا کا ہے

اگلوں نے بہت کچھ لکھا ہے علم دین پر
لیکن جو اس صدی میں ہے تنہا رضا کا ہے

امام احمد رضا کی ایک ہزار سے زائد تصنیفات (مطبوعہ و غیر مطبوعہ) کے جائزہ کے بعد محققین کی قطعی جدید تحقیق کے مطابق یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ایک سو بیس١٢٠ قدیم و جدید، دینی ، ادبی، اور سائنسی علوم پر امام احمد رضا علیہ الرحمۃ کو دسترس حاصل تھی۔ راقم نے زیر نظر مضمون کے آخر میں ١٢٠ علوم و فنون کا شماریاتی جدول دے دیا ہے تاکہ کوئی اس تعداد کو مبالغہ نہ سمجھے۔

١٢٠ علوم میں ٤٠ یا اس سے زائد کا تعلق دینی علوم کی اساس و فروع سے ہے جبکہ ادب سے متعلق ١٠ روحانیت سے متعلق ٨ تنقیدات و تجزیہ و موازنہ سے متعلق ٦ اور طب و ادویات سے متعلق ٢ علوم کے علاوہ بقایا ٥٤ علوم کا تعلق علوم عقلیہ (سائنس) سے ہے ۔ امام احمد رضا محدث و مجدد بریلوی کی سائنسی علوم پر کتب و رسائل کی تعداد ایک سو پچاس سے زائد ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر مجید اللہ قادری صاحب لکھتے ہیں:

 

”امام احمد رضا نے یہ رسائل (جدید علوم و سائنس) اُردو، فارسی، اور عربی تینوں زبانوں میں تحریر فرمائے ہیں۔ بعض رسائل و کُتب کی ضخامت سو صفحات سے بھی زیادہ ہے۔” (دیباچہ حاشیہ جامع الافکار ، صفحہ ٣)


اعلیٰ حضرت کے علوم کی فہرست کے مطالعہ سے قبل قارئین کے علم میں یہ بات ضرور ہونی چاہئے کہ فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ نے حافظ کتب الحرم شیخ اسماعیل خلیل مکی کو جو عربی میں سند اجازت دی ہے اس میں 55 علوم و فنون کا ذکر فرمایا ہے محدث بریلوی کے اپنے قلم فیض رقم سے مندرجہ 55 علوم و فنون کی فہرست نہایت جامع ہے جس میں بعض علوم فی زمانہ متعدد شاخوں و شعبوں میں تقسیم ہوگئے ہیں اور ان کی شناخت کیلئے علیحدہ عنوانات ماہرینِ تعلیم مختص کر چکے ہیں۔ امام احمد رضا کی تصنیفات میں مرقوم مضامین ان علوم سے بھی بحث کرتے نظر آتے ہیں کہ جن کا تذکرہ امام احمد رضا نے اپنے علوم کی فہرست میں نہیں کیا ہے آپ کو ان پر دسترس حاصل تھی مثلاً ، معیشت اور اس کے ضمنی علوم تجارت، بینکاری، اقتصادیات اور مالیات کا اعلیٰ حضرت نے شمار نہیں کیا لیکن اسلامیان ہند کی فلاح کیلئے تدابیر بیان کرتے ہوئے مجدد اعظم کی ذات میں ماہر بنکار، وزیر خزانہ و مالیات اور معلم اقتصادیات کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ امام احمد رضا علیہ الرحمۃ کے بیان کردہ علوم کی ترتیب یوں ہے

 

(١) علم القران (٢) حدیث (٣) اصول حدیث (٤) فقہ حنفی (٥) کتب فقہ جملہ مذاہب (٦) اصولِ فقہ (٧) جدل مہذب (٨) علم تفسیر (٩) عقائد و کلام (١٠) نحو (١١) صرف (١٢)معانی (١٣) بیان (١٤) بدیع (١٥) منطق (١٦) مناظرہ (١٧) فلسفہ (١٨) تکسیر (١٩) ھئیات (٢٠) حساب (٢١) ہندسہ (٢٢) قرأت (٢٣) تجوید (٢٤) تصوف (٢٥) سلوک (٢٦) اخلاق (٢٧) اسماء الرجال (٢٨) سیر (٢٩) تاریخ (٣٠) لغت (٣١) ادب معہ جملہ فنون (٣٢) ارثما طیقی (٣٣) جبر و مقابلہ (٣٤) حساب سینی (٣٥) لوگارثمات (٣٦) توقیت (٣٧) مناظرہ مرایا (٣٨) علم الاکر (٣٩) زیجات (٤٠) مثلث کروی (٤١) مثلث سطح (٤٢) ہیاۃ جدیدہ (٤٣) مربعات (٤٤) جفر (٤٥) زائرچہ (٤٦) نظم عربی (٤٧) نظم فارسی (٤٨) نظم ہندی (٤٩) نثر عربی (٥٠) نثر فارسی (٥١) نثر ہندی (٥٢) خط نسخ (٥٣) نستعلیق (٥٤) تلاوت مع تجوید (٥٥) علم الفرائض [الاجازۃ الرضویہ]


اب آپ ١٢٠ علوم کی مفصل فہرست ملاحظہ فرمائیں تاہم محققین اور علماء کرام سے ملتمس ہوں کہ استدراک پر فقیر کی اصلاح بھی فرمائیں۔

 

امام احمد رضا کی علمی و تحقیقی کہکشاں کے ١٢٠ ستاروں کی فہرست


قرأت
Recitation of the Holy Quran

تجوید
Phonograph Spelling

تفسیر
Explanation of Quran

اصولِ تفسیر
Principal of Explanation

رسم الخط القرآن
Writership In Different style of Quranic letters

علم حدیث
Tradition of the Holy Prophet

اصول حدیث
Principal of Allah’s Messenger’s Tradition

اسانید حدیث
Documentary Proof of Traditions Citation of Authorities

اسماء الرجال
Cyclopedia of Narrator Tradition Branch of knowledge Judging Merits

جرح و تعدیل
Critical Examination

تخریج احادیث
References to Traditions

لغت حدیث
Colloquial Language of Traditions

فقہ
Islamic Law

اصول فقہ
Islamic Jurisprudence

رسم المفتی
Legal Opinion Judicial Verdict

علم الفرائض
Law of Inheritance and Distribution

علم الکلام
Scholastic Philosophy

علم العقائد
Article of Faith

علم البیان
Metaphor

علم المعانی
Rhetoric

علم البلاغت
Figure of Speech

علم المباحث
Dialectics

مناظرہ
Polemic

علم الصرف
Etymology Morphology

علم النحو
Syntax – Arabic Grammar

علم الادب
Literature

علم العروض
Science of Prosody

علم البرو البحر
Knowledge of Land and Oceans

علم الحساب
Arithmetic

ریاضی
Mathematics

زیجات
Astronomical Tables

تکسیر
Fractional Numeral Maths

علم الہندسہ
Geometry

جبر ومقابلہ (الجبرائ)
Algebra

مثلثات (مسطح وکروی)
Trigonometry

ارثما طیقی
Greek Arithmetic

علم تقویم
Almanac

لوگارتھم
Logarithm

علم جفر
Numerology Cum Literology

رمل
Geomancy

توقیت
Reckoning of Time

اوفاق (علم الوفق)
۔۔۔۔۔

نجوم
Astrology

فلکیات
Study in form of Heavens

ارضیات
Geology

علم مساحت الارض
Geodesy Survey – Mensuration

جغرافیہ
Geography

طبیعات
Physics

مابعد الطبیعات
Metaphysics

کیمیا
Chemistry

معدنیات
Mineralogy

طب و حکمت
Indigenous System of Medicine

ادویات
Pharmacology

نباتات
Botany – Phytonomy

شماریات
Statistics

اقتصادیات
Political Economy

معاشیات
Economics

مالیات
Finances

تجارت
Trade – Commerce

بنکاری
Banking

زراعت
Agricultural Study

صوتیات
Phonetics- Phonology

ماحولیات
Ecology – Environment

سیاسیات
Politics – Strategy

موسمیات
Meteorology

علم الاوزان
Weighing

شہریات
Civics

علم عملیات
Practical-ism

سیرت نگاری
Biography of Holy Prophet

حاشیہ نگاری
Citation

نثر نگاری
Composition

تعلیقات
Scholia

تشریحات
Detailed Comments

تحقیقات
Research Study

تنقیدات
Critique Philosophy

ردّات
Rejection

شاعری
Poetry

حمدو نعت
Hamd – wa – Naat

فلسفہ (قدیم و جدید)
Philosophy

منطق
Logic

تاریخ گوئی
Compose Chronograph

علم الایام
Knowledge of days

تعبیر الرویاء
Interpretation of Dreams

رسم الخط نستعلیق، شکستہ و مستقیم
Typography

استعارات
Figuration

خطبات
Oratory

مکتوبات
Letters

ملفوظات
Articulates

پندو نصائح
Homily

اذکار (اوراد و وظائف)
Prayers and Supplications

نقوش و تعویزات و مربعات
Matrices, Amulets, Symbols

علم الادیان
Comparative Religions

ردّ موسیقی
Refutation of the Music

عمرانیات
Sociology

حیاتیات
Biology

مناقب
Manaqib

علم الانساب
Genealogy

فضائل
Preference Study

زائرچہ و زائچہ
Horoscopes

سلوک
Sulook

تصوف
Mysticism

مکاشفات
Spiritual Study

علم الاخلاق
Ethics

تاریخ و سیر
History & Biography

صحافت
Journalism

حیوانیات
Zoology

فعلیات
Physiology

علم تخلیق کائنات
Cosmology

نفسیات
Psychology

علم البدیع
Science Dealing with Rhetorical – Devices

لسانیات
Linguistics – Languages, Philology

نظم عربی و فارسی و ہندی
Arabic, Persian & Hindi Poetry

نثرعربی و فارسی و ہندی
Arabic, Persian & Hindi Composition

ھئیت (قدیم و جدیدہ)
Old & Modern Astronomy

ارضی طبیعات
Geo Physics

علم خلیات
Cytology

قانون
Law

علم الاحکام
Take & Put References of Ordinances

علم قیافہ
Physiognomy

سالماتی حیاتیات
Molecular Biology

معارف کا سمندر موجزن ہے جس کے سینے میں ۔۔۔ وہ مقبولِ درِ خیر البشر احمد رضا تم ہو

— — —
تحریر: علامہ نسیم احمد صدیقی مد ظلہ عالی
پیشکش: انجمن ضیائے طیبہ، کراچی، پاکستان

حضرت امام ربّانی مجدد الف ثانی
شیخ احمد سرہندی فاروقی علیہ الرحمۃ والرضوان


آپ کی ولادت ١٤ شوال ٩٧١ ھ /١٥٦٣ء ، جلال الدین اکبر بادشاہ کے دور میں سرہند میں ہوئی۔ علوم عقلیہ و نقلیہ میں سند فراغ ٩٨٨ھ میں حاصل کی ١٠٠٧ھ میں آپ کے والد ِ بزرگوار شیخ عبدالاحد علیہ الرحمۃ کا وصال ہوا ۔ سلسلہ عالیہ قادریہ میں حضرت شیخ کمال کیتھلی علیہ الرحمۃ (وصال ٩٨١ھ /١٥٧٣ء) سے نسبت حاصل کی ۔ ١٠٠٨ھ /١٥٩٩ء میں دہلی تشریف لا کر ، زبدۃ العارفین حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہ، سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت ہو کر انتہائی کمال حاصل کیا اور اسی سال حضرت شاہ سکندر کیتھلی (نبیرہ شیخ کمال کیتھلی) نے حضرت غوثِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ، ( ف ۔٥٦١ھ /١١٦٤ء) کا خرقہ خلافت حضرت مجدد کو عطا کیا۔ عہد اکبری اور جہانگیری میں مسندِ اقتدار سے لے کر عوام کے انتہائی پسماندہ طبقے تک اور سری لنکا کے ساحل سے لے کر آسام تک ، بحیرہ عرب کے جنوبی مسلم علاقوں سے لے کر چین کی سرحدوں تک، حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ نے جو رشد و ہدایت کی شمع فروزاں کی اس سے متذکرہ علاقوں کے علاوہ پورا عالمِ اسلام منور ہوا۔ سلطنتِ مغلیہ کے مقتدر ایوانوں اور عام مسلم گھرانوں میں آپ کے تجدیدی کارناموں کے باعث لاکھوں افراد کامیاب اور راہ یاب ہوئے ۔ آپ کی بے باکی، بے خوفی اور بے غرضی کو دیکھ کر قرونِ اولیٰ و ثانیہ کے مسلمان صحابہ و تابعین کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ طویل عرصہ زنداں میں اسیر (جیل میں نظر بند) رہنے کے باوجود آپ کے پائے ثبات متزلزل نہیں ہوئے۔ آپ کا وصال پر ملال ٦٣ برس کی عمر میں بروز دوشنبہ (پیر) ٢٩ صفر المظفر ١٠٣٤ھ/١٦٢٤ء میں ہوا۔ اپنے وصال کی خبر آپ نے دس برس قبل ہی دے دی تھی، جوکہ آپ کی کرامت ہے۔ آپ کے زمانہ میں مشہور علماء حضرت محقق علی الاطلاق شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ ، پیر طریقت حضرت خواجہ حسام الدین نقشبندی علیہ الرحمۃ اور امام المتکلمین حضرت علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی علیہ الرحمۃ تھے۔


شاعرِ مشرق ڈاکٹر محمد اقبال کا نذرانہ عقیدت

حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر
وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلعِ انوار

اس خاک کے ذروں سے ہیں شرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحبِ اسرار

گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیئ احرار

وہ ہند میں سرمایہ ملّت کا نگہباں
اللہ نے بر وقت کیا جس کو خبردار

عقائد و اعمال سے متعلق ارشادات


اہلسنّت ہی جنت میں جائیں گے:

نجات آخرت کا حاصل ہونا صرف اسی پر موقوف ہے کہ تمام افعال و اقوال و اصول و فروع میں اہلسنّت و جماعت (اکثر ہم اللہ تعالیٰ ) کا اتباع کیا جائے اور صرف یہی فرقہ جنتی ہے اہلسنّت و جماعت کے سوا جس قدر فرقے ہیں سب جہنمی ہیں۔ آج اس بات کو کوئی جانے یا نہ جانے کل قیامت کے دن ہر ایک شخص اس بات کو جان لے گا مگر اس وقت کا جاننا کچھ نفع نہ دے گا۔ (مکتوب ٦٩ جلد اوّل مطبع نو لکشور لکھنؤ ٨٦)


حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم مقصود کائنات:

حدیث قدسی میں ہے کہ حضور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی

اَللّٰھُمَّ اَنْتَ وَمَا اَنَا وَمَا سواک تَرَکْتُ لاَجَلِکَ
یعنی اے اللہ توہی ہے اور میں نہیں ہوں اور تیرے سوا جو کچھ ہے سب کو میں نے تیرے لئے چھوڑدیا

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا

یَا مُحَمَّد اَنَا وَ اَنْتَ وَمَا سِوَاکَ خَلَقْتُ لاجَلِکَ
یعنی اے محبوب میں ہوں اور تو ہے اور تیرے سوا جو کچھ ہے سب کو میں نے تیرے ہی لئے پیدا کیا ۔ (مکتوب ٨ جلد دوم صفحہ ١٨)

معرفت ربّ العالمین کا سبب حقیقی:

اللہ تعالیٰ عزوجل نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد فرمایا۔

لَوْ لاکَ لَمَا خَلَقْتُ الافْلاک
یعنی تمہارا پیدا کرنا مجھے مقصود نہ ہوتا تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا

لَوْ لاکَ لَمَا اَظْہَرْتُ الرَّبُوْ بِیَّۃَ
یعنی تمہارا پیدا کرنا مجھے مقصود نہ ہوتا تو میں اپنا رب ہونا بھی ظاہر نہ کرتا۔ (مکتوب ١١٢جلد سوم صفحہ ٢٣٢)

مجدد صاحب کی زندگی کا مرکز و محور:

مجھے اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ اسلئے محبت ہے کہ وہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا رب ہے ۔ (مکتوب ٢٢١جلدسوم صفحہ ٢٢٤)

نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ کے نور سے ہیں:

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خلقت کسی بشر کی خلقت کی طرح نہیں بلکہ عالم ممکنات میں کوئی چیز بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں رکھتی ۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ عزوجل نے اپنے نور سے پیدا فرمایا ہے۔ (مکتوب ١٠٠ جلد سوم صفحہ ١٨٧)


رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاسایہ نہیں تھا:

عالم امکان کو (جو تحت الثریٰ سے عرش تک کی جملہ موجودات و کائنا ت کا محیط ہے) جس قدر دقت نظر کے ساتھ دیکھا جاتا ہے حضور انورصلی اللہ علیہ وسلم کا وجود پاک اسکے اندر نظر نہیں آتا ۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اس بزم امکان سے بالا تر ہیں۔ اسی لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا۔ (مکتوب ١٠٠ جلد سوم صفحہ ١٨٧)

عقیدہ علم غیب:

جو علم غیب اللہ عزوجل کے ساتھ مخصوص ہے اس پر وہ اپنے خاص رسولوں کو مطلع فرمادیتا ہے۔ (مکتوب ٣١٠ جلد اول ٤٤٦)


شیخ مجدد کا مسلک پرتصلّب و تشدد:

جو شخص تمام ضروریات دین پرایمان رکھنے کا دعویٰ کرے لیکن کفرو کفار کے ساتھ نفرت و بیزاری نہ رکھے وہ درحقیقت مرتد ہے۔ اس کا حکم منافق کا حکم ہے۔ جب تک خدا عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی نہ رکھی جائے اس وقت تک خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت نہیں ہوسکتی ۔ یہیں پر یہ کہنا ٹھیک ہے ع

تولّٰی بے تبرّ یٰ نیست ممکن (مکتوب ٢٦٦ جلد اول صفحہ ٣٢٥)

اہلبیت کی محبت کے بغیر ایمان مکمل نہیں:

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کرام کیساتھ محبت کا فرض ہونا نصِ قطعی سے ثابت ہے ۔ اللہ عزوجل نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت الی الحق و تبلیغ اسلام کی اجرت امت پر یہی قرار دی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں کیساتھ محبت کی جائے۔ قُل لاَّ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلا الْمَوَدَّۃَ فِیْ الْقُرْبٰی۔ (مکتوب ٢٦٦، جلد اول صفحہ ٣٢٦)


اصحاب رسول سے محبت :

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو نیکی کیساتھ یاد کرنا چاہئے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی وجہ سے انکے ساتھ محبت رکھنی چاہئے ۔ ان کے ساتھ محبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ محبت ہے، انکے ساتھ عداوت حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کیساتھ عداوت ہے۔ (مکتوب ٢٦٦، جلد اول صفحہ ٣٢٦)

اصحابِ رسول کے درجات:

تمام صحابہ کرم میں سب سے افضل و اعلیٰ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں پھر ان کے بعد سب سے افضل سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ان دونوں باتوں پر اجماع امت ہے اور چاروں آئمہ مجتہدین امام اعظم ابو حنیفہ و امام شافعی و امام مالک و امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہم اجمعین اور اکثر علماء اہلسنّت کا یہی مذہب ہے کہ حضرت عمر کے بعد تمام صحابہ میں سب سے افضل سیدنا عثمان غنی ہیں ، پھر ان کے بعد تمام امت میں سب سے افضل سیدنا مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ، ہیں۔ (مکتوب ٢٦٦، جلد اول، صفحہ٣٣٠)


مولیٰ علی حق پر ہیں:

حضرت مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ، کے ساتھ حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا و سیدنا طلحہٰ و سیدنا زبیر و سیدنا معاویہ و سیدنا عمر و بن العاص کی لڑائیاں ہوئیں۔ ان سب میں مولیٰ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ حق پر تھے۔ اور یہ حضرات خطا پر ۔ لیکن وہ خطا عنادی نہ تھی بلکہ خطائے اجتہادی تھی۔ مجتہد کواسکی خطائے اجتہادی پر بھی ایک ثواب ملتا ہے۔ ہم کو تمام صحابہ کے ساتھ محبت رکھنے ، ان سب کی تعظیم کرنے کا حکم ہے جو کسی صحابی کے ساتھ بغض و عداوت رکھے وہ بد مذہب ہے۔ (خلاصہ مکتوب ٢٦٦ جلد اول صفحہ٣٢٦ تا ٣٣٠)

روافض سے اجتناب:

جو لوگ کلمہ پڑھتے اور اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں اللہ عزوجل نے قرآن میں ان کو کافر کہا ہے۔ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّار مسلمان کہلانے والے بد مذہب کی صحبت کھُلے ہوئے کافر کی صحبت سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔ (مکتوب ٥٤ جلد اول صفحہ٧١)


اولیائے کرام کی فضیلت:

* انبیا و اولیاء کی پاک روحوں کو عرش سے فرش تک ہر جگہ برابر کی نسبت ہوتی ہے کوئی چیز ان سے نزدیک و دور نہیں۔ (مکتوب ٢٨٩ جلد ۱ صفحہ ٣٧١)
* حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے اولیائے کرام کا طواف کرنے کیلئے کعبہ معظمہ حاضر ہوتا اور ان سے برکتیں حاصل کرتا ہے۔ (مکتوب ٢٠٩ جلد اول صفحہ ٢١١)
* اکمل اولیا اللہ کو اللہ عزوجل یہ قدرت عطا فرماتا ہے کہ وہ بیک وقت متعدد مقامات پر تشریف فرما ہوتے ہیں۔ (مکتوب ٥٨ جلد دوم صفحہ ١١٥)
* عارف ایسے مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے کہ عرض ہو یا جوہر، آفاق ہو یا انفس تمام مخلوقات اور موجودات کے ذروں میں سے ہر ایک ذرہ اس کے لئے غیب الغیب کا دروازہ ہوجاتا ہے اور ہر ایک ذرہ بارگاہ الٰہی کی طرف اسکے لئے ایک سڑک بن جاتا ہے۔ (مکتوب ١١٠ جلد سومصفحہ٢١٠)

غوث اعظم تقدیر بدل سکتے ہیں:۔

حضور پر نور سیدنا غوث اعظم محی الدین عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کو اللہ نے یہ قدرت عطا فرمائی ہے کہ جو قضا لوح محفوط میں بشکل مبرم لکھی ہوئی ہو اور اس کی تعلیق صرف علم خداوندی میں ہو۔ ایسی قضا میں باذن اللہ تصرف فرما سکتے ہیں۔ (مکتوب ٢١٧ جلد اول صفحہ ٢٢٤)

حضور پر نور سیدنا غوث اعظم محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ مبارک سے قیامت تک جتنے اولیاء ،ابدال ، اقطاب ، اوتاد، نقبا، نجبائ، غوث یا مجدد ہونگے ، سب فیضان ولایت و برکات طریقت حاصل کرنے میں حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے محتاج ہونگے بغیر ان کے واسطے اور وسیلے کے قیامت تک کوئی شخص ولی نہیں ہوسکتا۔ احمد سرہندی بھی حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا نائب ہے جس طرح سورج کا پرتو پڑنے سے چاند منور ہوتا ہے اسی طرح احمد سرہندی پر بھی تمام فیوض و برکات حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی بارگاہ سے فائز ہورہے ہیں۔ (مکتوب ١٢٣ جلد سوم صفحہ ٢٤٨)

تقلید واجب ہے:۔

مقلد کو یہ جائز نہیں کہ اپنے امام کی رائے کے خلاف قرآن عظیم و حدیث شریف سے احکام شرعّیہ خود نکال کر ان پر عمل کرنے لگے۔ مقلدین کے لئے یہی ضروری ہے کہ جس امام کی تقلید کررہے ہیں اسی کے مذہب کا مفتی بہ قول معلوم کرکے اسی پر عمل کریں۔ (مکتوب ٢٨٦ جلد اول صفحہ ٣٧٥)

بد مذہبوں سے بچو!:

اللہ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خلق عظیم کے ساتھ موصوف ہیں، کافروں اور منافقوں پر جہاد کرنے اور سختی فرمانے کا حکم دیا۔ اسلام کی عزت ،کفر کی ذلت پر اور مسلمانوں کی عزت، کافروں کی ذلت پر موقوف ہے۔ جس نے کافروں کی عزت کی اس نے مسلمانوں کی ذلیل کیا۔ کافروں اور منافقوں کو کتوں کی طرح دور رکھنا چاہئے۔ ۔خدا عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ میل جول بہت بڑا گناہ ہے۔ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ دوستی و الفت خدا عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی و عداوت تک پہنچا دیتی ہے۔ (مکتوب ١٦٣ جلد اول صفحہ ١٦٥)

 

گائے کی قربانی:

گائے ذبح کرنا ہندوستان میں اسلام کا بہت بڑا شعار ہے (مکتوب ٨١ جلد اول صفحہ ١٠٦)

ہندوؤں کے دیوتاؤں کو پیغمبر یا اوتار نہ سمجھواور خدا بھی نہ سمجھو:

ہندوؤں کے دیوتا مثل رام و کرشن وغیرہا کافر و بے دین تھے کہ لوگوں کو اپنی عبادت کی طرف دعوت دیتے تھے اور اس بات کے قائل تھے کہ خدا ان کے اندر حلول کئے ہوئے ہے۔ ہندو جس رام اور کرشن کو پوجتے ہیں وہ تو ماں باپ سے پیدا ہوئے تھے، رام وسرتھ کا بیٹا تھا، لچھمن کا بھائی اور سیتا کا خاوند تھا لہٰذا یہ کہنا کہ رام اور رحمان ایک ہی ہستی کے دو نام ہیں کسی طرح ٹھیک نہیں۔ (مکتوب ١٦٧ جلد اول صفحہ ١٧١)


میلاد و اعراس کی محافل جائز ہیں:

مجلس میلاد شریف میں اگر اچھی آواز کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کی جائے اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت شریف اور صحابہ کرام و اہل بیت عظام و اولیائے اعلام رضی اللہ عنہم اجمعین کی منقبت کے قصیدے پڑھے جائیں تو اس میں کیا حرج ہے؟ ناجائز بات تو یہ ہے کہ قرآن عظیم کے حروف میں تغیر و تحریف کر دی جائے۔ اور قصیدے پڑھنے میں راگنی اور موسیقی کے قواعد کی رعایت و پابندی کی جائے اور تالیاں بجائی جائیں۔ جس مجلس میلاد مبارک میں یہ ناجائز باتیں نہ ہوں اس کے ناجائز ہونے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ ہاں جب تک راگنی اور تال سُر کے ساتھ گانے اور تالیاں بجانے کا دروازہ بالکل بند نہ کیا جائے گا ابو الہوس لوگ باز نہ آئیں گے۔ اگر ان نامشروع باتوں کی ذرا سی بھی اجازت دے دی جائے گی تو اس کا نتیجہ بہت ہی خراب نکلے گا۔ (مکتوب ٧٢ جلد سوئم صفحہ ١١٦)

بے ادبوں گستاخوں سے صلح جائز نہیں:

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کے ساتھ کمال محبت کی علامت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ کمال بغض رکھیں۔ اور ان کی شریعت کے مخالفوں کے ساتھ عداوت کا اظہار کریں۔ محبت کے اندر پالیسی اور چاپلوسی جائز نہیں۔ کیونکہ محب اپنے محبوب کا دیوانہ ہوتا ہے۔ وہ اس بات کو برداشت نہیں کرسکتا کہ اس کے محبوب کی مخالفت کی جائے۔ وہ اپنے محبوب کے مخالفوں کے ساتھ کسی طرح بھی صلح پسند نہیں کرتا۔ دو محبتیں جو آپس میں ایک دوسرے کی ضد ہوں ایک قلب میں اکٹھی نہیں ہوسکتیں ۔ کفار کے ساتھ جو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہیں دشمن ہونا چاہئے اور ان کی ذلت و خواری میں کوشش کرنا چاہئے اور کسی طرح بھی ان کو عزت نہیں دینا چاہئے اور ان بدبختوں کو اپنی مجلس میں آنے نہیں دینا چاہئے اور ان سے اُنس و محبت نہیں کرنا چاہئے اور ان کے ساتھ سختی و شدت کا طریقہ برتنا چاہئے اور جہاں تک ہوسکے کسی بات میں ان کی طرف رجوع نہ کرنا چاہئے اور اگر بالفرض ان سے کوئی ضرورت پڑ جائے تو جس طرح انسان ناگواری اور مجبوری سے بیت الخلا جاتا ہے اسی طرح ان سے اپنی ضرورت پوری کرنا چاہئے۔ (خلاصہ مکتوب ١٦٥ جلد اول صفحہ ١٦٦ تا ١٦٩)


بادشاہ حکمراں کی حیثیت:

رعایا کے ساتھ بادشاہ کا تعلق ایسا ہے جیسا دل کا جسم سے ہوتا ہے، اگر دل ٹھیک ہو تو بدن بھی ٹھیک رہے گا، اگر دل بگڑ جائے تو بدن بھی بگڑ جائے گا، بالکل اسی طرح ملک کی بہتری بادشاہ کی بہتری پر منحصر ہے، اگر بادشاہ بگڑ جائے گا تو ملک کا بگڑ جانا بھی لازمی ہے۔

شہزادہ خرّم (شاہجہاں) کو بشارت دی:

ایک دن حضرت مجدد تنہا بیٹھے تھے کہ شہزادہ خرم آپکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا! یہ عجیب بات ہے کہ میں نے ہمیشہ آپ کی طرف دار و حمایت کی مگر آپ نے میرے حق میں دعا کے بجائے بادشاہ کے حق میں دعا فرمادی آپ نے جواباً فرمایا! ”مت گھبرا، مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے معلوم ہوا ہے کہ تو عنقریب تخت پر بیٹھے گا اور تیرا لقب شاہ جہاں ہوگا۔” شہزادہ خرم نے استدعا کی کہ مجھے بطور تبرک اپنی دستار عطا فرمائیں تو امام ربانی نے اپنی دستار شہزادہ کو دی جو عرصہ تک مغل بادشاہوں کے پاس تبرکاً محفوظ رہی۔

— — —
تحریر: علامہ نسیم احمد صدیقی مد ظلہ عالی
پیشکش: انجمن ضیائے طیبہ، کراچی، پاکستان

حضرت شیخ الاسلام غوث بہاؤ الحق و الدین سیدنا زکریا ملتانی سُہروردی علیہ الرحمة
خاندانی حالات و علم و فضل
حضرت مخدوم شیخ بہاﺅالدین زکریا ملتانی رحمة اللہ علیہ خاندان سہروردیہ کے بڑے بزرگ اور عارف کامل گزرے ہیں۔ حافظ‘ قاری‘ محدث‘ مفسر‘ عالم‘ فاضل‘ عارف‘ ولی سب کچھ تھے‘ ۔ شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین سہروردی رحمة اللہ علیہ کے خلیفہ تھے۔ ہندوستان کے اندر آپ ولیوں میں باز سفید کے نام سے مشہور تھے۔ حضرت شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمة اللہ علیہ ساتویں صدی ہجری کے مجدددین میں شمار کئے جاتے ہیں آپ ظاہری و باطنی علوم میں یکتائے روزگار تھے ، اسلام کے عظیم مبلغ تھے. آپ کے جد امجد مکہ معظمہ سے پہلے خوارزم آئے ، پھر ملتان میں مستقل سکونت اختیار کی۔ آپ یہیں پیدا ہوئے۔ آپ رحمة اللہ علیہ نسبتاً قریشی ہیں۔ آپ 578ھ میں پیدا ہوئے۔ یہ عہد خسرو ملک غزنوی کا عہد تھا۔ آپ کی ولادت ملتان سے قریب ایک علاقے کوٹ کہرور ضلع لیّہ میں ٢٧ رمضان المبارک شب جمعہ کو ہوئی۔ آپ کی والدہ نے رمضان کے دنوں میں آپ کو ہر چند دودھ پلانا چاہا مگر آپ نے نہ پیا جو آپ کی کرامت ہے۔ بارہ سال کی عمر تک آپ رحمة اللہ علیہ ملتان میں ہی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ اس کے بعد آپ رحمة اللہ علیہ خراسان تشریف لے گئے۔ اسی عمر میں آپ رحمة اللہ علیہ حافظ و قاری ہو گئے تھے۔والد گرامی کے انتقال کے بعد آپ رحمة اللہ علیہ نے محض حصول علم و فن کیلئے پیادہ پا خراسان کا سفر کیا۔ اس کے بعد بلخ بخارا و بغداد اور مدینہ منورہ کے شہرہ آفاق مدارس میں رہ کر سند فضیلت حاصل کی۔ پانچ سال تک مدینہ منورہ ہی میں رہے جہاں حدیث پڑھی بھی اور پڑھائی بھی۔ غرض پندرہ سال اسلام کے مشہور مدارس و جامعات میں رہ کر مقعولات اور منقولات کی تکمیل کی۔ مدینہ منورہ ہی میں حضرت کمال الدین محمد یمنی محدث رحمة اللہ علیہ سے احادیث کی تصحیح کرتے رہے۔ جب پورا تجربہ حاصل ہو گیا تو آپ رحمة اللہ علیہ مکہ معظمہ میں حاضر ہوئے اور یہاںسے بیت المقدس پہنچ کر انبیاءکرام علیہم السلام کے مزارات کی زیارات کیں۔ اس عرصہ میں نا صرف یہ کہ آپ علوم ظاہر کی تکمیل میں مصروف رہے بلکہ بڑے بڑے بزرگان دین اور کاملین علوم باطنی کی صحبتوں سے بھی فیض یاب ہوئے۔ بڑے بڑے مشائخ سے ملے۔ فیوض باطنی حاصل کئے اور پاکبازانہ و متقیانہ زندگی بسر کرتے رہے۔ جس وقت آپ بغداد شریف وارد ہوئے تو ایک جید عالم تھے۔
١٥ سال کی عمر میں حفظِ قرآن ، حسنِ قرأت، علومِ عقلیہ و نقلیہ اور ظاہری و باطنی علوم سے بھی مرصع ہوگئے تھے ۔ آپ کی یہ خصوصیت تھی کہ آپ قرآن مجید کی ساتوں قرأت (سبعہ قرأت) پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ آپ نے حصول علم کیلئے خراسان ، بخارا ، یمن، مدینة المنورة ، مکة المکرمة ، حلب، دمشق، بغداد، بصرہ، فلسطین اور موصل کے سفر کر کے مختلف ماہرین علومِ شرعیہ سے اکتساب کیا۔ شیخ طریقت کی تلاش میں آپ ، اپنے زمانہ کے معاصرین حضرت ِ خواجہ فرید الدین مسعود گنجِ شکر، حضرت سید جلال الدین شاہ بخاری (مخدوم جہانیاں جہاں گشت) اور حضرت سید عثمان لعل شاہباز قلندر رحمہم اللہ کے ساتھ سفر کرتے رہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خرقہ خلافت دلایا
بیت المقدس سے مختلف بلاد مشائخ اور مزارات کی زیارت کرتے ہوئے مدینة العلم بغداد میں آئے تو اس وقت حضرت شیخ شہاب الدین عمر سہروردی رحمة اللہ علیہ کا طوطی بول رہا تھا۔ ان کی ذات گرامی مرجع خلائق بنی ہوئی تھے۔ بڑا دربار تھا ‘ بڑا تقدس ۔ آپ رحمة اللہ علیہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھتے ہی فرمایا باز سفید آ گیا۔ جو میرے سلسلہ کا آفتاب ہو گا اور جس سے میرا سلسلہ بیعت وسعت پذیر ہوگا۔ آپ رحمة اللہ علیہ نے ادب سے گردن جھکائی۔ شیخ رحمة اللہ علیہ نے اسی روز حلقہ ارادت میں لے لیا اور تمام توجہات آپ کی طرف مرکوز تھیں۔ صرف سترہ روز بعد درجہ ولایت کو پہنچا کر باطنی دولت سے مالا مال اور خرقہ خلافت عطا کر کے رخصت کر دیا۔
خانقاہ شیخ الشیوخ تو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی روحانی یونیورسٹی تھی جس میں ہر وقت اور ہمیشہ درویشوں اور طریقت والوں کا ہجوم رہتا تھا۔ اس وقت اور بھی بہت سے بزرگ ان کی خدمت میں موجود تھے۔ جو مدت سے خرقہ خلافت کا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے جو دیکھا کہ مخدو م بہاﺅالدین رحمة اللہ علیہ کو آتے ہی خلافت بھی مل گئی اورہم تو برسوں سے خدمت کر رہے ہیں‘ اب تک یہ مرتبہ حاصل نہ ہوا اور یہ نوجوان چند روز ہی میں کمال کو پہنچ گیا۔ حضرت شہاب الدین سہروردی رحمة اللہ علیہ نے الحمد للہ نور باطن سے معلوم کر کے فرمایا کہ تم بہاﺅ الدین رحمة اللہ علیہ کی حالت پر کیا رشک کرتے ہو وہ تو چوبِ خشک تھا جسے فوراً آگ لگ گئی اور بھڑک اٹھی۔ تم چوبِ تَر کی مانند ہو جو سلگ سلگ کر جل رہی ہے اور جلتے جلتے ہی جلے گی۔ پھر سب لوگ سمجھ گئے کہ یہ تمام امور‘ فضل الٰہی پر منحصر ہیں۔
سترھویں شب ہی کو مخدوم صاحب نے خواب میں دیکھا کہ ایک بڑا آراستہ مکان ہے جو انوار تجلیات سے جگمگا رہا ہے ‘ درمیان میں تخت پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم جلوہ افروز ہیں۔ دائیں جانب حضرت شیخ الشیوخ دست بستہ مودب کھڑے ہیں اور قریب ہی چند خرقے آویزاں ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مخدوم صاحب کو سامنے بلایا اور ہاتھ پکڑ کر اسے حضرت شیخ الشیوخ کے ہاتھ میں دے دیا اور فرمایا کہ میں اسے تمہارے سپرد کرتا ہوں۔ ان خرقوں میں سے ایک خرقہ بہاﺅالدین کو پہنا دو۔ چنانچہ انہوںنے تعمیل حکم کے طور پر آپ کو ایک خرقہ پہنا دیا۔
صبح ہوتی ہے حضرت شیخ الشیوخ نے آپ کو بلایا اور فرمایا کہ رات کو جو خرقہ عطا ہوا ہے وہ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عطا ہوا ہے۔ آپ نے وہ خرقہ پہنایا اور حکم دیا کہ اب ملتان پہنچ کر ہدایت خلق میں مصروف ہو جاﺅ ۔ یہ تھا حضرت مخدوم صاحب کا مرتبہ کہ ستر ہ روز میں خلافت ملی ‘ حکم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی‘ سب کچھ دکھا کر ملی ‘ گویا آپ کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملتان میں پنجاب ‘ سندھ اور سرحد میں روشنی پھیلانے کیلئے متعین کیا تھا۔ شیخ کے حکم پر آپ ہندوستان کے علاقہ ملتان میں تبلیغِ دین میں مصروف ہوئے ۔ آپ کے ذریعے ہزاروں ہندو ،مسلمان ہوئے جبکہ لاکھوں مسلمان راہ یاب اور کامیاب ہوئے۔ آپ کے ملفوظات اور مکتوبات طبع ہوچکے ہیں ، جن میں سے یہ ایک جملہ مکمل اسلامی زندگی کا احاطہ کرتا ہے ۔
 جسم کی سلامتی کم کھانے میں ، روح کی سلامتی گناہوں کے ترک میں اور دین کی سلامتی نبی کریم صاحبِ لولاک علیہ الصلوٰة والسلام پر درود بھیجنے میں ہے ۔
دار الاسلام ملتان کا سہروردی مدرسہ
ملتان دارالسلام تھا۔ اتنے عرصہ میں فضا اور بدل چکی تھی۔ حالانکہ آپ یہیں کے رہنے والے تھے مگر پھر بھی چونکہ آپ صاحب ولایت اور بااقتدار اور باکمال ہو کر آرہے تھے اس لئے مشائخین ملتان کو آپ کا ملتان آنا ناگوار گزرا۔ انہوں نے دودھ کا پیالہ آپ کے پاس بھیجا جس کا مقصد یہ اشارہ تھا کہ یہاں کا میدان پہلے ہی سرسبز ہے اور ملتان میں آپ کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ آپ نے اشارہ سمجھ کر دودھ کے بھرے پیالے میں ایک گلاب کاپھول ڈال کر بھیج دیا۔ جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ گو کہ یہ پیالہ لبالب ہے، یہاں جگہ نہیں مگر میں مثل اس پھول کے یہاں رہوں گا اور میرے رہنے سے نہ کسی کی جگہ پر اثر پڑے گا نہ کسی پر بار رہوں گا۔ آپ 614ھ میں ملتان پہنچے اس وقت آپ کی عمر 36‘37 برس کی تھی۔ آپ نے ملتان پہنچ کر ملتان کا نقشہ ہی بدل دیا۔ اس کی شہرت کو ہمدوش ثریا بنا دیا۔ آپ نے عظیم الشان مدرسہ رفیع المنزلت خانقاہ و عریض لنگر خانہ ‘ پر شکوہ مجلس خانہ اور خوبصورت عالی شان سرائیں اور مساجد تعمیر کرائیں۔
اس وقت ملتان کا مدرسہ ہندوستان کی مرکزی اسلامی یونیورسٹی کی حیثیت رکھتا تھا جس میں جملہ علوم منقول کی تعلیم ہوتی تھی ۔ بڑے بڑے لائق اور وحید العصر معلم پروفیسر اس میں فقہ و حدیث، تفسیر قرآن ‘ ادب‘ فلسفہ و منطق ریاضی و ہیت کی تعلیم دیتے تھے۔نہ صرف ہندوستان بلکہ بلاد ایشیاءعراق شام تک کے طلباءاس مدرسہ میں زیر تعلیم تھے۔ طلباءکی ایسی کثرت تھی کہ ہندوستان میں اس کی کوئی نظیر نہیں تھی۔ لنگر خانہ سے دونوں وقت کھانا ملتا تھا ۔ ان کے قیام کیلئے سینکڑوں حجرے بنے ہوئے تھے۔ اس جامعہ اسلامیہ نے ایشیا کے بڑے بڑے نامور علماءو فضلا پیدا کئے ‘ ملتان کی علمی و لٹریری شہرت کو فلک الافلاک تک پہنچا دیا۔
سیاسیات پر گہر اثر و رسوخ
حضرت صاحب علیہ الرحمة کا قرونِ وسطیٰ کی سیاسیات پر گہر اثر و رسوخ تھا چنانچہ ملتان پر اقتدار قائم رکھنے میں ــ”التمش ” (٦٠٧ ھ /١٢١٠ء تا ٦٣٣ھ /١٢٣٥ء) نے آپ سے ہمیشہ مدد چاہی اور حضرت شیخ نے بھی اس کی دین داری اور رعایا پر وری کو ملاحظہ فرما کر اسے بڑی مدد دی ، ٦٤٤ھ /١٢٤٦ء میں منگولوں کے حملوں سے ملتان کو محفوظ رکھنے میں مؤثر کردار ادا کیا۔ آپ بابا گنج شکر کے خالہ زاد بھائی تھے۔ مشہور شاعر عراقی آپ کا داماد تھا۔ والی سندھ اور ملتان ناصر الدین قباچہ کو آپ سے بہت عقیدت تھی۔
وصال شریف
آپ کی وفات ِحسرت آیات ٧ صفر ٦٦١ ھ/٢١ دسمبر ١٢٦١ء کو ہوئی۔ آپ کا مزار شریف قلعہ محمد بن قاسم کے آخر میں مرجع خلائق ہے، مزار کی عمارت پر کاشی کا کام قابل دید ہے اور سینکڑوں اشعار یاد رکھنے کے لائق ہیں، مزار کا احاطہ ہر قسم کی خرافات سے پاک ہے ۔ عرس کے موقع پر علماء کرام کی تقاریر خلق خدا کی ہدایت کاسامان بنتی ہیں، اندرون سندھ سے مریدین اور معتقدین کے قافلے پا پیادہ حاضر ہوتے ہیں۔
آپ کا وصال ٦٦١ھ میں اٹھاسی سال کی عمر میں ہوا۔ حضرت خواجہ غریب نواز ٦٦٦ھ حضرت قطب الاقطاب ٦٣٣ھ حضرت بابا صاحب ٦٦٦ھ اور حضرت مخدوم صاحب ٦٦٦ھ میں وصال پا گئے، یہ عہد کتنا مبارک عہد تھا۔
 
(ماخوذ ”دائرہ معارف اسلامیہ ” جلد ٥، صفحہ ٩٤، ٩٥۔۔۔۔۔۔ ”نزہة الخواطر” جلد ١ صفحہ ١٢٠، ١٢١ ۔۔۔۔۔۔ ”تذکرہ اولیائے سندھ ” صفحہ ١٠٩ تا ١١١)

شیخ محقق علی الاطلاق حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رضی اللہ تعالی عنہ بن سیف الدین بن سعد اللہ بن شیخ فیروز بن ملک موسی بن ملک معز الدین بن آغا محمد ترک بخاری کی ولادت ماہ محرم ۹۵۸ھ /۱۵۵۱ء کو دہلی میں ہوئی ۔یہ سلیم شاہ سوری کا زمانہ تھا ، مہدوی تحریک اس وقت پورے عروج پر تھی جسکے بانی سید محمد جونپوری تھے ۔ شیخ کی ابتدائی تعلیم وتربیت خود والد ماجد کی آغوش ہی میں ہوئی ۔والد ماجد نے انکو بعض ایسی ہدایتیں کی تھیں جس پر آپ تمام عمر عمل پیرا رہے ، قرآن کریم کی تعلیم سے لیکر کافیہ تک والد ماجد ہی سے پڑھا۔

شیخ سیف الدین اپنے بیٹے کی تعلیم خود اپنی نگرانی میں مکمل کرانے کیلئے بے چین رہتے تھے ، انکی تمنا تھی کہ وہ اپنے جگر گوشہ کے سینہ میں وہ تمام علوم منتقل کر دیں جو انہوں نے عمر بھر کے ریاض سے حاصل کئے تھے ، لیکن انکی پیرانہ سالی کا زمانہ تھا ، اس لئے سخت مجبور بھی تھے کبھی کتابوں کا شمار کرتے اور حسرت کے ساتھ کہتے کہ یہ اور پڑ ھالو ں ۔پھر فرماتے ۔

مجھے بڑ ی خوشی ہوتی ہے جس وقت یہ تصور کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تجھ کو اس کمال تک پہونچادے جو میں نے خیال کیا ہے ۔

حضرت شخ رحمة اللہ تعالیٰ علیہ نے صر ف تین ماہ میں پورا قرآن پاک مکمل قواعد کے ساتھ اپنے والد ماجد سے پڑھ لیا۔ اورایک ماہ میں کتابت کی قدرت اور انشاء کا سلیقہ حاصل ہو گیا اٹھارہ سال کی عمر میں آپ نے تمام علوم عقلیہ اور نقلیہ اپنے والد ماجد سے حاصل کر لیے ۔اس دوران آپ نے جید علماء کرام سے بھی اکتساب علم کیا ۔

شیخ محدث خود بے حد ذہین تھے ، طلب علم کا سچا جذبہ تھا ، بارہ تیرہ برس کی عمر میں شرح شمسیہ اورشرح عقائد پڑ ھ لی اور پندرہ برس کی عمر ہو گی ، کہ مختصر ومطول سے فارغ ہوئے ، اٹھا رہ برس کی عمر میں علوم عقلیہ ونقلیہ کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جسکی سیر نہ کر چکے ہوں ۔

عربی میں کامل دستگاہ اور علم کلام ومنطق پر پورا عبور حاصل کرنے کے بعد شیخ محدث نے دانشمندان ماوراء النہر سے اکتساب کیا ۔شیخ نے ان بزرگوں کے نام نہیں بتائے ، بہرحال ان علوم کے حصول میں بھی انکی مشغولیت اور انہماک کا یہ عالم رہا کہ رات ودن کے کسی حصہ میں فرصت نہ ملتی تھی ۔

شیخ نے پاکئی عقل وخرد کے ساتھ ساتھ عفت قلب ونگاہ کا بھی پوراپورا خیال رکھا ، بچپن سے انکو عبادت وریاضت میں دلچسپی تھی ، انکے والد ماجد نے ہدایت کی تھی ۔

ملائے خشک ونا ہموار نباشی

چنانچہ عمر بھر انکے ایک ہاتھ میں جام شریعت رہا اور دوسرے میں سندان عشق ۔والد ماجد نے ان میں عشق حقیقی کے وہ جذبات پھونک دیئے تھے جو آخر عمر تک انکے قلب وجگر کو گرماتے رہے ۔


اس زمانہ میں شیخ محدث کو علماء ومشائخ کی صحبت میں بیٹھنے اور مستفید ہونے کا بڑ ا شوق تھا ، اپنے مذہبی جذبات اور خلوص نیت کے باعث وہ ان بزرگوں کے لطف وکرم کا مرکز بن جاتے تھے ۔
شیخ اسحاق متوفی ۹۸۹ھ سہروردیہ سلسلہ کے مشہور بزرگ تھے اور ملتان سے دہلی سکونت اختیار کر لی تھی ، اکثر اوقات خاموش رہتے لیکن جب شیخ انکی خدمت میں حاضر ہوتے تو بے حد التفات و کرم فرماتے ۔

شیخ نے تکمیل علم کے بعد ہندوستان کیوں چھوڑا اسکی داستان طویل ہے ، مختصر یہ کہ اپ کچھ عرصہ فتح پور سیکری میں رہے ، وہاں اکبر کے درباریوں نے آپکی قدر بھی کی لیکن حالات کی تبدیلی نے یوں کروٹ لی کہ اکبر نے دین الہی کا فتنہ کھڑا کر دیا۔ ابو الفضل اور فیضی نے اس دینی انتشار کی رہبری کی ، یہ دیکھ کر آپکی طبیعت گھبرا گئی ، ان حالات میں ترک وطن کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ، لہذا آپ نے غیرت دینی سے مجبور ہوکر حجاز کی راہ لی ۔

۹۹۶ھ میں جبکہ شیخ کی عمر اڑ تیس سال تھی وہ حجاز کی طرف روانہ ہوگئے ۔وہاں پہونچ کر آپ نے تقریباً تین سال کا زمانہ شیخ عبدالوہاب متقی کی خدمت میں گذرا ۔انکی صحبت نے سونے پر سہاگے کا کام کیا ، شیخ نے علم کی تکمیل کرائی اور احسان وسلوک کی را ہوں سے آشنا کیا ۔

شیخ عبدالوہاب متقی نے آپکو مشکوة کا درس دینا شروع کیا ، درمیان میں مدینہ طیبہ کی حاضری کا شرف بھی حاصل ہوا اور پھر تین سال کی مدت میں مشکوة کا درس مکمل ہوا ۔

اسکے بعد آداب ذکر ، تقلیل طعام وغیرہ کی تعلیم دی اور تصوف کی کچھ کتابیں پڑ ھائیں ۔ پھر حرم شریف کے ایک حجرہ میں ریاضت کیلئے بٹھادیا ۔شیخ عبدالوہاب متقی نے اس زمانہ میں انکی طرف خاص توجہ کی ۔ ان کا یہ دستور تھا کہ ہر جمعہ کو حرم شریف میں حاضر ہوا کرتے تھے ۔ جب یہاں آتے تو شیخ عبدالحق سے بھی ملتے اور انکی عبادت وریاضت کی نگرانی فرماتے ۔

فقہ حنفی کے متعلق شیخ محدث کے خیالات قیام حجاز کے دوران بدل گئے تھے اور وہ شافعی مذہب اختیار کرنے کا ارادہ رکھتے تھے ، شیخ عبدالوہاب کو اس کا علم ہوا تو مناقب امام اعظم پر ایسا پرتاثیر خطبہ ارشاد فرمایا کہ شیخ محدث کے خیالات بدل گئے اور فقہ حنفی کی عظمت ان کے دل میں جاگزیں ہوگئی ۔حدیث ، تصوف فقہ حنفی اور حقوق العباد کی اعلی تعلیم در حقیقت شیخ عبدالوہاب متقی کے قدموں میں حاصل کی ۔

علم وعمل کی سب وادیوں کی سیر کرنے کے بعد شیخ عبدالوہاب متقی نے شیخ عبدالحق محدث دہلوی کو ہندوستان واپس جانے کی ہدایت کی اور فرمایا ۔اب تم اپنے گھر جاؤ کہ تمہاری والدہ اور بچے بہت پریشان حال اورتمہارے منتظر ہونگے ۔

شیخ محدث ہندوستان کے حالات سے کچھ ایسے دل برداشتہ ہو چکے تھے کہ یہاں آنے کو مطلق طبیعت نہ چاہتی تھی ۔لیکن شیخ کا حکم ماننا ازبس ضروری تھا ، شیخ نے رخصت کرتے وقت حضرت سیدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک، پیراہن مبارک عنایت فرمایا ۔

آپ ۱۰۰۰ھ میں ہندوستان واپس آئے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اکبر کے غیر متعین مذہبی افکار نے دین الہی کی شکل اختیار کر لی تھی ۔ملک کا سارا مذہبی ماحول خراب ہو چکا تھا ۔شریعت وسنت سے بے اعتنائی عام ہوگئی تھی ۔دربار میں اسلامی شعار کی کھلم کھلا تضحیک کی جاتی تھی ۔

حجاز سے واپسی پر شیخ عبدالحق نے دہلی میں مسند درس وارشاد بچھادی ۔شمالی ہندوستان میں اس زمانہ کا یہ پہلا مدرسہ تھا جہاں سے شریعت وسنت کی آواز بلند ہوئی ۔درس وتدریس کا یہ مشغلہ آپ نے آخری لمحات تک جاری رکھا ۔انکا مدرسہ دہلی ہی میں نہیں سارے شمالی ہندوستان میں ایسی امتیازی شان رکھتا تھا کہ سیکڑ وں کی تعداد میں طلبہ استفادہ کیلئے جمع ہوتے اور متعدد اساتذہ درس وتدریس کاکام انجام دیتے تھے ۔

یہ دارالعلوم اس طوفانی دور میں شریعت اسلامیہ اور سنت نبویہ کی سب سے بڑ ی پشت پناہ تھا ، مذہبی گمراہیوں کے بادل چاروں طرف منڈلائے ، مخالف طاقتیں باربار اس دارالعلوم کے بام ودرسے ٹکرائیں لیکن شیخ محدث کے پائے ثبات میں ذرابھی لغزش پید انہ ہوئی ۔آپنے عزم واستقلال سے وہ کام انجام دیا جو ان حالات میں ناممکن نظر آتا تھا ۔

شیخ نے سب سے پہلے والد ماجد سے روحانی تعلیم حاصل کی تھی اور انہیں کے حکم سے حضرت سید موسی گیلانی کے حلقہ مریدین میں شامل ہوئے ۔ یہ سلسلہ قادریہ کے عظیم المرتب بزرگ تھے ۔مکہ معظمہ سے بھی سلسلہ قادریہ ، چشتیہ ، شاذلیہ اور مدینیہ میں خلافت حاصل کی ۔

ہندوستان واپسی پر حضرت خواجہ باقی باللہ کے فیوض وبرکات سے مستفید ہوئے ۔ حضرت خواجہ باقی باللہ کی ذات گرامی احیاء سنت اور اماتت بدعت کی تمام تحریکوں کا منبع و مخرج تھی ۔انکے ملفوظات ومکتوبات کا ایک ایک حرف انکی مجد دانہ مساعی ، بلندی فکرونظر کا شاہد ہے ۔

شیخ کا قلبی اور حقیقی تعلق سلسلہ قادریہ سے تھا ، انکی عقیدت وارادت کا مرکز حضرت سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ۔ انکے دل ودماغ کا ریشہ ریشہ شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کے عشق میں گرفتار تھا ، یہ سب کچھ آپکی تصانیف سے ظاہر وباہر ہے ۔


حضرت شیخ محدث دہلوی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کوسرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد عقیدت ومحبت تھی ۔اسی عقیدت ومحبت کی بناء پر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت رکھنے والی ہر شے سے محبت رکھتے تھے آپ رحمة اللہ تعالیٰ علیہ جب بھی مدینہ شریف حاضر ہوتے تو اپنے جوتے اتار دیتے اور ننگے پائوں رہتے ۔آپ نے تین سال حجاز مقدس میں قیام فرمایا ۔آپ رحمة اللہ تعالیٰ علیہ چار مرتبہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئے ۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی سلیم شاہ بنوری کے عہد میں پیدا ہوئے اور شاہجہاں کے سنہ جلوس میں وصال فرمایا ۔

اکبر ، جہانگیر اور شاہجہاں کا عہد انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور حالات کا بغور مطالعہ کیا تھا لیکن انہوں نے کبھی سلاطین یا ارباب حکومت سے کوئی تعلق نہ رکھا ۔عمر بھر گوشہ تنہائی میں رہے۔

وصال شریف

۲۱ ربیع الاول ۱۰۵۲ھ کو یہ آفتاب علم جس نے چورانوے سال تک فضائے ہند کو اپنی ضو فشانی سے منور رکھا تھا غروب ہو گیا ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ آپ کی وصیت کے مطابق حوض شمسی کے کنارے سپرد خاک کیا گیا۔

شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی دعا

اے اﷲ! میرا کوئی عمل ایسا نہیں جسے تیرے دربار میں پیش کرنے کے لائق سمجھوں، میرے تمام اعمال فساد نیت کا شکار ہیں البتہ مجھ فقیر کا ایک عمل محض تیری ہی عنایت سے اس قابل (اور لائق التفات) ہے اور وہ یہ ہے کہ مجلس میلاد کے موقع پر کھڑے ہو کر سلام پڑھتا ہوں اور نہایت ہی عاجزی و انکساری، محبت و خلوص کے ساتھ تیرے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجتا ہوں۔

اے اﷲ! وہ کون سا مقام ہے جہاں میلاد پاک سے بڑھ کر تیری طرف سے خیر و برکت کا نزول ہوتا ہے؟ اس لئے اے ارحم الراحمین مجھے پکا یقین ہے کہ میرا یہ عمل کبھی رائیگاں نہیں جائے گا بلکہ یقیناً تیری بارگاہ میں قبول ہو گا اور جو کوئی درود و سلام پڑھے اور اس کے ذریعے سے دعا کرے وہ کبھی مسترد نہیں ہوسکتی۔ (اخبار الاخیار : 624)

تصانیف

آپکی تصانیف سوسے زائد شمار کی گئی ہیں ، المکاتیب والرسائل کے مجموعہ میں ۶۸رسائل شامل ہیں ، انکو ایک کتاب شمار کرنے والے تعداد تصنیف پچاس بتاتے ہیں ۔

آپ نے بیسوں موضوعات پر لکھا لیکن آپ کا اصل وظیفہ احباء سنت اور نشر احادیث رسول تھا ، اس لئے اس موضوع پر آپنے ایک درجن سے زیادہ کتابیں تصنیف فرمائیں ، چند کتابیں نہایت مشہور ہیں ۔

اشعة اللمعات ۔ اشعة اللمعات فارسی زبان میں مشکوة کی نہایت جامع اور مکمل شرح ہے ۔ شیخ محدث نے یہ کارنامہ چھ سال کی مدت میں انجام دیا ۔

لمعات التنقیح ۔ عربی زبان میں مشکوة کی شرح ہے ، دوجلدوں پر مشتمل ، فہرست التوالیف میں شیخ نے سر فہرست ا سکا ذکر کیا ہے ، اشعة اللمعات کی تصنیف کے دوران بعض مضامین ایسے پیش آ ئے جن کی تشریح کو فارسی میں مناسب نہ سمجھاکہ یہ اس وقت عوام کی زبان تھی ، بعض مباحث میں عوام کو شریک کرنا مصلحت کے خلاف تھا ، لہذا جو باتیں قلم ا انداز کر دی تھیں وہ عربی میں بیان فرمادیں ۔لمعات میں لغوی ، نحوی مشکلات اور فقہی مسائل کو نہایت عمدہ گی سے حل کیا گیا ہے ۔علاوہ ازیں احادیث سے فقہ حنفی کی تطبیق نہایت کامیابی کے ساتھ کی گئی ہے ۔ اسی طرح دوسری تصانیف حدیث واصول پر آپکی بیش بہا معلوما ت کا خزانہ ہیں ۔

اخبار الاخیار ۔ حضرت شیخ عبدالخق محدث دہلوی کی مشہور و معروف تصنیف اخبار الاخیار میں ہند و پاک کے تقریباً تین سو اولیائے کرام و صوفیائے عظام کا مشہور و مستند تذکره ہے جس میں علماء و مشائخ کی پاکیزه زندگیوں کی دل آویز داستانیں پوری تحقیق سے لکهی گئی ہیں

ان کے علاوہ

مدارج النبوة
ما ثبت من السنة
جمع البحرین ذاد المتیقین
شرح اسماء الرجال بخاری وغیرہ

شیخ کی علمی خدمات کے ساتھ عظیم خیانت

شیخ کی علمی خدمات کا ایک شاندار پہلو یہ ہے کہ انہوں نے تقریباً نصف صدی تک فقہ وحدیث میں تطبیق کی اہم کو شش فرمائی ۔ بعض لوگوں نے اس سلسلہ میں انکی خدمات کو غلط رنگ میں پیش کیا ہے ۔

مثلا نواب صدیق حسن خاں نے لکھا :۔

 

فقیہ حنفی وعلامہ دین حنفی است ، اما بمحدث مشہور است
شیخ محقق فقہاء احناف سے تھے اور دین حنیف کے زبر دست عالم لیکن محدث مشہور ہیں۔


یعنی یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ شہرت واقعی نہ تھی ، گویا محدث ہونا اسی صورت میں متصور ہوتا ہے جب کسی امام کی تقلید کا قلادہ گردن میں نہ ہو۔

مزید لکھا : ۔

 

دستگاہش درفقہ بیشتر ازمہارت درعلوم سنت سنیہ ست ۔ولہذا جانب داری اہل رائے جانب اوگرفتہ ۔معہذا جاہا حمایت سنت صحیحہ نیز نمودہ ۔طالب علم راباید کہ درتصانیف وے ’’ خذما صفا ودع ماکدر ‘‘ پیش نظر دارد وزلات تقلید اورابر محامل نیک فرود آرد۔از سوء ظن در حق چنیں بزرگواراں خود را دور گرداند ۔
شیخ علم فقہ میں بہ نسبت علوم سنت زیادہ قدرت رکھتے تھے ، لہذا فقہاء رائے زیادہ تر انکی حمایت کرتے ہیں ، ان تمام چیزوں کے باوجود انہوں نے سنن صحیحہ کی حمایت بھی کی ہے ۔ لہذا طالب علم کو چاہیئے کہ انکی صحیح باتیں اختیار کرے اور غیر تحقیق باتوں سے پرہیز کرے ۔لیکن انکے تقلید ی مسائل کو اچھے مواقع ومحامل پر منطبق کرنا چاہیئے ۔اسے بزرگوں سے بد گمانی اچھی چیز نہیں ۔


اہل علم پر واضح ہے کہ یہ رائے انصاف ودیانت سے بہت دور اور پر تشدد خیالات کو ظاہر کرتی ہے ۔

شیخ محدث کا اصل مقصد یہ تھا کہ فقہ اسلامی کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیئے ۔ اس لئے کہ ا سکی بنیاد قرآن وحدیث پر ہے اور وہ ایک ایسی روح کی پید اوار ہے جس پر اسلامی رنگ چبڑ ہا ہوا ہے ، خاص طور پر فقہ حنفی پر یہ اعتراض کہ وہ محض قیاس اور رائے کا نام ہے بالکل بے بنیاد ہے ، ا سکی بنیاد مستحکم طور پر احادیث پر رکھی گئی ہے ۔مشکوة کا گہرا مطالعہ فقہ حنفی کی بر تریت کو ثابت کرتا ہے ۔

ایسے دور میں جبکہ مسلمانوں کا سماجی نظام نہایت تیزی سے انحطاط پذیر ہورہا تھا ۔ جب اجتہاد گمراہی پھیلانے کا دوسرا نام تھا ، جب علماء سوکی حیلہ بازیوں نے بنی اسرائیل کی حیلہ ساز فطرت کو شرمادیا تھا ، سلاطین زمانہ کے درباروں میں اور مختلف مقامات پر لوگ اپنی اپنی فکر ونظر میں الجھ کر امت کے شیرازہ کو منتشر کر رہے تھے تو ایسے وقت میں خاص طور پر کوئی عافیت کی راہ ہو سکتی تھی تو وہ تقلید ہی تھی ، اس لئے کہ :۔

مضمحل گرددچو تقویم حیات
ملت از تقلید می گیر د ثبات

رہا علم حدیث تو ا سکی اشاعت کے سلسلہ میں شیخ محقق کا تمام اہل ہند پر عظیم احسان ہے خواہ وہ مقلد ین ہوں یا غیر مقلدین ۔بلکہ غیر مقلدین جو آج کل اہل حدیث ہونے کے دعوی دا رہیں انکو تو خاص طور پر مرہون منت ہونا چاہیئے کہ سب سے پہلے علم حدیث کی ترویج واشاعت میں نمایاں کردار شیخ ہی نے اداکیا بلکہ اس فن میں اولیت کا سہرا آپ ہی کے سرہے ۔ آج کے اہل حدیث خواہ ا سکا انکار کریں لیکن انکے سرخیل مولوی عبدالرحمن مبارکپوری مقد مہ شرح ترمذی میں لکھتے ہیں ۔

 

حتی من اللہ تعالیٰ علی الہند بافاضة ہذا العلم علی بعض علمائھا ، کالشیخ عبدالحق بن سیف الدین الترک الدہلوی المتوفی سنة اثنتین وخمسین والف وامثالھم وھو اول من جاء بہ فی ھذالاقلیم وافاضہ علی سکانہ فی احسن تقویم ۔ثم تصدی لہ ولدہ الشیخ نورالحق المتوفی فی سنة ثلاث وسبعین والف ، وکذلک بعض تلامذتہ علی القلة ومن سن سنة حسنة فلہ اجرھا واجرمن عمل بھا ، کما اتفق علیہ اھل الملة ۔
یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ہندوستان پر احسان فرمایا کہ بعض علماء ہند کو اس علم سے نوازا ۔ جیسے شیخ عبدالحق محدث دہلوی متوفی ۱۰۵۲ ھ وغیرہ ۔یہ پہلے شخص ہیں جو اس ہندوستان میں یہ علم لائے اور یہاں کے باشندگان پر اچھے طریقے سے اس علم کا فیضان کیا ۔ پھر انکے صاحبزادے شیخ نورالحق متوفی ۱۰۷۳ھ نے ا سکی خوب اشاعت فرمائی۔ اسی طرح آپکے بعض تلامذہ بھی اس میں مشغول ہوئے ۔لہذا جس نے اچھا طریقہ ایجاد کیا ا سکو ا سکا اجر ملے گا اور بعد کے ان لوگوں کا بھی جو اس پر عمل پیرا رہے ، جیسا کہ اہل اسلام کا اس پر اتفاق ہے۔


غرض یہ بات واضح ہو چکی کہ شیخ محقق علی الاطلاق محدث دہلوی نے علم حدیث کی نشرواشاعت کا وہ عظیم کارنامہ انجام دیا ہے جس سے آج بلا اختلاف مذہب ومسلک سب مستفید ہیں ، یہ دوسری بات ہے کہ اکثر شکر گذا رہیں اور بعض کفران نعمت میں مبتلا ہیں ۔

آپکی اولاد امجاد اور تلامذہ کے بعد اس علم کی اشاعت میں نمایاں کردار ادا کرنے والے آپکے صاحبزادگان ہیں جنکی علمی خدمات نے ہندوستان کو علم حدیث کے انوار وتجلیات سے معمور کیا۔ (شیخ محدث دہلوی۔ مقدمہ اخبار الاخیار)

 


— — —

اولئك كتب في قلوبهم الايمان وايدهم بروح منه ويدخلهم جنات تجري من تحتها الانهار خالدين فيها

یہ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش فرما دیا اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد کی
اور انہیں باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہیں ان میں ہمیشہ رہیں

حضرت سید ابو محمد عبد اللہ الاشتر
(المعروف) عبد اللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ

98ھ میں حضرت سید محمد نفس ذکیہ کے ہاں اسلام کے ایک درخشاں ستاری نے مدینہ منورہ میں آنکھ کھولی۔ یہ تھے حضرت عبد اللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ۔ آپ حسنی حسینی سید ہیں۔ یہ بات آپ کے شجرہ مبارک سے ثابت ہے۔

شجرہ نسب:

آپ کے شجرہ مبارک پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کتنی قدیم ہستیوں میں سے ہیں۔ آپ ہیں سید ابو محمد عبداللہ الاشتر (عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ) بن سید محمد ذوالنفس الزکیہ بن سید عبداللہ المحض بن سید مثنیٰ بن سیدنا حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن حضرت سیدنا امیر المومنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم۔ حضرت سیدنا حسن مثنیٰ کی شادی حضرت سیدہ فاطمہ صغریٰ بنت سیدنا حضرت امام حسین سے ہوئی اسی وجہ سے آپ حسنی حسینی سید ہیں۔

تعلیم:

تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے والد صاحب کے زیر سایہ مدینہ منورہ میں ہی ہوئی۔ آپ علم حدیث پر عبور رکھتے تھے۔ اور کچھ مورخین نے تو آپ کو محدث تک بھی لکھا ہے۔

سندھ آمد:

بنو امیہ کی حکومت زوال پذیر ہوچکی تھی جب 138ھ میں آپ کے والد صاحب نے مدینہ منورہ سے علوی خلافت کی تحریک شروع کی اور اپنے بھائی حضرت ابراہیم بن عبداللہ کو اس ضمن میں بصرہ روانہ کیا اس زمانے میں سادات کے ساتھ انتہائی ظلم کا رویہ روا رکھا گیا تھا۔ اس ظلم کے کئی ایک واقعات معروف ہیں جن میں حضر ت بن ابراہیم کا واقعہ خاص طور پر مشہور ہے۔ جب آپ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ دیوار میں زندہ چن دیا گیا۔ یہ دیوار آج بھی بغداد میں مشہور ہے۔ حضرت بن ابراہیم انتہائی وجیہ اور حسین و جمیل تھے جس کی وجہ سے آپ کا لقب دیباج مشہور ہوا۔ عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے والد صاحب نے آپ کو اپنے بھائی حضرت ابراہیم کے پاس بصرہ بھیجا اور آپ وہاں سے ہوتے ہوئے سندھ کی جانب روانہ ہوئے۔ تاریخ الکامل’ جلد پنجم میں لکھا ہے کہ آپ خلیفہ منصور کے دور میں سندھ تشریف لائے۔ تحفتہ الکریم کے مصنف شیخ ابو تراب نے آپ کی سندھ میں موجودگی خلیفہ ہارون رشید کے دور سے منسوب کی ہے۔

آپ کی سندھ آمد کے ضمن میں دو قسم کے بیان تاریخ سے ثابت ہیں۔ ایک یہ کہ آپ تبلیغ اسلام کیلئے تشریف لائے تھے اور دوسرے یہ کہ آپ علوم خلافت کے نقیب کی حیثیت سے (ملاحظہ ہو تاریخ الکامل لا بن الشت’ ابن خلدون’ طبری اور میاں شاہ مانا قادری کی تحریریں) تاجر کے روپ میں آئے تھے۔ تاجر اس لئے کہا گیا کہ آپ جب سندھ آئے تو اپنے ساتھ بہت سے گھوڑے بھی لائے تھے۔ آپ نے یہ گھوڑے اپنے کم و بیش بیس مریدوں کے ہمراہ کوفہ سے خریدے تھے۔ آپ کی آمد پر یہاں کے مقامی لوگوں نے آپ کو خوش آمدید کہا اور سادات کی ایک شخصیت کواپنے درمیان پاکر بہت عزت اور احترام کا اظہار کیا۔ آپ بارہ برس تک اسلام کی تبلیغ میں سرگرداں رہے اور مقامی آبادی کے سینکڑوں لوگوں کو مشرف با اسلام کیا۔

یہ تو ہے کہانی ظاہری حالات کی جن کو تاریخ الکامل لابن الشتر اور ابن خلدون’ طبری وغیرہ میں قلمبند کیا ہوا ہے لیکن ایک عظیم ہستی جو حسنی حسینی سید ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد ہے باطنی شاہسواری سے کیسے خالی ہوسکتی تھی۔ ایک زمانہ کب سے ان کے فیض سے سیراب ہورہا ہے۔ ان کی باطنی زندگی پر ابھی کسی نے کچھ نہیں لکھا شاید اس وجہ سے کہ ان کی اپنی تحریریں یا ان کے کسی ہم عصر کی ان کے بارے میں کوئی تحریریں دستیاب نہیں ہیں اور شاید اس وجہ سے کہ وہ بہت پہلے کے اولیائے کرام میں سے ہیں اور دوسرے اس وجہ سے بھی کہ اس زمانے میں سلسلہ ہائے تصوف آج کی طرح نہیں تھی۔ تصوف کے سلسلوں کی زیادہ شہرت اور تشہیر حضرت عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ اور دیگر بزرگوں کے آنے کے بعد ہوئی۔ ان کا مزار پر انوار مرجع خلائق بنا ہوا ہے یہ ویسے تو نہیں ہے ولایت تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مرہون منت ہے۔ وہی اس کا منبع ہیں یہ کسی نے نہیں لکھا اور نہ کہا کہ وہ جو امانت حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے سینہ بسینہ چلی وہ ان کے حصہ میں نہیں آئی۔ شہادت ان کے آباؤ اجداد میں چلی آرہی ہے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے لے کر غازی شاہ رحمتہ اللہ علیہ صاحب کے والد اور چچا شہید ہوئے۔ خود آپ نے بھی شہادت کا رتبہ پایا اپنی جان سے زیادہ کیا چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کی جاسکتی ہے یہ تو شہادت جلی ہے مگر کیا کسی نے لکھا ہے کہ وہ شہید خفی بھی ہیں؟ جب وہ حق ہوچکے تو راہ حق میں شہید ہوئے دولت سرمدی کا متحمل وہی ہوسکتا ہے جس کو فطرت اس کا اہل سمجھتی ہے۔

والد کی شہادت:

حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے سندھ قیام کے دوران گورنر سندھ کو خبر آئی کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے والد صاحب نے مدینہ منورہ میں اور ان کے بھائی حضرت ابراہیم نے بصرہ میں عباسی خلافت کے خلاف بغاوت کردی ہے۔ 145ھ میں یہ اطلاع آئی کہ آپ کے والد حصرت سید محمد نفس ذکیہ مدینہ منورہ میں 15 رمضان المبارک کو اور اسی سال آپ کے چچا حضرت ابراہیم بن عبداللہ 25 ذیقعد (14فروری 763ء) کو بصرہ میں شہید کردیئے گئے۔

گورنر سندھ کی بیعت اور آپ کی تعظیم:

حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے والد صاحب اور چچا کی شہادت کے بعد عباسی خلافت کے مرکز (خلیفہ منصور) سے آپ کی گرفتاری کے احکامات بھی صادر ہوئے۔ مگر چونکہ آپ کے حصے میں میدان جنگ میں شہادت لکھی گئی تھی لہذا آپ کی گرفتاری تو عمل میں نہیں آسکی۔ حضرت حفص بن عمر گورنر سندھ آپ کی گرفتاری کے معاملے کو مسلسل ٹالتے رہے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح کچھ وقت گزر جائے گا اور خلیفہ منصور غازی شاہ رحمتہ اللہ علیہ کی گرفتاری کے معاملے کو بھول جائے گا مگر جو لوگ اقتدار سے لگاؤ رکھتے ہیں وہ کسی طرح کا خطرہ مول نہیں لیتے بلکہ چھوٹے سے چھوٹے خطرے کو بھی برداشت کرسکتے۔ چنانچہ خلیفہ منصور کے دل سے ہرگز بھی عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کی گرفتاری کا خیال ماند نہیں پڑا۔ حالانکہ گورنر سندھ حضرت حفص بن عمر نے اہل بیت سے محبت کے جذبے کے تحت یہ بھی خلیفہ کو کہا کہ حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ میری مملکت کی حدود میں نہیں ہیں لیکن خلیفہ کو اس پر بھی اطمینان نہیں ہوا۔

ساحلی ریاست آمد:

گورنر سندھ حضرت حفص نے اپنی محبت’ عقیدت اور سادات سے لگاؤ اور بیعت کرلینے کے بعد آپ کو بحفاظت ایک ساحلی ریاست میں بھیج کر وہاں کے راجہ کا مہمان بنایا۔ یہ راجہ اسلامی حکومت کا اطاعت گزار تھا۔ اس نے آپ کی آمد پر آپ کو خوش آمدید کہا اور انتہائی عزت اور قدر و منزلت سے دیکھا۔ آپ کو چار سال یہاں ان کے مہمان رہے۔ اس عرصہ میں آپ نے پہلے کی طرح اسلام کی تبلیغ جاری رکھی اور سینکڑوں لوگوں کو اسلام سے روشناس کرایا۔ لاتعداد لوگ آپ کے مریدین بن کر آپ کے ساتھ ہوگئے۔

سندھ میں اسلام کی تبلیغ:

کہاں سندھ کہاں سعودی عرب ۔ کتنی مسافت ہے۔ کتنا لمبا سفر ہے۔ صحابہ کرام کے بعد کوئی اسلام کی تعلیم دینے یا تبلیغ کرنے کیلئے سندھ نہیں آیا تھا۔ یہ بات بھی تاریخ ہی سے ثابت ہوتی ہے کہ اس کے بعد سندھیوں کے بنجر دل کی زمین میں سب سے پہلے حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ نے ہی اسلامی بیج بویا پھر اس کی آبیاری کی اور محبت’ اخوت اور بردباری سے دلوں کو گرمایا اور ایمان کی زرخیزی سے روشناس کروایا۔ اس لئے کہ جو کام ان کے ذمہ تھا وہ صرف ظاہر سے نہیں ہوسکتا تھا۔ تاریخ کو رخ عطا کرنے والے ظاہر کے ساتھ باطن کی دنیا کے شاہسوار بھی ہوتے ہیں۔ جن کا ظاہر پر کم اور باطن پر زیادہ زور اور توجہ ہوتی ہے۔

اسباب غیب:

دراصل ان ہستیوں کیلئے اس دارلعمل میں جس جگہ کا انتخاب کیا ہوتا ہے وہاں ان کیلئے اسباب بھی مہیا ہوتے ہیں۔ (گورنر سندھ حضرت عمر بن حفص کا مطیع ہونا۔ اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کی گرفتاری کے خلیفہ منصور کے احکامات ٹالنا۔ آپ کو بحفاظت دوسری ریاست میں بھیجنا یہ سب غیبی اعانت تھی اور آپ کے عمل کی تائید تھی) اگرچہ عباسی خلیفہ منصور آپ سمیت تمام سادات کے قتل کے در پہ تھا اس نے اطلاع ملنے پر بارہا حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کو گرفتار کرنے کے احکامات دیئے لیکن قدرت نے جو کام آپ سے لینا تھا اس کیلئے پورا پورا اہتمام کیا ہوا تھا۔ ایک ایسا گورنر سندھ میں متعین تھا جو آپ کی تعظیم اور خیال کرتا تھا اور کسی قیمت پر آپ کو تکلیف نہ پہنچانا چاہتا تھا بلکہ ان نیک بخت گورنر یعنی عمر بن حفص نے آپ کے ہاتھ پر بیعت بھی کرلی تھی اور در پردہ آپ کی حمایت کرتا تھا۔

سیر و شکار:

تاریخ سے ثابت ہے کہ اس زمانے میں جب آپ سیر اور شکار کی غرض سے کہیں جاتے تھے تو شان و شوکت اور کروفر سے اور سازو سامان بھی ساتھ ہوتا تھا جس سے آپ کی شان و شوکت کا اظہار ہوتا تھا۔ کیوں نہ ہو حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کس نسب کے چشم و چراغ تھے۔ یہ غالباً اس لئے بھی تھا کہ آپ کی درویشی پر امارت کا پردہ بھی پڑا رہے۔ اورجو امانت آپ کے سپرد تھی آ پ کے سینے میں محفوظ و مخفی رہے۔

بھائی:

یہ بھی باور کرانا ضروری ہے کہ آپ کے علاوہ آپ کے ایک دوسرے بھائی بھی ہیں وہ بھی بہت بڑے ولی تھے۔ انہوں نے بھی اسلام کی گراں قدر خدمات انجام دیں ہیں۔ آپ کا مزار مراکش میں ہے اور وہاں کا سب سے معروف مزار ہے۔ اور وہاں مرجمع’ خلائق بنا ہوا ہے۔ اس کا تذکرہ بھی تاریخ اسلام میں موجود ہے۔

حکمرانی:

حکومت دو قسم کی ہوتی ہے ایک خطہ پر اور دوسری حکومت جو حقیقی حکومت ہے وہ قلوب پر ہوتی ہے عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کی حکومت ظاہر و باطن دونوں پر قائم ہے۔ سارے دفتر ان کے ہیں جہاں تمام زائرین کی مرادوں اور دعاؤں کی عرضیاں موصول کی جاتی ہیں اور پھر ان پر احکامات صادر ہوتے ہیں۔ ثبوت یہ ہے کہ اگر زائرین کی مرادیں پوری نہ ہورہی ہوں تو پھر یہ جم غفیر کیسا۔ جوہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ جمعرات کو تو آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مزار کی سیڑھیاں بھی چڑھنا دشوار ہوتا ہے۔ عام ایام میں بھی زائرین کا تانتا بندھا رہتا ہے ۔ عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کی باطنی حکومت کا حال کہاں سے معلوم ہوگا کس نے اس پر لکھا ہے کس لائبریری اور دفتر سے یہ تفصیل موصول ہوگی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مبارک ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے امتی بنی اسرائیل کے نبیوں کے ہم مرتبہ ہونگے۔

یہ وہی ہیں جنہوں نے اپنی زندگی امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے وقف کی ہوگی۔ یہ وہی ہیں جن کو غم امت لاحق ہوگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی میں انہوں نے وہی کچھ کیا ہوگا جو نبیوں نے کیا۔

وفات:

۲۰ ذی الحج ١٥١ھ میں آپ علیہ الرحمہ پردہ فرما کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کراچی کے ساحلی علاقے کلفٹن میں آپ علیہ الرحمہ کا مزار پر انوار مرجع ہر خاص و عام ہے اور اپنی نورانیت اور برکت سے اس شہر کو خصوصا اور پورے پاکستان کو عموما اپنی رحمت میں لیے ہوئے ہے۔

حضرت سید ابوالحسن علی بن عثمان الجلابی الہجویری ثم لاہوری معروف بہ داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ (400ھ تا 465ھ / 1009ء تا 1079ء) ہجویر اور جلاب غزنین کے دو گائوں ہیں شروع میں آپ کا قیام یہیں رہا اس لیے ہجویری اور جلابی کہلائے۔ سلسلہ نسب حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے ملتا ہے۔ روحانی تعلیم جنیدیہ سلسلہ کے بزرگ حضرت ابوالفضل محمد بن الحسن ختلی رحمۃ اللہ علیہ سے پائی ۔ مرشد کے حکم سے 1039ء میں لاہور پہنچے. کشف المحجوب آپ کی مشہور تصنیف ہے۔ لاہور میں بھاٹی دروازہ کے باہر آپ کا مزار مرجع خلائق ہے ۔ عوام آپ کو گنج بخش (خزانے بخشنے والا) اور داتا صاحب کہتے ہیں اور آپ انہی القابات سے مشہور ہیں۔

نام و نسب

آپ کا پورا نام شیخ سیّد ابو الحسن علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ ہے۔ لیکن عوام و خواص سب میں “گنج بخش” یا “داتا گنج بخش” کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ 400 ہجری میں غزنی شہر سے متصل ایک بستی ہجویر میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد بزرگوار کا اسم گرامی سید عثمان جلابی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ ہے۔ جلاب بھی غزنی سے متصل ایک دوسری بستی کا نام ہے جہاں سید عثمان رحمتہ اللہ علیہ رہتے تھے۔ حضرت علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ، حضرت زید رحمتہ اللہ علیہ کے واسطے سے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اولاد سے ہیں۔


اساتذہ

آپ رحمتہ اللہ علیہ کے اساتذہ میں حضرت شیخ ابو العباس اشقاقی رحمتہ اللہ علیہ، شیخ ابو جعفر محمد بن المصباح الصید لانی رحمتہ اللہ علیہ، شیخ ابو القاسم عبدالکریم بن ہوازن القشیری رحمتہ اللہ علیہ، شیخ ابوالقاسم بن علی بن عبداللہ الگرگانی رحمتہ اللہ علیہ، ابو عبداللہ محمد بن علی المعروف داستانی بسطامی رحمتہ اللہ علیہ، ابو سعید فضل اللہ بن محمد مہینی اور ابو احمد مظفر بن احمد بن حمدان رحمتہ اللہ علیہ کے نام ملتے ہیں۔

 

تعلیم طریقت

طریقت میں آپ کے شیخ شیخ ابو الفضل محمد بن حسن ختلی رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔ ان کے حالات قلمبند کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ طریقت میں میری اقتداءآپ رحمتہ اللہ علیہ ہی کے ساتھ ہے۔ تفسیر، حدیث اور تصوف تینوں کے آپ عالم تھے۔ تصوف میں آپ حضرت جنید رحمتہ اللہ علیہ کے مذہب پر تھے۔ حضرت شیخ حضرمی رحمتہ اللہ علیہ کے مرید اور حضرت سروانی رحمتہ اللہ علیہ کے مصاحب تھے۔ ساٹھ سال تک مخلوق سے گم اور پہاڑوں میں گوشہ نشین رہے۔ زیادہ تر قیام جبل لگام پر رہتا تھا۔ میں نے آپ سے زیادہ بارعب اور صاحب ہیبت کوئی شخص نہیں دیکھا۔ صوفیوں کے لباس سے ہمیشہ کنارہ کش رہے۔ ایک مرتبہ میں آپ کو وضو کرانے کے لیے آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈال رہا تھا کہ میرے دل میں خیال آیا کہ میں ایک آزاد آدمی ہوں آخر میں ان پیروں کی کیوں غلامی کروں جو قسمت میں لکھا ہے وہ ضرور پورا ہو گا۔ آپ نے فرمایا، بیٹا کو خیال تیرے دل میں پیدا ہوا ہے میں اسے جانتا ہوں، ہر کام کا ایک سبب اور زریعہ ہوتا ہے۔ یہ خدمت اور ملازمت آدمی کی بزرگی کا سبب بن جاتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ حق تعالیٰ چاہتا ہے تو ایک سپاہی زادے کو تاج شاہی پہنا دیتا ہے۔

جس روز آپ کی وفات ہوئی تو آپ بانیاں اور دمشق کے درمیان پہاڑ پرواقع ایک گاؤں بیت الجن میں تھے، اور آپ کا سر میری گود میں تھا۔ میرا دل سخت مضطرب اور تکلیف میں تھا، جیسے کہ ایسے محسن اور دوست کی علیحدگی کے خیال سے ہونا ہی چاہیے تھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا، بیٹا! میں اعتقاد کا مسئلہ بیان کرتا ہوں۔ اگر تو اپنے آپ کواس کے مطابق درست کر لے گا تو تیرے دل کی یہ تمام تکلیف دور ہو جائے گی۔ یہ بات یاد رکھ کہ اللہ عزل و جل کوئی کام الل ٹپ نہیں کرتا، وہ تمام حالات کو ان کے نیک وبد کا لحاظ رکھ کر پیدا فرماتا ہے۔ تیرے لیے لازم ہے کہ خدا کے فعل میں اس سے جھگڑا نہ کر اور جو کچھ وہ کرتا ہے۔ اس پر رنجیدہ نہ ہو۔ آپ نے ابھی اتنی بات فرمائی تھی کہ اپنی جان خداوند کریم کے سپرد کر دی۔ اِنّاَلِلّہِ وَاِنّاَ اِلَیہِ رَاجِعُون۔

کسب روحانی کے لیے آپ (حضرت علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ) نے شام، عراق، فارس، قہستان، آزربائیجان، طبرستان، خوزستان، کرمان، خراسان، ،وراء النہر اور ترکستان وغیرہ کا سفر کیا۔ ان ممالک میں بے شمار لوگوں سے ملے اور ان کی صحبتوں سے فیض حاصل کیا۔ صرف خراسان میں جن مشائخ سے آپ ملے ان کی تعداد تین سو ہے۔ ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میں نے خراسان میں تین سو اشخاص ایسے دیکھے ہیں کہ ان میں سے صرف ایک سارے جہان کے لیے کافی ہے۔

دوسرے ہم عصر جن سے متاثر ہوئے

اپنے زمانے کے جن بزرگوں سے آپ خاص طور پر متاثر ہوئے ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔ ان کے بارے میں تاثرات بھی قوسین میں درج ہیں۔ شیخ محمد زکی بن العلا رحمتہ اللہ علیہ (زمانے کے سردار اور محبت کا شعلہ)، شیخ القاسم سدسی رحمتہ اللہ علیہ (پیر مجاہدہ)، شیخ الشیوخ ابو الحسن بن سالبہ رحمتہ اللہ علیہ (توحید میں روشن بیان)، شیخ ابواسحاق بن شہریار (صاحب دبدبہ)، شیخ ابوالحسن علی بن بکران (بزرگ صوفی)، شیخ ابو عبداللہ جلیدی رحمتہ اللہ علیہ (بہت احترام والے)، شیخ ابو طاہر مکشوف (جلیل القدر بزرگ)، شیخ احمد بن شیخ خرقانی، خواجہ علی بن الحسین السیر کانی (وقت کے سیاح)، شیخ مجتہد ابوالعباس دامغانی (خدا کے اقبال کا سایہ)، خواجہ ابو جعفر محمد بن علی الجومینی (محقق بزرگ)، خواجہ رشید مظفر بن شیخ ابو سعید (دلوں کا قبلہ)، خواجہ شیخ احمد جمادی سرخسی (وقت کے پہلوان) اور شیخ احمد نجاّر سمرقندی (زمانے کے بادشاہ) رحمہم اللہ۔

دو اہم واقعات

اپنے تلاش و جستجو کے زمانے کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے ایک مشکل پیش آئی۔ اس کے حل کے لیے میں نے بہت مجاہدے کیے۔ مگر یہ مشکل حل نہ ہوئی۔ اس سے پہلے بھی مجھے ایک مشکل پیش آئی تھی اور اس کے حل کے لیے میں نے حضرت شیخ ابو یزید رحمتہ اللہ علیہ کی قبر کی مجاوری اختیار کر کے اس پر غور وفکر کیا تھا اور میری وہ مشکل وہاں حل ہو گئی تھی۔ اب کے میں نے پھر ایسا کیا۔ برابر تین ماہ تک ان کا مجاور (پڑوسی) بنا رہا۔ ہر روز تین مرتبہ غسل کرتا رہا۔ اور تیس دفعہ وضو کرتا رہا۔ لیکن میری یہ مشکل حل نہ ہوئی۔ بالآخر میں نے خراسان جانے کا ارادہ کیا اور راستے میں رات کے وقت ایک خانقاہ میں رات بسر کرنے کے لیے ٹھہرا۔ وہاں صوفیوں کی ایک جماعت بھی تھی۔ میرے پاس اس وقت موٹے کھُردرے ٹاٹ کی ایک گودڑی تھی۔ اور وہی میں نے پہن رکھی تھی۔ ہاتھ میں ایک عصا اور کوزہ (لوٹا) تھا۔ اس کے سوا اور کوئی سامان میرے پاس نہیں تھا۔ ان صوفیوں نے مجھے بہت حقارت کی نظر سے دیکھا۔ اور اپنے خاص انداز میں ایک دوسرے سے کہا کہ یہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اور وہ اپنی اس بات میں سچے تھے، کیونکہ میں فی الواقع ان میں سے نہ تھا۔ میں تو محض ایک مسافر کی حیثیت سے رات بسر کرنے کے لیے ان کے پاس پہنچ گیا تھا۔ ورنہ ان کے طور طریقوں سے میرا کوئی سروکار نہ تھا۔ انھوں نے خانقاہ کے نیچے کے ایک کمرہ میں مجھے بٹھا دیا۔ اور ایک سُوکھی روٹی اور وہ بھی روکھُی میرے آگے رکھ کر خود کھانے کے لیے اوپر چوبارہ میں جا بیٹھے۔ جو کھانے وہ خود کھا رہے تھے ان کی خوشبو مجھے آ رہی تھی۔ اور اس کے ساتھ چوبارہ پر سے وہ طنزیہ انداز میں مجھ سے باتیں کرتے تھے۔ جب وہ کھانے سے فارغ ہوئے تو خربوزے کے کر بیٹھ گئے۔ اور چھلکے مجھ پر پھینکتے رہے۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کی طبیعت کی خوشی اس وقت میری توہین پر موقوف تھی۔ میں اپنے دل میں خدا سے کہہ رہا تھا، بارِ خدایا، اگر میں نے تیرے دوستوں کا لباس نہ پہنا ہوا ہوتا تو میں ضرور ان کی ان حرکات کا مزا ان کو چکھا دیتا۔ لیکن چونکہ میں اسے خداوند تعالیٰ کی طرف سے ابتلا سمجھ کر برداشت کر رہا تھا، اس لیے جس قدر وہ طعن وملامت مجھ پر زیادہ کرتے تھے میں خوش ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ اس طعن کا بوجھ اٹھانے سے میری وہ مشکل جس کے لیے میں مجاہدوں اور اس سفر کی مشقت اٹھا رہا تھا وہیں حل ہو گئی۔ اور اسی وقت مجھ کو معلوم ہو گیا کہ مشائخ رحمہم اللہ جاہلوں کو اپنے درمیان کیوں رہنے دیتے ہیں اور ان کا بوجھ کس لیے اٹھاتے ہیں۔ نیز یہ کہ بعض بزرگوں نے ملامت کا طریقہ کیوں اختیار کیا ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ اس سے بعض اوقات وہ عقدے حل ہو جاتے ہیں جو دوسرے طریقوں سے حل نہیں ہوتے۔

عراق کا ایک واقعہ اپنے متعلق بیان کرتے ہیں کہ عراق میں اپنے قیام کے زمانے میں ایک دفعہ میں دنیا کمانے اور اسے خرچ کرنے میں بہت دلیر ہو گیا تھا۔ جس کسی کو ضرورت پیش آتی وہ میری طرف رجوع کرتا اور میں نہ چاہتا کہ میرے دروازے سے کوئی خالی جائے۔ اس لیے اس کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کرتا، یہاں تک کہ میں بہت زیادہ مقروض اور اس صورتحال سے پریشان ہو گیا۔ آخر وقت کے بزرگوں میں سے ایک بزرگ نے مجھے لکھا؛ ۔بیٹا دیکھو! اس قسم کی مشغولیت میں کہیں خدا سے دور نہ ہو جاؤ، یہ مشغولیت ہوائے نفس ہے۔ اگر کسی کے دل کو اپنے سے بہتر پاؤ۔ تو اس کی خاطر پریشانی اُٹھاؤ۔ تمام مخلوق کے کفیل بننے کی کوشش نہ کرو۔ کیوں کہ اپنے بندوں کے لیے خدا خود کافی ہے۔ فرماتے ہیں کہ اس نصیحت سے مجھے سکون قلب حاصل ہوا۔ اور میں نے یہ جانا کہ مخلوقات سے دور رہنا صحت وسلامتی کی راہ ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ خود اپنی طرف نہ دیکھے تاکہ کوئی اور بھی اس کی طرف نہ دیکھے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ آدمی خود ہی اپنے آپ کو اہم اور بڑی چیز عیاں کرتا ہے ورنہ دنیا اسے کچھ بھی نہیں سمجھتی۔ وہ تو صرف اس سے اپنا کام نکالتی ہے۔

آپ کا طریق

آپ کے نزدیک صوفی صفا سے مشتق ہے۔ اور صفا کی اصل دل کو مخلوق سے منقطع اور دنیاء غدار سے خالی کر کے اسے اللہ سے جوڑنا ہے۔ گویا اس کا مطلب اخلاص اور سچی محبت کے ساتھ خدا کی بندگی کی راہ اختیار کرنا ہے۔ نہ کہ کوئی خاص وضع قطع اختیار کرنا۔ آپ فرماتے ہیں؛ کہ طالب کو تمام احوال میں شرع اور علم کا پیرو ہونا چاہیے۔ کیونکہ سلطان علم سلطان حال پر غالب اور اس سے افضل ہے۔ چنانچہ آپ چالیس برس مسلسل سفر میں رہے لیکن کبھی نماز باجماعت ناغہ نہیں کی۔ اور ہر جمعہ کی نماز کے لیے کسی قصبہ میں قیام فرمایا۔ عام رہن سہن عام لوگوں کی طرح رکھتے۔ صوفیوں کی ظاہری رسوم اور وضع قطع سے آپ شیخ طریقت شیخ ابوالفضل محمد بن ختلی رحمتہ اللہ علیہ کی طرح ہمیشہ مجتنب رہے۔ بلکہ اس سے آپ کو ایک گونہ نفرت تھی، اور ان چیزوں کو ریا کاری ونمائش اور معصیت کا نام دیتے تھے۔

نکاح

نکاح کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ جو شخص مخلوق میں رہنا چاہے اس کے لیے نکاح کرنا شرط ہے۔ اور اگر بغیر نکاح کے اس کے زنا میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہو تو اس کے لیے نکاح فرض ہے۔ لیکن جو مخلوق سے الگ تھلگ رہتا ہو اس کے لیے مجرور رہنا اچھا ہے تا کہ اس کی وجہ سے کوئی نیک سخت پریشان نہ ہو اور وہ بھی یکسوئی کے ساتھ اللہ کی ملازمت کر سکے۔ آپ چونکہ اپنی عمر کا بیشتر حصہ سفر اور مسافرت ہی میں رہے۔ اس لیے آپ نے شادی نہیں کی بلکہ تجرد کی زندگی گزار دی۔ لیکن تقدیر کا لکھا سامنے آیا اور میں نے شادی کر لی مگر ایک ہی سال بعد قضائے الہی سے زوجہ کا انتقال ہوا اور پھر شادی نہ کی۔

لاہور میں آمد اور قیام

آپ اپنے مرشد کے حکم سے خدا کے دین کی تبلیغ و اشاعت کے لیے سلطان محمود غزنوی کے بیٹے ناصر الدین کے زمانے ۱۰۳۰ ء تا ۱۰۴۰ ء میں لاہور تشریف لائے۔ آپ سے پہلے آپ کے پیر بھائی حسین زنجانی اس خدمت پر مامور تھے۔ اس لیے جب آپ کو لاہور آنے کا حکم ہوا تو آپ فرماتے ہیں، کہ میں نے شیخ سے عرض کیا کہ وہاں حسین زنجانی موجود ہیں میری کیا ضرورت ہے؟ لیکن شیخ نے فرمایا، نہیں تم جاؤ۔ فرماتے ہیں کہ میں رات کے وقت لاہور پہنچا اور صبح کو حسین زنجانی کا جنازہ شہر سے باہر لایا گیا۔

تبلیغ و اشاعت دین کے سلسلے میں آپ نے برصغیر ہند کے دوسرے حصّوں کا بھی سفر کیا۔ چنانچہ آپ کشف المحجوب میں حضرت ابو حلیم حبیب بن اسلم راعی رحمتہ اللہ علیہ کے حالات میں لکھتے ہیں کہ شیخ رحمتہ اللہ علیہ کی اور بھی بہت سی روایتیں ہیں۔ وقت کی تنگی کی وجہ سے میں انھیں چھوڑتا ہوں اور مجھے یہ سخت دقت پیش آرہی ہے کہ میری کتابیں غزنی میں ہیں اور میں ملک ہندوستان کے ایک گاؤں بھنور میں ہوں جو کہ ملتان کے گردونواح میں واقع ہے۔ اور بالکل غیر جنسوں میں گرفتار ہوں۔ والحمدللہ علیا لسّرّاءِ ولضّرّاء۔ لیکن آپ کا مقام اور مرکز لاہور ہی رہا۔ اور آخر کار لاہور ہی میں ۴۶۵ ھ میں ۹ محرم الحرام کو انتقال فرمایا اور یہیں مدفون ہیں۔ اِنّاَلِلّہِ وَاِنّاَ اِلَیہِ رَاجِعُون۔ عاشورا کے دن امام عالی مقام کے یوم شہادت اور اس کی تقریبات و مصروفیات کی بنا پر آپ علیہ الرحمۃ کا عرس شریف ۱۸ تا ۲۰ صفر المظفر حکومتی سطح پر منایا جاتا ہے۔

 

آپ کی تصانیف

آپ نے حسب زیل کتب کی تصنیف فرمائی، لیکن اب کشف المحجوب کے سوا کوئی اور کتاب نہیں ملتی۔

1. کشف المحجوب
2. کتاب فنا و بقا
3. منہاج الدین (یہ کتاب اصحابِ صفہ رضی اللہ عنہم کے مناقب پر تھی۔)
4. الرعایتہ الحقوق اللہ
5. شرح کلام منصور
6. اسرار الحزق المؤنات
7. نحو القلوب
8. کتاب البیان لاہل العیان

شعر وشاعری سے بھی آپ کو دلچسپی تھی اور آپ کا دیوان بھی تھا۔ کشف المحجوب میں اس کا زکر کرتے ہوئے آپ نے لکھا ہے کہ بعض لوگ دوسروں کی تصانیف کو اپنے نام سے منسوب کر کے شائع کر دیتے ہیں۔ چنانچہ ایک شخص نے مجھ سے میرے شعروں کا دیوان دیکھنے کے لیے مانگا اور پھر واپس نہیں کیا۔ اور اس کے شروع سے میرانام محو کر کے اپنے نام سے پیش کر دیا۔ چونکہ دیوان کا یہی ایک نسخہ تھا جو وہ لے گیا۔ اس لیے میں کچھ نہ کر سکا اور اس نے میری محنت کو برباد کر دیا۔

اسی طرح ایک اور شخص نے میری دوسری کتاب ۔ منہاج الدین ۔ جو میں نے تصوف پر تصنیف کی تھی، مجھ سے مانگی اور اس پر سے میرا نام مٹا کر عوام الناس میں اسے اپنے نام سے شائع کر دیا۔

روضہ مبارک

آپ کا روضہ ناصر الدین مسعود کے بیٹے ظہیر الدین الدولہ نے تعمیر کروایا۔ اور خانقاہ کا فرش اور ڈیوڑھی جلال الدین اکبر بادشاہ ۱۵۵۵ء تا ۱۶۰۵ ء کی تعمیر ہیں۔ خواجہ معین الدین اجمیری رحمتہ اللہ علیہ ۱۶۳۹ء اور خواجہ فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ نے کسب فیض کے لیے آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر چلہ کشی کی، اور خواجہ معین الدین اجمیری رحمتہ اللہ علیہ نے چلہ کے بعد رخصت ہوتے وقت یہ شعر کہا؛۔

 

گنج بخش فیضِ عالم مظہر نورِ خُدا
ناقصاں راپیرِ کامل، کاملاں را رہنما


اسی سے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی “گنج بخش” کے نام سے شہرت ہوئی۔

ذی الحجہ کا مہینہ تھا پانچ سو تراسی سن ہجری اور گیارہ سو ستاسی عسیوی تھی، مکۃ المکرمہ کی سر زمین پر میدان محشر کا سا سماں تھا، چہار دانگ عالم سے فرزندان توحید اپنے معبود حقیقی کے اس فرمان “واتموا الحج والعمرۃ للہ، کی تعمیل کیلئے سر نیاز خم کئے سیل رواں کی طرح جوق در جوق جمع ہو گئے تھے ایک ہی ترانہ جو ہر زبان پہ جاری تھا ایک ہی آواز جس سے مکۃ المکرمہ کی فضا گونج رہی تھی وہ مقدس ترانہ یہ تھا، “لبیک اللھم لبیک لاشریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لاشریک لک“ خالق کائنات جل جلالہ کے یہ وفا شعار بندے دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہر کر مناسک حج کی ادائیگی میں مصروف تھے لیکن ایک خلش جو دلوں کو بے چین کر رہی تھی وہ تھی روضۃ الرسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی حاضری کیونکہ ہادی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے در اقدس ہی تو اصل مراد اور قبولیت کا پروانہ ہے جیسا کہ سیدی اعلٰی حضرت رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں

 اس کے طفیل حج بھی خدا نے کرا دئیے
اصل مراد حاضری اس پاک در کی ہے

 بشارت :۔

 آخر وہ لمحہ جانفزا آ ہی گیا جب حجاج فرائض حج سے فراغ ہو کر اپنا مال و متاع اونٹوں پر لاد کر دیوانہ وار عشق و مستی میں سرشار جانب طیبہ قافلہ در قافلہ کوچ کرنے لگے اور اپنے غمخوار آقا کی بارگاہ میں عقیدت و محبت کے نذرانے پیش کرنے لگے انہی میں ایک خوب رو، خوش قامت، عاشق رسول تھا جس کی عمر تاریخ میں اس وقت چھیالیس سال بتائی جا رہی ہے اور حالت یہ تھی برہنہ سر، آنکھیں نم اور کثرت سفر کی وجہ سے پاؤں میں چھالے ہیں لیکن صورت بتا رہی تھی یہ کوئی اللہ والے ہیں۔ اپنے محسن آقا کی بارگاہ میں ہر کوئی اپنا درد دل بیان کر رہا تھا لیکن محبوب رب العالمین کا یہ عاشق ان سب سے بے نیاز ہو کر اپنے معبود حقیقی کی عبادت و ریاضت میں مشغول تھا اچانک گنبد خضرٰی سے آواز آئی۔ اے معین الدین تو میرے دین کا معین ہے میں نے تجھے ہندوستان کی ولایت عطا کی وہاں کفر و ظلمت پھیلی ہوئی ہے تو اجمیر جا تیرے وجود سے ظلمت کفر دور ہو گی اور اسلام رونق پذیر ہوگا۔“ ہر دل مخمور اور ہر چہرہ مسرور تھا اگر کسی چہرے پر پریشانی کی لکیر اور تکفرات کی سلوٹیں نمایاں تھیں تو وہ اسی عاشق رسول کا چہرہ تھا کیونکہ سلوک و معرفت کا یہ محبتوں بھرا تحفہ اسی کو عطا کیا گیا تھا۔ یہ مژدہ دلنواز اسی کو سنایا گیا تھا۔ آخر خوشخبری پہ خیران کیوں ؟ جب یہ سوال تاریخ کے ورق الٹنے والے مؤرخوں سے کیا گیا تو جواب ملا اس وجہ سے کہ وہ انجان تھا اس ملک سے۔ جس کا مژدہ سنایا گیا تھا۔ اسے معلوم نہ تھا کہ شہر اجمیر کہاں ہے ؟ سمت سفر کیا ہو گی ؟ مدینہ سے مسافت کتنی ہے ؟ راستہ کے پیچ و خم کیا ہیں ؟ ابھی وہ انہی فکروں میں گم تھا کہ گنبد خضرٰی کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں نے اس پر غنودگی طاری کر دی خواب میں محبوب کائنات صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ اپنے جمال جہاں آراء کے دیدار سے مشرف فرمایا اور ایک نظر میں مشرق سے مغرب تک سارے عالم کو دکھا دیا۔ تمام بلا و امصار نگاہوں کے سامنے تھے شہر اجمیر وہاں کا قلعہ اور پہاڑیاں نظر آنے لگیں۔ سرکار نے اپنے اس عاشق صادق کو ایک جنتی انار عطا فرما کر ارشاد فرمایا ہم تم کو خدا کے سپرد کرتے ہیں آنکھیں کھولیں تو ہندوستان کا پورا نقشہ پیش نظر تھا۔ چنانچہ تعمیل آقا کے لئے چالیس اولیاء کے ساتھ ہندوستان کا رُخ کیا۔

 سفر ہند :۔

 مدینہ منورہ سے وہ عاشق صادق بغداد پہنچا جہاں کچھ دنوں مشائخین وقت سے صحبتیں رہیں پھر 586ھ / 1190ء کو بقصد اجمیر بغداد سے عازم سفر ہوا۔ دوران سفر چشت، خرقان، جہنہ، کرمان، استرآباد، بخارا، تبریز، اصفہان، ہرات، سبزہ وار ہوتا ہوا بلخ پہنچا جہاں کچھ ایام شیخ احمد خضریرہ کے یہاں قیام کیا۔ پھر بلخ سے روانہ ہو کر سمر قند ہوتا ہوتا غزنین پہنچا یہاں شمس العارفین عبدالواحد ‌ سے ملاقات کی اور کچھ دنوں روحانی صحبت گرم رہی پھر اپنے روحانی قافلہ کے ساتھ لاہور پہنچا حضرت ابوالحسن علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش علیہ الرحمہ کے مزار اقدس پر حاضری دی اور روحانی فیوض سے مالا مال ہوا جب روانہ ہونے لگا تو مزار مبارک پر یہ شعر پڑھا

 گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل، کاملاں را رہنما

دہلی میں آمد :۔

لاہور سے سمانا ہوتا ہوا ہندوستان کی راجدھانی دہلی پہنچ کر راجہ کھانڈے راؤ کے راج محل کے سامنے ایک بت کدہ کے پاس قیام کیا اور اپنے اعلٰی اخلاق و کردار، سادہ مؤثر نصیحتوں سے راج کھانڈے راؤ کے کاریگروں اور بہت سے راجپوتوں کو کلمہ اسلام پڑھنے پر مجبور کر دیا۔ لوگ جوق در جوق آنے لگے اور اسلام کا نور پھیلنے لگا، دیکھتے ہی دیکھتے دہلی کی سر زمین پر مسلمانوں کا ایک وسیع حلقہ تیار ہو گیا چونکہ اس مرد مجاہد کی منزل مقصود اجمیر تھی اس لئے اپنے خلیفہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو دہلی میں خلق خدا کی ہدایت کے لئے چھوڑ کر عازم اجمیر ہو گیا۔

 اجمیر میں آمد :۔

 چند ثقہ مؤرخوں کے مطابق وہ مرد مجاہد 587ھ / 1191ء کو وارد اجمیر ہوا جہاں روز اول ہی سے باطن شکن کرامتوں کے ظہور نے ایک بوریہ نشیں درویش کی روحانی عظمت و قوت کا سکہ اہل اجمیر کے دلوں پر بٹھا دیا۔ اجمیر کے عوام و خواص کی کثیر تعداد شرک و بت پرستی کے قعر عمیق سے نکال کر فرمان باری تعالٰی ورایت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا کی ڈور سے منسلک ہونے لگی اور ایک وقت وہ آیا کہ شہر اجمیر کی پوری فضا کلمہ توحید سے گونجنے لگی۔ قبل ازیں کہ اس مرد خدا کی کچھ کرامتیں سپرد قرطاس کی جائیں نام و نسب اور ولادت و بچپن کا بیان بھی ضروری ہے۔

نام و نسب اور والدین :۔

تاریخ میں اس عظیم مرد مجاہد کا نام معین الدین بتایا جاتا ہے۔ جنہیں والدین پیار سے حسن کہا کرتے تھے اور غریب پروری کی وجہ سے غریب نواز کے نام سے مشہور ہوئے۔ پدر بزرگوار کا نام خواجہ غیاث الدین حسن ہے جو زہد و ورع، تقوٰی و طہارت میں ممتاز اور علم ظاہر و باطن سے بھی آراستہ تھے۔ یہ آٹھویں پشت میں حضرت موسٰی کاظم کے پوتے ہوتے ہیں۔ آپ کا شجرہ نسب ہوں ہے:

سید معین الدین حسن بن غیاث الدین بن سید سراج الدین بن سید عبد اللہ بن سید عبد الکریم بن سید عبد الرحمن بن سید علی اکبر بن سید ابراھیم بن امام موسی کاظم بن امام جعفر الصادق بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن حضرت امام حسین بن حضرت علی المرتضی رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین

اور مادر مہربان کا نام بی بی ام الورع ہے جو بی بی ماہ نور سے مشہور تھیں یہ بھی بلند کردار، پاکیزہ باطن خاتون تھیں، عبادت و ریاضت آپ کا محبوب مشغل تھا۔ چند واسطوں سے یہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پوتی تھیں۔ اس لئے حضرت خواجہ کی نجیب الطرفین سید کہا جاتا ہے۔ حضرت خواجہ حضرت غوث اعظم کے خالہ زاد بھائی ہیں۔ اور ایک روایت کے مطابق آپ غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ایک رشتے سے ماموں زاد ہوتے ہیں۔

ولادت، بچپن اور تعلیم :۔

حضرت خواجہ کی ولادت با سعادت 537ھ 1142ء کو موضع سنجر علاقہ سبحستان (جسے سبستان بھی کہا جاتا ہے) میں ہوئی۔ آپ نے متقی و پارسا والدین کی آغوش تربیت میں پرورش پائی تھی اس لئے عام بچوں کی طرح آشنائے لہوو لعب نہ تھے۔ پیشانی مبارک پر لمعہ نور اور شائستہ اطوار اس امر کی غمازی کرتے تھے کہ آپ آگے چل کر غیر معمولی شخصیت اور فکر و عمل، صلاح و تقوٰی کا روشن مینار ہوں گے۔ ابتدائی تعلیم والد گرامی کے زیر سایہ ہوئی۔ نو برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا پھر ایک مدرسہ میں داخل ہو کر تفسیر و حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی اور بہت قلیل مدت میں کثیر علم حاصل کر لیا۔

انقلاب اور تلاش حق :۔

جب عمر شریف پندرہ سال کی ہوئی تو والد کا سایہ شفقت سر سے اٹھ گیا ترکہ پدری سے ایک باغ اور ایک پن چکی ملی تھی جس کو آپ نے ذریعہ معاش بنایا اور خوشگوار زندگی گزرنے لگی مگر قدرت نے آپ کو اپنی مخلوق کے دلوں کی باغبانی کے لئے پیدا فرمایا تھا۔ چنانچہ ایک دن ایک مجذوب حضرت ابراہیم قندوزی باغ میں تشریف لائے اور ایک کھلی کا ٹکڑا کھلا کر دل کی دنیا میں انقلاب پیدا کر دیا۔ فوراً حضرت خواجہ نے باغ اور پن چکی بیچ کر اس کی قیمت فقراء میں تقسیم کردی اور تلاش حق میں نکل پڑے۔ کئی مقامات سے گزرتے ہوئے قریہ ہارون پہنچے جہاں حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے آپ کو اپنے حلقہ اردات میں داخل فرما کر اپنی دو انگلیوں کے درمیان سے اوپر عرش اعظم اور نیچے تحت الثرٰی تک دکھا دیا۔ بیس سال تک اپنے مُرشد کی خدمت کرتے رہے یہاں تک کہ ایک دن پیرو مُرشد نے آپ کو ساتھ لیکر خانہ کعبہ کا سفر کیا۔ طواف و زیارت کے بعد ہاتھ پکڑ کر حق تعالٰی کے سپرد کردیا۔ جب زیر حطیم کعبہ مناجات کی تو ندا آئی “ہم نے معین الدین کو قبول کیا“ بعد ازاں بارگاہ آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہو کر بحکم مُرشد حضرت خواجہ نے سلام عرض کیا تو روضہ انور سے اس طرح جواب ملا “وعلیکم السلام یاقطب المشائخ بروبحر“ یہ تو مُرشد برحق کے ساتھ کا واقعہ ہے لیکن جب دوسری مرتبہ اپنے مُرید خاص حضرت قطب الدین بختیار کاکی کو ساتھ لیکر حج و زیارت کے لئے تشریف لے گئے تو ایک دن کا واقعہ ہے کہ آپ حرم کعبہ کے اندر یادِ الٰہی میں مشغول تھے کہ ہاتف کی آواز سنی “اے معین الدین ہم تجھ سے خوش ہیں، تجھے بخش دیا، جو کچھ چاہے مانگ تاکہ عطا کروں“ اور جب روضہ انور کی زیارت کیلئے پہنچے تو یہ خوشخبری سنی “اے معین الدین تو میرے دین کا معین ہے ہندوستان کی ولایت میں نے تجھے عطا کی“ یہی وہ بشارت عظمٰی ہے جس سے میں نے اپنے مقالہ کا آغاز کیا تھا، اب لگے ہاتھوں حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی چند بصیرت افروز کرامتیں بھی ملاحظہ فرمائیں۔

کرامات خواجہ ہندالولی :۔

دوران قیامِ بغداد ایک دن خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالٰی عنہ شیخ وحدالدین، شیخ شہاب الدین سہروردی اور خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رضی اللہ تعالٰی عنہم کی ایک مجلس میں تھے۔ انبیاء علیہم السلام کا ذکر خیر ہو رہا تھا کہ سامنے سے ایک بارہ سال کا لڑکا ہاتھ میں ایک پیالہ لئے جا رہا تھا (دوسری کتابوں میں تیرو کمان کا ذکر ہے) جب بزرگوں کی نگاہیں اس پہ پڑی تو حضرت خواجہ نے فرمایا، یہ لڑکا ایک دن دہلی کا بادشاہ بنے گا۔ چنانچہ یہی وہ لڑکا شمس الدین التمش کے نام سے دہلی کا بادشاہ گزرا ہے۔

زیارتِ کعبہ :۔

حضرت قطب الدین بختیار کاکی کا بیان ہے کہ حضرت خواجہ ہر سال زیارتِ کعبہ کے لئے بقوت روحانی اجمیر سے تشریف لے جاتے تھے جب کام پایہ تکمیل کو پہنچا تو آپ کا یہ معمول تھا کہ آپ ہر شب بعد نمازِ عشاء کعبۃ اللہ شریف تشریف لے جایا کرتے تھے اور نمازِ فجر اجمیر میں ادا فرماتے تھے۔

رھزنوں کا تائب ہونا:۔

ایک مرتبہ حضرت خواجہ اپنے مُریدوں کے ساتھ ایک گھنے جنگل سے گزر رہے تھے کہ وہاں بسنے والے ڈاکوؤں نے آپ کے مُریدوں پر حملہ کر دیا اور لوٹ مار شروع کر دی۔ یہ دیکھ کر حضرت خواجہ نے جب نگاہِ جمال ان ڈاکوؤں پر ڈالی تو وہ کانپنے لگے اور قدموں میں گر پڑے۔ چھینا ہوا سامان واپس کیا اور آپ کے دستِ حق پرست پر سب کے سب مشرف باسلام ہوئے۔ بعد ازاں آپ نے ان کو چند نصیحتیں فرمائیں۔ جو نہایت گارکر ثابت ہوئیں۔ سب نے رہزنی سے توبہ کی اور پوری عُمر دین حق پر کاربند رہے اور سچائی کا دامن کبھی بھی اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔

مقتول زندہ ہو گیا :۔

حاکم وقت نے ایک بے قصور شخص کو پھانسی دی اس کی ماں روتی پیٹتی ہوئی خدمتِ خواجہ میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میرا بیٹا بے قصور تھا حضور مجھ پر کرم فرمائیں۔ آپ عصا لیکر اس کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ مقتول کے پاس پہنچ کر عصا سے اس کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا اگر تو بے نگاہ قتل کیا گیا ہے تو خدا کے حکم سے زندہ ہوجا اور دار سے نیچے اتر آ۔ مقتول یہ سنتے ہی زندہ ہو گیا اور سولی سے اتر کر آپ کے قدموں پر سر رکھا اور اپنی ماں کے ساتھ اپنے گھر کو روانہ ہو گیا۔

بُت پرستوں کا تائب ہونا :۔

کلمات الصادقین میں لکھا ہے کہ ایک دن حضرت خواجہ کا گزر کفار کے ایک بُت کدے کی طرف سے ہوا۔ اس وقت سات کافر بُت پرستی میں مشغول تھے آپ کا جمال جہاں آراء دیکھتے ہی بے بس ہو گئے اور قدموں میں آ کر گر گئے فوراً توبہ کی اور مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ آپ نے ان میں سے ایک کا نام حمیدالدین رکھ دیا۔ چنانچہ شیخ حمید الدین دہلوی ان سات حضرات میں سے ایک ہیں جنہوں نے شہرت پائی۔

آتش پرستوں کا قبولِ اسلام :۔

 ایک روز حضرت خواجہ غریب نواز صحرا سے گزرے وہاں آتش پرستوں کا ایک گروہ آگ کی پرستش میں مشغول تھا یہ لوگ اس قدت ریاضت و مجاہدات کرتے تھے کہ چھ چھ مہینے تک دانہ پانی زبان پر نہیں رکھتے تھے سرکار خواجہ نے ان لوگوں سے آتش پرستی کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ آگ کو اس لئے پُوجتے ہیں کہ دوزخ میں یہ آگ ہمیں تکلیف نہ پہنچائے۔ آپ نے فرمایا دوزخ سے بچنے کا طریقہ یہ نہیں بلکہ نارِ دوزخ سے بچنے کیلئے خالق نار کی پُوجا کرو پھر یہ آگ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی۔ تم لوگ اتنے دنوں سے آگ کی پوجا کرتے ہو ذرا اس میں اپنا ہاتھ ڈال کر دکھاؤ ؟ ان لوگوں نے جواب دیا۔ آگ کا کام جلانے کا ہے، ہمارا ہاتھ تو جل جائے گا لیکن اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ حق پرستوں کو آگ نہ جلائے گی۔ حضرت خواجہ نے فرمایا، دیکھو ہم خدا کے پرستار ہیں۔ یہ آگ ہمارے جسم کو تو دور کی بات ہماری جوتی کو بھی نہیں جلا سکتی۔ یہ فرما کر آپ نے اپنی ایک جوتی آگ میں ڈال دی بہت دیر تک وہ آگ میں رہی مگر اس پر آگ کا ذرا سا بھی اثر نہ ہوا یہ دیکھ کر سب مسلمان ہو گئے۔

فریاد رسی :۔

 ایک دن کا واقعہ ہے کہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سلطان شمس الدین التمش کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے مصروف سیر و تفریح تھے بعض امراء و اعیان سلطنت بھی ہمراہ تھے کہ ایک بدکار عورت نے بادشاہ کے حضور میں عرض کیا کہ آپ میرا نکاح کر دیں ورنہ عتابِ الٰہی میں گرفتار ہو جاؤنگی بادشاہ نے کہا تو کس کے ساتھ نکاح کرنا چاہتی ہے تو عورت نے حضرت قطب الدین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اس مرد سے جو قطب الاقطان بنے پھرتے ہیں (نعوذاللہ) انہوں نے میرے ساتھ حرام کی ہے اور یہ حمل (پیٹ کی طرف اشارہ کرکے) انہیں کا ہے۔ حضرت قطب صاحب کو یہ بیہودہ بات سن کر شرم و ندامت سے پسینہ آ گیا۔ بادشاہ و امراء ششدر رہ گئے۔ فوراً قطب صاحب نے اجمیر کی طرف منہ کرکے کہا “یا پیرو مُرشد میری مدد فرمائیے“ فوراً سامنے حضرت خواجہ تشریف لاتے دکھائی دئیے حضرت قطب صاحب اور بادشاہ قدم بوس ہو گئے۔ سرکار خواجہ نے فرمایا کیا بات ہے ؟ تم نے مجھے کیوں یاد فرمایا ؟ حضرت قطب صاحب نے سارا ماجرا بیان کیا تو سرکار خواجہ نے اس عورت کے پیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اے بچے سچ سچ بتا تو کس کا بچہ ہے۔ بچہ فوراً اپنی ماں کے پیٹ سے بول اٹھا کہ میں ایک چرواہے کا بچہ ہوں۔ میری ماں نہایت بدکار عورت ہے۔ چنانچہ عورت نے بھی اعتراف کرکے معافی مانگی۔

پرتھوی راج اور حضرت خواجہ :۔

جب حضرت خواجہ اجمیر میں مقیم ہوئے اور وہاں آپ کی ذات بابرکت سے کرامتوں کا مسلسل ظہور ہونے لگا اور لوگ اسلام کی صداقت کے معترف ہونے لگے پرتھوی راج کی دفاعی کوششوں کے باوجود حضرت خواجہ کا اثر بڑھنے لگا تو پرتھوی راج دل سے حضرت خواجہ کا دشمن ہوگیا، جوگی جے پال کی ناکامی اور اس کے قبول اسلام کے بعد پرتھوی راج کی آتش عداوت تیز ہوگئی اور وہ حضرت خواجہ کو اجمیر سے نکالنے کا منصوبہ بنانے لگا جب وہ اپنے منصونے کو عملی شکل دینے کا ارداہ کرتا اندھا ہو جاتا اور جب باز آتا بینائی واپس آ جاتی اس کرامت کو بار بار دیکھنے کے باوجود بھی شرک و بُت پرستی کی ظلمت اس کے دل سے نہ نکل سکی بالآخر اپنے کیفر کردار کو پہنچا۔

مجلس کرامات :۔

حضرت خواجہ ایک مجلس کا تذکرہ فرماتے ہیں جس میں خواجہ عثمان ہارونی خواجہ اوحدالدین کرمانی اور حضرت خواجہ بھی موجود تھے۔ گفتگو اس بارے میں شروع ہوئی کہ جو شخص بھی اس مجلس میں ہے وہ اپنی کرامت دکھائے یہ سنتے ہی خواجہ عثمان ہارونی نے مصلے کے نیچے ہاتھ ڈالا اور مٹھی بھر اشرفیاں نکال کر ایک درویش کے حوالہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جاؤ درویشوں کے لئے حلوہ لے آؤ۔ شیخ اوحدالدین نے قریب ہی پڑی ہوئی ایک لکڑی پر ہاتھ مارا تو فوراً وہ لکڑی سونا بن گئی۔ میں پیچھے رہ گیا جو پیر و مُرشد کی وجہ سے کوئی کرامت ظاہر نہیں کر سکتا تھا شیخ نے میری طرف رُخ کرکے فرمایا تم کوئی کرامت کیوں نہیں دکھاتے ؟ اس مجلس میں ایک بھوکا درویش تھا جو شرم کی وجہ سے سوال نہیں کرتا تھا میں نے اپنی گدڑی میں سے جوکی چار روٹیاں نکالیں اور اس درویش کے حوالہ کر دیں۔

 رام دیو کا قبول اسلام :۔

جب حضرت خواجہ اجمیر میں اناساگر کے قریب مقیم ہوئے وہ انا ساگر جس کے گرد و نواح میں ہزاروں بُت خانے تھے جن پر سینکڑوں من تیل اور پھول صرف ہوتے صُبح و شام تک پرستاروں کا ہجوم رہا کرتا تھا۔ برہمنوں اور پرستارا صنام کو حضرت کا قیام ناگوار گزرا جب راجہ اور اہل شہر کی کثیر تعداد مندروں میں پُوجا کیلئے حاضر ہوئی پجاریوں کا سردار رام دیو (دوسری کتابوں میں شادی دیو آیا ہے) ایک جماعت کثیر کے ساتھ حضرت کی بارگاہ میں آیا تاکہ اس مرد درویش کو یہاں سے نکال دیا جائے لیکن حضرت خواجہ کے جمال باکمال پر نظر پڑتے ہی لوگوں کے جسموں پر لرزہ طاری ہو گیا۔ بید کی طرح کانپنے لگے۔ حضرت کی نگاہِ کرم کی تاثیر نے رام دیو کے دل کی کیفیت بدل دی بصد خلوص و عقیدت آگے بڑھا اور دستِ حق پرست پر اسلام قبول کرلیا۔ حضرت خواجہ نے اس کا نام شادی دیو رکھا۔ تلک عشرۃ کاملۃ یہ آپ کی دس کرامتیں مکمل ہوئیں ویسے تو آپ کی بے شمار کرامتیں ہیں اور الحمدللہ !! آج بھی آپ کی تربیت گہوارہء کرامت بنی ہوئی ہے۔

خدا کی رحمتیں ہوں اے امیر کارواں تم پر

غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کے مختصر حالات
سلسلہ نسب و ولادت
قطب الاقطاب فرد الاحباب استاذ شیوخ ، عالمِ اسلام و المسلمین حضرت محی الدین ابو محمد عبدالقادر الحسنی و الحسینی رضی اللہ عنہ، نجیب الطرفین ہیں۔ والدہ ماجدہ کی طرف سے حسینی اور والد ماجد کی جانب سے حسنی تھے۔ یہ شرافت و بزرگی بہت ہی کم بانصیب لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔ والد ماجد کا نام سید ابو صالح اور والدہ ماجدہ کا اسم گرامی ام الخیر فاطمہ بنت ابو عبداللہ صومعی الحسینی تھا۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہما۔ آپ ایران کے مشہور قصبہ جیل میں یکم رمضان المبارک ٤٧٠ھ کو پیدا ہوئے۔
آپ مادر زاد ولی تھے
یہ بات نہایت ہی مشہور و معروف ہے کہ سیدنا حضرت غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ، ایام رضاعت میں ماہِ رمضان المبارک میں دن کے وقت اپنی والدہ ماجدہ کا دودھ نہیں پیا کرتے تھے۔ یہ بات لوگوں میں پھیل گئی کہ فلاں شریف گھرانے میں ایک ایسا بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان شریف میں دن کے وقت ماں کا دودھ نہیں پیتا۔ اور روزہ سے رہتا ہے۔؛ اس سے ثابت ہوا کہ آپ مادر زاد ولی تھے ۔
ایک دفعہ لوگوں نے پوچھا کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ آپ ولی اللہ ہیں؟ فرمایا میں دس برس کا تھا کہ گھر سے مدرسے جاتے وقت دیکھا کہ فرشتے میرے ساتھ چل رہے ہیں۔ پھر مدرسہ میں پہنچنے کے بعد وہ فرشتے دوسرے بچوں سے کہتے کہ ”ولی اللہ ” کیلئے جگہ دو ، فرماتے ہیں کہ ایک دن مجھے ایک ایسا شخص نظر آیا جسے میںنے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اس نے ایک فرشتہ سے پوچھا کہ یہ کون لڑکا ہے ؟ جس کی اتنی عزت کرتے ہو؟ اس فرشتہ نے جواب دیا کہ یہ ولی اللہ ہے جو بڑے مرتبے کا مالک ہوگا۔ راہِ طریقت میں یہ وہ شخصیت ہے جسے بغیر روک ٹوک کے نعمتیں دی جارہی ہیں اور بغیر کسی حجاب کے تمکین و قرار عنایت ہو رہا ہے ۔ اور بغیر کسی حجت کے تقربِ الٰہی مل رہا ہے۔ الغرض چالیس سال کی عمر میں میں نے پہچان لیا کہ وہ پوچھنے والا شخص اپنے وقت کا ابدال تھا۔
آپ کا حلیہ شریف
آپ نحیف البدن ، میانہ قد، کشادہ سینہ لمبی چوڑی داڑھی، گندمی رنگ، ابرو پیوستہ، بلند آواز تھے۔ آپ علم کامل اور اثر کامل کے حامل تھے۔
آپ کا علم و فضل
سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ، علم ظاہری اور باطنی کے ایک متبحر عالم فاضل تھے۔ ایک دن آپ کی مجلس میں ایک قاری نے قرآن کریم کی ایک آیت تلاوت کی۔ آپ نے اس کی تفسیر بیان کرنی شروع کی ۔ پہلے ایک تفسیر پھر دوسری، اور پھر تیسری یہاں تک کہ حاضرین کے علم کے مطابق اس آیک کی گیارہ تفاسیر بیان فرمائیں۔یہاں تک کہ چالیس وجوہ بیان کیں ار ہر معنی اور تفسیر کی علیحدہ علیحدہ تفصیل سے سند اور دلیل اس طرح دی کہ حاضرین دم بخود رہ گئے۔
تمام علمائے عراق بلکہ دنیا کے تمام طلب گارانِ حال و قال کے آپ مرجع و وسیلہ تھے۔ دنیا کے ہر گوشہ سے آپ کے پاس فتوے آیا کرتے تھے جن پر فوراً بغیر مطالعہ کتب اور غور و فکر جواب لکھتے ۔ کسی بڑے سے بڑے حاذق فاضل عالم کو آپ کے جواب کے خلاف لکھنے یا کہنے کی طاقت نہ تھی۔
آپ کی ریاضت و عبادت
سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ، کا طریقہئ سلوب بے انتہاء مشکل اور بے نظیر تھا۔ آپ کے کسی ہمعصر شیخ میں اتنی مجال نہ تھی کہ آپ جیسی ریاضت و مجاہدہ میں آپ کی ہمسری کرسکے۔ آپ کا قاعدہ تھا کہ اپنے ہر عضو کو اس کی طاقت کے موافق عبادت میں سپرد کردیا کرتے تھے۔ اور قوتِ قلب کے موافق مجایئ اقداء میں روح و نفس کا ظاہراً و باطناً ذکر کیا کرتے تھے ۔ غائب و حاضر دونوں حالتوں میں نفس کی صفات کو علیحدہ کرکے نفع و نقصان اور دور ونزدیک کا فرق مٹادیا کرتے ۔ کتاب و سنت کی پیروی میں مطابقت ایسی تھی کہ آپ ہر حالت میں ہر وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے اور حضور قلب کے ساتھ توحید الٰہی میں مشغول رہتے۔
آپ کے اخلاقِ کریمہ
سیدنا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ، نہایت پاکیزہ اور خوش اخلاق تھے۔ آپ اپنی طاہری شان و شوکت اور وسیع علم کے بوجود کمزوروں اور ضعیفوں میں بیٹھتے ۔ فقیروں سے عاجزی کے ساتھ پیش آتے ۔ بڑوں کی عزت کرے اور چھوٹوں پر شفقت و مہربانی فرماتے ۔ سلام کرنے میں پہل کرتے اور مہمانوں اور طالب علموں کی مجلسوں میں نشست کرتے اور ان کی لغزشوں سے درگزر کرتے جو کوئی آپ کے سامنے کتنی ہی جھوتی قسم کیوں نہ کھاتا آپ اس کا یقین کرلیتے اور اپنے علم و کشف کو اس پر ظاہر نہ فرماتے۔ اپنے مہمانوں اور ہم نشستوں کے ساتھ دوسروں کی بہ نسبت بہت خوش خلقی اور کشادہ روئی سے پیش آتے ۔ سرکشوں ۔ ظالموں ۔ مال داروں اور فاسقوں اور اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں کی تعظیم کے لئے کھڑے نہ ہوتے۔ کسی امیر و وزیر کے گھر نہ جاتے ۔ آپ کے کسی ہم عصر مشائخ کو آپ جیسا حسن خلق ۔ کشادہ سینہ ، کرمِ نفس حفاظت و امانت میں برابری کی قوت و طاقت نہ تھی۔
آپ کی مریدوں پر شفقت
مشائخین کی ایک جماعت کا بیان ہے کہ حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ، نے فرمایا کہ قیامت تک میں اپنے تمام مریدوں کا ضامن ہوں کہ ان کی موت توبہ پر واقع ہوگی۔ یعنی بغیر توبہ نہ مریں گے۔ چند مشائخ نے حضور سے پوچھا کہ اگر کوئی شخص آپ کے ہاتھ پر بیعت نہ کرے اور نہ ہی آپ کے ہاتھ سے خرقہ پہنا ہو ، بلکہ صرف آپ کا ارادتمند ہو اور آپ کی طرف اپنے کو منسوب کرتا ہو تو کیا اسیے شخص کو آپ کے اصحاب میں شمار کیا جاسکتا ہے؟ اور آیا ایسا شخص ان فضیلتوں میں شریک ہوگا جو آپ کے مریدوں کو حاصل ہوگی؟ حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ، نے فرمایا کہ جس شخص نے اپنے آپ کو میری طرف منسوب کیا اور مجھ سے ارادت و عقیدت رکھی تو اللہ تعالیٰ اس کو قبول کرے گا۔ اس پر اپنی رحمتیں نازل کرے گا اور اس کو توبہ کی توفیق دے گا اگرچہ اس کے طریق مکروہ ہوں۔ اور ایسے شخص کا شمار میرے مریدوں اور اصحاب میں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم کے صدقہ وعدہ کیا ہے کہ میرے دوستوں ، میرے اہلِ مذہب، میرے راہ پر چلنے والے ،میرے مریدوں ار مجھ سے محبت کرنے والے کو جنت مرحمت فرمائے گا۔
آپ کے تعلیم کردہ نوافل
آپ رضی اللہ عنہ، فرماتے ہیں کہ جو کسی تکہلیف میںمجھ سے امداد چاہے یا مجھے آواز دے اور پکارے اس کی تکلیف دور کی جائے گی ، جو کوئی میرے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ سے مانگے اس کی ضرورت پوری کی جائے گی۔ اور جو کوئی دو رکعت نماز اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورہئ فاتحہ کے بعد گیارہ مرتبہ سورہئ اخلاص پڑھے اور پھر سرور عالم ا پر درود شریف پڑھے اس طرح دونوں رکعتیں ختم کرکے سلام پھیرنے کے بعد درود شریف پڑھے ۔ اور عراق کی جانب گیارہ قدم چلے اور میرا نام لے کر اپنی مراد اللہ تعالیٰ سے مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کی مراد اپنے فضل و کرم سے پوری کرے گا۔
عداوت غوث کا انجام
جو شخص حضرت پیر دستگیر غوث اعظم رضی اللہ عنہ، سے تھوڑی سی بھی عداوت رکھے گا یا ان کی ادنیٰ سی بھی بے ادبی کرے گا تو دنیا میں ذلیل و رسوا ہوگا۔ اور ذلت کی موت مرے گا۔
ایک مرتبہ آپ کا خادم ابو الفضل بزاز کے پاس گیا اور کہا کہ مجھے وہ کپڑا درکار ہے جو ایک اشرفی فی گز ہو کم نہ ہو۔
بزاز نے پوچھا ، کس کے لئے خریدتے ہو؟
خادم نے جواب دیا کہ اپنے آقا سیدنا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ، کیلئے درکار ہے۔
یہ سن کربزاز کے دل میں آیا کہ شیخ نے بادشاہ وقت کے لئے بھی کپڑا نہیں چھوڑا۔ اور بزاز کے دل میں ابھی یہ خیال پورا ہی نہیں ہوا تھا کہ غیب سے اس کے پاؤں میں ایک کیل چبھی ار ایسی چبھی کہ مرنے کے قریب ہو گیا۔ لوگوں نے پاؤں سے کیل نکالنے کی بہت کوشش کی لیکن مطلب براری نہ ہوسکی۔ آخر کار لوگ بزاز کو اٹھا کر حضرت غوثِ پاک رضی اللہ عنہ، کے پاس لے گئے۔ آپ نے اسے دیکھ کر فرمایا،
اے ابو الفضل! تم نے اپنے دل میں ہم پر اعتراض کیوں کیا ۔ فرمایا مجھے اپنے معبود کی عزت کی قسم کہ اللہ جل شانہ، نے حکم دیا کہ اے عبدالقادر وہ کپڑا پہنو جس کی قیمت فی گز ایک اشرفی ہو
مزید فرمایا کہ ابو الفضل! یہ کپڑا میت کا کفن ہے ۔ اور میت کا کفن عمدہ اور نفیس ہونا چاہئے جو ہزار موت کے بعد نسیب ہوتا ہے۔ پھر آپ نے اپنا دست اقدس ابوالفضل کی تکلیف کے مقام پر رکھا ۔ آپ کے ہاتھ رکھتے ہی تکلیف اس طرح جاتی رہی گویا بالکل تھی ہی نہیں ۔ پھر اس کے بعد فرمایا ۔ ابو الفض کا اعتراض ہمارے پاس پہنچا اور کیل کی صورت میں اسکے پاس لوٹ کر جو کچھ چاہا کیا۔
حضرت غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ، کا وعظ و نصیحت
آپ کی مجلس وعظ میں چار سو اشخاص قلم دوات لئے آپ کی نصیحتیں قلمبند کرتے رہتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ ابتدائی زمانہ میں سرورِ عالم ا اور سیدنا حضرت مولا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کو میں نے خواب میں دیکھا جنہوں نے مجھے وعظ کرنے کا حکم دیا اور میرے منہ میں اپنا لعاب دہن ٹپکایا اور مجھ پر ابواب سخن کھول دیے۔
حاضرینِ وعظ
ایک شیخ کا بیان ہے کہ حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ، جب وعظ کرنے کیلئے منبر پر بیٹھتے تو پہلے الحمد اللہ کہتے تاکہ اللہ تعالیٰ کا ہر ولی جو غائب ہو یا حاضر خاموش ہوجائے۔ اور پھر دوسری مرتبہ الحمد للہ کہتے اور دونوں کے درمیان تھوڑی دیر کیلئے سکوت فرماتے اس عرصہ میں فرشتے اور تمام اولیاء اللہ آپ کی مجلس میں حاضر ہوجاتے ۔ جتنے لوگ آپ کی مجلس میں دکھائی دیتے اس سے زیادہ نظر نہ آنے والے جنات ہوتے۔
آپ کے ہم عصر ایک شیخ کا بیان ہے کہ میںنے اپنی عادت کے موافق جنات کی حاضری کے لئے عزیمت پڑھی لیکن کوئی جن حاضر نہ ہوا ۔ میں بہت دیر تک عزیمت پڑھتا رہا ۔ پھر حیران ہوا کہ جنات کی حاضری کیوں نہیں ہورہی ہے؟ ان کے نہ آنے کا سبب کیا ہے؟ تھوڑی دیر بعد کچھ جن حاضر ہوئے تو میں نے ان سے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ، وعظ فرمارہے تھے ار ہم سب جنات وہاں حاضر تھے۔ آپ آئیندہ ہم کو اس وقت طلب کریں جب کہ شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ، وعظ نہ فرمارہے ہوں ورنہ ہماری حاضری میں تاخیر ہوگی۔ میں نے پوچھا کیاتم لوگ حضرت شیخ کی مجلس میں وعظ مں حاضر ہوتے ہو؟ اس پر جنات نے نے جواب دیا کہ شیخ کی مجلس میں انسانوں کی نسبت ہماری تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہم جنات سے اکثر قبائل حضرت شیخ کے ہاتھ پر اسلام لائے ہیں اور توبہ و استغفار میںمشغول ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ، کی مجلس وعظ میں اولیائے عظام اور انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام بھی شریک ہوتے ہیں ار خود محبوب رب العالمین ا بھی تربیت و تائید کیلئے تشریف لایا کرتے تھے۔ اور سیدنا حضرت خضر علیہ السلام بھی شریک ہوتے۔
مواعظ کا اثر
آپ کا وعظ بڑا پر تاثیر ہوتا تھا۔ حاضرین مجلس مضطرب اور بے چین ہوجاتے اور ان پر وجد و حال کی کیفیت طاری ہو جاتی ۔ کوئی گریہ و فریاد کرتا۔ کوئی اپنے کپڑے پھاڑ کر جنگل کی طرف بھاگ جاتا۔ کوئی بے ہوش ہو کر جان دے دیتا ۔ آپ کی مجلس وعظ سے اکثر لوگوں کے جنازے نکلتے۔ جس کا سبب یہ تھا کہ وہ آپ کے ذوق و شوق، ہیبت و تصرف ، عظمت و جلال کی تاب نہ لاسکتے اور دم توڑ دیتے تھے۔ پانچ سو سے زیادہ یہودی اور عیسائی لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ اور ایک لاکھ سے زیادہ ڈاکوؤں اور بدمعاشوں نے آپ کے ہاتھ پر توبہ کرکے بدکرداریوں سے باز آئے۔ اس کے علاوہ عام مخلوق کی فیض یابی کی تعداد بے انتہا ار بے شمار ہے۔
آپ کا وصال مبارک
آپ نے نوے (٩٠) سال کی عمر میں بتاریخ ١١ ربیع الآخر ٥٦١ھ مطابق ١١٨٢ء میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ نماز جنازہ میں بے شمار لوگ حاضر ہوئے۔ کثرتِ ہجوم کے باعث رات کے وقت آپ کے مدرسہ میں سائبان کے نیچے آپ کا جسم اقدس سپردِ خاک کیا گیا۔ بغداد شریف میں آپ کا مزار مبارک مرجع خلائق ہے۔
— — —
تحریر: علامہ نسیم احمد صدیقی قادری مدظلہ عالی
پیشکش: انجمن ضیائے طیبہ، کراچی ، پاکستان

مناقب سید الشہداء
حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ


بِسْمِ اللہ ِالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَآءٌ وَلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ (بقرہ:١٥٤)
جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں ان کو مردہ نہ کہو، وہ تو زندہ ہیں ، مگر تم کو خبر نہیں

یہ سید الشہداء ، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سفارش کرنے والوں کے سردار، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے شیر، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے مبارک چچاحضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مناقب ہیں، جن کے موتیوں کو پرونے اور جن کی چمک دمک ظاہر کرنے کا فریضہ خاندان نبوت اور علمی خانوادے کے گوہرشب تاب مشہور”مولد نبوی” (مولود برزنجی) اور شہداء بدر کے اسماء گرامی پر مشتمل کتاب ” جالیۃ الکدر فی نظم اسماء شھداء بدر” اور دیگر مفید اور جلیل کتب کے مصنف حضرت علامہ سید جعفر بن حسن برزنجی رحمۃ اللہ علیہ نے سر انجام دیا ہے۔

یہ حضرت سید الشہداء رضی اللہ تعالی عنہ کے عظیم مناقب ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا دفاع کرتے ہوئے جان کی بازی لگادی ، غزوہ احد میں جن کی شہادت پر ہمارے آقا ومولا اور حبیب مکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم غمگین ہوئے، اس غزوہ کے اسلامی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب ہوئے، وہ تاریخ جس کی بنیاد ان جانبازوں نے رکھی۔ یہ مناقب حضور قلب کے ساتھ متوجہ ہونے والوں کے لیے کئی اسباق اور نصیحتیں اپنے دامن میں چھپائے ہوئے ہیں۔

یہ دلکش اور روح پرور باغ ہے جس کی باد صبا حضرت سید الشہداء حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے احوال کی خوشبو سے معطر ہے اور اس کی جودوسخا کی بارش، حضرت سید الشہداء کے ہمراہ جام شہادت نوش کرنے والے خوش بختوں کے موتیوں جیسے ناموں سے سیراب ہوتی ہے، ان حضرات نے دین مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی نصرت و حمایت میں اپنی جانوں کی بازی لگادی اور اسلام کے پھیلاؤ کا راستہ ہموار کردیا۔

میرے دل میں اس باغ کے گھنے درختوں میں داخل ہونے، اس کے حوضوں کے چشموں سے سیراب ہونے، نور کے برجوں سے موتیوں کی بارش طلب کرنے اور ان موتیوں کو مندرجہ ذیل سطور کی لڑی میں پرونے کا خیال پیدا ہوا، تاکہ انہیں حضرت سید الشہداء کے مزار مقدس کے پاس مقرر عمل (ایصال ثواب) کے بعد پڑھا جائے، خصوصاً آپ کی خصوصی زیارت (٢) کی رات جس کی روشن صبح ابر آلود نہیں ہوتی بلکہ اجلی اجلی ہوتی ہے، مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ اور باکمال بندوں کے ذکر سے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی موسلادھار بارشیں حاصل کی جائیں۔

میں کہتا ہوں کہ وہ سیدنا حمزہ ابن عبد المطلب بن ہاشم، نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے چچا اور رضاعی بھائی ہیں، ابو لہب کی آزاد کردہ کنیز ثوبیہ نے ان دونوں ہستیوں اور حضرت ابو سلمہ ابن عبد الاسد مخزومی (حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پہلے شوہر) کو دودھ پلایا تھا۔

حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی عمر نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے دو سال اور ایک قول کے مطابق چار سال زیادہ تھی (٣)، ان دونوں ہستیوں کو مختلف اوقات میں (٤) دودھ پلایاگیا، حضرت سیدالشھداء اور حضرت صفیہ (نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی) کی والدہ، ھالہ بنت اھیب بن عبد مناف بن زہرہ، نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی چچا زاد بہن تھیں۔

آپ کی اولاد میں سے پانچ بیٹے تھے، چار کے نام یہ ہیں:

١۔ یعلی (٥) ٢۔عمارۃ (٦) ٣۔عمرو   اور  ٤۔ عامر

دو بیٹیاں تھیں:

١۔ ام الفضل (٧) ٢۔امامہ (٨) اس وقت حضرت سید الشھداء کی اولاد میں سے کوئی نہیں ہے (٩)

 

اللھم ادم دیم الرضوان علیہ
وامد نا بالا سرار التی اودعتھا لدیہ


اے اللہ! ان پر رحمت و رضوان کی موسلادھار بارش ہمیشہ برسا اور جو اسرار تو نے ان کے پاس امانت رکھے ہیں، ان کے ساتھ ہماری امداد فرما۔ حضرت سید الشہداء بہادر، سخی، نرم خوش اخلاق، قریش کے دلاور جوان اور غیرت مندی میں انتہائی بلند مقام کے مالک تھے۔

بعثت کے دوسرے سال (١٠) اور ایک قول کے مطابق چھٹے سال (١١) مشرف باسلام ہوئے، اسلام لانے کے دن انہوں نے سنا کہ ابو جہل،نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی شان میں نازیبا کلمات کہہ رہا ہے تو آپ نے حرم مکہ شریف میں اس کے سر پر اس زور سے کمان ماری کہ اس کا سر کھل گیا۔ (١٢)

حضرت حمزہ نے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے گزارش کی ۔۔۔۔۔۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اپنے دین کا کھل کر پرچار کیجئے! اللہ تعالیٰ کی قسم ! مجھے دنیا بھر کی دولت بھی دے دی جائے تو میں اپنی قوم کے دین پر رہنا پسند نہیں کروں گا، ان کے اسلام لانے سے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو تقویت حاصل ہوئی اور مشرکین آپ کی ایذا رسانی سے کسی حد تک رک گئے، بعد ازاں ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلے گئے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے جو پہلا جھنڈا تیار کیا وہ سید الشہداء ہی کے لیے تھا (١٣)، جب ٢ھ / ٦٢٣ء میں حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے انہیں قوم جھینہ کے علاقے میں سیف البحر کی طرف (ایک دستے کے ہمراہ) بھیجا، جیسے کہ مدائنی نے کہا ہے (١٤)۔

ابن ہشام نے سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے یہ اشعار نقل کیے ہیں (١٥)۔

 

فما برحوا حتی انتدبت بغارۃ
لھم حیث حلوا ابتغی راحتہ الفضل
بامر رسول اللہ اول خافق
علیہ لو لم یکن لاح من قبلی

وہ اسلام دشمنی سے باز نہیں آئے یہاں تک کہ میں ان کے ہر ٹھکانے پر حملے کے لیے آگے بڑھا، فضیلت کی راحت حاصل کرنا میرا مقصود تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر میں پہلا تلوار چلانے والا تھاجس کے سر پر جھنڈا تھا، یہ جھنڈا مجھ سے پہلے ظاہر نہ ہوا تھا۔

حضرت سید الشہداء جنگ بدر میں اس حال میں شامل ہوئے کہ انہوں نے شتر مرغ (١٦) کا پر اپنے اوپر بطور نشان لگایا ہوا تھا ، انہوں نے اس جنگ میں زبردست جانبازی کا مظاہرہ کیا، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے آگے دو تلواروں (١٧) کے ساتھ لڑتے رہے،کفارکے سورماؤںکو بکھیر دیا اور مشرکین کو کاری زخم لگائے (١٨) ۔

حضرت سید الشہداء رضی اللہ تعالی عنہ جنگ احد کے دن خاکستری اونٹ اور پھاڑنے والے شیر دکھائے دیتے تھے، انہوں نے اپنی تلوار سے مشرکین کو بری طرح خوف زدہ کردیا، کوئی ان کے سامنے ٹھہرتا ہی نہ تھا۔

غزوہ احد میں آپ نے اکتیس مشرکوں کو جہنم رسید کیا، جیسا کہ امام نووی رحمۃا للہ تعالیٰ علیہ نے بیان فرمایا (١٩)، پھر آپ کا پاؤں پھسلا تو آپ تیر اندازوں کی پہاڑی کے پاس واقع وادی میں پشت کے بل گرگئے، زرہ آپ کے پیٹ سے کھل گئی، جبیر بن مطعم کے غلام وحشی بن حرب نے کچھ فاصلے سے خنجر پھینکااور اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھوں آپ کو مرتبہ شہادت سے سرفراز فرمایا، یہ واقعہ ہفتے کے دن نصف شوال کو ٣ھ (٢٠) یا ٤ھ (٢١) (٦٢٤ء یا ٦٢٥ء) کو پیش آیا، اس وقت آپ کی عمر ٥٧ سال تھی۔ ایک قول کے مطابق آپ کی عمر شریف ٥٩ سال(٢٢) اور ایک دوسرے قول کے مطابق ٥٤ سال تھی۔(٢٣)

پھر مشرکین نے آپ کے اعضاء کاٹے اور پیٹ چاک کیا ، ان کی ایک عورت نے آپ کا جگر نکال کر منہ میں ڈالا اور اسے چبایا، لیکن اسے اپنے حلق سے نیچے نہ اتار سکی، ناچا ر صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے تھوک دیا۔ (٢٤)

جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو یہ اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا:

 

اگر یہ جگر اس کے پیٹ میں چلا جاتا تو وہ عورت آگ میں داخل نہ ہوتی، (٢٥) کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حمزہ کی اتنی عزت ہے کہ ان کے جسم کے کسی حصے کو آگ میں داخل نہیں فرمائے گا۔ (٢٦)

 

اللھم ادم دیم الرضوان علیہ
وامد نا بالا سرار التی اودعتھا لدیہ

جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور آپ کے مثلہ کیے ہوئے جسم کو دیکھا، تو یہ منظر آپ کے دل اقدس کے لیے اس قدر تکلیف دہ تھا کہ اس سے زیادہ تکلیف دہ منظر آپ کی نظر سے کبھی نہیں گزراتھا، اسے دیکھ کر آپ کو جلال آگیا، آپ نے فرمایا:

 

”تمھارے جیسے شخص کے ساتھ ہمیں کبھی تکلیف نہ دی جائیگی، ہم کسی ایسی جگہ کھڑے نہیں ہوئے جو ہمیں اس سے زیادہ غضب دلانے والی ہو۔”


اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ماعوقبتم بہ ولئن صبرتم لھو خیر للصابرین وما صبرک الا باللہ ولا تحزن علیھم ولا تک فی ضیق مما یمکرون ان اللہ مع الذین اتقوا والذین ھم محسنون۔ (٢٧)
ترجمہ: ”اور اگر تم سزا دو تو اتنی ہی دو جتنی تمہیں تکلیف دی گیئ اور اگر صبر کرو تو وہ صبر کرنے والوں کے لیے بہتر ہے، آپ صبر کیجئے! اور آپ کا صبر اللہ ہی کے بھروسے پر ہے، آپ ان کے بارے میں غمگین اور تنگ دل نہ ہوں ان کے فریبوں کے سبب، بے شک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو متقی ہیں اور ان کے ساتھ جو نیکوکار ہیں۔”

نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے عرض کیا : ”اے رب ! بلکہ ہم صبر کریں گے۔”

نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

 

” اے چچا! آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو، کیونکہ آپ جب تک عمل کرتے رہے، بہت نیکی کرنے والے اور بہت صلہ رحمی کرنے والے تھے۔”(٢٨)


پھر ان کے جسد مبارک کو قبلہ کی جانب رکھا اور ان کے جنازے کے سامنے کھڑے ہوئے اور اس شدت سے روئے کہ قریب تھا کہ آپ پر غشی طاری ہوجاتی۔

نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم فرمارہے تھے:

 

” اے اللہ تعالیٰ کے رسول کے چچا! ـــــــــــ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے شیر!ـــــــــــ اے حمزہ! اے نیک کام کرنے والے!ـــــــــــــ اے حمزہ! مصیبتوں کے دور کرنے والے ـــــــــــــ اے حمزہ! ــــــــــــ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا دفاع کرنے والے!” (٢٩)


یہ بھی فرمایا: ہمارے پاس جبرائیل امین علیہ السلام تشریف لائے اور ہمیں بتایا کہ حضرت حمزہ کے بارے میں ساتوں آسمانوں میں لکھا ہوا ہے:

 

” حمزہ ابن عبد المطلب، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے شیر ہیں ۔” (٣٠)


حاکم نیشاپوری، مستدرک میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعا (یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان) روایت کرتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حضرت حمزہ ابن عبد المطلب شفاعت کرنے والوں کے سردار ہیں۔ (٣١)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

افمن وعدناہ وعدا حسنا فھو لاقیہ (٣٢)۔
(کیا جس شخص سے ہم نے اچھا وعدہ کیا ہے وہ اس سے ملاقات کرنے والا ہے۔)

سدی کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت حمزہ کے بارے میں نازل ہوئی۔(٣٣)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

یاایتھا النفس المطمئنہ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ۔ (٣٤)
ترجمہ: ” اے اطمینان والی جان! تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ جا کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔”

سلفی کہتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت حمزہ ہیں۔ (٣٥)

نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ایسی چادر کا کفن پہنایا کہ جب اسے آپ کے سر پر پھیلاتے تو پاؤں ننگے ہوجاتے اور پاؤں پر پھیلاتے تو سر ننگا ہوجاتا، چنانچہ وہ چادر آپ کے سر پر پھیلادی گئی اور پاؤں پر اذخر (خوشبودار گھاس) ڈال دی گئی۔ (٣٦)

نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی نماز جنازہ نہیں پڑھی، یہی زیادہ صحیح ہے (٣٧)، یا ان کی نماز جنازہ کا نہ پڑھنا ان کی خصوصیت ہے (٣٨)۔ انہیں ایک ٹیلے پر دفن کیا، جہاں اس وقت ان کی قبر انور مشہور ہے (٣٩) اور اس پر عظیم گنبد ہے، یہ گنبد خلیفہ الناصر لدین اللہ احمد بن المستضئی العباسی کی والدہ نے ٥٩٠ ھ میں تعمیر کروایا۔

کہا جاتا ہے کہ قبر میں ان کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن جحش (٤٠) اور حضرت مصعب بن عمیر(٤١)، بعض علماء نے کہا کہ حضرت شماس بن عثمان ہیں، آپ کے مزار شریف کے سرہانے سید حسن بن محمد بن ابی نمی کے بیٹے عقیل کی قبر ہے، مسجد کے صحن میں بعض سادات امراء کی قبریں ہیں۔

 

اللھم ادم دیم الرضوان علیہ
وامدنا بالا سرار التی اود عتھا لدیہ


جب نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم غزوہ احد کے بعد مدینہ منورہ واپس تشریف لائے تو انصار کی عورتوں کو اپنے شہیدوں پر روتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا:

 

”لیکن حمزہ پر کوئی رونے والیاں نہیں ہیں (٤٢)۔”


اور آپ پر گریہ طاری ہوگیا، انصار نے اپنی عورتوں کو حکم دیا کہ اپنے شہیدوں سے پہلے حضرت حمزہ پر روئیں، ایک مدت تک انصار کی خواتین کا معمول یہ رہا کہ وہ جب بھی کسی میت والے گھر جاتیں تو پہلے حضرت حمزہ پر روتیں (٤٣)۔

حضرت کعب بن مالک انصاری اپنے قصیدے میں اظہار غم کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

 

ولقد ہددت لفقد حمزہ ھدۃ
ظلت بنات الجوف منھا ترعد
ولو انہ فجعت حراء بمثلہ
لرایت راسی صخرھا یتھدد
قرم تمکن من ذؤابہ ھاشم
حیث النبوۃ والندا والسؤدد
والعاقر الکوم الجلاد اذا غدت

ریح یکاد الماء منھا یجمد
والتارک القرن الکمی مجندلا
یوم الکریھۃ والقنا یتقصد
وتراہ یرفل فی الحدید کانہ

ذو لبدۃ شثن البراثن اربد
عم النبی محمد و صفیہ
ورد الحمام فطاب ذاک المورد
وافی المنیۃ معلما فی اسرۃ

نصروا النبی ومنھم المستشھد
اللھم ادم دیم الرضوان علیہ
وامد نا بالا سرار التی اود عتھا لدیہ (٤٤)

حضرت حمزہ کے رحلت فرما جانے سے مجھ پر ایسا صدمہ ہوا ہے کہ میرا دل اور جگر لرز اٹھے ہیں۔
ایسا صدمہ اگر جبل حرا کو پہنچایا جاتا تو دیکھتا کہ اس کی چٹانوں کے دونوں کنارے تھرا اٹھتے۔
وہ ہاشمی خاندان کے معزز سردار تھے جہاں نبوت، سخاوت اور سرداری ہے۔
وہ طاقتور جانوروں کے گلے کو ذبح کرنے والے تھے جب ٹھنڈی ہوا سے پانی جمنے کے قریب ہوتا تھا (یعنی سخت سردی کے موسم میں)
جنگ کے دن جب نیزے ٹوٹ رہے ہوں وہ بہادر مد مقابل کو کشتہ تیغ بنادیتے تھے۔
تو انہیں مسلح ہوکر فخر سے چلتا ہوا دیکھتا (تو کہتا کہ) وہ خاکستری رنگ والا، مضبوط پنجوں والا، ایال دار(شیر) ہے۔
وہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے چچا اور برگزیدہ اصحاب میں سے ہیں، انہوں نے موت کے منہ میں چھلانگ لگائی تو وہ جگہ خوشگوار ہوگئی۔
انہوں نے اس حال میں موت سے ملاقات کی کہ ان پر(شتر مرغ کے پر کا) نشان لگا ہوا تھا، وہ مجاہدین کی ایسی جماعت میں تھے جس نے نبی اکرم اکی امداد کی اور ان میں سے کچھ لوگ مرتبہ شہادت پر فائز ہوگئے۔

 

اللھم ادم الدیم الرضوان علیہ
وایدنا بالاسرار التی اودعتھا لدیہ

ان کے علاوہ جن حضرات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس دن شہادت سے نوازے گئے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے اعمال صالحہ کی اچھی خبر اور زیادہ اجر دیا گیا، ان کے ناموں کی فہرست حسب ذیل ہے۔ (٤٥)

 

اے اللہ! اس روشن انوار والی بارگاہ کے صاحب (حضرت حمزہ) کے طفیل ہماری دعا ہے کہ ہم سب کو آتش جہنم کے شعلوں سے رہائی عطا فرما، کدورتیں دور فرما، ہلاکتوں سے محفوظ فرما، بکثرت بارشیں عطا فرما، اشیاء ضرورت سستی فرما، اطراف و جوانب کو امن عطا فرما، قریب و بعید اور پڑوسیوں پر رحم فرما، ارباب حکومت اور رعایا کی اصلاح فرما، اسلامی لشکروں اپنی نصرت سے تقویت عطا فرما، اپنے دشمن کافروں میں اپنے قہر کا حکم نافذ فرما اور انہیں مسلمانوں کے لیے مال غنیمت بنا۔

اے اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے شیر! ہم آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ہیں، ہم امید رکھتے ہیں کہ ہم میں سے ہر شخص کی درخواست قبول کی جائیگی، ہم نے اپنی امیدوں کی کجاوے آپ کی بارگاہ میں اتارے ہیں، آپ کے دربار کرم میں حاضر ہیں، آپ کی شان یہ نہیں ہے کہ آپ ہمیں نظر انداز کر دیں، ہم نے آپ کی جود و سخا کے بھر پور برسنے والے بادلوں سے بارش طلب کی ہے۔

 

یارب قد لذنا بعم نبینا
رب المظاھر قدست اسرارہ
فا قل عثار من استجار بعمہ
او زارہ لتکفرن اوزارہ
والطف بنا فی المعضلات فاننا
بجوار من لا شک یکرم جارہ
واختم لنا باالصالحات اذ دنا
منا الحمام وانشب اظفارہ
ثم الصلاۃ علی سلالۃ ھاشم
من طاب محتدہ و طاب نجارہ
والآل والصحب الکرام اولی التقی
صید الانام ومن ھم انصارہ
ما انشدت طرباً مطوقۃ الشظی
او ناح بالالحان فیہ ھزارہ

 

اے رب کائنات! ہم نے مظہر نعمت و قدرت اپنے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے چچا کی پناہ لی ہے، انکے اسرار کو تقدس عطا کیا جائے۔
اس شخص کی لغزشوں کو معاف فرما جس نے نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے محترم چچا کی پناہ لی ہے یا گناہوں کی مغفرت کے لیے انکی زیارت کی ہے۔
مشکلات میں ہم پر مہربانی فرما، کیونکہ ہم اس ہستی کے جوار میں ہیں جو بلا شک و شبہ اپنے پڑوسیوں کی عزت افزائی کرتی ہے۔
جب موت ہم سے قریب ہو اور اپنے پنجے گاڑ دے تو اعمال صالحہ پر ہمارا خاتمہ فرمانا پھر صلوۃ و سلام ہو بنو ھاشم کے خلاصہ پر جنکا حسب و نسب تیب و طاہر ہے۔
اور مخلوق کے سرداروں اور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم مددگاروں، اور تقویٰ شعار آل پاک اور صحابہ کرام پر صلوٰۃ وسلام ہو۔
جب تک کسھی دار کبوتر مسرت بھرے لہجے میں چہچہاتے رہیں یا بلبل ہزاز داستان دلکش آوازوں کے ساتھ نغمہ سرا رہے۔


سُبْحَانَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوْنَ۔وَسَلَامٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ۔ وَالحَمدُ لِلَّہِ رَبِّ العَالِمِین

____________________________________

مآخذ ومراجع

١۔ فواد عبد الباقی: المعجم المفھرس لالفاظ القرآن الکریم
٢۔ عبد البر: الاستیعاب
٣۔ ابن الاثیر: اسد الغابۃ
٤۔ ابن سعد: الطبقات الکبری
٥۔ حاکم : المستدرک
٦۔ برھان الدین حلبی: السیرۃ الحلبیۃ (انسان العیون)
٧۔ القسطلانی: المواھب اللدنیہ
٨۔ ابن کثیر: البدایۃ والنھایۃ
٩۔ ابن الجوزی: المنتظم
١٠۔ المقریزی: امتاع الاسماع
١١۔ ابن حجر العسقلانی: الاصابہ
١٢۔ قرطبی: التذکرہ
١٣۔ابن القیم: الروح
١٤۔ابن ہشام: السیرۃ النبویۃ
١٥۔السیوطی: انباء الاذکیاء بحیاۃ الانبیائ
١٦۔ السیوطی: الحاوی للفتاوی
١٧۔ واقدی: المغازی
١٨۔ السیوطی: الخصائص الکبری
١٩۔ ابن رجب الحنبلی: اھوال القبور
٢٠۔ ابن عبد البر: التمھید
٢١۔ ابن عبد البر: البیان والتحصیل
٢٢۔ ابن النجار:الدرۃ الثمنیہ فی تاریخ المدینہ
٢٣۔ابی برکات النسفی: تفسیر النسفی
٢٤۔ابن شبہ: تاریخ المدینہ المنورہ
٢٥۔ الرازی: التفسیر الکبیر
٢٦۔ الاصبھانی: الترغیب والترھیب
٢٧۔ النووی: تہذیب الاسماء واللغات
٢٨۔ الطبری: جامع البیان فی تاویل القرآن
٢٩۔ البیھقی: حیاۃ الانبیائ
٣٠۔البیھقی : دلائل النبوۃ
٣١۔ الطبری: ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی
٣٢۔ الذھبی: ذیل تذکرۃ الحفاظ
٣٣۔ الکردی: رفع الخفا شرح ذات الشفائ
٣٤۔ ذھبی: سیر اعلام النبلائ
٣٥۔ صالحی: سبل الھدی والرشاد
٣٦۔ السجستانی: سنن ابی داود
٣٧۔ القزوینی: سنن ابی ماجہ
٣٨۔ السیوطی: شرح الصدور بشرح حال الموتی والقبور
٣٩۔ ابن العماد الحنبلی:شذرات الذھب فی اخبار من ذھب
٤٠۔ ابن الجوزی: صفۃ الصفوۃ
٤١۔ ابن سید الناس: عیون الاثر
٤٢۔ ابن حجر العسقلانی: فتح الباری بشرح صحیح البخاری
٤٣۔ تقی الدین السبکی: فتاوی السبکی
٤٤۔ السمھودی: وفاء الوفاء باخبار دار المصطفیٰ
٤٥۔ الشیبانی: مسند امام احمد

منقبتِ سید الشہداء حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ

 

آپ ہیں دین کے نگہبان جناب حمزہ رضی اللہ عنہ
ہے اٹل اپنا یہ ایقان جنابِ حمزہ رضی اللہ عنہ

ناز کرتی ہے تواریخ شجاعت پہ ُہنوز
قابل رشک ہے یہ شانِ جنابِ حمزہ رضی اللہ عنہ

جس جگہ نوش کیا جام شہادت بے خوف
ہے شفق زار وہ میدان جنابِ حمزہ رضی اللہ عنہ

انتہا ہے یہ محمدؐ سے وفاداری کی
کر گئے جان بھی قربان جنابِ حمزہ رضی اللہ عنہ

دل میں قندیل عقیدت ہی رہیگی روشن
ہے جسے آپ کا عرفان جنابِ حمزہ رضی اللہ عنہ

بن گئی شمع رسالت کے لئے اک فانوس
جب اُٹھا کُفر کا طوفان جنابِ حمزہ رضی اللہ عنہ

خواب ہی میں کبھی دیدار میّسر ہو مجھے
ہے میرے دل کا یہ ارمان جنابِ حمزہ رضی اللہ عنہ

ماری اس زور سے بو جہل کے چہرے پہ کمان
قوت کفر تھی حیران جنابِ حمزہ رضی اللہ عنہ

بزم ہستی میں ہمیشہ ہی رہے گا چرچا
ہے یہ الطاف کا ایمان جناب حمزہ رضی اللہ عنہ


تحریر: حضرت سید جعفر بن حسن عبد الکریم برزنجی
مترجم: استاز العلماء مفتی عبد الحکیم شرف قادری

خلیفۃ المسلمین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات سے کون ناواقف ہے آپ نے اپنی حکومت میں بے شمار کارنامے انجام دے کر تاریخ میں ایک باب رَقم کیا آج کل کے دور میں جس طرح امریکہ نام نہاد سُپر پاور ہے اس دور میں قیصرو قصری سُپرپاور ہوا کرتی تھی قیصرو قصریٰ بھی آپ کے نام سے کانپتے تھے جِدھر آپ کی نگاہِ مبارک اُٹھ جائے وہ ملک فتح و نُصرت پاتا تھا۔ ہر طرف آپ کی عظمت کا جھنڈا لہرا رہا تھا ہر وہ طاقت جو اسلام اور مسلمانو ں کے خلاف اُٹھتی آپ نے اُسے نیست و نابود کردیا۔

ایک مرتبہ آپ نے ایک وفد بیت المقدّس بھیجا وہ وَفد کوئی عام آدمیوں کا نہیں بلکہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کا وَفد تھا یہ وَفد بیت المقدّس پہنچا یہ اُس دور کی بات ہے جب بیت المقدّس پر پادریوں کا قبضہ تھا حضرت عمر بیت المقدّس کو پادریوں کے چُنگل سے آزاد کرانا چاہتے تھے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے پادریوں سے کہا کہ ہم امیر المومنین حضرت عمر فاروق کی جانب سے یہ پیغام لائے ہیں کہ تم لوگ جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ۔ یہ سُن کر پادریوں نے کہا ہم لوگ صرف تمہارے امیر المومنین کو دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ جو نشانیاں ہم نے فاتح بیت المقدّس کی اپنی کتابوں میں پڑھی ہیں وہ نشانیاں ہم تمہارے امیر میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ نشانیاں تمہارے امیر میں موجود ہوئیں تو ہم بغیر جنگ و جدل کے بیت المقدّس تمہارے حوالے کردیں گے یہ سُن کر مسلمانوں کا یہ وَفد حضرت عمر فاروق کی خدمت میں حاضر ہوااور سارا ماجرا آپ کو سُنایا۔

امیر المومنین حضرت عمر فاروق نے اپنا ستر پیوند سے لبریز جُبّہَ پہنا، عمامہ شریف پہنا اور جانے کے لئے تیار ہوگئے سارے صحابہ کرام علیہم الرضوان ، حضرت عمر سے عرض کرنے لگے حضور! وہاں بڑے بڑے لوگ ہوں گے، بڑے بڑے پادری ہوں گے آپ رضی اللہ تعالی عنہ اچھا اور نیا لباس پہن لیں۔ ہمارے بیت المال میں کوئی کمی نہیں۔

انسانی فطرت کا بھی یہی تقاضہ ہے کہ جب بندہ کوئی بڑی جگہ جاتا ہے تو وہ اچھا لباس پہنتا ہے تاکہ اُس کا وقار بلند ہو۔ مگر اﷲ اکبر! صحابہ کرام علیہم الرضوان کی یہ بات سُن کر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو جلال آگیا اور فرمانے لگے کہ کیا تم لوگ یہ سمجھے کہ عمر کو عزت حکومت کی وجہ سے ملی ہے یا اچھے لباس کی وجہ سے ملی ہے؟ نہیں عمر کو عزت حضور کی غلامی کی وجہ سے ملی ہے آپ فوراً سواری تیار کر کے روانہ ہوگئے جیسے ہی آپ رضی اللہ تعالی عنہ بیت المقدّس پہنچے تو حضرت عمر فارقِ اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا حُلیہ مبارک دیکھ کر ، سرکار اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام کو دیکھ کر پادریوں کی چیخیں نکل گئیں اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے قدموں میں گِر پڑے اور ساری بیت المقدّس کی چابیاں حضرت عمر کے حوالے کردیں اور کہنے لگے کہ ہمیں آپ سے جنگ نہیں کرنی کیونکہ ہم نے جو حُلیہ فاتح بیت المقدس کا کتاب میں پڑھا ہے یہ وہی حُلیہ ہے اس طرح بغیر جنگ کے بیت المقدّس آزاد ہوگیا۔

اُن کے جو غلام ہوگئے
وقت کے امام ہوگئے
نام لیوا اُن کے جو ہوئے
اُن کے اُونچے نام ہوگئے

دریائے مصر غلامِ مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے اشاروں پر

درِ مصطفی کے غلام امیر المومنین سیّدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے دورِ خلافت میں مصر کا دریائے نیل خشک ہوگیا۔ مصری رعایا مصر کے گورنر صحابی رسول حضرت عمر بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں فریاد لے کر حاضر ہوئی اور عرض کی کہ اے امیر! ہمارا یہ دستور تھا کہ جب دریائے نیل خشک ہوجاتا تھا تو ہم لوگ ایک خوبصورت کنواری لڑکی کو دریا میں زندہ درگور کرکے دریا کی بھینٹ چڑھایا کرتے تھے اس کے بعد دریا پھر جاری ہوا کرتا تھا اب ہم کیا کریں؟

گورنر نے فرمایا کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ اور اسکے رحمت والے رسول کا رحمت بھرا دینِ اسلام ہرگز ہرگز ایسے ظالمانہ اور جاہلانہ فعل کی اجازت نہیں دیتا تم لوگ انتظار کرو میں امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو خط لکھتا ہوں وہاں سے جو حکم ملے گا اس پر عمل کیا جائے گا۔

چنانچہ گورنر کاقاصد مدینہ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم آیا اور دریائے نیل خشک ہونے کا حال سُنایا۔ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ یہ خبر سُن کر نہ گھبرائے نہ پریشان ہوئے۔ حضرت عمر قاصد کو یہ کہہ کر بھی روانہ کرسکتے تھے کہ تم لوگ قرآن مجید کی تلاوت کرو، نوافل پڑھو اور اﷲ تعالیٰ سے دُعا کرو کہ اﷲ تعالیٰ دریائے نیل کو دوبارہ جاری فرمادے میں تو تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں میرے پاس کیوں آئے ہو بس دُعا کرو عبادت کرو اﷲ تعالیٰ تمہارے حال پر رحم فرما کر دریائے نیل دوبارہ جاری فرمادیگا۔ حضرت عمر نے قاصد سے یہ نہ کہا بلکہ نہایت ہی سکون اور اطمینان کے ساتھ ایک ایسا تاریخی خط لکھا جیسے کوئی انسان دوسرے انسان کو خط لکھ کر اُس سے مُخاطب ہوتا ہے ایسا تاریخی خط دریائے نیل کے نام لکھا جو تاریخ ِ عالم میں بے مثل و بے مثال ہے ۔

الیٰ نیل مصر من عبداﷲ عمر بن الخطاب: ام بعد فان کنت تجری بنفسک فلا حاجۃ لنا الیک وان کنت تجری باﷲ فانجر علی اسم اﷲ۔
اے دریائے نیل ! اگر تو خود بخود جاری ہوا کرتا تھا تو ہم کو تیری کوئی ضرورت نہیں ہے اور اگر تو اﷲ تعالیٰ کے حکم سے جاری ہوتا تھا (تو میں امیرالمومنین ہو کر تجھ کو حکم دیتا ہوں) کہ تو پھر اﷲ تعالیٰ کے نام پر جاری ہوجا۔ (بحوالہ ، کتاب: ازالۃ الخفاء جلد دوئم صفحہ نمبر 166)

امیر المومنین حضرت عمر فاروق نے اس خط کو لفا فے میں بند کرکے قاصد کو دیا اور فرمایااس کو دریائے نیل میں ڈال دیا جائے چنانچہ جوں ہی آپ کا خط دریائے نیل میں ڈالا گیا تو دریا فوراً جاری ہوگیا اور ایسا جاری ہوا کہ آج تک خشک نہیں ہوا۔

چاہیں تو اشاروں سے اپنی کا یا ہی پلٹ دیں دنیا کی
یہ شان ہے ان کے غلاموں کی سردار کا عالم کیا ہوگا

اﷲ اکبر! یہ دریا کب سے خط پڑھنا سیکھ گیا جو حضرت عمر کے خط کو پاتے ہی آپ کے حکم کو پاتے ہی جاری ہوگیا میر ی سمجھ میں بات یہی آتی ہے کہ حضرت عمر اپنے آقا کے ایسے سچّے غلام تھے کہ آپ کا حکم دریاؤں پر بھی چلتا تھا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی زمین پر حکمرانی

حضرت علامہ عبدالوہاب شعرانی علیہ الرحمہ اپنی کتاب طبقات الشافعیہ میں نقل فرماتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے دور میں مدینے شریف میں ایک شدید زلزلہ آیا اور زمین ہلنے لگی۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروق کچھ دیر خدا تعالیٰ جل جلا لہ’ کی حمد و ثناء کرتے رہے مگر زلزلہ ختم نہ ہوا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ یہ کہہ سکتے تھے کہ اے مدینے والو! آیتِ کریمہ پڑھو ، سورہ یٰس پڑھو ، توبہ و استغفار کرو کیونکہ زلزلہ گناہوں کی وجہ سے آتا ہے ۔ یہ اﷲ تعالیٰ کا عذاب ہے آپ رضی اﷲ عنہ نے یہ نہ کہا۔

اﷲ اکبر! غلامِ مصطفی ہو تو ایسا ہو زمین پر حکمرانی ہو تو ایسی ہو آپ رضی اللہ تعالی عنہ جلال میں آگئے اور آپ نے اپنا دُرّہ زمین پر مار کر فرمایا

اقدّی الم اعدل علیک قلتقرت من وقتھا
اے زمین ساکن ہو جا کیا میں نے تیرے اُوپرانصاف نہیں کیا ہے؟


یہ فرماتے ہی فوراً زلزلہ ختم ہوگیا اور زمین ٹھہر گئی۔ (بحوالہ کتاب:ازالۃ الخلفاء ، صفحہ نمبر ١٧٢ ، جلد دوئم)

علماء فرماتے ہیں کہ اس وقت کے بعد سے پھر کبھی مدینے شریف کی زمین پر زلزلہ نہیں آیا۔

سورج پر غلامِ مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا حکم


ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کپڑا سی رہے تھے سورج نے گرمی دکھائی تو حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے سورج کو فرمایا

محمد کے غلاموں سے تیزی؟


تو سورج نے گرمی سمیٹ لی۔ (بحوالہ کتاب:بحر العلوم شرح مثنوی ١٢)

یہ زمین اور سورج کو کس نے بتادیا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اﷲ تعالیٰ کے محبوب کے غلام ہیں یہ تمہیں اشارہ کریں تو رُک جانا ۔ وجہ یہی ہے کہ جب بندہ محبوبِ کبریا کا سچّا غلام بن جائے تو اﷲ تعالیٰ کائنات کی ہر چیز کو اس کا فرمانبردار بنا دیتا ہے۔

Menu