1. Home
  2. chevron_right
  3. Articles Urdu

 

سوال: یہ جو بیان کیا جاتا ہے کہ پندرہ شعبان کی رات بیری کے پتے پانی میں ڈال کر جوش دے کر اس پانی سے غسل کرے گا تو سارا سال جادو سے محفوظ رہے گا۔ اس بات کا کوئی حوالہ مل سکتا ہے؟ یہ کوئی حدیث پاک ہے یا کسی بزرگ کا قول ہے؟

جواب: اس عمل میں چار چیزیں ہیں؛ (١) بیری سے جادو کا علاج (٢) سات پتے بیری کے پانی میں جوش دے کر غسل کرنا (٣) اس چاروں قل اور آیت الکرسی پڑھنا (٤) شعبان کی پندرہویں شب یہ عمل کرنا، یہ امور انفرادی اور مجموعی طور پر ثابت ہیں۔

اولا: بیری سے جادو کا علاج کرنا۔
اس کے متعلق حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا کی روایت موجود ہے۔ امام اللالكائى علیہ الرحمہ (المتوفى ٤١٨) ذکر فرماتے ہیں: أنا محمد بن عثمان، قال: نا سعيد بن محمد الحناط، قال: نا إسحاق بن أبي إسرائيل، قال: سمعت سفيان يذكر عن سليمان بن أمية شيخ من ثقيف من ولد عروة بن مسعود دخل على عائشة سمع أمه وجدته، سمع امرأة تسأل عائشة: هَلْ عَلَيَّ جُنَاحٌ أَنْ أَزُمَّ جَمَلِي؟ قَالَتْ: لَا، قَالَتْ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّهَا تَعْنِي زَوْجَهَا، قَالَتْ: رُدُّوهَا عَلَيَّ، فَقَالَتْ: مُلْحَةٌ مُلْحَةٌ فِي النَّارِ، اغْسِلُوا عَلَى أَثَرِهَا بِالْمَاءِ وَالسِّدْرِ.
(شرح اصول اعتقاد اهل السنة والجماعة ٢/١٩٧ دار الكتب العلميه)

ثانیاً: سات پتے بیری کے لے کر پانی میں جوش دے کر اس سے غسل کرنا۔
اس کے متعلق حضرت وہب منبہ علیہ الرحمہ کا قول موجود ہے۔
علامہ ابن بطال (المتوفى ٤٤٩) علامہ قرطبی (المتوفى ٦٧١) علامہ عینی (المتوفى ٨٥٥) حافظ ابن حجر العسقلاني (المتوفى ٨٥٢) علیہم الرحمہ نے اپنی اپنی شرح بخاری میں ذکر کیا ہے؛ أن في كتب وهب بن منبه أن يأخذ سبع ورقات من سدر أخضر، فيدقه بين حجرين، ثم يضربه بالماء، ويقرأ آية الكرسي والقواقل، ثم يحسو منه ثلاث حسيات، *ثم يغتسل به ، فإنه يذهب عنه كل ما به۔
(شرح ابن بطال ٩٤٤٦، عمدة القاري ٢١/٤٢٢، فتح الباري ١٣/٢١٨، تفسير القرطبى١/٣٥ سورة البقرة ايت ١٠٢)

علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ (المتوفى ١٢٥٢ ) نے اس کو جادو کا علاج تجویز فرمایا ہے: “ﻣﻄﻠﺐ ﻟﻔﻚ اﻟﻤﺴﺤﻮﺭ ﻭاﻟﻤﺮﺑﻮﻁ” ﻧﻘﻞ ﻃ ﻋﻦ ﺗﺒﻴﻴﻦ اﻟﻤﺤﺎﺭﻡ ﻋﻦ ﻛﺘﺎﺏ ﻭﻫﺐ ﺑﻦ ﻣﻨﺒﻪ ﺃﻧﻪ ﻣﻤﺎ ﻳﻨﻔﻊ ﻟﻠﻤﺴﺤﻮﺭ ﻭاﻟﻤﺮﺑﻮﻁ ﺃﻥ ﻳﺆﺗﻰ ﺑﺴﺒﻊ ﻭﺭﻗﺎﺕ ﺳﺪﺭ ﺧﻀﺮ ﻭ ﺗﺪﻕ ﺑﻴﻦ ﺣﺠﺮﻳﻦ ﺛﻢ ﺗﻤﺰﺝ ﺑﻤﺎء ﻭ ﻳﺤﺴﻮ ﻣﻨﻪ ﻭ ﻳﻐﺘﺴﻞ ﺑﺎﻟﺒﺎﻗﻲ ﻓﺈﻧﻪ ﻳﺰﻭﻝ ﺑﺈﺫﻥ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ. (رد المحتار ٥/١٦٩ دار الكتب العلمية بيروت)

ثالثاً: اس پر معوذتین اور آیت الکرسی وغیرہ پڑھنے کا ثبوت بھی حضرت وھب منہ رحمہ اللہ سے ہے۔ ويقرأ آية الكرسي والقواقل،
(حوالہ مذکور)

رابعاً: خاص پندرہویں شعبان کو اس عمل کا ثبوت بزرگانِ دین سے ہیں؛ سیدی امام اہل سنت اور سرکار مفتی اعظم ہند علیہما الرحمہ کا اس پر عمل رہا ہے۔
(مجموعہ اعمال رضا جلد دوم ص 113 مرتب علامہ مفتی قاضی عبد الرحیم بستوی صاحب سابق مفتی دار الافتاء منظر الاسلام بریلی شریف، ناشر جسیم بک ڈپو جامع مسجد دہلی)

مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ نے بھی ذکر کیا ہے۔
(اسلامی زندگی، ص صفحہ 108 نعیمی کتب خانہ گجرات)

علامہ سہیل احمد رضوی نعیمی بھاگلپوری رحمۃ اللّٰه علیہ، (سابق مدرس: دارالعلوم امجدیہ ناگپور) نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ لیکن اس میں جادو سے حفاظت کا ذکر نہیں ہے۔
(منیر الایمان فی فضائل شعبان، تحقیق علامہ طفیل احمد مصباحی صاحب،صفحہ 93, شائع کردہ؛ جامعہ اہل سنت حضرت ٹیپو سلطان شہید، سلطانی جامع مسجد کرناٹک ہند )

خلاصۂ کلام یہ کہ پندرہویں شعبان کی رات سات بیری کے پتوں سے غسل کرنا اور اس کے ذریعے جادو کے اثر سے محفوظ ہونا، کسی حدیث سے ثابت نہیں۔ زیادہ سے زیادہ اس کا تعلق بزرگانِ دین کے مجربات سے ہوسکتا ہے؛ البتہ بعض امور انفرادی طور ثابت ہیں جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے بیری سے جادو کا اثر زائل ہونا، سات بیری کے پتے کا مکسچر بنا کر پانی میں مکس کرنا، حضرت وھب بن منبہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے، گویا وہ اپنی تحقیق میں اس کو حضرت وھب بن منبہ رضی ﷲ عنہ سے ثابت مانتے ہیں، لیکن ان دونوں نے نہ پندرہ شعبان کا ذکر ہے اور نہ جادو کا۔ البتہ متاخرین اکابرین و بزرگانِ دین نے جادو اور پندرہویں شعبان کا ذکر کیا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ مجربات کے متعلق اکابرین کا عمل مختلف ہوسکتا ہے، یہ امور خاص پندرہویں شب جادو سے حفاظت کے لئے مجموعی طور پر ثابت نہیں لیکن انفرادی طور ان سب کی اصل ثابت ہے ۔

نوٹ: شب برات میں غسل کرنا مستحب ہے۔ نور الايضاح، فصل فيمن يندب له الاغتسال میں ہے: ويندب الاغتسال في ستة عشر شيئا۔۔۔۔۔۔۔وفي ليلة براءة۔

واللہ اعلم بالصواب

ابو الحسن محمد شعیب خان

 

نحمدہ ونصلی ونسلم علی رسولہ الکریم

(Sexual Harasement)

آج کل ہر طرف جنسی زیادتی کی خبریں عام ہیں، اور یہ ایک سنجیدہ مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ آئیے اس کے پیچھے موجود چندوجوہات کو سمجھتے ہیں

وجوہات

جب انسان کسی بے حیائی کی چیز کو دیکھتا ہے، تو اس کے جسم میں مختلف ہارمونز خارج ہوتے ہیں، جو نفسیاتی اور جسمانی ردعمل کو متاثر کرتے ہیں

:(Dopamine)

ڈوپامین یہ ہارمون خوشی اور لذت کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ جب کوئی شخص جنسی مواد دیکھتا ہے، تو اس کی مقدار بڑھ جاتی ہے، جس سے انسان کو خوشی ملتی ہے اور وہ مزید بے حیائی کی طرف راغب ہوتا ہے۔

:(Testosterone)

ٹیسٹوسٹیرون  یہ ہارمون مردوں میں جنسی خواہش کو بڑھاتا ہے اور بے حیائی کے لیے تحریک فراہم کرتا ہے۔ اس کی زیادہ مقدار انسان کو غیر موزوں رویوں کی طرف مائل کر سکتی ہے۔

:(Endorphins)

اینڈورفنز یہ کیمیکل جسم میں خوشی کی کیفیت پیدا کرتے ہیں اور درد کو کم کرتے ہیں، جس کی وجہ سے لوگ منفی تجربات سے دور رہنا چاہتے ہیں۔

:(Oxytocin)

اوکسیٹوسن اسے “محبت کا ہارمون” کہا جاتا ہے، جو قربت اور تعلقات کو فروغ دیتا ہے۔ بے حیائی کے حالات میں یہ بھی اپنی تاثیر دکھا سکتا ہے۔

یہ تمام ہارمونز مل کر انسان کو جنسی خواہشات کی جانب مائل کرتے ہیں، اور جب اس کی عادت بن جاتی ہے، تو یہ خطرناک نتائج پیدا کرتی ہیں، جیسے کہ جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ۔

(Kirkpatrick, K. (2012). “Hormonal Influences on Sexual Behavior.” Neuroscience & Biobehavioral Reviews, 36(1), 140-154. DOI:10.1016/ j.neubiorev.2011.04.004.)

سوشل میڈیا پر تصاویر اور ویڈیوز، ٹی وی کے ڈرامے اور فلمیں، مغربی فیشن اور لباس بے حیائی کا ایک بڑا ذریعہ ہے، جو لوگوں میں ہارمونل تبدیلیاں پیدا کرتی ہیں۔

اب جان لو کہ بے حیائی کا آغاز ہمارے گھر ہمارے لباس سے ہوتا ہے, ہم ہر چیز میں مغربی تہذیب کی  پیروی کر رہے ہیں ہمارے بچے اور بچیاں مغرب تہذیب کی طرح چھوٹے اور چست کپڑے پہنتے ہیں، پردہ کا کوئی اہتمام نہیں، ہم نے اسلامی تہذیب کو چھوڑ کر مغربی تہذیب کو ترجیح دی، تو آؤ دیکھیں جس مغربی تہذیب کی ہم پیروی کرتے ہیں انکا اس معاملہ میں کیا حال ہے۔

ریاستہائے متحدہ: تقریباً 5 میں سے 1 عورت اور 71 میں سے 1 مرد اپنی زندگی میں جنسی حملے کا شکار ہو چکے ہیں۔

برطانیہ: 4 میں سے 1 عورت اور 6 میں سے 1 مرد نے جنسی تشدد کا سامنا کیا ہے۔

کینیڈا: 3 میں سے 1 عورت اور 6 میں سے 1 مرد 15 سال کی عمر کے بعد جنسی حملے کا تجربہ کرتے ہیں۔

(Tjaden, P., & Thoennes, N. (2000). “Full Report of the Prevalence, Incidence, and Consequences of Violence Against Women.” National Institute of Justice.)

جب جان لیا کہ بڑھتی زیادتی کی وجہ بے حیائی ہے

 تو آو سنو!! سورۃ النور آیت نمبر 30 اور 31 میں رب تعالی کا فرمان۔۔

“مسلمان مردوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے، بیشک اللہ ان کے کاموں سے خبردار ہے۔”

(سورۃ النور، آیت نمبر 30)

“اور مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنی زینت نہ دکھائیں مگر جتنا (بدن کاحصہ) خود ہی ظاہر ہے اور وہ اپنے دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ یا شوہروں کے باپ یا اپنے بیٹوں یا شوہروں کے بیٹے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں یا اپنی (مسلمان) عورتوں یا اپنی کنیزوں پر جو ان کی ملکیت ہوں یامردوں میں سے وہ نوکر جو شہوت والے نہ ہوں یا وہ بچے جنہیں عورتوں کی شرم کی چیزوں کی خبر نہیں اور زمین پر اپنے پاؤں اس لئے زور سے نہ ماریں کہ ان کی اس زینت کا پتہ چل جائے جو انہوں نے چھپائی ہوئی ہے اور اے مسلمانو! تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔”

(سورۃ النور، آیت نمبر 31)

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

الْحَيَاءُ لَا يَأْتِي إِلَّا بِخَيْرٍ

حیا سے ہمیشہ بھلائی پیدا ہوتی ہے ۔

(صحیح بخاری، حدیث نمبر 6117)

حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔

أَرْبَعٌ مِنْ سُنَنِ الْمُرْسَلِينَ:‏‏‏‏ الْحَيَاءُ، ‏‏‏‏‏‏وَالتَّعَطُّرُ، ‏‏‏‏‏‏وَالسِّوَاكُ، ‏‏‏‏‏‏وَالنِّكَاحُ

چار باتیں انبیاء و رسل کی سنت میں سے ہیں: حیا کرنا، عطر لگانا، مسواک کرنا اور نکاح کرنا

(سنن ترمذی، حدیث نمبر 1080)

اسی طرح قرآن مجید اور احادیث مبارکہ ہمیں حیا کا درس دیتی ہے مرد عورت دونوں کے لئے حیا کے اسباق موجود ہیں۔ حیا ایمان کا حصہ ہے، حیا اور ایمان کا ایک دوسرے کے ساتھ بہت گہراتعلق ہے۔

بڑھتی زیادتی کے واقعات کو اگر حقیقی معانی میں روکنا چاہتے ہو تو قرآن وسنت کی تعلیم حاصل کرو، باحیا، باوقار کردار اپناؤ۔  تو کوئی ضرورت نہیں عورت مارچ، یا کسی اور لیبرل فیمنیسٹ (feminist) تحریک کی۔ اور نہ ہی کسی کے اصول و ضوابط کی ضرورت  کیونکہ ان سے مزید بگاڑ پیدا ھوگا ناکہ سدھار۔

اللہ تبارک تعالی سے دعا ہمیں قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرما، ہمیں باحیا، باوقار مسلمان بنا، اور تمام مسلمان مرد عورتوں کی عزتوں کی حفاظت فرما۔

آمین وما علینا الا البلاغ المبین

محمد فرقان قادری

متعلم حبیبیہ اسلامک اکیڈمی

حضور غوث اعظم رضي الله عنه سے پہلی رجب المرجب کی رات کو پڑھی جانے والی مبارک دعا۔

إلهي تعرض لك في هذا الليل المتعرضون وقصدك فيها القاصدون وأمل فضلك ومعروفك الطالبون، ولك في هذا الليل نفحات وجوائز وعطايا ومواهب تمن بها على من تشاء من عبادك وتمنعها من لم تسبق له العناية منك، وها أنا ذا عبيدك الفقير إليك المؤمل فضلك ومعروفك، فإن كنت يا مولاي تفضلت في هذه الليلة على أحد من خلقك وعدت عليه بعائدة من عطفك، فصل على محمد وآل محمد الطيبين الطاهرين الخيرين الفاضلين وجد علي بطولك ومعروفك يا رب العالمين! وصلى الله على محمد خاتم النبيين وآله الطاهرين وسلم تسليما إن الله حميد مجيد، اللهم! إني أدعوك كما أمرت فاستجب لي كما وعدت إنك لا تخلف الميعاد۔
غنية للشيخ عبد القادر قدس الله سره الكريم

ایک ہی حدیث شریف میں 45 دعائیں جمع ہیں
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَ الْمَسْأَلَةِ،وَخَيْرَ الدُّعَاءِ، وَخَيْرَ النَّجَاحِ، وَخَيْرَ الْعَمَلِ،وَخَيْرَ الثَّوَابِ،وَخَيْرَ الْحَيَاةِ، وَخَيْرَ الْمَمَاتِ، وَثَبِّتْنِي، وَثَقِّل مَوَازِينِي، وَحَقِّقْ إِيمَانِي، وَارْفَعْ دَرَجَاتِي، وَتَقَبَّلْ صَلاَتِي، وَاغْفِرْ خَطِيئَتِي، وَأَسْأَلُكَ الدَّرَجَاتِ العُلاَ مِنَ الْجَنَّةِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فَوَاتِحَ الْخَيْرِ، وَخَوَاتِمَهُ، وَجَوَامِعَهُ، وَأَوَّلَهُ، وَظَاهِرَهُ، وَبَاطِنَهُ، وَالدَّرَجَاتِ الْعُلَا مِنَ الْجَنَّةِ آمِينْ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَ مَا آتِي، وَخَيْرَ مَا أَفْعَلُ، وَخَيْرَ مَا أَعْمَلُ، وَخَيْرَ مَا بَطَنَ، وَخَيْرَ مَا ظَهَرَ، وَالدَّرَجَاتِ العُلَا مِنَ الْجَنَّةِ آمِينْ، اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُكَ أنْ تَرْفَعَ ذِكْرِي، وَتَضَعَ وِزْرِي، وَتُصْلِحَ أمْرِي، وَتُطَهِّرَ قَلْبِي، وَتُحَصِّنَ فَرْجِي، وَتُنَوِّرَ قَلْبِي، وَتَغْفِرَ لِي ذَنْبِي، وَأَسْأَلُكَ الدَّرَجَاتِ الْعُلَا مِنَ الْجَنَّةِ آمِينْ، اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُكَ أنْ تُبَارِكَ فِي نَفْسِي، وَفِي سَمْعِي، وَفِي بَصَرِي، وَفِي رُوحِي، وَفِي خَلْقِي، وَفِي خُلُقِي، وَفِي أَهْلِي، وَفِي مَحْيَايَ، وَفِي مَمَاتِي، وَفِي عَمَلِي، فَتَقَبَّلْ حَسَنَاتِي، وَأَسْأَلُكَ الدَّرَجَاتِ العُلَا مِنَ الْجَنَّةِ، آمِينْ
آمين يا رب العلمين
(بحوالہ) أخرجه الحاكم عن أم سلمة مرفوعاً ، 1/ 520، وصححه ووافقه الذهبي، 1/520، والبيهقي في الدعوات، برقم 225، والطبراني في الكبير، 23/ 326، برقم 717، والأوسط، 6/ 213، برقم 6218، وقال الهيثمي في مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: ((رواه الطبراني في الكبير ورواه في الأوسط باختصار بأسانيد، وأحد إسنادي الكبير، والسياق له، ورجال الأوسط ثقات))، مجمع الزوائد، 10/ 280.
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُراٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَان ج فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ ط وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلـٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَط یُرِیْدُاللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَوَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ ز وَ لِتُکْمِلُواالْعِدَّۃَوَلِتُکَبِّرُوااللّٰہَ عَلـٰی مَا ھَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (پارہ٢، سورۃ البقرہ ، آیت ١٨٥)
رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لئے ہدایت اور راہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں ، تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں اللہ تم پر آسانی چاہتاہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اسلئے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی بولو اس پر اس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو ۔ (کنزالایمان)
یٰاَۤیُّـہَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاکُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (پارہ٢، سورۃ البقرۃ ، آیت ١٨٣)
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے۔ (کنزالایمان)
وجہ تسمیہ:
رمضان المبارک اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے، اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ رمضان ”رمض” سے ماخوذ ہے اور رمض کا معنٰی ”جَلانا ”ہے۔ چونکہ یہ مہینہ مسلمانوں کے گناہوں کو جلا دیتا ہے اس لئے اس کا نام رمضان رکھا گیا ہے۔ یا اس لئے یہ نام رکھا گیا ہے کہ یہ ”رمض” سے مشتق ہے جس کا معنٰی ”گرم زمین سے پاؤں جلنا” ہے۔ چونکہ ماہِ صیّام بھی نفس کے جلنے اور تکلیف کا موجب ہوتا ہے لہٰذا اس کا نام رمضان رکھا گیا ہے۔ یا رمضان گرم پتھر کو کہتے ہیں۔ جس سے چلنے والوں کے پاؤں جلتے ہیں۔ جب اس مہینہ کا نام رکھا گیا تھا اس وقت بھی موسم سخت گرم تھا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ رمض کے معنی برساتی بارش ، چونکہ رمضان بدن سے گناہ بالکل دھو ڈالتا ہے اور دلوں کو اس طرح پاک کردیتا ہے جیسے بارش سے چیزیں دھل کر پاک و صاف ہو جاتی ہیں۔ (غنیۃ الطالبین ، صفحہ ٣٨٣۔٣٨٤)
فضائل رمضان المبارک احادیث کی روشنی میں
حدیث ١:
اِنَّ الْجَنَّۃَ تَزَ حْرَفُ لِرَمْضَانَ مِنْ رَاسِ الََْحَوْلِ حَوْلٍ قَابِلٍ قَالَ فِاذَا کَانَ اَوَّلُ یَوْمٍ مِنْ رَمَضَانَ ہَبَّتْ رِیْحٌ تَحْتَ الْعَرْشِ مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّۃِ عَلَی الْحُوْرِ الْعَیْنِ فَیَقُلْنَ یَا رَبِّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ عِبَادِکَ اَزْوَجًا تَقِرُّبِہِمْ اَعْیُنُنَا وَ تَقِرُّ اَعْیُنُہُمْ بِنَا ( رواہ البیہقی فی شعب الایمان۔ مشکوۃ ص ١٧٤)
بے شک جنت ابتدائے سال سے آئندہ سال تک رمضان شریف کے لئے آراستہ کی جاتی ہے۔ فرمایا جب پہلا دن آتا ہے تو جنت کے پتوں سے عرش کے نیچے ہوا سفید اور بڑی آنکھوں والی حوروں پر چلتی ہے تو وہ کہتی ہیں کہ اے پروردگار اپنے بندوں سے ہمارے لئے ان کو شوہر بنا جن سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور ان کی آنکھیں ہم سے ٹھنڈی ہوں۔
حدیث ٢:
نَادٰی مُنَادٍ مِّنَ السَّمَآءِ کُلَّ لَیْلَۃٍ اِلَی انْفِجَارِ الصُّبْحِ یَا بَا غِیَ الْخَیْرِ تَمِّمْ وَ اَبْشِرْ وَیَا باَغِیَ الشَّرِ اَقْصِرْ وَ اَبْصِرْ ہَلْ مَنْ مُّسْتَغْفِرٍ یَّغْفِرُ لَہ، ہَلْ مَنْ تَائِبٍ یُّتَابُ عَلَیْہِ ہَلْ مَنْ دَاعٍ یُّسْتَجَابُ لَہ، ہَلْ مَنْ سَا ئِلٍ یُّعْطٰی سُؤَا لَہ، فِطْرٍمِّنْ کُلِّ شَہْرِ رَمَضَانَ کُلَّ لَیْلَۃٍ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ سِتُّوْنَ اَلْفًا فَاِذَاکَانَ یَوْمُ الْفِطْرِ اَعْتَقَ فِیْ جَمِیْعِ الشَّہْرِ ثَلَا ثِیْنَ مَرَّۃً سِتِّیْنَ اَلْفًا۔ (زواجر جلد اول)
رمضان المبارک کی ہر رات میں ایک منادی آسمان سے طلوعِ صبح تک یہ ندا کرتا رہتا ہے کہ اے خیر کے طلب گار تمام کر اور بشارت حاصل کراوراے بُرائی کے چاہنے والے رک جا اور عبرت حاصل کر۔ کیا کوئی بخشش مانگنے والا ہے کہ اس کی بخشش کی جائے ۔ کیا کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ اس کی توبہ قبول کی جائے۔ کیا کوئی دعا مانگنے والا ہے کہ اس کی دعا قبول کی جائے ۔ کیا کوئی سوالی ہے کہ اس کا سوال پورا کیا جائے۔ اللہ بزرگ و برتر رمضان شریف کی ہر رات میں افطاری کے وقت ساٹھ ہزار گناہ گار دوزخ سے آزاد فرماتاہے جب عید کا دن آتا ہے تو اتنے لوگوں کو آزاد فرماتا ہے کہ جتنے تمام مہینہ میں آزاد فرماتا ہے۔ تیس مرتبہ ساٹھ ساٹھ ہزار۔(یعنی اٹھارہ لاکھ)
حدیث ٣:
یَغْفَرُ لِاُمَّتِہ فِیْ اٰخِرِ لَیْلَۃٍ فِیْ رَمَضَانَ قِیْلَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَہِیَ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ قَالَ لَا وَلٰکِنَّ الْعَامِلَ اِنَّمَا یُوَفّٰی اَجْرُہ، اِذَا قَضــٰی عَمَلُہ، ۔ رواہ احمد (مشکوٰۃ ص١٧٤)
رمضانِ پاک کی آخری رات میں میری امت کی بخشش کی جاتی ہے۔ عرض کی گئی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا وہ شبِ قدر ہے۔ فرمایا نہیں لیکن کام کرنے والے کا اجر پورا دیا جاتا ہے۔ جب کہ وہ اپنا کام ختم کرتا ہے۔
حدیث ٤:
اُحْضِرُوْ الْمِنْبَرَ فَحَضَرْنَا فَلَمَّاارْ تَقـٰی دَرْجَۃً قَالَ اٰمِیْنَ فَلَمَّا ارْتَقـٰی الدَّرْجَۃَ الثّانِیَۃَ قَالَ اٰمِیْنَ فَلَمَّا ارْتَقـٰی الدَّرْجَۃَ الثَالِثَۃَ قَالَ اٰمِیْنَ فَلَمَّا نَزَلَ قُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ لَقَدْ سَمِعْنَا مِنْکَ الْیَوْمَ شَیْــئًا مَا کُنَّا نَسْمَعُہ، قَال اِنَّ جِبْرَئِیْلَ عَرَضَ لِیْ فَقَالَ بَعُد مَنْ اَدْرَکَ رَمَضَانَ فَلَمْ یُغْفَرُ لَہ، قُلْتُ اٰمِیْنَ فَلَمَّا رَقِیْتُ الثَّانِیَہَ قَالَ بَعُدَ مَنْ ذُکِرْتَ عِنْدَہ، فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْکَ قُلْتُ اٰمِیْنَ۔ فَلَمَّا رَقِیْتُ الثَّالِثَۃَ قَالَ بَعُدَ مَنْ اَدْرَکَ اَبَوَیْہِ عِنْدَہُ الْکِبَرُ اَوْ اَحَدَہُمَا فَلَمْ یُدْ خِلَا ہُ الْجَنَّۃَ قُلْتُ اٰمِیْنَ (زواجر جلد اول)
تم لوگ منبر کے پاس حاضر ہو۔ پس ہم منبرکے پاس حاضر ہوئے ۔ جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم منبر کے پہلے درجہ پر چڑھے تو فرمایا ”آمین”۔ جب دوسرے درجہ پر چڑھے تو فرمایا”آمین”۔ اور جب تیسرے درجہ پر چڑھے تو فرمایا ”آمین”۔ جب منبر شریف سے اترے تو ہم نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج ہم نے آپ سے ایسی بات سنی کہ کبھی نہ سنتے تھے۔ فرمایا بے شک جبرئیل ں نے آکر عرض کی کہ ــ”بے شک وہ شخص دور ہو (رحمت سے یا ہلاک ہو) جس نے رمضان شریف کو پایا اور اس کی مغفرت نہیں ہوئی” میں نے کہا ــ”آمین ”۔ جب دوسرے درجہ پر چڑھا تو اس نے کہا: ”وہ شخص دور ہو جس کے پاس آپ کا ذکر ہو اور وہ درود شریف نہ پڑھے ”میں نے کہا ”آمین”جب میں تیسرے درجہ پر چڑھا تو اس نے کہا کہ” دور ہو وہ شخص جو اپنے بوڑھے والدین کی خدمت کا موقع پائے پھر بھی کوتاہی کے نتیجے میں جنت میں داخل نہ ہوسکے ”میں نے کہا ”آمین”
حدیث ٥:
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عنہ، قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کُلُّ عَمَلِ ابْنِ اٰدَمَ یُضَاعَفُ الْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ اَمْثَا لِہَا اِلـٰی سَبْعِ مِائَۃٍ قَالَ اللّٰہُ تَعَالـٰی اِلَّا الصَّوْمِ فَاِنَّہ، لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِہٖ یَدْعُ شَہْوَتُہ، وَطَعَا مُہ، مِنْ اَجْلِیْ لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ فَرْحَۃٌ عِنْدَ فِطْرِہٖ وَفَرْحَۃٌ عِنْدَ لِقَآءِ رَبِّہٖ وَلَخَلُوْفُ فَمِ الصَّائِمِ اَطْیَبُ عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ رِیْحِ الْمِسْکِ وَالصِّیَامُ جُنَّــۃٌ ۔ الحدیث رواہ البخاری و مسلم (مشکوٰۃ ١٧٣)
سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ راوی ہیں کہ رسول خُداا نے فرمایا کہ ”آدم کے بیٹے کا ہر عمل بڑھایا جاتا ہے ایک نیکی سے دس گنا سے سات سو تک ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”مگر روزہ کہ اس کا ثواب بے شمار ہے ، بے شک وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔” روزہ دار اپنی خواہش اور طعام میرے لئے چھوڑتا ہے ۔ روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ۔ ایک خوشی افطار کے وقت۔ اور ایک خوشی دیدارِ الٰہی کے وقت ۔ اور روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مُشک کی خوشبو سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ اور روزے ڈھال ہیں۔”
حدیث ٦:
اِذَا دَخَلَ رَمَضَانَ فُتِحَتْ اَبْوَابُ الْجِنَانِ وَ غُلِّقَتْ اَبْوَابُ الْجَہَنَّمِ وَسُلْسِلَۃِ الشَّیَاطِیْنَ (بخاری)
جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں ، اور شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں۔

رمضان کے حروف اور ان کی برکتیں:

رمضان کے پانچ حروف ہیں
”ر” رضوان اللہ (اللہ کی خوشنودی) ہے۔
”م” محابۃ اللہ کی ہے (اللہ کی محبت)۔
”ض” ضمان اللہ کا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری)
”الف” الفت کا ہے اور
”ن” سے مراد نور اور نوال ہے (مہربانی اور بخشش) (غنیۃ الطالبین ، صفحہ ٣٩٠)
روزہ نہ رکھنا گناہ کبیرہ ہے:
ارکانِ اسلام کا ایک رکن روزہ ہے۔ سردار دوجہاں سید کون و مکاں صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ سب سے اول توحید و رسالت کا اقرار۔ اس کے بعد اسلام کے چار رکن ہیں۔ ١۔ نماز۔٢: روزہ۔ ٣: زکوٰۃ۔ ٤: حج۔ کتنے مسلمان ہیں جو مردم شماری میں مسلمان شمار ہوتے ہیں۔ لیکن ان چاروں ارکان میں سے ایک کے بھی کرنے والے نہیں ہیں۔ البتہ وہ سرکاری کاغذات میں مسلمان لکھے جاتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کے دفتر میں وہ کامل مسلمان شمار نہیں ہوسکتے۔ اس لئے کہ روزہ نہ رکھنا کبیرہ گناہ ہے یہ بھی اس وقت ہے کہ جب وہ روزے کی فرضیت کا اعتقاد رکھتا ہو۔ اور جو اس کی فرضیت کا انکار کرے تو وہ بلاشبہ کافر ہے۔
سحری کھانے میں برکت ہے:
مسلمانوں کو چاہئے کہ رمضان المبارک میں سحری کے وقت اٹھیں اور حسب ضرورت کھانا تیار کر کے کھائیں۔ اگرچہ ایک دو لقمے ہی ہوں۔ یا کھجور کے چند دانے کھالے۔ کیونکہ یہ کھانا باعث برکت ہے ۔ محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
تَسَحَّرُوْا فَاِ نَّ السُّحُوْرَ بَرْکَۃٌ (مشکوٰۃ ص ١٧٥)
سحری کیا کرو کیونکہ سحری کے کھانے میں برکت ہے۔
نیز سحری کے وقت اٹھنا اور کھانا کھانا اسلام کا شعار ہے۔ اہل کتاب اس سعادت سے محروم ہیں۔ سید الانس و الجان شاہ کون و مکان صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فَصْلُ مَابَیْنَ صِیَامِنَا وَصِیَامِ اَہْلِ الْکِتَابِ اُکْلَۃُ السَّحَرِ ۔ رواہ البخاری و مسلم (مشکوٰۃ ص ١٧٥)
ہم اہل اسلام اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق سحری کا کھانا ہے۔
اہم مسئلہ:
سحری کا وقت صبح صادق سے پہلے ہے اگر صبح صادق ہو جاتی ہے تو پھر سحری سے الگ ہو جائیں ۔کھانا پینا بند کردیں بعض لوگ اذان فجر سن کر یا سائرن سن کر بھی پانی وغیرہ پیتے ہیں یہ درست نہیں فرض کریں کہ سحری کا آخری وقت ٥ بج کر ١١ منٹ ہے تو فجر کی اذان٥ بج کر ١١ منٹ کے بعد ہوگی لہٰذا ٥ـ بج کر ١١منٹ سے قبل ہر حال میں کھانے پینے سے فراغت حاصل کرلینی چاہئے ۔اگر اذان سنتے وقت پانی بھی پیا تو روزہ نہیں ہوگا۔
روزے کی نیت
جو صبح صادق سے پہلے سحری سے فارغ ہوں انہیں یوں نیت کرنی چاہئے
وبِصَوْمِ غَدٍ نَوَیْتُ مِنْ شَہْرِ رَمَضَان
(ترجمہ) میں نے رمضان کے کل کے روزے کی نیت کی
اور سائرن یا اذان سن کر کلّی وغیرہ کرکے اس طرح نیت ہوگی ۔
نَوَیْتُ اَنْ اَصَوْمَ ہٰذَالْیَوْمَ لِلّٰہِ تَعَالٰی مِنْ فَرَضِ رَمَضَان
(ترجمہ) میں نے آج کے روزے کی نیت کی اللہ کیلئے ماہِ رمضان کے فرضوں سے
افطار
جب پوری طرح سورج غروب ہوجائے تو حلال اور طیب چیز سے روزہ افطار کرے اور یہ دعا پڑھے۔
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ لَکَ صُمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ۔
ترجمہ: اے اللہ ! میں نے تیرے لئے روزہ رکھا، اور تجھ پر ایمان لایا ، اور تیرے دیے ہوئے رزق سے افطار کیا۔
سیّدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے روایت ہے کہ مالکِ دو جہاں سرکارِ ابد قرار شافع یوم شمار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا یَزَالُ الدِّیْنُ ظَاہِرًامَّا عَجَّلَ النَّاسُ الْفِطْرَ لِاَنَّ الْیَہُوْدَ وَالنَّصَاریٰ یُؤَْخِّرُوْنَ ۔ رواہ ابو داؤد و ابنِ ماجہ (مشکوٰۃ ص١٧٥)
دین اسلام ہمیشہ غالب رہے گا جب تک لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے ۔ کیونکہ یہودی و نصرانی افطار میں دیر کرتے ہیں۔
نوٹ: اس جلدی کا یہ مطلب نہیں کہ ابھی سورج پوری طرح غروب نہ ہوا ہو تو روزہ افطار کرلیا جائے۔ ایسا کرنے سے سارے دن کی محنت ضائع ہوجائے گی اور نہ ہی ثواب ملے گا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اس پر مزید ہے۔
روزہ کس چیز سے افطار کرنا چاہئے
یوں تو روزہ ہر حلال چیز سے افطار کرنا جائز ہے مگر طاق کھجوروں سے روزہ افطار کرنا بہت ثواب کا باعث ہے اگر کھجوریں وقت پر نہ مل سکیں تو پانی سے روزہ کھولنا چاہئے۔ سرورِ کائنات فخر موجودات حضرت احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:
اِذَا اَفْطَرَ اَحَدُکُمْ فَلْیُفْطِرُ عَلـٰی تَمْرٍ فَاِنَّہ، بَرْکَۃٌ فَاِنْ لَّمْ یَجِدْفَلْیُفْطِرْ عَلـٰی مَآءٍ فَاِنَّہ، طَہُوْرٌ۔ (رواہ احمد والترمذی و ابو داؤد و ابن ماجہ) (مشکوٰۃ ص١٧٥)
جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو چاہئے کہ کھجوروں سے افطار کرے کیونکہ اس میں برکت ہے ۔ اگر کھجوریں نہ پائے تو پانی سے افطار کرے کیونکہ وہ پاک کرنے والا ہے۔
نماز تراویح
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ماہ رمضان کی وسط رات میں ایک بار حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں نماز پڑھی لوگوں نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کی۔ دوسری رات آدمیوں کی اتنی کثرت ہوئی کہ مسجد تنگ ہوگئی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرہ سے برآمد نہیں ہوئے ، صبح کو فجر کی نماز کے لئے تشریف لائے ، فجر کی نماز سے فارغ ہوکر لوگوں سے خطاب فرمایا : ”تمہاری رات کی حالت مجھ سے پوشیدہ نہ تھی ، لیکن اندیشہ یہ تھا کہ نماز ِ تراویح تم پر فرض نہ ہوجائے اور تم اس کے ادا کرنے سے عاجز ہوجاؤ۔” حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو رمضان کی راتوں کو زندہ رکھنے (نماز پڑھنے ) کی ترغیب دیا کرتے تھے بغیر اس کے کہ آپ ان پر لزوم کے ساتھ حکم فرمائیں (یعنی وجوبی حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہیں دیتے تھے) آپ کے وصال کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور عہد فاروقی رضی اللہ تعالی عنہ کے ابتدائی دور میں تراویح کا معاملہ یوںہی رہا ۔حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھ سے تراویح کی نماز کی حدیث جب سنی تو آپ نے اس پر عمل فرمایا۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ اے امیر المومنین وہ حدیث کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ عرشِ الٰہی کے ارد گرد ایک جگہ جس کا نام ”حضیرۃ القدوس” ہے وہ نور کی جگہ ہے اس میں اتنے فرشتے جن کی تعداد اللہ  کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ عبادت الٰہی میں مشغول رہتے ہیں اس میں ایک لمحہ کی بھی کوتاہی نہیں کرتے۔ جب ماہ رمضان کی راتیں آتی ہیں تو یہ اپنے رب سے زمین پر اترنے کی اجازت طلب کرتے ہیں اور وہ بنی آدم کے ساتھ مل کر نماز پڑھتے ہیں ۔ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جس نے ان کو مَس کیایا انہوں نے کسی کو مَس کیاتو وہ ایسا نیک بخت و سعید بن جاتا ہے کہ پھر کبھی بد بخت و شقی نہیں بنتا ۔ یہ سن کر حضرت عمرنے فرمایا جب کہ اس (نماز) کی یہ شان ہے تو ہم اس کے زیادہ حقدار ہیں۔ پھر آپ (حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ) نے تراویح کی جماعت قائم کرکے اس کو سنت قرار دے دیا۔ (غنیہ الطَّالبین ، صفحہ ٣٩٩۔ ٤٠٠)
نماز تراویح بیس رکعات ہیں
رمضان المبارک کے مہینہ میں نمازِ عشاء کے بعد بیس ٢٠ رکعت نماز تراویح پڑھنی صحیح مذہب میں سنت مؤکدہ ہے اور تمام آئمہ دین یعنی امام اعظم ابو حنیفہ اور ان کے تلامذہ ، امام مالک اور ان کے تلامذہ، امام شافعی اور ان کے تلامذہ، امام احمد بن حنبل اور ان کے تلامذہ کے علاوہ وہ دیگر مجتہدین بھی (جن کے مقلدین آج دنیا میں نہیں ہیں) اس کے سنت ہونے اور بیس رکعات ہونے پر متفق ہیں ۔ رافضیوں کے علاوہ کوئی جماعت ِتراویح کامنکر نہیں ہے۔غیر مقلدین (نام نہاد اہلحدیث یا اہل الظواہر) بیس رکعات پر کمزور اعتراض کرتے ہیں اور اپنی ہٹ دھرمی کے باعث آٹھ رکعات پڑھتے ہیں ، جو ثابت نہیں ۔ آٹھ رکعات کوتراویح کہنا بھی غلط اور باطل ہے ، کیونکہ ”تراویح” جمع ہے ”ترویحہ ”واحد ہے ، ایک ترویحہ چار رکعات کا ہوتا ہے توعربی قواعد کے اصولو ں کے مطابق آٹھ رکعات ادا کرنے کے نتیجے میں دو ترویحہ بنتے ہیں جس پرتثنیہ کا اطلاق ہوتا ہے اور لغت کے حساب سے ”ترویحتان” کہا جاتا ہے ۔عربی میںکسی بھی لفظ کی جمع کا اطلاق دو سے زائد پر ہوتا ہے لہٰذا آٹھ رکعات کو کبھی بھی تراویح قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ حضوراکرم نے کبھی بھی رمضان میں آٹھ رکعات تراویح کے طور پر ادا نہیں فرمائیں۔ اور نہ ہی آٹھ رکعات ادا کرنے کی ہدایت فرمائی۔ امام بیہقی علیہ الرحمۃ نے بسند صحیح حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے روایت کی کہ” لوگ فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کے زمانہ میں بیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور عثمان و علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے عہد میں بھی ایسا ہی تھا ”اور ”موطا ”میں یزید بن رومان سے روایت ہے کہ ”عمر رضی اللہ عنہ، کے زمانہ میں لوگ تئیس ٢٣ رکعات پڑھتے ”۔ بیہقی نے کہا اس میں تین رکعتیں وتر کی ہیں اور مولیٰ علی رضی اللہ عنہ، نے ایک شخص کو حکم فرمایا کہ ”رمضان میں لوگوں کو بیس ٢٠ رکعتیں پڑھائے ۔” نیز اس کے بیس رکعت میںیہ حکمت ہے کہ فرائض و واجبات کی اس سے تکمیل ہوتی ہے اور کل فرائض و واجبات کی ہر روز بیس رکعتیں ہیں (یعنی فجر ٢ +ظہر ٤+عصر٤+مغرب٣+عشاء فرض٤+ وتر٣=٢٠رکعات) لہٰذا مناسب تھا کہ یہ بھی بیس ہوں ۔ (بہار شریعت حصہ چہارم ، صفحہ ٣٠)

رمضان المبارک کے اہم، مشہور، اور تاریخی واقعات

* تیسری تاریخ رمضان المبارک میں سیدنا حضرت ابراہیمں پر صحائف نازل ہوئے۔ * چھٹی رمضان المبارک کو سیدنا موسیٰ ں پر توریت نازل ہوئی۔ * اٹھارویں رمضان المبارک میں سیدنا حضرت داؤد ں پر زبور شریف نازل ہوئی۔ * تیرہویں رمضان المبارک کو سیدنا حضرت عیسیٰ ں پر انجیل نازل ہوئی* حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ہجرت ۔۔۔۔۔۔ پہلی صدی ھ/ ٩مارچ ٦٢٢ء اور وصال ١٧ رمضان* ولادت حضرت حسن رضی اللہ عنہ ۔۔۔۔۔۔ ٣ھ/١٥ فروری ٦٦٤ء * فتح مکہ ۔۔۔۔۔۔٢٠ رمضان المبارک٨ھ، ٢٣دسمبر ٦٢٩ء * آیت ربوا(حرمت سود)۔۔۔۔۔۔ ٩ھ* حضرت سید الشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہادت کا جام پلانے والے حضرت وحشی وفد طائف کے ہمراہ آ کر مسلمان ہوئے۔۔۔۔۔۔٩ھ * غزوہ تبوک۔۔۔۔۔۔١٠ھ/یکم دسمبر ٦٣١ء * وفات حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ۔۔۔۔۔۔١١ھ /٢٠نومبر، ٦٣٢ء * وفات سہل بن عمرو رضی اللہ عنہ، ۔۔۔۔۔۔١٨ھ /٥دسمبر ٦٣٩ء * توسیعِ مسجد نبوی شریف۔۔۔۔۔۔٢٦ھ/١٠جون ٦٦٤ء * وفات حضرت عباس رضی اللہ عنہ، ۔۔۔۔۔۔ ٣٢ ھ / ١٥ اپریل ٦٥٢ء * وفات مقداد بن الاسود رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٣٣ھ/٢٦ ماچ ٦٥٣ء * بغاوتِ اہلِ کوفہ۔۔۔۔۔۔٣٤ھ/ ١٥ مارچ ٦٥٤ء * جلسہئ حکمین ۔۔۔۔۔۔٣٧ھ/١٠ فروری ٦٥٧ء * جنگ خوارج۔۔۔۔۔۔٣٨ھ/٣١جنوری ٦٥٨ء * وفاتِ زیاد بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٥٣ھ/٢٠ اگست ٦٧٢ء * وفاتِ حضرت حسان رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٥٤ھ/١٩ اگست ٦٧٣ء * وفاتِ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔۔۔۔۔۔٥٧ھ/٨جولائی، ٦٧٦ء * خلافتِ عبدالملک بن مروان۔۔۔۔۔۔٦٥ ھ/گیارہ اپریل، ٦٨١ء * وفاتِ عبداللہ بن بسر رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٨٨ھ/٥اگست، ٧٠٦ء * وفاتِ سہل بن سعید رضی اللہ عنہ،۔۔۔۔۔۔ ٩١ھ/٥جولائی، ٧٠٩ء * فتحِ اندلس۔۔۔۔۔۔ ٩٢ھ/٧١٠ء * محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا ٩٣ھ/٧١٢ء* وفاتِ عمرہ بن عبدالرحمن(معروف عالمہ و محدثہ، کئی علماء کئی استاد)۔۔۔۔۔۔٩٨ھ* جنگ آرمینیہ۔۔۔۔۔۔ ١٠٥ھ/یکم فروری ٧٢٣ء * فتحِ قیساریہ۔۔۔۔۔۔١٠٧ھ/١٠جنوری، ٧٢٦ء * سمرقند کی تیسری جنگ۔۔۔۔۔۔١١٣ھ * ابو مسلم خراسانی کا اعلانِ بغاوت۔۔۔۔۔۔١٢٩ھ/١٦مئی ٧٤٦ء* عبدالرحمن اموی تیونس آیا۔۔۔۔۔۔١٣٤ھ * وفاتِ حضرت رابعہ بصریہ رحمۃ اللہ علیہا۔۔۔۔۔۔ ١٣٥ھ* مہدی نفس ذکیہ کا قتل۔۔۔۔۔۔١٤٥ھ/٢٣نومبر٧٦٢ء * مرو میں بغاوت۔۔۔۔۔۔١٩١ھ * عباس بن المامون مدعی خلافت ہوا۔۔۔۔۔۔٢١٨ھ* فتحِ صقلیہ ۔۔۔۔۔۔٢١٩ھ* بغاوتِ زنگیانِ بصرہ۔۔۔۔۔۔ ٢٥٥ھ* وفات امام العتبی فقیہ الاندلس ۔۔۔۔۔۔٢٥٦ھ* امام احمد بن حنبل کے صاحبزادے صالح قاضی اصفہان کا انتقال ۔۔۔۔۔۔ ٢٦٦ ھ * قرامطیوں نے مکہ میں حج کیلئے آنے والوں کا قتل عام کیا۔۔۔۔۔۔٢٨٧ھ/٣٠اگست، ٩٠٠ء * عراق میں مظالم قرامطہ۔۔۔۔۔۔٢٩٣ھ* حضرت منصور حلاج کا نعرہئ ”انا الحق” اور گرفتاری۔۔۔۔۔۔٣٠١ھ(جبکہ شہادت ذیقعد٣٠٩ ھ میں ہوئی) * بغداد میں فاقہ سے اموات۔۔۔۔۔۔٣٣٣ھ* وفات عبدالناصر و خلافت مستنصرالاموی ٣٥٠ھ * معروف عربی ادیب و شاعر مُتبّی کا قتل۔۔۔۔۔۔٣٥٤ھ * راجہ جے پال اور سبکتگین کی پہلی جنگ ٣٨٠ھ* وفات ابو نصر الکلاباذی البخاری حنفی (معروف صوفی، اصطلاحِ تصوف کے موجد)٣٨٥ یا ٣٩٨ھ* وفات ابوالطیب صعلوکی(چوتھی صدی کے معاون مجدد) ٤٠٤ھ/١٠١٤ء ٨خلافت عبدالرحمن الرابع(اندلس)۔۔۔۔۔۔٤٠٨ھ* رحلت معروف محدث حافظ ابو بکر بن مردویہ الاصبہانی ٤١٠ھ* رحلت ھبۃ اللہ محدث بغداد ٤١٨ھ ٨بغداد پر اوباشوں کا تسلط۔۔۔۔۔۔٤٢٦ھ* وفات بو علی سینا ٤٢٨ھ* فتنہئ البساسیری۔۔۔۔۔۔٤٥٠ھ * سلطنت عباسیہ کے باغی طغرل بک کی وفات اور اس کی جگہ اس کا بھتیجا الپ ارسلان سلجوقیوں کا حکمران بنا ٤٥٥ھ* وفات ابو الحسن الفقیہہ الامدی ٤٦٥ھ* یوسف بن تاشفین کی فتح عیسائیوں پر ۔۔۔۔۔۔٤٧٩ھ* وفات ابو داؤد اندلسی ٤٩٦ھ * صیدا پر صلیبیوں کا قبضہ اور پسپائی ۔۔۔۔۔۔٥٠١ھ * بیروت اور صیدا پر فرنگیوں کا قبضہ۔۔۔۔۔۔٥٠٤ھ * وفات ابو الفتوح الغزالی (برادر امام محمد غزالی)٥٢٠ھ* مصر و عراق میں ٣٠ رمضان کو بھی شوال کا چاند نظر نہیں آیا ٥٣١ھ * وفات ابو عبداللہ المازری شارح مسلم ٥٣٦ھ * حکومتِ صلاح الدین ایوبی ۔۔۔۔۔۔٥٦٤ھ/مئی ١١٦٨ء * خلافتِ ابو نصر الطاہر العباسی۔۔۔۔۔۔٦٢٢ھ * وفاتِ بہاؤ الدین بلخی (پدر مولانا رومی)۔۔۔۔۔۔٦٢٨ھ ٨معرکہ ”عینِ جالوت”اور تاتاریوں کی فوج کی بربادی ۔۔۔۔۔۔ ٦٥* ھ * وفات فیروز تغلق و تخت نشینی محمد تغلق ٧٩٠ھ* وفات علامہ ابن خلدون ٨٠٨ھ ٨وفات حافظ ولی الدین ابن زرعہ ٨٢٦ھ * وفات ابن البزاری صاحب فتاوٰی ٨٢٧ھ * وفات شمس الدین سعدی ٨٢٨ھ* وفات شمس الدین الغنام مالکی ٨٤٢ھ * وفات احمد بن ارسلان المقدسی ٨٤٤ہجری* وفات تقی الدین المقریزی ٨٤٥ھ ٨قتل الوغ بیگ بن شاہ رخ بن تیمور ٨٥٣ھ* مکۃ المکرمہ میں سیلاب ٨٥٩ھ* ١٤ رمضان ٨٨٦ھ مدینہ منورۃ پر آسمانی بجلی گری * ایران میں صفوی حکومت کا آغاز ٩٠٧ھ * وفات مخدوم ابراہیم بن ادھم سلطان بلخی ٩١٤ھ * وفات احمد شاہ گجراتی ٩١٦ھ* انڈونیشیا ،سماٹرامیں مسلم حکومت کا آغاز علی شاہ نے کیا ٩٢٠ھ * خلافت المتوکل (ثالث)٩٢٢ھ * وفات تقی الدین بن قاضی عجلون ٩٢٨ھ * وفات امام محی الدین القرمانی حنفی ٩٤٢ھ * وفات سعدی چلپی ٩٤٥ھ٨ہمایوں کی سلطنت کی بحالی ٩٦٢ھ/١٥٥٥ء ٨خلافتِ مراد ثالث ۔۔۔۔۔۔٩٨٢ھ ٨شہادت ملک المحدثین محمد طاہرپٹنی الہندی۔۔۔۔۔۔٩٨٦ھ٨اکبر نے کشمیر فتح کیا ۔۔۔۔۔۔ ٩٩٥ھ/٥اگست ١٥٨٦ء * وفات محمد قاسم فرشتہ مؤرخ ١٠٢١ھ * معزولی شاہجہاں و حکومت عالمگیر (اول) ۔۔۔۔۔۔ ٦* ١٠ ھ/١٦٥٧ء * وفات شائستہ خان امیر الامرأ * وفات مجاہد تحریکِ آزادی ، علامہ کفایت علی کافی شہید امیر شریعت ، تلمیذ شاہ ابو سفینہ مجددی رامپوری١٢٧٤ھ/١٨٥٨ء * ندوۃ العلماء کا پہلا اجلاس (کانپور) ۔۔۔۔۔۔١٣١١ھ/٨مارچ، ١٨٩٣ء * پہلی جنگ عظیم ۔۔۔۔۔۔١٣٣٢ھ/٢٤جولائی، ١٩١٣ء * وفات سید سلیمان اشرف بہاری خلیفہ اعلیٰ حضرت ۔۔۔۔۔۔١٣٥٢ھ* قیامِ پاکستان جمعۃ الوداع ،٢٧رمضان۔۔۔۔۔۔١٣٦٦ ھ / ١٤ اگست ١٩٤٧ء* آزادی موریطانیہ ۔۔۔۔۔۔ ١٣٧٨ھ /١١ مارچ ، ١٩٥٨ء * یمن میں امامت کا خاتمہ۔۔۔۔۔۔١٣٨١ھ۔

رمضان المبارک میں وفات پانے والے اولیاء، و بزرگانِ دین

یکم رمضان المبارک :
٭ حضرت شیخ سعید بن عفیر ٢٢٦ھ ٭ حضرت طلحہ بن محمد خراسانی ٣٢٠ھ ٭ حضرت شاہ الہداد عارف ٩١٤ھ ٭ حضرت اخون شہباز قلندر سداسہاگ ١٠٣٣ھ (سومان) ٭ حضرت خواجہ شمس الدین حبیب اللہ ملکی ١١٦٧ھ (سرہند) ٭ حضرت علامہ سید عبداللہ بلگرامی ١٣٠٥ھ ٭ استاذ العلماء علامہ ہدایت اللہ خاں رامپوری(مناظر اہلسنّت، فاتح مناظرہ رُشدآباد بنگال) یکم رمضان١٣٢٦ھ ٭ حضرت سید ظہور الحسنین شاہ قادری علیہ الرحمۃ(اولاد حضرت سخی عبدالوہاب شاہ) ١٤٠١ھ ٭ پیر طریقت حضرت محمد قاسم مشوری ١٤١٠ھ(درگاہ عالیہ مشوری شریف لاڑکانہ، رہنما تحریک پاکستان)
٢ رمضان المبارک
٭ حضرت خواجہ عبدالحق جامی ١٠٢٩ھ (برہان پور) ٭ حضرت شیخ اسماعیل چشتی اکبر آبادی١٠٦٦ھ ٭ حضرت شاہ دولہ دریائی گجراتی ۔
٣ رمضان المبارک
٭ سیدۃ النساء فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا ١١ھ ٭ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا ٦٢ھ ٭ حضرت فضیل بن عیاض۔۔۔۔۔۔١٨٧ھ ٭ حضرت شیخ سری سقطی شیخ سلسلہ قادریت ٢٠٥ھ (بغدادشریف) ٭ حضرت شاہ زین الدین ٣٥٥ھ (دمشق) ٭ حضرت سید قطب الدین محمد چشتی مدنی ثم الکڑوی ٦٦٧ھ ٭ حضرت مظفر بلخی (خلیفہ مخدوم یحییٰ منیری) ٧٨٨ھ ٭ مخدوم راجی سید پور مانکپوری ٩٤٧ھ ٭ حضرت میر عبدالواحدبلگرامی ١٠١٧ھ(گیارہویں صدی میں معاون تجدید دین ، مصنف ”سبع سنابل”) ٭ حضر ت شیخ حاجی رمضان چشتی ١٢٨٢ھ(لاہور) ٭ حضرت سید عقیل ٭ حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی ۔۔۔۔۔۔١٣٩١ھ
٤ رمضان المبارک
٭ حضرت شاہ عبدالہادی صابری ١١٩٠ھ (امروہہ) ٭ حضرت شاہ نبی بخش رامپوری ٭ حضرت علامہ قاضی محمد حسن محدث خانپوری ۔۔۔۔۔۔١٣٠١ھ ٭ حضرت الحاج بخشی مصطفی علی بنگلوری ١٣٩١ھ (مدینہ منورہ)۔
٥ رمضان المبارک
٭ سید عبد الہادی جمیل شاہ گرناری کاظمی (پیر پٹھہ)۔۔۔۔۔۔٦٤٢ھ ٭ حضرت شیخ صدر الدین عرف شاہ سیدو٩٣٣ھ (جونپور) ٭ حضرت شیخ محمد داؤد گنگوہی ١٠٩٥ھ ٭ حضرت میران بھیکہ سید محمد سعید ١١٣٥(خلیفہ شاہ ابو المعالی لاہوری)ھ ٭ حضرت شاہ عنایت جیو ذوقوۃ المتین ۔۔۔۔۔۔١١٩٥ھ (بہاولپور) ٭ حضرت سید صبغت اللہ شاہ اول ولد پیر سید محمد راشد روضے دھنی المعروف پیر پگارو اول ١٢٤٦ھ/٨فروری ١٨٣١ئ ٭ علامہ شائستہ گل مردانی قادری (خلیفہ مانکی شریف ١٤٠١ھ / ١٩٨١ء ٭ خواجہ محمد عبد الحکیم قادری نقشبندی شہداد کوٹ لاڑکانہ
٦ رمضان المبارک
٭ حضرت شیخ داؤد گنگوہی رحیم دل ١٠٨٠ھ (گنگوہ) ٭ حضرت سید عبدالباری اویسی ١٣١٨ھ ٭ علامہ عبدالشکور شیوہ مردانی قادری ۔۔۔۔۔۔١٤٠٣ھ/١٧جون ١٩٨٣ء ٭ حضرت عبداللہ سری سقطی ٭ بابا ابولخیر نولکھ ہزاری شاہ کوٹی ٭ حضرت میاں نثار احمد امیری ۔
٧ رمضان المبارک
٭ حضرت سیدنا داؤد علیہ السلام ٭ حضرت شیخ عبدالقدوس صوفی ٢٩٩ھ (سوس) ٭ حضرت ابو بکر محمد سلمی مدنی ٣٢٧ھ (مدینہ) ٭ حضرت سید عصمت قادری ٩٩٩ھ ٭ مولانا سید محمد ناصر جلالی تلمیذ فرنگی محل لکھنؤ۔۔۔۔۔۔١٣٨٥ھ/٣١دسمبر ١٩٦٥ئ ٭ حضرت مولانا بدرالدین قادری ٭ حضرت سید ہاشم پیر دست گیر بیجا پوری ٭ حضرت شیخ عثمان بن اسحق ۔۔۔۔۔۔٥٤٥ھ(مکہ)۔
٨ رمضان المبارک
٭ حضرت شیخ عماد الدین رفیقی ١٣٠٠ھ (کشمیر) ٭ حضرت بیدم شاہ وارثی۔
٩ رمضان المبارک
٭ حضرت شیخ حبیب عجمی ١٥٦ھ (تابعی۔۔بصرہ) ٭ حضرت ابو علی شفیق بلخی١٩٤ھ (ختلان) ٭ حضرت سیدنا داؤد طائی ١٦٥ھ ٭ قطب الاقطاب شیخ عبدالرشید شمس الحق فیاض دیوان (مصنف مناظرہ رشیدیہ) ١٠٨٣ھ ٭ حضرت مولانا شمس الحق عبدالرشید عرف دیوان رشید جونپوری ١٢٨٣ھ ٭ حضرت سید عبدالعزیز چشتی صابری(سادات و پیرزادگان سہارنپور انبیٹھہ) ١٣٤٤ ھ ٭ حضرت شاہ شرف الدین بو علی قلندر پانی پتی۔
١٠ رمضان المبارک
٭ اُم المومنین سیدتنا خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا ٭ حضرت خواجہ نصیر الدین محمود روشن چراغ دہلی ٭ حضرت سید جان محمد حضوری قادری لاہوری ۔۔۔۔۔۔١٠٦٤ھ
١١ رمضان المبارک
٭ حضرت ابو صالح حمدون قصار ٢٧١ھ (ہرات) ٭ حضرت اسحق بن عمر مدنی ٥٣٠ھ ٭ حضرت منصور ابو القاسم کرمانی کشمیری ٥٦٩ھ ٭ حضرت میاں محمد امین ڈار کشمیری ١٠٩٨ھ ٭ حضرت قطب الدین کمال واحدیت ١١٢١ھ(نارنول) ٭ حضرت محمد حنیف ١٢٥٩ھ ٭ حضرت علامہ عبد الغفور ہمایونی شکارپوری (صاحب فتاوی ہمایونی) ١٣٣٦ھ ٭ شاہ مصباح الحسن پھپھوندوی(خلیفہ شاہ امتیاز احمد خیر آبادی) ١٣٨٤ھ ٭ مادھو لال حسین لاہور ٭ قاضی حمید الدین ناگوری ٭ حضرت سید محمد معصوم قادری
١٢ رمضان المبارک
٭ حضرت ابو عبداللہ مختار ہروی ٢٧٧ھ (ہرات) ٭ حضرت ابو الخیر حمصی ٣١٠ھ ٭ حضرت شاہ ابو العباس ادریس ٣٤٩ھ ٭ حضرت شاہ قدرت اللہ نیشاپوری٤٥٦ھ ٭ حضرت شیخ شریف عبدالسلام بن شیت طرطوسی ٥٧٢ھ ٭ حضرت شیخ ابو الحسن علی ترحم بغدادی ٥٩٨ھ ٭ حضرت ابو الحسن علی بن محمد٦٥٧ھ ٭ حضرت شیخ نظام فرقی ٦٧٧ھ (فیروز پور) ٭ حضرت شاہ شرف الدین بغدادی ٧١٤ھ ٭ حضرت شاہ شرف الدین بو علی قلندری پانی پتی ٧٢٤ھ ٭ حضرت سید حسن شاہ خندہ روح ٩٠٣ھ ٭ حضرت شیخ سید عصمت قادری ٩٩٩ھ(دہلی) ٭ حضرت شاہ زاہد چشتی ١٠٩٥ھ (صفی پوری) ٭ مولانا معشوق علی جونپوری (استاذ شاہ غلام معین الدین جونپوری) ١٢٦٨ھ ٭ حضرت میاں راج شاہ قادری صاحب(سوندھ شریف گوڑ گانواں) ١٣٠٦ھ ٭ حضرت سیدنا سری سقطی ۔
١٣ رمضان البارک
٭ حضرت شیخ ابو داؤد مدنی ۔۔۔۔۔۔٤٠٠ھ ٭ حضرت سید یحییٰ بن احمد طوری دہلوی ۔۔۔۔۔۔٦٠٣ھ ٭ حضرت سید محمد سعید مصطفائی صفات پشاوری ۔۔۔۔۔۔١٠٨٤ھ ٭ مولانا شاہ محمد نور اللہ فریدی ملقب زبدۃ الموحدین، بہادر مناظر جنگ (مصنف ہدایۃ الوہابین)١٢٦٧ھ ٭ حضرت مولوی محمد جعفر سندیلی ۔۔۔۔۔۔١٢٦١ھ ٭ حضرت محمد فارق چشتی صابری ۔۔۔۔۔۔ ١٣٤٠ھ(رامپور) ٭ حضرت شیخ محمد امیر کوہاٹی ۔۔۔۔۔۔١٣٨٨ھ ٭ حضرت صوفی قمر الدین قادری نوشاہی ۔۔۔۔۔۔١٣٩٩ھ
١٤ رمضان المبارک
٭ حضرت ابو محمد نافع ۔۔۔۔۔۔١٢١ھ(مکہ) ٭ حضرت شیخ عاصم بن عبدالصمد ۔۔۔۔۔۔٢٤٧ھ (مکہ) ٭ حضرت شیخ القوام ابو الکایک جنیدن حرّازی ۔۔۔۔۔۔ ٢٩٥ھ (کوہ تبت) ٭ حضرت سید تاج الدین بغدادی ۔۔۔۔۔۔٦٩٩ھ ٭ حضرت ابو الحسن علی خیار عراقی ۔۔۔۔۔۔٦٥٦ھ ٭ حضرت شاہ احمد بن شہاب الدین دہلوی ۔۔۔۔۔۔٧٨٤ھ ٭ حضرت خواجہ مخدوم نصیر الدین خاکی ۔۔۔۔۔۔٨١٧ھ(فتح پور سیکری) ٭ حضرت بہاء الدین باغی جونپوری ۔۔۔۔۔۔٨٣٠ھ ٭ حضرت شیخ حسام الحق عرفان الکوثر مانکپوری ۔۔۔۔۔۔٨٥٣ھ ٭ حضرت بہاؤ الدین پیران شاہ ۔۔۔۔۔۔٩٠٣ھ (جدّہ) ٭ حضرت شیخ محمد اسمٰعیل اودہی ۔۔۔۔۔۔١١١٧ھ (فیض آباد) ٭ علامہ الحاج ابو الشاہ محمد عبدالقادر قادری شہید۔۔۔۔۔۔رمضان ١٣٨٣ھ/ ٣٠ جنوری، ١٩٦٤ء ٭ حضرت سیدنا طیفور بایزید بسطامی ٭ حضرت حافظ عبدالوہاب سچّل سرمست فاروقی ۔۔۔۔۔۔١٢٤٢ھ
١٥ رمضان المبارک
٭ حضرت شاہ ابو العباس ادریس ۔۔۔۔۔۔٣٤٩ھ ٭ حضرت خواجہ ابو علی بن مطرف اندلسی ۔۔۔۔۔۔٧٠٧ھ ٭ حضرت شاہ محمد گوشہ نشین احمد آبادی ۔۔۔۔۔۔٩٠٠ھ ٭ حضرت میر سید علی قوام سوانی الاصل ۔۔۔۔۔۔٩٥٠ھ ٭ حضرت محمد غوث گوالیاری ۔۔۔۔۔۔٩٧٠ھ ٭ صوفی سید اکرم علی شاہ قادری چاٹگامی ابن سید رحمت علی شاہ قادری ١٣٨٨ھ/٧ستمبر ١٩٦٨ء (کراچی)۔
١٦ رمضان المبارک
٭ حضرت عمرو صدیقی بصری ۔۔۔۔۔۔٦٩٢ھ ٭ حضرت ابو المظفرترک طوسی۔۔۔۔۔۔٧٩٨ھ ٭ حضرت شاہ اسحق بن شمس الدین قریشی خراسانی ۔۔۔۔۔۔ ٨٥٦ھ ٭ حضرت سید عقیل کوکانی ۔۔۔۔۔۔٨٤٢ھ ٭ حضرت شاہ عبداللہ بن احمد ۔۔۔۔۔۔٨٩٧ھ (بخارا) ٭ حضرت شاہ احمد محی الخلیقۃ بغدادی ۔۔۔۔۔۔٩٩٩ھ ٭ حضرت خواجہ شمس الدین محمد رومی ۔۔۔۔۔۔٩٠٤ھ (ہرات) ٭ حضرت سیدشاہ حسین خدانما ۔۔۔۔۔۔٩١٥ھ (برہان پور) ٭ حضرت شیخ ابی الصلاح علی بغدادی ۔۔۔۔۔۔١٠٥٧ھ ٭ حضرت سید آل محمد مارہروی۔۔۔۔۔۔١١٦٤ھ ٭ حضرت حافظ موسیٰ چشتی ۔۔۔۔۔۔١٢٤٧ھ ( مانکپور) ٭ حضرت مناظر اہلسنت شاہ امانت اللہ فصیحی۔۔۔۔۔۔١٣١٥ھ (غازی پور)
١٧ رمضان المبارک
٭ شہدائے بدر ٭ سیدہ رقیہ بنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ورضی اللہ عنہا ۔۔۔۔۔۔٢ ھ ٭ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ۔۔۔۔۔۔٦٢ھ ٭ حضرت شیخ محمدطائی ۔۔۔۔۔۔ ٣٠٠ ھ (حلہ) ٭ حضرت ملا حامد قادری ۔۔۔۔۔۔١٠٤٤ھ (لاہوری) ٭ حضرت سید اخلاص احمد پھپھوندوی بدایونی ۔۔۔۔۔۔١٣٣٨ھ ٭ حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی۔۔۔۔۔۔١٤٠١ھ (رہنما تحریک پاکستان)
۱۸ رمضان المبارک
٭ حضرت عبداللہ محض مدنی بن حسن مثنی بن امام حسن مجتبیٰ ۔۔۔۔۔۔١٣٧ھ ٭ حضرت یحییٰ بن معاذ رازی نیشاپوری ۔۔۔۔۔۔٢٥٨ھ ٭ حضرت خواجہ نصیر الدین محمود اودہی روشن چراغ۔۔۔۔۔۔ ٧٥٧ھ(دہلی) ٭ حضرت شاہ بہاؤالدین (قلعہ تمنی)۔۔۔۔۔۔٨٠٢ھ ٭ حضرت سید عابد سنامی دہلوی ۔۔۔۔۔۔١١٦٠ھ ٭ حضرت مولانا محمد عابد لاہوری ۔۔۔۔۔۔١١٦٠ھ ٭ حضرت شاہ ابو صالح پیر محمد پناہ چشتی نظامی ۔۔۔۔۔۔١١٩٣ھ (سیون) ٭ حضرت حافظ شاہ محمد عبداللہ قدوسی ۔۔۔۔۔۔١٢٥٤ھ (جے پور) ٭ مناظر اسلام قاطع شدھی تحریک حضرت علامہ غلام قطب الدین برہمچاری (ماہر علوم اساطیریات، خلیفہ قطب المشائخ شاہ علی حسین اشرفی میاں ١٣٥٠ھ ٭ حضرت مولانا ریحان رضا خاں رحمانی میاں ٭ حضرت یحییٰ بن معاویہ ٭ پیر نوازش علی چشتی صابری ۔۔۔۔۔۔١٣٦٧ھ
١٩ رمضان المبارک
٭ حضرت سید عماد الدین ابو الصمصام حسینی ۔۔۔۔۔۔٥٤٣ھ (صمصام) ٭ ابو شامّہ عبدالرحمن بن اسماعیل المقدسی (معروف عرب مؤرخ ) ٦٦٥ھ ٭ حضرت شیخ نجیب الدین متوکل دہلوی ۔۔۔۔۔۔٦٧١ھ ٭ حضرت شاہ قطب المزار بینا دل ۔۔۔۔۔۔ ٦٧٧ھ (مرزاپور) ٭ حضرت شاہ عمر کابلی ۔۔۔۔۔۔١٢٠٣ھ ٭ حضرت میاں غلام حسین ۔۔۔۔۔۔١٢٥٩ ھ(کانپور) ٭ حضرت علامہ شیخ محمد حسن امروہوی ۔۔۔۔۔۔١٣٢٣ھ(مؤلف تفسیر غایت البرہان) ٭ شیخ طریقت سائیں قمر الدین قادری نوشاہی لاہوری ۔۔۔۔۔۔ ١٣٨٩ھ / ٣٠نومبر١٩٤٩ئ۔
٢٠ رمضان المبارک
٭ حضرت ابو بکر طوسی قلندری ٭ حضرت شیخ قطب الدین چشتی جونپوری ۔۔۔۔۔۔١٠٧٦ھ ٭ حضرت شاہ رکن الدین ابو الحسن اول ۔۔۔۔۔۔١١٨٣ھ ٭ شاہ حبیب الرحمن کانپوری ۔۔۔۔۔۔١٣٢٦ھ۔
٢١ رمضان المبارک
٭ حضرت امیر المؤمنین سیدنا ابو تراب علی مرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم ۔۔۔۔۔۔٤٠ھ (نجف شریف) ٭ حضرت سیدی عبداللہ بن مبارک ۔۔۔۔۔۔١٨١ھ ٭ حضرت شیخ ابو عبداللہ حسین جوہری ۔۔۔۔۔۔٣٢٢ (مکہ) ٭ حضرت شیخ علی بازیاری ۔۔۔۔۔۔٣٨٩ھ ٭ حضرت ابو العباس خراسانی ۔۔۔۔۔۔٤٦٤ھ ٭ حضرت خواجہ عارف پارسائے نجد ۔۔۔۔۔۔٧١٥ھ ٭ حضرت امام الدین ابدال مثالی ۔۔۔۔۔۔٧٥٤ھ(طوسی) ٭ حضرت شاہ داؤد قریشی ۔۔۔۔۔۔٨١٩ھ (کوہ قرشی) ٭ پیر سید علی گوہر شاہ ۔۔۔۔۔۔٨٢٥ھ(خاندان سادات اُچ شریف) ٭ حضرت سید مکارم میرٹھی ۔۔۔۔۔۔٨٨٥ھ ٭ حضرت غیاث الدین گیلانی لاہوری ۔۔۔۔۔۔٩٩٠ھ ٭ حضرت شاہ مرتضیٰ آنند ۔۔۔۔۔۔١٠٣٧ھ ٭ حضرت حجۃ اللہ غیب اللسان دہلوی ۔۔۔۔۔۔١١٧٦ھ ٭ حضرت شاہ عبدالرحیم چشتی صابری ۔۔۔۔۔۔١٢٤٦ھ (ادّہ) ٭ حضرت امام علی موسیٰ رضا ٭ حضرت شاہ علی حسین باقی(پٹنہ) ٭ علامہ پیر محمد ہاشم جان سرہندی (اولاد مجدد الف ثانی ، رہنما تحریک پاکستان)۔۔۔۔۔۔١٣٩٥ھ
٢٢ رمضان المبارک
٭ امام ابو عبد اللہ محمد ابن ماجہ قزوینی ربعی۔۔۔۔۔۔٢٧٣ھ ٭ حضرت شیخ ابو القاسم محمد سراجی ۔۔۔۔۔۔٣٩٩ھ (حلّہ) ٭ حضرت شیخ ابو الحسن علی بن محمود زوری ۔۔۔۔۔۔٤٥١ھ (کرشک) ٭ حضرت شاہ عبداللہ صفات الاکبر ۔۔۔۔۔۔٩٥٥ھ ٭ حضرت بندگی شیخ فخر الدین فخر عالم سہروردی جونپوری ۔۔۔۔۔۔٩٩٥ھ ٭ حضرت شیخ فصیح الدین لاہوری ۔۔۔۔۔۔١٠١٩ھ ٭ حضرت علامہ شیخ محمد حسین فقیر حنفی شاذلی دہلوی ۔۔۔۔۔۔١٣٢٤ھ ٭ حضرت مولانا حسن رضا بریلوی ۔۔۔۔۔۔١٣٢٦ھ(امام السخن، برادرِ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ) ٭ حضرت مو لوی پیر محمد ہاشم جان سرہندی ثم ٹھٹھوی۔۔۔۔۔۔١٣٩٥ھ ٭ حضرت ولایت حکیم امر الحسن سہارن پوری
٢٤ رمضان المبارک
٭ حضرت ابو مصعب احمد زہری ۔۔۔۔۔۔٢٤٢ھ ٭ حضرت سیدی یحییٰ زاہد بغدادی ۔۔۔۔۔۔٤٣٠ھ ۔ ٭ مفتی سعد اللہ رامپوری ۔۔۔۔۔۔١٢٩٤ھ۔
٢٥ رمضان المبارک
٭ حضرت سیدتنا ام کلثوم بنت رسول اللہا وَرضی اللہ عنہا ۔۔۔۔۔۔٩ھ ٭ حضرت سلطان الدین علاؤ الدولہ سمنانی ۔۔۔۔۔۔٧٦٦ھ ٭ حضرت قاضی سید عبد الملک شاہ اجمل (خلیفہ مخدوم جہانیاں جہاں گشت)۔۔۔۔۔۔٨٦٤ھ ٭ شیر بیشہئ سنّت مولانا ہدایت رسول رامپوری ۔۔۔۔۔۔١٣٣٠ھ(جمعۃ الوداع ) ٭ غزالی دوراں حضرت علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی۔
٢٦ رمضان المبارک
٭ حضرت خواجہ محمد حسن انداقی ۔۔۔۔۔۔٥٥٢ھ (بخارا) ٭ حضرت شیخ قلندر شاہ قریشی حارثی ہنکاری لاہوری ۔۔۔۔۔۔١٢٤٤ھ ٭ حضرت مولانا آل احمد پھلواری ١٢٩٥ھ (بقیع) ٭ علامہ لمعان الحق انصاری لکھنوی١٣٢٥ھ ٭ حضرت مولانا سید ایوب علی رضوی قادری (تربیت یافتہ بارگاہِ اعلیٰ حضرت)١٣٩٠ھ، جمعۃ الوداع/٦نورمبر، ١٩٧٠ئ۔
٢٧ رمضان المبارک
٭ حضرت شیخ ابو العطا نفیس عجمی ٢٢٧ھ (کوہِ عطا قیس) ٭ حضرت سیدی ابو عبداللہ محمد ابن ماجہ قزوینی (صاحبِ سنن) ٢٧٣ھ ٭ حضرت شیخ حماد دیاس بن مسلم ٥٢٥ھ (شام) ٭ حضرت خواجہ صدرالدین محمد روز بہاں بصری ٦١١ھ ٭ حضرت شمس الدین محمد حنبلی٧١١ھ (مرشد آباد) ٭ حضرت دیوان محمد نور الدین اجودہنی ٨٢٤ھ ٭ حضرت محمد سلیم چشتی صابری لاہوری ١٠٣٠ھ ٭ حضرت خواجہ ابولعلاسر ہندی ١١٣٩ھ ٭ حضرت ابو الشرف شاہ پیر محمد اشرف سلونی وجدانی ولایت ١١٦٧ھ (سیلون) ٭ حضرت مولانا عبدالغنی بدایونی (خلیفہ شاہ آل احمد اچھے میاں)١٢٠٩ھ ٭ حضرت علامہ شاہ قیام الدین اصدق قادری قمیصی، چشتی، فخری١٣٠١ھ ٭ حضرت مخدوم امین محمد بن مخدوم محمد زماں ثالث ہالائی۔۔۔۔۔۔١٣٠٣ھ ٭ حضرت محمد اسماعیل کرمانوالہ١٣٨٥ھ ٭ حضرت خواجہ عزیز۔
۲۸ رمضان المبارک
٭ حضرت شیخ محمود کانپوری ۔۔۔۔۔۔٧٠٣ھ ٭ حضرت خواجہ غلام رسول ٭ مفتی زمن علامہ سید ریاض الحسن جیلانی (حیدرآباد، مصنف ریاض الفتاویٰ) ۔۔۔۔۔۔١٣٨٨ھ
٢٩ رمضان المبارک
٭ حضرت شیخ الہند بہاؤالدین سلیم چشتی ۔۔۔۔۔۔٩٧٩ھ (فتح پور سیکری) ٭ حضرت شاہ ہدایت اللہ سرست ۔۔۔۔۔۔٨٨٧ھ (سیتا پور) ٭ خواجہ خدا بخش نقشبندی ۔۔۔۔۔۔١٣٥٩ھ ٭ حضرت علامہ سید قمر الہدٰی مونگیری١٣٨٥ھ ٭ حضرت شیخ جمال الاولیاء
٣٠ رمضان المبارک
٭ حضرت ابو عثمان سعید بن منصور مروزی ۔۔۔۔۔۔٢٢٩ھ (مکہ) ٭ حضرت شیخ جمال اولیا ۔۔۔۔۔۔١٠٤٧ھ (کوڑہ)
۔۔۔۔۔۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہم و رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ۔۔۔۔۔۔
شور مہ نو سن کر تجھ تک ميں دواں آيا
ساقی ميں ترے صدقے مے دے رمضاں آيا

Shor-e-Mah-e-Nau sun kar tujh tak main dawaaN aaya
Saqi main tere sadqay, mayh day, Ramazan aaya!

Hearing the clamour about the new moon, I, rushing to you have come;
O’ Saqi, I will forever be yours, bring me some drink, Ramadan has come!

اس گل کے سوا ہر گل باگوش گراں آيا
ديکھے ہی گی اے بلبل جب وقت فغاں آيا

Iss gul kay siwa har phool baagosh giraaN aaya
Dekhe hi gee ay bulbul jab waqt-e-faghaaN aaya

With the exception of this one rose, every flower with deafening silence will come;
This the nightingale shall see, when the time of sorrow does come!

جب بام تجلی پر وہ نير جاں آيا
سر تھا جو گرا جھک کر دل تھا جو تپاں آيا

Jab baam-e-tajjali par woh naiyyar-e-jaaN aaya
sar thaa jo gira jhuk kar, dil thaa jo tapaaN aaya

When that darling of my life did reveal his Divine Light’s peak;
Every head fell down, bowed, every heart did feverish become!

جنت کو حرم سمجھا آتے تو يہاں آيا
اب تک کے ہر ايک کا منہ کہتا ہوں کہاں آيا

Jannat ko Haram samjha aatay to yahaaN aaya
Ab tak kay har aik ka munH kehta hoon “kahaaN aaya?”

Having mistaken Paradise for Madina, here I have come;
Now looking at every face, I ask “whither have I come?!”

طيبہ کے سوا سب باغ پامال فنا ہونگے
ديکھو گے چمن والو جب عہد خزاں آيا

Taybah ke siwa sab baagh paamaal-e-fanaa hongay
Dekho gay chaman walo jab ahd-e-khizaaN aaya!

Except for Madina all gardens will become annihilated, trampled;
You will see this O’ denizens of the garden, when winter does come!

سر اور وہ سنگ در آنکھ اور وہ بزم نور
ظالم کو وطن کا دھيان آيا تو کہاں آيا

Sar aur woh sang-e-dar, Aankh aur woh bazm-e-noor
Zaalim ko watan ka dhyaan aaya to kahaaN aaya

The head and the stones of that abode, the eyes and that place of light;
The ingrate is thinking of his homeland after here having come!

کچھ نعت کے طبقے کا عالم ہی نرالا ہے
سکتہ ميں پڑی ہے عقل چکر ميں گماں آيا

kuch naat ke tabqay ka aalam hi niraala hai
Saktay mein paRee hai ’Aql, chakkar mein gumaaN aaya!

The art of writing poetry in the Prophet’s honour is unique indeed;
The intellect has become dazed, dizzy has the imagination become!

جلتی تھی زميں کيسی تھی دھوپ کڑی کيسی
لو وہ قد بے سايہ اب سايہ کناں آيا

jalti thi zameen kaisee thi, dhoop kaRee kaisee
lo, woh qad-e-bay-saaya ab saaya-kinaaN aaya!

How the ground beneath did burn, how fierce was the heat;
Here! That Shadowless Prophet has a cool shadow for us become!

طيبہ سے ہم آتے ہيں کہئے تو جناں والو
کيا ديکھ کے جيتا ہے جو واں سے يہاں آيا

Taybah se hum aatay hain kehiye to jinaaN waalo
Kya dekh kar jeeta hai jo waaN se yahaN aaya!

I have just come from Madina O’ dwellers of Paradise;
How does one survive, who from there to here does come?!

لے طوق الم سے اب آزاد ہو اے قمری
چٹھی لئے بخشش کی وہ سرو رواں آيا

lay tawq-e-alam say ab aazaad ho ay qumri
chiTThee liye bakhshish ki woh Sarwar rawaaN aaya

There! Be freed now from the ring of pain O’ carrier-pigeon;
With a letter of forgiveness in his hand, that Chieftain has come!

نامہ سے رضا کے اب مٹ جاؤ برے کامو
ديکھو مرے پلہ پر وہ اچھے مياں آيا

Naama say Raza kay ab miT buray kaamo
dekh meray pallah par woh Acchay Mian aaya

Be erased from Raza’s Tablet of Deeds o’ bad works;
Look! Here to my aid my Acchay Mian has come!

بدکار رضاخوش ہو بد کام بھلے ہونگے
وہ اچھے مياں پيارا اچھوں کا مياں آيا

Badkaar Raza khush ho bad kaam bhalay hongay
Woh Acchay Mian pyaara acchoN ka miyaaN aaya!

Be happy Raza all bad things will be transformed into good;
That beloved Acchay Mian, master of all good people has come!

Note to verses 11/12. Acchay Mian was the nick name of Ala Hadrat’s Sufi Shaykh. It means ’Good Sir’. In verse 12 there is a play on the words so that it can mean either that Acchay Mian came or the ’Sir of all good sires’ – i.e. Beloved Muhammad al Mustafa SallAllahu Alaihi wa Sallam has come!


Poetry: AlaHadrat Imam Ahmad Rida al-Qadiri

اسلامی سال کا پہلا مہینہ محرم الحرام ہے ۔ محرم کو محرم اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس ماہ میں جنگ و قتال حرام ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے اور اس مہینہ میں عاشورہ کا دن بہت معظم ہے یعنی دسویں محرم کا دن ۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٢٥١)
محرم کی پہلی رات کے نوافل
ماہِ محرم کی پہلی شب میں چھ رکعات تین سلام کے ساتھ ادا کرے ۔ اس کی ہر رکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد گیارہ مرتبہ سورۃ اخلاص اور تین بار سُبْحَانَ الْمَلِکُ الْقُدُّوْسٌ پڑھے۔ اس کا بہت زیادہ ثواب ہے۔ پھرمحرم کے مہینے کی ہر شب سوبار پڑھے
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ، لَا شَرِیْکَ لَہ، ۔ لَہ، الْمُلْکُ وَلَہ، الْحَمْدُ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَہُوَ حَیٌّ الَّا یَمُوْتُ اَبْدًا ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ اَللّٰہُمَ لَا مَانِعُ لِمَا اَعْطَیْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا یَنْفَعُ ذُالْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُ
(ترجمہ) سوائے اللہ کے کوئی معبود نہیں ہے ۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ ملک اُسی کا ہے، تعریف اُسی کے لیے ہے۔ زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے۔ وہ زندہ ہے اور نہیں مرے گا۔ صاحبِ جلا ل اور اکرام ہے ۔ اے اللہ اس چیز کا جو تونے دی کوئی مانع نہیں ہے اور جس چیز کو تونے روک دیا اسے کوئی نہیں دے سکتا اور صاحب دولت کو تجھ سے بے نیاز ہونا کوئی نفع نہیں دیتا۔ (لطائف اشرفی، صفحہ ٣٣٢)
تمام سال کی حفاظت اور برکت
یکم محرم شریف کے دن دو رکعت نماز نفل پڑھے کہ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد تین بار سورۃ الاخلاص پڑھے۔ سلام کے بعد ہاتھ اٹھا کر یہ دعا پڑھے
اَللّٰہُمَّ اَنْتَ اللّٰہُ الْاَبَدُ الْقَدِیْمُ ہٰذِہ سَنَہٌ جَدِیْدَۃٌ اَسْئَلُکَ فِیْہَا الْعِصْمَۃَ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ وَالْاَمَانَ مِنَ السُّلْطَانِ الْجَابِرِ وَمِنْ شَرِّ کُلِّ ذِیْ شَرٍّ وَّمِنَ الْبَلَاءِ وَ الْاٰفَاتِ وَاَسْئَلُکَ الْعَوْنَ وَالْعَدْلَ عَلٰی ہٰذِہِ النَّفْسِ الْاَمَّارَۃِ بِالسُّوْءِ وَالْاِشْتِغَالِ بِمَا یُقَرِّبُنِیْ اِلَیْکَ یَا بَرُّ یَا رَءُ وْفُ یَا رَحِیْمُ یَا ذَالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ۔
جو شخص اس نماز کو پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس کے اوپر دو فرشتے مقرر فرمادے گا تاکہ وہ اس کے کاروبار میں اس کی مدد کریں۔ اور شیطان لعین کہتا ہے کہ افسوس میں اس شخص سے تمام سال ناامید ہوا۔ (فضائل الایام والشہور ، صفحہ ٢٦٨، ٢٦٩)
دعائے محرم الحرام
پہلی محرم الحرام کو جو یہ دعا پڑھے تو شیطانِ لعین سے محفوظ رہے اور سارا سال دو فرشتے اس کی حفاظت پر مقرر ہوںگے ۔ دعا یہ ہے:
اَللّٰہُمَّ اَنْتَ الْاَبَدِیُّ الْقَدِیْمُ وَہٰذِہ سَنَۃٌ جَدِیْدَۃٌ اَسْئَلُکَ فِیْہَا الْعِصْمَۃَ مِنَ الشَّیْطٰنِ وَاَوْلِیَائِہ وَالْعَوْنَ عَلٰی ہٰذِہِ النَّفْسِ الْاَمَّارَۃِ بِالسُّوْءِ وَالْاِ شْتِغَالَ بِمَا یُقَرِّ بُنِیْ اِلَیْکَ یَا کَرِیْمُ (فضائل الایام الشہور صفحہ ٢٦٧، بحوالہ نزہۃ المجالس)
یومِ عاشورہ
عاشورہ کی وجہ تسمیہ میں علما ء کا اختلاف ہے اس کی وجہ مختلف طور پر بیان کی گئی ہے ، اکثر علماء کا قول ہے کہ چونکہ یہ محرم کا دسواں دن ہوتا ہے اس لئے اس کو عاشورہ کہا گیا، بعض کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بزرگیاں دنوں کے اعتبار سے امت محمدیہ کو عطا فرمائی ہیں اس میں یہ دن دسویں بزرگی ہے اسی مناسبت سے اس کو عاشورہ کہتے ہیں ۔
یوم عاشورہ کی فضیلت
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشورا کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ ان سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا : اس دن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ عطا کیا۔ ہم اس کی تعظیم کرتے ہوئے اس کا روزہ رکھتے ہیں ۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہم موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ قریب ہیں، چنانچہ آپ نے اس کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (مکاشفۃ القلوب، صفحہ ٦٩٨ از امام محمد غزالی علیہ الرحمہ )
یومِ عاشورہ کے فضائل میں بکثرت روایات آتی ہیں ۔ اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی، اس دن ان کی پیدائش ہوئی، اسی دن جنت میں داخل کیے گئے۔ اسی دن عرش، کرسی ، آسمان وزمین، سورج ، چاند ستارے اور جنت پیدا ہوئے۔ اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام پیداہوئے، اسی دن انہیں آگ سے نجات ملی، اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو نجات ملی اور فرعون اور اس کے ساتھی غرق ہوئے ۔ اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے ، اور اسی دن وہ آسمان پر اٹھالیے گئے۔ اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو بلند مقام (آسمان) پراٹھالیا گیا۔ اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر لگی۔ اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نجات ملی ۔ اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو عظیم سلطنت عطا ہوئی ۔اسی دن حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی واپس ہوئی ۔ اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کی تکلیف دُور ہوئی۔ اسی دن زمین پر آسمان سے پہلی بارش ہوئی۔ (مکاشفۃ القلوب ، صفحہ ٦٩٩)
نوافل برائے شبِ عاشورہ
٭ جو شخص اس رات میں چار رکعات نماز پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد پچاس ٥٠ مرتبہ سورہئ اخلاص پڑھے تو اللہ عزوجل اس کے پچاس برس گزشتہ اور پچاس سال آئندہ کے گناہ بخش دیتا ہے۔ اور اس کے لئے ملاءِ اعلیٰ میں ایک محل تیار کرتا ہے۔
٭ اس رات دو ٢ رکعات نفل قبر کی روشنی کے واسطے پڑھے جاتے ہیں جن کی ترکیب یہ ہے کہ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد تین تین مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے۔ جو آدمی اس رات میںیہ نماز پڑھے گا تو اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت تک ا س کی قبر روشن رکھے گا۔
عاشورے کے روزے رکھنے کی فضیلت
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: اگر مومن اللہ کی راہ میں روئے زمین پر مال خرچ کرے تو اسے (اس قدر) بزرگی حاصل نہ ہوگی جس قدر کوئی عاشورے کے روز روزہ رکھے۔ اس کے لیے جنت کے آٹھ دروازے کھل جائیں ، وہ جس دروازے سے داخل ہونا پسند کرے گا داخل ہوگا۔ (لطائف اشرفی ، صفحہ ٣٣٦)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: جو شخص عاشورے کے دن روزہ رکھے پس شب و روز کی ساعتوں میں ہر ساعت اللہ تعالیٰ اُن ساعتوں کی ہر ساعت کے بدلے اس پر سات لاکھ فرشتے نازل فرمائے گا جو قیامت تک دعا اور استغفار کریں گے اور بے شک اللہ تعالیٰ کی آٹھ جنتیں ہیں، اللہ تعالیٰ ہر بہشت میں ساٹھ لاکھ فرشتے مقرر کرے گا کہ (عاشورے کے روزے دار کےلئے ) روزہ رکھنے کے دن سے اس بندے اور بندی کی موت تک محلات اور شہر تعمیر کرے ، درخت اُگائیں، نہریں جاری کریں۔ (لطائف اشرفی ، صفحہ ٣٣٦)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: جس شخص نے عاشورے کے دن کا روزہ رکھا اس کا اجر توریت، انجیل ، زبور اور قرآن میں جتنے حرف ہیں ان کی تعداد کے مطابق ہر حرف پر بیس نیکیاں ہونگی۔ جس شخص نے عاشورے کے دن کا روزہ رکھا اسے ایک ہزار شہیدوں کا ثواب ملے گا۔ (لطائف اشرفی ، صفحہ ٣٣٦)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: جس شخص نے عاشورے کے دن کا روزہ رکھا خاموشی اور سکوت میں وہ روزہ اس کے اُس سال کے گناہوں اور خطاؤں کا کفارہ ہوگا، اور جو شخص کامل قیام، رکوع اور سجود کے ساتھ دو رکعت نماز خضوع سے پڑھے اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس بندے کی جزا کیا ہونی چاہیے پس فرشتے عرض کریں گے کہ اللہ تعالیٰ تو ہی خوب جانتا ہے پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس کے حساب میں ہزار ہزار نیکیاں لکھی جائیں اور ہزار ہزار بدی مٹادی جائیں۔ اس کارتبہ ہزار ہزار درجے بلند کیا جائے۔ ہم نے اپنی بزرگی کے ہزار ہزار دروازے کھول دیے ہیں جو اس پر کبھی بند نہ کیے جائیں گے۔ (لطائف اشرفی ، صفحہ ٣٣٦)
ایصالِ ثواب برائے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
امیر المومنین امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کے ایصال ثواب کیلئے دورکعات نماز ادا کرے اور دونوں رکعتوں میں فاتحہ کے بعد دس بار سورہ اخلاص پڑھے ۔ سلام کے بعد نو ٩ نو ٩ بار آیت الکرسی اور درود شریف پڑھے۔ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اس روز دو رکعت نماز ادا فرماتے تھے۔ اس کی پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد اَلَمْ نَشْرَحْ اور دوسری میں اِذَاجَآءَ  پچیس پچیس بار پڑھے۔ (لطائف اشرفی ، صفحہ ٣٣٨)
ہر حاجت پوری ہوگی (ان شاء اللہ)
جو شخص عاشورے کے روز حاجت کے لیے یہ دعا مانگے اس کی حاجت پوری ہوگی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
اِلٰہِیْ بُحُرْمَتِ الْحُسَیْنِ وَ اَخِیْہِ وَ اُمِّّہِ وَ اَبِیْہِ وَجَدِّہِ وَ بَنِیْہِ فَرِّجْ عَمَّا اَنَا فِیْہِ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ اَجْمَعِیْنَ
(ترجمہ) اللہ کے نام سے شروع بڑا مہربان نہایت رحم والا۔ اے اللہ! حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اُن کے بھائی، اُن کی والدہ، اُن کے والد اور اُن کے نانا کی حرمت کے واسطے سے میں جس حاجت میں ہوں وہ مجھ پر کھول دے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بہترین خلائق محمدا پر اور آپ ا کی تمام آل پر رحمت فرما۔ (لطائف اشرفی ، صفحہ ٣٣٨)
یومِ عاشورہ کے ممنوعات
عاشورہ کے دن سیاہ کپڑے پہننا، سینہ کوبی کرنا، کپڑے پھاڑنا، بال نوچنا، نوحہ کرنا، پیٹنا، چھری چاقو سے بدن زخمی کرنا جیسا کہ رافضیوں کا طریقہ ہے حرام اور گناہ ہے اِیسے افعال شنیعہ سے اجتناب ِ کلی کرنا چاہیے۔ ایسے افعال پر سخت ترین وعیدیں آئی ہیں جن میں سے چند تحریر کی جاتی ہیں:
حدیث ١
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے روایت ہے کہ فرمایا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہ ہمارے طریقے پر وہ نہیں ہے جو رخساروں کو مارے اور گریبان پھاڑے اور پکارے جاہلیت کا پکارنا۔ (فضائل الایام والشہور ، صفحہ ٢٦٤۔ بحوالہ مشکوۃ صفحہ ١٥٠)
حدیث ٢
سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نے فرمایا کہ ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، پر بے ہوشی طاری ہوگئی پس آئی اس کی عورت جس کی کنیت ام عبداللہ تھی اس حال میں رونے کے ساتھ آواز کرتی تھی۔ جب ان کو افاقہ ہوا تو کہا کیا تو نہیں جانتی اور تھے ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، جو اس کو خبر دے رہے تھے کہ پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: میں بیزار ہوں اس شخص سے جو بال منڈائے اور بلند آواز سے روئے اور کپڑے پھاڑے۔
حدیث ٣
سیدنا حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے مروی ہے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا چار خصلتیں میری امت میں جاہلیت کے کام سے پائی جاتی ہیں فخر کرنا، اپنے حسب میں طعن کرنا، عیب نکالنا لوگوں کی نسب میں، بارش طلب کرنا ستاروں سے اور ماتم میں نوحہ کرنا ۔ اور فرمایا نوحہ کرنے والی مرنے سے قبل توبہ نہ کرے تو قیامت کے روز کھڑی کی جائے گی اس حال میں کہ گندھک کی قمیص اس پر ہوگی اور ایک قمیص خارش والی ہوگی۔
ایک سال تک زندگی کا بیمہ (دعائے عاشورہ)
یہ دعا بہت مجرب ہے حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو شخص عاشورہ محرم کے طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک اس دعا کوپڑھ لے یا کسی سے پڑھوا کر سن لے تو ان شاء اللہ تعالیٰ یقینا سال بھر تک اس کی زندگی کا بیمہ ہو جائے گا۔ ہرگز موت نہ آئے گی اور اگر موت آنی ہی ہے تو عجیب اتفاق ہے کہ پڑھنے کی توفیق نہ ہوگی۔ وہ دعا یہ ہے :۔
یَا قَابِلَ تَوْبَۃِ اٰدَمَ یَوْمَ عَاشُوْرَآئَ۔
یَا فَارِجَ کَرْبِ ذِی النُّوْنَ یَوْمَ عَاشُوْرَآئَ۔
یَا جَامِعَ شَمْلِ یَعْقُوْبَ یَوْمَ عَاشُوْرَآئَ۔
یَا سَامِعَ دَعْوَۃِ مُوْسٰی وَ ھٰرُوْنَ یَوْمَ عَاشُوْرَآئَ۔
یَا مُغِیْثَ اِبْرَاہِیْمَ مِنَ النَّارِ یَوْمَ عَاشُوْرَآئَ۔
یَا رَافِعَ اِدْرِیْسَ اِلَی السَّمَآءِ یَوْمَ عَاشُوْرَآءَ ۔
یَا مُجِیْبَ دَعْوَۃِ صَالِحٍ فِی النَّاقَۃِ یَوْمَ عَاشُوْرَآئَ۔
یَا نَاصِرَ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ عَاشُوْرَآءَ ۔
یَا رَحْمٰنَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ رَحِیْمُھُمَا صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ صَلِّ عَلٰی جَمِیْعِ الْاَنْبِیَآءِ وَ الْمُرْسَلِیْنَ وَاقْضِ حَاجَاتِنَا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اَطِلْ عُمُرَنَا فِیْ طَاعَتِکَ وَ مَحَبَّتِکَ وَ رِضَاکَ وَ اَحْیِنَاحَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَّ تَوَفَّنَا عَلَی الْاِیْمَانِ وَ الْاِسْلَامِ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ط اَللّٰھُمَّ بِعِزِّ الْحَسَنِ وَ اَخِیْہِ وَ اُمِّہٖ وَ اَبِیْہ وَ جَدِّہ وَ بَنِیْہ فَرِّجْ عَمَّا مَا نَحْنُ فِیْہِ ط
پھر سات بار پڑھے
سُبْحَانَ اللّٰہِ مِلْءَ الْمِیْزَانِ وَ مُنْتَھَی الْعِلْمِ وَ مَبْلَغَ الرِّضٰی وَ زِنَۃِ الْعَرْشِ لَا مَلْجَاءَ وَ لَا مَنْجَاءَ مِنَ اللّٰہِ اِلَّا اِلَیْہِ ط سُبْحَانَ اللّٰہِ الْشَفْعِ وَ الْوِتْرِ وَ عَدَدَ کَلِمَاتِ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ط وَ ھُوَ حَسْبُنَا وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ ط نِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْرُ ط وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ ط وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہ وَ صَحْبِہ وَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ وَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمَاتِ عَدَدَ ذَرَّاتِ الْوُجُوْدِ وَ عَدَدَ مَعْلُوْمَاتِ اللّٰہِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ط
محرم الحرام شریف میں رونما ہونے والے اہم واقعات

٭عاشورہ کا روزہ رکھنے کا آپ ا نے حکم فرمایا ٭سیدتنا امّ کلثوم بنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت عثمان ذوالنورین سے۔۔۔۔۔۔٣ھ ٭غزوہئ خیبر۔۔۔۔۔۔٦ھ ٭عام الوفود (ساٹھ وفود آئے جنہیں سرکار علیہ الصلوٰۃ و السلام نے تعلیم دی اور تحائف بھی دیئے۔۔۔۔۔۔٩ھ ٭طاعون عمواس۔۔۔۔۔۔١٨ھ ٭وفات ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ ٭امارت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔١٩ھ ٭مصر میں عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ کا داخلہ۔۔۔۔۔۔٢١ھ ٭فتح نہاوند۔۔۔۔۔۔٢٢ھ ٭شہادت حضرت امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ۔۔۔۔۔۔٢٤ھ٭خلافت حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٢٤ھ ٭فتح سابور ۔۔۔۔۔۔٢٦ھ ٭فتح قبرص۔۔۔۔۔۔٢٨ھ ٭واقعہ صفین۔۔۔۔۔۔٣٧ھ ٭وفات خوات رضی اللہ تعالی عنہ و عقبہ رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٤٠ھ ٭فتوحاتِ افریقہ۔۔۔۔۔۔٤٥ھ ٭وفات حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٥١ھ ٭وفات عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٥٣ھ ٭وفات سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٥٥ھ ٭وفات ام المؤمنین حضرت جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔۔۔۔۔۔٥٦ھ ٭وفات سمرۃ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٦٠ھ ٭سانحہ کربلا(سیدنا امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ١٤٦ اصحاب کی شہادت عمل میں آئی)۔۔۔۔۔۔٦١ھ ٭وفات مسلم بن عقبہ (فاتح افریقہ)۔۔۔۔۔۔٦٤ ھ ٭خلافت مروان۔۔۔۔۔۔٦٥ھ ٭وفات عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٧٤ھ ٭فتح فرغانہ ۔۔۔۔۔۔٨٨ھ ٭فتح میورقہ و منورقہ۔۔۔۔۔۔٨٩ھ ٭وفات کریب موٹی بن عباس۔۔۔۔۔۔٩٨ھ ٭فتح غور۔۔۔۔۔۔١٠٨ھ ٭زید بن علی کی شہادت۔۔۔۔۔۔١٢٢ھ ٭مراکش و الجیریا میں جنگ۔۔۔۔۔۔١٢٣ھ ٭میسرہ کی مغرب میں بغاوت۔۔۔۔۔۔١٢٤ھ ٭ضحاک خارجی کا خروج اور قتل۔۔۔۔۔۔١٢٨ھ ٭ابو مسلم کا خراسان پر قبضہ۔۔۔۔۔۔١٣١ھ ٭بنو امیہ کا قتل عام ۔۔۔۔۔۔١٣٣ھ٭کوفہ سے انبار کو دار الخلافہ منتقل کیا گیا۔۔۔۔۔۔١٣٤ھ ٭وفات عطاء بن السائب الکونی۔۔۔۔۔۔١٣٦ھ ٭خلافت منصور العباسی۔۔۔۔۔۔١٣٧ھ ٭قیصر روم کی شکست۔۔۔۔۔۔١٣٨ھ ٭عطیہ کی دوبارہ آبادی۔۔۔۔۔۔١٣٩ھ ٭قلعہ مصیصہ کی تعمیر جدید۔۔۔۔۔۔١٤٠ھ ٭فرقہ راوندیہ کی ابتداء۔۔۔۔۔۔١٤١ھ ٭بغاوتِ ویلم ۔۔۔۔۔۔١٤٣ھ ٭محمد بن السفاح کی بغاوت۔۔۔۔۔۔١٤٤ھ ٭قبرص پر مکمل قبضہ۔۔۔۔۔۔١٤٦ھ ٭کفار آرمینا کی بغاوت۔۔۔۔۔۔١٤٧ھ ٭استاذ سیلس کا دعوائے نبوت۔۔۔۔۔۔١٥٠ھ ٭وفات محمد بن اسحق اخباری۔۔۔۔۔۔١٥١ھ ٭افریقہ میں اباضیہ کا زور۔۔۔۔۔۔١٥٣ھ ٭وفات سعید بن ابی عروبہ ۔۔۔۔۔۔١٥٦ھ ٭خالد برمکی پر جرمانہ۔۔۔۔۔۔١٥٨ھ ٭مسجد نبوی میں توسیع۔۔۔۔۔۔١٦١ھ ٭جنگ روم۔۔۔۔۔۔١٦٢ھ ٭وفاتِ خلیفہ المہدی العباسی۔۔۔۔۔۔١٦٩ھ ٭وفات عبدالواحد بن زید البصری۔۔۔۔۔۔١٧٧ھ ٭جعفر برمکی کا قتل ۔۔۔۔۔۔١٨٧ھ ٭ہارون کے فتوحاتِ روم۔۔۔۔۔۔١٩٠ھ ٭آزر بائیجان میں خرامیہ کا ظہور۔۔۔۔۔۔١٩٢ھ ٭امین اور مامون کے درمیان جنگ۔۔۔۔۔۔١٩٥ھ ٭وفات ابو نواس شاعر۔۔۔۔۔۔١٩٦ھ ٭خلیفہ امین الرشید کا قتل و غارت۔۔۔۔۔۔١٩٨ھ ٭عباسیوں کی مردم شماری۔۔۔۔۔۔٢٠٠ھ ٭دولت اغلبیہ کی ابتدائ۔۔۔۔۔۔٢٠١ھ ٭وفات یحییٰ بن مبارک نحوی۔۔۔۔۔۔٢٠٢ھ ٭وفات طاہر ذوالیمینن۔۔۔۔۔۔٢٠٧ھ ٭تفضیلِ علی کا سرکاری حکم۔۔۔۔۔۔٢١١ھ ٭وفات اسد بن انصرات المغربی۔۔۔۔۔۔٢١٣ھ ٭شہر طوانہ کی تعمیر ۔۔۔۔۔۔٢١٨ھ ٭بابک الخرمی کا قتل۔۔۔۔۔۔١٢٣ھ ٭فرغانہ میں شدید زلزلہ۔۔۔۔۔۔١٢٤ھ ٭مکہ میں سخت گرانی۔۔۔۔۔۔٢٢٨ھ ٭شہادت احمد الخزاعی۔۔۔۔۔۔٢٣١ھ ٭عراق میں آندھی۔۔۔۔۔۔٢٣٤ھ ٭وفات اسحق موصلی الندیم۔۔۔۔۔۔٢٣٥ھ ٭متوکل نے کربلا کے تمام نشانات مٹادئیے۔۔۔۔۔۔٢٣٦ھ ٭وفات حافظ احمد الاشقر۔۔۔۔۔۔٢٤٣ھ ٭وفات وعبل الشاعر ۔۔۔۔۔۔ ٢٤٦ھ ٭قتل المستعین و خلافت المعتز۔۔۔۔۔۔٢٥٢ھ ٭وفات حافظ احمد بن سعید الدارمی۔۔۔۔۔۔٢٥٣ھ ٭دولت صفاریہ کی ابتداء۔۔۔۔۔۔٢٥٤ھ ٭بصرہ میں زنگیوں کی شورش۔۔۔۔۔۔٢٥٧ھ ٭واسط میں زنگیوں کا فساد۔۔۔۔۔۔٢٦٤ھ ٭وفات ابو معشر المنجم۔۔۔۔۔۔٢٧١ھ ٭مصر میں زلزلہ ۔۔۔۔۔۔٢٧٢ھ ٭جنگ مابین خمارویہ و ابن الساج۔۔۔۔۔۔٢٧٦ھ ٭وفات ابو حاتم الرزی۔۔۔۔۔۔٢٧٧ھ ٭قرامطہ کا ظہور۔۔۔۔۔۔٢٧٨ھ ٭منجموں کی بندش۔۔۔۔۔۔٢٧٩ھ ٭سرکاری جشنِ نوروز کی ممانعت۔۔۔۔۔۔٢٨٣ھ ٭قرمطیوں سے جنگ۔۔۔۔۔۔٢٨٧ھ ٭وفات ثابن بن قرۃ الحکیم۔۔۔۔۔۔٢٨٨ھ ٭وفات محدث ابوبکر البزاز صاحب المسند۔۔۔۔۔۔٢٩٢ھ ٭وفات ابو العباس، الشاعر المتکلم۔۔۔۔۔۔٢٩٣ھ ٭شام میں قرامطہ کے مظالم۔۔۔۔۔۔٢٩٤ھ ٭وفات ابو العباس ابن مسروق ۔۔۔۔۔۔٢٩٨ھ ٭وزیر ابن الفرات کی گرفتاری۔۔۔۔۔۔٢٩٩ھ ٭وفات زندیق الراوندی۔۔۔۔۔۔ ٣٠١ھ ٭رومیوں کے خلاف جہاد۔۔۔۔۔۔٣٠٤ھ ٭رومیوں کا سفیر بغداد آیا۔۔۔۔۔۔٣٠٥ھ ٭وفات محدث ابو یعلی الموصلی صاحب المسند۔۔۔۔۔۔٣٠٧ھ ٭مصر پر عباسیوں کا قبضہ۔۔۔۔۔۔ ٣٠٩ھ ٭بصرہ میں قرامطہ کے مظالم۔۔۔۔۔۔٣١١ھ ٭فتح فرغانہ ۔۔۔۔۔۔٣١٢ھ ٭ابوعلی بن مقلہ وزیر ہوا ۔۔۔۔۔۔٣١٦ھ ٭ابو منصور القاھر العباسی کی صرف دو یوم کی خلافت۔۔۔۔۔۔٣١٨ھ ٭وفات شیخ المعتزلہ الکعبی۔۔۔۔۔۔٣١٩ھ ٭ویلمیوں کا فارس پر قبضہ۔۔۔۔۔۔٣٢٠ھ ٭اصفہان میں قحط۔۔۔۔۔۔ ٣٢٤ھ ٭خلیفہ ئ عباسی کے قبضہ میں صرف بغداد رہ گیا۔۔۔۔۔۔٣٢٥ھ ٭البیریدی وزیر ہوا ۔۔۔۔۔۔٣٢٦ھ ٭بغداد میں قحط اور وباء ۔۔۔۔۔۔٣٣٠ھ ٭وفت حافظ ابن عقدہ۔۔۔۔۔۔٣٣٢ھ ٭بغداد میں سیلاب۔۔۔۔۔۔٣٣٧ھ ٭شعیہ سنی فسادات۔۔۔۔۔۔٣٣٨ھ ٭قرامطہ کا استیصال ۔۔۔۔۔۔ ٣٤٠ھ ٭وفات ابو علی اصفار النحوی۔۔۔۔۔۔٣٤١ھ ٭سیف الدولہ کی رومیوں پر فتح۔۔۔۔۔۔٣٤٢ھ ٭وفات شیخ الکوفہ ابو الحسن۔۔۔۔۔۔٣٤٣ھ ٭عراق میں روزبہاں کی بغاوت۔۔۔۔۔۔٣٤٥ھ ٭عراق و شام پر رومیوں کا حملہ ۔۔۔۔۔۔٣٤٧ھ ٭شعیہ سنی فسادات۔۔۔۔۔۔٣٤٨ھ ٭دو٢ لاکھ تُرک اسلام پر ایمان لائے۔۔۔۔۔۔٣٤٩ھ ٭وفات فاتک مجنون رومی۔۔۔۔۔۔٣٥٠ھ ٭شام پر رومیوں کے حملے اور مظالم ۔۔۔۔۔۔٣٥١ ٭نوحہ، ماتم اور مراسم محرم کی ابتداء ۔۔۔۔۔۔٣٥٢ھ ٭وفات ابو علی السکن۔۔۔۔۔۔٣٥٣ھ ٭وفات ابو بکر الحداد مصری ۔۔۔۔۔۔ ٣٥٤ھ ٭وفات قاضی منذر البلوطی۔۔۔۔۔۔٣٥٥ھ ٭سرکاری طور پر جبراً ماتم۔۔۔۔۔۔٣٥٦ھ ٭وفا احمد السندی۔۔۔۔۔۔٣٥٩ھ ٭دمشق پر فاطمیوں کا قبضہ۔۔۔۔۔۔٣٦٠ھ ٭وفات معرمول خلیفہ المطیع العباسی۔۔۔۔۔۔٣٦٤ھ ٭وفات ابو بکر احمد ختلی۔۔۔۔۔۔٤٦٥ھ ٭نوبت بجنے کی ابتداء۔۔۔۔۔۔٣٦٨ھ ٭وفات حافظ ابو الشیخ۔۔۔۔۔۔٣٦٩ھ ٭وفات ابن خالویہ نحوی۔۔۔۔۔۔٣٧٠ھ ٭بغداد میں شدید قحط۔۔۔۔۔۔٣٧٢ھ ٭شمس الدولہ ابن البویہ کی ولادت۔۔۔۔۔۔٣٧٣ھ ٭دنیا کی سب سے بڑی رصد گاہ بغداد میں تعمیر کی گئی۔۔۔۔۔۔٣٧٨ھ ٭وفات ابو جعفر المتکلم الجوہری۔۔۔۔۔۔٣٧٩ھ ٭وفات الوزیر الیہودی بن کلبی۔۔۔۔۔۔٣٨٩ھ ٭جے پال سے دوسری جنگ۔۔۔۔۔۔٣٨١ھ ٭بغداد میں فوجی فسادات۔۔۔۔۔۔٣٨٢ھ ٭وفات فقیہ ابن بطۃ العکبری۔۔۔۔۔۔٣٨٧ھ ٭شدتِ سرما(بغداد)۔۔۔۔۔۔٣٨٨ھ ٭وفات ابو عمر و الباجی۔۔۔۔۔۔٣٩٦ھ ٭ظہور ابورکوہ مدعی امامت۔۔۔۔۔۔٣٩٧ھ ٭بغداد میں فسادات۔۔۔۔۔۔٣٩٨ھ ٭وفات ابن میمون الطلیطلی ۔۔۔۔۔۔ ٤٠٠ھ ٭موصل میں فاطمی خطبہ۔۔۔۔۔۔٤٠١ھ ٭تحقیق نسب نامہئ عبیدین۔۔۔۔۔۔٤٠٢ھ ٭وفات حافظ سلیمان البیکندی ۔۔۔۔۔۔ ٤٠٤ھ ٭اندلس میں علی الناصر بن جمود حاکم ہوا۔۔۔۔۔۔٤٠٧ھ ٭بغداد میں فسادات۔۔۔۔۔۔٤٠٨ھ ٭وفات قاضی منصور ہراتی۔۔۔۔۔۔٤١٠ھ ٭ایک مصری باطنی نے حجر اسود کو ہتھوڑا مار کر توڑ دیا۔۔۔۔۔۔٤١٣ھ ٭وفات ابو عبداللہ الغفاری ۔۔۔۔۔۔٤١٤ھ ٭وفات ابو اسحق الاسفرائینی۔۔۔۔۔۔٤١٨ھ ٭عراق میں شدید ژالہ باری۔۔۔۔۔۔٤٢٠ھ ٭مسعود غزنوی نے اصفہان کو تاراج کیا۔۔۔۔۔۔٤٣٢ھ ٭وفات امام المفسرین ابو اسحق۔۔۔۔۔۔٤٢٧ھ ٭وفات ابو بکر الاصبہانی صاحب۔۔۔۔۔۔٤٢٨ھ ٭وفات ابو یعقوب القراب۔۔۔۔۔۔٤٢٩ھ ٭وفات ابو نعیم الاصبہانی۔۔۔۔۔۔٤٣٠ھ ٭فاطمیوں نے ابو بکر نام رکھنے کی ممانعت کردی۔۔۔۔۔۔٤٣١ھ ٭وفات امیر قرطبہ جمہور بن محمد ۔۔۔۔۔۔٤٣٥ھ ٭بغداد میں اذان کے ساتھ نوبت۔۔۔۔۔۔٤٣٦ھ ٭وفات ابو علی المالکی صاحب الرومنہ۔۔۔۔۔۔٤٣٨ھ ٭مراکش میں الجیریا میں دوبارہ عباسی خطبہ۔۔۔۔۔۔٤٤٩ھ ٭بغداد میں فرقہ وارانہ فسادات۔۔۔۔۔۔٤٤٣ھ ٭وفات ابو القاسم التنوخی۔۔۔۔۔۔٤٤٧ھ ٭مصر میں قحط اور وبائ۔۔۔۔۔۔٤٤٨ھ ٭عراق میں شدید قحط اور وباء۔۔۔۔۔۔٤٤٩ھ ٭وفات ابو القاسم الغفاف۔۔۔۔۔۔٤٥٠ھ ٭وفات ابو الفضل بن عمروس۔۔۔۔۔۔٤٥٢ھ ٭وفات محمد بن حمدون السلمی۔۔۔۔۔۔٤٥٥ھ ٭وفات خدیجہ بغدادیہ٤٦٠ھ ٭وفات ابو القاسم محمود الفورانی۔۔۔۔۔۔٤٦١ھ ٭شام میں زلزلہ۔۔۔۔۔۔٤٦٢ھ ٭قتل ابو شجاع۔۔۔۔۔۔٤٦٥ھ ٭عراق مین زبردست سیلاب۔۔۔۔۔۔٤٦٦ھ ٭طلیطلہ پر عیسائیوں کا قبضہ ۔۔۔۔۔۔٤٧٨ھ ٭حرمین میں عباسیوں کے نام کا خطبہ۔۔۔۔۔۔٤٧٩ھ ٭شہادت عبدالملک الیصری ۔۔۔۔۔۔٤٨٤ھ ٭شہادت نظام الملک الوزیر۔۔۔۔۔۔٤٨٥ھ ٭وفات شیخ الاسلام الہکاری۔۔۔۔۔۔٤٨٦ھ ٭وفات المقتدی العباسی و خلافت المستظہر۔۔۔۔۔۔٤٨٧ھ ٭وفات ابو الفضل ابن خیرون۔۔۔۔۔۔٤٨٨ھ ٭وفات ابو طاہر الباقلانی۔۔۔۔۔۔٤٨٩ھ ٭وفات العقبہ نصر النابلسی۔۔۔۔۔۔٤٩٠ھ ٭عیسائیوں نے شام میں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔۔۔۔۔۔٤٢٩ھ ٭حسن بن صباح کا خوف چھاگیا۔۔۔۔۔۔٤٩٤ھ ٭فرنگیوں کا عکہ پر قبضہ۔۔۔۔۔۔٤٩٧ھ ٭نہاوند مجیں ایک مدعی نبوت کا قتل۔۔۔۔۔۔٤٩٩ھ ٭وفات یوسف بن تاشفین بانی مراکش۔۔۔۔۔۔٥٠٠ھ ٭فخر الاسلام قاضی الرویانی کو باطنیوں نے جامع آملہ میں قتل کردیا۔۔۔۔۔۔٥٠٢ھ ٭وفات ابو الحسن لکیاہراسی۔۔۔۔۔۔٥٠٤ھ ٭وفات ابو الحسن العلاف۔۔۔۔۔۔٥٠٥ھ ٭وفات ابو الحسن الدامغانی ۔۔۔۔۔۔٥١٣ھ ٭ایوان حکومت میں آگ لگ گئی (بغداد)۔۔۔۔۔۔٥١٥ھ ٭خلیفہ المسترشد نے دبیس کوشکست دی۔۔۔۔۔۔٥١٧ھ ٭شہر صور پر فرنگیوں کا قبضہ۔۔۔۔۔۔٥١٨ھ ٭دمشق میں قتل عام ۔۔۔۔۔۔٥٢٣ھ ٭بغداد میں اڑنے والے بچھو پیدا ہوگئے۔۔۔۔۔۔٥٢٤ھ ٭قتل ابو الحسن بن ابی یعلی ۔۔۔۔۔۔٥٢٦ھ ٭وفات ابو علی الفارقی۔۔۔۔۔۔٥٢٨ھ ٭وفات علی بن عطیہ الشاعر۔۔۔۔۔۔٥٢٩ھ ٭سلطان سنجر اور کفار تاتار میں جنگ عظیم۔۔۔۔۔۔٥٣٦ھ ٭وفات عبدالوہاب الانماطی۔۔۔۔۔۔٥٣٨ھ ٭وفات ابو منصور الجوالیقی۔۔۔۔۔۔٥٤٠ھ ٭طرابلس میں فرنگیوں کا قبضہ ۔۔۔۔۔۔٥٤١ھ ٭نورالدین محمود زنگی نے فرنگیوں سے تین قلعے واپس لئے۔۔۔۔۔۔٥٤٢ھ٭وفات محمد بن غلام الفرس الدانی۔۔۔۔۔۔٥٤٧ھ ٭بغداد میں کئی بار آگ لگی۔۔۔۔۔۔٥٥١ھ ٭شام کے تیرہ شہر زلزلہ سے تباہ ہوگئے۔۔۔۔۔۔٥٥٢ھ ٭نور الدین کے سامنے سے فرنگیوں کی فراری۔۔۔۔۔۔٥٥٨ھ ٭بغداد میں رافضیوں کی بے اعتدالیاں۔۔۔۔۔۔٥٦١ھ ٭وفات ہبۃ اللہ الدقاقی۔۔۔۔۔۔٥٦٢ھ ٭شام میں زلزلہ (٨٠ہزار ہلاک)۔۔۔۔۔۔٥٦٥ھ ٭نور الدین کی فتوحات ۔۔۔۔۔۔٥٦٦ھ ٭آخری فاطمی امام العاضد کی معزولی اور عباسی خطبہ کا اجرائ٭٥٦٧ھ ٭مسلمانوں نے یمن اور طرابلس الغرب فتح کیا۔۔۔۔۔۔٥٦٨ھ ٭وفات و عبل بن کارہ الفقیہ الحریمی۔۔۔۔۔۔٥٦٩ھ ٭فصیل قاہرہ کی بنیاد۔۔۔۔۔۔٥٧٢ھ ٭واقعہ الرملہ(فرنگیوں نے لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا) ۔۔۔۔۔۔٥٧٣ھ ٭بغداد میں ابن فرایا کا قتل۔۔۔۔۔۔٥٧٤ھ ٭پرنس ارناٹ کی مدینہ منورہ کی طرف فوج کشی اور عزیزالدین فرخشاہ کی مدافعت ازناٹ کی شکست۔۔۔۔۔۔٥٧٧ھ ٭وفات اسد بن المطران الطیب۔۔۔۔۔۔٥٨٧ھ ٭علاؤالدین خوارزم شاہ کا بخارا پر قبضہ۔۔۔۔۔۔٥٩٤ھ ٭وفات عماؤالدین الملک العزیز۔۔۔۔۔۔٥٩٥ھ ٭مصر میں قحط۔۔۔۔۔۔٥٩٧ھ ٭وفات القاضی ابو بکر الاموری۔۔۔۔۔۔٥٩٩ھ ٭وفات روز یہاں صوفی مفسر۔۔۔۔۔۔٦٠٦ھ ٭وفات اثیر الدین الاخسکیتی۔۔۔۔۔۔٦٠٨ھ ٭حکومت ناصر الدین محمود(دہلی) ۔۔۔۔۔۔٦٤٤ھ ٭وفات سیف الدین امیر لاچین پدر امیر خسرو۔۔۔۔۔۔٦٥١ھ ٭ہلاکو خان نے بغداد کو تاراج کردیا۔۔۔۔۔۔٦٥٦ھ ٭خلافت الحاکم الاول عباسی۔۔۔۔۔۔٦٦١ھ ٭وفات حضرت بابا فرید گنج شکر(پاک پٹن شریف) ۔۔۔۔۔۔٦٦٤ھ ٭وفات یحییٰ حلی فقیہ شعیہ۔۔۔۔۔۔٦٧٩ھ ٭شام پر تاتاریوں کا حملہ اور شکست۔۔۔۔۔۔٦٨١ھ ٭تخت نشینی عثمان بانی دولت عثمانیہ۔۔۔۔۔۔٦٩٩ھ ٭قتل زید یق فتح الدین ۔۔۔۔۔۔٧٠١ھ ٭حکومت قطب الدین مبارک خلجی۔۔۔۔۔۔٧١٦ھ ٭وفات ملا کمال کاشی۔۔۔۔۔۔ ٧٢٠ھ ٭حکومت فیروز تغلق۔۔۔۔۔۔٧٥٢ھ ٭وفات خلیل بن کیکلدی۔۔۔۔۔۔٧٦١ھ ٭تخت نشینی بایزید یلدرم عثمانی و محمد تغلق۔۔۔۔۔۔٧٩٢ھ ٭وفات سعد الدین تفتازانی۔۔۔۔۔۔٧٩٢ھ ٭وفات جمالدین البہنسی۔۔۔۔۔۔٨٠٥ھ ٭وفات شمس الدین محمد الشویکی۔۔۔۔۔۔٨١٣ھ ٭شہادت علامہ ابن الخاس مصنف مصارح العشاق۔۔۔۔۔۔٨١٤ھ ٭وفات شہاب الدین بن حجی۔۔۔۔۔۔٨١٦ھ ٭مصر میں طاعون اور قحط۔۔۔۔۔۔٨١٨ھ ٭قتل نسیم الدین شیخ الحروفیہ۔۔۔۔۔۔٨٢٠ھ ٭وفات برہان الدین ابن عذار۔۔۔۔۔۔٨٢٥ھ ٭مدینہ منورہ میں سنیوں کا قتل۔۔۔۔۔۔٨٢٩ھ ٭وفات شمس الدین عجلوکی۔۔۔۔۔۔٨٣١ھ ٭وفات زین الدین ابن الخراط الشاعر۔۔۔۔۔۔٨٤٠ھ ٭وفات قاسم انوار۔۔۔۔۔۔٨٤٥ھ ٭وفات شمس الدین القایاتی۔۔۔۔۔۔٨٥٠ھ ٭خلافت حمزہ القاسم و تخت نشینی محمد الفاتح عثمانی۔۔۔۔۔۔٨٥٥ھ ٭وفات جلال الدین المحل۔۔۔۔۔۔٨٦٤ھ ٭خلافت المتوکل ثانی ۔۔۔۔۔۔٨٨٤ھ ٭وفات قاضی ابن الشحنہ حنفی۔۔۔۔۔۔٨٩٠ھ ٭مصر میں قحط۔۔۔۔۔۔٨٩٢ھ ٭مصر میں قحط۔۔۔۔۔۔٨٩٤ھ ٭وفات حضرت مولانا عبد الرحمن جامی (عاشق رسول ا)۔۔۔۔۔۔٨٩٨ھ ٭فتح الباری شرح بخاری مکہ سے یمن (زبیدہ) لائی گئی ۔۔۔۔۔۔٩٠١ھ ٭وفات عبدالرحمن الہجرانی۔۔۔۔۔۔٩٠٣ھ ٭وفات جلال الدین دوانی۔۔۔۔۔۔٩٠٨ھ ٭یمن میں شدید طوفان بادوباراں۔۔۔۔۔۔٩١١ھ ٭وفات کبیر داس ۔۔۔۔۔۔٩١٥ھ ٭وفات امام قسطلانی شارح بخاری۔۔۔۔۔۔٩٢٣ھ ٭وفات نور الدین الاشمونی ۔۔۔۔۔۔ ٩٢٩ھ ٭وفات خوند میر (قانون ہمایوں)۔۔۔۔۔۔٩٤٢ھ ٭حکومت شیر شاہ سوری۔۔۔۔۔۔٩٤٧ھ ٭قتل ہیمول بقال۔۔۔۔۔۔٩٦٤ھ ٭کشمیر میں حکومت غازی خاں چوک۔۔۔۔۔۔٩٦٧ھ ٭وفات محمد غوث گوالیاری۔۔۔۔۔۔٩٧٠ھ ٭مکہ مکرمہ میں سیلاب۔۔۔۔۔۔٩٧١ھ ٭وفات عبداللہ الغاکہی ۔۔۔۔۔۔٩٧٢ھ ٭وفات سراج الدین عمر العید روس (عدن)۔۔۔۔۔۔١٠٠٠ھ ٭وفات فیضی علامہ ۔۔۔۔۔۔ ١٠٠٤ھ ٭قتل نور اللہ شوستری۔۔۔۔۔۔١٠١٩ھ ٭وفات صائب تبریزی۔۔۔۔۔۔١٠٨٠ھ ٭خلافت سلیمان ثانی۔۔۔۔۔۔١٠٩٩ھ ٭وفات باقر مجلسی۔۔۔۔۔۔١١١٠ھ ٭وفات نعمت خان عالی ۔۔۔۔۔۔١١٢٠ھ ٭وفات مرزا عبدالقادر بیدل۔۔۔۔۔۔١١٣٣ھ ٭وفات کلیم اللہ جہاں آبادی ۔۔۔۔۔۔١١٤٠ھ ٭محمد بن سعود اور محمد بن عبدالوہاب نجدی نے تلوار کے زور سے وہابیت پھیلانا شروع کی۔۔۔۔۔۔١١٥٩ھ ٭کریم خان زند نے صفوی حکومت ختم کردی (حسین ثانی) ۔۔۔۔۔۔١١٦٦ھ ٭ولادت ٹیپو سلطان شہید ۔۔۔۔۔۔١١٦٦ھ ٭وفات امیر تقی خیالؔ۔۔۔۔۔۔١١٧٠ھ ٭وفات میر قاسم صوبہ دار بنگالہ ۔۔۔۔۔۔١١٩١ھ ٭وفات مرزا مظہر جان جانان۔۔۔۔۔۔١١٩٥ھ ٭وفات کمالؔ گیاوی (کمال الحکمۃ)۔۔۔۔۔۔ ١٢١٥ھ ٭سعود بن عبد العزیز فاتحانہ مکہ میں آیا ۔۔۔۔۔۔١٢١٨ھ٭وفات میر تقی میرؔ ۔۔۔۔۔۔١٢٢٥ھ ٭وفات حافظ دراز پشاوری (شارح پشاوری) ۔۔۔۔۔۔١٢٦٣ھ ٭قتل علی محمد باب قرۃ العین۔۔۔۔۔۔١٢٦٦ھ ٭وفات مرزا دبیر لکھنوی۔۔۔۔۔۔١٢٩٢ھ ٭وفات سوامی دیانند سرسوتی(بانی آریہ دھرم) ۔۔۔۔۔۔١٣٠٢ھ ٭وفات واجد علی شاہ (کلکتہ)۔۔۔۔۔۔١٣٠٥ھ ٭وفات حاجی وارث علی۔۔۔۔۔۔١٣٢٣ھ ٭وفات محمد حسین آزاد۔۔۔۔۔۔١٣٢٨ھ ٭وفات شمس الحق عظیم آبادی (شارح ابو داؤد)۔۔۔۔۔۔١٣٢٩ھ ٭وفات مفتی لطف اللہ علیگڑھ۔۔۔۔۔۔١٣٣٥ھ ٭قیام جامعہ ملیہ اسلامیہ۔۔۔۔۔۔١٣٣٩ھ ٭وفات اکبر ؔالہ آبادی۔۔۔۔۔۔١٣٤٠ھ ٭وفات انور شاہ کشمیری (دیوبندی)۔۔۔۔۔۔١٣٥١ھ ٭آزادی مصر ۔۔۔۔۔۔ ١٣٥٥ھ ٭قتل لیاقت علی خاں وزیر اعظم پاکستان۔۔۔۔۔۔١٣٧١ھ٭آزادی صومالیہ ۔۔۔۔۔۔ ١٣٨٠ھ ٭یمن میں جمہوریت۔۔۔۔۔۔١٣٨٣ھ ٭وفات سید عبدالاحد فائق۔۔۔۔۔۔١٣٨٤ھ ٭ وصال مفتی اعظم شہزادئہ اعلیٰ حضرت علامہ محمد مصطفی رضا خان صاحب علیہ الرحمہ ١٤٠٢ھ
محرم الحرام میں وفات پانے والے صحابہ کرام اور اولیائے کرام
رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین

یکم محرم الحرام
٭خلیفہ دوم امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ،٭حضرت ابو بکر محمد بن ابراہیم سوسی ٣٨٦ھ ٭حضرت شیخ الشیوخ ابو حفص شہاب الدین عمر سہروردی ٦٣٢ھ ٭حضرت شاہزادہ محمد داراشکوہ قادری ١٠٧٠ھ ٭حضرت جیو مجددی پشاوری
٢ محرم الحرام
٭حضرت شیخ اسد الدین معروف کرخی محکم الافلاک ٢٠٠ھ ٭حضرت ابو عبدالرحمن حاتم اصم ٢٣٧ھ ٭حضرت احمد بن عبدالواسع ٦٠٩ھ ٭حضرت سید عقیق اسواد ابدال ١٠٠٠ھ ٭حضرت خواجہ معین الدین نقشبندی کشمیری ١٠٨٥ھ
٣محرم الحرام
٭حضرت شیخ سعید قیروانی ٢١١ھ ٭حضرت شیخ تقی الدین احمر صوفی ٥٩٥ھ ٭حضرت مخدوم سالار نوشہ صفات فیض آبادی ٩٨٩ھ ٭حضرت شاہ محی الدین دہلوی ١٢٨٩ھ ٭حضرت حافظ عبدالستا خالصپوری ١٢٩٨ھ ٭حضرت ابو الحسن تہکاری
٤ محرم الحرام
٭امام الاولیا حضرت سیدنا خواجہ حسن بصری ٭حضرت سید حمید لاہوری ١٠٩٠ھ ٭حضرت اخون درویزد نگرہاری ٨٩٧ھ ٭حضرت میر محمد بن احمد کشمیری ١٠١١ھ ٭حضرت میر فضل علی لاہوری ١١٦٠ھ ٭
٥ محرم الحرام
حضرت رفیع الدین مجذوب قلندری٭حضرت شیخ حجاج سرقندی ٣٤٢ھ حضرت ابو الفرح یوسف طرطوسی ٤٦١ھ ٭حضرت عوض علی شاہ ٭حضرت فردالاولیا شیخ العالم خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر ٦٦٤ھ ٭حضرت ابو اسحق لاہوری٩٨٥ھ ٭حضرت خواجہ احمد مہروی چشتی ١٣٣٠ھ
٦ محرم الحرام
٭حضرت سیدی عبداللہ بن مسلمہ قعبنی ٢٢١ھ ٭حضرت ابو القاسم ابراہیم نصرآبادی ٣٦٧ھ
٧ محرم الحرام
٭حضرت سید امام مہدی بن امام حسین رضی اللہ عنہ،٭حضرت امام احمد غزالی ٥١٧ھ ٭حضرت سید شہاب الدین احمد قسطلانی ٩٢٣ھ ٭حضرت حاجی محمد ہاشم گیلانی لاہوری ١٠٨٧ھ ٭حضرت شیخ محمد عاشق معشوف صفات ١١٩٩ھ ٭حضرت شاہ محمد آفاق ١٢٥١ھ ٭حضرت فضیل بن عیاض
٨ محرم الحرام
٭حضرت سیدی ابی نعیم احمد اصفہانی (صاحب مستخرج صحیح مسلم) ٤٠٣ھ ٭حضرت شیخ ابو الفتح بغدادی ٩٥٩ھ ٭حضرت شیخ محمد طاہر لاہوری ١٠٤٠ھ ٭حضرت شاہ محمد آفاق نقشبندی مجددی ١٢٥١ھ ٭مناظر اہلسنّت مولانا حشمت علی خاں ١٣٨٠ھ ٭شیخ عبدالغفور اخوند
٩ محرم الحرام
٭حضرت شیخ جعفر کوفی ٢٢٢ھ ٭حضرت شیخ ابو القاسم میردانی٢٧٨ھ ٭حضرت شمس الدین مرزا مظہر جان جانان الملقب بہ حبیب اللہ ٥٩٠ھ ٭حضرت سید بہاؤالدین عرف محمود کرخی ٦٠٢ھ ٭حضرت ابو الفتح حفظی کنتوری لکھنوی١٢٠٤ھ ٭حضرت خواجہ گل محمد احمد پوری ١٢٤٣ھ ٭حضرت سیدنا علی ہجویری داتا گنج بخش
١٠ محرم الحرام
٭ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا٭ حضرت امام حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عہنما ٦٠ھ ٭حضرت خواجہ ابو الفر بُشر حافی بغدادی ٢٢٧ھ٭حضرت شیخ فارس ٣٤٢ھ ٭حضرت ابو الحسن علی فرقانی ٤٤٥ھ ٭حضرت شیخ شہاب الدین یحییٰ مقبول سہروردی ٥٧٧ھ ٭حضرت اوحد الدین عبداللہ بلیانی ٦٨٦ھ ٭حضرت شاہ لطف اللہ ٨٧١ھ ٭مولوی برکت اللہ مارہروی ١١٤٢ھ٭حضرت اخوند حافظ عبدالعزیز دہلوی١٢٩٦ھ ٭حضرت سید شاہ برکت اللہ مارہروی ١١٤٣ھ
١١ محرم الحرام
٭حضرت ابو بکر محمد رازی ٣١٠ھ ٭حضرت شیخ بنان جمال مصری ٣١٦ھ ٭حضرت احمد بن محمد معروف بہ شیخ جعفر الخداد بصری ٣٤١ھ ٭حضرت عبداللہ شامی ٣٥٧ھ ٭حضرت ابو الفضائل عین القضاہ عبداللہ ہمدانی ٥٣٣ھ ٭حضرت ابو عمر و عثمان قرشی ٥٦٤ھ ٭حضرت سلمان ملتانی ٧٣٧ھ ٭حضرت خواجہ محمد یحییٰ بن خواجہ احرار ٩٠٦ھ ٭حضرت شیخ حسین خوارزمی ٩٥٦ھ ٭حضرت سید نورالدین بغدادی ٩٩٩ھ ٭حضرت حافظ برخوردار گنگوہی ١١٦٢ھ ٭حضرت خواجہ عبدالباقی حیات الجسد ١٢٠١ھ ٭حضرت مولانا غریب شاکر آزاد ١٢٦٧ھ
١٢ محرم الحرام
٭حضرت ابو محمد سہیل بن عبداللہ تستری ٢٨٣ھ ٭حضرت ابو بکر علی طرطوسی ٣٧٤ھ ٭حضرت شیخ محمد قادری بغدادی ٦٢٧ھ ٭حضرت محی الدین عربی مکی ٦١٣ھ ٭حضرت شیخ فخر الدین محبوبی ٧٢٧ھ ٭حضرت شیخ محمد سعدی وجوب حیرت ٨١٩ھ ٭حضرت ابو الفضل محمد بغدادی ٨٤٦ھ ٭حضرت سید غیاث اللہ کانپوری ١١٣٧ھ ٭حضرت حاجی عبداللہ آبریز مکی ١٢٠٠ھ ٭شیخ صفی الموسوی٭حضرت خواجہ محمد ضیاء الدین سیالوی
١٣ محرم الحرام
٭حضرت شیخ غلان واسطی ٢٨٦ھ٭حضرت ابو بکر محمد واسطی مروزی ٣٠٨ھ ٭حضرت سید کریم مشغول سمنانی ٤٧٥ھ ٭حضرت عماد الدین عمار یا سر سہروردی ٥٩٩ھ ٭حضرت شیخ نجیب الدین فردوسی دہلوی ٧٣٣ھ ٭حضرت محمد معزالدین اجودہنی ٧٤٩ھ ٭حضرت شیخ محمد قادری بغدادی ٧٨٢ھ٭حضرت شاہ محمد بلخی ٨٩٩ھ ٭حضرت عبدالرحمن یمنی ٩٠٨ھ ٭حضرت عبدالقادر قدرت حق بغدادی ٩٦٩ھ ٭حضرت مولوی خیر الدین ١١٤٧ھ ٭حضرت علامہ غلام حید راجکوٹی ١٣٧٩ھ
١٤ محرم الحرام
٭حضرت ابو الحسن مالکی ٢٧٧ھ٭حضرت خواجہ کریم الدین علو ممشاد دینوی ٢٩٩ھ ٭حضرت خواجہ ابو محمد ٣٢١ھ ٭حضرت ابو بکر محمد مصری ٣٤٥ھ ٭حضرت خواجہ اختیار الدین عمر ٨٩٠ھ ٭حضرت شیخ سلیمان مندوی ٩٤٤ھ ٭حضرت شیخ محمد حیات ٩٩٤ھ ٭حضرت شیخ عبدالکریم انصاری ١٠٢٤ھ ٭حضرت اخون الہ دل ١١٥٧ھ ٭حضرت سید شاہ حمزہ مارہروی ١١٩٨ھ ٭حضرت سید محمد عبداللہ بغدادی ١٢٠٧ھ ٭حضرت مفتی اعظم مولانا مصطفٰی رضا نوری بریلوی ٭حضرت سید عبدالقدیر میاں ٭حضرت شاہ عبداللہ بغدادی
١٥ محرم الحرام
٭حضرت شیخ ابو محمد بن ابی نصر٦٠٦ھ ٭حضرت شیخ عیسی مغربی ١٠٩٧ھ ٭مولوی مظہر حسین کاندھلوی ١٢٨٢ھ٭حضرت میاں علی محمد چشتی
١٦ محرم الحرام
٭حضرت سیدی عبداللہ صاحب مسند داری سمرقندی ٢٥٥ھ ٭حضرت ابو الفرح فراغی بصری٤٩٧ھ ٭حضرت درویش محمد بن قاسم اودہے ٨٩٩ھ ٭حضرت شاہ قطب الدین ١٠٢١ھ ٭حضرت بابا نصیب الدین غازی کشمیری ١٠٤٧ھ ٭حضرت سید نتھے خان جی مفاد الاکرام ١١٩٥ھ ٭پیر چراغ علی شاہ ١٣٨٩ھ
١٧ محرم الحرام
٭حضرت ابو محمد کشادن روح ٧٩٣ھ ٭حضرت شاہ فضیل مرتبہ الوہیت ٩٩٩ھ ٭حضرت گلزار شاہ کشوی ١٢٦٨ھ ٭مولوی غلام محمد ترنم امرتسری ١٣٧٩ھ ٭حضرت پیر سید جماعت علی شاہ٭حضرت شاہ ابو الرضا محمد
١٨ محرم الحرام
٭حضرت امام المسلمین سیدنا علی زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ ٩٤ھ ٭حضرت شیخ شہاب الدین احمد الزاہد ٢٢٩ھ ٭حضرت شیخ ابو القاسم بن غیاث الدین ٥١١ھ ٭حضرت نور الدین عبدالرحمن جامی ٨٩٨ھ ٭حضرت مخدوم شاہ صفی عرف عبدالصمد ٩٤٥ھ ٭حضرت دیوان محمد ابراہیم اجودہنی ١٠٣١ھ ٭حضرت قطب الدین بن مولانا فخر ١٢٣٣ھ ٭
١٩ محرم الحرام
٭حضرت سیدنا احمد جیلانی٭حضرت احمد قدیر ٥٣٧ھ ٭حضرت میر سید احمد جیلانی ٨٥٣ھ ٭حضرت مولانا درویش محمد اسفراری ٩٧٠ھ ٭حضرت مولانا محمد درویش ہراتی ٩٨٥ھ ٭حضرتر شیخ محمد صادق گنگوہی ١٠٥٣ھ ٭حضرت محی الدین بن یوسف یحییٰ چشتی مدنی ١١١٣ھ ٭حضرت شاہ غلام نبی لاہوری ١٢٤٧ھ ٭
٢٠ محرم الحرام
٭حضرت کرکم ضحاک بصری ٦٠٦ھ
٢١ محرم الحرام
٭حضرت او العباس عبداللہ بُستی ٣٠٤ھ ٭حضرت ابوالعباس احمد حریثی ٣١١ھ ٭حضرت ابو بکر قطبی ٣٦٨ھ ٭حضرت شیخ عبدالجلیل تلمسانی ٣٩٧ھ ٭حضرت شیخ الحرمین ابوالمعالی عبدالملک مکی ٥٤٦ھ ٭حضرت شیخ عدی بن مسافر شامی ہنکاری ٥٥٧ھ ٭حضرت شیخ یونس سیستانی ٦١٩ھ ٭حضرت ظہیر الدین عبدالرحمن بن علی برغش ٧١٦ھ ٭حضرت شاہ سید احمد بخاری ٧٩٩ھ ٭حضرت کرم عدیم بن قاسم انوار ٨٢٣ھ ٭حضرت عبدالنعیم سالک نیشاپوری ٨٤٢ھ ٭حضرت شیخ محمد شریف شوک بابا کشمیری ١٠٢٧ھ ٭حضرت اکسیر عشق ابو المجد پیر محمد سلونی ١٠٩٩ھ ٭خواجہ عبدالرسول قصوری ١٢٩٤ھ ٭حضرت شاہ ابو الفیاض (پٹنہ)
٢٢ محرم الحرام
٭ حضرت شیخ ابو الفتح حمصی٣٠٧ھ ٭حضرت شیخ عبدالجلیل نیشاپوری ٥١٣ھ ٭حضرت محمد شاہ نیک اختر نوشاہی ١٣٣٧ھ ٭حضرت سید اصغر حسین ١٣٦٤ھ ٭حضرت سیدنا امام حسن عسکری رضی اللہ عنہ،
٢٣ محرم الحرام
٭حضرت مجد الدین بغدادی ٦١٩ھ ٭حضرت شیخ امام الدین قادری پلوسی
٢٤ محرم الحرام
٭حضرت سید حمزہ اصغر بغدادی ٭شاہ ابو الحسن پھلواری ١٣٦٥ھ
٢٥ محرم الحرام
٭حضرت ابو الحسن علی ہنکاری ٤٨٢ھ ٭حضرت ابو الحسن علی بن محمد٤٨٦ھ ٭حضرت حافظ عبدالوہاب خالصپوری ١٣١٢ھ ٭حافظ محمد خلیل الرحمن قادری نقشبندی ١٣١٩ھ ٭مولوی مفتی غلام جان ہزاروی ١٣٧٩ھ ٭حضرت شاہ ولی اللہ محدثِ دہلوی
٢٦ محرم الحرام
٭حضرت قاضی عبدالمقتدر دہلوی ٧٩١ھ ٭حضرت بابا تاج الدین ناگ پوری
٢٧ محرم الحرام
٭حضرت ابو بکر محمدابن داؤد ٣٥٤ھ٭حضرت ابو العباس احمد اسود دینوری ٣٦٧ھ ٭حضرت شیخ ابو داؤد سنجانی طوسی ٤٦٧ھ ٭حضرت ابو سعید شیخ بخاری٥٠١ھ ٭حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی ٨٠٨ھ ٭حضرت شیخ اسلم کشمیری ١٢١٢ھ
٢٨ محرم الحرام
٭حضرت ابی الحسن علی دمشقی ٢٨٦ھ ٭حضرت انس بن مالک صخادم ِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ٥٤ھ٭حضرت شیخ ابو حدین شعیب مغربی ٥٩٠ھ ٭مولوی چراغ علی شاہ قادری محبت پوری ١٣٦٢ھ ٭حضرت شاہ مظفر حسین (پٹنہ)
٢٩ محرم الحرام
٭حضرت خواجہ محمد صالح بلخی ١٠٤٨ھ ٭حضرت حجۃ اللہ شرف الدین محمد نقشبندی ثانی ١١١٤ھ ٭حضرت حجۃ اللہ شرف الدین محمد نقشبندی ثانی ١١١٤ھ٭حضرت مولوی شاہ عبدالغنی دہلوی ١٢٩٦ھ ٭حضرت خواجہ فقیر محمد چورہ شریف ١٣١٥ھ٭حضرت سید علی میراں داتا ٭حضرت محمد نقشبند٭حضرت عبید اللہ احرار
٣٠ محرم الحرام
٭حضرت روز بہان بقلی شیرازی ٦٠٦ھ ٭حضرت شیخ زاہد بن علی مرغابی ٧٩١ھ ٭حضرت سید زین الدین رکنابادی ٧٩٣ھ ٭
رضی اللہ تعالیٰ عہنم اجمعین و رحمہما اللہ
اسلامی سال کا بارہواں مہینہ ذوالحجہ ہے اس کی وجہ تسمیہ ظاہر ہے کہ اس ماہ میں لوگ حج کرتے ہیں اور اس کے پہلے عشرے کا نام قرآن مجید میں ”ایام معلومات” رکھا گیا ہے یہ دن اللہ کریم کو بہت پیارے ہیں۔ اس کی پہلی تاریخ کو سیدہ عالم حضرت خاتونِ جنت فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح سیدنا حضرت شیر خدا علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے ساتھ ہوا۔
اس ماہ کی آٹھویں تاریخ کو یومِ ترویہ کہتے ہیں ۔ کیوں کہ حجاج اس دن اپنے اونٹوں کو پانی سے خوب سیراب کرتے تھے۔ تاکہ عرفہ کے روز تک ان کو پیاس نہ لگے ۔ یا اس لئے اس کو یوم ترویہ (سوچ بچار) کہتے ہیں کہ سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آٹھویں ذی الحجہ کو رات کے وقت خواب میں دیکھا تھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے حکم دیتا ہے کہ اپنے بیٹے کو ذبح کر۔ تو آپ نے صبح کے وقت سوچا اور غور کیا کہ آیا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے یا شیطان کی طرف سے ۔ اس لئے اس کو یومِ ترویہ کہتے ہیں ۔
اور اس کی نویں تاریخ کو عرفہ کہتے ہیں۔ کیوں کہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب نویں تاریخ کی رات کو وہی خواب دیکھا تو پہچان لیا کہ یہ خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ۔ اسی دن حج کا فریضہ سر انجام دیا جاتا ہے ۔
دسویں تاریخ کو یوم نحر کہتے ہیں ۔ کیوں کہ اسی روز سیدنا حضرت اسماعیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قربانی کی صورت پیدا ہوئی ۔ اور اسی دن عام مسلمان قربانیاں ادا کرتے ہیں۔
اس ماہ کی گیارہ تاریخ کو ” یوم القر” اوربارہویں، تیرہویں کو ” یوم النفر” کہتے ہیں اور اس ماہ کی بارہویں تاریخ کو حضور سراپا نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے بھائی چارہ قائم فرمایا تھا۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٥٩۔٤٦٠)
ماہِ ذو الحجہ کی فضیلت
ذوالحجہ کا مہینہ چار برکت اور حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے ۔ اس مبارک مہینہ میں کثرتِ نوافل، روزے، تلاوت قرآن، تسبیح و تہلیل، تکبیر و تقدیس اور صدقات و خیرات وغیرہ اعمال کا بہت بڑا ثواب ہے ۔ اور بالخصوص اس کے پہلے دس دنوں کی اتنی فضیلت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عشرہ کی دس راتوں کی قسم یاد فرمائی ہے ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
o وَالَّیْلِ اِذَا یَسْرِ o وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ o وَلَیَالٍ عَشْرٍ o وَالْفَجْرِ
قسم ہے مجھے فجر کی عیدِ قربان کی اور دس راتوں کی جو ذوالحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں ۔ اور قسم ہے جفت اور طاق کی جو رمضان مبارک کی آخری راتیں ہیں، اور قسم ہے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کی رات کی۔
اس قسم سے پتہ چلتا ہے کہ عشرہ ذی الحجہ کی بہت بڑی فضیلت ہے۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٦٣)
ماہِ ذو الحجہ کی فضیلت احادیث مبارکہ کی روشنی میں
حدیث ١
 عن أم سلمة – رضي الله عنها – قالت : قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – : إذا دخل العشر ، وأراد بعضكم أن يضحي فلا يمس من شعره وبشره شيئا ، وفي رواية : فلا يأخذن شعرا ، ولا يقلمن ظفرا ، وفي رواية : من رأى هلال ذي الحجة وأراد أن يضحي ، فلا يأخذ من شعره ولا من ظفاره . رواه مسلم
سیدہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول خدا حبیب ِ کبریا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ جس وقت عشرہ ذی الحجہ داخل ہوجائے اور تمہارا کوئی آدمی قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو چاہئے کہ بال اور جسم سے کسی چیز کو مس نہ کرے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ فرمایا کہ بال نہ کترائے اور نہ ناخن اتروائے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ جو شخص ذی الحجہ کا چاند دیکھ لے اور قربانی کا ارادہ ہو تو نہ بال منڈائے اور نہ ناخن ترشوائے۔ (مشکوٰۃ ص ١٢٧)
حدیث ٢
عن ابن عباس رضي الله عنهما قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ما من أيام العمل الصالح فيهن أحب إلى الله من هذه الأيام العشر , قالوا : يا رسول الله ولا الجهاد في سبيل الله ؟ قال : ولا الجهاد في سبيل الله إلا رجل خرج بنفسه وماله فلم يرجع من ذلك بشيء. [ رواه البخاري ]
سیدنا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی دن ایسا نہیں ہے کہ نیک عمل اس میں ان ایام عشرہ سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ محبوب ہو۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ؟ فرمایا : جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ! مگر وہ مرد جو اپنی جان اور مال لے کر نکلا اور ان میں سے کسی چیز کے ساتھ واپس نہیں آیا (یعنی شہادت)۔ (مشکوٰۃ ص ١٢٨)
حدیث ٣
عن ابي هريرة ان النبي (صلوات ربي وسلامه عليه) قال ما من ايام احب الى الله ان يتعبد له فيها من عشر ذي الحجة يعدل صيام كل يوم منها بصيام سنة وقيام لَيلَة فيھِن كقيام سنة
سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کوئی دن زیادہ محبوب نہیں اللہ تعالیٰ کی طرف کہ ان میں عبادت کی جائے ذی الحجہ کے ان دس دنوں سے۔ ان دنوں میں ایک دن کا روزہ سال کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ایک رات کا قیام سال کے قیام کے برابر ہے۔ (غنیۃ الطالبین ص ٤١٧ ، مشکوٰۃ ص  ١٢٨ ، فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٦٤ تا ٤٦٦)
عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت
جو شخص ان دس ایام کی عزت کرتا ہے اللہ تعالیٰ یہ دس چیزیں اس کو مرحمت فرماکر اس کی عزت افزائی کرتا ہے (١) عمر میں برکت (٢) مال میں افزونی (٣) اہل و عیال کی حفاظت (٤) گناہوں کا کفارہ (٥) نیکیوں میں اضافہ (٦) نزع میں آسانی (٧) ظلمت میں روشنی (٨) میزان میں سنگینی یعنی وزنی بنانا (٩) دوزخ کے طبقات سے نجات (١٠) جنت کے درجات پر عروج۔
جس نے اس عشرہ میں کسی مسکین کو کچھ خیرات دی اس نے گویا اپنے پیغمبروں علیہم السلام کی سنت پر صدقہ دیا۔ جس نے ان دنوں میں کسی کی عیادت کی اس نے اولیاء اللہ اور ابدال کی عیادت کی ، جو کسی کے جنازے کے ساتھ گیا اس نے گویا شہیدوں کے جنازے میں شرکت کی، جس نے کسی مومن کو اس عشرہ میں لباس پہنایا، اللہ تعالیٰ اس کو اپنی طرف سے خلعت پہنائے گا جو کسی یتیم پر مہربانی کرے گا ، اللہ تعالیٰ اس پر عرش کے نیچے مہربانی فرمائے گا، جو شخص کسی عالم کی مجلس میں اس عشرہ میں شریک ہوا وہ گویا انبیا اور مرسلین علیہم السلام کی مجلس میں شریک ہوا۔ (غنیہ الطالبین صفحہ ٤١٩)
ذوالحجہ کے پہلے نو دنوں کے روزے
ذوالحجہ مبارک کے پہلے عشرہ کے پہلے نو دن روزہ رکھنا بڑا ثواب ہے ۔ ام المؤمنین سیدہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں
أربع لم يكن يدعهن النبي صلى الله عليه وسلم : صيامَ عاشورا , والعَشـْرَ , والعَشـْرَ , وثلاثة ً أيام من كل شهر , والركعتين قبل الفجر
چار چیزوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں چھوڑا کرتے تھے ۔ عاشورہ کا روزہ اور ذولحجہ کے دس دن یعنی پہلے نو دن کا روزہ اور ہر ماہ کے تین دن کا روزہ اور نماز فجر سے قبل دورکعتیں۔ ( مشکوٰۃ ص ١٨٠ ، فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٦٦)
ماہِ ذی الحجہ کے نفل
٭ حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص اول رات ذوالحجہ میں چار رکعت نفل پڑھے کہ ہر کعت میں الحمد شریف کے بعد قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ پچیس مرتبہ پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے بیشمار ثواب لکھتا ہے۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٨٧)
٭ حضور رحمۃ للعالمین شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص دسویں ذی الحجہ تک ہر رات وتروں کے بعد دو رکعت نفل پڑھے کہ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد سورہ کوثر اور سورہ اخلاص تین تین دفعہ پڑھے تو اس کو اللہ تعالیٰ مقام اعلیٰ علیین میں داخل فرمائے گا اور اس کے ہر بال کے بدلہ میں ہزار نیکیاں لکھے گا اور اس کو ہزار دینار صدقہ دینے کا ثواب ملے گا۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٨٧)
٭ اگر کوئی اس مہینہ کی کسی رات کی پچھلی تہائی رات میں چار رکعات نفل پڑھے جس کی ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد آیۃ الکرسی تین بار اور قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ تین بار اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْـفَلَـقِ  اور  قُلْ اَعُوْذُ بِرَ بِّ النَّاسِ ایک ایک مرتبہ پڑھے اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا پڑھے
سبحان ذي العزة والجبروت سبحان ذي القدرة والملكوت سبحان ذي الحي الذي لا يموت لا اله إلا الله يحي و يميت وهو حي لا يموت سبحان الله رب العباد والبلاد والحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه على كل حال والله اكبر كبيرا كبرياء ربنا وجلاله وقدرته بكل مكان
پھر جو چاہے مانگے تو اس کے لئے ایسا اجر ہے جیسے کسی نے بیت اللہ شریف کا حج کیا ہو ۔ اور حضور سراپا نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر کی زیارت کی ہوگی (غنیہ الطالبین صفحہ ٤١٧)
٭ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی عرفہ کی رات یعنی نویں کی رات کو سو١٠٠ رکعات نفل ادا کرلے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد ایک بار یا تین بارقُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہوں کو بخش دے گا اور اس کے لئے جنت میں یا قوت کا سرخ مکان بنایا جائے گا۔
دوسری روایت میں ہے کہ عرفہ کی رات میں دو رکعات نفل پڑھے۔ پہلی رکعات میں الحمد شریف کے بعد ١٠٠ مرتبہ آیت الکرسی پڑھے اور دوسری رکعت میں الحمد شریف کے بعد قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ١٠٠ مرتبہ پڑھے تو اللہ کریم قیامت کے دن اس نماز کی برکت سے اس کو بمعہ اس کے ستر٧٠ آدمی بخشے گا۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٨٩)
٭ جو کوئی نحر کی رات یعنی دسویں ذوالحجہ کو جس کی صبح عید ہوتی ہے بارہ رکعات نفل پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ پندرہ دفعہ پڑھے تو اس نے ستر سال کی عبادت کا ثواب حاصل کیا اور تمام گناہوں سے پاک ہوگیا۔ اسی رات کی ایک نماز یہ بھی ہے کہ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد ایک دفعہ قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ اور ایک دفعہ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْـفَلَـقِ اورایک دفعہ قُلْ اَعُوْذُ بِرَ بِّ النَّاسِ پڑھے اور سلام کے بعد ستر٧٠ دفعہ سُبحَانَ اللّٰہِ اور ستر٧٠ دفعہ درود شریف پڑھے تو اس کے تمام گناہ بخشے جائیں گے۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٨٩)
٭ دسویں تاریخ کو نماز قربانی کے بعد گھر آکر چار رکعات نفل جو مسلمان ادا کرے کہ پہلی رکعت میں الحمد شریف کے بعد سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی ایک بار اور دوسری رکعت میں الحمد شریف کے بعد وَالشَّمْسِ ایک بار اور تیسری رکعت میں الحمد شریف کے بعد وَالَّیْلِ ایک بار پڑھے اور چوتھی رکعت میں الحمد شریف کے بعد وَالضُّحٰی ایک دفعہ پڑھے ۔ پس پایا اس نے ثواب آسمانی کتابوں کو پڑھنے کا ۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٨٩)
٭ جو شخص قربانی کے بعد دو رکعت نفل پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد وَالشَّمْسِ پانچ بار پڑھے تو وہ شخص حاجیوں کے ثواب میں شامل ہوا اور اس کی قربانی قبول ہوئی۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٩٠)
٭ بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر کوئی فقیر ہو اور قربانی کی طاقت نہ رکھتا ہو تو کیا کرے؟ حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ نمازِ عید کے بعد گھر میں دورکعات نفل پڑھے ۔ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد سورئہ الکوثر تین مرتبہ پڑھے تو اللہ جل شانہ، اس کو اونٹ کی قربانی کا ثواب عطا فرمائے گا۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٩٠ بحوالہ راحت القلوب)
ذی الحجہ کی اہم دعا
الحمد لله الذي في السمآء عرشه ، الحمد لله الذي في الارض قدرته ، الحمد لله الذي في القيامة هيبته ، الحمد لله الذي في القبر قضاؤه ، الحمد لله الذي في الجنة رحمته ، الحمد لله الذي في جهنم سلطانه ، الحمد لله الذي في البر والبحر برهانه ، و الحمد لله الذي في الهواء ريحه، و الحمد لله الذي لا مفر و لا ملجآ الآ اليه والحمد لله رب العلمين
ہر خوبی اللہ کے لیے ہے جس کا عرش آسمان میں ہے ، تعریف اللہ کے لیے ہے جس کی قدرت زمین پر ہے ، تعریف اللہ کے لیے ہے جس کی ہیبت قیامت میں ہے ، تعریف اللہ کے لیے ہے جس کا حکم قبروں پر ہے ، تعریف اللہ کے لیے ہے جس کی رحمت جنت میں ہے ، تعریف اللہ کے لیے ہے جس کی برہان خشکی اور سمندر میں ہے ، تعریف اللہ کے لیے ہے جس کی خوشبو ہوا میں ہے ، تعریف اللہ کے لیے ہے کہ سوائے اس کی ذات کے کوئی پناہ کی جگہ نہیں ہے تعریف اللہ کے لیے ہے جو رب العالمین ہے۔
ذو الحجہ شریف میں رونما ہونے والے اہم واقعات
٭ اعلان نبوت کے بارہویں سال اہل مدینہ کی جانب سے تیسری بیعت عقبہ جس میں ٢٩ مرد اور دو عورتیں مشرف بہ اسلام ہوئیں ، اہل مدینہ کے لیے بارہ نقیب مقرر۔۔۔۔۔۔١ھ ٭ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، کی ولادت بمقام ”قباء”۔۔۔۔۔۔١ھ ٭ غزوہ سویق۔۔۔۔۔۔٢ھ ٭ سیدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی ۔۔۔۔۔۔٢ھ ٭ غزوہ بنی قریظہ۔۔۔۔۔۔٥ھ ٭ وفات حضرت سعد بن معاذ سید الاوس۔۔۔۔۔۔٥ھ ٭ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ امیر حج بنے۔۔۔۔۔۔٩ھ ٭ حجۃ الوداع (عرفات اور منیٰ میں عظیم خطبات کے ذریعہ منشور انسانیت کا اعلان) ۔۔۔۔۔۔١٠ ھ ٭ حجۃ الوداع سے واپسی پر خطبہ غدیر خم میں حضرت علی کو مولائے کائنات کا منصب اور اہلبیت کو قرآن کی عملی تفسیر اور ھادی قرار دیا۔۔۔۔۔۔١٠ھ ٭ وفات ابو العاص (دامادِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)۔۔۔۔۔۔١٢ھ ٭ وفات یزید بن ابی سفیان۔۔۔۔۔۔١٨ھ ٭ وفات سعد جمحی۔۔۔۔۔۔٢٠ھ ٭ حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ پر قاتلانہ حملہ ۔۔۔۔۔۔٢٣ھ ٭ پہلی بحری جنگ (دور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ)۔۔۔۔۔۔٢٧ھ ٭تعمیر نہر بصرہ۔۔۔۔۔۔٢٩ھ ٭شہادتِ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالی عنہ وخلافت حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٣٥ھ ٭ وفات محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٣٨ھ ٭ وفات عثمان جمحی رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٤٢ھ ٭ وفات حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٤٤ھ ٭ وفات عاصم بن عدی رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٤٥ھ ٭وفات جریر بن عبداللہ البجلی ۔۔۔۔۔۔٥١ھ ٭ وفات عبداللہ بن انیس رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٥٤ھ ٭فتح سمرقند ۔۔۔۔۔۔٦٢ھ ٭ یزیدیوں کے ہاتھوں حرمین طیبین کی بے حرمتی (واقعہ حَرہ)۔۔۔۔۔۔٦٣ھ ٭ ترمیم کعبۃ اللہ شریف ۔۔۔۔۔۔٦٤ھ ٭ کوفہ پر بنو امیہ کا قبضہ ۔۔۔۔۔۔ ٧٢ھ ٭ تعمیر نو کعبۃ اللہ شریف۔۔۔۔۔۔٧٣ھ ٭ حجاج امیر کوفہ ہوا۔۔۔۔۔۔٧٥ھ ٭ وفات خالد الحکیم ۔۔۔۔۔۔٨٥ھ ٭ وفات مقدام بن معدی کرب۔۔۔۔۔۔٨٧ھ ٭ شہادت عظیم جرنیل قتیبہ بن مسلم۔۔۔۔۔۔٩٦ھ ٭ حاکم بنو امیہ سلیمان نے حج کیا۔۔۔۔۔۔٩٧ھ ٭ وفات عظیم جرنیل و فاتح موسیٰ بن نصیر۔۔۔۔۔۔٩٧ھ ٭ علوی، فاطمی اور عباسی خلافت کیلئے سازشیں۔۔۔۔۔۔١٠٠ھ ٭ وفات ابو بردہ بن ابی موسیٰ الاشعری۔۔۔۔۔۔١٠٤ھ ٭ وفات قاسم بن محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔١٠٧ھ ٭ وفات قاسم بن مخمیر۔۔۔۔۔۔١١١ھ ٭ شہادت الجراح الحکمی۔۔۔۔۔۔١١٢ھ ٭ شہادت امام محمد باقر رضی اللہ تعالی عنہ بن امام زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ۔۔۔۔۔۔١١٤ھ ٭یزید بن ہشام امیر حج بنا۔۔۔۔۔۔١٢٣ھ ٭وفاتِ یزید اور خلافتِ ناقص ابراہیم۔۔۔۔۔۔١٢٦ھ ٭ مروانِ ثانی کا قتل اور بنو امیہ کی امارت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ اور بنو عباس کی امارت کے دور کا آغاز۔۔۔۔۔۔١٣٢ھ ٭وفات ابو العباس السفاح۔۔۔۔۔۔١٣٦ھ ٭ وفات خلیفہ منصور۔۔۔۔۔۔١٥٨ھ ٭ خلافت مہدی۔۔۔۔۔۔١٥٨ھ ٭ خلیفہ مہدی امیر حج۔۔۔۔۔۔١٦٠ھ ٭ وفات حماد بن دینار۔۔۔۔۔۔١٦٧ھ ٭ وفات الخیزران (والدہ ہارون رشید) ۔۔۔۔۔۔١٧٢ھ ٭ ہارون رشید کا حج ۔۔۔۔۔۔ ١٧٤ھ ٭ وفات حماد زید بن بصری ۔۔۔۔۔۔١٧٩ھ ٭ ہارون رشید کا حج۔۔۔۔۔۔١٨٦ھ ٭ ہارون رشید کا حج۔۔۔۔۔۔١٨٨ھ ٭ اعلان خلافت ابراہیم بن المبارک۔۔۔۔۔۔٢٠١ھ ٭ خراسان میں زلزلہ۔۔۔۔۔۔٢٠٣ھ ٭ وفات المنتصر و حکومت عبدالرحمن۔۔۔۔۔۔٢٠٦ھ ٭ وفات ابو عبیدہ معمرہ الغوی۔۔۔۔۔۔٢٠٩ھ ٭ وفات معلی الرازی ۔۔۔۔۔۔ ٢١١ھ ٭ وفات مفتی اندلس عیسیٰ الغافقی۔۔۔۔۔۔٢١٢ھ ٭ وفات الحافظ شریح الجوہری۔۔۔۔۔۔٢١٧ھ ٭ فتنہ شیعہ خرمیہ۔۔۔۔۔۔٢١٨ھ ٭ وفات ابو جعفر محمد الجواد۔۔۔۔۔۔٢٢٠ھ ٭ وفات الحافظ الحکم البہرانی۔۔۔۔۔۔٢٢٢ھ ٭ وفات ابو الجماہیر الکفرسوسی۔۔۔۔۔۔٢٢٤ھ ٭ محمد بن سلام البیکندی ۔۔۔۔۔۔ ٢٢٥ھ ٭ وفات الواثق باللہ و خلافت المتوکل۔۔۔۔۔۔٢٣٢ھ ٭ وفات عبدالقواریری ۔۔۔۔۔۔٢٣٥ھ ٭ وفات محمد بن کرام بانی کرامیہ۔۔۔۔۔۔٢٥٥ھ ٭ وفات حافظ ابو زرعہ محدث۔۔۔۔۔۔٢٦٤ھ ٭ وفات قاضی صا لح بن امام احمد بن حنبل۔۔۔۔۔۔٢٦٥ھ ٭ وفات ابوبکر ابن حازم۔۔۔۔۔۔٢٧٦ھ ٭ وفات ابو عمر الراقی ۔۔۔۔۔۔٢٨٠ھ ٭ وفات ابو عمرو بن خرذ اد الانطاکی۔۔۔۔۔۔٢٨١ھ ٭ وفات ابو العباس المبرد النحوی۔۔۔۔۔۔٢٨٥ھ ٭ وفات محمد بن وضاح محدث اندلسی۔۔۔۔۔۔٢٨٦ھ ٭ وفات عبدان الجوالیقی۔۔۔۔۔۔٣٠٦ھ ٭ وفات حافظ الدولابی۔۔۔۔۔۔٣١٠ھ ٭ قرامط نے حاجیوں کا قتل عام کیا۔۔۔۔۔۔٣١١ھ ٭ وفات ابو بکر بن الباغنوی۔۔۔۔۔۔٣١٢ھ ٭ عراقی حاجی مکہ نہ جاسکے۔۔۔۔۔۔٣١٤ھ ٭ وفات ابو بکر بن بہلول الانباری۔۔۔۔۔۔٣٢٩ھ ٭ وفات ابو بکر الاخشید و ابو بکر شبلی (شیخ طریقت سلسلہ عالیہ قادریہ خلیفہ حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ)۔۔۔۔۔۔٣٣٤ھ ٭٭ وفات ابو عبداللہ الاخرم۔۔۔۔۔۔٣٤٤ھ ٭عراق میں شدید ژالہ باری۔۔۔۔۔۔٣٥١ھ ٭ عید غدیر کی ابتداء ۔۔۔۔۔۔٣٥٢ھ ٭ وفات ابو بکر البزاز صاحب الغیلانیات۔۔۔۔۔۔٣٥٤ھ ٭ وفات ابو الفرج الاصفہانی صاحب الاغانی۔۔۔۔۔۔٣٥٦ھ ٭ بدامنی کی وجہ سے عراق و شام سے حاجی نہ جا سکے ۔۔۔۔۔۔٣٥٧ھ ٭ عید غدیر جبراً عوام پر مسلط کی گئی۔۔۔۔۔۔٣٥٩ھ ٭ بنیاد جامع الازہر۔۔۔۔۔۔٣٦١ھ ٭ وفات ابن البقیۃ الوزیر۔۔۔۔۔۔٣٦٧ھ ٭ وفات ابو زکریا المزکی۔۔۔۔۔۔٣٩٤ھ ٭ خلافت ہشام (دوبارہ)٤٠٠ھ ٭ وفات ابو بکر ابن الباقلانی۔۔۔۔۔۔٤٠٣ھ ٭ وفات امام الحاکم صاحب المستدرک (محدث علیہ الرحمہ)۔۔۔۔۔۔٤٠٥ھ ٭ وفات ابو الفضل الخزاعی صاحب کتاب الواضح۔۔۔۔۔۔٤٠٨ھ ٭ حکومت الظاہر الفاطمی۔۔۔۔۔۔٤١١ھ ٭ وفات فقیہ الشعیہ الشیخ المفید ۔۔۔۔۔۔ ٤١٣ ھ ٭ وفات ابو بکر المتقی۔۔۔۔۔۔٤٢٠ھ ٭ وفات القادر باللہ العباسی و خلافت القایم بامراللہ العباسی۔۔۔۔۔۔٤٢٢ھ ٭ وفات عبدالملک ابو منصور الثعالبی (مفسر قرآن) ۔۔۔۔۔۔٤٣٠ھ ٭ وفات ابو علی الاہوازی۔۔۔۔۔۔٤٤٦ھ ٭ قتل امیر البساسیری۔۔۔۔۔۔٤٥١ھ ٭ وفات القاضی ابو عبداللہ القضاعی۔۔۔۔۔۔٤٥٤ھ ٭ وفات الوزیر ابو نصر الکندی۔۔۔۔۔۔٤٥٦ھ ٭ وفات ابو القاسم المہروانی۔۔۔۔۔۔٤٦٨ھ ٭ وفات ابو بکر ابن حمدویہ۔۔۔۔۔۔٤٧٠ھ ٭ وفات ابو بکر الخراز۔۔۔۔۔۔٤٨٠ھ ٭ وفات شیخ ابو اسماعیل الانصاری ۔۔۔۔۔۔٤٨١ھ ٭ وفات ابو الفرج الشیرازی۔۔۔۔۔۔٤٨٦ھ ٭ وفات عبدالملک بن سراج اللغوی۔۔۔۔۔۔٤٨٩ھ ٭ وفات الفقیہ عبدالوہاب الفاسی۔۔۔۔۔۔٥٠٠ھ ٭ وفات ابو بکر احمد الزاہد حنبلی۔۔۔۔۔۔٥٠٣ھ ٭ بغداد میں زلزلہ۔۔۔۔۔۔٥١١ھ ٭ وفات ابو بکر بن بلتگین النحوی۔۔۔۔۔۔٥١٣ھ ٭ وفات ابو علی الحسن الحداد۔۔۔۔۔۔٥١٥ھ ٭ وفات ابو طالب الیوسفی۔۔۔۔۔۔٥١٦ھ ٭ وفات ابن عبدون اللغوی التیونسی۔۔۔۔۔۔٥١٩ھ ٭ وفات ابو الحجاج المنورقی۔۔۔۔۔۔٥٢٣ھ ٭ وفات محمد بن الحسین المزرنی۔۔۔۔۔۔٥٢٧ھ ٭ وفات ابو القاسم الثروطی۔۔۔۔۔۔٥٢٨ھ ٭ وفات ہبۃ اللہ البدیع الاسطرابی۔۔۔۔۔۔٥٣٣ھ ٭ وفات قوام الستہ الحافظ اسمٰعیل الاصبہانی۔۔۔۔۔۔٥٣٥ھ ٭ وفات زمخشری صاحب الکشاف۔۔۔۔۔۔٥٣٨ھ ٭ وفات اُمیہ بن ابی الصلت٥٤ھ ٭ وفات ابو علی البسطامی۔۔۔۔۔۔٥٤٨ھ ٭ وفات القاضی ابن راشد۔۔۔۔۔۔٥٥١ھ ٭وفات قطب المشائخ عدی الہکاری۔۔۔۔۔۔٥٥٧ھ ٭ وفات علی بن عبدوس الفقیہ۔۔۔۔۔۔٥٥٨ھ ٭ وفات نجم الدین (والد گرامی صلاح الدین ایوبی)۔۔۔۔۔۔٥٦٨ھ ٭ وفات ابو محمد بن المامون الادیب۔۔۔۔۔۔٥٧٣ھ ٭ وفات ابو الحسن بن بکروس۔۔۔۔۔۔٥٧٦ھ ٭ وفات ابن غریۃ الوارق۔۔۔۔۔۔٥٧٨ھ ٭وفات محمد بن شیر کوہ (مشہور سپہ سالار)۔۔۔۔۔۔٥٨١ھ ٭ وفات ابن جمیر الاندلسی۔۔۔۔۔۔ ٥٨٨ ھ ٭ وفات ابو الحسن الفاخرانی۔۔۔۔۔۔٥٩١ھ ٭مکہ مکرمہ میں زبردست طوفانِ باد۔۔۔۔۔۔٥٩٢ھ ٭وفات نقی الدین الثعلی۔۔۔۔۔۔٥٩٣ھ ٭ وفات امام الخشوعی مسند الشام۔۔۔۔۔۔٥٩٨ھ ٭ وفات امام ابن الاثیر الجزری۔۔۔۔۔۔٦٠٣ھ ٭شہادت حضرتشمس تبریزی۔۔۔۔۔۔٦٤٢ھ ٭وفات خواجہ نصیر الدین طوسی۔۔۔۔۔۔٦٧٢ھ ٭حکومت علاؤالدین خلجی۔۔۔۔۔۔٦٩٥ھ ٭وفات یاقوت مستعصمی کاتب۔۔۔۔۔۔٦٩٧ھ ٭وفات احمد بن اسحق الابرقوہی۔۔۔۔۔۔٧٠١ھ ٭حکومت شہاب الدین عمر خلجی۔۔۔۔۔۔٧١٥ھ ٭خلافت الحاکم الثانی۔۔۔۔۔۔٧٣٩ھ ٭وفات شہاب الدین العمری ۔۔۔۔۔۔ ٧٤٩ ھ ٭وفات بہاؤ الدین عمر الہندی۔۔۔۔۔۔٧٥٨ھ ٭وفات شیخ سراج الدین جنیدی۔۔۔۔۔۔٧٨١ھ ٭ وفات مخدوم السادات جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ (اُچ شریف )۔۔۔۔۔۔٧٨٥ھ ٭ وفات جمال الدین بن عبدالحق الحنفی۔۔۔۔۔۔٨٠٢ھ ٭ وفات تقی الدین الحرانی۔۔۔۔۔۔٨٠٤ھ ٭ وفات سراج الدین بن الکویک۔۔۔۔۔۔٨٠٧ھ ٭وفات شیخ زادہ الحنفی (مفسر، فقیہ، حاشیہ نگار)۔۔۔۔۔۔٨٠٨ھ ٭ وفات ابراہیم بن دقماق الحنفی ۔۔۔۔۔۔٨٠٩ھ ٭ وفات موفق الدین الخزر جی مؤرخ۔۔۔۔۔۔٨١٢ھ ٭وفات شمس الدین الزرکشی۔۔۔۔۔۔٨١٣ھ ٭وفات علی بن سند الادیب۔۔۔۔۔۔٨١٤ھ ٭ وفات سراج الدین عمر الفافا الہندی۔۔۔۔۔۔٨١٥ھ ٭ امارت داؤد المعتضدالثانی۔۔۔۔۔۔٨١٦ھ ٭وفات شمس الدین ابن البیطار۔۔۔۔۔۔٨٢٥ھ ٭وفات حافظ علاؤالدین دمشقی۔۔۔۔۔۔٨٢٩ھ ٭وفات عز الدین ابن انصرات۔۔۔۔۔۔٨٥١ھ ٭وفات امام ابن حجر العسقلانی شافعی (شارح بخاری)۔۔۔۔۔۔٨٥٢ھ ٭حکومت اول لودھی شاہ بہلول ۔۔۔۔۔۔٨٥٥ھ ٭وفات امام بدرالدین العینی حنفی (شارح بخاری)۔۔۔۔۔۔٨٥٥ھ ٭وفات شمس الدین النواجی الادیب۔۔۔۔۔۔٨٥٩ھ ٭ وفات منصور الکازرونی۔۔۔۔۔۔٨٦٠ھ ٭ وفات تقی الدین الشمشی۔۔۔۔۔۔٨٧٢ھ ٭ وفات ابو المحاسن تغری بردی الحنفی ۔۔۔۔۔۔٨٧٤ھ٭ وفات زین الدین بن الغضیف۔۔۔۔۔۔٨٧٨ھ ٭ وفات ریاضی سمرقندی ۔۔۔۔۔۔٨٨٤ھ ٭ دولت شاہ سمرقندی نے تذکرہئ شعراء لکھا۔۔۔۔۔۔٩٠٤ھ ٭ وفات حسین واعظ کاشفی (معروف حنفی مفسر اور سیرت نگار)۔۔۔۔۔۔٩١٠ھ ٭ وفات حمزۃ الناشری۔۔۔۔۔۔٩٢٦ھ ٭ بہمنی حکومت ٹوٹ کر چار حکومتیں بن گئیں۔۔۔۔۔۔٩٣٧ھ ٭ وفات اسمٰعیل انصقیہ الحنفی۔۔۔۔۔۔٩٤٢ھ ٭ وفات قاسم بن خلیفہ حلبی۔۔۔۔۔۔٩٤٨ھ ٭ حکومت محمد عادل شاہ سوری۔۔۔۔۔۔٩٦٠ھ ٭ وفات عبدالعزیز المکناسی۔۔۔۔۔۔٩٦٤ھ ٭ وفات عبدالمعطی الحضرمی (احمد آباد)٩٨٩ھ ٭ وفات نور الدین ظہوری۔۔۔۔۔۔١٠١٦ھ ٭ وفات کلیم ہمدانی۔۔۔۔۔۔١٠٦١ھ ٭ قتل دارِ شکوہ۔۔۔۔۔۔١٠٦٩ھ ٭ مولائی اسمٰعیل مراکش کا سلطان بنا۔۔۔۔۔۔١٥ ذوالحجہ، ١٠٧٩ھ ٭ حکومت قطب الدین بہادر شاہ اول۔۔۔۔۔۔١١١٨ھ ٭ حکومت فرخ سیر (دہلی)۔۔۔۔۔۔١١٢٤ھ ٭ وفات عبداللہ قطب الملک۔۔۔۔۔۔١١٣٥ھ ٭ وفات علامہ حکیم محمد حسین شہرت۔۔۔۔۔۔١١٤٩ھ ٭ قتل قائم خان(فرخ آباد) ۔۔۔۔۔۔١١٦١ھ ٭ مسعود بن عبدالعزیز نے کربلا پر حملہ کیا۔۔۔۔۔۔١٢ پریل/١٨ذی الحجہ، ١٢١٦ھ ٭ وفات مولوی محمد باقر آگاہ۔۔۔۔۔۔١٢٢٠ھ ٭ حاکم یاغستان یار محمد خان نے بالاکوٹ کے مقام پر بدعقیدگی اور توہین رسالت کا ارتکاب کرنے پر احمد رائے بریلوی اور مولوی اسماعیل دہلوی کو قتل کیا۔۔۔۔۔۔١٢٤٦ھ ٭ خلافت عبدالعزیز عثمانی ۔۔۔۔۔۔ ١٢٧٧ھ ٭ وفات مولوی چراغ علی۔۔۔۔۔۔١٣١٢ھ ٭ وفات داغ دہلوی (مشہور شاعر) ۔۔۔۔۔۔١٣٢٢ھ ٭ وفات شبلی نعمانی۔۔۔۔۔۔١٣٣٢ھ ٭ وفات حفیظ اللہ بندوی۔۔۔۔۔۔١٣٦٢ھ ٭ وفات آغا خان (سوم) ١٣٧٦ھ ٭ آزادی کویت۔۔۔۔۔۔١٣٨٠ھ ٭ وفات یوسف کاندھلوی وہابی۔۔۔۔۔۔١٣٨٤ھ ٭ میدان منیٰ میں ایرانی ، عراقی و شامی شیعہ حاجیوں کا احتجاج ، سعودی حکومت نے گن شپ ہیلی کاپٹر سے فائرنگ کی ہزاروں مارے گئے جبکہ زخمیوں کو برقی بھٹی میں جھونک دیا ۔۔۔۔۔۔١٤٠٧ھ/١٩٨٧ء ٭ مکۃ المکرمہ پر یمنیوں کا قبضہ، توپ کے گولوں سے کعبۃ اللہ شریف کو نقصان پہنچا اور مسجد حرام کے مینار شہید ہوگئے ۔۔۔۔۔۔١٤٠٧/١٩٨٧ء٭ تین سال متواتر منیٰ میں آتشزدگی کے واقعات ۔۔۔۔۔۔١٤١٥ ھ/مئی ١٩٩٥ء، دوسری ١٤١٦ ھ/اپریل ١٩٩٦ء، تیسری سے بڑی اور خطرناک آتشزدگی ہزاروں حاجی جھلس کر شہید ہوگئے ۔۔۔۔۔۔١٤١٧ ھ /اپریل ١٩٩٧ء مدینۃ المنورہ میں ایک مکان سے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ (والد ماجد حضور علیہ الصلوٰہ والسلام) حضرت عکاشہ اور پانچ دیگر اصحاب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی قبور مبارکہ سے ان کے مبارک جسموں (جو صحیح حالت میں تھے) کو جنۃ البقیع میں منتقل کیا گیا۔۔۔۔۔۔٨ ذی الحجہ ١٣٩٨ھ/١٠ نومبر ١٩٧٨ء
ذی الحجہ میں وفات پانے والے بزرگان دین رضوان اللہ علیہم اجمعین
یکم ذی الحجہ
٭ حضرت سید عبدالاول سمر قندی ٩٠٥ھ ٭ حضرت خواجہ طاہر رفیق کشمیری ١٠٠١ھ ٭ خواجہ عبدالرحمان چھوہروی ١٣٤٢ھ ٭ حضرت بابا یوسف شاہ تاجی (تلمیذ اعلیٰ حضرت) ١٣٦٦ھ
٢ ذی الحجہ
٭ حضرت سیدنا ذکریا علیہ السلام ٭ حضرت بُشر قریشی ٢١٨ھ ٭ حضرت ابو الحسن بخار ٤٨١ھ ٭ حضرت سید محمد فاضل متوکل ١١١٢ھ ٭ حضرت خواجہ نور محمد عرف شاہ بھیل موہاروی ١٢٠٥ھ ٭ حضرت مرزا حیات بیگ کشمیری ١١٢٠ھ ٭ حضرت شاہ غلام رسول رسول نمارائے بریلوی ١٢٨٩ھ ۔ ٭ حضرت سید محمد میاں جیلانی نو ساروی
٣ ذی الحجہ
٭ حضرت ایوب علیہ السلام ٭ حضرت سلیمان علیہ السلام ٭ حضرت ابو سعید احمد بروعے ٣١٧ھ ٭ حضرت شیخ محمد سلیم صابری ١٠٣٠ھ ٭ حضرت خواجہ حافظ احمد یسوی ١١١٦ھ ٭ حضرت شیخ محمد سلیم چشتی ١١٥١ھ ٭ حضرت حافظ عبدالواحد خالصپوری ١٣٠٤ھ ٭ حضرت قطبِ مدینہ مولانا ضیاء الدین مدنی علیہ الرحمہ ٭ شیخ عبد القادر حیدرآبادی ١٣٢٩ھ ٭ حضرت پیر محمد اسحق جان سرہندی (ممبر ورکنگ کمیٹی صوبائی مسلم لیگ سندھ ١٩٤٠ئ) ١٣٩٥ھ ٭ حضرت مولانا ذاکر جھنگوی (رہنما جمعیت علماء پاکستان و رہنما تحریک پاکستان)
٤ ذی الحجہ
٭ حضرت خواجہ ابو الحسن فضیل ٭ حضرت سخی سرور سلطان وزیر آبادی
٥ ذی الحجہ
٭ حضرت شیخ قیام الدین ٩٠٣ھ ٭ حضرت حاجی شاہ محمد بشیر میاں صاحب (پیلی بھیت )
٦ ذی الحجہ
٭ حضرت امام المسلمین سیدنا محمد تقی رضی اللہ عنہ ٢٢٠ھ ٭ حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی ٧٧٠ھ ٭ حضرت خواجہ قاسم سمر قندی ٨٩١ھ ٭ حضرت زندہ شاہ (١٣٦٢ ھ میں مزار ظاہر ہواجب حضرت نے کسی کو خواب میں بشارت دی) ٭ حضرت مولانا عبد الغفور صاحب (نصیر آباد بلوچستان)
٧ ذی الحجہ
٭ حضرت امام المسلمین سیدنا محمد باقر رضی اللہ عنہ،١١٧ھ ٭ حضرت ابو بکر احمد خطیب بغدادی٤٦٢ھ ٭ حضرت شیخ محمد عارف صابری چشتی١٠٧١ھ ٭ حضرت عبدالخالق گجرای ١٠٧٨ھ ٭ حضرت کمال الدین عرف سید شاہ کلیم پوری ١٢٦٦ھ ٭ مولانا حبیب الرحمان شیروانی ١٣٧٠ھ ٭ میاں محمد بخش ابدال
٨ ذی الحجہ
٭ حضرت شاہ احمد علی قادری ٭ حضرت قطب الدین قطب عالم اوچی ٨٥٦ھ ٭ حضرت سید برہان الدین قطب عالم ٥٨٦ھ ٭ حضرت سخی سلطان منگھوپیر ٭ حضرت محمد صدیق چشتی صابری لاہوری ١٠٨٤ھ
٩ ذی الحجہ
٭ حضرت سیدنا امام مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ، ٭ حضرت سیدی عبداللہ (صاحب مسند داری) سمر قندی ٢٥٥ھ ٭ حضرت حارث بن اُسامہ (صاحب مسند)٢٨٢ھ ٭ حضرت ابو بکر عبداللہ بن باہر دینوی ٣٣٠ھ ٭ حضرت ابو الحسن بن عالم بصری ٣٦٠ھ ٭ حضرت سید زین الدین ٨١٣ھ ٭ حضرت خواجہ ابو المساکین شیخ محمد ٹھٹھوی ٭ شیخ محمد فاضل سعدی گجراگی سورتی ١٣٠٢ھ ٭ حضرت علامہ محمد عادل حنفی الہ آبادی ثم کانپوری ١٣٢٥ھ ٭ محمد ابراہیم جیلانی المعروف سید سخی وجڑی والا (حیدرآباد) ٭ حضرت سید قطب شاہ عرف ظہور شاہ (بھیم پورہ نشتر روڈ، کراچی) ٭ حضرت علامہ ولایت حسین بن خیرات حسین حنفی (وصال بر موقع وقوف عرفات)١٣٤٠ھ
١٠ ذی الحجہ
٭ حضرت فتح موصلی ٢٢٠ھ ٭ حضرت شیخ محمد سعد عرف سعد الدین جموی ٦٥٠ھ ٭ حضرت سید جلال الدین مخدوم جہانیاں جہاں گشت ٧٥٠ھ ٭ حضرت خواجہ حسن عطار ٨٢٦ھ ٭ حضرت قاضی القضا شمس الدین محمد جزری (مصنف حصن حصین) ٨٣٣ھ ۔ ٭ حضرت سرکار پٹنہ ٭ بابا بھولے شاہ فیروز پوری ٭ حضرت علامہ وکیل احمد سکندر پوری حنفی (پچاس کتب کے مصنف خصوصاً ” الکلام المقبول فی اثبات اسلام آباء الرسول ا” )١٣٢٢ھ ٭ حضرت مفتی لطف اللہ علی گڑھی ١٣٣٤ھ ٭ پیر طریقت صاحبزادہ ظہور الحق گورداسپوری ١٤٠٤ ھ
١١ ذی الحجہ
٭ حضرت عبدالعزیزی تمیمی ٣٣٢ھ ٭ حضرت ابو الحسن فتح بن شمعون ٤٥٢ھ ٭ حضرت شیخ بہاؤلدین شطاری دولت آبادی ٩٢١ھ ٭ سید شہاب الدین سہروردی بن میراں موج دریا بخاری ١٠٤١ھ ٭ حضرت ابو طاہر محمد دہلوی ١١٥٩ھ ٭ حضرت شاہ محمد طاہر فاخر الہ آبادی ١١٦٤ھ ٭ حضرت سید امین الدین عرف ارحام الدین ٭ حضرت شاہ مقیم حجرہ شریف ٭ حضرت حاکم علی نقشبندی کوٹلی ١٢٥٨ھ ٭ حضرت سید سید محمود آغا نقشبندی ١٢٩١ھ ٭ حضرت پیر امیر شاہ قادری (مظفر آباد) ٭ حضرت پیر فضل حق گل آبا کوہاٹی نقشبندی قادری ١٣٧١ھ/٢ ستمبر ١٩٥٢ء (رہنما تحریک پاکستان)
١٢ ذی الحجہ
٭ حضرت ابو حمزہ محمد بن ابراہیم بغدادی ٢٦٧ھ ٭ حضرت شیخ اختیار الدین ٨٣٨ھ ٭ حضرت سید شفیق مرغول ابدال ٨٩٧ھ ٭ حضرت مخدوم جہانیاں جہان گشت جلال بخاری دوران فلک ٩٠٣ھ ٭ حضرت مفتی ابو الصفا دمشقی ١١٢٠ھ ٭ حضرت پیر شاہ سرہندی ١١٤٥ھ ٭ حضرت شاہ خدا بخش ١٢٦٩ھ ۔
١٣ ذی الحجہ
٭ حضرت ابو اسحق ابراہیم کرمان شاہی ٣٣٧ھ ٭ حضرت سید عبدالقادر انییاد ٧٢٥ھ ٭ حضرت سائیں محمد عبد اللہ ساقی سرمست قلندر (مستجاب الدعوات)١٣٧٦ھ
١٤ ذی الحجہ
٭ حضرت ابو عمر محمد بن احمد نجند نیشاپوری ٣٦٦ھ ٭ حضرت شاہ عبدالغفار ٣٩٧ھ ٭ حضرت ابو سعید قیلوی ٥٥٧ھ ٭ حضرت شیخ عبدالرؤف ٧٠٠ھ ٭ حضرت شاہ سوندھا حق نما ٧٩٢ھ ٭ حضرت شیخ بایزید بغدادی ٧٩٧ھ ٭ حضرت سید محمد طفیل اتردلوی ١١٥١ھ ٭ حضرت شیخ محمد فاضل مجددی ١١٥١ھ ٭ حضرت شاہ حسین گجراتی ١١٨٣ھ ٭ حضرت اخون شاہ سُدَنی ١١٩١ھ ٭ حضرت حافظ ہدایت اللہ رامپوری ١٢٥٩ھ ٭ حضرت شاہ ابو الفضل ظہیر الدین محمد پناہ عطا عرف میاں جی ١٢٧٥ھ ۔
١٥ ذی الحجہ
٭ حضرت سیدنا یقوب علیہ السلام ٭ حضرت خواجہ اسحق بہاولپوری ٨٨٨ھ ٭ حضرت مولانا محمد افضل الہ آبادی ١١٢٤ھ ٭ حضرت مولانا رفیع الدین مراد آبادی ١٢١٨ھ ٭ حضرت خواجہ عبد الصمد خان المعروف حضور جی ١٣٦٩ھ/٢٧ ستمبر ١٩٥٠ء (رہنما تحریک پاکستان)
١٦ ذی الحجہ
٭ حضرت سید محمد حسن نوری بخاری ١٣٣ھ ٭ حضرت شیخ احمد نوریزی٢٤٤ھ ٭ حضرت ابو عبداللہ مغربی ٣٦٧ھ ٭ حضرت ابو المنصور اصفہانی ٤١٨ھ ٭ حضرت ابو الفرح فراغی ٤٩٧ھ ٭ حضرت مسعود شوغی دغ ابدال ٦١٣ھ ٭ حضرت سید علی بن احمد ٧٠٠ھ ٭ حضرت مولوی محمد امین بدایونی ١٢٥٥ھ ۔
١٧ ذی الحجہ
٭ حضرت ابو الحسن علی بصری ٣٧١ھ ٭ حضرت ابو محمد بصری ٣٨٥ھ ٭ حضرت ابو بکر محمد بن ابراہیم سوسی ٣٨٦ھ ٭ حضرت شیخ عثمان بن عمرو باقلانی ٤٠٢ھ ٭ حضرت سیدی ابو عبداللہ محمد حمیدی اندلسی ٤٨٨ھ ٭ حضرت شاہ خدا قلی ٥٢١ھ ٭ حضرت خواجہ فخرالدین زاہد ٧٠٤ھ ٭ حضرت خواجہ خورد محمد بن حضرت عزیزان علی رامتینی خوارزمی ٧١٥ھ ٭ حضرت شیخ فضل اللہ الہٰ آبادی ١١٦٧ھ ٭ حضرت شاہ باسط علی قلندر ١١٩٦ھ ٭ حافظ محمد امین چشتی لاہوری ١٣٦٣ھ ٭ پیر سید سچل شاہ جیلانی (خیرپورسندھ)
١٨ ذی الحجہ
٭ حضرت امیر المؤمنین سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ ٣٥ھ ٭ حضرت شیخ محی الدین عاصم ٧٦٥ھ ٭ حضرت محب اللہ شامی ١١٠٣ھ ٭ شاہ آل رسول مارہروی ١٢٩٦ھ ٭ صدر الافاضل حضرت مولانا نعیم الدین مرادآبادی ٭ حضرت شیخ احمد بن صبغت اللہ شافعی مدراسی محدث (مصنف فتاوی صبغیہ) ١٣٠٧ھ ٭ حضرت سیف الدین چشتی (شجاع آباد)
١٩ ذی الحجہ
٭ حضرت ابوالحسن احمد نوری ٢٩٤ھ ٭ حضرت عبدالستار کاشغری ٦٨٧ھ ٭ حضرت شاہ ابو المکارم فاضل ٨٣٩ھ ٭ حضرت شیخ سعدی وزیر آبادی ١١٠٢ھ ٭ حضرت سید نور محمد گیلانی ١١٢٦ھ ٭ حضرت شیخ خیر الدین خیر شاہ چشتی ١٢٢٨ھ ٭ حضرت شیخ محمد سعید چشتی ١٢٣٠ھ ۔
٢٠ ذی الحجہ
٭ حضرت عبداللہ شاہ غازی (بن سید محمد نفس ذکیہ بن سید عبد اللہ المحض شہید ) ١٥١ھ ٭ حضرت شیخ جمال الدین جمن ٩٠٤ھ ٭ حضرت سید جلال الدین حمید ١١١٤ھ
٢١ ذی الحجہ
٭ حضرت محمد جام طوسی ٣٣٧ھ ٭ حضرت شیخ برہان الدین ابو محمد حسین ہمدانی ٥٨٩ھ ٭ حضرت سید اسمٰعیل اکبری ٥٩٨ھ ٭ حضرت شیخ عبدالحمید غوری ٤٣٧ھ ٭ حضرت سید عبدالاول سنبری ٥٥٣ھ ٭ حضرت شاہ صدر الدین قسیم العباد ٨٠٩ھ ٭ حضرت شیخ نظام ارنولی چشتی ٩٩٧ھ ٭ حضرت حاجی رفیع الدین ١٢٥٩ھ ٭ حضرت سید علی مردان شاہ جیلانی قادری (نورائی شریف)١٣٦٩ھ
٢٢ ذی الحجہ
٭ حضرت شیخ ابو العباس ٢٠١ھ ٭ حضرت شیخ ماد ہو قادری لاہوری ١٠٥٦ھ ٭ حضرت شاہ الہدیہ قلندر ١١٤٧ھ ۔ ٭ حضرت مولانا شاہ عبدالعلیم میرٹھی
٢٣ ذی الحجہ
٭ حضرت ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا ٢٥ھ ٭ حضرت ابو الحسن علی بن ادریس یعقوبی٦٢١ھ ٭ حضرت شیخ صدر الدین عارف سہروردی ٦٨٤ھ ٭ خواجہ محمد حامد تونسوی ٭ حضرت محمد خدایار چشتی ٭ حضرت سید ابو محمد امام شاہ (لودھراں) ٭ حضرت بابا سید حیدر علی شاہ ٭ حضرت سید قاسم علی گیلانی (مکھر شریف اٹک)
٢٤ ذی الحجہ
٭ حضرت ابو القاسم عبدالصمد واعظ دینوری ٣٩٧ھ ٭ حضرت سید جلال عبدالقادر عرب سید احمد ٦٩٩ھ ٭ حضرت سید محمد محی الدین جوز البطعی ٧٤٥ھ ٭ حضرت خواجہ محمد عرف عمر پارسا نقشبندی(خلیفہ حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبند) ٨٢٢ھ ٭ حضرت شاہ نعمت اللہ ولی ٨٣٤ھ ٭ حضرت نجم الدین غوث الدہر ٨٣٧ھ ٭ حضرت شیخ جلال الدین صابری کریم الطرفین ٩٨٩ھ ٭ حضرت مولوی مفتی غلام سرور لاہوری ١٣٠٧ھ ۔
٢٥ ذی الحجہ
٭ حضرت ابو المغیت حسین بن منصور حلاج ٣٠٩ھ ٭ آغا سید رہبر حسین شاہ مظہر گیلانی (مترجم قصیدئہ غوثیہ بر زبان سندھی و راہنما تحریک پاکستان) ١٣٩٢ھ
٢٦ ذی الحجہ
٭ حضرت ابو عمر عبدالملک گازرونی ٣٥٨ھ ٭ حضرت جمال شاہ قادری چشتی (مچھی میانی ، کھارادر، کراچی) ٭ خواجہ عبد الخالق اویسی (چشتیاں) ٭ حضرت مولانا حکیم گل محمد قریشی (ملتان) ٭ حضرت خواجہ در محمد غریب نواز (رحیم یار خان)
٢٧ ذی الحجہ
٭ حضرت شیخ اسعد ٢٤٩ھ ٭ حضرت ابو بکر جعفر المقلب پشبلی جنان الفردوس ٣٣٤ھ ٭ حضرت مولانا بہاؤالدین یمنی ٦٢٨ھ ٭ حضرت عبدالغفار صدیقی٧٢٧ ٭ حضرت صدر الدین انقلاب نفس ٨٦٣ھ ٭ حضرت شاہ فیض اللہ روح العالمین ٨٩٩ھ ٭ حضرت خواجہ بہاؤ الحق خاصہئ خدا ٩٢٢ھ ٭ حضرت شاہ قاسم سلیمانی ٩٧٥ھ ٭ حضرت سید عبدالصمد خدا نما ٩٩٩ھ ٭ حضرت حاجی محمد عبداللہ بغدادی ١٢٠١ھ ٭ حضرت شاہ داؤد مصری ١٢١١ھ ٭ حضرت شاہ کریم بخش ١٢٧٩ھ ٭ استاذ العلماء مولانا وجیہ الدین مدراسی ١٣١٠ھ
٢٨ ذی الحجہ
٭ حضرت امیر المؤمنین عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ ٢٣ھ ٭ حضرت قاضی القضاہ شہاب الدین احمد حجر عسقلانی ٨٥٢ھ ٭ حضرت سید حسام الدین ٩٨٢ھ ٭ حضرت شیخ عبدالواحد صفاتی فنا ١٠٠٧ھ ٭ حضرت شیخ محمد صدیق صابری ١٠٨٤ھ ٭ حضرت شیخ عبدالاحد سرہندی ١١٤٢ھ ٭ حضرت پیر بچل شاہ عرف مستان شاہ (گاڑی کھاتہ ، ایم اے جناح روڈ، کراچی) ١٢٩١ھ
٢٩ ذی الحجہ
٭ حضرت ابو عبداللہ سنجری ٢٥٥ھ ٭ حضرت سیدی ابو عبداللہ محمد سلامہ فضاعی ٤٥٤ھ ٭ حضرت خواجہ علیم الدین چشتی ٨٠٥ھ ٭ حضرت مرزا کامل بدخشی ١١٣٠ھ ٭ حضرت سید محمد کریم قول الارواح ١١٨٨ھ ٭ حضرت محمد ظہیر قاسمی چیچہ وطنی
٣٠ ذی الحجہ
حضرت ابو عمر بغدادی ١٨٧ھ
(رضی اللہ تعالیٰ عہنم اجمعین و رحمہما اللہ)
تحریر: علامہ نسیم احمد صدیقی مدظلہ عالی
وجہ تسمیہ :۔
قمری تقویم (ہجری کیلنڈر) اسلامی سال کے ساتویں مہینہ کا نام رجب المرجب ہے اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ رجب ترجیب سے ماخوذ ہے اور ترجیب کے معنی تعظیم کرنا ہے۔ یہ حرمت والا مہینہ ہے اس مہینہ میں جدال و قتال نہیں ہوتے تھے اس لیے اسے “الاصم رجب” کہتے تھے کہ اس میں ہتھیاروں کی آوازیں نہیں سنی جاتیں۔ اس مہینہ کو “اصب” بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت و بخشش کے خصوصی انعام فرماتا ہے۔ اس ماہ میں عبادات اور دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔ دور جہالت میں مظلوم، ظالم کے لئے رجب میں بددعا کرتا تھا۔ (عجائب المخلوقات)
ماہ رجب کی فضیلت :۔
رجب ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جن کو قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے :
اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اِثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ مِنْھَا اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ فَلَا تُظْلِمُوْا فِیْھِنَّ اَنْفُسِکُمْ (پارہ ١٠، سورہ توبہ، آیت ٣٦)
ترجمہ :۔”بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے ان میں چار حرمت والے ہیں یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو”۔ (کنز الایمان)
سرکار غوث الثقلین رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں کہ “رجب کا ایک نام مطھر ہے۔ ” (غنیتہ الطالبین ص ٣٥٣)
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ و صحبہ وسلم نے ارشاد فرمایا :۔ رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے ۔ (ما ثبت من السنۃ ص ١٧٠)
ایک اور جگہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ و صحبہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا :۔ رجب کی فضیلت تمام مہینوں پر ایسی ہے جیسے قرآن کی فضیلت تمام ذکروں (صحیفوں) کتابوں پر ہے اور تمام مہینوں پر شعبان کی فضیلت ایسی ہے جیسی محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ و صحبہ وسلم کی فضیلت باقی تمام انبیائے کرام پر ہے اور تمام مہینوں پر رمضان کی فضیلت ایسی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی فضیلت تمام (مخلوق) بندوں پر ہے (ما ثبت من السنہ ، ص ١٧٣)
رجب کی خصوصی فضیلت اور واقعہ معراج شریف
حدیث شریف کے مطابق “رجب المرجب” اللہ کا مہینہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جل مجدہ نے اپنے محبوب سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی حسن الوہیت و ربوبیت کی جلوہ گاہوں میں ستائیس (٢٧) رجب کی شب بلوا کر “معراج شریف” سے مشرف فرمایا۔ ستائیسویں شب میں آقائے دو جہاں علیہ الصلوۃ والسلام حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مکان (واقع بیت اللہ شریف کی دیواروں موسوم مستجار اور مستجاب کے کارنر رکن یمانی کے سامنے) میں تشریف فرما تھے اور یہیں حضرت جبرئیل امین علیہ السلام ستر یا اسی ہزار ملائکہ کی رفاقت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے، اس موقع پر حضرت جبرئیل علیہ السلام اور حضرت میکائیل علیہ السلام کے ذمہ اللہ تعالیٰ نے یہ کام سونپے کہ میرے محبوب کو براق پر سوار کرانے کے لئے اے جبرئیل تمہارے ذمہ رکاب تھامنا اور اے میکائیل تمہارے ذمہ لگام تھامنا ہے۔ سند المفسرین امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے، ” حضرت جبرئیل علیہ السلام کا براق کی رکاب تھامنے کا عمل، فرشتوں کے سجدہ کرنے سے بھی افضل ہے۔” (تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ نمبر ٣٠١ مطبوعہ مصر)
مکتبہ حقانیہ پشاور کی بددیانتی:۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کی متذکرہ تفسیر کبیر کا حوالہ مصری نسخہ سے پیش کیا گیا ہے، جب کہ مکتبہ حقانیہ پشاور (جسے علمائے دیوبند کی سرپرستی حاصل ہے) نے تفسیر کبیر شائع کی ہے۔ اس کی جلد دوم صفحہ ٤٤٥ میں عبارت میں تحریف کر کے یوں چھاپا ہے۔
“ان جبرئیل علیہ السلام اخذ برکاب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حتی ارکبہ علی البراق لیلۃ المعراج و ھذا یدل علی ان محمدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم افضل منہ”
پہلی عبارت میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کی خدمت کو “سجود ملائکہ سے افضل” قرار دیا ہے، جب کہ تحریف و بددیانتی کے بعد، “حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت جبرئیل سے افضل” قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ تو حقیقت ہے اس لئے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام “سید المرسلین” ہے لہذا “سید الملائکہ” بھی ہیں حضرت جبرئیل سے افضل ہیں۔ اس میں کوئی کلام ہے ہی نہیں۔
جشن معراج النبی اور ہماری ذمہ داریاں
اسلامی بھائیوں اور بہنوں! جس طرح ہم ماہ ربیع الاول شریف میں جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انعقاد کرتے ہیں ایسے ہی رجب شریف میں جشن معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انعقاد کریں مساجد و مدارس ہی نہیں بلکہ اپنے گھروں میں بھی چراغاں کریں ، اجتماعات منعقد کریں، علمائے اہلسنّت کے مواعظ حسنہ (تقاریر) سننے کا اہتمام کریں، اپنے گھر میں اہل خانہ خصوصاً بچوں کو لے کر ادب کے ساتھ بیٹھ کر محفل منعقد کریں ، بچوں کو بتائیں کہ آج کی شب آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا مکاں کی اس منزل تک پہنچے جہاں مخلوق میں سے کسی کی رسائی نہیں اور بلا حجاب اللہ تعالیٰ کا دیدار عطا ہوا، اللہ تعالیٰ کی بے شمار نشانیوں کو ملاحظہ فرمایا، اللہ تعالیٰ جل شانہ کے اسمائ صفات کی تجلیات کے ظہور کے مقامات و طبقات سے گذر کر ان ہی صفات سے متصف ہو کر اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے مظہر ہوئے، جنت و دوزخ کو ملاحظہ فرمایا، بعد از قیامت اور بعد از جزا سزا جو کچھ ہوگا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا اور یہ کمال اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہمیشہ کے لیے عطا فرمایا، یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ عزوجل نے ماضی و مستقبل (جو کچھ ہو چکا اور جو ہونے والا ہے ) کا علم عطا فرمایا جسے شرعی اصطلاح میں علم ما کان و ما یکون کہتے ہیں ۔ امت کے لیے شفاعت کا حق حاصل کیا، شب معراج میں انبیائ و مرسلین علیہم الصلوٰۃ و السلام اجمعین سے نہ صرف ملاقا ت کی بلکہ ان سب پر آپ اکی فضیلت واضح کرنے کے لیے امامت عظمیٰ و کبریٰ کا منصب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو عطا ہوا۔ نماز کی فرضیت کا حکم اللہ تعالیٰ عزاسمہ نے خاص اپنی حسن الوہیت و ربوبیت کی جلوہ گاہوں میں عطا کیا، اول پچاس نمازیں فرض ہوئیں پھر بتدریج کم ہوتے ہوتے پانچ باقی رہیں۔ نماز کی فرضیت و اہمیت سے بچوں کو آگاہ کریں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ معراج شریف کے سفر مقدس کے تین مرحلے ہیں۔
اول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسریٰ، یعنی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک۔
دوم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معراج۔
(حصہ اول )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مسجد اقصیٰ سے کہکشاؤں کا سفر آسمان اول تک ۔
(حصہ دوم)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آسمان اول سے آسمان ہفتم اور سدرۃ المنتہیٰ تک۔
سوم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اعراج، یعنی سدرۃ المنتہیٰ (حضرت جبریل امین علیہ السلام کا مقام آخر) سے لے کر عرش و کرسی اور لامکاں ، اللہ تعالیٰ جل شانہ کی حسن الوہیت ، جمال ربوبیت اور جلال تقدس و تجرد کی جلوہ گاہ تک۔
خود بھی تلاوت قرآن کریں اور بچوں کو بھی ترجمہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کنز الایمان کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کا عادی بنائیں۔ معراج شریف سے متعلق مضامین والی آیات مقدسہ، سورئہ الاسرائ (بنی اسرائیل) اور سورئہ النجم کی تلاوت ضرور کریں۔ واقعہ معراج شریف سے متعلق بچوں کو بتائیں کہ یہ عقلوں کو دنگ کرنے والا سفر ایک لمحے میں ہوا۔
چلے جب عرش کی جانب محمد تو ساکت ہوگئی تھی زندگی تک
نہ تھی دریا کی موجوں میں روانی تھا ساکت ہر سمندر ہر ندی تک
زمیں نے چھوڑ دی تھی اپنی گردش خلا میں انتظار روشنی تک
رہا کس طرح بستر گرم ان کا محقق محو حیرت ہیں ابھی تک
عناصر زندگی کے منجمد تھے شب اسریٰ میں ان کی واپسی تک
نہیں سائنس میں ایسی مثالیں ازل کے روز سے پندرہ صدی تک (خالد عرفان)
ماہ رجب کے نوافل
لیلۃ الرغائب کی فضیلت :۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے جامع الاصول کے حوالہ سے یہ حدیث نقل کی ہے ” حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ و صحبہ وسلم نے “لیلۃ الرغائب” کا تذکرہ فرمایا وہ رجب کے پہلے جمعہ کی رات ہے (یعنی جمعرات کا دن گزرنے کے بعد)
اس رات میں مغرب کے بعد بارہ رکعات نفل چھ سلام سے ادا کی جاتی ہے ہر رکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد سورئہ القدر تین دفعہ اور سورئہ اخلاص بارہ بارہ دفعہ پڑھے۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد یہ درود شریف ستر (٧٠) مرتبہ پڑھے۔
٭ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِ نِ النَّبِیِّ الْاُ مِّیِّ وَعَلٰی اٰلِہ وَاَصْحَابِہ وَسَلِّمْ
(ترجمہ:۔ اے اللہ! رحمت فرما حضرت محمد بنی امی پر اور ان کی آل و اصحاب پر اور بھی اور سلامتی کا نزول فرما)
٭ پھر سجدہ میں جا کر ستر (٧٠) مرتبہ یہ پڑھے:  سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّنَا وَ رَبُّ الْمَلٰئِکَۃِ وَالرُّوْحِ
(یعنی پاک و مقدس ہے ہمارا رب اور فرشتوں اور حضرت جبرئیل کا رب)
٭پھر سجدے سے سر اٹھا کر ستر بار یہ پڑھے:۔ رَبِّ اغْفِرْ وَ ارْحَمْ وَ تَجَاوَزْ عَمَّا تَعْلَمُ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْاَعَزُّ الْاَکْرَمْ
(یعنی اے اللہ! بخش دے اور رحم فرما اور تجاوز فرما اس بات سے جسے تو جانتا ہے بے شک تو بلند و برتر اور عظیم ہے)
٭ پھر دوسرا سجدہ کرے اور اس میں وہی دعا پڑھے اور پھر سجدے میں جو دعا مانگے گا قبول ہوگی۔ (ما ثبت من السنۃ ، ص ١٨١)
حضرت سلطان المشائخ سے منقول ہے کہ جو شخص لیلۃ الرغائب کی نماز ادا کرے اس سال اسے موت نہ آئے گی۔ (لطائف اشرفی جلد دوم ص ٣٤٣)
حافظ عراقی علیہ الرحمہ اپنی تالیف” امالی” میں بحوالہ حافظ ابو الفضل محمد بن ناصر سلامی علیہ الرحمہ سے ناقل ہیں ” حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً یہ حدیث مروی ہے کہ “جس نے رجب کی پہلی رات بعد مغرب بیس رکعات پڑھیں تو وہ ” پل صراط” سے بجلی کی مانند بغیر حساب و عذاب کے گزر جائے گا”۔ (ما ثبت من السنۃ ص ١٨٣)
محبوب یزدانی حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس السرہ النورانی لکھتے ہیں :” ماہ رجب کی پہلی شب میں نماز مغرب کے بعد بیس رکعت نماز ادا کریں، اس کے ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ اخلاص پڑھیں۔ بیس رکعات مکمل ہونے کے بعد یہ کلمہ شریف پڑھیں، “لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ، لَاشَرِیْکَ لَہ، مُحَمَّدٌ الرَّسُوْلُ اللّٰہِ اس کی بہت فضیلت ہے۔ (لطائف اشرفی جلد دوم ،ص ٣٤٢)
رجب کی پندرہ تاریخ میں مدد چاہنے کے لئے، اشراق کے بعددو دو رکعت سے (پچیس دفعہ میں) پچاس رکعات نماز ادا کریں۔ اس کی ہر رکعت میں فاتحہ کے بعد، سورۃ الاخلاص اورمعوذ تین پڑھیں اور پھر دعا کریں۔ یہ نماز ١٥ رجب کے علاوہ ١٥ رمضان میں بھی ادا کی جاتی ہے۔ (لطائف اشرفی جلد دوم صفحہ ٣٤٤)
رجب کی پندرہ تاریخ میں مشائخ کا معمول رہا ہے کہ دس رکعات نماز ادا کیجئے۔ ہر رکعت میں فاتحہ کے بعد تین بار اور دوسرے قول کے مطابق دس مرتبہ سورہ اخلاص پڑھیئے، جب نماز سے فارغ ہوں تو سو (١٠٠) مرتبہ یہ تسبیح پڑھیں: سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر (اللہ پاک ہے اور تعریف اسی کے لئے ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور اللہ ہی سب سے بڑا ہے)
تیرہ، چودہ اور پندرہ (یعنی ایام بیض) رجب کی راتوں میں بیدار ہوں اور ان تینوں راتوں میں ہر شب سو سو رکعات نماز ادا کریں (یعنی تینوں راتوں میں مجموعی طور پر تین سو (٣٠٠) رکعات ادا کریں) ہر رکعت میں سورہ فاتحہ ایک مرتبہ اور سورہ اخلاص دس مرتبہ پڑھیں جب نماز سے فارغ ہوں تو ایک ہزار مرتبہ استغفار پڑھیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ عزوجل زمانے کی جملہ بلاؤں اور آسمان کی آفتوں سے محفوظ رہیں گے اور فلکی شر اور زمینی خرابیوں سے سلامت رہیں گے اور اگر ان راتوں میں موت واقع ہو جائے تو شہید کا درجہ پائیں گے۔ (لطائف اشرفی جلد دوم صفحہ ٣٤٤)
٢٧ ویں شب کی خصوصی عبادات:۔ حافظ ابن حجر مکی علیہ الرحمہ کہتے ہیں ہمیں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً حدیث پہنچی کہ ” رجب میں ایک رات ہے جس میں عمل کرنے والے کے لیے سو برس کی نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور یہ رجب کی ٢٧ویں شب ہے اس میں بارہ رکعات دو دو کر کے ادا کریں پھر آخر میں سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکْبَرُ سو مرتبہ ، پھر استغفار سو مرتبہ ، پھر درود شریف سو مرتبہ پڑھ کر اپنے امور کی دعا مانگے اور صبح کو روزہ رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کی تمام دعائیں قبول فرمائے گا دوسری روایت میں ہے کہ” اللہ تعالیٰ ساٹھ سال کے گناہ مٹا دے گا”۔ (ما ثبت من السنۃ ص ١٨٤)
ستائیسویں رجب کی عبادات:۔ ٢٦ رجب کا روزہ رکھیں مغرب سے قبل غسل کریں، اذان مغرب پر افطار کریں مغرب کی نماز ادا کریں پھر ستائیسویں شب میں بیدار رہیں۔ عشائ کے بعد دو رکعت نماز نفل ادا کریں اور ہر رکعت میں الحمد شریف یعنی سورہ فاتحہ کے بعد سورہئ اخلاص اکیس مرتبہ پڑھیں۔ نماز سے فارغ ہو کر مدینۃ المنورہ کی جانب رخ کر کے گیارہ مرتبہ درود شریف پڑھیں، پھر اس کے بعد یہ دعا پڑھیں۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بِمُشَاھِدَۃِ اَسْرَارِ الْمُحِبِّیْنَ وَبِالْخِلْوَۃِ الَّتِیْ خَصَّصْتَ بِھَا سَیِّدُ الْمُرْسَلِیْنَ حِیْنَ اَسْرَیْتَ بِہ لَیْلَۃِ السَّابِعِ وَالْعِشْرِیْنَ اَنْ تَرْحَمَ قَلْبِیْ الْحَزِیْنَ وَ تُجِیْبُ دَعْوَتِیْ یَا اَکْرَمَ الْاَکْرَمِیْنَ
تو اللہ تعالیٰ شب معراج کے وسیلہ سے دعا قبول فرمائے گا، اور رجب دوسروں کے دل مردہ ہو جائیں گے تو ان کا دل زندہ رکھے گا جو یہ دعا پڑھیں گے۔ (نزہۃ المجالس جلد اول صفحہ ١٣٠ فضائل الایام والشہور، صفحہ ٤٠٣)
قطب الاقطاب، غوث الاغواث، سرکار فرد الافراد، سید الاوتاد، شہنشاہ بغداد، غوث اعظم الشیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی تحریر فرماتے ہیں، “رجب المرجب کی ستائیسویں رات بڑی بابرکت ہے کیوں کہ اسی شب میں سید الانبیائ والمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے معراج شریف کا معجزہ عطا فرمایا۔ (غنیتہ الطالبین صفحہ ٣٦٣)
حضرت مولا علی مشکل کشا کرم اللہ تعالیٰ وجہہ کی تعلیم کردہ دعا:۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ یَا عَالِمُ الْخَفِیَّۃِ وَ یَا مَنِ السَّمَائُ بِقُدْرَتِہ مَبْنِیَّۃٌ وَّیَا مَنِ الْاَرْضُ بِعِزَّتِہ مَدْحِیُّۃٌ وَّ یَا مَنِ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِنُوْرِ جَلَالَہ، مُشْرِقَۃٌ مُّضِیَّۃٌ وَ یَا مُقْبِلًا عَلٰی عُلِّ نَفْسٍ مُّؤْمِنَۃٍ ذَکِیَّۃٍ وَّ یَا مَسْکَنُ رُعْبَ اَخَائِفِیْنَ وَاَھْلُ التَّقِیَّۃٌ وَّ یَامَنْ حَوَائِجُ الْخَلْقِ عِنْدَہ، مَقْضِیَّۃٌ وَّ یَامَنْ نَجٰی یُوْسَفَ مِنْ رِّقَ الْعُبُوْدِیَّۃٍ وَّ یَامَنْ لَّیْسَ لَہ، بَوَّابٌ یُّنَادِیْ وَلَا صَاحِبٌ یَّغْشٰی وَلَا وَزِیْرٌ یُّغْطٰی وَلَا غَیْرَہ، رَبٌ یُّدْعٰی وَلَا یَزَادَ عَلٰی کَثْرَۃِ الْحَوَائِجِ اِلَّا کَرَمًا وَّجُوْدًا وَّصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ اَعْطِنِیْ سُوْئَ الِیْ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ
(ترجمہ) اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوںّ اے پوشیدہ چیزوں کے جاننے والے، اے وہ ذات! جس نے اپنی قدرت سے آسمان بنائے، اے وہ ذات! جس کی قدرت سے زمین بچھائی گئی۔ اے وہ ذات! جس کے نور جلال سے سورج اور چاند روشن اور پرنور ہیں، اے وہ ذات! جس کی توجہ ہر پاک نفس کی طرف ہوتی ہے، اے وہ ذات جو ،ہراساں اور ترساں لوگوں کو خوف سے تسکین دینے والی ہے، اے وہ ذات! جس کے یہاں مخلوق کی حاجتیں پوری ہوتی ہیں اے وہ ذات! جس نے نجات بخشی یوسف (علیہ السلام) کو غلامی کی ذلت سے، اے وہ ذات! جس کا کوئی دربان نہیں جس کو پکارا جائے اور نہ کوئی مصاحب ہے جس کے پاس حاضری دی جائے اور نہ کوئی وزیر ہے کہ جس کو نذر پیش کی جائے اور نہ اس کے علاوہ کوئی رب ہے کہ اس سے دعا کی جائے، اے! وہ کہ جس کا کرم اور جود، حاجتوں کی کثرت کے باوجود بڑھتا ہی جاتا ہے، میں تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی آل پر رحمت نازل فرما اور مجھے میری مراد عطا کر، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ ٣٦٩)
رجب میں شب بیداری اور قیام
ماہ رجب کی پہلی، پندرہویں اور ستائیسویں شب میں بیدار ہونا اور عبادات میں مشغول ہونا چاہئے۔ نیز رجب کی پہلی جمعرات (نوچندی) کا روزہ رکھیں اور پہلی شب جمعہ میں قیام کریں۔ حضور اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، پہلی شب جمعہ کو فرشتے “لیلۃ الرغائب” (مقاصد کی رات) کہتے ہیں، جب اس رات کی اول تہائی گزر جاتی ہے تو تمام آسمانوں اور زمینوں میں کوئی فرشتہ ایسا باقی نہیں رہتا جو کعبہ یا اطراف کعبہ میں جمع نہ ہو جائے، اس وقت اللہ تعالیٰ تمام ملائکہ کو اپنے دیدار سے نوازتا ہے اور فرماتا ہے مجھ سے مانگو جو چاہو، فرشتے عرض کرتے ہیں اے رب! عرض یہ ہے کہ تو رجب کے روزہ داروں کو بخش دے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں انھیں بخش دیا۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ ٣٦٢)
ماہ رجب کی راتوں میں بالخصوص پہلی رات کی دعائیں:۔
اِلٰھِیْ تَعَرَّضَ لَکَ فِیْ ھٰذِہِ الَّیْلَۃَ الْمُتَعَرِّضُوْنَ وَ قَصْدَکَ الْقَاصِدُوْنَ وَاَھْلُ فَضْلِکَ وَ مَعْرُوْفِکَ الطَّالِبُوْنَ وَلَکَ فِیْ ھٰذِہِ الَّیْلَۃِ نَفَحَاتُ وَ جَوَائِزُ وَ عَطَایَا وَ مَوَاھِبَ تَمُنُّ بِھَا عَلٰی مَنْ تَشَائُ مِنْ عِبَادِکَ وَتَمْنَعُھَا مِمَّنْ لَّمْ تَسْبِقُ لَہ، الْعِنَایَۃُ مِنْکَ وَھَا اَنَا عَبْدُکَ الْفَقِیْرِ اِلَیْکَ الْمُوَمِّلُ فَضْلُ وَ مَعْرُوْفِکَ فَاِنَّ کُنْتَ یَا مَوْلَایَ تَفْضَلْتَ فِیْ ھٰذِہِ الَّیْلَۃِ عَلٰی اَحَدٍ مِّنْ خَلْقِکَ وَجَدْتُ عَلَیْہِ بِعَائِدَۃٍ مِّنْ عَطْفِکَ فَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَجُدْ عَلَیَّ بِفَضْلِکَ وَ مَعْرُوْفِکَ یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔
یا الٰہی! اس رات میں بڑھنے والے تیرے حضور میں بڑھے اور تیری طرف قصد کرنے والوں نے قصد کیا، اور طالبوں نے تیری بخشش اور تیرے احسان کی امید رکھی، اس رات میں تیری طرف سے مہربانیاں، عطیے اور بخششیں ہیں تو ہی ان پر احسان کرتا ہے جن کو چاہتا ہے اور جن پر تیری عنایت نہ ہوگی ان سے روک لے گا( میں تیرا محتاج بندہ ہوں، تیرے فضل و کرم کا امیدوار ہوں، میرے مولا! اس رات اگر تو کسی مخلوق پر فضل کرے اور اپنی عنایت سے کسی کو نوازے تو سب سے پہلے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی آل پر رحمت نازل فرما اور اپنے فضل و احسان سے مجھ پر نوازش فرما! یا رب العالمین) روایت ہے کہ حضرت علی حیدر کرار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دستور تھا کہ آپ سال میں چار راتیں ہر کام سے خالی کر کے عبادت کے لئے مخصوص فرمایا کرتے تھے۔ رجب کی پہلی رات، عیدالفطر کی رات، عیدالاضحی کی رات اور شعبان کی پندرہویں شب۔ پھر ان راتوں میں یہ دعا پڑھتے تھے۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ مَصَابِیْحَ الْحِکْمَۃِ وَمَوَالِیَ النِّعْمَۃِ وَ مَعَادِنِ الْعِصْمَۃِ وَاعْصِمْنِیْ بِھِمْ مِّنْ کُلِّ سُوْئٍ وَّلَا تَاْخُذْنِیْ عَلٰی غَرَّۃٍ وَّلَا عَلٰی غَفْلَۃٍ وَّلَا تَجْعَدْ عَوَاقِبَ اَمْرِیْ حَسْرَۃً وَّ نَدَامَۃً وَّارْضَ عَنِّیْ فَاِنَّ مَغْفِرَتِکَ لِلظَّالِمِیْنَ وَاَنَا مِنَ الظَّالِمِیْنَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ مَالَا یَضُرُّکَ واَعْطِنِیْ مَالَا یَنْفَعْنِیْ فَاِنَّکَ الْوَسِیْعَۃُ رَحْمَۃَ الْبَدِیْعَۃُ حِکْمَۃُ فَاعْطِنِیْ السَّعَۃَ وَالدَّعَۃَ وَالْاَمِنُ وَالصِّحَۃُ وَالشُّکْرُ وَالْمُعَافَاۃِ وَالتَّقْوٰی وَالصَّبْرَ وَ الصِّدْقَ وَعَلَیْکَ وَعَلٰی اَوْلِیَائِکَ اَعْطِنِیْ الْیُسْرَ مَعَ الْعُسْرِ وَالْاَمْنَ بِذَالِکَ اَھْلِیْ وَوَلَدِیْ وَاِخْوَانِیْ فِیْکَ وَمِنْ وِّالْدَانِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ
(ترجمہ) یا اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی آل پر درود اور رحمت بھیج، یہ لوگ حکمت و دانائی کے چراغ ہیں، نعمتوں کے مالک ہیں، عصمت و پاکی کی کانیں ہیں، مجھے بھی ان کے ساتھ ہر بدی سے محفوظ رکھ، غرور اور تکبر کے سبب مجھے نہ پکڑ، میرے انجام کو حسرت و ندامت والا نہ بنا۔ تو مجھ سے راضی ہوجا، بے شک تیری مغفرت ظالموں کے لئے ہے اور میں ظالموں میں سے ہوں۔ الہٰی مجھے وہ چیز عطا فرما جو تجھے ایذا نہیں دیتی، اور مجھے وہ چیز بخش دے جو مجھے فائدہ دینے والی ہے، تیری رحمت وسیع ہے، تیری حکمت نادر ہے اور عجیب ہے، مجھے راحت اور کشادگی عطا فرما، امن و تندرستی دے، نعمت پر شکر کی توفیق دے، عافیت اور پرہیز گاری اور صبر عطا فرما ، اپنے اور اپنے دوستوں کے نزدیک مجھے راست اور لطف و عنایت فرما، سختی کے بعد آسانی دے، میرے اہل میرے فرزندوں اور میرے بھائیوں پر جو تیری راہ پر چلنے والے ہیں اور مسلمانوں کے بیٹوں اور بیٹیوں پر مسلمان مرد اور عورتوں پر اپنی رحمت عام فرما دے اور سب کو اپنی رحمت میں شامل فرما۔ آمین
رجب کے نفلی روزے اور جنت کے آٹھوں دروازے
حضرت نوح علی نبینا علیہ الصلوۃ والسلام نے جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کفر و طاغوتی طاقتوں کی تباہی کے لئے دعا کی اور اللہ تعالیٰ کا عذاب بصورت طوفان نازل ہونا شروع ہوا اور اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو کشتی میں اہل ایمان کے ساتھ سوار ہونے کا حکم فرمایا تو وہ رجب کا مہینہ تھا جب حضرت نوح علیہ السلام کشتی پر سوار ہوئے تو آپ نے روزہ رکھا ہوا تھا اور آپ کی ہدایت پر آپ کے ساتھیوں نے بھی روزہ رکھا تھا، اس کی برکت سے کشتی چھ ماہ چلتی رہی اور دس محرم (یوم عاشورہ) کو ” جودی پہاڑ” پر ٹھہری۔ اور جب کشتی سے اترے تو آپ اور آپ کے رفقائ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور شکرانہ کا روزہ یوم عاشورا رکھا۔ (ماثبت من السنۃ صفحہ ١٧٣)
سرکار غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کردہ طویل حدیث نقل کرتے ہیں، کہ رجب کے روزوں کا ثواب اس طرح ہوگا۔
ایک روزے کا ثواب: اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور فردوس اعلیٰ۔
دو روزوں کا ثواب: دو گنا اجر۔ ہر اجر کا وزن دنیا کے پہاڑوں کے برابر۔
تین روزوں کا ثواب: گہری خندق کے ذریعے جہنم ایک سال مسافت جتنی دور ہوگی۔
چار روزوں کا ثواب: امراض جذام، برص اور جنون سے محفوظ اور فتنہ دجال سے محفوظ۔
پانچ روزوں کا ثواب: عذاب قبر سے محفوظ۔
چھ روزوں کا ثواب: حشر میں چہرہ چودھویں کے چاند کی مانند۔
سات روزوں کا ثواب: دوزخ کے سات دروازے بند۔
آٹھ روزوں کا ثواب: جنت کے آٹھوں دروازے کھلیں گے۔
نو روزوں کا ثواب: کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے قبر سے اٹھنا اور منہ جنت کی طرف۔
دس روزوں کا ثواب: پل صراط کے ہر میل پر آرام دہ بستر فراہم ہوگا۔
گیارہ روزوں کا ثواب: حشر کے دن عام لوگوں میں سب سے افضل ہوگا۔
بارہ روزوں کا ثواب: اللہ تعالیٰ روز حشر دو جوڑے پہنائے گا جس کا ایک جوڑا ہی کل متاع دنیا سے افضل اور قیمتی ہوگا۔
تیرہ روزوں کا ثواب: روز حشر سایہ عرش میں خوان نعمت (انواع و اقسام) تناول کرے گا۔
چودہ روزوں کا ثواب: روز حشر اللہ تعالیٰ کی خاص عطا، جو بصارت، سماعت، وہم و خیال سے ورائ ہوگی۔
پندرہ روزوں کا ثواب: روز حشر موقف امان میں، مقرب فرشتے یا نبی یارسول مبارک باد دیں گے۔
سولہ روزوں کا ثواب: دیدار الہٰی اور ہمکلام ہونے والوں کی پہلی صف میں شمولیت
سترہ روزوں کا ثواب: اللہ تعالیٰ پل صراط کے ہر میل پر آرامگاہ فراہم فرمائے گا۔
اٹھارہ رزوں کا ثواب: حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قبہ میں قیام نصیب ہوگا۔
انیس روزوں کا ثواب: حضرت آدم اور حضرت ابراہیم علیہما السلام کے محلات کے روبرو ایسے محل میں قیام، جہاں اس کے سلام نیاز و عقیدت کا جواب دونوں نبی علیہما السلام دیں گے۔
بیس روزوں کا ثواب: آسمان سے ند،ا مغفرت کا مژدہ۔
ان شاء اللہ تعالیٰ و ان شاء الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (غنیۃ الطالبین صفحہ ٣٥٢)
رجب میں کار خیر اور صدقہ و خیرات
٭حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انھوں نے فرمایا “جس نے اپنے مسلمان بھائی سے رجب کے مہینے میں (جو اللہ کا ماہ “اصم” ہے)غم دور کیا تو اللہ اس کو فردوس میں نگاہ کی رسائی کے بقدر (حد نظر تک) وسیع محل مرحمت فرمائے گا، خوب سن لو! تم ماہ رجب کی عزت کرو گے اللہ تعالیٰ تمہیں ہزار درجہ بزرگی عطا فرمائے گا۔” (غنیۃ الطالبین صفحہ ٣٥٥)
٭حضرت عقبہ رحمۃ اللہ علیہ بن سلامہ بن قیس نے مرفوعا روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ماہ رجب میں صدقہ دیا تو اللہ تعالیٰ اس کو جہنم سے اتنا دور کر دے گا جتنا کوا ہوا میں پرواز کر کے اپنے آشیانہ سے اس قدر دور ہو جائے کہ اڑتے اڑتے بوڑھا ہو کر مر جائے (بیان کیا جاتا ہے کہ کوے کی عمر پانچ سو سال ہوتی ہے) (غنیۃ الطالبین صفحہ ٣٥٥)
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے کہا حضور علیہ الصلوۃ والسلام ارشاد فرماتے ہیں، جس نے رجب میں کچھ بھی خیرات کی اس نے گویا ہزار دینار خیرات کئے اللہ تعالیٰ اس کے بدن کے ہر بال کے برابر نیکی لکھے گا اور ہزار درجہ بلند فرما کر ہزار گناہ مٹا دے گا۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ ٣٥٧)
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رجب ظلم چھوڑ دینے کا مہینہ ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رجب توبہ کا مہینہ ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رجب عبادت کا مہینہ ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رجب نیکیوں میں اضافہ کا مہینہ ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رجب کھیتی (فصل) بونے کا مہینہ ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رجب معجزات کا مہینہ ہے۔
روزہ افطار کرنے کے بعد یہ دعا پڑھیں:۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بِرَحْمَتِکَ الَّتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ اَنْ تَغْفِرَلِیْ
الہٰی میں تجھ سے تیری رحمت کے صدقے میں جو تمام چیزوں پر محیط ہے، تجھ سے مغفرت کا طلب گار ہوں۔
حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ایک مرسل روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ و صحبہ وسلم نے فرمایا ” بے شک رجب عظمت کا مہینہ ہے اس میں نیکیاں دگنی کی جاتی ہیں جس نے اس کے ایک دن کا روزہ رکھا وہ سال بھر کے روزے کے برابر ہے” ۔ (جامع الاصول)
امام بیہقی علیہ الرحمہ نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کیا اور کہا کہ اس کا مرفوع ہونا منکر ہے ” رجب بڑا مہینہ ہے اللہ تعالیٰ اس میں نیکیاں دوچند کر دیتا ہے پس جس نے رجب میں ایک دن کا روزہ رکھا گویا اس نے سال بھر روزہ رکھا اور جس نے اس میں سات دن روزے رکھے تو اس سے جہنم کے ساتوں دروازے بند کر دیئے جائیں گے اور جس نے اس کے آٹھ دن روزے رکھے تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے اور جس نے اس کے دس دن روزے رکھے تو وہ اللہ تعالیٰ سے جو مانگے گا ضرور عطا فرمائے گا اور جس نے اس کے پندرہ دن کے روزے رکھے تو آسمان سے منادی پکارے گا تیرے گذشتہ تمام گناہ بخش دیئے گئے اب ازسر نو عمل کر، جس نے زیادہ عمل کیے اسے زیادہ ثواب دیا جائے گا۔ (ما ثبت من السنۃ ، ص ١٧١۔١٧٠)
فاتحہ دیجئے (٤، ٦، ٢١،٢٢ اور ٢٧ رجب کی اہمیت) :۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز نے فرمایا کہ ٤رجب کی تاریخ عرس خواجگان کے حوالہ سے معروف ہے ۔ حضرت خواجہ عبد الرحیم مشرقی ، حضرت خواجہ عبد الکریم مغربی، حضرت خواجہ عبد الرشید شمالی، حضرت خواجہ عبد الجلیل جنوبی رحمہم اللہ تعالیٰ اوتاد ہیں۔٤رجب ان کی تاریخ وصال ہے۔ ٤ رجب کو ان کی فاتحہ دلائی جائے نیز حضرت امام محمد بن ادریس شافعی علیہ الرحمہ اور حضرت مولانا عبد الباری فرنگی محلی علیہ الرحمہ کو بھی فاتحہ میں شامل کیا جائے اور ان کے وسیلے سے دعا کی جائے یہ تاریخ اوراد و وظائف اور نقوش و تعویذات کے لیے بھی نہایت اہم ہے۔
٦ رجب، حضرت سلطان الھند خواجہ غریب نواز قدس سرہ کی چھٹی شریف کے حوالہ سے دنیا بھر میں معروف ہے، اس تاریخ کو خصوصیت کے ساتھ خواجہ صاحب علیہ الرحمہ کی فاتحہ کا اہتمام کیا جائے اور اس میں ان کے سلسلہ کے تمام مشائخ (ماقبل اور ما بعد) کو شامل کرنا چاہیے خصوصاً حضرت خواجہ حسن بصری، حضرت عمر بن عبد العزیز (مجدد اول) ، حضرت مالک بن دینار، حضرت ابراہیم بن ادھم، حضرت امام مسلم اور حضرت امام نووی (شارح مسلم) رحمھم اللہ کو شامل کیجئے۔
٢١، ٢٢ اور ٢٧ رجب کو بھی شیرینی وغیرہ پر فاتحہ کا اہتمام کریں، خصوصاً ام المومنین سیدہ حفصہ بنت عمر فاروق، حضرت عباس، ام المومنین سیدہ زینب بنت جحش، ام المومنین سیدہ میمونہ، حضرت زید بن ثابت (جامع قرآن، حضرت عبد اللہ بن سلام، حضرت اسامہ بن زید بن حارثہ، حضرت امیر معاویہ، حضرت خواجہ اویس قرنی، حضرت امام جعفر صادق، حضرت امام موسیٰ کاظم، حضرت سلطان محمود غزنوی، حضرت امام قدوری، حضرت سید الطائفہ ابو القاسم جنید بغدادی، حضرت امام ابو عیسیٰ محمد ترمذی،حضرت امام علی برہان الدین حنفی قادری، حضرت حافظ موسیٰ پاک شہید چشتی، حضرت شاہ رکن عالم سہروردی ملتانی، حضرت شیخ المشائخ ابو الحسین احمد نوری، حضرت مفتی محمد تقدس علی خان، حضرت فقیہہ ملت مفتی محمد نور اللہ نعیمی، محدث اعظم پاکستان حضرت علامہ محمد سردار احمد صاحب لائلپوری، حضرت علامہ سید محمد دیدار علی شاہ الوری (خلیفہئ اعلیٰ حضرت) ، حضرت پیر عبد الرحیم بھرچونڈوی، حضرت پیر سید امین الحسنات مانکی ، اعلیٰ حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی جیلانی (شبیہہ غوث الاعظم)، حضرت سید سالار مسعود غازی، حضرت محدث اعظم سید محمد کچھوچھوی، حضرت پیر محمد حسن جان مجددی سرہندی، حضرت مفتی شاہ محمد مسعود (جد بزرگوار ڈاکٹر محمد مسعود احمد) ، شیخ ابو الحسن شازلی، علامہ عبد الحکیم سیالکوٹی (جد اعلیٰ قطب مدینہ)، قاضی ثنائ اللہ پانی پتی (صاحب تفسیر مظہری)، شاہ عبد القادر دہلوی اور خطیب پاکستان حضرت علامہ محمد شفیع اوکاڑویعلیہم الرضوان اجمعین
ماہ رجب کی تاریخی اہمیت (تاریخ اسلام اور عالمی اہم واقعات)
یکم رجب کو حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے رفقائ طوفان کے موقع پر کشتی میں سوار ہوئے۔ اس مہینہ کی تمام تاریخیں انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام، اولیاء، علمائ و مشائخ کی ولادت اور وصال سے منسوب ہیں اور بعض اہم واقعات (سیرت طیبہ اور تاریخ اسلام سے متعلق) بھی رونما ہوئے ۔ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ و صحبہ وسلم کے اخص خصائص معجزات میں سے واقعہئ معراج شریف رجب کی ستائیسویں شب کو پیش آیا اس تاریخ پر اکثر سیرت نگاروں اور محدثین و مؤرخین کا اتفاق ہے ۔ آیت درود شریف اور حکم نازل ہوا۔۔۔۔۔۔ ٥ھ،٭بادشاہ مقوقس نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں تحائف بھیجے ۔۔۔۔۔۔٧ھ،٭١٠ھ میں بنو عطفان رجب ہی میں اسلام لائے۔ ٭حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کا وصال ۔۔۔۔۔۔١٥ھ٭،شہر کوفہ کی تعمیر دور فاروقی ۔۔۔۔۔۔١٦ھ، ٭وصال حضرت اُسید بن حفیر انصاری رضی اللہ عنہ۔۔۔۔۔۔٢٠ ھ، ٭وصال حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ (عم رسول اللہ)۔۔۔۔۔۔٣٢ ھ٭جنگ صفین ٤ رجب ۔۔۔۔۔۔٣٦ھ/دسمبر ٦٥٦ء، ٭وفات مالک بن اشتر ۔۔۔۔۔۔٣٨ھ، ٭وصال ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا ۔۔۔۔۔۔٣٩ھ،٭وصال ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا۔۔۔۔۔۔ ٤١ھ، ٭وصال حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ۔۔۔۔۔۔٤٣ھ، ٭وفات حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ۔۔۔۔۔۔٤٥ھ، ٭وصال عبدالرحمن بن خالد ۔۔۔۔۔۔٤٦ھ،٭وفات حضرت عبد الرحمن بن سمرہ ۔۔۔۔۔۔٥٠ھ، ٭وفات معاویہ بن خدیج ۔۔۔۔۔۔٥٢ھ ،٭وفات حضرت اسامہ بن زید ۔۔۔۔۔۔٥٤ھ، ٭تاریخ اسلام کے خوفناک ترین ایام کا آغاز یعنی یزید کی حکمرانی کا آغاز ۔۔۔۔۔۔٦٠ھ، ٭وفات حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ۔۔۔۔۔۔ ٦٠ھ، ٭وصال حضرت عبیدۃ السلمانی ۔۔۔۔۔۔٧٢ھ،٭ عبدالملک بن مروان کی فتوحات ۔۔۔۔۔۔٧٧ھ، ٭خارجی فتنہ پرداز راس الخوارج قطری کا قتل ۔۔۔۔۔۔٧٩ھ، ٭فتح مصیصہ ۔۔۔۔۔۔٨٤ھ، ٭تعمیر جامع دمشق ۔۔۔۔۔۔٨٧ھ/جون ٧٠٥ء، ٭وفات خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیزعلیہ الرحمہ(اول مجدد) ۔۔۔۔۔۔١٠١ھ،٭وفات حضرت خواجہ حسن بصری علیہ الرحمہ ۔۔۔۔۔۔١١٠ ھ، ٭مراکش میں بغاوت ۔۔۔۔۔۔١٢٢ھ/جون ٧٤٠ء، ٭وفات ربیعہ دمشقی ۔۔۔۔۔۔١٢٣ھ، ٭وفات حضرت مالک بن دینار علیہ الرحمہ۔۔۔۔۔۔ ١٢٧ھ، ٭رومیوں کا ملطیہ پر قبضہ ۔۔۔۔۔۔١٣٣ھ، ٭شہر بغداد کی بنیاد ۔۔۔۔۔۔١٤١ھ، ٭شہادت حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ ۔۔۔۔۔۔١٤٨ھ، ٭مقنع (فتنہ پرور)نے آگ میں کود کر خودکشی کر لی ۔۔۔۔۔۔١٥٩ھ ٭،وفات حضرت ابراہیم بن ادھم علیہ الرحمہ ۔۔۔۔۔۔١٦٢ ھ، ٭وصال امام ابو خیثمیہ زہیر الجعفی ۔۔۔۔۔۔١٧٣ھ، ٭وفات حضرت حماد بن امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ ۔۔۔۔۔۔١٧٦ ھ، ٭وفات ہشام الاموی در اندلس ۔۔۔۔۔۔١٨٠ھ، ٭وصال حضرت امام موسی کاظم بن امام جعفر صادق (ائمہ اہلبیت، ساتویں امام) ۔۔۔۔۔۔١٨٣ھ، ٭ابو العمیطر کا دعوی خلافت ۔۔۔۔۔۔١٩٥ھ، ٭کوفہ میں قتل و غارت گری ۔۔۔۔۔۔١٩٩ھ، ٭وفات حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ ۔۔۔۔۔۔٢٠٤ ھ ، ٭وفات عباسی خلیفہ مامون الرشید ۔۔۔۔۔۔٢١٨ھ، ٭وصال حافظ الحدیث امام ابو محمد یحیی بن یحیی بن کثیر مصمودی اللیثی اندلسی تلمیذ امام مالک ۔۔۔۔۔۔٢٣٤ھ، ٭وفات امیر خراسان طاہر دوم ۔۔۔۔۔۔٢٤٨ھ، ٭حافظ الحدیث صاحب المسند امام عبد بن حمید ۔۔۔۔۔۔٢٤٩ھ ٭قتل خلیفہ المعتز ۔۔۔۔۔۔٢٥٥ ھ، ٭قتل خلیفہ المہتدی ۔۔۔۔۔۔٢٥٦ ھ، ٭وصال امام مسلم ۔۔۔۔۔۔٢٦١ھ، ٭وفات المعتمد العباسی و خلافت المعتضد ۔۔۔۔۔۔٢٧٩ھ، ٭فتنہ ابو سعید قرامطی ۔۔۔۔۔۔٢٨٦ ھ، ٭عبیدیوں کے مابین فساد ۔۔۔۔۔۔٢٩٨ھ، ٭چیچک و خسرہ کا علاج دریافت کرنے والے معروف حکیم و طبیب محمد بن زکریا رازی کی وفات کا واقعہ ۔۔۔۔۔۔٣١١ ھ،٭ تخت نشینی امیر نوح سامانی ۔۔۔۔۔۔٣٣١ھ، ٭وصال محدث اندلس محمد بن مفرح ۔۔۔۔۔۔٣٨٠ھ، ٭وصال ابو نصر السراج الصوفی ۔۔۔۔۔۔٣٧٨ھ، ٭سلطان محمود غزنوی علیہ الرحمہ کا پہلا حملہ ملتان پر رجب کے مہینے میں ۔۔۔۔۔۔٣٩٦ ھ میں ہوا، ٭وصال عظیم فقیہ حنفی امام قدوری ۔۔۔۔۔۔٤٢٨ھ، ٭وصال سلطان محمود غزنوی ۔۔۔۔۔۔٤٤٠ھ ٭وصال سلطان مودود غزنوی ۔۔۔۔۔۔٤٤١ھ، ٭اسلامی سائنسی دنیا کی پہلی رصد گاہ (خلائی تحقیق کا ادارہ) کی تعمیر ملک شاہ نے کی۔۔۔۔۔۔ ٤٦٧ھ/فروری ١٠٧٥ء، ٭وصال امام علی بن محمد بزودی ۔۔۔۔۔۔٤٨٢ھ، ٭وصال ابوالحجاج النحوی ۔۔۔۔۔۔٤٩٥ھ، ٭وصال تمیم بن المعز والی افریقہ ۔۔۔۔۔۔٥٠١ھ/فروری ١١٠٨ء، ٭فرنگیوں کو شکست والی اندلس مودود کے ہاتھوں ۔۔۔۔۔۔٥٠٧ھ/دسمبر ١١١٣ء،٭ولادت صاحب ہدایہ امام ابوالحسن علی برہان الدین بن ابی بکر حنفی ۔۔۔۔۔۔٨ رجب ٥١١ھ، ٭حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسحق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے مقابر شریف کے نشانات معدوم ہو جانے کے بعد پھر ظاہر ہوئے اور مزارات شریف کی تعمیر شروع ہوئی، الخلیل فلسطین ۔۔۔۔۔۔٥١٣ھ اکتوبر ١١١٩ء، ٭وفات القاسم الحریری (مصنف مقامات حریری) ۔۔۔۔۔۔٥١٦ھ، ٭وصال امام ابوالبرکات ہبۃ البخاری (محدث بغداد) ۔۔۔۔۔۔٥١٩ھ، ٭وصال محدث قرطبہ ابو بحر سفیان ۔۔۔۔۔۔٥٢٠ھ، ٭وفات علی بن تاشقین سلطان الہند ۔۔۔۔۔۔٥٣٧ھ/ جنوری ١١٤٣ء، ٭وصال محدث عراق محمد بن ناصر ۔۔۔۔۔۔٥٥٠ھ/١١٥٥ء، ٭سلطان صلاح الدین ایوبی نے فلسطین بیت المقدس فتح کیا ۔۔۔۔۔۔٢٩ رجب ٥٨٣ھ/٥ اکتوبر ١١٨٧ء، ٭چنگیز خان نے چین پر تسلط حاصل کیا ۔۔۔۔۔۔٦١٢ھ/اکتوبر ١٢١٥ء، ٭خلافت المستنصر العباسی ۔۔۔۔۔۔٦٢٣ھ، ٭سلطان الہند خواجہئ خواجگاں غریب نواز چشتی اجمیری علیہ الرحمہ کا وصال بھی ۔۔۔۔۔۔رجب ٦٣٣ھ میں ہوا، ٭وصال شارح مسلم حافظ الحدیث امام نووی ۔۔۔۔۔۔١٤ رجب ٦٧٧ھ، ٭وصال عظیم مؤرخ ابوالعباس شمس الدین احمد بن محمد بن خلکان البر مکی الاربلی شافعی ۔۔۔۔۔۔١٦ رجب ٦٨١ھ، ٭ولادت امام سیوطی ۔۔۔۔۔۔٨٤٩ھ، ٭جنگ پانی پت ۔۔۔۔۔۔٩٣٢ھ، ٭وصال ابن حجر الہیتمی ۔۔۔۔۔۔٩٧٣ھ، ٭احمد نگر (انڈیا میں) کی حکومت کا خاتمہ مغل حکمراں اکبر کے ہاتھوں ۔۔۔۔۔۔٩٩٩ھ/١٥٩١ء، ٭خلافت احمد الاول العثمانی ۔۔۔۔۔۔١٠١٢ھ، ٭خلافت مصطفی اول (دوبارہ) سلطنت عثمانی ۔۔۔۔۔۔١٠٣١ھ، ٭وصال علامہ محب اللہ الہ آبادی ۔۔۔۔۔۔١٠٥٠ھ، ٭وصال علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی (مورث اعلی قطب مدینہ شاہ ضیائ الدین قادری مدنی) ۔۔۔۔۔۔١٠٦٦ھ، ٭حکومت رفیع الدولہ شاہجہاں دوم ۔۔۔۔۔۔١١٣١ھ، ٭خلافت مصطفی الرابع ۔۔۔۔۔۔١٢٢٢ھ، ٭وصال قاضی ثنائ اللہ پانی پتی۔۔۔۔۔۔ ١٢٢٥ھ، ٭وصال شاہ عبدالقادر دہلوی ۔۔۔۔۔۔١٢٤٣ھ/١٨٢٨ء، ٭دہلی پرمکمل انگریزوں کا قبضہ اور معزولی حضرت بہادر شاہ ظفر۔۔۔۔۔۔ ١٢٧٤ھ/فروری ١٨٥٨ء، ٭فیصل بن ترکی بن عبداللہ بن محمد بن سعود نجدی اندھا ہو کر ہیضے سے مر گیا ۔۔۔۔۔۔١٢٨٢ھ/٢ دسمبر ١٨٦٥ء، ٭ولادت مفتی تقدس علی خاں بریلوی ۔۔۔۔۔۔١٣٢٥ھ، ٭ولادت مخدوم ابن محمد ثانی ہالائی ۔۔۔۔۔۔١٣٥٦ھ، ٭دوسری جنگ عظیم۔۔۔۔۔۔١٣٥٨ھ/١٩٣٩ء، ٭وفات نواب بہادر یار جنگ ۔۔۔۔۔۔١٣٦٣ھ/١٩٤٣ء، ٭فلسطین پر یہودیوں کا غاصبانہ قبضہ (روسیوں اور امریکیوں کی ہدایات پر) ۔۔۔۔۔۔١٣٦٧ھ/مئی ١٩٤٨ء، ٭مولانا عبدالستار نیازی پر قتل اور بغاوت کے مقدمات قائم ہوئے دوران تحریک ختم نبوت ۔۔۔۔۔۔١٥ رجب ١٣٧٢ھ/٣١ مارچ ١٩٥٣ء ، ٭کیمرون ملک آزاد ہوا ۔۔۔۔۔۔١٣٧٩ھ/١٩٥٩ء، ٭نواز شریف کی حکومت کا آخری دن جنرل پرویز مشرف کا ٹیک اور ۔۔۔۔۔۔١٤٢٠ھ/١٩٩٩ء،
ماہ رجب میں وصال فرمانے والے صحابہ و اولیاء وعلماء رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین
یکم رجب المرجب:۔
٭ حضرت احمد حوارے ۔۔۔۔۔۔٢٣٢ھ ٭حضرت ناصح الدین ابو محمد چشتی زاہد مقبول ۔۔۔۔۔۔٤٢١ھ ٭ حضرت شیخ اخی فرخ زنجانی ۔۔۔۔۔۔٤٥٧ھ ٭حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی شہنشاہ الارواح ۔۔۔۔۔۔٥٣٧ھ٭حضرت شیخ علاؤالحق پنڈوی ۔۔۔۔۔۔٨٠٠ھ ٭حضرت شیخ عبدالجلیل قطب عالم چوہڑ بندگی قریشی ۔۔۔۔۔۔٩١٠ھ ٭حضرت شاہ پیرا ۔۔۔۔۔۔١٠٨٩ھ ٭حضرت شاہ بہولن چشتی ۔۔۔۔۔۔١١٠٤ھ ٭ حضرت علم الہدیٰ قاضی محمد ثنا اللہ پانی پتی ۔۔۔۔۔۔١٢٢٥ھ ٭خواجہ محمد الدین سیالوی
٢رجب المرجب:۔
٭حضرت مولانا نظام الدین گنجوی ۔۔۔۔۔۔٥٩٦ھ ٭ حضرت خواجہ علاؤالدین عطار ۔۔۔۔۔۔٨٠٢ھ ٭حضرت شیخ حبیب اللہ کافی ۔۔۔۔۔۔١٠٨٠ھ ٭حضرت مولوی عصمت اللہ لکھنوی ۔۔۔۔۔۔١١١٣ھ ٭حضرت حافظ عبدالشکور خالصپوری۔۔۔۔۔۔ ١٣٠٩ھ ٭حضرت قادر بخش بن حسن علی حنفی،سہسرامی۔۔۔۔۔۔١٣٣٧ھ ٭حضرت پیر محمد حسن جان سرہندی مجددی۔۔۔۔۔۔١٣٦٥ھ/٦جون١٩٤٦ئ ٭حضرت علامہ عین القضاۃ بن محمد وزیر بن محمد جعفر حسینی، حنفی، نقشبندی، حیدرآبادی ثم لکھنوی۔۔۔۔۔۔ ١٣٤٣ھ ٭ مفتی نور اللہ نعیمی ۔۔۔۔۔۔١٤٠٣ھ٭حضرت سید ابو الحسنات محمد احمد قادری (خلیفہ اعلیٰ حضرت)
٣رجب المرجب:۔
٭حضرت خواجہ اویس قرنی علیہ الرحمہ٭ حضرت تاج العارفین ابو الوفا کاکیش۔۔۔۔۔۔ ٣٠٥ھ ٭حضرت ابو علی محمد ثقفی۔۔۔۔۔۔ ٣٢٨ھ ٭حضرت خواجہ ناصر الدین ابو یوسف چشتی سرمدی ۔۔۔۔۔۔٤٥٥ھ ٭ حضرت خواجہ گرگ اللہ ولی ۔۔۔۔۔۔٧٠٥ھ ٭حضرت سید محی الدین سمنانی ۔۔۔۔۔۔٨٤٢ھ ٭حضرت اخون پنجوبابا افغان۔۔۔۔۔۔٩١٧ھ ٭ حضرت سید درویش احمد ۔۔۔۔۔۔٩٩٩ھ ٭ حضرت شیخ محمدی عرف شاہ فیاض چشتی صابری ۔۔۔۔۔۔١١٠٧ھ ٭حضرت شاہ سلامت اللہ کانپوری ۔۔۔۔۔۔١٢٨١ھ ٭ حضرت عبداللہ شاہ کشمیری آفاقی ۔۔۔۔۔۔١٣١٠ھ ٭حضرت سید عبدالفتاح بخاری (مجذوب) اولاد سید سخی مرتضی بخاری مزار ٹنڈو سائیں داد محمد ۔۔۔۔۔۔١٣٩٨ھ/١٠ جون ١٩٧٨ئ
٤رجب المرجب:۔
٭ حضرت ابو محمد ابو عمرو زجاجی۔۔۔۔۔۔ ٣٤٨ھ ٭ حضرت محمد فرخ شاد وحدت ۔۔۔۔۔۔١١٢٣ھ ٭ مولانا عبدالباری بن عبدالوہاب بن عبدالرزاق انصاری فرنگی محل لکھنوی ۔۔۔۔۔۔١٣٤٤ھ/١٩ جنوری ١٩٢٦ء٭حضرت امام محمد بن ادریس شافعی علیہ الرحمہ۔۔۔۔۔۔٢٠٤؁ھ
٥رجب المرجب:۔
٭حضرت امام موسیٰ کاظم ٭ حضرت امام الاولیائ خواجہ حسن بصری ۔۔۔۔۔۔١١٠ھ ٭حضرت ابو القاسم اسحٰق بغدادی ۔۔۔۔۔۔٣٤٢ھ ٭حضرت امام ابوالحسن احمد قدوری ۔۔۔۔۔۔٤٢٨ھ ٭ شیخ ابوالحسن فخر الاسلام علی بن محمد البزوری الحنفی علی بن محمد ۔۔۔۔۔۔٤٨٢ھ/١٠٨٩ئ ٭حضرت عبداللہ مسافر صحرانی قادری شطاری خلیفہ حبیب اللہ شاہ۔۔۔۔۔۔ ١٣٣٩ھ/١٦ مارچ ١٩٢١ئ
٦رجب المرجب:۔
٭ حضرت قاسم علی بن محمد حریری صاحب مقامات حریری ۔۔۔۔۔۔٥١٦ھ ٭حضرت خواجہ نیر الدین حاجی شریف زندنی نفی القضا ۔۔۔۔۔۔٥٥٤ھ ٭ حضرت خواجہ خواجگان سلطان الہند غریب نواز شیخ۔۔۔۔۔۔ ٦٣٢ھ/٦٣٣ھ ٭حضرت قطب الدین ابو لغیث جمیل یمنی سمرقندی۔۔۔۔۔۔٧٦٧ھ ٭ حضرت سید موسیٰ قطب الا عظم ۔۔۔۔۔۔٨٩٦ھ ٭ حضرت قطب اعظم شیخ عیسیٰ برھانپوری ۔۔۔۔۔۔٨٩٩ھ ٭ حضرت شاہ فتح اللہ سنبھلی ۔۔۔۔۔۔٩٩٩ھ ٭حضرت شیخ حبیب اللہ کافی ۔۔۔۔۔۔١٠٨٠ھ ٭ حضرت شیخ عبداللہ عرف حاجی بہادر ۔۔۔۔۔۔١٠٩٥ھ ٭حضرت سید عبدالرحمن شاہ شہید (مدفون احاطہ عالم شاہ بخاری) ۔۔۔۔۔۔١٣٧٥ھ/١٩ فروری ١٩٥٦ء٭حضرت صغار احمد خاں المعروف احمد بھیا حضور چشتی ۔۔۔۔۔۔١٣٩٤ھ/٢٦ جولائی ١٩٧٤ئ
٧رجب المرجب:۔
٭ حضرت عین الدین شامی ۔۔۔۔۔۔٢٠٣ھ ٭ حضرت ابو عبداللہ محمد بن سلیمان رودباری ۔۔۔۔۔۔٣٢٩ھ ٭ حضرت شاہ محمد تہاک بغدادی ۔۔۔۔۔۔٧١٧ھ ٭حضرت شیخ جلال الدین تبریزی ۔۔۔۔۔۔٧٦٢ھ ٭ حضرت دیوان محمد بہاؤ الدین ۔۔۔۔۔۔٨٤٢ھ ٭حضرت میر طاہر تیزرو بدخشی جونپوری ۔۔۔۔۔۔١٠٤٧ھ ٭حضرت شاہ عمر بہاری ٭حضرت حاجی عبدالکریم چشتی(مصنف شرح خصوص الحکم)۔۔۔۔۔۔١٠٤٥ھ ٭حضرت غلام دستگیر نامی
٨رجب المرجب:۔
٭امام دار قطنی محدث٭ حضرت شیخ زین العابدین ابن نجیم حنفی مصری(صاحب الاشباہ والنظائر) ۔۔۔۔۔۔٩٧٠ھ ٭حضرت خواجہ نظام الدین صابری تھانیسری بلخی ۔۔۔۔۔۔١٠٢٤ھ٭ حضرت علامہ جلال تھانیسری ۔۔۔۔۔۔١٠٣٦ھ ٭ حضرت سید محمود بغدادی ۔۔۔۔۔۔١٠٧٧ھ ٭حضرت قاضی محمدعاقل چشتی ۔۔۔۔۔۔١٢٢٩ھ ٭حضرت مولوی عبدالصمد خالصپوری۔۔۔۔۔۔١٢٨٩ھ ٭حضرت شاہ عبد الرب
٩رجب المرجب:۔
٭حضرت ابو جعفر احمد بن وہب بصری ۔۔۔۔۔۔٢٧٠ھ ٭حضرت ابو عبداللہ علی ماکور ۔۔۔۔۔۔٤٤٢ھ ٭محدث ابو شجاع حافظ شیرویہ بن شہردار بن شیرویہ ہمدانی (اولاد صحابی رسول و قاتل اسود عنسی فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ) مصنف فردوس، تاریخ ہمدان، ولادت ۔۔۔۔۔۔٤٤٥ھ وفات ٥٠٩ھ ٭ شہردار دیلمی کا انتقال ۔۔۔۔۔۔٥٥٨ھ٭ حضرت خواجہ شمس الدین محمد تبریزی ۔۔۔۔۔۔٦٤٥ھ ٭حضرت عبدالجلیل چوہڑ بندگی سہروردی لاہوری ۔۔۔۔۔۔٩١٠ھ ٭حضرت شیخ برکیہ بن شاہوکاتیار (مجذوب سندھ) ۔۔۔۔۔۔٩٩٧ھ ٭حضرت سالار سرمست ۔۔۔۔۔۔١٠٨٧ھ ٭ حضرت سید جعفر گیلانی ۔۔۔۔۔۔١١٠٧ھ ٭حضرت شیخ فیض بخش لاہوری چشتی (صاحب حال و قال)۔۔۔۔۔۔١٢٨٦ھ ٭حضرت علامہ محمد حسین بن تفضل حسین، عمری الہ آبادی ۔۔۔۔۔۔١٣٢٣ھ ٭حضرت مولانا مفتی نور محمد بن شیخ احمد حنفی فتحپوری تلمیذ مفتی عبداللہ ٹونکی ۔۔۔۔۔۔١٣٤٢ھ ٭حضرت شاہ گدا رحمن٭حضرت حافظ موسیٰ پاک چشتی
١٠رجب المرجب:۔
٭حضرت ابو محمد عبدالرحیم مغربی ۔۔۔۔۔۔٥٩٢ھ ٭ حضرت سلطان ولد بن مولانا روم ۔۔۔۔۔۔٧١٢ھ ٭ولادت امام تقی علیہ الرحمہ٭ وصال علامہ مفتی شاہ محمد مسعود ۔۔۔۔۔۔١٣٠٩ھ/١٨٩٢ئ
١١رجب المرجب:۔
٭حضرت شیخ علی عجمی ۔۔۔۔۔۔٣٤٦ھ ٭ حضرت رکن الاسلام ابو محمد عبداللہ جوینی کوفی ۔۔۔۔۔۔٤٣٢ھ ٭ حضرت سید محمد مدنی ۔۔۔۔۔۔٤٩٤ھ ٭حضرت شیخ منصور زاہد طایحیٰ ۔۔۔۔۔۔٥٥٠ھ ٭ حضرت قصیب البان موصلی ۔۔۔۔۔۔٥٧٩ھ ٭ حضرت شیخ ابی عبداللہ محمد بغدادی ۔۔۔۔۔۔٨٩٧ھ ٭ حضرت شاہ فضل اللہ مداری ۔۔۔۔۔۔٩٧٩ھ ٭ حضرت شاہ شمس الدین قادری لاہوری ۔۔۔۔۔۔١٠٢١ھ ٭حضرت شاہ شکور اللہ قلندری ۔۔۔۔۔۔١١٠٩ھ ٭حضرت شاہ محمد حامد صابری امروھوی ۔۔۔۔۔۔١١٥٠ھ ٭حضرت شیخ حبیب مصری ۔۔۔۔۔۔١٢٢١ھ ٭حضرت شاہ علی حسین اشرفی٭شیخ المشائخ حضرت امام ابو الحسین احمد نوری مارہروی ٭حضرت شاہ نصر اللہ لکھنوی٭شاہ مخدوم محمد منعم (پٹنہ)
١٢رجب المرجب:۔
٭ حضرت شیخ ابو الحسن فراری ۔۔۔۔۔۔٢٩٧ھ ٭ حضرت ابو عبداللہ محمد بن فضیل سمر قندی ۔۔۔۔۔۔٣١٩ھ ٭شیخ نجم الدین بن امام ظاہر کوفی ۔۔۔۔۔۔٣٣٦ھ ٭حضرت شیخ محمد فیاض ۔۔۔۔۔۔٧٤٧ھ٭حضرت سید الیاس بصری۔۔۔۔۔۔٩١٩ھ ٭حضرت سید محمد مقبول عالم ۔۔۔۔۔۔١٠٤٥ھ ٭ حضرت شیخ عبدالخالق چشتی ۔۔۔۔۔۔١٠٥٩ھ ٭ حضرت شیخ ارزانی قادری ۔۔۔۔۔۔١٠٧٢ھ ٭ حضرت شیخ عصمت اللہ نوشاہی ۔۔۔۔۔۔١١٣٧ھ ٭ حضرت مولانا ابو العباس عبدالحی محمد بحر العلوم لکھنوی ۔۔۔۔۔۔١٢٢٥ھ ٭حضرت پیر محمد حسن جان سرہندی (راہنما تحریک پاکستان) ۔۔۔۔۔۔١٣٦٥ھ/١٩٤٦ئ
١٣رجب المرجب:۔
٭ حضرت ابو عیسی محمد بن عیسی ترمذی ۔۔۔۔۔۔٢٧٩ھ٭حضرت خواجہ عبداللہ محمد مغربی۔۔۔۔۔۔ ٣٣٥ھ ٭حضرت ابو القاسم جعفر رازی ۔۔۔۔۔۔٣٧٨ھ ٭ حضرت ظہیر الدین بخاری ۔۔۔۔۔۔٦٩٥ھ ٭ حضرت شیخ ابی الحسن محمد ۔۔۔۔۔۔٧٩٧ھ ٭ حضرت محمد علی نور بخش ۔۔۔۔۔۔٨٥٧ھ٭حضرت محمد ابراہیم ابرجی ۔۔۔۔۔۔٩٨٧ھ ٭حضرت محمود درّانی ۔۔۔۔۔۔٩٩٨ھ ٭حضرت سید عبدالقادر لاہوری ۔۔۔۔۔۔١٠٧٧ھ ٭ حضرت شاہ نعیم گامی ۔۔۔۔۔۔١١٢١ھ٭ حضرت سید عبداللطیف عرف محی الدین دیلوروی ۔۔۔۔۔۔١١٩٤ھ ٭حضرت خواجہ محمد زبیر کشف الغیب ۔۔۔۔۔۔١١٩٩ھ ٭حضرت شہ محمد خادم صفی چشتی ۔۔۔۔۔۔١٢٨٧ھ ٭حضرت خواجہ نیر الدین عرف حاجی شریف قنوجی
١٤رجب المرجب:۔
٭حضرت ام المومنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا ۔۔۔۔۔۔٢١ھ٭حضرت طاؤس الحرمین ابو الخیر اقبال حبشی مکی۔۔۔۔۔۔٣٨٣ھ ٭ حضرت ابو المسعود بن اشبیل ۔۔۔۔۔۔٥٦٥ھ ٭امام ابوزکریا محی الدین یحیی بن شرف النواوی ۔۔۔۔۔۔٦٧٧ھ/یکم دسمبر ١٢٧٨ئ ٭حضرت شیخ محمود اسفراری المدنی ۔۔۔۔۔۔٦٩٨ھ٭مخدوم ساہر بن مخدوم معز الدین (خلیفہ مخدوم بلال و مخدوم نوح ہالائی)۔۔۔۔۔۔٩٨٠ھ ٭سید نتھے شاہ۔۔۔۔۔۔ ١١١١ھ٭حضرت سید سالار مسعود غازی٭حضرت سید سمن شاہ بخاری سرکار مجذوب تحصیل ٹنڈو باگوبدین ۔۔۔۔۔۔١٣٤٩ھ/دسمبر ١٩٢٩ئ
١٥رجب المرجب:۔
٭حضرت امام المسلمین سیدنا محمد جعفر صادق ص ۔۔۔۔۔۔١٤٨ھ ٭ حضرت امام المسلمین سیدنا موسی کاظم ص ۔۔۔۔۔۔١٨٣٭حضرت ابو الحسن علی صائغ دینوری ۔۔۔۔۔۔٣٣٠ھ ٭ حضرت قطب الدین محمود فروضنی ۔۔۔۔۔۔٣٩٢ھ٭حضرت شاہ بدر علی لکھنوی ٭شیخ محمد حضرت ابو عبداللہ محمد بن یوسف بن محمد بن احمد بن ابراہیم سورتی ١٣٦١ھ
١٦رجب المرجب:۔
٭حضرت سید یعقوب زنجانی ۔۔۔۔۔۔٦٤ھ ٭ حضرت ابو حمزہ خراسانی۔۔۔۔۔۔٢٩٠ھ ٭ حضرت ابو الفضل محمد۔۔۔۔۔۔ ٣٩٧ھ ٭ حضرت سید محمد عبداللہ اویسی غزنوی۔۔۔۔۔۔٥٠٥ھ ٭ابوالعباس احمد بن محمد بن خلکان (مؤرخ) ۔۔۔۔۔۔٦٨١ھ ٭حضرت ابو الفتح رکن الدین سہروردی بن صدر الدین بن بہاؤ الدین زکریا۔۔۔۔۔۔٧٣٥ھ ٭ حضرت محمد شیریں المتخلص مرغابی۔۔۔۔۔۔٨٠٩ھ ٭حضرت شاہ بندہ نوازی الدین۔۔۔۔۔۔٨٥٣ھ ٭ حضرت شاہ مجتبیٰ رومی۔۔۔۔۔۔ ٨٩٩ھ ٭ حضرت خواجہ عبدالحق عرف محی الدین۔۔۔۔۔۔ ٩٥٧ھ ٭حضرت خواجہ جمال الدین چشتی قندھاری۔۔۔۔۔۔٩٩٧ھ ٭ حضرت عبداللہ وحدت پوش بغدادی ۔۔۔۔۔۔١٠٧٣ھ ٭حضرت محدث اعظم کچھوچھوی۔۔۔۔۔۔١٣٨١ھ ٭حضرت حافظ محمد شعیب مردانی
١٧ رجب المرجب:۔
٭ حضرت ابوالفضل عباس عم رسول اللہ ا۔۔۔۔۔۔ ٣٢ھ ٭خواجہ ابو یوسف ہمدنی ٭ حضرت امام حسن مثنی۔۔۔۔۔۔ ٦٣ھ ٭ حضرت عمر اشبکی بن داؤد قرشی ۔۔۔۔۔۔١٨٧ھ ٭حضرت ابو العباس قاسم سیاری ۔۔۔۔۔۔٣٤٢ھ ٭ حضرت ابوعبداللہ محمد بن خفیف شیرازی ۔۔۔۔۔۔٣٧١ھ ٭ حضرت ابو عبداللہ محمد داستانی ۔۔۔۔۔۔٤١٧ھ ٭ حضرت سید حسین خنک سوار ۔۔۔۔۔۔٦١٠ھ ٭ حضرت شیخ ابو الحسن علی شاذلی مغربی ۔۔۔۔۔۔٦٥٤ھ ٭حضرت محمد رہبر سندہی ۔۔۔۔۔۔١١٩٩ھ ٭ حضرت شیخ محمد مراد کشمیری ۔۔۔۔۔۔١١٣١ھ ٭حضرت وجھن شاہ نواب گنجی٭ حضرت شاہ تقی علی قلندر ۔۔۔۔۔۔١٢٩٠ھ
١٨رجب المرجب:۔
٭شیخ طریقت علامہ علی اکبر بن حیدر علی بن تراب علی علوی، حنفی کاکوروی قلندری ۔۔۔۔۔۔١٣١٤ھ ٭ حضرت ابو محمد عبداللہ مرغابی تونسی ۔۔۔۔۔۔٦٩٩ھ ٭ حضرت شیخ حسن سرمدی ۔۔۔۔۔۔٧٩٩ھ ٭حضرت بدلی شاہ
١٩رجب المرجب:۔
٭حضرت میر سید محمد اودھی ۔۔۔۔۔۔٩٨٩ھ ٭ حضرت شاہ محمد انبیا دل خراسانی ۔۔۔۔۔۔٩٨٩ھ ٭ حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی ۔۔۔۔۔۔١٢٣٠ھ ٭ حضرت سید ابوالحسین احمد نوری بن ظہور حسن بن حضرت سید آل رسول مارہروی علیہ الرحمہ ۔۔۔۔۔۔١٣٢٤ھ
٢٠رجب المرجب:۔
٭حضرت علاؤالدین عامل بادشاہ عامل حزب۔۔۔۔۔۔٨٢٠ھ ٭حضرت شاہ اویس بلگرامی ۔۔۔۔۔۔١٠٨٧ھ ٭ حضرت امام محی الدین نووی علیہ الرحمہ
٢١رجب المرجب:۔
٭حضرت دیوان محمد ابراہیم کلان ۔۔۔۔۔۔٩٥٩ھ ٭حضرت علامہ مفتی مسیح الدین بن مفتی جمال الدین حنفی حیدرآباد ۔۔۔۔۔۔١٣٢١ھ٭حضرت شیخ نظام الدین بلخی ٭خطیب اعظم پاکستان مولانا محمد شفیع اوکاڑوی
٢٢رجب المرجب:۔
٭حضرت ابو عبداللہ محمد اسماعیل مغربی۔۔۔۔۔۔ ٢٧٩ھ ٭حضرت ابو اسمٰعیل احمد عموہروی ۔۔۔۔۔۔٤٤١ھ ٭حضرت سید موسیٰ بن داؤد ۔۔۔۔۔۔٦٨٧ھ ٭ حضرت شیخ مخدوم حسن۔۔۔۔۔۔ ٧٩٨ھ ٭ حضرت قاضی ضیائ الدین عرف خیا ۔۔۔۔۔۔٩٨٩ھ ٭حضرت قاضی عبدالکریم نگرامی۔۔۔۔۔۔١٢٤٩ھ ٭حضرت علامہ سید دیدار علی شاہ الوری (خلیفہ اعلیٰ حضرت)۔۔۔۔۔۔١٣٥٤ھ ٭ حضرت سید علی احمد بن سید عبدالعلی شاہ کچھلی قادری (ڈیرہ غازی خان)۔۔۔۔۔۔١٣٨٢ھ ٭حضرت شمس الدین صحرائی
٢٣رجب المرجب:۔
٭ حضرت شیخ زکریا ہروی ۔۔۔۔۔۔٢٥٥ھ ٭حضرت خواجہ احمد معروف بہ رکن الدین علائ الدولہ سمنائی ۔۔۔۔۔۔٧٣٦ھ ٭ حضرت شاہ فرہاد صفات جمالی ۔۔۔۔۔۔١١٩٩ھ ٭حضرت مولانا سیف الدین کشمیری ۔۔۔۔۔۔١٢٢٧ھ
٢٤رجب المرجب:۔
٭ حضرت سید مسلم بن حجاج نیشا پوری (صاحب صحیح مسلم شریف) ۔۔۔۔۔۔٢٦١ھ ٭حضرت امام محی الدین یحییٰ نووی ۔۔۔۔۔۔٦٧٦ھ ٭حضرت بندگی مبارک چشتی۔۔۔۔۔۔ ٩٧٦ھ
٢٥رجب المرجب:۔
٭ حضرت امیر المؤمنین عمر بن عبدالعزیز ص ۔۔۔۔۔۔١٠١ھ٭ حضرت شیخ ابو محمد حریری ۔۔۔۔۔۔٣١١ھ ٭حضرت شیخ ابو اسحق گرم دیوان ۔۔۔۔۔۔١١٧٨ھ ٭حضرت شاہ عبدالرحمن قلندر خراسانی ۔۔۔۔۔۔١١٨٣ھ ٭ حضرت محمد دمشقی ۔۔۔۔۔۔١٢٣١ھ ٭حافظ محمد عبداللہ بھرچونڈوی بن قاضی اللہ بخش (خلیفہ حافظ محمد صدیق بھرچونڈی) ۔۔۔۔۔۔١٣٤٦ھ٭حضرت امام مسلم٭قطب الاقطاب شیح رحمکارکاکا (نوشہرہ)
٢٦رجب المرجب:۔
٭ حضرت حسن شاہ پیر غازی (برادر اصغر حضرت عبداللہ شاہ غازی) جوڑیا بازار، کراچی۔
٢٧رجب المرجب:۔
٭حضرت ابو صالح نصر٭حضرت ابو یعقوب سوسی ۔۔۔۔۔۔١٧٩ھ ٭حضرت قاضی القضاۃ امام المسلمین سیدنا ابو یوسف یعقوب بغدادی ۔۔۔۔۔۔١٨٢ھ٭ حضرت سیدی ابو عیسیٰ محمد ترمذی (صاحب سنن) ۔۔۔۔۔۔٢٧٩ھ ٭ حضرت ابو عبداللہ عمرو مکی ۔۔۔۔۔۔٢٩١ھ ٭ حضرت سید الطائفہ ابو القاسم جنید بغدادی ۔۔۔۔۔۔٢٩٧ھ ٭ حضرت عبدالواحد سیاری ۔۔۔۔۔۔٣٣٧ھ ٭حضرت امام ابو یعقوب ہمدانی مروزی ۔۔۔۔۔۔٥٣٥ھ٭ حضرت ابو الحسن علی بن حرازم ۔۔۔۔۔۔٥٤٨ھ ٭ حضرت سراج الدین عبدالجبار بن غوث اعظم ۔۔۔۔۔۔٦٠٥ھ ٭عماد الدین ابو صالح نصر نبیرئہ غوث اعظم ۔۔۔۔۔۔٦٣٢ھ٭ حضرت سید عبدالعزیز بغدادی ۔۔۔۔۔۔٦٩٥ھ ٭ حضرت شیخ علاؤالدین لاہوری ۔۔۔۔۔۔٧٩٧ھ ٭حضرت شاہ عبد القدوس قلندر بصری ۔۔۔۔۔۔٩١٢ھ ٭ حضرت شیخ محمد حسن عرف شاہ خیالی جونپوری ۔۔۔۔۔۔٩٤٤ھ ٭حضرت شیخ داؤد چونیاں ۔۔۔۔۔۔٩٩٢ھ ٭ حضرت عبدالرحمن بدخشی ۔۔۔۔۔۔١٠٢٩ھ ٭حضرت شاہ اسکندر ۔۔۔۔۔۔١٠٣٣ھ ٭حضرت شیخ حاجی عبدالکریم چشتی ۔۔۔۔۔۔١٠٤٥ھ ٭ حضرت شیخ عبدالرشید دہلوی ۔۔۔۔۔۔١١٥٥ھ ٭حضرت شیخ احمد تحلی پہاڑی۔۔۔۔۔۔١١٩٠ھ ٭ حضرت رکن الدین آثار الوحدت ٭ حضرت پیر سید امین الحسنات (مانکی شریف راہنما تحریک پاکستان)
٢٨رجب المرجب:۔
٭ حضرت میر تراب لکھنوی ٭حضرت شاہ عفد الدین صابری امروہی ۔۔۔۔۔۔١٢٧٤ھ٭ حضرت پیر امین الحسنات مانکی شریف
٢٩رجب المرجب:۔
حضرت حافظ احمد علی خاں لکھنوی ۔۔۔۔۔۔١٢٧٥ھ ٭ حضرت قطب علی شاہ ۔۔۔۔۔۔١٣١٩ھ ٭ حضرت خواجہ کمال الدین کشمیری ۔۔۔۔۔۔١١٨٧ھ٭ حضرت شاہ لطف علی۔۔۔۔۔۔١٢٧٥ھ ٭حضرت دیوان محمد فضیل۔۔۔۔۔۔٧٥٦ھ٭میر نجف علی شاہ ۔۔۔۔۔۔١٢٧٥ھ ٭حضرت شاہ نوازش علی کابلی ۔۔۔۔۔۔١٢٨٩ھ٭محدث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد خان لائل پوری٭حضرت علامہ امیر الدین جیلانی
٣٠رجب المرجب:۔
٭ حضرت امام المسلمین سید نا محمد بن ادریس الشافعی ۔۔۔۔۔۔٢٠٤ھ٭ حضرت شیخ غلام نقشبند لکھنوی ۔۔۔۔۔۔١١٢٦ھ ٭حضرت پیر عبد الرحیم بھرچونڈی۔۔۔۔۔۔ ١٣٩١ھ
نوٹ : خیال رہے کہ بعض بزرگوں کے وصال کی تاریخ ، تدفین کی تاریخ اور عرس کی تاریخ الگ الگ معروف ہیں لہٰذا ایسے بزرگوں کا تذکرہ دو یا تین مقامات پر نظر آئے تو اسے صحیح یا غلطی پر محمول نہ فرمائیں۔
بیہقی شعب الایمان اور دیلمی نے مسند الفردوس میں سلمان فارسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً روایت كی
فی رجب یوم ولیلة من صام ذٰلك الیوم وقام تلك اللیلة كان كمن صام من الدهر مائة سنة وقام مائة سنة وھو  لثلث بقین من رجب وفیه بعث اﷲ تعالٰی محمدا صلی اﷲ تعالٰی علیه وسلّم
رجب میں ایک دن اور رات ہے جو اس دن كا روزہ ركھے اور وُہ رات نوافل میں گزارے سَو برس كے روزوں اور سَو برس كے شب بیداری كے برابر ہو، اور وہ ۲۷رجب ہے اسی تاریخ اﷲ عزوجل نے محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم كو مبعوث فرمایا۔
الفردوس بمأثور الخطاب حدیث ٤۳۸۱ دارالكتب العلمیہ بیروت ۳ /۱٤۲
شعب الایمان حدیث ۳۸۱۱ دارالكتب العلمیہ بیروت ۳ /۳۷٤
نیز اسی میں بطریق ابان بن عیاش حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً مروی
فی رجب لیلة یكتب للعامل فیھا حسنات مائة سنة، وذٰلك لثلٰث بقین من رجب فمن صلی فیه اثنتی عشرة ركعة یقرأ فی كل ركعة فاتحة الكتاب وسورة من القرأن، ویتشھد فی كل ركعة ویسلم فی اٰخرهن، ثم یقول، سبحٰن اﷲ والحمدﷲ ولاالٰہ الااﷲ واﷲ اكبر مائة مرة ویستغفر اﷲ مائة مرة ویصلی عن النّبی صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم مائة مرة ویدعو لنفسہ ماشاء من امر دنیاه واٰخرته ویصبح صائما فان اﷲ یستجیب دعاء كلہ الاان یدعوفي معصیة۔
رجب میں ایک رات ہے كہ اس میں عمل نیك كرنے والے كو سَو برس كی نیكیوں كا ثواب ہے اور وہ رجب كی ستائیسویں شب ہے جو اس میں بارہ ركعت پڑھے ہرركعت میں سورہ فاتحہ اور ایك سورت، اور ہر دوركعت پر التحیات اور آخر میں بعد سلام سبحن اﷲ والحمد ﷲ ولاالٰہ الا اﷲ واﷲ اكبرسو بار، استغفار سَو بار، درود سو بار، اور اپنی دنیا وآخرت سے جس چیز كی چاہے دعا مانگے اور صبح كو رزہ ركھے تو اﷲ تعالیٰ اس كی سب دعائیں قبول فرمائے سوائے اس دُعا كے جو گناہ كے لیے ہو۔ (شعب الایمان حدیث ۳۸۱۲۱ دارالكتب العلمیہ بیروت ۳ /۳۷٤)
فوائد ہناد میں انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مروی
بعث نبیا فی السابع والعشرین رجب فمن صام ذٰلك الیوم ودعا عند افطارہ كان لہ كفارة عشر سنتین۔
۲۷ رجب كو مجھے نبوت عطا ہُوئی جو اس دن كا روزہ ركھے اور افطار كے وقت دُعا كرے دس برس كے گناہوں كا كفارہ ہو۔ (تنزیه الشریعة بحوالہ فوائد ہناد كتاب الصوم حدیث ٤۱ دارالكتب العلمیة بیروت ۳ /۱٦۱)
جزء ابی معاذ مروزی میں بطریق شہر ابن حوشب ابوھریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے موقوفاً مروی
من صام یوم سبع وعشرین من رجب كتب اﷲ له صیام ستین شھرا وھو الیوم الذی هبط فیه جبریل علی محمد صلی اﷲ تعالٰی علیه وسلم بالرسالة۔
جو رجب كی ستائیسویں كا روزہ ركھے تو اﷲ تعالیٰ اس كے لیے ساٹھ مہینوں كے روزوں كا ثواب لكھے، اور وُہ وُہ دن ہے جس میں جبریل علیہ الصلٰوة والسلام محمد صلّی اﷲ تعالیٰ علیہ و سلم كے لیے پیغمبری لے كر نازل ہُوئے۔ (تنزیه الشریعة بحوالہ جزء ابی معاذ كتاب الصوم حدیث ٤۱ دارا لكتب العلمیه بیروت ۳ /۱٦۱)
تنزیه الشریعة سے ماثبت من السّنة میں ہے
وھذا أمثل ما ورد فی ھذا المعنی۔
یہ اُن سب حدیثوں سے بہتر ہے جو اس باب میں آئیں۔ بالجملہ اس كے لیے اصل ہے اور فضائلِ اعمال میں حدیثِ ضعیف باجماعِ ائمہ مقبول ہے واﷲتعالٰی اعلم۔
تنزیه الشریعة بحوالہ جزء ابی معاذ كتاب الصوم حدیث ٤۱ دارا لكتب العلمیہ بیروت ۳ /۱٦۱
ما ثبت بالسنة مع اردو ترجمہ ذكرماہِ رجب ارادہ نعیمیہ رضویہ لال كھوہ موچی گیٹ لاہور ص ۲۳٤
تحقیق: اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ والرضوان
کتاب: العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ ، جلد ۱۰ ، صفحہ
نثار تیری چہل پہل پر ہزار عیدیں ربیع الاول
سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں
وجہ تسمیہ
اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ربیع الاول شریف ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ جب ابتداء میں اس کا نام رکھا گیا تو اس وقت موسم ربیع یعنی فصل بہار کا آغاز تھا۔ یہ مہینہ فیوضات و برکات کے اعتبار سے افضل ہے کہ باعث تخلیق کائنات رحمۃ اللعالمین احمد مجتبیٰ محمد مصطفی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دنیا میں قدم رنجہ فرمایا۔ ١٢ ربیع الاول شریف بروز پیر، مکۃ المکرمہ کے محلہ بنی ہاشم میں آپ کی ولادت باسعادت صبح صادق کے وقت ہوئی۔ ١٢ ربیع الاول ہی میں آپ ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے۔ اسی ماہ کی دس تاریخ کو محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین سیدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمایا تھا۔
مشائخ عظام اور علمائے کرام فرماتے ہیں کہ حضور پر نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم کا وقت ولادت باسعادت لیلۃ القدر سے بھی افضل ہے۔ کیوں کہ لیلۃ القدر میں فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ولادت پاک کے وقت خود رحمۃ للعالمین شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ لیلۃ القدر میں صرف امتِ مسلمہ پر فضل و کرم ہوتا ہے اور شب عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات پر اپنا فضل و کرم فرمایا ۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے کہ
وَمَا اَرْ سَلْنَاکَ اِلَّا رَحْمَۃٌ لِّلْعٰالَمِیْنَ
بارھویں ربیع الاول مبارک کو یعنی ولادت پاک کے دن خوشی و مسرت کا اظہار کرنا۔ مساکین کو کھانا کھلانا۔ اور میلاد شریف کا جلوس نکالنا اور جلسے منعقد کرنا اور کثرت سے درود شریف پڑھنا بڑا ثواب ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام سال امن و امان عطا فرمائے گا اور اس کے تمام جائز مقاصد پورے فرمائے گا۔
مسلمانوں کو چاہئے کہ اس ماہ مبارک میں گنبد خضرا کی شبیہ والے اور صلوٰۃ وسلام لکھے ہوئے سبز پرچم لہرانے چاہئیں اور بارہویں تاریخ کو بالخصوص جلوس میلاد شریف اور مجالس منعقد کیا کریں (ماثبت من السنۃ)
حکایت
ابو لہب جو مشہور کافر تھا اور سید دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا رشتہ میں چچا تھا ۔ جب رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارک ہوئی تو ابو لہب کی لونڈی ثویبہ نے آپ کی ولادت باسعادت کی خوش خبری اپنے مالک ابو لہب کو سنائی ۔ تو ابولہب نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ولاد ت کی خوشی میں اپنی لونڈی کو آزاد کردیا۔
جب ابو لہب مرگیا تو کسی نے خواب میں دیکھا اور حال دریافت کیا۔ تو اس نے کہا کہ کفر کی وجہ سے دوزخ کے عذاب میں گرفتار ہوں مگر اتنی بات ہے کہ ہر پیر کی رات عذاب میں تخفیف ہوجاتی ہے۔ اور جس انگلی کے اشارے سے میں نے اپنی لونڈی کو آزاد کیا تھا اس سے مجھے پانی ملتا ہے جب میں انگلی چوستا ہوں ۔
ابن جوزی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ جب ابو لہب کافر (جس کی مذمت میں سورہ لہب نازل ہوئی) کو یہ انعام ملا تو بتاؤ اس مسلمان کو کیا صلہ ملے گا جو اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی منائے۔ اس کی جزاء اللہ کریم سے یہی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل عمیم سے اسے جنات النعیم میں داخل فرمائے گا ۔ الحمدللہ ربّ العالمین ۔
میلاد پاک کرنا اور اس سے محبت کرنا ایمان کی علامت ہے اور میلاد پاک کا ثبوت قرآن مجید، احادیث شریفہ اور اقوال بزرگانِ دین سے ہے۔ میلاد شریف میں ہزاروں برکتیں ہیں۔ اس کو بدعت کہنا دین سے ناواقفیت پر مبنی ہے۔
محفل میلاد کی حقیقت
حقیقت صرف یہ ہے کہ مسلمان ایک جگہ جمع ہوں، سب محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار ہوں اور صحیح العقیدہ ، سنی علماء یا کوئی ایک عالم دین مسلمانوں کے سامنے حضور سراپا نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارک، آپ کے معجزات، آپ کے اخلاق کریمہ، فضائل اور مناقب صحیح روایات کے ساتھ بیان کرے۔ اور آخر میں بارگاہِ رسالت میں درود و سلام با ادب کھڑے ہوکر پیش کریں۔ اگر توفیق ہو تو شیرینی پر فاتحہ دلا کر فقراء و مساکین کو کھلائیں۔ احباب میں تقیسم کریں پھر اپنی تمام حاجتوں کیلئے دعا کریں۔ یہ تمام امور قرآن و سنت اور علمائے امت کے اقوال سے ثابت ہیں صرف اللہ جل شانہ، کی ہدایت کی ضرورت ہے۔
انعقادِ میلاد، اللہ تعالیٰ کی سنّت ہے
محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد شریف خود خالق اکبر جل شانہ، نے بیان کیا ہے ۔
لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُوْمِنِیْنَ رَؤُوْفٌ الرَّحِیْم (پ ١١ سورۃ توبہ ١٢٨)
ترجمہ: بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے۔ تمہاری بھلائی کے بہت چاہنے والے ہیں اور مسلمانوں پر کمال مہربان (کنزالایمان)
اس آیت شریفہ میں پہلے اللہ جل شانہ، نے فرمایا کہ ”مسلمانوں تمہارے پاس عظمت والے رسول تشریف لائے” یہاں تو اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت شریفہ بیان فرمائی پھر فرمایا کہ ”وہ رسول تم میں سے ہیں” اس میں اپنے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب شریف بیان فرمایا ہے پھر فرمایا ”تمہاری بھلائی کے بہت چاہنے والے اور مسلمانوں پر کرم فرمانے والے مہربان ہیں” یہاں اپنے محبوب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت بیان فرمائی۔
میلاد ِ مروجہ میں یہی تین باتیں بیان کی جاتی ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ سرکار ابد قرارا کا میلاد شریف بیان کرنا سنت الٰہیہ ہے۔
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری دلیل
اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَا ئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ تَکُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَ وَّلِنَا وَاٰخِرِنَا وَاٰیَۃً مِّنْکَ ط (پ ٧، سورۃ المائدہ، ١١٤)
ترجمہ: اے اللہ اے رب ہمارے ہم پر آسمان سے ایک خوان اتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ہمارے اگلوں پچھلوں کی اور تیری طرف سے نشانی ۔(کنزالایمان)
مندرجہ بالا دعا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے منسوب ہے کہ انہوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں ایک خوانِ نعمت اللہ کی نشانی کے طور پر نازل ہونے کی دعا کی ، اور نزول آیت و خوانِ نعمت کو اپنے لیے اور بعد میں آنے والوں یومِ عید قرار دیا، یہی وجہ ہے کہ خوانِ نعمت کے نزول کے دن ”اتوار” کو دنیائے عیسائیت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور اس دن روز مرّہ کے کام کاج چھوڑ کر بطور تعطیل مناتی ہے ۔
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری دلیل
اللہ تعالیٰ حکم فرما رہا ہے ،
قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَ بِرَحْمَتِہ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ (پ ١١، سورۃ یونس، ٥٨)
ترجمہ: تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت ، اسی پر چاہئے کہ خوشی کریں، وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے (کنزالایمان)
مفسرینِ کرام مثلاً علامہ ابن جوزی (م ۔٥٩٧ھ) ، امام جلال الدین سیوطی (م۔ ٩١١ھ) علامہ محمود آلوسی (م۔ ١٢٧٠ھ) اور دیگر نے متذکرہ آیت مقدسہ کی تفسیر میں ”فضل اور رحمت” سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مراد لیا ہے (حوالے کیلئے دیکھیں: زاد المسیر، جلد ٤، صفحہ ٤٠۔ تفسیر درِّ منثور ، جلد ٤، صفحہ ٣٦٨۔ تفسیر روح المعانی ، جلد ٦، صفحہ ٢٠٥) مفسرینِ کرام کی وضاحت و صراحت کے بعد یہ ثابت ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے عموم میں کائنات اور اس کے لوازمات بھی شمار ہونگے لیکن فضل و رحمت سے مطلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مراد ہوگی کہ جملہ کائنات کی نعمتیں اسی نعمتِ عظمیٰ کے طفیل ہیں اور اس ذات کی تشریف آوری کا یوم بھی فضل و رحمت سے معمور ہے، پس ثابت ہوا کہ یومِ میلاد، آپ ہی کی ذاتِ با برکات کے سبب اس قابل ہوا کہ اسی دن اللہ کے حکم کے مطابق خوشی منائی جائے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میلاد کی خوشیوں کےلئے یوم کا تعین کیا جاسکتا ہے ۔
خیمہ افلاک کا ایستادہ اسی نام سے ہے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
قارئین کرام! اگر قرآنِ مجید سے مزید دلائل پیش کئے جائیں تو عرض ہے اول تا آخر مکمل قرآن نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت اور صفات بیان کرتا ہے، پارہ ٣، سورۃ آلِ عمران، آیات ٨١ اور٨٢ میں اس مجلس میلاد کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے عالمِ ارواح میں انبیاءِ کرام کو جمع کرکے منعقد فرمائی۔
میلاد بیان کرنا سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے
بعض لوگ لا علمی کی بنا پر میلاد شریف کا انکار کردیتے ہیں ۔ حالانکہ محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنا میلاد بیان کیا ہے۔ سیدنا حضرت عباس رضی اللہ عنہ، فرماتے ہیں کہ سید العرب و العجم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ کسی گستاخ نے آپ کے نسب شریف میں طعن کیا ہے تو ،
فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ مَنْ اَنَا فَقَا لُوْ اَنْتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ۔۔ قَالَ اَنَا مُحَمَّدُ ابْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدُ الْمُطَّلِبْ اِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلْنِیْ فِیْ خَیْرِ ہِمْ ثُمَّ جَعَلَہُمْ فِرْقَتَیْنِ فَجَعَلْنِیْ فِیْ خَیْرِ ہِمْ فِرْقَۃً ثُمَّ جَعَلَہُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلْنِیْ فِیْ خَیْرِ ہِمْ قَبِیْلَۃً ثُمَّ جَعَلَہُمْ بُیُوْتًا فَاَنَا خَیْرُ ہُمْ نَفْسًا وَخَیْرُہُمْ بَیْتًا (رواہ الترمذی ، مشکوٰۃ شریف رضی اللہ تعالی عنہ ٥١٣)
ترجمہ: پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ممبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں کون ہوں؟ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ۔ فرمایا میں عبدالمطلب کے بیٹے کا بیٹا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کی ان میں سب سے بہتر مجھے بنایا پھر مخلوق کے دو گروہ کئے ان میں مجھے بہتر بنایا پھر ان کے قبیلے کئے اور مجھے بہتر قبیلہ بنایا پھر ان کے گھرانے بنائے مجھے ان میں بہتر بنایا تو میں ان سب میں اپنی ذات کے اعتبار اور گھرانے کے اعتبار سے بہتر ہوں۔
اس حدیث شریف سے ثابت ہو اکہ حضور پر نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم نے بذاتِ خود محفلِ میلاد منعقد کی جس میں اپنا حسب و نسب بیان فرمایا ۔ نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ محفل میلاد کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس مجلس و محفل میں ان لوگوں کا رد کیا جائے جو آپ کی بدگوئی کرتے ہوں۔
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں
سارے اچھوں میں اچھا سمجھئے جسے
ہے اس اچھے سے اچھا ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم
سارے اونچوں سے اونچا سمجھئے جسے
ہے اس اونچے سے اونچا ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم
تعیّن تاریخ پر قرآنی دلیل
وَزَکِّرْہُمْ بِاَ یَّامِ اللّٰہِ ط (پ ١٣۔ سورۃ ابراہیم)
اے موسیٰ ان کو یاد دلاؤ اللہ تعالیٰ کے دن
ہر عام و خاص جانتا ہے کہ ہر دن اور رات اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں۔ پھر اللہ کے دنوں سے کیا مراد ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ ان دنوں سے مراد خدا تعالیٰ کے وہ مخصوص دن ہیں جن میں اس کی نعمتیں بندوں پر نازل ہوئی ہیں۔ چنانچہ اس آیت کریمہ میں سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوا کہ آپ اپنی قوم کو وہ دن یاد دلائیں جن میں اللہ جل شانہ، نے بنی اسرائیل پر من و سلویٰ نازل فرمایا۔
مقام غوریہ ہے کہ اگر من و سلوٰی کے نزول کا دن بنی اسرائیل کو منانے کا حکم ہوتا ہے تو آقائے دوجہاں سید کون و مکاں صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پاک (جو تمام نعمتوں میں اعلیٰ اور افضل ہے) کا دن بطور عید منانا، اس کی خوشی میں جلوس نکالنا، جلسے منعقد کرنا ، مساکین و فقراء کے لئے کھانا تقسیم کرناکیوں کر بدعت و حرام ہوسکتا ہے؟
حدیث شریف سے تعیّن یوم پر دلیل
عَنْ اَبِیْ قَتَا دَۃ قَالَ سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ صَوْمِ یَوْمِ الْاَثْنَیْنِ فَقَالَ فِیْہِ وُلِدْتُ وَفِیْہِ اُنْزِلَ عَلَیَّ (مشکوٰۃ صفحہ ١٧٩)
ترجمہ: سیدنا حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں اسی دن پیدا ہوا۔ اور اسی روز مجھ پر قرآن نازل ہوا۔
اس حدیث شریف نے واضح کردیا کہ کسی دن کا تعین و تقرر کرنا ناجائز نہیں ہے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بروز پیر دو نعمتیں نازل فرمائی گئی تھیں ایک ولادت مقدسہ اور دوسرے نزول قرآن، اسی لئے آپ نے پیر کے دن کو روزہ رکھنے کے معیّن فرمایا۔
ماہِ ربیع الاول شریف کیلئے خصوصی ہدایات
ربیع الاول شریف کے مقدس مہینے میں حصول برکات کیلئے، عبادات کی کثرت (نماز، روزہ اور صدقات و خیرات) کیجئے۔ گناہوں سے بچنے کا خصوصی اہتمام اس مہینے میں کرنا چاہئے، جھوٹ ، غیبت، چغلی، ایذا رسانی، الزام تراشی، غصہ و برہمی وغیرہ سے اپنی ذات کو آلودہ نہ کیجئے، عید میلاد النبی ؐ کے دن اپنے چہروں پر مسکراہٹ سجائے رکھئے، کسی سے بھی (اپنا ہو یا پرایا) جھگڑا کرنے سے اجتناب کیجئے۔
ایک خاص تحفہ
ماہ ربیع الاول شریف کی کسی بھی جمعرا ت کے دن یا شبِ جمعہ گلاب کے چند پھول لے کر اپنے گھر میں باوضو ہوکر بیٹھیں، پھولوں کو سامنے رکھیں، درود شریف تین مرتبہ پڑھیں پھر
اَللّهُ نَاصِرٌ ۔۔۔۔۔۔ اَللّٰهُ حَافِظٌ ۔۔۔۔۔۔ اللّٰهُ الصَّمَد
٣١٣ مرتبہ پڑھیں اور تین مرتبہ درود شریف پڑھ کر پھولوں پر دم کردیں، اور یہ پھول مٹھائی وغیرہ کے ساتھ ملا کر کھالیں، مشائخ سے منقول ہے کہ جو ایسا کرے گا پورے سال بھر رزق میں برکت ہوگی، مفلسی قریب نہیں آئے گی۔
ماہِ ربیع الاول میں کائنات کا اہم ترین اور مبارک واقعہ
١٢ ربیع الاول شریف عین صبح صادق کے وقت آقائے دوجہاں علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دنیا میں تشریف آوری پیر کا دن ، ٢٢ اپریل ٥٧١ء ۔۔۔۔۔۔ ٥٣ قبل ہجری ۔۔۔۔۔۔ ١١ماہ بشینس ٣٦٧٥ طوفان نوح ۔۔۔۔۔۔ یکم جیٹھ ٣٦٧٢ کُل جگ ۔۔۔۔۔۔ ٢٠ ماہ ہفتم ٢٥٨٥ ابراہیمی ۔۔۔۔۔۔ یکم جیٹھ ٦٢٨ بکرمی شمسی ۔۔۔۔۔۔ ٢٠ نسیان ٨٣٣٢ خلیقہ یہودی ۔۔۔۔۔۔ ٢٠ نیسان ٨٢٢ سکندری
ماہِ ربیع الاول میں وقوع پذیر ہونے والے اہم تاریخی واقعات
٭ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔۔۔ ١٢ ربیع الاول ٥٧١ ء ٭سرکار صلی اللہ علیہ وسلم سفر مدینہ کیلئے غار ثور سے باہر تشریف لائے مع یارِ غار رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔ یکم ربیع الاول قبل ہجری٭ مدینہ منورہ تشریف آوری اور قیام حضرت کلثوم ابن ہدم کے مکان میں، بمقام قبا ء مدینہ منورہ ۔۔۔۔۔۔ بروز پیر٨ یا ١٢ ربیع الاول یکم ہجری٭مسجد ”قبا ”کی بنیاد محلہ بنی سالم، ۔۔۔۔۔۔ یکم ہجری ٭اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے مکان پر بیٹھی جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات ماہ قیام فرمایا ۔۔۔۔۔۔ یکم ہجری٭اذان کی ابتداء (نماز کیلئے اعلان کرنے کے انداز کی تجاویز مختلف صحابہ نے پیش کیں ، حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ، نے خواب میں اذان کے کلمات سُنے اور سیکھے اور پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنا خواب بیان فرمایا، اس اثناء میں بذریعہ وحی اذان کے یہی کلمات قلب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر القاء ہوئے ۔۔۔۔۔۔ یکم ہجری ٭غزوہ بنی نضیر ۔۔۔۔۔۔ ٤ھ٭غزوہ دومۃ الجندل (نصرانی مشرکین لڑے بغیر فرار ہوگئے) ۔۔۔۔۔۔ ٥ھ ٭مختلف ممالک اور ریاستوں کے فرمانرواؤں کو تبلیغی خطوط روانہ کئے گئے ۔۔۔۔۔۔ ٧ ھ ٭قبائلِ تہامہ اسلام لائے ۔۔۔۔۔۔ ٨ھ٭سریہ اُسامہ بن زید روانگی اور توقف ۔۔۔۔۔۔ ١١ھ ٭ ٭خلافت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔ ١١ھ ٭قتل اسود بن کعب عنسی کذّاب ۔۔۔۔۔۔ ١١ھ ٭(وصال) حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ۔۔۔۔۔۔ ١٢ ربیع الاول ١١ھ بروز پیر، ٧ یا ٨ جون ٦٣٢ئ؁ ٭فتح عراق ۔۔۔۔۔۔ ١٢ ھ ٭ فرارطلیحہ اسدی کذاب ۔۔۔۔۔۔ ١٢ ھ٭فتح دمشق ۔۔۔۔۔۔ ١٤ھ ٭وصال معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔ ١٨ھ ٭وفات ام المؤمنین زینب بنتِ جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔۔۔۔۔۔ ٢٠ھ ٭وفات ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔ ٣١ھ ٭وفات حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔ ٣٦ھ ٭تکمیل مدتِ ”خلافت علیٰ منہاج النبوۃ” امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت سے دستبرداری اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حکومت کا قیام ۔۔۔۔۔۔ ٤١ھ ٭تکمیل فتح کابل ۔۔۔۔۔۔ ٤٤ھ ٭شہادت حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔ ٤٩ھ ٭وفات سعید بن زید (عشرہ مبشرہ)ص ۔۔۔۔۔۔ ٥١ھ ٭بغاوت مختار ثقفی ۔۔۔۔۔۔ ٦٣ھ ٭یزید انتہائی تکلیف کے عالم میں مرگیا ۔۔۔۔۔۔ ٦٤ھ ٭وفات ابی سعید الخدری رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔ ٧٤ھ ٭عراق میں بغاوت ۔۔۔۔۔۔ ٧٦ھ ٭وفات قاضی شریح ۔۔۔۔۔۔ ٧٨ھ ٭شہر واسط کی تعمیر ۔۔۔۔۔۔ ٨٢ھ ٭وفات قاضی مدینہ طلحہ الزہری ۔۔۔۔۔۔ ٩٧ھ ٭وصال تابعی فقیہہ حضرت عطا بن یسار ۔۔۔۔۔۔ ١٠٣ھ ٭وفات جریر ۔۔۔۔۔۔ ١٠٥ھ ٭جنگ موقان(بنو امیہ ہشام بن عبدالملک بن مروان کے دور حکومت میں لڑی گئی) ۔۔۔۔۔۔ ١٠٨ھ ٭وفات عمرو بن شعیب السہمی ۔۔۔۔۔۔ ١١٨ھ ٭بسطام اللیثی کی بغاوت ۔۔۔۔۔۔ ١٢٨ھ ٭معتزلہ فرقہ کے بانی واصل بن عطاء کی موت ۔۔۔۔۔۔ ١٣١ھ ٭وفات سلمہ بن دینار الاعرج ۔۔۔۔۔۔ ١٤٠ھ ٭وفات خالد بن الخداء ۔۔۔۔۔۔ ١٤٢ھ ٭فتنہ محمرہ و عبدالقہار ۔۔۔۔۔۔ ١٦٢ھ ٭عباسی فرمانروا مہدی نے زندیقیوں کے خلاف مہم شروع کی ۔۔۔۔۔۔ ١٦٣ھ٭ہارون رشید کی فاتحانہ یلغار (زندیقیوں کے خلاف) ۔۔۔۔۔۔ ١٦٥ھ ٭مہدی نے مسجد حرام کی توسیع و تعمیر کا کام کیا ۔۔۔۔۔۔ ١٦٦ھ/١٦٧ھ ٭وفات عباسی فرمانروا ابو محمد موسیٰ بن المہدی الملقبہ ہادی ۔۔۔۔۔۔ ١٧٠ھ ٭تخت نشینی ابو جعفر ہارون الرشید بن مہدی بن منصور ۔۔۔۔۔۔ ١٧٠ھ٭مملکت روم پر یلغار ۔۔۔۔۔۔ ربیع الاول تا شعبان١٧٠ھ٭فتح ارض روم ہارون رشید کے زمانے میں ۔۔۔۔۔۔ ١٧٦ھ٭وفات القاضی شریک الکوفی ۔۔۔۔۔۔ ١٧٧ھ ٭ترک خاقان کے مظالم ۔۔۔۔۔۔ ١٨٣ھ ٭وفات ابراہیم الاسلمی الفقیہ ۔۔۔۔۔۔ ١٨٤ھ ٭آل برامکہ کا قلع قمع ہارون رشید نے کیا ۔۔۔۔۔۔ ١٨٧ھ ٭قتل فضل الوزیر ۔۔۔۔۔۔ ٢٠٢ھ ٭مامون الرشید نے بوران بنت حسین ابن سہل سے شادی کی اور اس شادی پر بے انتہا دولت خرچ کی ایک ماہ تک شادی کا جشن منایا گیا ۔۔۔۔۔۔ ٢١٠ھ٭وفات معروف شاعر ابو العتاہیہ اللغوی ۔۔۔۔۔۔ ٢١١ھ ٭وفات حافظ معاویہ الازدی ۔۔۔۔۔۔ ٢١٤ھ ٭شہادت محمد بن نوح العجلی ۔۔۔۔۔۔ ٢١٨ھ ٭وفات معروف تابعی بزرگ امام الاولیا حضرت محمد بشر حافی قدس سرہ، ۔۔۔۔۔۔ ٢٢٧ھ٭وفات المعتصم عباسی و خلافت الواثق باللہ ۔۔۔۔۔۔ ٢٢٧ھ/٨٤٢ء ٭وفات حافظ ابو جعفر الجعفی ۔۔۔۔۔۔ ٢٢٩ھ ٭وفات امیر عبداللہ بن ظاہر ۔۔۔۔۔۔ ٢٣٠ھ ٭دمشق میں شدید زلزلہ متعدد جانوں کا اتلاف اور عمارات کا انہدام ۔۔۔۔۔۔ ٢٣٣ھ ٭وفات ماہر علم الانساب مصعب بن عبداللہ الزبیری المالکی قدس سرہ، ۔۔۔۔۔۔ ٢٣٦ھ ٭وفات ابو ثورالکلبی ۔۔۔۔۔۔ ٢٤٠ھ ٭وفات تیسری صدی کے مجدد، پیکر استقامت و جرأت امام اہلسنت حضرت احمد بن حنبل علیہ الرحمہ ۔۔۔۔۔۔ ٢٤١ھ ٭ ایران میں زلزلہ و تباہی ۔۔۔۔۔۔ ٢٤٢ھ ٭شہادت حضرت سیدنا امام حسن عسکری قدس سرہ، (آئمہ اہلِ بیت میں گیارہویں امام) ۔۔۔۔۔۔ ٢٦٠ھ ٭وفات وزیر عباسی مملکت عبید اللہ بن خاقان ۔۔۔۔۔۔ ٢٦٣ھ ٭وفات ابراہیم المزنی ۔۔۔۔۔۔ ٦٦٤ھ ٭سلطنت عباسیہ کے بعض علاقوں پر زنگیوں کا قبضہ ۔۔۔۔۔۔ ٢٦٧ھ٭وفات احمد بن سیار مروزی ۔۔۔۔۔۔ ٢٦٨ھ٭ ٭ ٭وفات بکر بن سہل الدمیاطی ۔۔۔۔۔۔ ٢٨٩ھ ٭قرامطہ اور فاطمیہ کے مظالم ۔۔۔۔۔۔ ٢٩٠ھ ٭وفات ابو الحسن بن کسیان النحوی ۔۔۔۔۔۔ ٢٩٩ھ ٭عبیداللہ المہدی کا مصر پر حملہ اور ناکامی ۔۔۔۔۔۔ ٣٠٢ھ ٭وفات ابو بکر الخلال ۔۔۔۔۔۔ ٣١١ھ ٭رومیوں سے جنگ ۔۔۔۔۔۔ ٣١٥ھ ٭وفات عبید اللہ المہدی ۔۔۔۔۔۔ ٣٢٢ھ ٭وفات الراضی باللہ و خلافت ابراہیم المتقی باللہ العباسی ۔۔۔۔۔۔ ٣٢٩ھ ٭وفات ابو علی الکتامی القرطبی ۔۔۔۔۔۔ ٣٣١ھ٭وفات ابن ولاد النحوی ۔۔۔۔۔۔ ٣٣٢ھ ٭وفات ابن درستویہ الفارسی ۔۔۔۔۔۔ ٣٤٧ھ ٭وفات فقیہ حسان الاموی ۔۔۔۔۔۔ ٣٤٩ھ ٭بغداد میں معزالدولہ کے مظالم ۔۔۔۔۔۔ ٣٥١ھ ٭وفات ابو القاسم خالد القرطبی ۔۔۔۔۔۔ ٣٥٢ھ ٭قتل معزالدولہ ابن بویہ الدیلمی ۔۔۔۔۔۔ ٣٥٦ھ ٭وفات ابو علی الحسن بن الخضرا ۔۔۔۔۔۔ ٣٦١ھ ٭وفات ابو اسحق بن رجاء ۔۔۔۔۔۔ ٣٦٤ھ ٭وفات ابو بکر ابن القوطیہ ۔۔۔۔۔۔ ٣٦٧ھ ٭فوجی انقلاب بغداد ۔۔۔۔۔۔ ٣٧٦ھ ٭وفات ابو علی الفارسی ۔۔۔۔۔۔ ٣٧٧ھ ٭وفات عباسی وزیر جعفر ابن الفرات ۔۔۔۔۔۔ ٣٩١ھ ٭وفات ابوالحسن الخفاف ۔۔۔۔۔۔ ٣٩٥ھ٭وفات ابو سعد بن الاسماعیلی ۔۔۔۔۔۔ ٣٩٦ھ ٭فاطمینِ مصر نے کینسہ قما مہ مسمار کردیا ۔۔۔۔۔۔ ٣٩٨ھ ٭معزولی اموی حکمران محمد المہدی و خلافت المستعین الاموی اندلس میں ۔۔۔۔۔۔ ٤٠٠ھ ٭الحاکم الفاطمی نے بے پردہ عورتوں کو قتل کرایا، اور دریا میں ڈبو دیا ۔۔۔۔۔۔ ٤٠٥ھ ٭وفات ابو بکر فورک ۔۔۔۔۔۔ ٤٠٦ھ ٭قتل فخر الملک دیلمی ۔۔۔۔۔۔ ٤٠٧ھ ٭قادر با اللہ العباسی نے محمود غزنوی کو خلعت بھجوائی ۔۔۔۔۔۔ ٤٠٨ھ ٭سلطان محمود غزنوی نے خیر سگالی کا پیغام اپنے قاصد کے ذریعے قادر باللہ کو بھجوایا ۔۔۔۔۔۔ ٤١٠ھ ٭اندلس میں ہشام ثالث کی خلافت ۔۔۔۔۔۔ ٤١٨ھ ٭وفات ابو الحسن البزار ۔۔۔۔۔۔ ٤١٩ھ ٭اندلس میں طواف الملوکی ۔۔۔۔۔۔ ٤٢٢ھ ٭بغداد میںانتشار اور سخت بد امنی قائم بامراللہ کے دور میں ۔۔۔۔۔۔ ٤٢٤ھ ٭وفات معروف مفسر امام القرطبی علیہ الرحمۃ ۔۔۔۔۔۔ ٤٢٩ھ ٭ وفات معروف محدث ابو بکر الاصبہانی علیہ الرحمۃ ۔۔۔۔۔۔ ٤٣٠ھ٭وفات عبداللہ بن عبدان الہمدانی ۔۔۔۔۔۔ ٤٣٣ھ ٭ وفات ابو محمدالہمدانی ۔۔۔۔۔۔ ٤٣٤ھ ٭وفات الشریف المرتضیٰ ۔۔۔۔۔۔ ٤٣٦ھ ٭وفات ابو طالب بن البقال ۔۔۔۔۔۔ ٤٤٠ھ٭عراق میں شدید زلزلہ سے تباہی ۔۔۔۔۔۔ ٤٤٤ھ ٭وفات ابو طاہر الکاتب ۔۔۔۔۔۔ ٤٤٥ھ ٭وفات ابو یعلی القزوینی ۔۔۔۔۔۔ ٤٤٦ھ ٭وفات ابو المعلاء المعری ۔۔۔۔۔۔ ٤٤٩ھ ٭وفات معروف فقیہہ مصنف ”الاحکام السلطانیہ” امام ابو الحسن علی بن محمد ماوردی ۔۔۔۔۔۔ ٤٥٠ھ ٭وفات ابو عثمان نیشاپوری ۔۔۔۔۔۔ ٤٥٧ھ٭وفات معروف محدث و مؤرخ ابو بکر احمد بن علی بن ثابت الخطیب بغدادی قدس سرہ، (مؤلف تاریخ بغداد) ۔۔۔۔۔۔ ٤٦٣ھ٭حکومت ملک شاہ سلجوقی ۔۔۔۔۔۔ ٤٦٥ھ ٭وفات ابو عمر بن الخداء الاندلسی ۔۔۔۔۔۔ ٤٦٧ھ ٭وفات البیاضی الشاعر ۔۔۔۔۔۔ ٤٦٨ھ ٭وفات ابو الحسن بن ابی الجدید السلمی ۔۔۔۔۔۔ ٤٦٩ھ ٭وفات ابو جعفر بن ابی موسیٰ الفقیہ ۔۔۔۔۔۔ ٤٧٠ھ ٭وفات ابو الولید سلیمان البابی ۔۔۔۔۔۔ ٤٧٤ھ ٭وفات عبدالرحمن النابتی ۔۔۔۔۔۔ ٤٧٥ھ ٭وفات ابو طاہر الانباری ۔۔۔۔۔۔ ٤٧٦ھ ٭وفات امام الحرمین حضرت ابو المعالی عبدالملک الجوینی علیہ الرحمۃ (معاون مجدد پانچویں صدی) ۔۔۔۔۔۔ ٤٦٨ھ /٤٧٨ھ ٭وفات عبید اللہ بن نصر الحجازی ۔۔۔۔۔۔ ٤٨٠ھ ٭وفات ابو بکر بن خلف الشیرازی ۔۔۔۔۔۔ ٤٨٧ھ ٭پانچویں صدی کے مجدد امام غزالی علیہ الرحمۃ نے مدرسہ نظامیہ بغداد سے استعفیٰ دے دیا(عباسی دور المستظہر باللہ ۔۔۔۔۔۔ ٤٨٨ھ ٭وفات ابو البرکات الدباس ۔۔۔۔۔۔ ٤٩٩ھ ٭وفات ابو الحسین الخشاب ۔۔۔۔۔۔ ٥٠٤ھ ٭وفات ابو سعد المعمر البقال ۔۔۔۔۔۔ ٥٠٦ھ ٭وفات محمد بن طاہر القیسرانی ۔۔۔۔۔۔ ٥٠٧ھ ٭والی ”مراغہ” احمد بک کو فرقہ اسمٰعیلیہ باطنیہ کے ایک فرد نے قتل کردیا ۔۔۔۔۔۔ ٥٠٨ھ ٭قتل وزیر الطغرائی ابو اسمٰعیل الحسین بن علی بن محمد (خالق قصیدہ ”لامیۃ العجم”) ۔۔۔۔۔۔ ٥١٤ھ٭وفات ابن الطیوری ۔۔۔۔۔۔ ٥١٧ھ ٭وفات ابو اسحق الغزی الشاعر ۔۔۔۔۔۔ ٥٢٤ھ ٭وفات ابن الحاج الفقیہ القرطبی ۔۔۔۔۔۔ ٥٢٩ھ ٭وفات ابو عبداللہ بن النبائ ۔۔۔۔۔۔ ٥٣١ھ ٭وفات قاضی المنتخب الدمشقی ۔۔۔۔۔۔ ٥٣٤ھ ٭وفات ابو نصر الفتح بن محمد بن الخاقان ۔۔۔۔۔۔ ٥٣٥ھ ٭وفات ابو البدر الکرخی ۔۔۔۔۔۔ ٥٣٩ھ ٭وفات حافظ ابو سعد البغدادی ۔۔۔۔۔۔ ٥٤٠ھ ٭وفات امام ابو محمد سلط الخیام ۔۔۔۔۔۔ ٥٤١ھ ٭فرنگیوں کا دمشق پر حملہنور الدین زنگی نے پسپا کردیا ۔۔۔۔۔۔ ٥٤٣ھ ٭وفات القاضی عیاض بن موسیٰ بن عیاض مالکی (معروف محدث و مصنف” شفاء شریف ”) ۔۔۔۔۔۔ ٥٤٤ھ ٭علاؤ الدین حسین جہانسوزنے شہر غزنی کو نذر آتش کردیا ۔۔۔۔۔۔ ٥٤٥ھ ٭وفات سلطان سنجر بن ملک شاہ سلجوقی ۔۔۔۔۔۔ ٥٥٢ھ ٭ترکمانوں نے اسمٰعیلیوں پر فتح حاصل کی ۔۔۔۔۔۔ ٥٥٣ھ ٭وفات المقتضی عباسی اور مسند اقتدار المستنجد عباسی کے حوالے ۔۔۔۔۔۔ ٥٥٥ھ ٭وفات عبدالکریم السمعانی ۔۔۔۔۔۔ ٥٦٢ھ ٭وفات ابو بکر المتونی ۔۔۔۔۔۔ ٥٧٥ھ ٭خواجہ خواجگان حضرت خواجہ غریب نواز قدس سرہ، کی ہدایت پر سلطان شہاب الدین غوری نے ہند کے راجہ پرتھوی راج سے جنگ کی اور فتح حاصل کی ۔۔۔۔۔۔ ٥٨٧ھ ٭وفات علامہ رضی الدین القزوینی ۔۔۔۔۔۔ ٥٩٠ھ ٭وفات شیخ حسن بن منصور قاضی خاں صاحب فتاویٰ ۔۔۔۔۔۔ ٥٩٢ھ ٭وصال مقدس قطب العالم حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی قدس سرہ، (دہلی) ۔۔۔۔۔۔ ٦٣٢ھ ٭دہلی میں ملکہ رضیہ سلطانہ کی حکومت ۔۔۔۔۔۔ ٦٣٤ھ٭وفات علاؤالدین صابر کلیری ۔۔۔۔۔۔ ٦٩٠ھ ٭حکومت محمدشاہ تغلق ۔۔۔۔۔۔ ٧٢٥ھ ٭وفات مؤرخ اسلام ابو الفداء اسماعیل ۔۔۔۔۔۔ ٧٣٢ھ ٭وفات شاہ میر کشمیری (ہندو راجاؤں پر غلبہ حاصل کرکے کشمیر میں سب سے پہلی اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی) ۔۔۔۔۔۔ ٧٥٠ھ ٭وفات فخر الزمان بدر چاچ معروف شاعر دربار سلطان محمد بن تغلق ۔۔۔۔۔۔ ٧٥١ھ ٭وفات غیاث الدین علی شیر کشمیری ۔۔۔۔۔۔ ٧٥٣ھ ٭وفات شیخ الاسلام امام تقی الدین السبکی قدس سرہ، (فقیہہ، مفسر، محدث۔۔آٹھویں صدی ہجری کے معاون مجدد) ۔۔۔۔۔۔ ٧٥٦ھ ٭وفات حسن گنگوبہنی ۔۔۔۔۔۔ ٧٥٩ھ ٭خلافت ذکریا المعتصم(دومرتبہ اقتدار کا موقع ملا، یہ اوّل موقع تھا ) ۔۔۔۔۔۔ ٧٧٩ھ ٭وفات علی بن ایبک الشاعر ۔۔۔۔۔۔ ٨٠١ھ ٭وفات ابراہیم السرائی الشافعی ۔۔۔۔۔۔ ٨٠٢ھ ٭وفات الملک الاشرف اسماعیل ۔۔۔۔۔۔ ٨٠٣ھ٭محدث /فقہیہ شافعی عمر بن علی بن الملغن ۔۔۔۔۔۔ ٨٠٤ھ/١٣٠٢ئ٭وفات جمال الدین الحریری ۔۔۔۔۔۔ ٨٠٧ھ ٭وفات سیف الدین السیرانی ۔۔۔۔۔۔ ٨١٠ھ ٭ وفات جلال الدین بن خطیب داریا ۔۔۔۔۔۔ ٨١٠ھ ٭حکومت و اقتدار دولت خاں لودھی ۔۔۔۔۔۔ ٨١٤ھ ٭وفات ابو الخیر شمس الدین بن محمد ابن الجزری (امام فن تجوید و قرأت السبعہ) ۔۔۔۔۔۔ ٨٣٣ھ٭خلافت ابو ربیعہ سلیمان المشکفی الثانی ۔۔۔۔۔۔ ٨٤٥ھ ٭تخت نشینی بایزید ثانی(سلطنتِ عثمانیہ) ۔۔۔۔۔۔ ٨٨٦ھ ٭وفات سنان الدین یوسف الحنفی ۔۔۔۔۔۔ ٨٩١ھ ٭وفات زین الدین خالد النحوی ۔۔۔۔۔۔ ٩٠٥ھ/١٤٩٩ء ٭وفات ابو المعالی سبط الشہاب العمیری ۔۔۔۔۔۔ ٩٠٦ھ ٭وفات شاہ علی گجراتی ۔۔۔۔۔۔ ٩١٣ھ ٭وفات قوام قاضی بغداد ۔۔۔۔۔۔ ٩١٧ھ ٭تخت نشینی سلیم اول پہلا عثمانی خلیفہ ۔۔۔۔۔۔ ٩١٨ھ /١٥١٢ئ٭وفات قاضی جگن (خزانۃ الفتاویٰ) ۔۔۔۔۔۔ ٩٢٠ھ ٭وفات بدرالدین الحصکفی ۔۔۔۔۔۔ ٩٢٥ھ ٭وفات شاہ قاسم ملازدہ ۔۔۔۔۔۔ ٩٣٨ھ وفات شمس الدین ابن کمال پاشا ۔۔۔۔۔۔ ٩٤٠ھ ٭وفات یوسف الکالی ۔۔۔۔۔۔ ٩٤٥ھ ٭وفات شیر شاہ سوری ۔۔۔۔۔۔ ٩٥٢ھ/١٥٤٥ء ٭حکومت اسلام شاہ سوری ۔۔۔۔۔۔ ٩٥٢ھ/ ١٥٤٥ء ٭تعمیرنو مسجد حرام مکۃ المکرمہ ۔۔۔۔۔۔ ٩٦٠ھ ٭وفات مصلح الدین سروری ۔۔۔۔۔۔ ٩٦٩ھ ٭وفات تاج لادین الحمیدی ۔۔۔۔۔۔ ٩٧٣ھ ٭خلافت سلیم ثانی سلطنت عثمانیہ ۔۔۔۔۔۔ ٩٧٤ھ ٭وفات شیخ علی متقی الہندی قدس سرہ،، مؤلف” کنزالعمال شریف” ۔۔۔۔۔۔ ٩٧٥ھ ٭وفات محمد پاشا الوزیر ۔۔۔۔۔۔ ٩٨٧ھ ٭وفات جمال الدین الاسخر الیمنی ۔۔۔۔۔۔ ٩٩١ھ٭وفات جمال الدین الطاہر الاہدلی ۔۔۔۔۔۔ ٩٩٨ھ ٭قتل شیخ ابو الفضل علامی ۔۔۔۔۔۔ ١٠١٠ھ ٭خلافت عثمان ثانی ۔۔۔۔۔۔ ١٠٢٧ھ ٭وصال شیخ المشائخ حضرت میاں میر ؔ لاہوری ۔۔۔۔۔۔ ١٠٤٥ھ ٭وصال شیخ عبدالحق محدث دہلوی ۔۔۔۔۔۔ ١٠٥٢ھ ٭شہادت قطب الدین سہالوی ۔۔۔۔۔۔ ١١٠٣ھ ٭وفات زیب النساء دختر عالمگیر ۔۔۔۔۔۔ ١١١٢ھ ٭وفات شاہ امین عظیم آبادی ۔۔۔۔۔۔ ١١٢٧ھ ٭خلافت محمود اول ۔۔۔۔۔۔ ١١٤٣ھ ٭خلافت مصطفی ثالث ۔۔۔۔۔۔ ١١٧١ھ ٭وفات شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ۔۔۔۔۔۔ ١١٧٦ھ ٭وفات نجیب الدولہ ۔۔۔۔۔۔ ١١٨٤ھ ٭وفات اشرف علی افغان (پٹنہ) ١١٨٦ھ ٭وفات آصف الدولہ(اودھ) ۔۔۔۔۔۔ ١٢١٢ھ ٭والی مکہ شریف، غالب نے مکہ سے وہابیوں کو نکال دیا ۔۔۔۔۔۔ ٢٢ ربیع الاول١٢١٨ھ ٭محمد علی پاشا نے عبداللہ بن سعود نجدی اور اس کے چند حواریوں کو قسطنطنیہ میں قتل کیا ۔۔۔۔۔۔ ١٢٣٤ھ٭وفات مومن دہلوی ۔۔۔۔۔۔ ١٢٦٩ھ ٭شاہ احمد سعید مجددی کی مدینہ میں وفات ۔۔۔۔۔۔ ٢ ربیع الاول ١٢٧٧ھ /١٨ ستمبر ١٨٦٠ء ٭وفات مفتی صدر الدین آزردہ (دہلی) ١٢٨٥ھ ٭وفات عبدالحئی فرنگی محل لکھنوی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٠٤ھ ٭وفات مولانا عنایت رسول چریا کوٹی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٢٠ھ ٭فلسطین پر برطانوی قبضہ ۔۔۔۔۔۔ ١٣٣٦ھ٭خلافت عبدالمجید الثانی عثمانی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٤٢ھ ٭وفات حکیم سید برکات احمد ٹونکی بہاری ۔۔۔۔۔۔ ١٣٤٧ھ ٭وفات قاضی سلیمان منصورپوری(مصنف رحمۃ للعالمین) ۔۔۔۔۔۔ ١٣٤٩ھ٭وفات مظہر الحق (پٹنہ) ١٣٥٠ھ٭وفات پروفیسر مولانا سید سلیمان اشرف بہاری (خلیفہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ) ۔۔۔۔۔۔ ١٣٥٨ھ ٭آزادی لبنان ۔۔۔۔۔۔ ١٣٦٥ھ ٭وفات (حامی نجدی حکومت) سلیمان ندوی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٧٣ھ ٭آزادی جمہوریہ وسط افریقہ و نائجیریا ۔۔۔۔۔۔ ١٣٨٠ھ
ماہ ربیع الاو ل میں وفات پانے والے صحابہ کرام و بزرگانِ دین
یکم ربیع الاول
٭حضرت مولانا محمد زاہدخشی ۔۔۔۔۔۔ ٩٣٦ھ ٭حضرت خواجہ محمد زاہد سندھی ۔۔۔۔۔۔ ٩٤٤ھ٭حضرت شیخ عبدالرشید جالندھری ۔۔۔۔۔۔ ١١٢٠ھ٭٭حضرت سید محمد سلیمان اشرف بہاری ۔۔۔۔۔۔ ١٣٥٨ھ٭فاضلِ کبیر مولانا برکات احمد بن دائم علی حنفی ٹونکی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٤٥ھ یا ١٣٤٧ھ
٢ ربیع الاول
٭ حضرت شاہ احمد سعید مجددی دہلوی ۔۔۔۔۔۔ ١٢٧٧ھ٭ شیر ربّانی حضرت میاں شیر محمد شرق پوری ۔۔۔۔۔۔ ١٣٤٧ھ
٣ ربیع الاول
٭حضرت خواجہ فضیل بن عیاض موسیٰ صفات ۔۔۔۔۔۔ ١٨٧ھ٭حضرت خواجہ بزرگ بہاؤالدین محمد نقشبند بخاری (روحِ رواں سلسلہ نقشبندیہ) ۔۔۔۔۔۔ ٧٩١ھ/١٣٨٩ء ٭حضرت شاہ رضی الدین علی لالا ۔۔۔۔۔۔ ٦٤٢ھ٭حضرت شاہ عبدالواحد چشتی ۔۔۔۔۔۔ ١٠٧٥ھ ٭حضرت سید معین الدین کڑوی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٠٤ھ ٭پیر عبداللہ جان سرہندی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٩٣ھ
٤ ربیع الاول
٭حضرت خواجہ یوسف بن محمد سمعانی ۔۔۔۔۔۔ ٤٦٩ھ ٭حضرت ابو علی فضیل فارمدی طوسی ۔۔۔۔۔۔ ٤٧٧ھ٭حضرت ملا نور اللہ مشہور بہ نور بابا ۔۔۔۔۔۔ ١١٩٥ھ ٭خواجہ توکل شاہ انبالوی ۔۔۔۔۔۔ ١٣١٥ھ ٭شہید اہلسنّت، مناظر اسلام مولانا محمد اکرم رضوی شہید (گوجرانوالہ) ٭حضرت شیخ ہندی لاہوری ٭ مولانا معین الدین کروی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٠٤ھ٭ علامہ مولانا غلام احمد بن شیخ احمد حنفی کوٹی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٢٥ھ
٥ ربیع الاول
٭ شہادت حضرت ابی محمد امام حسن مجتبیٰ ۔۔۔۔۔۔ ٤٩ھ ٭حضرت شیخ حمزہ چشتی جونپوری ۔۔۔۔۔۔ ٩٥٨ھ ٭حضرت سیدنا یوسف جمیل اللہ ٭شیخ کبیر چشتی
٦ ربیع الاول
٭حضرت شاہ عبداللہ چشتی صفی پوری ۔۔۔۔۔۔ ١١٦٣ھ ٭حضرت زرزری زر بخش دولہا (خلد آباد) ٭حضرت شیخ العلما گھوسی ٭حضرت علی بن عبداللہ بن نور اللہ حسینی گجراتی ۔۔۔۔۔۔ ١٣١٣ھ
٧ ربیع الاول
٭حضرت شیخ منتخب الدین ۔۔۔۔۔۔ ٥٩٥ھ٭ حضرت شیخ کبیر چشتی احمد آبادی ۔۔۔۔۔۔ ٨٥٨ھ ٭حضرت شیخ نظام الدین عرف الہدیہ ۔۔۔۔۔۔ ٩٩٣ھ ٭حضرت شیخ محمد معروف میاں میر ۔۔۔۔۔۔ ١٠٤٥ھ ٭ حضرت شاہ احمد سعید مجددی دہلوی ۔۔۔۔۔۔ ١٢٧٧ھ ٭خواجہ غلام فرید فاروقی چشتی ۔۔۔۔۔۔ ١٣١٩ھ٭حضرت پیر دستگیر بالا پیر میاں میر لاہوری ٭حکیم احمد حسین بن بدر الدین عثمانی حنفی الٰہ آبادی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٥٢ھ ٭میاں غلام اللہ شرقپوری ۔۔۔۔۔۔ ١٣٧٧ھ/١٩٥٧ء
٨ ربیع الاول
٭حضرت امام حسن عسکری ۔۔۔۔۔۔ ٢٦٠ھ ٭حضرت سید عثمان شاہ جھولہ لاہوری ۔۔۔۔۔۔ ٩١٢ھ ٭خواجہ فیض اللہ ترابی ۔۔۔۔۔۔ ١٢٤٥ھ
٩ ربیع الاول
٭جمال الابرار حضرت خواجہ جمال الدین عرف جمن ۔۔۔۔۔۔ ١٩٤٠ھ ٭حضرت شیخ محمد اعظم چشتی احمدآبادی ۔۔۔۔۔۔ ١٠٤٢ھ ٭حضرت شاہ صفی اللہ سیف الرحمن ۔۔۔۔۔۔ ١٠٨٠ھ ٭حضرت سید عبدالقادر بخاری ۔۔۔۔۔۔ ١٠٥٠ھ ٭حضرت عبدالکریم بربری ۔۔۔۔۔۔ ١١٤٥ھ ٭حضرت شیخ محمد معصوم سر ہندی بن امام ربانی مجدد الف ثانی
١٠ ربیع الاول
٭حضرت سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ، ابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔۔۔ ٩ھ ٭شیخ الاسلام حضرت تقی الدین السبکی الشافعی (آٹھویں صدی ہجری کے معاون مجدد، ابن تیمیہ کا زبردست علمی ردّ کرنے والے) ۔۔۔۔۔۔ ٧٦٥ھ ٭حضرت شیخ عبداللہ ٹھٹھوی ۔۔۔۔۔۔ ١٠٣٧ھ ٭حضرت پیر مکی ٭حضرت داتا ملک جمال بلواروی ٭شیخ یعقوب دہلوی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٢٤ھ
١١ ربیع الاول
٭حضرت امام المسلمین سیدناابو محمد حسن بن علی سبطِ نبی کریم (علیہ الصلوٰۃ والسلام) ۔۔۔۔۔۔ ٥٠ھ٭حضرت شیخ بقری خراسانی ۔۔۔۔۔۔ ١٠٠٠ھ ٭حضرت سید جھولن شاہ مشہور بہ گھوڑے شاہ ۔۔۔۔۔۔ ١٠٠٣ھ ٭حضرت شاہ ابو المعالی چشتی انبیٹھوی ۔۔۔۔۔۔ ١١١٦ھ ٭حضرتسید سردار علی شاہ شہید ۔۔۔۔۔۔ ١٢٢٨ھ٭حضرت مولوی شاہ حسین بخش لکھنوی ۔۔۔۔۔۔ ١٢٧٨ھ ٭حضرت سید حسین اکبر حامانی
١٢ ربیع الاول
٭حضرت سردارِ انبیاء قبلہ اصفیاء سیدنا و مولانا ابو القاسم احمد مجتبی محمد مصطفی صلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَبَارِک وَسَلَّم ۔۔۔۔۔۔ ١١ھ (تاریخ وصال میں مؤرخین کے نزدیک اختلاف ہے، بعض ٢ ، ١٠، ١٧ ربیع الاول لکھتے ہیں)٭حضرت شاہ بدر گیلانی ۔۔۔۔۔۔ ١٦٨ھ ٭حضرت امام احمد بن ابو حنیفہ ۔۔۔۔۔۔ ١٨٩ھ٭حضرت امام المسلمین سید نا احمد بن حنبل ۔۔۔۔۔۔ ٢٤١ھ ٭حضرت عبدالغنی بن عثمان ۔۔۔۔۔۔ ٥٧١ھ٭حضرت خواجہ عبدالحق غجدوانی ۔۔۔۔۔۔ ٥٧٥ھ ٭حضرت سید احمد ختلانی روح المقدس طوسی ۔۔۔۔۔۔ ٩٠٦ھ ٭حضرت شاہ رزاق پاک بغدادی ۔۔۔۔۔۔ ٩٥٧ھ٭حضرت شاہ جمال بغدادی ۔۔۔۔۔۔ ١٠٠٠ھ ٭حضرت نعمت شاہ دہلوی ۔۔۔۔۔۔ ١٢٢٥ھ٭سید محمدبن احمد حسینی لاج پوری سورتی بھوپالی ۔۔۔۔۔۔ ١٣١٣ھ ٭حضرت شاہ عبدالعزیز خالص پوری ۔۔۔۔۔۔ ١٣١٩ھ٭مولانا عنایت علی بن کرامت علی اسرائیلی دہلوی حیدرآبادی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٢٧ھ ٭حضرت سید محمد حسین شاہ علی پوری ۔۔۔۔۔۔ ١٣٨١ھ ٭حضرت خواجہ صوفی نواب الدین
١٣ ربیع الاول
٭حضرت ابو الفتح جونپوری ۔۔۔۔۔۔ ٨٥٨ھ ٭حضرت شیخ شریف شہاب الدین ابو العباس احمد بدوی ۔۔۔۔۔۔ ٢٧٥ھ ٭حضرت خواجہ مخدوم علاؤلدین علی احمد صابر کلیری ۔۔۔۔۔۔ ٦٩٤ھ ٭حضرت شیخ جلال الدین کبیر الاولیا ۔۔۔۔۔۔ ٧٧٥ھ ٭حضرت بندگی ابو المکارم اسمٰعیل چشتی ۔۔۔۔۔۔ ٨٦٠ھ ٭حضرت سید محمد اسمٰعیل بغدادی ۔۔۔۔۔۔ ٩٠٥ھ ٭حضرت شاہ عاشق محمد قلندر ۔۔۔۔۔۔ ٩٨٩ھ٭حضرت شیخ دانیال خضری جونپوری ۔۔۔۔۔۔ ٩٩٤ھ ٭حضرت سید دوست محمد جذابی ۔۔۔۔۔۔ ١١٤٧ھ ٭حضرت سیدنا موسیٰ قادری
١٤ ربیع الاول
٭حضرت سید عبداللہ حنبلی ۔۔۔۔۔۔ ٤٧٣ھ٭حضرت عبدالصمد مکی ۔۔۔۔۔۔ ٦٤٨ھ ٭حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ۔۔۔۔۔۔ ٦٣٢ھ٭حضرت شیخ محمد عیسیٰ جونپوری ۔۔۔۔۔۔ ٨٧٠ھ ٭حضرت شیخ بہورے بن قاضی بڈھن ۔۔۔۔۔۔ ٩١٥ھ ٭حضرت خواجہ ضیاء اللہ مجددی کشمیری ٭حضرت شیخ مصطفی رفیقی ۔۔۔۔۔۔ ١٢٩٤ھ
١٥ ربیع الاول
٭ حضرت ابو عبداللہ محمد جوئی خراسانی ۔۔۔۔۔۔ ٥٣٠ھ٭حضرت ابو علی بن مسلم عراقی ۔۔۔۔۔۔ ٥٩٤ھ ٭حضرت شمس الدین صحرائی سمرقندی ۔۔۔۔۔۔ ٨٩٩ھ٭حضرت خواجہ محمد ہاشم وہیدی ۔۔۔۔۔۔ ١٠٤٦ھ ٭مفتی محمد ابراہیم بدایونی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٧٦ھ ٭قاضی عبیداللہ بن صبغۃ اللہ مدراسی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٤٦ھ٭ مولوی غلام محمد بن خان محمد حنفی کوٹی فتح پوری ۔۔۔۔۔۔ ١٣٠١ھ
١٦ ربیع الاول
٭حضرت شیخ ابو عبداللہ عثمان مکی ۔۔۔۔۔۔ ٣٩٧ھ ٭حضرت شاہ فتح محمد سلطان العارفین ۔۔۔۔۔۔ ٧٨٧ھ٭حضرت سیدی ابو عبداللہ محمد بن سلیمان جزولی (مصنف دلائل الخیرات) ۔۔۔۔۔۔ ٨٧٠ھ٭حضرت شیخ سعد الدین چشتی خیر آبادی ۔۔۔۔۔۔ ٩٢٢ھ ٭حضرت شاہ ابو المعالی لاہوری ۔۔۔۔۔۔ ١٠٢٤ھ ٭حضرت سید ابو المعالی خیر الدین کرمانی ۔۔۔۔۔۔ ١٠٢٤ھ ٭حضرت ولی محمد عیسٰی کشود ۔۔۔۔۔۔ ١١٠٣ھ ٭حضرت شاہ درگاہی فتح پوری ۔۔۔۔۔۔ ١٢٠٢ھ٭حضرت شاہ لطیف کرشکی
١٧ ربیع الاول
٭حضرت شیخ عبود بزازی ۔۔۔۔۔۔ ٢٠٠ھ ٭حضرت ابو عمر و دمشقی اسفرائینی ۔۔۔۔۔۔ ٣٢٠ھ ٭حضرت سید محمد مورث ۔۔۔۔۔۔ ٤١٥ھ ٭حضرت ابراہیم طاقی مرشدآبادی ۔۔۔۔۔۔ ٥٦٥ھ ٭حضرت شاہ عبدالرحیم بن عبدالسلام ہراتی ۔۔۔۔۔۔ ٥٩٧ھ ٭حضرت ابو الخیر خواجہ محمود ففنوی بخاری ۔۔۔۔۔۔ ٧١٥ھ ٭حضرت لال قطب قلندرملتانی ۔۔۔۔۔۔ ٧٢٥ھ ٭حضرت دیوان محمد یونس ۔۔۔۔۔۔ ٧٥٦ھ٭حضرت شیخ محمود چشتی ۔۔۔۔۔۔ ٨٩٧ھ٭حضرت شاہ لشکر محمد عارف ۔۔۔۔۔۔ ٩٠١ھ٭حضرت شیخ سعد بن احمد مقری ۔۔۔۔۔۔ ٩٢٧ھ٭حضرت سید آل احمد اچھے میاں مارہروی ۔۔۔۔۔۔ ١٢٣٥ھ ٭حضرت تاج الدین عبدالرزاق ۔۔۔۔۔۔ ٦٥٤ھ ٭حضرت شاہ ابو المعالی قادری ٭حضرت شاہ محمد غوث لاہوری
١٨ ربیع الاول
٭حضرت مخدوم شیخ عبدالقادر ثانی ۔۔۔۔۔۔ ٩٤٠ھ٭حضرت سید عبدالقادر لاہوری ۔۔۔۔۔۔ ٩٤٢ھ ٭ حضرت سلطان شاہ قندھاری
١٩ ربیع الاول
٭حضرت خواجہ شبلی پانی پتی ۔۔۔۔۔۔ ٨٥٢ھ ٭حضرت شیخ عبدالجلیل لکھنوی ۔۔۔۔۔۔ ١٠١٦ھ ٭مولوی غلام قادر چشتی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٢٧ھ
٢٠ ربیع الاول
٭حضرت خواجہ علاء الدین عطار ۔۔۔۔۔۔ ٨٠٢ھ ٭حضرت شاہ رزق اللہ قنوجی ۔۔۔۔۔۔ ٩٨٩ھ٭ مولانا غلام نبی اللہی حنفی نقشبندی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٠٠ھ
٢١ ربیع الاول
٭حضرت اخون سالار دہ رومی ۔۔۔۔۔۔ ٧٠٥ھ٭حضرت شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی (گیارہویں صدی کے مجدد) ۔۔۔۔۔۔ ١٠٥٢ھ٭حضرت شاہ افہام اللہ چشتی صفی پوری ۔۔۔۔۔۔ ١١٩٦ھ ٭حضرت شاہ حسین عطا کریمی چشتی ۔۔۔۔۔۔ ١٢٩٧ھ ٭حضرت قاری شاہ عبد الکریم نصیر پور گلاں، ٭حضرت شاہ عبد الرحیم
٢٢ ربیع الاول
٭حضرت شیخ حاجی یکتاش ولی عرف شیخ عدی طہر بن موسیٰ برقی ۔۔۔۔۔۔ ٣٥٩ھ ٭حضرت ابو القاسم عبدالکریم قشیری ۔۔۔۔۔۔ ٤٦٥ھ ٭حضرت محی الدین ابو نصر نبیرہ غوثِ الاعظم ۔۔۔۔۔۔ ٦٥٦ھ ٭ حضرت شیخ عمر یاغستانی ۔۔۔۔۔۔ ٦٩٨ھ ٭حضرت شیخ ابو حاکم حمید الدین قریشی ہنکاری ۔۔۔۔۔۔ ٧٣٧ھ ٭حضرت شیخ سعد اللہ ترک بخاری ۔۔۔۔۔۔ ٩٢٨ھ ٭حضرت حاجی محمد سندھی ۔۔۔۔۔۔ ١١٤٧ھ ٭شیخ طریقت فضل الرحمن گنج مراد آبادی ۔۔۔۔۔۔ ١٣١٣ھ
٢٣ ربیع الاول
٭حضرت شیخ الاسلام شیخ سعد اللہ کمنددری فراز لکھنوی ۔۔۔۔۔۔ ٨٢٩ھ ٭سلطان العلماء حضرت مولانا نور الحق فرنگی محلی ۔۔۔۔۔۔ ١٢٨٣ھ
٢٤ ربیع الاول
٭حضرت شیخ حسن طاہر دہلوی ۔۔۔۔۔۔ ٩٠٩ھ٭حضرت شیخ کلیم اللہ جہاں آبادی ۔۔۔۔۔۔ ١١٤٢ھ/١٧٢٩ئ
٢٥ ربیع الاول
٭حضرت شاہ اعلی عبدالسلام پانی پتی ۔۔۔۔۔۔ ١٠٣٣ھ
٢٦ ربیع الاول
٭حضرت سید علاؤالدین لاہوری ۔۔۔۔۔۔ ٨٧٧ ٭حضرت غوث علی شاہ قلندر ۔۔۔۔۔۔ ١٢٩٧ھ ٭حضرت غوث علی شاہ قادری ۔۔۔۔۔۔ ١٢٩٨ھ٭حضرت شیخ سید میراں حسین زنجانی ٭حضرت میاں عبدالبصیر عرف اللہ ہُو میاں
٢٧ ربیع الاول
٭حضرت شیخ ابو نصر صیلادی کوفی ۔۔۔۔۔۔ ٢٧٧ھ٭ حضرت ابو اسحق خواص ۔۔۔۔۔۔ ٢٩١ھ٭حضرت شمس الدین محمد بن علی تبریزی ۔۔۔۔۔۔ ٦٤٥ھ ٭حضرت شیخ یٰس مغربی (حجام) ٦٧٧ھ٭حضرت شیخ عباس نیشا پوری٭حضرت سید احمد شاہ کوہاٹی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٥٠ھ ٭حضرت سیدنا محی الدین ابو نصر ٭حضرت شاہ شرف الدین بو علی قلندر ٭حضرت برہان الملت مولانا برہان الحق جبل پوری (خلیفہ اعلیٰ حضرت) ٭محترم صالح سراج الدین بن عثمان حنفی نقشبندی ڈیروی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٣٣
٢٨ ربیع الاول
٭شیخ داؤد طائی (تلمیذ امام اعظم ابو حنیفہ) ٭حضرت خواجہ محمد باغبان غزنوی ۔۔۔۔۔۔ ٦٧٤ھ ٭حضرت علامہ محمد شریف نوری قصوری ۔۔۔۔۔۔ ١٣٩٢ھ ٭پیر غلام محی الدین بزمان شریف ۔۔۔۔۔۔ ١٣٩٥ھ / ١٩٧٥ء
٢٩ ربیع الاول
٭حضرت ابو عثمان سعید بن اسمٰعیل حیری ۔۔۔۔۔۔ ٢٩٨ھ ٭حضرت خواجہ شیخ محمد گجراتی ۔۔۔۔۔۔ ١٠٤٠ھ ٭حضرت شمس الدین عرف محمد قطب اسرار الواحدیت احمد آبادی ۔۔۔۔۔۔ ١٠٩٩ھ ٭حضرت شیخ محمد حیات گنگوہی ۔۔۔۔۔۔ ١١١٣ھ٭حضرت خواجہ عبید اللہ احرار شاشی ۔۔۔۔۔۔ ٨٩٥ھ
٣٠ ربیع الاول
٭حضرت شیخ ابو الحسن سمنون بن محب ۔۔۔۔۔۔ ٢٩٨ھ ٭حضرت خواجہ ناصر الدین عبید اللہ احرار شاشی ۔۔۔۔۔۔ ٨٩٥ھ ٭سید نذیر احمد سہسوانی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٠٩ھ
سب خوبیاں اللہ تعالیٰ کے لئے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کرے اگرچہ کافروں کو ناپسند ہو، حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور آنکھوں کے نور آپ کے آل و اصحاب پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہوں۔
ایک اہم اور نادر تحریر، میلاد شریف کے جواز میں پیش کر رہا ہوں جسے حضرت شاہ احمد سعید مجددی دہلوی علیہ الرحمہ نے اسماعیل دہلوی کے میلاد پر اعتراضات کے جواب میں تالیف کیا تھا۔ ماہِ ربیع الاول شریف کی ٢ تاریخ کو مدینۃ المنورہ میں آپ علیہ الرحمہ کا وصال ہوا۔
اثبات المولد و القیام
میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دلائل پوچھنے والوں۔۔۔ یاد رکھو! میلاد شریف کی محفل میں آپ کی کمال شان پر دلالت کرنے والی آیات، صحیح احادیث، ولادتِ باسعادت، معراج شریف ، معجزات اور وفات کے واقعات کا بیان کرنا ہمیشہ سے بزرگانِ دین کا طریقہ رہا ہے لہٰذا تمہارے انکار کی ضد کے سوا کوئی وجہ نہیں۔ اگر تم مسلمان ہو اور محبوب رب العالمین سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال سننے کا شوق ہے تو پاس آؤ اور (ہم سے احوالِ مصطفی) سنو تمہیں پتہ چلے کہ ہمارا دعویٰ حقیت پر مبنی ہے، محفل میلاد دراصل وعظ و نصیحت ہے اس کے لئے جو کان لگائیں اور متوجہ ہوں، اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔
نصیحت کرو بے شک نصیحت مومنین کیلئے مفید ہے۔ ہمارے زمانہ کے جہلاء، جو اپنے آپ کو ”پڑھا لکھا” اور ”صالحین” سمجھتے ہیں کے وعظ کی طرح نہ ہو جو انبیاء، اولیاء کی توہین اور مومنین کی غیبت کا مجموعہ ہوتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں غیبت سے منع کیا ہے۔ ارشاد ہے:۔ ”ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی اپنے مرے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ تمہیں ہر گز گوارا نہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو بے شک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔” جاہل واعظ خود گمراہ ہیں اور دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں خود برباد ہوئے، دوسروں کو برباد کرتے ہیں، اپنے آپ سے بے خبر چند بے وقوف، شر پسند اور متکبر اگر چراغ تک پہنچتے ہیں تو ہوا بن جاتے ہیں (یعنی چراغ ہدایت کو بجھانے کی کوشش کرتے ہیں) اور دماغ تک پہنچتے ہیں تو دھواں ہوجاتے ہیں۔ (یعنی اس کو تاریک کرنے کی کوشش کرتے ہیں) اللہ تعالیٰ ان سے بچائے۔ ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کا ہی ذکر ہے۔ حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس جبرائیل آئے اور کہا بے شک میرا اور آپ کا رب فرماتا ہے، آپ جانتے ہیں میں نے آپ کا ذکر کیسے بلند کیا؟ میں نے کہا اللہ عزوجل بہتر جانتا ہے۔ (جبرائیل نے ) کہا اللہ فرماتا ہے کہ جب میرا ذکر کیا جائے، آپ کا میرے ساتھ ذکر کیا جائے۔ ابن عطا سے روایت ہے کہ میں نے (اللہ نے) آپ کے ساتھ اپنے ذکر کو تکمیل ایمان کا ذریعہ بنایا ، ابنِ عطاء ہی سے روایت ہے کہ میں آپ کو اپنا ذکر بنادیا جس نے آپ کا ذکر کیا اس نے میرا ذکر کیا (شفاء)۔ (ان دلائل کے ہوتے ہوئے) جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر سے روکے وہ شیطانی لشکر سے ہے، جس کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے نفرت ہے کیونکہ مومنِ صادق تو ذکر محبوب کا مشتاق ہوتا ہے اور ذکر محبوب سے لذت پاتا ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے
اَعِدْ ذِکْرَ نُعْمَانٍ لَنَا اِنَّ ذِکْرَہ، ۔۔۔۔۔۔ ہُوَا لْمِسْکُ مَا کَرَّ رتَہ، یَتَضَوَّعْ
ہمارے سامنے نعمان کا بکثرت زکر کر، بلا شبہ اس کا ذکر جتنی دفعہ کرو گے کستوری کی طرح مہکے گا
محب تو ذکر محبوب سننے کیلئے مال، اولاد، ازواج، جان سب کچھ قربان کردیتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کا طریقہ تھا لہٰذا جس کا دل چاہے اللہ کی فوج میں شامل ہوجائے اللہ کی فوج یقینا کامیاب ہے اور جس کا دل چاہے شیطانی ٹولے میں شامل ہوجائے شیطانی ٹولہ خسارے میں ہے۔ اب ہم اشرار کے علی الرغم اکابر کی پیش کردہ خاص دلیلیں بھی ذکر کرتے ہیں ۔ حافظ ابو الفضل ابن حجر نے حدیث سے ایک ضابطہ کا استخراج فرمایا ہے فرماتے ہیں کہ: ”حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ شریف تشریف لائے تو وہاں کے یہودیوں کو عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا تو ان سے دریافت فرمایا کہ تم عاشورہ کا روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا یہ دن نہایت مقدس ہے مبارک ہے اسی دن اللہ تعالیٰ نے فرعون کو غرق فرمایا اور موسیٰ کو نجات بخشی اور ہم تعظیماً اس دن کا روزہ رکھتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہم موسیٰ کا دن منانے میں تم سے زیادہ حقدار ہیں پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔” معلوم ہوا جس دن اللہ تعالیٰ کی کسی خاص نعمت کا نزول ہو یا کسی مصیبت سے نجات ہو نہ صرف اسی دن بلکہ ہر سال اس تاریخ کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر بجالانے کے مختلف طریقے ہیں، عبادت، قیام، سجود، صدقہ اور تلاوت وغیرہ اور یومِ میلاد شریف وہ دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمتِ عظمیٰ اور رحمت عطا ہوئی لہٰذا قصہ موسیٰ کے ساتھ مطابقت کے لئے ہر سال یومِ میلاد کا اہتمام کرنا چاہئے۔ اور کہا ہمارے شیخ، شیخ الاسلام علامہ جلال الدین سیوطی نے کہ حافظ ابو الفضل کی دلیل کے علاوہ بھی میرے پاس دلیل ہے اور وہ یہ کہ امام بہیقی نے حضرتِ انس سے روایت کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عقیقہ اعلانِ نبوت کے بعد خود کیا، حالانکہ آپ کے دادا عبدالمطلب آپ کی ولادت کے ساتویں روز آپ کا عقیقہ کر چکے تھے اور عقیقہ بار بار نہیں ہوتا ایک ہی دفعہ ہوتا ہے معلوم ہوا کہ ایسا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ادائے شکر کے طور پر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رحمۃ اللعالمین بنایا اور ہمیں آپ کی امت ہونے کا شرف بخشا جس طرح آپ کے میلاد کی خوشی میں جلسہ کریں ، کھانا کھلائیں، اور دیگر عبادات اور خوشی کے جو طریقے ہیں کے ذریعے شکر بجالائیں۔ شرح سنن ابنِ ماجہ میں اس یوم کی تصریح بھی ہے اور امام جلال الدین نے فرمایا کہ میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم معظم اور مکرم ہے آپ کا یوم ولادت مقدس و بزرگ اور یومِ عظیم ہے آپ کا وجود عشاق کے لئے ذریعہ نجات ہے جس نے نجات کے لئے ولادت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی کا اہتمام کیا اس کی اقتداء کرنے والے پر بھی رحمت و برکت کا نزول ہوگا ۔ یومِ ولادت اس سے جمعہ کے مشابہ ہے کہ جمعہ والے دن جہنم میں آگ نہیں بھڑکائی جاتی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یونہی مروی ہے اظہارِ خوشی اور اپنی بساط کے مطابق خرچ کرنا اور جو دعوتِ ولیمہ دے اس کی دعوت قبول کرنا بہت اچھا ہے ۔ امام ابو عبدا بن الحاج نے اس ماہ کی یوں فضیلت بیان فرمائی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کو فضیلت عطا فرمائی۔ سید الاولین و آخرین کی تشریف آوری اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت عظمی کا شکر بجالاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ عبادات اور نیکی کی جائے اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ میں معمول سے زیادہ کچھ نہیں کیا کرتے تھے یہ آپ کی امت پر مہربانی اور شفقت تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوئی کام اس لئے بھی چھوڑ دیتے تھے کہ کہیں امت پر فرض نہ ہوجائے ایسا امت پر شفقت کی وجہ سے تھا لیکن آپ نے اس ماہ کی فضیلت بیان فرمائی ہے، ایک سائل نے بروز پیر روزہ رکھنے کے متعلق آپ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا ، یہ وہ دن ہے جس دن میں پیدا ہوا، آپ کا یومِ ولادت ربیع الاول کی شرافت کو مستلزم ہے ہمیں چاہئے کہ اس ماہ کا سخت احترام کریں، اس مہینے کو ان تمام مہینوں، زمانوں اور امکنہ سے زیادہ سمجھیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بعض عبادات کیلئے خاص کیا ہے ظاہر ہے کسی جگہ یا زمانہ کو بذات کوئی فضیلت نہیں فضیلت صرف ان واقعات کی وجہ سے ہے جو کسی جگہ یا زمانہ میں رونما ہوئے، ذرا غور کرو! ربیع الاول میں پیر کے دن کون تشریف لایا؟ کیا تمہیں معلوم نہیں؟ پیر والے دن روزہ رکھنا صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کی وجہ سے عظیم فضیلت رکھتا ہے، ہمیں چاہئے کہ جب ربیع الاوال کی تشریف آوری ہو، اول سے آخر تک انتہائی تعظیم و تکریم کا مظاہر کیا جائے اور یہ آپ کی سنت ہے کیونکہ آپ اس دن نیکی اور خیرات زیادہ کیا کرتے تھے جس دن کوئی فضیلت والا واقعہ پیش آتا۔ شیخ احمد بن خطیب قسطلانی مواہب لدنیہ میں فرماتے ہیں۔ ”اللہ تعالیٰ نے جمعہ میں ایک ایسی گھڑی کہ ہر دعا اس میں قبول ہوتی ہے صرف اس لئے رکھی گئی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جمعہ کو پیدا ہوئے اور پیر جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادت ہے کی کیا شان ہوگی؟”
شاید کوئی یہ وہم کرے کہ جس دن حضرت آدم علیہ السلام تشریف لائے اس دن سے خطبہ اور جماعت وغیرہ لازم کردیئے گئے۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت جس دن ہوئی کوئی چیز لازم کیوں نہیں ہوئی؟
یہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اعزاز ہے آپ رحمۃ اللعالمین ہیں اور کسی عبادت کا لازم نہ ہونا بھی آپ کی رحمت اور سخاوت کی دلیل ہے۔ حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پیر کو روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا آپ نے فرمایا اس دن ہی میں پیدا ہوا ہوں اور اسی دن مجھ پر نبوت نازل ہوئی (مسلم) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیر کو پیدا ہوئے اور پیر کو ہی آپ مبعوث ہوئے، اور پیر کو ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی، پیر کو ہی آپ مدینہ منورہ میں داخل ہوئے اور پیر کو ہی حجاب اٹھائے گئے۔
حافظ ابو شامہ شیخ النووی اپنی کتاب ”الباعث علی انکار البدع والحوادث” میں فرماتے ہیں، ایسے اچھے کاموں کی دعوت دینی چاہئے اور اہتمام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی اور تعریف کرنی چاہئے
شیخ امام عالم علامہ نصیر الدین مبارک اپنے قلمی فتویٰ میں فرماتے ہیں، یہ جائز ہے، خلوص نیت سے ایسا کرنے والے کو ثواب ہوگا۔
امام ظہیر الدین فرماتے ہیں، یہ حَسن ہے جب کہ اہتمام کرنے والے کا مقصد صحابہ کو جمع کرنا نبی امین کی بار گاہ میں ہدیہ صلوٰۃ پیش کرنا اور غرباء و مساکین کو کھانا کھلانا ہو، مذکورہ شرط کے ساتھ اس حد تک ایسے کام ہر وقت موجب ثواب۔
شیخ نصیر الدین فرماتے ہیں، یہ عمدہ اجتماع ہے جس کے انعقاد پر ثواب ملے گا نیک لوگوں کو کھانا کھلانے اور اللہ کا ذکر کرنے کیلئے اور بارگاہ رسالت میں ہدیہ درود پیش کرنے کے لئے جمع کرنا عبادات کے اجرو ثواب کی زیادتی کا سبب ہے۔
امام ابو محمد عبدالرحمن بن اسماعیل کا ارشاد گرامی ہے، ہمارے زمانے کا بہترین نیا کام ہر سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے دن صدقات خیرات کرنا، زیب و زینت اور مسرت کا اظہار ہے، کیونکہ اس میں فقراء پر احسان بھی ہے اور محفل میلاد کرنے والے کے دل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور تعظیم و تکریم کی علامت بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کے احسان کا شکر ہے کہ اس نے تمام جہانوں کیلئے باعث رحمت اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا فرمایا ، جمیع الانبیاء و المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم
اسی طرح شیخ امام صدر الدین موہب بن عمر الجزری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمایا ہے، یہ تمام عبادات سیرت شامیہ سے منقول ہیں۔
 
حضرت مجدد الف ثانی پر بہتان کا رد
اے سائل! تونے حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃ کے متعلق کہا ہے آپ محفل میلاد سے منع فرماتے تھے، تیرا یہ قول قطعاً غلط ہے ہمارے امام اور قبلہ نے گانے کی مجلس میں حاضر ہونے سے منع کیا ہے اگرچہ اس مجلس میں قرآن کی تلاوت و نعتیہ قصائد پڑھے جائیں، حضرت امام ربانی نے قرآن و حدیث کے پڑھنے سے منع نہیں فرمایا، جیسا کہ حضرت امام ربانی کی مراد سے بے خبر لوگوں نے گمان کرلیا ہے۔ اس قسم کی بات حضرت امام ربانی پر بہت بڑا بہتان ہے
حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ مکتوبات کی تیسری جلد میں فرماتے ہیں کہ اچھی آواز سے صرف قرآن مجید اور نعت و منقبت کے قصائد پڑھنے میں کیا حرج ہے؟ منع تو یہ ہے کہ قرآن کے حروف کو تبدیل و تحریف کیا جائے اور مقامات نغمہ کا التزام کرنا اور الحان کے طریق سے آواز کو پھیرنا اور اس کے مناسب تالیاں بجانا جو کہ شعر میں بھی ناجائز ہیں اگر ایسے طریقہ سے مولود پڑھیں کہ قرآنی کلمات میں تحریف واقع نہ ہو اور قصائد پڑھنے میں شرائط مذکورہ متحقق نہ ہوں اور اس کو بھی صحیح غرض سے تجویز کریں تو پھر کون سی رکاوٹ ہے؟ پس معلوم ہوا کہ حضرت مجدد کی جو عبارات میلاد کے منکر بطور دلیل پیش کرتے ہیں اس عبارت سے حضرت مجدد کی مراد یہ ہے کہ ، ”قصائد و نعت خوانی میں نغمہ کا التزام کرنا الحان کے طریق سے آواز کو پھیرنا اور اس کے مناسک تالیاں بجانا منع ہے۔” جیسا کہ حضرت کی مذکورہ عبارت سے بالکل ظاہر ہے، مخالفین نے غلط سمجھا ہے۔ حضرت امام نے مطلقاً محفل میلاد کو منع نہیں فرمایا پس حق ثابت ہوگیا۔ سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے اورپنا کھوٹا سکہ رائج کرنے کیلئے اس فرقہ باطلہ نے ایک نیا طریقہ نکالا ہے ہمارے بزرگوں کو بدنام کرتے ہیں کہتے ہیں فلاں بزرگ نے یوں لکھا ، فلاں نے لکھا اللہ تعالیٰ ان جھوٹ سے پاک ہے۔
مسئلہ قیام
رہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرہ ولادت کے وقت کھڑا ہونے کا مسئلہ تو آپ کی حیات طیبہ میں آپ کی تعظیم کیلئے کھڑے ہونا صحابہ کرام سے ثابت ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں، ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں باتیں کیا کرتے تھے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے تو ہم بھی کھڑے ہوجاتے تا وقت یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی زوجہ محترمہ کے حجرہ میں داخل ہوجاتے۔ اور جان لو! حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر جس طرح حیات طیبہ میں لازم تھی اسی طرح بعد از وصال بھی لازم ہیں اور حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اس وقت ہوگی جب آپ کا ذکر کریں، حدیث بیان کریں، آپ کی سنت بیان کریں یا آپ کا اسم شریف اور سیرت پاک سنیں۔ شفا نے اس روایت سے استنباط کیا کہ آپ کی موت و حیات، تعظیم و توقیر کے لحاظ سے برابر ہے۔ اور اس کی صورت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرآپ کی حدیث و سنت کا بیان ادب و احترام سے کریں اور آپ کا اسم شریف اور سیرت پاک خضوع و خشوع سے سنیں اور آپ کے اہل بیت اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کی تعظیم کریں ۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ آپ کی حیات مبارکہ میں اور وصال کے بعد تعظیم و توقیر یکساں ہے۔ لہٰذا اگر کوئی عالمِ ارواح سے اس دنیا میں آپ کی تشریف آوری کی تعظیم بجالائیں تو کیا حرج ہے؟ حرمین شریفین کے علماء کرام اور مذاہب اربعہ مفتیانِ عظام اس کے مستحب ہونے کا فتویٰ دے چکے ہیں بلکہ ایک حنبلی مفتی نے تو اس کے وجوب کا قول کیا ہے۔ مکہ مکرمہ کے یکتائے روز گار مفسر، محدث مولانا عبداللہ سراج حنفی جن کے حلقہ درس میں اس نو مولود فرقہ کا سردار نہ صرف با زانوئے ادب حاضر ہوا کرتا تھا بلکہ آپ کی جامعیت کا معترف بھی تھا، نے بھی قیام کے مستحسن ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔
امام سید جعفر برزنجی قدس سرہ، العزیز اپنے رسالہ عقد الجوہر میں فرماتے ہیں، بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر ولادت کے وقت قیام کرنا ان اماموں نے مستحسن سمجھا جو صاحب روایت و درایت تھے اس شخص کو مبارک ہوجس کا مقصد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم ہے۔
 
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق جید علماء کے فتویٰ
اب ہم علماء مذکورین کے فتویٰ نقل کرتے ہیں جو بغور سننے کے قابل ہیں۔
عبداللہ سراج مکی مفتی حنفیہ فرماتے ہیں
یہ قیام مشہور اماموں میں برابر چلا آتا ہے اور اسے آئمہ و حکام نے برقرار رکھا ہے اور کسی نے رد و انکار نہیں کیا لہٰذا مستحب ٹھہرا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کون مستحق تعظیم ہے اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، کی حدیث کافی ہے کہ جس چیز کو مسلمان بہتر سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی بہتر ہے۔
مشہور فقیہہ عثمان بن حسن دمیاتی شافعی اپنے رسالہ اثبات قیام میں فرماتے ہیں
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر ولادت کے وقت قیام کرنا ایک ایسا امر ہے جس کے مستحب و مستحسن و مندوب ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور قیام کرنے والے کو ثواب کثیر اور فضل کبیر حاصل ہوگا کیونکہ یہ قیام تعطیم ہے، کس کی؟ اس نبی کریم صاحب خلق عظیم علیہ التحیۃ والتسلیم کی جن کی برکت سے اللہ تعالیٰ ہمیں ظلمات کفر سے ایمان کی طرف لایا اور ان کے سبب ہمیں دوزخ سے بچا کر بہشت معرفت و یقین میں داخل فرمایا تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں خوشنودی رب العالمین کی طرف دوڑنا ہے اور قوی ترین شعائر دین کا آشکار کرنا اور جو تعظیم کرے شعائر خدا کی تو وہ دلوں کی پرہیزگاری ہے اور خدا کی حرمتوں کی تعظیم کرنے والا اللہ تعالیٰ کے یہاں بہتر ہے۔
اس کے بعد دلائل نقل کرکے فرمایا
ان سب دلائل سے ثابت ہوا کہ ذکر ولادت شریفہ کے وقت قیام مستحب ہے کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم ہے۔ یہ خیال نہ کیا جائے کہ یہ قیام بدعت ہے اس لئے کہ ہم کہتے ہیں ہر بدعت بری نہیں ہوتی جیسا کہ یہی جواب امام محقق ولی ابو ذرعہ عراقی نے دیا جب ان سے مجلس میلاد کے متعلق پوچھا گیا تھا کہ مستحب ہے یا مکروہ؟ اور اس میں کچھ وارد ہوا ہے یا کسی پیشوانے کیا ہے تو جواب میں فرمایا، ولیمہ کھانا ہر وقت مستحب ہے پھر اس صورت کا کیا پوچھنا جب اس کے ساتھ اس ماہِ مبارک میں ظہورِ نبوت کی خوشی مل جائے اور ہمیں یہ امر سلف سے معلوم نہیں نہ بدعت ہونے سے کراہت لازم کہ بہت سی بدعتیں مستحب بلکہ واجب ہوتی ہیں جب ان کے ساتھ کوئی خرابی مضموم نہ ہو اور اللہ تعالیٰ توفیق دینے والا ہے۔ اس کے بعد آگے چل کر پھر ارشاد فرماتے ہیں، بے شک امتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل سنت و الجماعت کا اجماع و اتفاق ہے کہ قیام مستحسن ہے اور بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوتی۔
امام علامہ مدالقی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں
قوم کی عادت جاری ہے کہ جب مدح خواں ذکر میلاد حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے تو لوگ کھڑے ہوجاتے ہیں یہ بدعت مستحب ہے اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر خوشی اور حضور کی تعظیم کا اظہار ہے۔
امام صر صر حنبلی فرماتے ہے
قلیل لمدح الصطفیٰ الحظ بالذہب ٭ علی فضیۃ من خط احسن من کتب ٭ و ان ینہض الاشراف عنہ سماعہ ٭ قیام ما صفو فا اوجثیا علیٰ الرکب
مدح مصطفی کے لئے یہ بھی تھوڑا ہی ہے کہ جو سب سے اچھا خوش نویس ہو اس کے ہاتھ سے چاندی کے پتّر پر سونے کے پانی سے لکھی جائے اور جو لوگ شرف دینی رکھتے ہیں و ہ ان کی نعت سن کر صف باندھ کر سرو قد یا گھٹنوں کے بل کھڑے ہوجائیں۔ جس کو اللہ تعالیٰ توفیق اور ہدایت دے اس کے لئے اس قدرکافی ہے ۔ وصلی اللہ علیٰ سیدنا محمد و آلہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا۔ یہ (فتویٰ) عثمان حسن دمیاطی شافعی خادم طلباء مسجد حرام و سابق مدر جامع ازہر نے دیا ہے اور املاء کرایا ہے۔
عبداللہ بن محمد المیر الحنفی مفتی مکہ مکرمہ فرماتے ہیں
الحمدللہ عز شانہ رب زدنی علماً (اے اللہ میرا علم زیادہ فرما) سید الاولین و آخرین صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے ذکر کے وقت قیام کو بہت علماء نے پسند کیا ہے ۔ واللہ اعلم
حسین بن ابراہیم مفتی مالکیہ بمکہ فرماتے ہیں
الحمدللہ وحدہ اللھم ہدایۃ اللصواب ، ہاں ذکر ولادت کے وقت قیام بہت علماء نے پسند کیا اور یہ قیام حسن ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم واجب ہے ۔ واللہ اعلم۔
محمد عمرابن ابی بکر مفتی شافیعہ مکہ مکرمہ کا ارشاد ہے،
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے ذکر کے وقت قیام واجب ہے کیونکہ روح اقدس حضور معلی صلی اللہ علیہ وسلم جلوہ فرما ہوتی ہے تو اس وقت تعظیم و قیام لازم ہوا، جید علماء اسلام و اکابر نے قیام مذکور کو پسند فرمایا ہے۔
محمد بن یحییٰ مفتی حنابلہ مکہ مشرفہ نے بھی ذکر ولادت کے وقت قیام کے استحباب و استحسان کی تصریح فرمائی ہے
عیدوں کی عید
رہا تمہارا سوال کہ ہم نے ربیع الاول شریف میں ایک اپنی طرف سے تیسری عید بنالی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کو لازم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف کے مہینہ کی نہ صرف ایک ہی رات بلکہ سب راتوں کو عید منائیں علمائے کبار اور محدثین کی تصریحات موجود ہیں۔
امام احمد بن خطیب العسقلانی نے اپنی کتاب مواہب اللدنیہ میں ذکر کیا ہے،
ابو لہب کی آزاد کردہ لونڈی ثویبہ جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا تھا، نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت بہ سعادت کی ابو لہب کو جب یہ خوشخبری سنائی تو اس نے ثویبہ کو آزاد کردیا، جب ابولہب مر گیا تو کسی نے اسے خواب میں دیکھا پوچھا کیا گذری؟ ابو ہب نے کہا آگ میں جل رہا ہوں ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ ہر پیر کی رات مجھ سے عذاب ہلکا کیا جاتا ہے۔ اور ابہام و سبابہ کے درمیانی مغاک کی مقدار مجھے پانی مل جاتا ہے جسے میں انگلیوں سے چوس لیتا ہوں۔ اور اس لئے کہ میں نے حضرت کی ولادت کی خوشی میں اپنی لوڈی ثویبہ کو آزاد کردیا تھا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا تھا۔ ابن جوزی نے کہا، ابو لہب ایسا کافر جس کی مذمت میں قرآن پاک کی پوری سورۃ ”تبت یدا ابی لہب” نازل ہوئی کوعذاب جہنم کی تخفیف کا فائدہ ہوا، صرف اس لیے کہ اس نے ولادت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی منائی جب ایک کافر کو یہ فائدہ پہنچا تو اس موحد غلام کا کیا حال ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے مسرور ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں بقدر طاقت خرچ کرتا ہے۔ میری جان کی قسم اللہ کریم کی طرف سے اس کی یہی جزا ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل عمیم سے جنات نعیم میں داخل فرمائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے مہینہ میں اہل اسلام مہینہ سے میلاد کی محفلیں منقعد کرتے چلے آئے ہیں اور خوشی کے ساتھ کھانا پکاتے اور دعوتیں کرتے ہیں اور خوشی و مسرت کا اظہار کرتے اور نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور آپ کے میلاد شریف کے پڑھنے کا خاص اہتمام کرتے ہیں چنانچہ ان پر اللہ کے فضل عمیم اور برکتوں کا ظہور ہوتا اور میلاد شریف مسلمانوں کیلئے حفظ و امان کا سال ہوجاتا ہے۔ اور میلاد شریف کرنے سے دلی مرادیں پوری ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس شخص پر بہت رحمتیں نازل فرمائے جس نے ولادت کی مبارک راتوں کو خوشی و مسرت کی عیدیں بنا لیا تاکہ یہ میلاد مبارک کی عیدیں سخت تریں علت و مصیبت ہوجائیں اس پر جس کے دل میں مرض و عناد ہے۔ بے شک میلاد، شب قدر سے بھی افضل ہے اس لئے کہ شب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی گئی جب کہ شب میلاد خود آپ کے ظہور کی رات ہے اور ظاہر ہے جس رات کو ذات اقدس سے شرف والی ہے اور اس میں کوئی نزاع نہیں لہٰذا شب میلاد شب قدر سے صلی اللہ علیہ وسلم فضل ہوئی نیز لیلۃ القدر نزول ملائکہ کی وجہ سے مشرف ہوئی اور لیلۃ المیلاد بنفس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور مبارک سے شرف یاب ہوئی۔
شب قدر افضل یا شب میلاد؟
شب قدر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر فضل و احسان ہے اور شب میلاد میں تمام موجوداتِ عالم پر فضل و احسان ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضورکو رحمت اللعالمین بنایا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے اللہ کی نعمتیں آسمان و زمین کی ساری مخلوق پر عام ہوگئیں۔ لہٰذا شب میلاد افضل ہے۔ یہ کچھ ذکر کیا گیا ہے ہمارے کثیر دلائل کا ایک حصہ ہے اللہ تعالیٰ جس کو ہدایت دے اس کے لئے اس قدر کافی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ”اور اندھوں کو تم گمراہی سے ہدایت کرنے والے نہیں تمہارے سنائے تو وہی سنتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں اور وہ مسلمان ہیں۔” (٨١/٢٧) رہا تمہارا یہ الزام کہ ہم کسی نئے مذہب کے مدعی ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم بحمدہ تعالیٰ دین اسلام پر قائم ہیں سلف و خلف میں مشہور ہیں اگرچہ نا سمجھوں پر مخفی رہے حضرت سعدی نے کیا خوب کہا ہے کہ،
گر نہ بیند بروز شپر ٭ چشمہ آفتاب راچہ گناہ
اگر کوئی اندھا ہے تو اس میں سورج کا کیا گناہ ہے؟
اگر الو دن کو نہ دیکھ سکتے تو سورج کے چشمہ کا کیا گناہ ہے؟
اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں اور برکتیں اور سلام آپ علیہ الصلوۃ والسلام پر اور آپ کے مقدس مطہر آل اور صحابہ کرام پر نازل فرمائے۔۔۔ آمین ثم آمین
اسلامی سال کے چوتھے مہینہ کا نام ربیع الآخر ہے، اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینہ کا نام رکھنے کے وقت موسم ربیع کا آخر تھا اس لئے اس ماہ کا نام ربیع الآخر رکھا گیا۔
گیارہویں شریف
اسی مہینہ مبارک میں سیدنا و مولانا القطب الفرد الغوث شیخ الاسلام و المسلمین غوث الثقلین الشیخ محی الدین محمد عبدالقادر الحسنی و الحسینی الجیلانی الحنبلی المعروف پیرانِ پیر ، پیر دستگیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کا وصال مبارک ہوا۔ آپ کے وصال پاک کی تاریخوں میں ذرا سا اختلاف ہے ۔ بعض نے نویں، بعض نے سترہویں اور بعض نے گیارہویں ربیع الآخر کو وصال شریف بتایا ہے۔ محقق علی الاطلاق شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ اپنی شہرہ آفاق تصنیف ”ماثبت من السنّہ” کے صفحہ ١٢٣، پر رقمطراز ہیں:
وَقَدْ اشْتَہَرَ فِیْ دِیَارِ نَا ہٰذَا الْیَوْمُ الْحَادِیْ عَشَرَ وَہُوَ الْمُتَعَارِفُ عِنْدَ مَشَائِخِنَا مِنْ اَہْلَ الْہِنْدِ مِنْ اَوْلَادِہ
(ترجمہ) ہمارے ملک میں آج کل آپ کی تاریخ وصال ، گیارہویں تاریخ کو مشہور ہے اور ہمارے ہندوستان کے مشائخ اور ان کی اولاد کے نزدیک یہی متعارف و مشہور ہے۔ (ماثبت من السنّہ، صفحہ ١٢٣)
سال بھر اس تاریخ کو لوگ سرکارِ غوثیت کا عرس مبارک کرتے ہیں جس کو بڑی گیاہویں کہا جاتا ہے۔ اور اسی مناسبت سے اس ماہ کو ”گیارہویں شریف ” کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے۔ (فضائل الایام والشہو، صفحہ ٣٦٠ ، ٣٦١)
اسم ماہِ مبارک کے نوافل و عبادات
چار رکعت نوافل
اس مہینہ کی پہلی اور پندرہویں اور انتیسویں تاریخوں میں جو کوئی چار رکعت نفل پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد قُل ہُوَ اللّٰہُ اَحَد پانچ پانچ مرتبہ پڑھے ۔ تو اس کے لئے ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ اور ہزار بدیاں معاف کی جاتی ہیں اور اس کے لئے چار حوریں پیدا ہوتی ہیں۔ (”فضائل الایام والشہور ”صفحہ ٣٧٥ بحوالہ ”جواہر غیبی” )
تیسری شب کے نوافل
ربیع الثانی کے مہینے کی تیسری شب کو چار رکعت نماز ادا کرے ، قرآن حکیم میں سے جو کچھ یاد ہے پڑھے ۔ سلام کے بعد یا بدوح یا بدیع کہے۔ ( ”لطائف اشرفی ”صفحہ ٣٤١)
پندرہویں شب کے نوافل
اس ماہ کی پندرہ کو چاشت کے بعد چودہ رکعتیں دو، دو رکعات ادا کرے ۔ اس نماز کی ہر رکعت میں فاتحہ کے بعد سورہ اقرأ سات بار پڑھے۔ (حوالہ مذکورہ بالا)
ماہ ربیع الثانی میں رونما ہونے والے اہم واقعات
٭ واقعہ یرموک۔۔۔۔۔۔١٥ھ ٭ تعمیر بصرہ۔۔۔۔۔۔١٦ھ ٭ واقعہ نہاوند۔۔۔۔۔۔٢١ھ ٭ فتح طرابلس ۔۔۔۔۔۔ ٢٢ھ ٭ وفات ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٣٢ھ ٭ وفات اشعث کندی رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٤٠ھ ٭ تکمیل فتح سوڈان ۔۔۔۔۔۔ ٤٣ھ ٭ وفات کعب بن مالک ۔۔۔۔۔۔٥٠ھ ٭ سمر قند کا محاصرہ۔۔۔۔۔۔٥٦ھ ٭ وفات عبید اللہ بن زیاد۔۔۔۔۔۔٦٧ھ ٭ وفات عبداللہ بن العباص رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٦٨ھ ٭ وفات عاصم بن عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔ ٧٠ھ ٭ وفات الاحنف۔۔۔۔۔۔٧٢ھ ٭ وفات سلمہ بن الاکوع۔۔۔۔۔۔٧٤ھ ٭ وفات عبداللہ بن جعفر طیار رضی اللہ تعالی عنہ۔۔۔۔۔۔٨٠ھ ٭ عراق میں بغاوت۔۔۔۔۔۔٨٣ھ ٭ فتح ارمینیا۔۔۔۔۔۔٨٥ھ ٭ فتح صاغان ۔۔۔۔۔۔ ٨٦ھ ٭ فتح صغد۔۔۔۔۔۔٨٨ھ ٭ وفات خارجہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔١٠٠ھ ٭ وفات یزید بن ابی مسلم ثقفی ۔۔۔۔۔۔ ١٠٢ھ ٭ جنگ بہرزان۔۔۔۔۔۔١٠٤ھ ٭ وفات فاطمہ بنتِ حسن رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔١٠٥ھ ٭ وفت طاؤس بن کیسان۔۔۔۔۔۔١٠٦ھ ٭ وفات عدی بن ثابت المضر۔۔۔۔۔۔١١٦ھ ٭ وفات حماد الکوفی علیہ الرحمۃ ۔۔۔۔۔۔ ١٢٠ھ ٭ مروان کی فتح اور تومان شاہ کی شکست۔۔۔۔۔۔١٢١ھ ٭ وفات خلیفہ ہشام ، خلافت ولید ثانی ۔۔۔۔۔۔ ١٢٥ھ ٭ السفاح کے ہاتھ پر بیعت خلافت عباسیہ کی ابتداء ۔۔۔۔۔۔١٣٢ھ ٭ وفات عبداللہ بن طاؤس ۔۔۔۔۔۔ ١٣٣ھ ٭ موسیٰ بن کعب سندھ آیا۔۔۔۔۔۔١٣٤ھ ٭ وفات عطاء خراسانی۔۔۔۔۔۔١٣٥ھ ٭ وفات خالد بن یزید المصری۔۔۔۔۔۔١٣٩ھ ٭ ادریس بانی دولت ادریسی مرکش آیا ۔۔۔۔۔۔١٤٦ھ ٭ وفات ابن جریح الرومی۔۔۔۔۔۔١٥٠ھ ٭ وفات عباد الناجی۔۔۔۔۔۔١٥٢ھ ٭ افریقہ میں اباضیوں کا استصال۔۔۔۔۔۔١٥٤ھ ٭ وفات امیر یزید بن ابی صفرہ۔۔۔۔۔۔١٧١ھ ٭ وفات امام مالک علیہ الرحمۃ۔۔۔۔۔۔١٧٩ھ ٭ وفات قاضی ابو یوسف ۔۔۔۔۔۔١٨٢ھ ٭ قتل ہرشمہ۔۔۔۔۔۔٢٠٠ھ ٭ ظہور بابک خرمی۔۔۔۔۔۔٢٠١ھ ٭ وفات حسن بن زیادہ اللوٹوی ، تلمیذ امام اعظم ابو حنیفہ۔۔۔۔۔۔٢٠٤ھ ٭ وفات روح بن عبادہ۔۔۔۔۔۔٢٠٥ھ ٭ مکہ مکرمہ میں سیلاب آیا۔۔۔۔۔۔٢٠٨ھ ٭ وفات سعید بن زید اللغوی۔۔۔۔۔۔٢١٥ھ ٭ وفات بشر المریسی۔۔۔۔۔۔٢١٨ھ ٭ وفات فضل بن وکین۔۔۔۔۔۔٢١٩ھ ٭ وفات ابو عبدالرحمں القعبنی۔۔۔۔۔۔٢٢١ھ ٭ وفات صدقہ المروزی۔۔۔۔۔۔٢٢٣ھ ٭ وفات ابو بکر بن ابی شنبہ۔۔۔۔۔۔٢٣٥ھ ٭ وفات عبدالرحمن الثانی و حکومت محمد الاول الاموی۔۔۔۔۔۔٢٣٨ھ ٭ طپریہ میں شدید زلزلہ۔۔۔۔۔۔٢٣٩ھ ٭ وفات ابو عثمان المازنی۔۔۔۔۔۔٢٤٧ھ ٭ وفات المنتصر و خلافت المستعین۔۔۔۔۔۔٢٤٨ھ ٭ وفات حافظ اسحق بن بہلول التنوخی۔۔۔۔۔۔٢٥٢ھ ٭ وفات حافظ ابو بکر احمد الرمادی۔۔۔۔۔۔٢٦٥ھ ٭ زنگیوں کا واسطہ پر قبضہ۔۔۔۔۔۔٢٦٧ھ ٭ المعتمد اور الموفق میں شدید اختلاف۔۔۔۔۔۔٢٢٩ھ ٭ وفات العباس العذری البیرونی۔۔۔۔۔۔٢٧٠ھ ٭ وفات ابو العنیا ء الیصری۔۔۔۔۔۔٢٨٢ھ ٭ وفات الولید البحتری امیر الشعرائ۔۔۔۔۔۔٢٨٤ھ ٭ وفات المعتضد و خلافت المکتفی۔۔۔۔۔۔٢٨٩ھ ٭ وفات ثعلب النحوی۔۔۔۔۔۔٢٩١ھ ٭ صرف ایک دن کیلئے عبداللہ المترضیٰ خلیفہ ہوا۔۔۔۔۔۔٢٩٦ھ ٭ ابتداء دولت فاطمیہ (عبیدیہ)۔۔۔۔۔۔٢٩٧ھ ٭ وفات عبداللہ الاموی امیر اندلس ۔۔۔۔۔۔٣٠٠ھ ٭ وفات مفضل جنبی۔۔۔۔۔۔٣٠٨ھ ٭ رومیوں نے ملطیہ پر قبضہ کیا ۔۔۔۔۔۔٣١٤ھ ٭ وفات حافظ ابو نعیم الفقی ہ ۔۔۔۔۔۔ ٣٢٣ھ ٭ وفات ابن زیاد الینا پوری۔۔۔۔۔۔٣٢٤ھ ٭ سیف الدلہ بن حمدان بادشاہ ہوا۔۔۔۔۔۔٣٣٥ھ ٭ وفات ابو العباس الاثرم۔۔۔۔۔۔٣٣٦ھ ٭ وفات عماد الدولہ الدیلمی۔۔۔۔۔۔٣٣٨ھ و٭ وفات قاسم بن الاضبع القربی۔۔۔۔۔۔٣٤٠ھ ٭ رومیوں کی شکست ۔۔۔۔۔۔٣٤٣ھ ٭ وفات ابو الحسن بن علان الخرانی۔۔۔۔۔۔٣٥٥ھ ٭ وفات ابو علی القالی صاحب الامالی۔۔۔۔۔۔٣٥٦ھ ٭ وفات ابو الحسنبن القطلان ۔۔۔۔۔۔٣٥٩ھ ٭ وفات ابن العمید الوزیر۔۔۔۔۔۔٣٦٠ھ ٭ وفات المغر الفاطمی العیدی۔۔۔۔۔۔٣٦٥ھ ٭ وفات رفاء الشاعر۔۔۔۔۔۔٣٧٠ھ ٭ شرف الدولہ بر سر اقتدار آیا۔۔۔۔۔۔٣٧٦ھ ٭ وفات جوہر العقلی ۔۔۔۔۔۔٣٨١ھ ٭ وفات زاہد الوالفتح القواس۔۔۔۔۔۔٣٨٥ھ ٭ وفات میر ابو الدواد العقیلی ۔۔۔۔۔۔ ٣٨٧ھ ٭ وفات صاحب الصحاح الجوہری۔۔۔۔۔۔ ٣٩٣ھ ٭ وفات ابو الحسن بن القصار۔۔۔۔۔۔٣٩٧ھ ٭ وفات ابن ابی زمینن الالبیری۔۔۔۔۔۔٣٩٩ھ ٭ وفات الحجہ عمرو بن المکوی الاندلسی۔۔۔۔۔۔٤٠١ھ ٭ وفات ابن الیخار النحوی۔۔۔۔۔۔٤٠٢ھ ٭ وفات بہاؤ الدولہ الدیلمی۔۔۔۔۔۔٤٠٣ھ ٭ وفات ابو عبدالرحمن السلمی صاحب طبقات الصوفیہ۔۔۔۔۔۔٤١٢ھ ٭ وفات ابو الحسن التہامی الشاعری۔۔۔۔۔۔٤١٦ھ ٭ وفات ابو حازم المسعودی ۔۔۔۔۔۔ ٤١٧ھ ٭ وفات عبدالرحیم بن العجوز المغربی۔۔۔۔۔۔٤٢٠ھ ٭ وفات سلطان محمود غزنوی۔۔۔۔۔۔٤٢١ھ ٭ وفات ابو الحسن النعیمی۔۔۔۔۔۔٤٢٣ھ ٭ وفات ابو ابکر المنینی۔۔۔۔۔۔٤٢٦ھ ٭ وفات ابو علی الہاشمی ۔۔۔۔۔۔ ٤٢٨ھ ٭ وفات المعتمد الاشبیلی۔۔۔۔۔۔٤٣٣ھ ٭ وفات ابو محمد القیس۔۔۔۔۔۔٤٣٧ھ ٭ وفات معتمد الدولہ امیر موصل۔۔۔۔۔۔٤٤١ھ ٭ وفات حافظ ابن زنجویہ۔۔۔۔۔۔٤٤٧ھ ٭ وفات ابن الترجمان الصوفی۔۔۔۔۔۔٤٤٨ھ ٭ دجلہ میں سیلاب ، شہر غرق ہوگیا۔۔۔۔۔۔٤٥٤ھ ٭ وفات ابو یعلی الصابولی۔۔۔۔۔۔٤٥٥ھ ٭ وفات ابن سیدہ اللغوی۔۔۔۔۔۔٤٥٨ھ ٭ وفات ابن عبدالبر القرطبی۔۔۔۔۔۔٤٦٣ھ ٭ وفات ابن حیوس الغنوی۔۔۔۔۔۔٤٦٦ھ ٭ وفات ابو بکر الخیاط۔۔۔۔۔۔٤٦٧ھ ٭ وفات عبدالقاہر الجرحانی النحوی۔۔۔۔۔۔٤٧١ھ ٭ وفات ذدالوزارین المہدی۔۔۔۔۔۔٤٧٧ھ ٭ وفات ابو اسحق المجبال۔۔۔۔۔۔٤٨٢ھ ٭ انطاکیہ اور حمص پر صلیبی قبضہ ۔۔۔۔۔۔٤٩١ھ ٭ وفات عمید الدولہ ابو منصور الوزیر۔۔۔۔۔۔٤٩٣ھ ٭ وفات محمد بن عبدالسلام الہزار۔۔۔۔۔۔٤٩٨ھ ٭ قتل سیف الدولہ صدقہ بانی شہر حلہ۔۔۔۔۔۔٥٠١ھ ٭ وفات ابو القاسم الریفی۔۔۔۔۔۔٥٠٢ھ ٭ طرابلس پر فرنگیوں کا قبضہ۔۔۔۔۔۔٥٠٣ھ ٭ وفات خلیفہ المستظہر باللہ العباسی و خلافت المسترشد۔۔۔۔۔۔٥٢١ھ ٭ وفات علامہ ابو الوفاء الطفری صاحبِ کتاب الفنون۔۔۔۔۔۔٥١٣ھ ٭ شہادت ابو علی بن فیرہ الاندلسی۔۔۔۔۔۔٥١٤ھ ٭ وفات ابو نعیم الحداد۔۔۔۔۔۔٥١٧ھ ٭ وفات ابو احسن بن القراء الموصلی ۔۔۔۔۔۔٥١٩ھ ٭ فرنگیوں سے جنگ۔۔۔۔۔۔٥٢٣ھ ٭ وفات ابو محمد بن الاکفانی۔۔۔۔۔۔٥٢٤ھ ٭ وفات تاج الملوک دمشقی۔۔۔۔۔۔٥٢٦ھ ٭ وفات ابو بکر بن الصایغ الفلیسوف۔۔۔۔۔۔٥٣٣ھ ٭ وفات اسمٰعیل البوشیخی۔۔۔۔۔۔٥٣٦ھ ٭ وفات عمر نسفی۔۔۔۔۔۔٥٣٧ھ ٭ وفات ابو بکر بن العربی المحدث۔۔۔۔۔۔٥٤٦ھ ٭ وفات ابو العباس التجیبی صاحب کتاب النجم۔۔۔۔۔۔٥٥٠ھ ٭ وفات ابو بکر ابن الزاغونی۔۔۔۔۔۔٥٥٢ھ ٭ عبدالمؤمن کی فرنگیوں پر فتح۔۔۔۔۔۔٥٥٤ھ ٭ وفات علاؤ الدین الغوری۔۔۔۔۔۔٥٥٦ھ ٭ وفات سید الحافظ سراج الدین۔۔۔۔۔۔٥٥٧ھ ٭ وفات شیخ عبدالقادر جیلانی۔۔۔۔۔۔٥٦١ھ ٭ وفات المتنجد و خلافت المستفی۔۔۔۔۔۔٥٦٦ھ ٭ وفات حافظ ابن عساکر الدمشقی٭ ٥٧١ھ ٭ وفات الرفاء الشاعر الاندلسی۔۔۔۔۔۔٥٧٢ھ ٭ وفات صدقہ المتکلم المورخ۔۔۔۔۔۔٥٧٣ھ ٭ وفات ابو طاہر السلفی۔۔۔۔۔۔٥٧٦ھ ٭ وفات عبدالحق ابن الخراط۔۔۔۔۔۔٥٨١ھ ٭ وفت عبداللہ بن بری المقدسی۔۔۔۔۔۔٥٨٢ھ ٭ الملک العادل اور فرنگیوں کی صلح۔۔۔۔۔۔٦٠١ھ ٭ شہادت نجم الدین کبریٰ۔۔۔۔۔۔٦١٨ھ ٭ وفات ان عربی الصوفی۔۔۔۔۔۔٦٣٨ھ ٭ وفات ابن حاجب صاحب الکافیہ۔۔۔۔۔۔٦٤٦ھ ٭ وفات ہلاکو خان۔۔۔۔۔۔٦٦٣ھ ٭ وفات حمید الدین ناگوری ۔۔۔۔۔۔ ٦٧٧ھ ٭ وفات حافظ الدین النسفی۔۔۔۔۔۔٧١٠ھ ٭ حسن گنگوبہمنی بانی دولت بہمینیہ والی ہو ا ۔۔۔۔۔۔ ٧٤٧ھ ٭ وفات محب الدین القونوی۔۔۔۔۔۔٧٥٨ھ ٭ خلافت المتوکل الاول۔۔۔۔۔۔٧٦٣ھ ٭ وفات عماد فقیہ کرمانی۔۔۔۔۔۔٧٧٣ھ ٭ خلافت المتوکل الاول (دوبارہ)۔۔۔۔۔۔٧٧٩ھ ٭ ابتدائے حکومت مظفر شاہ گجراتی۔۔۔۔۔۔٧٩٣ھ ٭ تیمورلنگ نے دہلی میں داخل ہو کر تباہی پھیلائی۔۔۔۔۔۔٨٠١ھ ٭ وفات الشیخ اصلم الحنفی۔۔۔۔۔۔٨٠٢ھ ٭ وفات غیاث الدین سلطان بغداد و مظفر شاہ گجراتی۔۔۔۔۔۔٨١٣ھ ٭ وفت قاضی ابن الحسبانی و جمال الدین ابن الیونانیہ۔۔۔۔۔۔٨١٥ھ ٭ وفات سید الشریف الجرجانی۔۔۔۔۔۔٨١٦ھ ٭ وفات عزالدین ابن حجاعہ و احمد بن نشوان الحورانی۔۔۔۔۔۔٨١٩ھ ٭ وفات سلیمان بن المنجا۔۔۔۔۔۔٨٢٢ھ ٭ حکومت مبارک شاہ ثانی (دہلی)۔۔۔۔۔۔٨٢٤ھ ٭ وفت نعمت اللہ ولی۔۔۔۔۔۔٨٢٧ھ ٭ وفات شہاب الدین بن محمرہ۔۔۔۔۔۔٨٤٠ھ ٭ وفات زین الدین القادری الصوفی۔۔۔۔۔۔٨٥٦ھ ٭ وفات سید علی العجمی الحنفی۔۔۔۔۔۔٨٦٠ھ ٭ وفات قطب محمود لنگاہ۔۔۔۔۔۔٨٧٤ھ ٭ وفات علاؤالدین مصنفک۔۔۔۔۔۔٨٧٥ھ ٭ وفات قاضی یوسف الباغونی۔۔۔۔۔۔٨٨٠ھ ٭ وفات عبید اللہ احرار۔۔۔۔۔۔٨٩٦ھ ٭ وفات صدر الدین عبدالمنعم بن مفلح۔۔۔۔۔۔٨٩٧ھ ٭ وفات زین الدین زکریا الشافعی۔۔۔۔۔۔٩٢٦ھ ٭ وفات صفی الدین التربیدی۔۔۔۔۔۔٩٣٠ھ ٭ وفات قاضی نجم الدین الشافعی۔۔۔۔۔۔٩٣٥ھ ٭ وفات شمس الدین الدلجی۔۔۔۔۔۔٩٤٧ھ ٭ وفات ہمایوں ، و حکومت جلال الدین اکبر۔۔۔۔۔۔٩٦٣ھ ٭ وفات غرس الدین چلپی۔۔۔۔۔۔٩٧١ھ ٭ وفات عبدالعزیز زمزمی۔۔۔۔۔۔٩٧٦ھ ٭ وفات شمس الدین قاضی زادہ الرومی ۔۔۔۔۔۔ ٩٨٨ھ ٭ وفات اعتماد الدولہ خواجہ غیاث۔۔۔۔۔۔١٠٣٠ھ ٭ شہادت اسلام خان رومی۔۔۔۔۔۔١٠٨٧ھ ٭ خلافت مصطفی ثانی۔۔۔۔۔۔١١٠٦ھ ٭ حکومت شاہجہاں سوم(مغل)۔۔۔۔۔۔١١٧٣ھ ٭ وفات شاہ عبدالحکیم الہمدی (مردم دیدہ)۔۔۔۔۔۔١١٧٥ھ ٭ وفات میر محمد حیات حسرت عظیم آبادی۔۔۔۔۔۔١٢١٥ھ ٭ وفات امیر خاں بانی ریاست ٹونک۔۔۔۔۔۔١٢٥٠ھ ٭ خلافت عبدالمجید الاول معمار حرم۔۔۔۔۔۔١٢٥٥ھ ٭ قتل شجاع الملک امیر کابل۔۔۔۔۔۔١٢٥٨ھ ٭ وفات شیفتہؔ حسرتی ۔۔۔۔۔۔١٢٨٦ھ ٭ وفات کرامت علی جونپوری۔۔۔۔۔۔١٢٩٠ھ ٭ وفات آغا خاں اول۔۔۔۔۔۔١٢٩٨ھ ٭ وفات فخر الہ آبادی۔۔۔۔۔۔١٣٠٣ھ ٭ ہلاکت مرزا غلام احمد قادیانی۔۔۔۔۔۔١٣٢٦ھ ٭ معزولی عبدالحمید ثانی و خلافت محمد الخامس العثمانی۔۔۔۔۔۔١٣٢٧ھ ٭ وفات عماء الملک بلگرامی۔۔۔۔۔۔١٣٤٣ھ ٭ ایران میں قاچاری حکومت کا خاتمہ ہوا ۔۔۔۔۔۔١٣ ربیع الثانی ١٣٤٤ھ/٣١ اکتوبر ١٩٢٥ء ٭ وفات حکیم حبیب الرحمن ڈھاکہ۔۔۔۔۔۔١٣٦٦ھ ٭ آزادی انڈونیشیا ۔۔۔۔۔۔١٣٦٩ھ ٭ وفات سیماب اکبر آبادی۔۔۔۔۔۔١٣٧٠ھ ٭ آزادی لیبیا۔۔۔۔۔۔١٣٧١ھ ٭ وفات مفتی کفایت اللہ دہلوی۔۔۔۔۔۔١٣٧٢ھ ٭ آزادی گینی۔۔۔۔۔۔١٣٧٨ھ ٭
ماہِ ربیع الثانی میں وفات پانے والے اولیائے کرام و بزرگانِ دین رضی اللہ عنہم اجمعین
یکم ربیع الثانی
٭ حضرت ابو سعید چشتی دست رسول ۔۔۔۔۔۔ ١٠٤٣ھ ٭ حضرت امام ابو بکر احمد بن حسین بیہقی
٢ربیع الثانی
٭ حضرت شاہ اکرم چشتی۔۔۔۔۔۔١٠٢٦ھ
٣ ربیع الثانی
٭ حضرت ام المؤمنین زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا۔۔۔۔۔۔٤ھ ٭ حضرت مولوی کرامت علی جونپوری۔۔۔۔۔۔١٢٩٠ھ ٭ حضرت خواجہ حبیب عجمی
٤ ربیع الثانی
٭ حضرت سید شاہ جمال لاہوری۔۔۔۔۔۔١٠٤٩ھ
٥ ربیع الثانی
٭ حضرت سید ابراہیم ایرجی دہلوی۔۔۔۔۔۔٩٥٣ھ ٭ حضرت قاری محمد عبدالرحمن پانی پتی۔۔۔۔۔۔١٣١٤ھ ٭ حضرت شاہ محکم الدین صاحب السیر۔۔۔۔۔۔١١٩٧ھ
٦ ربیع الثانی
٭ حضرت شیخ عبدالکبیر پانی پتی۔۔۔۔۔۔٩٤٧ھ ٭ حضرت عارف باللہ بنڈل شاہ بابا ٭ فقیہ اعظم مولانا محمد شریف کوٹلی لوہاراں
٧ ربیع الثانی
٭ حضرت امام المسلمین سیدنا مالک بن انس رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔١٧٩ھ ٭ حضرت آغا محمد ترک بخاری دہلوی۔۔۔۔۔۔٧٣٩ھ ٭ حضرت امام مالک ٭ حضرت خواجہ غلام فرید
٨ ربیع الثانی
٭ حضرت شیخ عبدالحئی چشتی جونپوری۔۔۔۔۔۔١٠٨١ھ
٩ ربیع الثانی
٭ حضرت مفتی غلام محمد لاہوری ۔۔۔۔۔۔١٢٧٦ھ ٭ حضرت امام احمد بن حنبل ٭ حضرت علامہ مشتاق احمد نظامی الٰہ آبادی۔۔۔۔۔۔حضرت مولوی میر باز خان
١٠ربیع الثانی
٭ حضرت ابراہیم حلبی۔۔۔۔۔۔١١٩٠ھ
١١ ربیع الثانی
٭ حضرت شمس الدین خراسانی۔۔۔۔۔۔٤٥٧ھ ٭ حضرت ابو سعید علی معروف بہ مبارک مخزومی واسطی۔۔۔۔۔۔٥١٣ھ ٭ حضرت امام عبدالغنی ملتانی۔۔۔۔۔۔٥٤٣ھ ٭ حضرت شخ بہاؤالدین جونپوری رزق کشا ۔۔۔۔۔۔٩٦٣ھ ٭ حضرت سید شاہ حسین گیلانی لاہوری۔۔۔۔۔۔١٢٠٥ھ ٭ حضرت سید شاہ محمد بن سید عثمان ۔۔۔۔۔۔١٠١١ھ ٭ حضرت سید حاجی عبداللہ گیلانی۔۔۔۔۔۔١١٤١ھ ٭ ضرت مولانا شاہ محمد وارث رسول نما بنارسی۔۔۔۔۔۔١١٦٣ھ ٭ حضرت محبوب سبحانی شیخ سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ،
١٢ ربیع الثانی
٭ حضرت شیخ عبداللہ برقی خوارزمی۔۔۔۔۔۔٣٧٦ھ ٭ حضرت شیخ امان عرف عبدالملک۔۔۔۔۔۔٩٧٥ھ ٭ حضرت شاہ جمال۔۔۔۔۔۔١٠٠٠ھ ٭ حضرت شیخ جمال اللہ نوشاہی۔۔۔۔۔۔١١٤٢ھ ٭ حضرت سید گدا رحمن بن محبوب علی معشوق صفات ۔۔۔۔۔۔٩٨٧ھ
١٣ربیع الثانی
٭ حضرت سید موسی جون۔۔۔۔۔۔٢١٣ھ ٭ حضرت ابو سالم شاذلی۔۔۔۔۔۔٥٤٧ھ ٭ حضرت سید نور الدین مبارک غزنوی۔۔۔۔۔۔٦٣٢ھ ٭ حضرت میاں عبدالحئی حیدرآبادی۔۔۔۔۔۔١١٧١ھ ٭ حضرت خواجہ غلام محمد تونسوی
١٤ربیع الثانی
٭ حضرت ابو اسحق مغربی۔۔۔۔۔۔٤٦١ھ ٭ حضرت سید حسن شاہ ۔۔۔۔۔۔ ٦٩٩ھ ٭ حضرت خضر رومی ٧٤٦ھ ٭ حضرت شیخ عبدالحمید گنگوہی۔۔۔۔۔۔٩٨٥ھ ٭ حضرت شاہ محمد ماہ قلندر دہلوی۔۔۔۔۔۔١٠٠٠ھ ٭ حضرت شاہ شمس سبزواری ملتانی ٭ حضرت شاہ گدا رحمن
١٥ ربیع الثانی
٭ حضرت شاہ مجتبیٰ عرف مجا قلندر لاہر پوری۔۔۔۔۔۔١٠٨٤ھ ٭ حضرت شاہ منور علی قادری عمر دراز۔۔۔۔۔۔١١٩٩ھ ٭ حضرت سیدنا شاہ مصطفی حیدر حسن میاں
١٦ ربیع الثانی
٭ حضرت خواجہ بدر الدین غزنوی۔۔۔۔۔۔٦٥٧ھ ٭ ٭ حضرت ابو القاسم قیشری ٭ حضرت میاں موج دریا بخاری
١٧ ربیع الثانی
٭ حضرت شیخ ابو الفضل جوہری۔۔۔۔۔۔٣١٩ھ ٭ حضرت عبداللہ محمد بن ابراہیم قریشی بغدادی۔۔۔۔۔۔٥٩٩ھ ٭ حضرت شیخ محمد بن یقوب سوسی دمشقی۔۔۔۔۔۔٦٠٧ھ ٭ حضرت حاجی شرف الدین ۔۔۔۔۔۔٧٠٧ھ ٭ حضرت سید شمس الدین بغدادی ۔۔۔۔۔۔ ٧٧١ھ ٭ حضرت شیخ مجتبیٰ گوہر قلندر۔۔۔۔۔۔١٠٥٧ھ ٭ حضرت میراں موج دریا لاہوری٭ حجرت سید محمد شاہ دُولہ سبزواری
١٨ ربیع الثانی
٭ حضرت سلطان الاولیاء خواجہ نظام الدین اولیا محبوب الٰہی دہلوی۔۔۔۔۔۔٧٢٥ھ ٭ حضرت شیخ نور الدین نور قطب عالم پنڈوی۔۔۔۔۔۔٨١٣ھ ٭ حضرت قاضی محمد صدر الدین ہزاروی
١٩ ربیع الثانی
٭ حضرت شیخ الاسلام ابو اسمعیل خواجہ عبداللہ انصاری۔۔۔۔۔۔٤٨١ھ ٭ حضرت مولوی قطب الہدیٰ رائے بریلوی۔۔۔۔۔۔١٢٢٦ھ ٭ حضرت شیخ شریف بدرالدین حسن مغربی۔۔۔۔۔۔٥٤٩ھ ٭ حضرت شیخ نصیر الدین بلخی۔۔۔۔۔۔٧٥٦ھ ٭ حضرت سید یٰسۤن بغدادی۔۔۔۔۔۔٧٩٨ھ ٭ حضرت شیخ بہکہاری عرف نظام الدین کاکوروی ۔۔۔۔۔۔ ٩٨١ھ ٭ ٭ حضرت علامہ مولانا نور الدین عبدالرحمن جامی السامی ٭ حضرت شاہ دولہا دریائی گجراتی
٢٠ ربیع الثانی
٭ حضرت شاہ حمید ابدال۔۔۔۔۔۔١٠٦١٠ھ ٭ حضرت شاہ محمد کاظم قلندر۔۔۔۔۔۔١٢٤١ھ
٢١ ربیع الثانی
٭ حضرت ملا حسین واعظ کاشقی۔۔۔۔۔۔٩١٠ھ ٭ حضرت شیخ محب اللہ چشتی صابری۔۔۔۔۔۔١٠٥٨ھ
٢٢ ربیع الثانی
٭ حضرت شیخ محی الدین ابن عربی للخاطب الشیخ اکبر۔۔۔۔۔۔٦٣٨ھ ٭ حضرت مخدوم شیخ احمد گجراتی۔۔۔۔۔۔٨٨٠ھ ٭ حضرت شاہ عبدالرحمن نگرامی
٢٣ربیع الثانی
٭ حضرت شیخ مجد الدین بغدادی۔۔۔۔۔۔٦٦١ھ ٭ حضرت خواجہ عبدالشہید نقشبندی۔۔۔۔۔۔٩٨٢ھ ٭ حضرت مولانا ابو الاحیاء محمد نعیم قادری رزاقی لکھنوی ۔۔۔۔۔۔ ١٣١٨ھ
٢٤ ربیع الثانی
٭ حضرت خواجہ کلیم اللہ جہان آبادی۔۔۔۔۔۔١١٤٢ھ ٭ حضرت شرف الدین ابو اسحق شامی۔۔۔۔۔۔٣٢٩ھ
٢٥ ربیع الثانی
٭ حضرت شیخ حمزہ دہر سوی۔۔۔۔۔۔٩٥٧ھ ٭ مولوی حکیم محمد قطب الدین جھنگوی۔۔۔۔۔۔١٣٧٩ھ ٭ حضرت حافظ محمد صاحب قادری عمر زئی پشاوری
٢٦ ربیع الثانی
٭ مولوی علی محمد جماعتی۔۔۔۔۔۔١٣٨٦ھ ٭ ٭ حضرت سیدنا شاہ اولاد رسول مارہروی
٢٧ ربیع الثانی
٭ حضرت ابو سعید اعرابی ۔۔۔۔۔۔٣٦٢ھ ٭ حضرت ابو سلیمان احمد خطابی (صاحب معالم السنن)۔۔۔۔۔۔٣٨٨ھ ٭ حضرت خواجہ داؤد طائی
٢٨ ربیع الثانی
٭ حضرت شاہ اجمل سنبھلی (بھارت)
٢٩ ربیع الثانی
٭ حضرت شیخ فرید الدین عطار نیشاپوری۔۔۔۔۔۔٦٢٧ھ ٭ حضرت شیخ حمید الدین صوفی ناگوری۔۔۔۔۔۔٦٧٣ھ
٣٠ ربیع الثانی
٭ حضرت سید جمال الدین احمد ہانسوی۔۔۔۔۔۔٦٥٩ھ ٭ حضرت شیخ جمال الدین احمد جورقانی۔۔۔۔۔۔٦٦٩ھ
ماہِ شعبان کی پندرہویں رات کو شبِ برأت کہا جاتا ہے شب کے معنی ہیں رات اور برأت کے معنی بری ہونے اور قطع تعلق کرنے کے ہیں ۔ چونکہ اس رات مسلمان توبہ کرکے گناہوں سے قطع تعلق کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بے شمار مسلمان جہنم سے نجات پاتے ہیں اس لیے اس رات کو شبِ برأت کہتے ہیں ۔ اس رات کو لیلۃ المبارکۃ یعنی برکتوں والی رات، لیلۃ الصک یعنی تقسیم امور کی رات اور لیلۃ الرحمۃ یعنی رحمت نازل ہونے کی رات بھی کہا جاتا ہے۔
جلیل القدر تابعی حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ، فرماتے ہیں ، ”لیلۃ القدر کے بعد شعبان کی پندرھویں شب سے افضل کوئی رات نہیں ”۔ (لطائف المعارف ص ١٤٥)
جس طرح مسلمانوں کے لیے زمین میں دو عیدیں ہیں اس طرح فرشتوں کے آسمان میں دو عیدیں ہیں ایک شبِ برأت اور دوسری شبِ قدر جس طرح مومنوں کی عیدیں عید الفطر اور عید الاضحٰی ہیں فرشتوں کی عیدیں رات کو اس لیے ہیں کہ وہ رات کو سوتے نہیں جب کہ آدمی رات کو سوتے ہیں اس لیے ان کی عیدیں دن کو ہیں ۔ (غنیۃ الطالبین ص ٤٤٩)
تقسیمِ امور کی رات
ارشاد باری تعالیٰ ہوا، ”قسم ہے اس روشن کتاب کی بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا، بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام”۔ (الدخان ٢ تا ٤ ، کنزالایمان)
”اس رات سے مراد شبِ قدر ہے یا شبِ برأت” (خزائن العرفان) ان آیات کی تفسیر میں حضرتِ عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اور بعض دیگر مفسرین نے بیان کیا ہے کہ ”لیلۃ مبارکۃ” سے پندرہ شعبان کی رات مراد ہے ۔ اس رات میں زندہ رہنے والے ، فوت ہونے والے اور حج کرنے والے سب کے ناموں کی فہرست تیار کی جاتی ہے اور جس کی تعمیل میں ذرا بھی کمی بیشہ نہیں ہوتی ۔ اس روایت کو ابن جریر، ابن منذر اور ابنِ ابی حاتم نے بھی لکھا ہے۔ اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ مذکورہ فہرست کی تیاری کا کام لیلۃ القدر مین مکمل ہوتا ہے۔ اگرچہ اس کی ابتداء پندرہویں شعبان کی شب سے ہوتی ہے۔ (ماثبت من السنہ ص ١٩٤)
علامہ قرطبی مالکی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
ایک قول یہ ہے کہ ان امور کے لوحِ محفوظ سے نقل کرنے کا آغاز شبِ برأت سے ہوتا ہے اور اختتام لیلۃ القدر میں ہوتا ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن ج ١٦ ص ١٢٨)
یہاں ایک شبہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ امور تو پہلے ہی سے لوح محفوظ میں تحریر ہیں پھر اس شب میں ان کے لکھے جانے کا کیا مطلب ہے؟ جواب یہ ہے کہ یہ امور بلاشبہ لوح محفوظ میں تحریر ہیں لیکن اس شب میں مذکورہ امور کی فہرست لوح محفوظ سے نقل کرکے ان فرشتوں کے سپرد کی جاتی ہے جن کے ذمہ یہ امور ہیں ۔
حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتی ہو کہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟ میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ فرمائیے۔ ارشاد ہوا آئندہ سال میں جتنے بھی پیدا ہونے والے ہوتے ہیں وہ سب اس شب میں لکھ دئیے جاتے ہیں اور جتنے لوگ آئندہ سال مرنے والے ہوتے ہیں وہ بھی اس رات میں لکھ دئیے جاتے ہیں اور اس رات میں لوگوں کا مقررہ رزق اتارا جاتاہے۔ (مشکوٰۃ جلد ١ ص ٢٧٧)
حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ، فرماتے ہیں،
”شعبان کی پندرہویں رات میں اللہ تعالیٰ ملک الموت کو ایک فہرست دے کر حکم فرماتا ہے کہ جن جن لوگوں کے نام اس میں لکھے ہیں ان کی روحوں کو آئندہ سال مقررہ وقتوں پر قبض کرنا۔ تو اس شب میں لوگوں کے حالات یہ ہوتے ہیں کہ کوئی باغوں میں درخت لگانے کی فکر میں ہوتا ہے کوئی شادی کی تیاریوں میں مصروف ہوتا ہے۔ کوئی کوٹھی بنگلہ بنوا رہا ہوتا ہے حالانکہ ان کے نام مُردوں کی فہرست میں لکھے جاچکے ہوتے ہیں ۔ (مصنف عبد الرزاق جلد ٤ ص ٣١٧ ، ماثبت من السنہ ص ١٩٣)
حضرت عثمان بن محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ
سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک لوگوں کی زندگی منقطع کرنے کا وقت اس رات میں لکھا جاتا ہے یہاں تک کہ انسان شادی بیاہ کرتا ہے اور اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں حالانکہ اس کا نام مُردوں کی فہرست میں لکھا جاچکا ہوتا ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن ج ١٦ ص ١٢٦، شعب الایمان للبیہقی ج ٣ ص ٣٨٦)
چونکہ یہ رات گذشتہ سال کے تمام اعمال بارگاہِ الہٰی میں پیش ہونے اور آئندہ سال ملنے والی زندگی اور رزق وغیرہ کے حساب کتاب کی رات ہے اس لیے اس رات میں عبادت الہٰی میں مشغول رہنا رب کریم کی رحمتوں کے مستحق ہونے کا باعث ہے اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہی تعلیم ہے۔ 
مغفرت کی رات
شبِ برأت کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس شب میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے بے شمار لوگوں کی بخشش فرما دیتا ہے اسی حوالے سے چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں ۔
(١) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں،
ایک رات میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے پاس نہ پایا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکلی میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت البقیع میں تشریف فرما ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں یہ خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) جلوہ گر ہوتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔ (ترمذی جلد ١ ص ١٥٦، ابن ماجہ ص ١٠٠، مسند احمد جلد ٦ ص ٢٣٨، مشکوٰۃ جلد ١ ص ٢٧٧، مصنف ابنِ ابی شعبہ ج ١ ص ٣٣٧، شعب الایمان للبیہقی جلد ٣ ص ٣٧٩)
شارحین فرماتے ہیں کہ یہ حدیث پاک اتنی زیادہ اسناد سے مروی ہے کہ درجہ صحت کو پہنچ گئی۔
(٢) حضرتِ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے روایت ہے کہ آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
”شعبان کی پندرہویں شب میں اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) جلوہ گر ہوتا ہے اور اس شب میں ہر کسی کی مغفرت فرما دیتا ہے سوائے مشرک اور بغض رکھنے والے کے”۔ (شعب الایمان للبیہقی جلد ٣ ص ٣٨٠)
(٣) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے مروی ہے کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں اپنے رحم و کرم سے تمام مخلوق کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک اور کینہ رکھنے والے کے”۔ (ابنِ ماجہ ص ١٠١، شعب الایمان ج ٣ ص ٣٨٢، مشکوٰۃ جلد ١ ص ٢٧٧)
(٤) حضرت ابوہریرہ ، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابو ثعلیۃ اور حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی ایسا ہی مضمون مروی ہے۔ (مجمع الزوائد ج ٨ ص ٦٥)
(٥) حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ
آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، ”شعبان کی پندرہویں رات میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے دو شخصوں کے سوا سب مسلمانوں کی مغفرت فرمادیتا ہے ایک کینہ پرور اور دوسرا کسی کو ناحق قتل کرنے والا”۔ (مسند احمد ج ٢ ص ١٧٦، مشکوٰۃ جلد ١ ص ٢٧٨)
(٦) امام بیہقی نے شعب الایمان (ج ٣ ص ٣٨٤) میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک طویل روایت بیان کی ہے جس میں مغفرت سے محروم رہنے والوں میں ان لوگوں کا بھی ذکر رشتے ناتے توڑنے والا، بطور تکبر ازار ٹخنوں سے نیچے رکھنے والا، ماں باپ کا نافرمان، شراب نوشی کرنے والے۔
(٧) غنیۃ الطالبین ص ٤٤٩ پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے مروی طویل حدیث میں مزید ان لوگوں کا بھی ذکر ہے جادوگر، کاہن، سود خور اور بد کار، یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے اپنے گناہوں سے توبہ کیے بغیر ان کی مغفرت نہیں ہوتی۔ پس ایسے لوگوں کو چاہیے کہ اپنے اپنے گناہوں سے جلد از جلد سچی توبہ کرلیں تاکہ یہ بھی شب برأت کی رحمتوں اور بخشش و مغفرت کے حقدار ہوجائیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہوا ”اے ایمان والو اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے نصیحت ہوجائے”۔ (التحریم ٨ ، کنزالایمان)
یعنی توبہ ایسی ہونی چاہیے جس کا اثر توبہ کرنے والے کے اعمال میں ظاہر ہو اور اس کی زندگی گناہوں سے پاک اور عبادتوں سے معمور ہوجائے۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کی۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم توبۃ النصوح کسے کہتے ہیں اشاد ہوا بندہ اپنے گناہ پر سخت نادم اور شرمدسار ہو۔ پھر بارگاہ الہٰی میں گڑگڑا کر مغفرت مانگے۔ اور گناہوں سے بچنے کا پختہ عزم کرے تو جس طرح دودھ دوبارہ تھنوں میں داخل نہیں ہوسکتا اسی طرح اس بندے سے یہ گناہ کبھی سرزد نہ ہوگا۔
رحمت کی رات
شبِ برأت فرشتوں کو بعض امور دئیے جانے اور مسلمانوں کی مغفرت کی رات ہے اس کی ایک او ر خصوصیت یہ ہے کہ یہ رب کریم کی رحمتوں کے نزول کی اور دعاؤں کے قبول ہونے کی رات ہے۔
١۔ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے روایت ہے کہ
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے۔ ”جب شعبان کی پندرہویں شب آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوتا ہے، ہے کوئی مغفرت کا طالب کہ اس کے گناہ بخش دوں ، ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ اسے عطا کروں ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ سے جو مانگا جائے وہ ملتا ہے۔ وہ سب کی دعا قبول فرماتا ہے سوائے بدکار عورت اور مشرک کے”۔ (شعب الایمان للبیہقی ج٣ ص ٣٨٣)
٢۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے روایت ہے کہ غیب بتانے والے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
جب شعبان کی پندرھویں شب ہو تورات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو کیونکہ غروب آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت آسمان دنیا پر نازل ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، ہے کوئی مغفرت کا طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں ۔ ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اس کو رزق دوں ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں ، یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتا رہتا ہے۔ (ابنِ ماجہ ص ١٠٠، شعب الایمان للبیہقی ج ٣ ص ٣٧٨، مشکوٰۃ ج ١ ص ٢٧٨)
اس حدیث پاک میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت و رحمت کی ندا کا ذکر ہے اگرچہ یہ ندا ہر رات میں ہوتی ہے لیکن رات کے آخری حصے میں جیسا کہ کتاب کے آغاز میں شبِ بیداری کی فضیلت کو عنوان کے تحت حدیث پاک تحریر کی گئی شبِ برأت کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں یہ ندا غروب آفتاب ہی سے شروع ہوجاتی ہے گویا صالحین اور شبِ بیدار مومنوں کے لیے تو ہر رات شبِ برأت ہے مگر یہ رات خطاکاروں کے لیے رحمت و عطا اور بخشش و مغفرت کی رات ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس رات میں اپنے گناہوں پر ندامت کے آنسو بہائیں اور ربِ کریم سے دنیا و آخرت کی بھلائی مانگیں ۔ اس شب رحمتِ خداوندی ہر پیاسے کو سیراب کردینا چاہتی ہے اور ہر منگتے کی جھولی گوہرِ مراد سے بھر دینے پر مائل ہوتی ہے۔ بقول اقبال، رحمت الہٰی یہ ندا کرتی ہے 
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں ۔۔۔ راہ دکھلائیں کسے راہرو منزل ہی نہیں
شبِ بیداری کا اہتمام
شبِ برأت میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی شبِ بیداری کی اور دوسروں کو بھی شبِ بیداری کی تلقین فرمائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان اوپر مذکور ہوا کہ “جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو شبِ بیداری کرو اور دن کو روزہ رکھو” اس فرمان جلیل کی تعمیل میں اکابر علمائے اہلسسنت اور عوام اہلسنت کا ہمیشہ سے یہ معمول رہا ہے کہ رات میں شبِ بیداری کا اہتمام کرتے چلے آئے ہیں۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
”تابعین میں سے جلیل القدر حضرات مثلاً حضرت خالد بن معدان، حضرت مکحول، حضرت لقمان بن عامر اور حضرت اسحٰق بن راہویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم مسجد میں جمع ہو کر شعبان کی پندرہویں شب میں شبِ بیداری کرتے تھے اور رات بھر مسجد میں عبادات میں مصروف رہتے تھے”۔ (ما ثبت من السنہ ٢٠٢، لطائف المعارف ص ١٤٤)
علامہ ابنِ الحاج مانکی رحمتہ اللہ علیہ شبِ برأت کے متعلق رقم طراز ہیں
”اور کوئی شک نہیں کہ یہ رات بڑی بابرکت اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی عظمت والی ہے۔ ہمارے اسلاف رضی اللہ تعالیٰ عنہیم اس کی بہت تعظیم کرتے اور اس کے آنے سے قبل اس کے لیے تیاری کرتے تھے۔ پھر جب یہ رات آتی تو وہ جوش و جذبہ سے اس کا استقبال کرتے اور مستعدی کے ساتھ اس رات میں عبادت کیا کرتے تھے کیونکہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ہمارے اسلاف شعائر اللہ کا بہت احترام کیا کرتے تھے۔” (المدخل ج ١ ص ٣٩٢)
مذکورہ بالا حوالوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اس مقدس رات میں مسجد میں جمع ہوکر عبادات میں مشغول رہنا اور اس رات شبِ بیداری کا اہتمام کرنا تابعین کرام کا طریقہ رہا ہے۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ فرماتے ہیں
”اب جو شخص شعبان کی پندرہویں رات مین شبِ بیداری کرے تو یہ فعل احادیث کی مطابقت میں بالکل مستحب ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل بھی احادیث سے ثابت ہے کہ شبِ برأت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کی دعائے مغفرت کے لیے قبرستان تشریف لے گئے تھے۔” (ماثبت من السنہ ص ٢٠٥)
آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زیارت قبور کی ایک بڑی حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ اس رات موت یاد آتی ہے۔ اور آخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے۔ شبِ برأت میں زیارتِ قبور کا واضح مقصد یہی ہے کہ اس مبارک شب میں ہم اپنی موت کو یاد کریں تاکہ گناہوں سے سچی توبہ کرنے میں آسانی ہو۔ یہی شبِ بیداری کا اصل مقصد ہے۔
اس سلسلے میں حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کا ایمان افروز واقعہ بھی ملاحظہ فرمائیں منقول ہے کہ
جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، شبِ برأت میں گھر سے باہر تشریف لائے تو آپ کا چہرہ یوں دکھائی دیتا تھا جس طرح کسی کوقبر میں دفن کرنے کے بعد باہر نکالا گیا ہو۔ آپ سے اس کا سبب پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نے فرمایا خدا کی قسم میری مثال ایسی ہے جیسے کسی کی کشتی سمند میں ٹوٹ چکی ہو اور وہ ڈوب رہا ہو اور بچنے کی کوئی امید نہ ہو۔ پوچھا گیا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کی ایسی حالت کیوں ہے؟ فرمایا میرے گناہ یقینی ہیں ۔ لیکن اپنی نیکیوں کے متعلق میں نہیں جانتا کہ وہ مجھ سے قبول کی جائیں گی یا پھر رد کردی جائیں گی۔ (غنیۃ الطالبین ص ٢٥٠)
اللہ اکبر نیک و متقی لوگوں کا یہ حال ہے جو ہر رات شبِ بیداری کرتے ہیں اور تمام دن اطاعتِ الہٰی میں گزارتے ہیں جب کہ اس کے برعکس کچھ لوگ ایسے کم نصیب ہیں جو اس مقدس رات میں فکر آخرت اور عبادت و دعا میں مشغول ہونے کی بجائے مزید لہو و لعب میں مبتلا ہوجاتے ہیں آتش بازی پٹاخے اور دیگر ناجائز امور میں مبتلا ہوکر اس مبارک رات کا تقد س پامال کرتے ہیں ۔ حالانکہ آتش بازی اور پٹاخے نہ صرف ان لوگوں اور ان کے بچوں کی جان کے لیے خطرہ ہیں بلکہ ارد گرد کے لوگوں کی جان کے لیے بھی خطرے کا باعث بنتے ہیں ۔ ایسے لوگ ”مال برباد اور گناہ لازم” کا مصداق ہیں ۔
ہمیں چاہیے کہ ایسے گناہ کے کاموں سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں اور بچوں کو سمجھائیں کہ ایسے لغو کاموں سے اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہوتے ہیں ۔ مجدد برحق اعلیٰ ھضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ آتش بازی جس طرح شادیوں اور شب برأت میں رائج ہے بے شک حرام اور پورا جرم ہے کہ اس میں مال کا ضیاع ہے۔ قرآن مجید میں ایسے لوگوں کو شیطان کے بھائی فرمایا گیا۔ ارشاد ہوا،
”اور فضول نہ اڑا بے شک (مال) اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں ”۔ (بنی اسرائیل)
شعبان کے روزے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے
”جن لوگوں کی روحیں قبض کرنی ہوتی ہیں ان کے ناموں کی فہرست ماہِ شعبان مٰں ملک الموت کو دی جاتی ہے اس لیے مجھے یہ بات پسند ہے کہ میرا نام اس وقت فہرست میں لکھا جائے جب کہ میں روزے کی حالت میں ہوں”۔
یہ حدیث پہلے مذکورہ ہو چکی کہ مرنے والوں کے ناموں کی فہرست پندرہویں شعبان کی رات کو تیار کی جاتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ اگرچہ رات کے وقت روزہ نہیں ہوتا اس کے باوجود روزہ دار لکھے جانے کا مطلب یہ ہے کہ بوقت کتاب (شب) اللہ تعالیٰ روزہ کی برکت کو جاری رکھتا ہے۔ (ماثبت من السنہ ١٩٢)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ
”میں نے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ماہِ رمضان کے علاوہ ماہِ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے نہیں دیکھا”۔ (بخاری، مسلم، مشکوٰۃ جلد ١ ص ٤٤١)
ایک اور روایت میں فرمایا
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چند دن چھوڑ کر پورے ماہِ شعبان کے روزے رکھتے تھے”۔ (ایضاً)

پانچویں صدی کے مجدد سیدنا امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ”شعبان دراصل شعب سے مشتق ہے ۔ اس کا معنی ہے پہاڑ کو جانے کا راستہ، اور یہ بھلائی کا راستہ ہے۔ شعبان سے خیر کثیر نکلتی ہےــ” (مکاشفۃ القلوب صفحہ ٦٨١)

ایک اور قول کے مطابق شعبان تشعب سے ماخوذ ہے اور تشعب کے معنی تفرق کے ہیں۔ چونکہ اس ماہ میں بھی خیر کثیر متفرق ہوتی ہے، نیز بندوں کو رزق اس مہینہ میں متفرق اور تقسیم ہوتے ہیں۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٠٤/ ماثبت باالسنۃ صفحہ١٨٦)

سیدی و سندی حضور غوث اعظم الشیخ عبدالقادر حسنی حسینی جیلانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شعبان میں پانچ حرف ہیں۔

١۔ شین
٢۔ عین
٣۔ باء
٤۔ الف
٥۔ نون

پس ”شین” عبارت ہے شرف سے اور ”عین” عبارت ہے علو سے اور ”با ”عبارت ہے بِرّ (یعنی بھلائی) سے اور ”الف ”عبارت ہے الفت سے اور ”نون ”عبارت ہے نور سے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ ماہِ شعبان میں اپنے نیک بندوں کو یہ پانچ چیزیں عطا فرماتا ہے۔ (غنیۃ الطالبین عربی، جلد۔١، صفحہ ٢٨٨، نزہۃ المجالس ج۔١، صفحہ ١٣١)

:شب برات سے متعلق ارشاد خداوندی

حٰمۤ o وَ الْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ o اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ o فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍo اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا ط اِنَّا کُنَّا مُرْسِلِیْنَo (پارہ ٢٥، سورہ دخان، آیت ١ تا ٥)

ترجمہ :۔ قسم اس روشن کتاب کی بیشک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام ہمارے پاس کے حکم سے بے شک ہم بھیجنے والے ہیں۔ (کنز الایمان)

اس رات سے کون سی رات مراد ہے علمائے کرام کے اس میں دو قول ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما و حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ اور اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ وہ لیلۃ القدر تھی کیونکہ سورہ قدر میں اس کی وضاحت موجود ہے اور حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ اور جماعت کا خیال ہے کہ اس سے مراد پندرہ شعبان کی رات تھی۔

:شعبان المعظم کی اہم ترین عبادت

غوث الثقلین ، امام الفریقین، سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ”اس مہینے میں محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف کی کثرت کرنی چاہئے ، کیونکہ یہ مہینہ حضور پر نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم کا مہینہ ہے ۔ درود شریف اور اس مہینے کے وسیلے سے بار گاہِ الٰہی میں قرب حاصل کرنا چاہئے۔ (غنیۃ الطالبین عربی، جلد ۔١،صفحہ ٢٨٨)

:فضائل میں احادیث

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،” رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے، شعبان میرا مہینہ ہے، اور رمضان میری اُمت کا مہینہ ہے۔” (ماثبت با السنۃ صفحہ١٧٠بحوالہ جامع الکبیر بروایت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ)

محدث ویلمی علیہ الرحمۃ روایت کرتے ہیں، ”حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا، میں نے حضور اکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سُنا ، اللہ تعالیٰ چار راتوں میں بھلائی کی مہر لگاتا ہے۔

(١) شب عید الاضحی
(٢) شب عید الفطر
(٣) ماہ رجب کی پہلی شب
(٤) شب نصف شعبان۔

حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ، نبی کریم رؤف الرحیم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے فرمایا، ”پانچ راتیں ایسی ہیں کہ ان میں کوئی دعا رد نہیں ہوتی،

(١) رجب کی پہلی رات
(٢) نصف شعبان کی رات
(٣) جمعہ کی رات
(٤) اور
(٥) دونوں عیدوں کی رات۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کی تیرہویں شب اپنی امت کی شفاعت کیلئے دعا کی تو آپ کو تہائی عطا ہوا، پھر چودہویں شب دعا کی تو دو تہائی عطا ہوا، پھر پندرہویں شب دعا کی تو سب کچھ عطا ہوا ، سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ سے بِدکے ہوئے اونٹ کی طرح بھاگے یعنی نافرمانی کرنے والا۔ (مکاشفۃ القلوب صفحہ ٦٨٢)

حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آمد شعبان پر فرماتے ، اس میں اپنی جانوں کو پاک کرو اور اپنی نیتوں کو درست کرو۔ (مکاشفۃ القلوب ٦٨١)

ابن اسحق نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھے بتایا نصف شعبان کی شب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں سجدہ کی حالت میں یہ دعا فرما رہے تھے ،

سَجَدَ لَکَ سَوَا دِیْ وَخَیَالِیْ وَاٰمَنَ بِکَ فَوَا دِیْ وَہٰذِہ یَدِیْ وَمَا جَنَیْتُ بِہَا عَلیٰ نَفْسِیْ یَا عَظِیْمًا یُّرْ جیٰ لِکُلِّ عَظِیْمٍ اِغْفِرِ الذَّنْبَ الْعَظِیْمَ سَجَدَوَجْہِیَ لِلَّذِیْ خَلَقَہ، وَصَوَّرَہ، وَشَقَّ سَمْعَہ، وَبَصَرَہ

میرے بدن اور میری صورت نے تجھے سجدہ کیا میرا دل تجھ پر ایمان لایا اور یہ میرے ہاتھ ہیں جن سے میں نے خود پر زیادتی کی، اے عظیم! ہر بڑی بات میں اس پر امید کی جاتی ہے، بڑا گناہ معاف فرمادے میرے چہرے نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اسے پیدا کیا اس کی صورت بنائی اور کان اور آنکھ بنائے

:پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور یہ دعا کی

اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنِیْ قَلْبًا تَقِیًّا نَقِیًّا مِّنَ الشِّرْکِ بَرِیًّا لَّا کَا فِرًا وَّ لَا شَقِیًّا

اے اللہ ! مجھے ایسا دل عطا فرما جو پر ہیزگار ہو شرک سے پاک ہو ، نیک ہو ۔۔۔۔۔۔ نہ کافر ہواور نہ ہی بدبخت ہو

پھر دوبارہ سجدہ کیا اور میں نے یہ پڑھتے ہوئے سُنا

اَعُوْذُ بِرِضَائِکَ مِنْ سَخَطِکَ وَ بِعَفْوِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ وَبِکَ مِنْکَ لَا اُحْصِیْ ثَنَآءَ عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ اَقُوْلُ کَمَا قَالَ اَخِیْ دَاؤ،دُ اَغْفِرُ وَجْھِیْ فِیْ التُّرَابِ لِسَیِّدِیْ وَحَقَّ لِوَجْہِ سَیِّدِیْ اَنْ یُّغْفَرَ

میں تیری ناراضگی سے تیری پناہ مانگتا ہوں تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ تجھ سے تیری پناہ، میں تیری تعریف نہیں کرسکتا بس تو ایسا ہے جیسے کہ تو نے خود اپنی تعریف فرمائی میں وہی کہتاہوں جو میرے بھائی حضرت داؤود علیہ السلام نے کہا میں اپنے آقا کیلئے مٹی میں اپنے چہرے کو خاک آلود کرتا ہوں اور چہرے کا یہ حق ہے کہ اپنے آقا کیلئے خاک آلودہ ہو۔ (مکاشفۃ القلوب صفحہ٦٨٣۔٦٨٤)

:شعبان میں روزوں کی فضیلت

یوں تو عام طور پر ہر ماہ چند نفلی روزے جسمانی و روحانی اعتبار سے مفید ہوتے ہیں۔ اگر ہر ماہ کی تیرہ ، چودہ اور پندرہ تاریخوں (ایامِ بیض) کے تین دن مسلسل روزے رکھیں تو ایمانی درجات کی بلندی، روحانی بالیدگی اور ایمان پر استقامت کی ضمانت حاصل ہوتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ صحیح العقیدہ سنی شیخ طریقت کی راہنمائی حاصل ہو، جو اپنے مریدین کو کامل طور پر مسلک امام احمد رضا محدث و محقق بریلوی علیہ الرحمۃ و الرضوان کے دائرے میں رکھے اور صلح کلی کے فریب سے بچائے۔

نسائی شریف میں حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ کو اس قدر روزے رکھتا نہیں دیکھتا جس قدر کہ شعبان میں آپ روزوں کا اہتمام کرتے ہیں، آپ نے فرمایا یہ وہ مہینہ ہے جس سے لوگ غافل ہیں یہ رجب اور رمضان کے درمیان وہ مہینہ ہے کہ جس میں لوگوں کے اعمال رب العالمین کے حضور پیش ہوتے ہیں، میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل جب پیش ہو تو میں روزے کی حالت سے ہوں۔” (مکاشفۃ القلوب صفحہ ٦٨١، جامع الصغیر، جلددوم، صفحہ٣٠١)

اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان المبارک کے علاوہ کسی مہینے میں مکمل روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا اور شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے نہیں دیکھا۔” (بخاری شریف جلد اول صفحہ٢٦٤، مسلم شریف جلد اول صفحہ٣٦٥)

ام المؤمنین سیدہ عائشہ الصدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام مہینوں میں شعبان کے روزے زیادہ پسند تھے، پھر اسے رمضان سے ملادیا کرتے ۔ (جامع الترمذی جلد اول، صفحہ ٢٧٥، سنن ابو داؤد ، جلد اول صفحہ ٣٣٧، سنن ابن ماجہ صفحہ١١٩)

یہی روایت سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی ہے، جسے ابن ماجہ صفحہ ١١٩ ، اور ترمذی جلد اول صفحہ٢٧٥ پر ملاحظہ کریں۔

شبِ برأت کے فضائل و اعمال

(١) ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پاکر آپ کی تلاش میں نکلی آپ جنت البقیع میں تھے، آپ کا سر آسمان کی جانب اٹھا ہوا تھا، آپ نے مجھے فرمایا ، اے عائشہ کیا تمہیں ڈر ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کرے گا؟ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ مجھے گمان ہوا شاید آپ دوسری ازواج کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا ” اللہ تعالیٰ پندرہویں شعبان کی رات آسمانِ دنیا پر (اپنی شایانِ شان) نزول فرماتا ہے اور بنو کلب قبیلہ کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔ (ترمذی جلد اول صفحہ٢٧٥، ابن ماجہ صفحہ ٩٩) امام ترمذی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں اس باب میں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی روایت ہے۔

(٢) مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، نصف شعبان کی رات میں قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو ، کیونکہ اللہ تعالیٰ اسی رات غروب آفتاب تا طلوع فجر آسمانِ دنیا کی طرف متوجہ رہتا ہے اور فرماتا ہے ”کوئی ہے مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں ، کوئی رزق طلب کرے تو اس کو رزق دوں ، کوئی مصیبت سے چھٹکارا چاہے تو اس کو عافیت دوں۔ (ابن ماجہ شریف صفحہ نمبر٩٩)

(٣) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ،”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب ظہور فرماتا ہے اور مشرک و چغل خور کے علاوہ سب کی بخشش فرمادیتا ہے (سنن ابن ماجہ صفحہ ٩٩)

:قبل مغرب مختصر عمل مگر اجر بے مثل

ماہ شعبان کی چودہ (١٤) تاریخ کو قبل مغرب چالیس مرتبہ   لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِااللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ   اور سو (١٠٠) مرتبہ درود شریف پڑھنے کے نتیجے میں چالیس برس کے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ بہشت میں خدمت کے لئے چالیس حوریں مامور کردی جاتی ہیں ۔ (مفتاح الجنان)

شعبان المعظم کے نوافل

:آفات و بلیات و محتاجی سے نجات

نماز مغرب کے بعد ٦ رکعات نوافل اس طرح پڑھیں کہ دو رکعت نماز نفل برائے درازی عمر بالخیرپڑھیں، پھر سورۃ یٰسین پڑھ کر مزید دورکعت نفل برائے ترقی و کشادگی رزق پڑھیں، پھر سوۃ یٰسین پڑھ کر مزید دو رکعت نفل برائے دفع بلیات و استغفار پڑھیں پھر سورۃ یٰسین پڑھ کر دعائے شعبان پڑھنے کے نتیجے میں ان شاء اللہ ایک سال تک محتاجی اور آفات قریب نہیں آئیں گی۔

:صلوۃ خیر سے چار ہزار نو سو (٤٩٠٠) حاجتیں پوری ہوتی ہیں

حضرت خواجہ حسن بصری علیہ الرحمۃ الرضوان فرماتے ہیں کہ ” مجھے تیس صحابہ علیہم الرضوان نے بیان کیا ہے کہ اس رات جو شخص یہ نماز خیر پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف ستر مرتبہ نظر رحمت فرماتا ہے ایک نظر میں ستر حاجتیں پوری فرماتا ہے جن میں سب سے ادنیٰ حاجت گناہوں کی مغفرت ہے اس طرح کل چار ہزار نو سو حاجتیں پوری ہوتی ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ دو دورکعت کر کے صلوٰۃ خیر مستحب کی نیت باندھیں، ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد دس بار سورۃ اخلاص پڑھیں۔ پچاس نمازوں کی سو رکعتوں میں ایک ہزار مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھیں گے۔

:تمام صغیرہ و کبیرہ گناہوں کی معافی

آٹھ رکعت نفل دو دو کرکے پڑھیے، ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد ٢٥ مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھ کر خلوص دل سے توبہ کریں اور درج ذیل دعا کھڑے ہوکر بیٹھ کر اور سجدے میں ٤٤ مرتبہ پڑھیں ۔ گناہوں سے ایسے پاک ہوجائیں گے جیسے کہ آج ہی پیدا ہوئے ہوں۔

اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ یَا غَفُوْرُ یَا غَفُوْرُ یَا غَفُوْرُ یَا کَرِیْمُ

:رزق میں برکت اورکاروبار کی ترقی کیلئے

دورکعت نماز ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد آیت الکرسی ایک مرتبہ ، سورۃ اخلاص پندرہ مرتبہ پڑھیں۔ سلام کے بعد سو مرتبہ درود شریف پڑھیں پھر تین سو تیرہ مرتبہ  یَاوَہَّابُ یَا بَاسِطُ یَارَزَّاقُ یَا مَنَّانُ یَا لَطِیْفُ یَا غَنِیُّ یَا مُغْنِیُّ یَا عَزِیْزُ یَا قَادِرُ یَا مُقْتَدِرُ   کا وظیفہ پڑھنے سے کاروبار میں برکت اور رزق میں وسعت ہوجاتی ہے۔

:موت کی سختی آسان اور عذابِ قبر سے حفاظت

چار رکعت پڑھیں ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ تکاثر ایک مرتبہ اور اخلاص تین دفعہ پڑھ کر سلام کے بعد سورۃ ملک اکیس مرتبہ اور سورۃ توبہ کی آخری دو آیتیں اکیس دفعہ پڑھنے سے ان شاء اللہ والرسول صلی اللہ علیہ وسلم موت کی سختیوں اور قبر کے عذاب سے محفوظ رہیں گے۔

:صلوۃ التسبیح

حضور اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا: اے چچا! کیا میں تم کو عطا نہ کروں، کیا میں تم کو بخشش نہ کروں، کیا میں تم کو نہ دوں، کیا میں تمہارے ساتھ احسان نہ کروں، دس فوائد ہیں کہ جب تم یہ کرو تو اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اگلا، پچھلا، پرانا ، نیا ، جو بھولے سے کیا جو قصدًا کیا، چھوٹا ہو ، بڑا ہو ، پوشیدہ ہو یا ظاہر ہو۔ اس کے بعد صلوۃ التسبیح کی ترکیب تعلیم فرمائی، پھر فرمایا کہ اگر تم سے ہو سکے تو ہر روز ایک بار پڑھا کرو یا پھر جمعہ کے دن ایک بار یا ہر ماہ میں ایک بار یا سال میں ایک بار یہ بھی نہ ہوسکے تو زندگی میں ایک بار ضرور پڑھو۔ طریقہ یہ ہے کہ نیت کے بعد تکبیر تحریمہ کہہ کر ثنا پڑھیں، پھر تسبیح سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ وِلَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ پندرہ بار پھر تعوذ ، تسمیہ ،سورۃ فاتحہ اور کوئی بھی سورۃ پڑھ کر رکوع میں جانے سے پہلے دس بار یہی تسبیح پڑھیں پھر رکوع میں دس بار، رکوع سے سر اٹھا کر قومہ میں تحمید کے بعد دس بار پھر سجدہ میں دس بار دونوں سجدوں کے درمیان جلسے میں دس بار، دوسرے سجدہ میں دس بار اس طرح چاروں رکعت میں پڑھیں ہر رکعت میں پچھتر(٧٥) بار چاروں رکعتوں میں تین سو (٣٠٠) بار تسبیح پڑھی جائے گی۔ یہ واضح رہے کہ دوسری ، تیسری اور چوتھی رکعتوں کے شروع میں فاتحہ سے پہلے پندرہ بار اور رکوع سے پہلے دس بار یعنی قیام میں پچیس (٢٥) بار اور رکوع و سجود میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم اور سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ تین مرتبہ پڑھ کر پھر تسبیح دس دس بار پڑھیں گے۔

:روز محشر اللہ تعالیٰ کا دیدار اور اس کی نظر کرم

اس نعمت کے وہ مستحق ہوں گے جو پندرہ شعبان کا روزہ رکھیں اور بعد نماز ظہر چار رکعت دو دو کر کے اس طرح پڑھیں کہ پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعدسورۃزلزال ایک بار،سورۃ اخلاص دس بار، دوسری رکعت میں سورۃ تکاثر ایک بار، سورۃاخلاص دس بار، دوسری نماز کی پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ کافرون تین دفعہ ،سورۃ اخلاص دس بار اور آخری رکعت میں آیت الکرسی تین دفعہ، سورۃ اخلاص پچیس بار، جو یہ عمل کریں گے تو روز محشر اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوں گے۔ نیز اللہ تعالیٰ بھی ان کی طرف نظر کرم فرمائے گا۔

نوٹ: یاد رکھیں نوافل سے پہلے فرض نمازوں کی قضا کی ذمہ داری پوری کرنی ہوگی۔

دعائے نصف شعبان المعظم

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

اَللّٰہُمَّ یَا ذَ الْمَنِّ وَلَا یُمَنُّ عَلَیْہِ یَاذَالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ . یَا ذَاالطَّوْلِ وَالْاِنْعَامِ . لاَ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ ظَہْرُ اللَّاجِئِیْنَ . وَجَارُ الْمُسْتَجِیْرِیْنَ . وَاَمَانُ الْخََآئِفِیْنَ . اَللّٰہُمَّ اِنْ کُنْتَ کَتَبْتَنِیْ عِنْدَکَ فِۤی اُمِّ الْکِتٰبِ شَقِیًّا اَوْ مَحْرُوْمًا اَوْ مَطْرُوْدًا اَوْ مُقَتَّرًاعَلَیَّ فِی الرِّزْقِ  فَامْحُ . اللّٰہُمَّ بِفَضْلِکَ شَقَا وَتِیْ وَحِرْ مَا نِیْ وَطَرْدِیْ وَاقْتِتَارَرِزْقِیْ . وَاثْبِتْنِیْ عِنْدَکَ فِیۤ اُمِّ الْکِتٰبِ سَعِیْدًامَّرْزُوْقًا مُّوَفَّقًا لِّلْخَیْرَاتِ . فَاِنَّکَ قُلْتَ وَقَوْلُکَ الْحَقُّ فِیْ کِتَابِکَ الْمُنَزَّلِ . عَلٰی لِسَانِ نَبِیِّکَ الْمُرْسَلِ . یَمْحُو اللّٰہُ مَا یَشَآءُ وَیُثْبِتُ وَ عِنْدَہ، اُمُّ الْکِتٰبِ . اِلٰہِیْ بِالتَّجَلِّیِّ الْاَعْظَمِ . فِیْ لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَہْرِ شَعْبَانَ الْمُکَرَّمِ . اَلَّتِیْ یُفْرَقُ فِیْہَا کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ وَّ یُبْرَمُ . اَنْ تَکْشِفَ عَنَّا مِنَ الْبَلَاءِ وَالْبَلْوَ آءِ مَا نَعْلَمُ وَمَا لَا نَعْلَمُ وَاَنْتَ بِہٖ اَعْلَمُ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعَزُّالْاَکْرَمُ . وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ وَسَلَّمْ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ.

:فاتحہ اور حلوہ کھانے اور کھلانے کے فائدے

١٤ شعبان کو گھر میں خواتین (باوضو ہوں تو بہتر ہے) حلوہ پکائیں اور آقائے دوجہاں حضور اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ، خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، حضرت سیدنا حمزہ اور حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہما کی خصوصیت کے ساتھ نیز دیگر صالحین ، اولیائے کاملین ، سلاسل تصوف و طریقت کے بزرگان دین، اپنے آباؤ اجداد، اعزاو اقربا (جو حالتِ ایمان پر رحلت کر گئے ہوں) اور عام مومنین کی حلوے پر فاتحہ دلائیں اور ہمسایوں میں تقسیم کریں، خصوصاً محتاج و مستحقین امداد کو حلوے کے علاوہ کچھ خیرات بھی دیں۔ مشائخ سے منقول ہے یہ ارواح اپنے عزیزوں کی جانب سے فاتحہ و نذور کے منتظر ہوتے ہیں۔ ایصالِ ثواب کے تحفے وصول کرکے خوش ہوتے ہیں اور بارگاہ الٰہی میں اپنے زندہ عزیزوں کے حسنِ خاتمہ و آخرت کے لئے سفارش بھی کرتے ہیں۔ بخاری شریف کی حدیث جلد دوم صفحہ ٨١٧ کے مطابق حلوہ کھانا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت متواتر اور سنتِ عادیہ دونوں پر عمل ہے۔ جبکہ حلوہ کھلانے سے متعلق اللہ کے پیارے حبیب ہمارے طبیب مصطفی کریم علیہ التحیۃ والتسلیم فرماتے ہیں” جس نے اپنے مسلمان بھائی کو میٹھا لقمہ کھلایا اس کو سبحانہ و تعالیٰ حشر کی تکلیف سے محفوظ رکھے گا،۔ (شرح الصدور، للعلامہ امام سیوطی مجدد قرن نہم)

قبرستان حاضری کے آداب

مرحومین اور عزیزوں کی مغفرت کیلئے: باوضو ہو کر اور تازہ گلاب(یا دوسرے پھول) لے کر قبرستان جائیں، قبروں کے آداب اور خصوصًاقبروں کے سرہانے لوح پر لکھی آیاتِ قرآنی کا احترام کریں، قبروں پر نہ چلیں، قبروں پر آگ نہ جلائیں یعنی روشنی کے لیے موم بتی یا چراغ جلانا منع ہے ، ہر قبرستان میں شہری انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ بجلی کے کھمبوں کی تنصیب کرے اور ان ہی کھمبوں پر تیز روشنی کے بلب لگائے جائیں تاکہ پورا قبرستان روشن ہو کیونکہ قبرستان بہت گنجان ہوتا ہے قبروں کے درمیان قطعاً جگہ نہیں ہوتی کہ وہاں موم بتی یا چراغ جلا سکیں لیکن بعض نادان حضرات ایسا کرتے ہیں جو شرعاً منع ہے، خوشبو کے لئے اگر بتی جلا کر قبر سے ایک فٹ دور رکھیں۔ اپنی موت کو بھی یاد رکھیں، خواتین قبرستان میں نہ جائیں ۔ قبرستان میں داخلہ کے وقت یہ دعا پڑھیں۔

اَلسَّلامُ عَلَیْکُمْ یَا اَہْلَ الْقُبُورِ الْمُسْلِمِیْنَ اَنْتُمْ لَنَا سَلَفٌ وَّ اَنَا اِنْشَاءَ اللّٰہُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ نَسْاَلَ اللّٰہَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَفْوَ وَ الْعَافِیَۃِ

پھر درج ذیل درود شریف ایک مرتبہ پڑھنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ مُردوں پر سے ستر سال کے لئے اور چار دفعہ پڑھنے پر قیامت تک کا عذاب اٹھا لیتا ہے ۔ چوبیس مرتبہ پڑھنے والے کے والدین کی مغفرت ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ اس کے والدین کی قیامت تک زیارت کرتے رہو۔

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍا مَّا دَامَتِ الصَّلٰوۃِ
وَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍا مَّا دَامَتِ الرَّحْمَۃِ
وَصَلِّ عَلٰی رُوْحِ مُحَمَّدٍا فِی الْارْوَاحِ
وَصَلِّ عَلٰی صُوْرَۃِ مُحَمَّدٍا فِی الصُّوْرِ
وَصَلِّ عَلٰی اِسْمِ مُحَمَّدٍا فِی الْاَسْمَائِ
وَصَلِّ عَلٰی نَفْسِ مُحَمَّدٍا فِی النُّفُوْسِ
وَصَلِّ عَلٰی قَلْبِ مُحَمَّدٍا فِی الْقُلُوْبِ
وَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍا فِی القُبُوْرِ
وَصَلِّ عَلٰی رَوْضَۃِ مُحَمَّدٍا فِی الرِّیَاضِ
وَصَلِّ عَلٰی جَسَدِ مُحَمَّدٍا فِی الْاَجْسَادِ
وَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍا فِی التُّرَابِ
وَصَلِّ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ وَ ذُرِّیَّتِہ وَ اَہْلِ بَیْتِہ
وَاَحْبَابِہ اَجْمَعِیْنَ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ

اس ماہ کے اہم تاریخی واقعات

ختحویل قبلہ کا حکم …١٦ شعبان٢ہجری، بوقت ظہرخ روزہ فرض ہوا…٢ہجری سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کی ولادت …٥ شعبان ٤ ہجری ولادت سیدہ بی بی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہاخ غزوہ سویق . . . ٤ ہجری غزوہ بنی مصطلق …٥ہجری غزوہ ذات قَرَد …٦ہجری جنگ یمامہ میں مسیلمہ کذاب کا قتل عہد صدیقی رضی اللہ تعالی عنہ …١١ ہجری مسجد نبوی شریف کی پہلی توسیع عہد ِ فاروقی رضی اللہ تعالی عنہ …١٧ ہجری جنگ جلولأعہد ِ فاروقی رضی اللہ تعالی عنہ …١٧ ہجری وفات حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ تعالی عنہ …٢٣ ہجریخفتوحاتِ افریقہ، عہد عثمانی رضی اللہ تعالی عنہ …٢٧ ہجری پہلا شفاء خانہ ، عہد امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ …٤٩ ہجری وفات مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ …٥٠ ہجری وفات حضرت ثوبان و حضرت جبیر رضی اللہ تعالی عنہ …٥٤ ہجری سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی مدینے سے مکہ آمداور یزید کا بیعت کیلئے اصرار…٣شعبان ٦٠ہجری وفات حضرت حمزہ الاسلمی رضی اللہ تعالی عنہ …٦١ ہجری وفات حضرت مسلمہ بن مخلد رضی اللہ تعالی عنہ …٦٢ ہجری وفات حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ تعالی عنہ …٧٣ہجری وفات حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ (خادم رسول صلی اللہ علیہ وسلم )…٩٣ہجری شہادت حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالی عنہ …٩٥ ہجری وفات امام حسن بصری رضی اللہ تعالی عنہ …١١٠ ہجری شہادت امام اعظم ابو حنیفہص …٤شعبان ١٥٠ہجری وفات امام سفیان ثوری رضی اللہ تعالی عنہ …١٦١ہجری ولادت امام مسلم رضی اللہ تعالی عنہ …٢٠١ہجری آلِ امام زید بن امام حسن علیہما السلام نے یمن میں خلافتِ زیدیہ کی بنیاد رکھی …٢٠٣ ہجری مامون الرشید نے موسیٰ برمکی کو سندھ کا والی بنایا…٢١٣ ہجری مامون کی رومیوں سے جنگ …٢١٧ ہجری وفات حضرت سرّی سقطی رضی اللہ تعالی عنہ (خلیفہ حضرت معروف کرخی رضی اللہ تعالی عنہ)…٢٥٣ہجری وفات مؤرخ ابن قتیبہ الدینوری…٢٧٦ ہجری وفات مشہور فقیہہ امام کرمانی علیہ الرحمہ…٢٨٠ہجری دمشق و مصر میں سنّیوں کی جان و مال پر قرامطیوں کے حملے…٢٨٩ہجری وفات ابن المر زبان …٣٦٦ہجری وفات ابو بکر خوارزمی…٣٨٣ہجری وفات ابو القاسم صیدلانی …٣٩٨ ہجری محمود غزنوی علیہ الرحمہ کا نگر کوٹ پر حملہ…٤٠٠ہجری وفات ابو الحسن قاسبی المعافری…٤٠٣ہجری وفات حافظ ابو بکر بن مردویہ الاصبہانی علیہ الرحمہ…٤١٠ہجری محمود غزنوی علیہ الرحمہ نے سومنات کا مندر توڑا…٤١٦ہجری خراسان پرسلجوقیوں کا قبضہ…٤٣٠ ہجری تخت نشینی مودود غزنوی…٤٣٣ ہجری وفات ابو الحسن بن القزوینی…٤٤٢ ہجری وفات ابو عثمان الصابونی…٤٤٩ ہجری وفات امام ابن حزم الظاہری…٤٥٦ ہجری جامع مسجد دمشق کو کئی بد عقیدہ گروہوں نے مکمل جلا دیا …٤٦١ ہجری بیت المقدس پر نصرانی صلیبیوں کا قبضہ…٤٩٢ ہجری وفات محمد بن عبدالکریم الشہرستانی…٥٤٨ ہجری سلطان شہاب الدین غوری کا سندھ پر حملہ…٥٧١ ہجری وفات ابو البرکات ابن الانباری…٥٧٧ ہجری سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ نے ٢٩ رجب کو بیت المقدس فتح کرکے یکم شعبان کو مسجد اقصیٰ میں نماز جمعہ کی امامت فرمائی… ٥٨٣ ہجری امام فخر الدین رازی علیہ الرحمہ کو حاکم افغانستان نے ظلمًا ہرات سے نکال دیا…٥٩٥ ہجری وفات حضرت بہاؤ الدین بلخی علیہ الرحمہ(والد بزرگوار مولانا رومی)…٦٢٨ ہجری تخت نشینی فیروز شاہ تغلق…٦٣٣ہجری ولادت صاحب نحو میر سید شریف جرجانی ۔۔۔۔۔۔٧٤٠ھ خامام ابن حجر عسقلانی (شارح بخاری) کی ولادت مصر میں ٧٧٣ھ وفات حافظ شیرازی …٧٩١ ہجری وفات حافظ زین الدین العراقی…٨٠٦ ہجری وفات تیمور لنگ…٨٠٧ ہجری شام میں شدید زلزلہ اور تباہی…٨١١ ہجری ولادت حضرت مولانا عبد الرحمن جامی ٨١٧ھ حکومت سکندر لودھی کا قیام …٨٩٤ ہجری حکومت ظہیر الدین بابر …٩٣٢ ہجری وفات حاجی خلیفہ صاحب کشف الظنون۔۔۔۔۔۔١٠٦ ہجری مشہور مجذوب حضرت سرمد کی شہادت…١٠٧١ہجری بہادر شاہ ظفر کی گرفتاری…١٢٧٤ہجری خلافت عبدالحمید ثانی (عثمانیہ سلطنت)…١٢٩٣ہجری وصال شیخ الخطباء علامہ احمد ابو الخیر بن عبد اللہ الحنفی (جنت المعلیٰ) اعلیٰ حضرت کی تصنیف الدولۃ المکیہ پر تقریظ لکھی تھی) ۔۔۔۔۔۔١٣٣٥ھ ایران کی قاچاری حکومت کا خاتمہ…١٣٤٢ہجری وفات مولانا محمد علی جوہر…١٣٤٩ہجری وفات مولانا حسرت موہانی…١٣٧٠ہجری آزادی مراکش و تونس…١٣٧٥ہجری آزادی اردن …١٣٧٦ہجری آزادی زنجبار…١٣٨٣ہجری۔ وصال مجاہد ملت فاتح سرحد علامہ عبد الحامد بدایونی (رفیق خاص قائد اعظم، راہنما تحریک پاکستان)۔۔۔۔۔۔١٢ جولائی ١٩٧٠ء

شعبان المعظم میں وفات پانے والے مشہور اولیاء و بزرگانِ دین رحمہم اللہ

یکم شعبان المعظم

٭ حضرت بندگی شاہ لطف اللہ جونپوری ٭ مولانا قاضی سلطان محمود اعونی ١٣٣٧ھ ٭ محدث اعظم پاکستان مولاناسردار احمد لائل پوری۔

٢ شعبان المعظم

٭ حضرت مولوی شاہ ابو الحسن نصیر آبادی ١٢٧٢ھ ٭ حضرت عبدالکریم ملا فقیر اخون رامپوری ١٢٠٦ھ ٭ حضرت سید ابو الحسنات محمد احمد قادری ١١٠٨ھ ٭ حضرت شاہ بازو پشاوری۔ ٭ حضرت علامہ محمد جان بحری آبادی ١٣٣٨ھ

٣ شعبان المعظم

٭ حضرت سفیان ثوری ١٦١ھ ٭ حضرت ابو الفرح طرطوسی ۔ ٭ مولانا حکیم عبدالماجد بدایونی ٢٣٥٠ھ(رہنما تحریک پاکستان)

٤ شعبان المعظم

٭ ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا ٤٥ھ ٭ امام اعظمسید نا نعمان بن ثابت ابو حنیفہ کوفی ١٥٠ھ ٭ حضرت بدرالدین صاحب ولایت سلیمانی ٦٦٩ھ ٭ حضرت ابو سعید ابو الخیر فضل اللہ خراسانی ٤٤٠ھ ٭ حضرت محمد افضل رازی نیشا پوری ٤٥٨ھ ٭ حضرت شاہ نور الحق تپاں پھلواری١٢٣٣ھ ٭ حضرت علامہ سید امیر اجمیری خوشاب سرگودھا ١٣٩٠ھ

٥ شعبان المعظم

٭ حضرت مولانا رضی الدین عبدالغفور لاری ہراتی ٩١٢ھ ٭ حضرت علی خواص جعفربن نصیر ٣٤٨ھ ٭ حضرت خواجہ فحر الدین ابو الخیر چشتی (بن خواجہ خواجگان خواجہ غریب نواز ) ٦٦١ھ ٭ حضرت شیخ کمال خجندی ٨٠٣ھ ٭ حضرت مولانا محمد یحییٰ قادری نقشبندی ١٣١٥ھ ٭ حضرت سیدشاہ محمد غوث بدایونی ١٢٥٥ھ ٭ حضرت غلام محی الدین امیر عالم مارہروی ٭ حضرت غائب شاہ غازی کراچی منوڑہ ٭ پیر غلام مرتضیٰ سرہندی مجددی (ملیر کراچی، رہنما تحریک پاکستان) ١٤٠٢ھ

٦ شعبان المعظم

٭ حضرت شیخ زاہد بخاری ٨٩٣ھ علیہ الرحمۃ ٭ حضرت نور الدین کشمیری ٭ حضرت شیخ سید محمد کالپی شریف ٭ حضرت شاہ انوار الحق فرنگی محلی١٢٣٦ھ ٭ حضرت مولانا قادر بخش سہسرامی ١٣٣٧ھ ٭ حضرت مولانا نذیر احمد خجندی میرٹھی ١٣٥٥ھ

٧ شعبان المعظم

٭ حضرت شیخ ابو الیسر ثعلبی ٢٩٧ھ ٭ حضرت شاہ ہاشم لکھنوی ١١٣٥ھ ۔ ٭ حضرت سید اسد علی شاہ لکھنوی ٭ حضرت شیخ ابو سعید مبارک مخزومی ٭ مخدوم ابو القاسم نور الحق ٹھٹھوی ١١٣٨ھ ٭ علامہ ابو الحسنات محمد احمد قادری (مجاہد تحریک ختم نبوت، مصنف تفسیر حسنات، شرح قصیدہ بردہ شریف) ١٣٨٠ھ

٨ شعبان المعظم

٭ حضرت خواجہ شمس الدین محمد حافظ شیرازی ٧٢٩ھ ٭ حضرت مولانا رحیم بخش آروی ١٣٤٤ھ ٭ حضرت مولانا امام الدین سیالکوٹی نقشبندی ١٣٧٣ھ/١٢اپریل١٩٥٤ئ؁ ٭ شیخ القرآن حضرت علامہ محمد عبدالغفور ہزاروی ١٣٩٠ھ ۔

٩ شعبان المعظم

٭ حضرت شیخ ابو علی ترکمانی ٢٦٧ھ ٭ حضرت قاضی احمد علی ١٢٣١ھ ٭ حضرت ابو القاسم جعفر مقری نیشاپوری ٣٧٨ھ ٭ حضرت مکیل بن زیاد ١١١ھ ٭ حضرت ابو منصور محمد انصاری ٤٣٠ھ حضرت شیخ المعمر بابا یوسف کوہی ٩٤٥ھ۔ ٭ پیر محی الدین لال بادشاہ مکھڑ شریف اٹک (راہنما تحریک پاکستان) ١٣٨٣ھ

١٠ شعبان المعظم

٭ حضرت سید عبداللطیف قادری ١١٤٩ھ ٭ حضرت محمد حسن چشتی ہراتی ١٠٠٧ھ ٭ حضرت مولانا غلام دین لاہوری ١٣٩٠ھ۔ ٭ حضرت ابراہیم شاہ بخاری، کھارادر، کراچی۔ ٭ شیخ محمد معصوم سرہندی دہلوی ١٣١٤ھ

١١ شعبان المعظم

٭ حضرت ابو سعید اعرابی ٣٤١ھ ٭ حضرت شیخ ابو محمد جاربردے ١٤٧ھ ٭ حضرت خواجہ ابراہیم بلخی ٦٨٤ھ ٭ حضرت ابو اعلیٰ کاتب مصری ٣٤٦ھ ٭ حضرت شیخ حفص مدنی ٣٢٧ھ ٭ حضرت نجیب الدین علی برغش شیرازی ٦٧٨ھ ۔ ٭ حضرت شاہ عبدالباری صابری امروہی ١٢٢٦ھ ٭ پیر سید سردار احمد شاہ ، رحیم یار خان ١٣٥١ھ/١٩٣١ئ؁ ٭ حضرت علامہ مفتی محمد سعید بن صبغت اللہ محمد غوث محدث مدراس ١٣١٤ھ

١٢ شعبان المعظم

٭ حضرت ابو یعقوب طبری١٩٧ھ ٭ حضرت سید ابو المعالی لاہوری ٦٢٠ھ ٭ حضرت خواجہ حسین بازیاری بصری ٣٠٢ھ ٭ حضرت خواجہ خاوند محمود ١٠٥٢ھ ٭ حضرت سید داؤود مکی ٣٢١ھ ٭ حضرت میر صالح کشفی اکبر آبادی ١٠٦٠ھ ٭ حضرت سید عبد الوہاب گمانی بغدادی ٥٩٩ھ ٭ حضرت ابو الحسن علی مکی ٢٤٧ھ ٭ حضرت محمد فضل اللہ بن نصر اللہ مکی ٤٩٥ھ ٭ حضرت شاہ کبیر الحسن کوفی ٨٤٧ھ ٭ حضرت سید محمد بن محمود ٦١٦ھ ٭ حضرت سید محمد قادری بغدادی ٧٢٠ھ

١٣ شعبان المعظم

٭ حضرت شاہ رکن الدین کریمی ٧٩٩ھ ٭ حضرت شیخ سیف الدین بخاری ٦٥٨ھ ٭ حضرت شیخ سیف الدین خلوتی ٧٨٣ھ ٭ حضرت شمس الائمہ عبدالعزیز حلوائی بخاری ٤٤٨ھ ٭ حضرت شاہ عبدالجلیل بغدادی ١١٥٢ھ ٭ حضرت سید فرید بخش بھکری ٨١٥ھ ٭ حضرت شاہ قطب الدین بہاری ٧٨٩ھ ٭ حضرت شاہ کمال کیتھلی١٠٠٣ھ ٭ حضرت سید محمد بن مہدی ٧٩٧ھ ۔ ٭ حضرت ابو مزاحم شیخ ابراہیم شیرازی ٣٤٨ھ ٭ سلطان الواعظین حضرت علامہ عبد الاحد محدث پیلی بھیتی ١٣٥٢ھ ٭ حضرت قائم الدین قلندر مجذوب(بکیر شریف ٹنڈو الہ یار ١٢١٥ھ ٭ مولانا نور احمد حنفی پسروری سیالکوٹی ١٣٤٨ھ

١٤ شعبان المعظم

٭ ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا ٤٤ھ ٭ حضرت شیخ ابی العزائم ٦٩٩ھ ٭ حضرت شیخ ابو عبد اللہ مدنی ٢٠٩ھ ٭ حضرت شیخ احمد جعفر ٦٩٩ھ ٭ حضرت شیخ برہان مکی ٣١٧ھ ٭ حضرت سید طہٰ خراسانی بغدادی ٨٦٦ھ ٭ حضرت مخدوم حافظ عبدالغفور پشاوری ١١١٦ھ ٭ حضرت سید عبدالعزیز تباعی مدنی ٩٤١ھ ٭ حضرت عبدل حنیف رسول شاہی دہلوی ١٢٤٥ ھ ٭ حضرت شیخ فضالت دیلمی٢٧٠ھ ٭ حضرت محمد اکبر مسعود ١١٩٨ھ ٭ حضرت شاہ نور العلی اکبر آبادی ٭ حضرت ابو زکریا یحییٰ بن غوث الاعظم ٦٠٠ھ ٭ حضرت یوسف بن حسین رازی ٣٠٤ھ ۔ ٭ حضرت شیخ علی بن محمد فاضل سورتی ١٣١٥ھ ٭

١٥ شعبان المعظم

٭ حضرت بایزید طفیور بسطامی ٢٦١ھ ٭ حضرت شاہ تاج العلا اکبر آبادی ٭ حضرت شیخ عبدالطیف کشمیری ١١٣٤ھ ٭ حضرت عبید اللہ کرخی ٣٤٠ھ ٭ حضرت علاؤالدین علی واسطی٥٦١ھ ٭ حضرت علی بن حمید گردویہ مصری ٦١٢ھ ٭ حضرت فتح خراسانی بغدادی ٢٧٣ھ ٭ حضرت شاہ محمد یحییٰ بغدادی ٦١٧ھ ٭ ابو الفداء امام اسماعیل بن کثیر دمشقی ٧٧٤ھ ٭ حضرت شیخ نظام الدین بن شیخ عثمان ١٠١٨ھ ۔

١٦ شعبان المعظم

٭ حضرت ابو بکر الداقی ٣٥٩ھ ٭ حضرت شاہ ابو العباس ٧٠٣ھ ٭ حضرت رویم رومی ٢٨٥ھ ٭ حضرت سید احمد عظیم آبادی ٦٩٧ھ ٭ حضرت شرف الدین قتال بغدادی ٧١١ھ ٭ حضرت سید علاؤالدین مدنی ٦٩٩ھ ٭ حضرت سید علی ترمذی ٧٩٩ھ ٭ حضرت سید عمر گیلانی لاہوری ١١١٥ھ ٭ حضرت شیخ غلام غوث سندھی قادری ١٢٥٧ھ ٭ حضرت سید نور بخش گجراتی ٨٠٠ھ ٭ حضرت محمد ابراہیم ترمذی ٣٧٠ھ ٭ حضرت مومن سواتی ١١١٣ھ ۔ ٭ حضرت پیر سید جماعت علی شاہ لاثانی١٣٥٨ھ

١٧ شعبان المعظم

٭ حضرت شیخ اسحق مغربی ٧٧٦ھ ٭ حضرت اسمٰعیل نیشاپوری ٣٦٦ھ ٭ حضرت سید عبدالفتاح گجراتی ٭ حضرت شیخ علی صوفی طبری ٩٠٨ھ ۔ ٭ حضرت مولانا سکندر علی خالصپوری ١٣١٤ھ ٭ پیر سید محمد فضل شاہ جلال پوری (امیر حزب اللہ) ١٣٨٦ھ

١٨ شعبان المعظم

٭ حضرت سید ابو صالح مدنی٦٩٩ھ ٭ حضرت سید عبد الوہاب ٧٩٩ھ ٭ حضرت ابو حفص عمرو حداد ٢٦٥ھ ٭ حضرت لعل شہباز قلندر٦٧٣ھ ٭ علامہ کرم الدین جہلمی ٭ حضرت سید احمد قادری ١٣٦٥ھ۔ ٭ حضرت سید حاجی نور علی جیلانی (نورائی شریف) ١٣٨٣ھ

١٩ شعبان المعظم

٭ حضرت شیخ ابو بکر اشبیلی٢٩٢ھ ٭ حضرت شیخ ابو بکر موافری ٤٩٩ھ ٭ حضرت احمد خراز ٢٨٦ھ ٭ حضرت شیخ اوحدی اصفہانی ٧٣٧ھ ٭ حضرت شیخ شمس الدین ترک٧١٥ھ ٭ حضرت ابو عبداللہ محمد بن سعید مغربی ٢٧٩ھ ۔

٢٠ شعبان المعظم

٭ حضرت سلطان شمس الدین التمش (فرمانر وائے ہند)٦٣٣ھ ٭ حضرت خواجہ قوام الدین لکھنوی ٨٤٠ھ ٭ حضرت علامہ عبد الکافی ناروی الہ آبادی ١٣٥٠ھ (معروف عیسائی ادیب جارج برناڈ شا کے بھتیجے نے ١٣٤٠ھ/١٩٢١ء میں آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا)

٢١ شعبان المعظم

٭ حضرت شیخ ابو طاہر عبدالرزاق اندلسی٣٢٥ھ ٭ حضرت احمد بن عطا شامے ٣٦٩ھ ٭ حضرت لعل شہباز قلندر عثمان مروندی ٦٧٣ھ ٭ حضرت شیخ سلطان ترکمان دمشقی ٧١٤ھ ٭ حضرت خواجہ عبدالقادر قلندر ثالث ٨٠٧ھ ٭ حضرت شاہ جمال کوروی ٨١٢ھ ٭ حضرت ابو نصر محمود بلخی ٨٦٥ھ ۔ ٭ حضرت خواجہ آدم امکنگی ١٠٠٨ھ ٭ علامہ عبد الحکیم فرنگی محلی ١٢٨٥ھ ٭ مولانا رضا علی حنفی بنارسی ١٣١٢ھ ٭ حضرت مولانا مفتی علی محمد مھیری (مترجم سندھی قصیدہ بردہ شریف ، مجموعہ فتاوی دو جلد) ١٣٦٧ھ

٢٢ شعبان المعظم

٭ حضرت ابو علی مروزی ٤٣٤ھ ٭ حضرت ابو البیان ابن الحواری ٥٥١ھ ٭ حضرت شیخ ابو الفرح بغدادی ٥٧٣ھ ٭ حضرت عبدالقادر مکی ٥٨٢ھ ٭ حضرت سید کبیر الدین شاہ دولہ گجراتی ٦٠٣ھ ٭ حضرت شیخ علاؤالدین ابدال مثالی ٨٤٥ھ ٭ حضرت محمد بھکر٩٨٩ھ ۔ ٭ حضرت سرمد دہلوی ١٠٧٠ھ ٭ حضرت فتح قلندر جونپوری ١١١٨ھ ٭ حضرت عبدالوالی لکھنوی ١٢٧٩ھ ٭ حضرت علامہ محمد شاہ بن حسن شاہ محدث رامپوری ١٣٣٨ھ

٢٣ شعبان المعظم

٭ حضرت شیخ رضا رفیقی کشمیری ١٢٧٦ھ ٭ حضرت شیخ محمد عرف سید مرتضیٰ حسینی بلگرامی ثم مصری ١٢٠٥ھ ۔ ٭ حضرت علامہ شیخ محمد بن ہاشم فاضل سورتی ١٣١٥ھ

٢٤ شعبان المعظم

٭ حضرت سید عتیق اللہ چشتی ١١٣١ھ ٭ سید محمد اصغر علوی قادری رضوی١٣٩٧ھ(شیخوپورہ) ٭ پیر محمد شاہ بھیروی (والد پیر محمد کرم شاہ الازہری) ١٣٧٦ھ

٢٥ شعبان المعظم

٭ حضرت شیخ عبداللہ بن وہب (جامع موطا امام مالک)١٩٧ھ ٭ حضرت سید ابراہیم المسبوع الرسوقیہ ٣٧٦ھ ٭ حضرت شیخ صدر الدین قونیوی ٦٢٧ھ ٭ حضرت مولانا صفی الدین سرہندی ١٢٢٨ ھ ٭ حضرت شیخ عبدالمجید ہروی ٤٥٣ھ ٭ حضرت قطب الدین قلندری ٨٨٠ھ ٭ حضرت حاجی شاہ محمد سعید اجمیری ١٢٢٥ھ ۔ ، ٭ حضرت خواجہ محمد حسین چشتی صابری رامپوری ١٣١٢ھ ٭ حضرت مولانا تاج الدین ١٣٢٧ھ/فروری ١٩٢٩ئ ٭ حضرت مولانا تاج الدین ١٣٢٧ھ/٦ فروری ١٩٢٩ئ ٭ حضرت خواجہ غلام علی جان مجددی (شہید مکھڑ ضلع حیدرآباد )١٣٩٧ھ

٢٦ شعبان المعظم

٭ حضرت شیخ ابو الفیض ثوبان بن ابراہیم ذوالنون مصری (رئیس الصوفیائ) ٢٤٦ھ ٭ حضرت شیخ جمال دہلوی ١١٥١ھ ٭ حضرت میر سید محمد کالپوری ابوالعلائی ١٠٧١ھ ۔

٢٧ شعبان المعظم

٭ حضرت شیخ ابو سلیمان دارانی ٢١٥ھ ٭ حضرت شاہ بہلول جالندھری صابری ١١٧٠ھ ٭ حضرت شاہ بہرام چشتی ٨٥٤ھ ٭ حضرت شیخ سیف الدین دہلوی ٩٩٠ھ ٭ حضرت شیخ عبدالعزیز مدنی ١٠٧ھ ٭ حضرت عبدالواسع مکی ٥٩٤ھ ٭ حضرت عبدالخالق گجراتی ١٠٧٨ھ ٭ حضرت شیخ علی بن خلیل مرصعی ٢٩٨ھ ٭ حضرت ابو الحسن علی ہمدانی بصری ٤١٤ھ ٭ حضرت شیخ موسیٰ دیفری ٤٥٩ھ ٭ حضرت شیخ ابو حفص وجیہ الدین سہروردی ٥٦٦ھ ۔

٢٨ شعبان المعظم

٭ حضرت شاہ شیخ بلاول لاہوری ١٠٤٦ھ ٭ حضرت شاہ کبیرجونپوری سہروردی ٩٦٢ھ ۔ ٭ علامہ محمد عالم امرتسری ثم مدنی ١٣٦٢ھ ٭ حضرت علامہ سید اختصاص حسین پھپھوندوی ١٣٦٤ھ ٭ شیخ محمود بن محمد سورتی ١٣١٥ھ ٭ پیر سید سعید شاہ بنوری کوہاٹی (راہنما تحریک پاکستان) ١٣٩٠ھ

٢٩ شعبان المعظم

٭ حضرت اسمٰعیل علی نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام ٭ حضرت شاہ نعمت اللہ قادری پھلواری شریف

٣٠ شعبان المعظم

٭ حضرت شیخ فضل نیاز ٤٨١ھ ٭ حضرت مولانا عبدالحکیم سیالکوٹی ١٠٦٨ھ

رضی اللہ تعالیٰ عنہم و رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین

شوال کی وجہ تسمیہ
اسلامی سال کے دسویں مہینے کا نام شوال المکرم ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ ”شَول ”سے ماخوذ ہے جس کا معنی اونٹنی کا دُم اٹھانا (یعنی سفر اختیار کرنا) ہے۔ اس مہینہ میں عرب لوگ سیر و سیاحت اور شکار کھیلنے کے لئے اپنے گھروں سے باہر چلے جاتے تھے۔ اس لئے اس کا نام شوال رکھا گیا۔
اس مہینہ کی پہلی تاریخ کو عید الفطر ہوتی ہے جس کو یوم الرحمۃ بھی کہتے ہیں ۔ کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت فرماتا ہے۔ اور اسی روز اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کو شہد بنانے کا الہام کیا تھا۔ اور اسی دن اللہ تعالیٰ نے جنت پیدا فرمائی۔ اور اسی روز اللہ تبارک و تعالیٰ نے درختِ طوبیٰ پیدا کیا۔ اور اسی دن کو اللہ عزوجل نے سیدنا حضرت جبرائیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وحی کے لئے منتخب فرمایا۔ اور اسی دن میں فرعون کے جادوگروں نے توبہ کی تھی۔ (فضائل ایام و الشہور ، صفحہ ٤٤٣،غنیہ الطالبین صفحہ٤٠٥، مکاشفۃ القلوب صفحہ٦٩٣)
اور اسی مہینہ کی چوتھی تاریخ کو سید العالمین رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نجران کے نصرانیوں کے ساتھ مباہلہ کےلئے نکلے تھے اور اسی ماہ کی پندرہویں تاریخ کو اُحد کی لڑائی ہوئی۔ جس میں سید الشہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ شہید ہوئے تھے اور اسی ماہ کی پچیس تاریخ سے آخرِ ماہ تک جتنے دن ہیں وہ قوم عاد کے لئے منحوس دن تھے جن میں اللہ جل شانہ، نے قوم عاد کو ہلاک فرمایا تھا۔ (فضائل ایام والشہور صفحہ ٤٤٤، بحوالہ عجائب المخلوقات صفحہ ٤٦)
 
شوال کی فضیلت
یہ مبارک مہینہ وہ ہے کہ جو حج کے مہینوں کا پہلا مہینہ ہے (یعنی حج کی نیت سے آغاز ِسفر) اسے شَہْرُ الْفِطْر بھی کہتے ہیں اس کی پہلی تاریخ کو عید الفطر ہوتی ہے ۔ جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بخشش کا مژدہ سناتا ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے۔
اِذَاکَانَ یَوْمُ عِیْدِہِمْ یَعْنِیْ یَوْمَ فِطْرِہِمْ بَاہـٰی بِہِمْ مَلَائِکَتَہ، فَقَالَ مَاجَزَآءُ اَجِیْرٍ وَفّٰی عَمَلَہ، قَالُوْرَبَّنَا جَزَآءُ ہ، اَنْ یُّوَفّٰی اَجْرُہ، قَالَ مَلَائِکَتِیْ عَبِیْدِیْ وَاِمَائِیْ قَضَوْ فَرِیْضَتِیْ عَلَیْہِمْ ثُمَّ خَرَجُوْا یَعُجُّوْنَ اِلَی الدُّعَآءِ وَ عِزَّتِیْ وَجَلَالِیْ وَکَرَمِیْ وَ عُلُوِّیْ وَارْتِفَاعِ مَکَانِیْ لَاُجِیْبَنَّہُمْ فَیَقُوْلُ ارْجِعُوْا قَدْغَفَرْتُ لَکُمْ وَ بدَّلْتُ سَیِّاٰتِکُمْ حَسَنَاتٍ قَالَ فَیَرْجِعُوْنَ مَغْفُوْرًا لَّہُمْ ۔ رواہ البیہقی فی شعب الایمان (مشکوٰۃ صفحہ ١٨٣)
جب عید کا دن آتا ہے یعنی عید الفطر کا دن ۔ تو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے کہ اس مزدور کی کیا مزدوری ہے جس نے اپنا کام پورا کیا ہو ۔ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار اس کی جزا یہ ہے کہ اسے پورا اجر دیا جائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ۔ اے میرے فرشتو! میرے بندوں اور باندیوں نے میرے فریضہ کو ادا کردیا ہے پھر وہ (عیدگاہ کی طرف) نکلے دعا کیلئے پکارتے ہوئے ۔ اور مجھے اپنی عزت و جلال اور اکرام اور بلندی اور بلند مرتبہ کی قسم میں ان کی دعا قبول کروں گا ۔ پس فرماتا ہے اے میرے بندو! لوٹ جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا۔ اور تمہاری برائیاں نیکیوں سے بدل دیں ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ اس حال میں واپس لوٹتے ہیں کہ ان کی بخشش ہوچکی ہوتی ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ، سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص کو جس نے ماہِ رمضان میں روزے رکھے، عید الفطرکی رات میں پورا پورا اجر عطا فرمادیتا ہے اورعید کی صبح فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ زمین پر جاؤ اور ہر گلی، کوچہ اور بازار میں اعلان کردو (اس آواز کو جن و انس کے علاوہ تمام مخلوق سنتی ہے) کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں! اپنے رب کی طرف بڑھو وہ تمہاری تھوڑی نماز کو قبول کرکے بڑا اجر عطا فرماتا ہے اور بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے پھر جب لوگ عید گاہ روانہ ہوجاتے ہیں اور وہاں نماز سے فارغ ہوکر دعا مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس وقت کسی دعا اور کسی حاجت کو رد نہیں فرماتا اور کسی گناہ کو بغیر معاف کئے نہیں چھوڑتا اور لوگ اپنے گھروں کو ”مغفور” ہو کر لوٹتے ہیں ۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ ٤٠٥)
عید کے دن شیطان کا رونا
حضرت وہب بن منبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ہر عید کے دن ابلیس چلا کر روتا ہے ۔ دوسرے شیاطین اس کے پاس جمع ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں : اے ہمارے سردار آپ کیوں ناراض ہیں ؟ وہ کہتا ہے: اللہ تعالیٰ نے اس دن میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو معاف کردیا۔ اب تم پر لازم ہے کہ انہیں شہوات و لذّات میں ڈال کر غافل کردو (مکاشفۃ القلوب صفحہ٦٩٣)
عید کی وجہ تسمیہ
عید کو عید اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دن اپنے بندوں کی طرف فرحت و شادمانی باربار عطا کرتاہے یعنی عید اور عود ہم معنی ہیں ۔ بعض علماء کا قول ہے کہ عید کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندہ کو منافع، احسانات اور انعامات حاصل ہوتے ہیں یعنی عید عوائد سے مشتق ہے اور عوائد کے معنی ہیں منافع کے یا عید کے دن، بندہ چونکہ گریہ و زاری کی طرف لوٹتا ہے اور اس کے عوض اللہ تعالیٰ بخشش و عطا کی جانب رجوع فرماتا ہے۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ بندہ اطاعت الٰہی سے اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتا اور فرض کے بعد سنت کی طرف پلٹتا ہے، ماہ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد ماہ شوال کے چھ روزوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اسلئے اس کو عید کہتے ہیں عید کی وجہ تسمیہ کے متعلق بعض علماء کا کہنا ہے کہ عید کو اس لئے عید کہا گیا ہے کہ اس دن مسلمانوں سے کہا جاتا ہے (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) کہ اب تم مغفور ہو کر اپنے گھروں اور مقامات کو لوٹ جاؤ۔ بعض علماء نے فرمایا کہ اس کو عید اس لئے کہا گیا کہ اس میں وعدہ و وعید کا ذکر ہے ، باندی اور غلام کی آزادی کا دن ہے، حق تعالیٰ اس دن اپنی قریب اور بعید مخلوق کی طرف توجہ فرماتا ہے ، کمزور و ناتواں بندے اپنے رب کے سامنے گناہوں سے توبہ اور رجوع کرتے ہیں ۔ (غنیہ الطالبین صفحہ٤٠٤ اور ٤٠٥)
 
عید منانے کا اسلامی طریقہ
عید الفطر کے مستحب کام
(١) حجامت بنوانا (٢) ناخن ترشوانا (٣) غسل کرنا (٤) مسواک کرنا (٥) اچھے کپڑے پہننا نیا ہو تو بہتر ورنہ دھلا ہوا ہو ۔ (٦) ساڑھے چار ماشہ چاندی کی انگوٹھی پہننا ۔ (٧) خوشبو لگانا۔ (٨) فجرکی نماز محلہ کی مسجد میں ادا کرنا۔ (٩) نبی کریم اکی بارگاہ میں بصد خلوص درود و سلام کا نذرانہ پیش کرنا (١٠) عید گاہ میں جلدی جانا (١١) عید گاہ کو پیدل جانا (١٢) واپسی پر دوسرا راستہ اختیار کرناراستے میں تکبیرتشریق پڑھتے ہوئے جانا (١٣) نمازعید کو جانے سے پہلے چند کھجوریں کھالینا۔ (١٤) تین یا پانچ یا سات یا کم و بیش مگر طاق ہوں کھجوریں نہ ہوں تو کوئی میٹھی چیز کھالے۔ نماز سے پہلے کچھ نہ کھایا تو گنہگار نہ ہوگا مگر عشاء تک نہ کھایا تو گنہگار بھی ہوگا اورعتاب بھی کیا جائے گا۔ (١٥) نماز عید کے بعد معانقہ و مصافحہ کرنا اور رمضان کی کامیابیوں پر مبارکباد اور عید کی مبارکباد دینا۔ (١٦) سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ ٣٠٠ مرتبہ پڑھنا بے حد اجر و ثواب کا باعث ہے۔
عید کے دن کا انمول وظیفہ
حضور اکرم، سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا : جس نے عید کے دن تین سو بار یہ ورد پڑھا سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہ (اللہ پاک ہے اور اس کی حمد ہے) پھر اس کا ثواب تمام مسلمان مُردوں کو بخش دیا، تو ہر قبر میں ایک ہزارا نوار داخل ہوں گے اور جب یہ آدمی فوت ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس کی قبر میں بھی ایک ہزارا نوار داخل کرے گا۔ (مکاشفۃ القلوب صفحہ ٦٩٢)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عید
حضرت ِ جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید کی نمازیں ادا کی ہیں اور ہر دفعہ انہیں اذان اور اقامت کے بغیر ہی ادا کیا ۔ (مسلم شریف )
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت شریفہ تھی کہ عید کی نماز ہمیشہ جامع مسجد کے باہر یا کسی اور جگہ کھلے میدان میں پڑھنے کا حکم دیتے، البتہ ایک دفعہ جب بارش ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں ہی نماز ادا کرلی۔ (بخاری شریف)
حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم جب عید گاہ کیلئے روانہ ہوتے تو راستے میں اور نمازِ عید شروع کرنے سے قبل تک تکبیر پڑھتے رہتے ، اسے بلند آواز سے پڑھتے، اور واپس ہمیشہ دوسرے راستہ سے آتے، لیکن واپسی کے وقت تکبیر نہیں پڑھتے۔ (بخاری شریف، سننِ کبریٰ بیہقی)
رسول اکرم محبوبِ معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ تعالی عنہ کو (جب وہ نجران میں تھے ) خط لکھا کہ عید الاضحی کی نماز جلدی پڑھاؤ اور عید الفطر کی دیر سے اور اس کے بعد لوگوں کو وعظ و نصیحت کرو ۔ (مسند امام شافعی)
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی عید
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے بیٹے کو عید کے دن دیکھا، اس کی قمیض پرانی تھی، تو رو پڑے۔ اس نے کہا: آپ کیوں روتے ہیں ؟ فرمایا: اے بیٹا ! مجھے خطرہ ہے عید کے دن تیرا دل ٹوٹ جائے گا، جب بچے تمہیں یہ پُرانی قمیض پہنے دیکھیں گے۔ اس نے کہا: دل اس کا ٹوٹتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہ ہو، یا اس نے ماں باپ کی نافرمانی کی ہو اور مجھے امید ہے کہ آپ کی رضا کے باعث اللہ تعالیٰ مجھے سے راضی ہوگا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ روپڑے اور اسے سینہ سے لگالیا اور اس کے لیے دعا کی۔ (مکاشفۃ القلوب ، صفحہ ٦٩٣)
عید کے دن حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا آپ اس وقت بھوسی کی روٹی کھارہے تھے ، اس نے عرض کیا کہ آج عید کا دن ہے اور آپ چوکر (بھوسی) کی روٹی کھارہے ہیں ؟ آپ نے جواب دیا آج عید تو اس کی ہے جس کا روزہ قبول ہو، جس کی محنت مشکور ہو، اور جس کے گناہ بخش دیے گئے ہوں ۔ آج کا دن بھی ہمارے لئے عید کا دن ہے کل بھی ہمارے لئے عید ہوگی اور ہر دن ہمارے لئے عید کا دن ہے جس دن ہم اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کریں ۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ ٤١١)
اہم نکتہ
عید کی نماز سے فارغ ہوکر لوگ عید گاہ سے لوٹتے ہیں ، کوئی گھر کو جاتا ہے ، کوئی دکان کو اور کوئی مسجد کو تو اس وقت یہ حالت دیکھ کر مسلمان کو چاہیے کہ اس منظر اور کیفیت کو یاد کرے کہ اس طرح لوگ قیامت میں جزا و سزا دینے والے بادشاہ کے حضور سے جنت اور دوزخ کی طرف لوٹ کر جائیں گے، جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے
وَتُنْذِرَ یَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَیْبَ فِیْہِ فَرِیْقٌ فِی الْجَنَّۃِ وَفَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ (پارہ ٢٥،سورۃ شوریٰ، آیت ٧)
اور تم ڈراؤ اکٹھے ہونے کے دن سے جس میں کچھ شک نہیں ، ایک گروہ جنت میں ہے اور ایک گروہ دوزخ میں (ترجمہ کنز الایمان ، غنیہ الطالبین صفحہ ٤١٢)
 
اسلامی تہوار مثالی معاشرے کے قیام کی ضمانت
اقوامِ عالم مختلف مواقع پر خوشیوں کے اظہار کیلئے اجتماعی طور پر تہوار مناتی ہیں ، یہ تہوار مذہبی روایات اور قومی جذبات کے آئینہ دار ہوتے ہیں ۔ لیکن یہ ایک امر مسلّمہ ہے کہ اسلامی تہوار محض تفریحِ طبع کیلئے منعقد نہیں ہوتے بلکہ اسلامی معاشرے کو خوشحالی اور فلاحی بنانے کا ذریعہ ہوتے ہیں ۔ مختلف ادیان و مذاہب کے ماننے والے جتنے تہوار مناتے ہیں اسے ہر طرح کے مادّی سازو سامان سے معمور رکھتے ہیں ۔عیش و عشرت، راگ و موسیقی، نغمہ و سرود، شراب و شباب اور میلوں تماشوں میں محو و مگن ہوتے ہیں ۔ بحمدہ تعالیٰ مسلمانوں کے تمام تہوار ، دینی شعار کی طرح صرف ذاتی خوشی کیلئے نہیں بلکہ اللہ ل کی رضا کیلئے ہوتے ہیں ، ان تہواروں کا انعقاد اللہ ل اور اس کے پیارے محبوب علیہ الصلوٰۃ والسلام کے احکام پر عمل کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ اسی لیے تہوار کاآغاز ہی اللہ تعالیٰ کی کبریائی کے اعلان اور اس کے ذکر و اذکار سے ہوتا ہے۔ اسلامی تہوار غم گساری بھی سکھاتا ہے کہ اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کے معاشی استحکام کیلئے ایک متمول مسلمان اپنا کردار ادا کرے۔ بین المسلمین مواخات کے رشتے اسلامی تہوار کے ذریعے مضبوط اور مربوط ہوتے ہیں ۔ مسلمانوں کا باہم ایک دوسرے سے معانقہ کرنا ، مصافحہ کرنا ، رمضان کی مبارکباد پیش کرنا ، تراویح و تسبیحات کی قبولیت کی ایک دوسرے کے حق میں دعا کرنا ، ایک دوسرے کے حق میں مغفرت کی دعا کرنا ، تحائف کا تبادلہ کرنا اور طعام کی دعوت دیناوغیرہ، ایک اخلاقی ،مثالی اور فلاحی معاشرے کے قیام کی ضمانت دیتے ہیں ۔یہ معمولات و عادات زندہ مسلمانوں کے درمیان ہی نظر نہیں آتے ہیں بلکہ مسلمانوں کے تہوار اپنے پیش رو مرحومین کو بھی نظر انداز نہیں کرتے ، نماز ِ عید کی ادائیگی کے بعد اور برادرانِ اسلام سے ملاقات کے بعد قبرستان جانا اور مسلمان مرحومین کے حق میں دعائے مغفرت کرنا ، سنّت ِ متواترہ ہے۔
حضور غوث الثقلین شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، فرماتے ہیں ، ”مسلمان کی عید ، طاعت و بندگی کی علامات کے ظاہر ہونے سے ہے، گناہوں اور خطاؤں سے دوری کی بنیاد پر ہے ، سیأات کے عوض حسنات (نیکیوں ) کے حصول اور درجات کی بلندی کی بشارت ملنے پر ہے ، اللہ تعالیٰ جل شانہ، کی طرف سے خلعتیں ، بخششیں اور کرامتیں حاصل ہونے کے باعث ہے، مسلمان کو نورِ ایمان سے معمور سینہ کی روشنی ، قوتِ یقین اور دوسری نمایاں علامات کے سبب دل میں سکون پیدا ہوتا ہے پھر دل کے اتھاہ سمندر سے علوم و فنون اور حکمتوں کا بیان زبان پر رواں ہوجانے سے عید کی حقیقی مسرتیں حاصل ہوتی ہیں ۔” (غنیہ الطالبین ، صفحہ ٤١٠ ، ٤١١)
شوال کے چھ روزے
شوال میں (عید کے دوسرے دن سے ) چھ دن روزے رکھنا بڑا ثواب ہے جس مسلمان نے رمضان المبارک اور ماہِ شوال میں چھ ٦ روزے رکھے تو اس نے گویا سارے سال کے روزے رکھے یعنی پورے سال کے روزوں کا ثواب ملتا ہے۔ سیدنا حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ، سے روایت ہے حضور رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ اَتْبَعَہ، سِتًّا مِّنْ شَوَّالِ کَانَ کَصِیَامِ الدَّہْرِ۔ رواہ البخاری و مسلم (مشکوٰۃ صفحہ ١٧٩)
جس آدمی نے رمضان شریف کے روزے رکھے۔ اور پھر ان کے ساتھ چھ روزے شوال کے ملائے تو اس نے گویا تمام عمر روزے رکھے۔
نوٹ
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ”تمام عمر روزے رکھنے” کا مطلب یہ ہے کہ رمضان شریف کے علاوہ ہر ماہِ شوال میں چھ ٦ روزے رکھے جائیں تو تمام عمر روزے رکھنے کا ثواب ملے گا۔ اگر اس نے صرف ایک ہی سال یہ روزے رکھے تو سال کے روزوں کا ثواب ملے گا۔ پھر یہ روزے اکٹھے رکھے جائیں یا الگ الگ ، ہر طرح جائز ہیں مگر بہتر یہ ہے کہ ان کو متفرق طور پر رکھا جائے۔ یہی حنفی مذہب ہے۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٤٧بحوالہ لمعات حاشیہ مشکوۃ صفحہ ١٧٩)
شوال میں ایامِ بیض کے روزے
علاوہ ازیں ماہِ شوال میں متذکرہ چھ ٦ روزوں کے علاوہ ١٣، ١٤، ١٥ چاند کی تاریخوں (ایامِ بیض) میں اسی طرح روزے رکھے جاسکتے ہیں جیسا کہ دیگر مہینوں میں انہی ایام میں رکھتے ہیں ۔اس حوالے سے صحاح ستّہ (بخاری ، مسلم ، ابو داؤد، ترمذی، نسائی ، ابن ماجہ شریف ) میں کئی روایات ملتی ہیں ۔
ماہِ شوال میں وقوع پذیر ہونے والے اہم واقعات
٭ پہلی نماز عید ۔۔۔۔۔۔٢ہجری ٭ غزوہ بنی قینقاع۔۔۔۔۔۔٢ہجری ٭ غزوہ احد۔۔۔۔۔۔، ٣ہجری ٭ شہادت حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٣ ہجری٭ غزوہ خندق (الاحزاب) ۔۔۔۔۔۔٥ہجری ٭ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے “طائف” کا محاصرہ فرمایا۔۔۔۔۔۔٨ھ٭ وفات حضرت ابو قحافہص (والد حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ ) ۔۔۔۔۔۔١٤ ہجری ٭ جنگ قادسیہ۔۔۔۔۔۔١٥ہجری ٭ فتح بیت المقدس شریف۔۔۔۔۔۔١٦ ہجری ٭ امّ کلثوم بنت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا نکاح حضرت ِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے۔۔۔۔۔۔١٧ ہجری٭  وفات ہرقل قیصرروم۔۔۔۔۔۔٢٠ ہجری ٭ وفات ابن کعب۔۔۔۔۔۔٢٢ہجری ٭ تکمیل فتح آذر بائیجان۔۔۔۔۔۔٢٨ہجری ٭ وفات الحکم۔۔۔۔۔۔٣١ہجری ٭ وفات عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٣٢ہجری ٭ امارت ابو موسیٰ اشعری بر کوفہ۔۔۔۔۔۔٣٤ہجری ٭ وفات حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٣٦ہجری ٭ وفات صہیب رومی ص۔۔۔۔۔۔ ٣٨ہجری٭ وفات عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٣٤ہجری ٭ ابتداء فتوحات بخارا تاشقند۔۔۔۔۔۔٥٤ہجری ٭ فتح خوارزم۔۔۔۔۔۔٦٢ ہجری ٭ قتل مختار ثقفی۔۔۔۔۔۔٦٧ہجری ٭ وفات ابو واقد اللیشی رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٦٨ہجری ٭ شام میں طاعون کی وبا۔۔۔۔۔۔٧٩ہجری ٭ وفات خلیفہ عبدالملک و خلافت ولید۔۔۔۔۔۔٨٥ہجری ٭ وفات عتبہ بن عبید رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٨٧ہجری ٭ حضرت زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ کی زہر سے شہادت۔۔۔۔۔۔٩٤ہجری/جولائی ٧١٣ء ٭ وفات حجاج بن یوسف ثقفی۔۔۔۔۔۔٩٥ہجری ٭ وفات ابو عثمان النہدی۔۔۔۔۔۔١٠٠ہجری ٭ وفات سکینہ بنت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما۔۔۔۔۔۔١١٧ہجری ٭ وفات حافظ قتادہ محدث۔۔۔۔۔۔١١٨ہجری ٭ وفات معاویہ بن ہشام ۔۔۔۔۔۔١١٩ہجری ٭ وفات امیر مدینہ ابو بکر الانصاری ۔۔۔۔۔۔١٢٠ہجری ٭ وفات یحییٰ النحوی۔۔۔۔۔۔١٢٨ہجری ٭ وفات قاضی دمشق یزید بن عبداللہ بن عبدالملک۔۔۔۔۔۔١٣٠ہجری ٭ وفاتِ فضیلۃ الشیخ حضرت ایوب السختیانی تابعی علیہ الرحمۃ۔۔۔۔۔۔١٣١ہجری ٭ اندلس میں اموی حکومت ۔۔۔۔۔۔١٣٨ہجری/مارچ ٧٥٦ء ٭ وفات حجاج بن ارطاط۔۔۔۔۔۔١٤٩ہجری ٭ قتل عبداللہ الاشتر۔۔۔۔۔۔١٥١ہجری ٭ بغداد میں قصر الخلد کی تعمیر۔۔۔۔۔۔ ١٥٧ہجری ٭ وفات ابو الحرث الفقیہہ۔۔۔۔۔۔١٥٩ہجری ٭ وفات قاضی ابو بکر بن ابی سیرہ ۔۔۔۔۔۔١٦٢ہجری ٭ وفات خالد برمکی۔۔۔۔۔۔١٦٥ہجری ٭ وفات سلیمان بن بلا ل علیہ الرحمۃ۔۔۔۔۔۔١٧٢ہجری ٭ وفات فضل بن یحییٰ برمکی۔۔۔۔۔۔١٩٢ہجری ٭ وفات فقیہہ اندلس زیاد۔۔۔۔۔۔١٩٣ہجری ٭ وفات عبدالرحمن المحاربی۔۔۔۔۔۔١٩٥ہجری ٭ حضرت علامہ معن بن عیسیٰ (ابو یحییٰ) تلمیذ امام مالک ۔۔۔۔۔۔١٩٨ھ ٭ وفات یونس بن بکیر۔۔۔۔۔۔١٩٩ہجری ٭ اعلان ولی عہدی امام علی رضا ابن امام موسی کاظم علیہ الرحمۃ۔۔۔۔۔۔٢٠١ہجری ٭ وفات حافظ ابو داؤد طیالسی۔۔۔۔۔۔٢٠٤ہجری ٭ بنیادِ دولتِ طاہریہ۔۔۔۔۔۔٢٠٥ہجری ٭ وفات امام فراء نحوی۔۔۔۔۔۔٢٠٧ہجری ٭ وفات عبدالرزاق بن الہمام صنعانی۔۔۔۔۔۔٢١١ہجری ٭ مازیار کی بغاوت۔۔۔۔۔۔٢٢٤ہجری ٭ وفات الحافظ ابو الولید الطیالسی۔۔۔۔۔۔٢٢٧ہجری ٭ وفات لقیم بن حماد۔۔۔۔۔۔٢٢٨ہجری ٭ وفات الحکم القنطری۔۔۔۔۔۔٢٣٢ہجری ٭ وفات حاتم الاصم الزاہد۔۔۔۔۔۔٢٣٧ہجری ٭ مروہ میں وبائی زکام ۔۔۔۔۔۔ ٢٤٠ہجری ٭ قتل متوکل ، خلافتِ المنتصر۔۔۔۔۔۔٢٤٧ہجری ٭ وفات امام بخاری علیہ الرحمۃ۔۔۔۔۔۔٢٥٦ ہجری٭ رومیوں کا ملطیہ پر حملہ۔۔۔۔۔۔٢٥٩ہجری ٭ وفات شیخ الاطباء حسین الشعرانی۔۔۔۔۔۔٢٦٠ہجری ٭ وفات بایزید بسطامی علیہ الرحمۃ۔۔۔۔۔۔٢٦١ہجری ٭ وفات یعقوب صفار بانی حکومت صفاریہ ۔۔۔۔۔۔٢٦٦ہجری ٭ وفات امام حضرت ابو داؤد (صاحبِ سنن) ١٦شوال ،٢٧٥ہجری ٭ وفات حضرت شیخ ابو سعید الخراز ۔۔۔۔۔۔٢٨٦ہجری ٭ وفات فقیہہ عثمان الانماطی۔۔۔۔۔۔٢٨٨ہجری ٭ وفات ابو العباس الہروی۔۔۔۔۔۔٢٩٢ہجری ٭ وفات قاضی یوسف الازدی۔۔۔۔۔۔٢٩٧ہجری ٭ وفات حضرت جنید بغدادی ۔۔۔۔۔۔ ٢٩٨ ہجری ٭ وفات فقیہہ مغرب ابو عثمان الحداد۔۔۔۔۔۔٣٠٢ہجری ٭ وفات ابراہیم الانماطی المفسر ۔۔۔۔۔۔ ٣٠٣ ہجری ٭ وفات امام ابن جریر طبری مؤرخ و مفسر۔۔۔۔۔۔٣١٠ہجری ٭ دریائے دجلہ منجمد ہوگیا ۔۔۔۔۔۔ ٣١٤ ہجری ٭ قتل عباسی خلیفہ المقتدر بااللہ و خلافت القاہر البغدادی۔۔۔۔۔۔٢٧شوال،٣٢٠ہجری ٭ بغداد میں شدید بادوباراں ۔۔۔۔۔۔٣٢٧ہجری ٭ وفات ابو بکر ابن الانباری۔۔۔۔۔۔٣٢٨ہجری ٭ وفات اسحق البحرجانی ۔۔۔۔۔۔ ٣٣٧ہجری ٭ خلافت ِ مطیع اللہ میں حجرِ اسود کو ٢٠ سال بعد کعبہ میں واپس لایا گیا۔۔۔۔۔۔ ٣٣٩ہجری٭ وفات المنصور العبیدی۔۔۔۔۔۔٣٤١ہجری ٭ وصال علامہ ابو الحسین عبد الباقی بن قانع ۔۔۔۔۔۔٣٥١ ہجری ٭ وفات حافظ عبدالباقی بن مزروقی ۔۔۔۔۔۔٣٥١ہجری ٭ وفات ابن حبان مشہور محدث۔۔۔۔۔۔٣٥٤ہجری ٭ وفات کافور الا خشیدی (حبشی غلام ، متنبی کا ہمعصر اور مصرو شام کا والی و حاکم) ۔۔۔۔۔۔٣٥٦ہجری ٭ رومیوں کا حمص پر حملہ ۔۔۔۔۔۔٣٥٨ہجری ٭ وفات ابو بکر عبد العزیز الحنبلی ۔۔۔۔۔۔٣٦٣ہجری ٭ قتل عزالدولہ بن معز الدولہ۔۔۔۔۔۔٣٦٧ہجری ٭ وفات عضد الدولہ ابن بویہ ۔۔۔۔۔۔٣٧٢ہجری ٭ ملتان پر جلم بن شیبان قرامطی اسماعیلی کا قبضہ۔۔۔۔۔۔٣٧٣ہجری ٭ وفات ابو احمد العسکری۔۔۔۔۔۔٣٨٢ہجری ٭ وفات الولید الغمری الاندلسی۔۔۔۔۔۔٣٩٢ہجری ٭ وفات (ماہر فلکیات ، ہیت دان ) ابن یونس الصدفی مؤجدِ لوگارتھم۔۔۔۔۔۔٣٩٩ھ ٭ بحالیِ خلافت محمد المہدی ۔۔۔۔۔۔٤٠٠ ہجری ٭ محمود غزنوی کا ملتان پر قبضہ۔۔۔۔۔۔٤٠١ہجری ٭ بحالی سلیمان الاموی الاندلسی ۔۔۔۔۔۔ ٤٠٣ہجری ٭ وفات ابو محمد بن الاکفانی۔۔۔۔۔۔٤٠٥ہجری ٭ وفات امام ابو حامد الاسفراینی (چوتھی صدی کے مجدد) ۔۔۔۔۔۔ ٤٠٦ ہجری ٭ وفات المالینی ۔۔۔۔۔۔٤١٢ہجری ٭ وفات سلطان شرف الدولہ ۔۔۔۔۔۔ ٤١٦ ہجری ٭ وفات محمود غزنوی و تخت نشینی مسعود غزنوی۔۔۔۔۔۔٤٢١ہجری ٭ سلجوقیوں کی حکومت کا آغاز۔۔۔۔۔۔٤٢٩ہجری ٭ وفات ابولحسن مکی صاحبِ اعراب القرآن۔۔۔۔۔۔٤٣٠ہجری ٭ وفات ابو طاہر الغباری ۔۔۔۔۔۔٤٣٢ہجری ٭ وفات حافظ ابو ذر الفقیہہ المالکی ۔۔۔۔۔۔٤٣٤ہجری ٭ وفات سلطان جلال الدولہ ویلمی۔۔۔۔۔۔٤٣٥ہجری ٭ وفات ابو طالب البزاز۔۔۔۔۔۔٤٤٠ ہجری ٭ وفات ابو عمر والدانی۔۔۔۔۔۔٤٤٤ہجری ٭ وفات تاج الائمہ ابو العباس المصری۔۔۔۔۔۔٤٤٥ہجری ٭ وفات ابو عبداللہ بن ماکولا۔۔۔۔۔۔٤٤٧ہجری ٭ وفات ملک شاہ سلجوقی۔۔۔۔۔۔٤٨٥ہجری ٭ وفات المعتمد علی اللہ الاندلسی۔۔۔۔۔۔٤٨٨ہجری ٭ وفات ابو الفوارس الہاشمی۔۔۔۔۔۔٤٩١ہجری ٭ فیروز کوہ میں غوریوں کی ابتداء ۔۔۔۔۔۔٤٩٣ ہجری ٭ مودود والی اندلس کو ایک باطنی نے عید کی نماز میں قتل کردیا۔۔۔۔۔۔٥٠٧ہجری ٭ حکومتِ ارسلان شاہ غزنوی۔۔۔۔۔۔٥٠٨ہجری ٭ وفات علی بن بنہان الکاتب۔۔۔۔۔۔٥١١ہجری ٭ وفات ابو علی بن المہدی۔۔۔۔۔۔٥١٥ ہجری ٭ وفات حسین فراء البغوی (مفسر) ۔۔۔۔۔۔٥١٦ہجری ٭ وفات ابن الفاعوس۔۔۔۔۔۔٥٢١ہجری ٭ الآمر خلیفہ فاطمی ۔۔۔۔۔۔٥٢٤ہجری ٭ وفات سلطان محمود سلجوقی۔۔۔۔۔۔٥٢٥ہجری ٭ وفات ابو بکر بن التبان الواسطی۔۔۔۔۔۔٥٤٤ہجری ٭ وفات ابو الفتوح الطائی۔۔۔۔۔۔٥٥٥ہجری ٭ نور الدین نے فرنگیوں کو قلعات سے نکال دیا۔۔۔۔۔۔٥٦١ہجری ٭ وفات قطب الدین مسعود والی موصل۔۔۔۔۔۔ ٥٦٥ ہجری ٭ وفات علامہ ابو محمد بن الخشاب ۔۔۔۔۔۔٥٦٧ہجری ٭ وفات ابو نزار الحسن النحوی۔۔۔۔۔۔٥٦٨ہجری ٭ وفات نور الدین محمود زنگی ۔۔۔۔۔۔٥٦٩ہجری ٭ وفات حامد ابن ابی الحجر۔۔۔۔۔۔٥٧٠ھ ٭ وفات عمر اُنز حاکم سندھ۔۔۔۔۔۔ ٥٧٣ ہجری ٭ شہاب غوری کا لاہور پر قبضہ۔۔۔۔۔۔٥٨٢ہجری ٭ وفات ابو طاہر التمیمی۔۔۔۔۔۔ ٥٨٧ہجری ٭ وفات شیخ عبدالوہاب جیلانی ۔۔۔۔۔۔٥٩٣ہجری ٭ وفات ابو علی الفارسی ۔۔۔۔۔۔٥٩٤ ہجری ٭ وفات امام فخرالدین رازی ۔۔۔۔۔۔٦٠٦ ہجری ٭ ولادت مخدوم شرف الدین یحییٰ منیری ۔۔۔۔۔۔٦٦١ ہجری ٭ قتل کافور ملک۔۔۔۔۔۔٧١٦ہجری ٭ وفات برہان الرشیدی ۔۔۔۔۔۔٧٤٩ ہجری ٭ وفات مخدوم شرف الدین یحییٰ منیری ۔۔۔۔۔۔٧٨٢ہجری ٭ خلافت المعتصم دوبارہ ۔۔۔۔۔۔٧٨٧ ہجری ٭ وفات حضرت خواجہ صوفی کمال خجندی تبریزی۔۔۔۔۔۔٧٩٢ ہجری ٭ وفات الظاہر برقوق ۔۔۔۔۔۔٨٠١ہجری٭ حرم کعبہ میں آگ لگی ۔۔۔۔۔۔٨٠٢ ہجری ٭ وفات قاضی القضاۃ صدر الدین المناوی ۔۔۔۔۔۔٨٠٣ہجری ٭ وفات جمال الدین یوسف الحمودی۔۔۔۔۔۔٨٠٩ہجری ٭ وفات صاحب قاموس مجد الدین الفیروز آبادی ۔۔۔۔۔۔ ٨١٧ ہجری ٭ وفات بدرالدین بن قاضی غازی اسرائیل (معروف صوفی) ۔۔۔۔۔۔ ٨١٩ ہجری ٭ وفات نور الدین بن سلامہ۔۔۔۔۔۔٨٢٨ہجری ٭ وفات ابو بکر محمد بن محمد عاصم مالکی نحوی ۔۔۔۔۔۔١١شوال، ٨٢٩ہجری ٭ وفات تاج الدین محدث بعلبکی۔۔۔۔۔۔٨٣٠ہجری ٭ وفات ابن الرسام الحلبی۔۔۔۔۔۔٨٤٤ہجری ٭ حکومت علاؤالدین عالم شاہ ۔۔۔۔۔۔٨٤٩ہجری ٭ خلافت سلیمان قانونی ۔۔۔۔۔۔٩٢٦ہجری ٭ وفات شیخ زادہ الحنفی ۔۔۔۔۔۔٩٧١ہجری ٭ وفات امام عبدالوہاب الشعرانی۔۔۔۔۔۔٩٧٣ہجری٭  برہان الملک اول نواب اودھ کا والی ہوا ۔۔۔۔۔۔١١٣٣ ہجری ٭ وفات سردار دوست محمد خان بانی ریاست بھوپال۔۔۔۔۔۔١١٣٩ہجری ٭ وفات ارادت خان واضح ۔۔۔۔۔۔١١٥٧ہجری ٭ جنگ پلاسی۔۔۔۔۔۔١١٧٠ہجری ٭ خلافت عبدالحمید اول سلطنتِ عثمانیہ ۔۔۔۔۔۔١١٨٧ہجری ٭ ایران پر قاچاری حکومت کی ابتدا۔۔۔۔۔۔١٢١٠ہجری ٭ طائف پر وہابیوں کا قبضہ ۔۔۔۔۔۔٢٥شوال ، ١٢١٧ہجری/١٨فروری ١٢٠٢ء ٭ وفات عبدالعزیز محدث دہلوی ۔۔۔۔۔۔١٢٣٩ ہجری (مجدد قرن سیز دہم) ٭ ولادت ِ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا ۔۔۔۔۔۔١١شوال ١٢٧٢ہجری٭ وفات میر انیس (مرثیہ گو شیعہ شاعر) ۔۔۔۔۔۔١٢٩١ہجری ٭ وفات سید جمال الدین افغانی ۔۔۔۔۔۔١٣١٤ہجری ٭ زارِ روس ختم کمیونسٹ حکومت کی ابتداء ۔۔۔۔۔۔١٣٣٥ہجری/جولائی ١٩١٦ء ٭ وفات مولانا شوکت علی ۔۔۔۔۔۔١٣٥٧ہجری /١٩٣٨ء ٭ وفات ابو المحاسن سجاد (بہار) ۔۔۔۔۔۔١٣٥٩ہجری/١٩٤٠ء ٭ وفات خوشی محمد ناظر۔۔۔۔۔۔ ١٣٦٣ ہجری/١٩٤٠ء ٭ وفات حبیب الرحمن خاں شیروانی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٦٩ ہجری ٭ وفات مولانا شاہ احمد نورانی ۔۔۔۔۔۔١٦شوال ١٤٢٤ہجری/١١دسمبر ٢٠٠٣ء ٭ عراقی صدر صدام حسین کی تکریت سے گرفتاری ۔۔۔۔۔۔بروز ہفتہ، ١٨شوال، ١٤٢٤ہجری /١٣دسمبر٢٠٠٣ء
شوال المکرم میں وفات پانے والے مشہور اولیاء و بزرگانِ دین رحمہم اللّٰہ
یکم شوال المکرم
٭ حضرت ابو خذافہ احمد بن اسمعیل سہمے ۔۔۔۔۔۔٢٥٠ھ ٭ حضرت سیدی ابو عبداللہ محمد بن اسمٰعیل بخاری (صاحبِ صحیح) ۔۔۔۔۔۔٢٥٦ھ ٭ حضرت شیخ عبداللہ محمد طاقی ۔۔۔۔۔۔ ٤١٦ھ ٭ حضرت خواجہ عارف ریوگری ۔۔۔۔۔۔ ٦١٦ھ/٧١٥ھ ٭ حضرت علاؤالدین صابری ثانی عرف موج دریا ۔۔۔۔۔۔٧٢٣ھ ٭ حضرت ظہور حاجی ظہور۔۔۔۔۔۔٧٩٩ھ ٭ حضرت خواجہ میر حمزہ بن امیر کلاں ۔۔۔۔۔۔٨٠٨ھ ٭ حضرت سید سرور دین حضوری ۔۔۔۔۔۔ ١١٠٠ھ ٭ حضرت ابو سعید نقشبندی ۔۔۔۔۔۔ ١٢٥٠ھ ٭  علامہ ماجد علی حنفی جونپوری ۔۔۔۔۔۔١٣٥٢ھ
٢ شوال المکرم
٭ حضرت ابوعلی رودباری ۔۔۔۔۔۔٣٢٢ھ ٭ حضرت ابو بکر زین الدین خوانی۔۔۔۔۔۔٨٣٨ھ ٭ مخدوم سید علاؤالدین سنڈیلہ
٣ شوال المکرم
٭ حضرت سیدی انوار الحسین عبدالباقی بن قانع۔۔۔۔۔۔٣٥١ھ ٭ حضرت ابوالمجد مجدود بن آدم معروف بحکیم سنائی ۔۔۔۔۔۔٥٢٥ھ ٭ حضرت ابو صالح صفات نوری احمر قانی ۔۔۔۔۔۔ ٩٩٩ھ ٭ حضرت شیخ حسوتیلی ۔۔۔۔۔۔١٠١٢ھ ٭ حضرت خواجہ محمد صدیق کشمی ۔۔۔۔۔۔١٠٥١ھ ٭ حضرت خواجہ محمد نقشبندی سیف زمان ۔۔۔۔۔۔ ١١٥٣ھ ٭ حضرت مولوی محمد حسین ۔۔۔۔۔۔١٣٤٥ھ ٭ حضرت مخدوم سید شوکت حسین گیلانی (اولاد حضرت موسیٰ پاک شہید، رہنما تحریک پاکستان) ۔۔۔۔۔۔١٤٠٢ھ
٤ شوال المکرم
٭ حضرت سید شاہ جلال راضی بخاری گلسرخ۔۔۔۔۔۔٦٥٨ھ٭ حضرت دیوان محمد شہاب الدین ۔۔۔۔۔۔٩١٧ھ ٭ حضرت شیخ رکن الدین صابری گنگوہی۔۔۔۔۔۔٩٨٣ھ ٭ حضرت میاں جیو نور محمد صابری جہنجہانوی ۔۔۔۔۔۔١٢٥٩ھ ٭ حضرت مولوی کریم اللہ دہلوی۔۔۔۔۔۔١٢٩٠ھ ٭ مولوی سائیں غلام محمد قادری المعروف پیر جلو آنوی۔۔۔۔۔۔١٣٧٥ھ ٭ حضرت شاہ کاظم علی ٭ سید بدرالدین رفاعی
٥ شوال المکرم
٭ حضرت سیف الدین عبدالوہاب بن غوث الاعظم۔۔۔۔۔۔٦٠٣ھ ٭ حضرت شیخ شرف الدین المعروف بہ مصلح الدین محمد سعدی۔۔۔۔۔۔٦٩١ھ ٭ حضرت سراج الدین عثمان اخی چراغ غنی الارواح۔۔۔۔۔۔٧٩٧ھ ٭ حضرت سید محمد غوث بالا پیر۔۔۔۔۔۔٩٥٩ھ ٭ حضرت شیخ باقی اکبر آبادی۔۔۔۔۔۔ ١٠٦٥ھ ٭ حضرت شیخ محمد اسمٰعیل مدرس عرف میاں وڈا سہروردی ۔۔۔۔۔۔١٠٨٥ھ ٭ حضرت شاہ کریم عطا چشتی نظامی ۔۔۔۔۔۔١٢٤٨ھ ٭ حضرت خواجہ محمد اکبر علی۔۔۔۔۔۔١٣٩١ھ
٦ شوال المکرم
٭ حضرت شیخ عبدالرزاق بن غوث اعظم۔۔۔۔۔۔٦٢٣ھ٭  حضرت ابو اسحق ابراہیم بن غوث الاعظم ۔۔۔۔۔۔٦٢٣ھ ٭ حضرت شاہ شرف الدین احمد یحییٰ منیری۔۔۔۔۔۔٧٨٢ھ ٭ حضرت شیخ امین الدین ٭ حضرت شاہ عبدالرزاق بانسوی ۔۔۔۔۔۔ ١١٣٦ھ ٭ حضرت مولوی سخاوت علی جونپوری ۔۔۔۔۔۔ ١٢٧٤ھ٭ حضرت خواجہ عثمان ہاروَنی
٧ شوال المکرم
٭ حضرت اویس قرنی ص۔۔۔۔۔۔٣٩ھ٭ حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ۔۔۔۔۔۔١٢٣٩ھ ٭ عرس آسی غازی پوری
٨ شوال المکرم
٭ حضرت سوید بن سعید ہروی۔۔۔۔۔۔٢٤٠ھ
٩ شوال المکرم
٭ حضرت شیخ ابو العباس بغدادی۔۔۔۔۔۔٣٥٧ھ ٭ حضرت شیخ معمر چشتی ۔۔۔۔۔۔ ٤٢٥ھ ٭ حضرت خواجہ خانون انکوری ۔۔۔۔۔۔ ١٠٩٨ھ ٭ حضرت شیخ محمد سلطان مرگ نینی۔۔۔۔۔۔١١٥٨ھ ٭ عزیز اللہ مشاہدی بنگلہ دیشی
١٠ شوال المکرم
٭ حضرت خواجہ احمد کھتو دہلوی۔۔۔۔۔۔٨٥٩ھ ٭ مولانا احسان علی بہاری٭ استاذ العلماء یادگار اسلاف حضرت مفتی محمد عبد اللہ نعیمی شہید (بانی دارالعلوم مجددیہ نعیمیہ) ۔۔۔۔۔۔١٤٠٢ھ
١١ شوال المکرم
٭ حضرت شیخ زبیر بن واحد۔۔۔۔۔۔١١٣ھ٭ حضرت ابو سعید احمد مالینی ۔۔۔۔۔۔٤١٢ھ ٭ حضرت خواجہ بہاؤالدین۔۔۔۔۔۔٦٢٨ھ٭ حضرت سیدشرف الدین۔۔۔۔۔۔٧٩٢ھ ٭ حضرت شیخ عبدالصمد گنگوہی۔۔۔۔۔۔٩٨٩ھ ٭ حضرت شاہ عبدالرحمن چشتی۔۔۔۔۔۔١٠٤٠ھ ٭ حضرت شاہ جبار احمد سہیل تستری ۔۔۔۔۔۔ ١٠٩١ ھ ٭ حضرت شاہ شرف الدین کشمیری۔۔۔۔۔۔١١٣٥ھ ٭ حضرت شیخ خواجہ سعد الدین مجددی۔۔۔۔۔۔١١٥٢ھ ٭ مغل حکمران اورنگزیب عالمگیرمجدد بارہویں صدی ہجری ٭  شیخ عظیم الدین بڑودہ
١٢ شوال المکرم
٭ حضرت ابو القاسم قرشی۔۔۔۔۔۔٤٦٥ھ ٭ حضرت ابو نصر محمد ہرولی۔۔۔۔۔۔٥٠٠ھ ٭ حضرت قطب الدین سید کبیر۔۔۔۔۔۔٦١٩ھ ٭ حضرت شاہ عبدالرحمن مرعشی۔۔۔۔۔۔٧١٥ھ ٭ حضرت مخدوم اخی جمشید راجگیری ۔۔۔۔۔۔ ٨٠١ھ ٭ حضرت شاہ عبدالقدوس قلندر عرف شاہ قدن۔۔۔۔۔۔١٠٥٢ھ
١٣ شوال المکرم
٭ حضرت سید علی فیض آبادی۔۔۔۔۔۔٨٩٨ھ ٭ حضرت شاہ بڈھن چشتی ۔۔۔۔۔۔ ٨٩٩ ٭ حضرت سید آدم بنوری۔۔۔۔۔۔١٠٥٣ھ ٭ حضرت سید امام علی شاہ ۔۔۔۔۔۔١٢٨٢ھ ٭ علامہ محمد فاروق چریاکوٹی ۔۔۔۔۔۔١٣٢٧ھ٭ خواجہ غلام سدید الدین تونسوی (رہنما تحریک پاکستان) ۔۔۔۔۔۔١٣٧٩ھ
١٤ شوال المکرم
٭ سیدتنا زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔۔۔۔۔۔٨ھ٭ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ۔۔۔۔۔۔٦٨ھ ٭ حضرت بابو عبدالرحمن مدنی ۔۔۔۔۔۔ ١٠٥ھ ٭ حضرت عقبۃ الغلام بغدادی ۔۔۔۔۔۔١٦٧ھ٭ حضرت محمد صبیح ابن سماک۔۔۔۔۔۔١٨٣ھ ٭ حضرت خواجہ ابو ہزیل بصمدی۔۔۔۔۔۔٢٣١ھ ٭ حضرت خواجہ سدید الدین حذیفہ مرعشی رکن الکعبہ۔۔۔۔۔۔٢٥٤ھ ٭ حضرت ابو یحییٰ زکریا نیشاپوری ۔۔۔۔۔۔٢٩٤ھ ٭  حضرت ابو اسحق ابو القاسم حکیم سمرقندی۔۔۔۔۔۔٣٤٢ھ ٭ حضرت شیخ جعفر بن الیاس ۔۔۔۔۔۔ ٣٤٧ھ٭ حضرت ابو الحسن صوفی۔۔۔۔۔۔٣٥٠ھ ٭ حضرت شیخ موفق الدین مقدسی۔۔۔۔۔۔٦٢٠ھ ٭ حضرت شیخ شہاب الدین بغدادی۔۔۔۔۔۔٦٩١ھ ٭ حضرت ابو الفتح سمنانی ۔۔۔۔۔۔ ٧١٧ھ ٭ حضرت عیسیٰ والحق پنڈوی۔۔۔۔۔۔٨٤٦ھ٭ حضرت سید راجو قتال ۔۔۔۔۔۔ ٨٦٥ھ ٭ حضرت شاد ابراہیم بھکری۔۔۔۔۔۔٨٧١ھ ٭ حضرت سید محمد عبید مدنی۔۔۔۔۔۔٨٩٣ھ ٭  حضرت حافظ سلطان اوبہے ۔۔۔۔۔۔٨٩٨ھ ٭ حضرت شیخ جیون حیرت مقام۔۔۔۔۔۔٩٢٧ھ ٭ حضرت شیخ مبارک خیر محمد چشتی۔۔۔۔۔۔٩٨٣ھ ٭ حضرت شیخ رضا سرہندی۔۔۔۔۔۔٩٩٩ھ ٭ حضرت سید ابو تراب عرف شاہ گدا حسینی۔۔۔۔۔۔١٠٧١ ھ ٭ حضرت شیخ مانون شاہ۔۔۔۔۔۔١٠٩٩ھ ٭ حضرت حافظ نیاز اللہ ۔۔۔۔۔۔١٢٦٩ھ ٭ حضرت فتح دین قادری۔۔۔۔۔۔١٣٥٦ھ ٭ حضرت سید عظیم الدین بابا
١٥ شوال المکرم
٭  حضرت سیدالشہدا سیدنا حمزہ بن عبدالمطلبص (عمِ نبی کریم ا) ۔۔۔۔۔۔٣ھ ٭ حضرت سیدی عبدالرزاق (صاحب مصنف) ۔۔۔۔۔۔٢١١ھ ٭ حضرت خواجہ یحییٰ بن عمار شیبانی ہراتی۔۔۔۔۔۔٤٠٢ھ ٭ حضرت ابو اسحق ابراہیم مغربی۔۔۔۔۔۔٤٠٩ھ ٭ حضرت شیخ الاسلام ابو نصر احمد جام زندہ فیل۔۔۔۔۔۔٥٣٦ھ ٭ حضرت شیخ ماجد کُردی۔۔۔۔۔۔٥٦١ھ ٭ حضرت شیخ جلال تبریزی۔۔۔۔۔۔٦٤٢ھ ٭ حضرت شیخ محمد غیاث نور بخش۔۔۔۔۔۔٨٩٨ھ ٭ حضرت شیخ عثمان معنی صفات۔۔۔۔۔۔١٠٨٥ھ ٭ حضرت قاضی دولت شاہ چشتی یسوی بخاری۔۔۔۔۔۔١١٢٦ھ ٭ حضرت اخوند عبداللہ کشمیری ۔۔۔۔۔۔١١٧١ھ ٭ حضرت مقیم السنہ ملا عبداللہ یسوی ٹویگری٭ حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی
١٦ شوال المکرم
٭ حضرت سیدی ابو داؤد سلیمان سجستان (صاحب سنن) ۔۔۔۔۔۔٢٧٥ھ ٭ حضرت ابو محمد ابراہیم بن احمد صوفی۔۔۔۔۔۔٣٤١ھ ٭ حضرت محمد امان عرف محمد مانکیل۔۔۔۔۔۔٣٨٩ھ ٭ حضرت شیخ ابو الحسن طرابلسی۔۔۔۔۔۔٤٠٠ھ ٭ حضرت خواجہ علیم الدین بن خواجہ احمد دیسوی ۔۔۔۔۔۔ ٥٨٩ھ٭ حضرت خواجہ عثمان ہاروتی تکبیر الخلاصی۔۔۔۔۔۔٦٠٣ھ ٭ حضرت ابوالغیث جمیل یمنی ۔۔۔۔۔۔٦٥١ھ ٭ حضرت شیخ ابو الحیات نجم الدین۔۔۔۔۔۔٦٧١ھ ٭ حضرت شاہ نجم الدین احمد کبیر فردوسی۔۔۔۔۔۔٦٨١ھ ٭ حضرت سید بہاؤالدین ۔۔۔۔۔۔ ٩١٢ھ ٭ حضرت مخدوم شیخ سارنگ چشتی ۔۔۔۔۔۔٩٤٧ھ ٭ حضرت اخون سالاک ۔۔۔۔۔۔ ١٠٢٧ ھ ٭ حضرت عروۃ الوثقی سرہندی ۔۔۔۔۔۔١١٢٠ھ ٭ حضرت محمد چشتی آستائی۔۔۔۔۔۔١١٢٦ھ ٭ حضرت شاہ مصطفی مقیدالطف۔۔۔۔۔۔١١٦٤ھ ٭ حضرت مولوی محمد عظیم۔۔۔۔۔۔١١٩٧ھ ٭ حضرت شیخ محمد صادق عاشق الواحدیت۔۔۔۔۔۔١٢٠٠ھ
١٧ شوال المکرم
٭ حضرت سیدی ابو یحییٰ معنبن عیسٰی (جامع موطا امام مالک) ۔۔۔۔۔۔١٩٨ھ٭ حضرت امیرحسینی حسن بن سید عالم۔۔۔۔۔۔٧١٨ھ ٭ حضرت ابو الحسن یمین الدین امیرخسرو دہلوی ۔۔۔۔۔۔ ٧٢٥ھ ٭ حضرت شاہ عبدالعزیز بن اسحق۔۔۔۔۔۔٨٣٥ھ ٭ حضرت سید قطب علوی بخاری ٭ علامہ محمود حسن حنفی افغانی نجیب آبادی ۔۔۔۔۔۔١٣٦٣ھ
١٨ شوال المکرم
٭ حضرت خواجہ امین الدین ہبیرہ بصری سپرد ملائک۔۔۔۔۔۔٢٨٢ھ ٭ حضرت بہاؤالدین بہاول شیر قلندر۔۔۔۔۔۔٩٧٣ھ٭ حضرت سید عبدالفتاح دہلوی ٭ حضرت خواجہ عبدالسلام کشمیری۔۔۔۔۔۔١١٧١ھ ٭ حضرت مولوی غلام مصطفی نو شاہی۔۔۔۔۔۔١٣٨٤ھ ٭ شیخ الحدیث و التفسیر علامہ عبد القدیر حسرت حیدرآبادی (مفسر قرآن)
١٩ شوال المکرم
٭ حضرت ہلال ابدال مکی ۔۔۔۔۔۔١٤٧ھ ٭ حضرت شیخ محمد حلوی بن عبدالصمد ۔۔۔۔۔۔ ٧٧٩ھ ٭ حضرت مخدوم شیخ صفی اللہ ۔۔۔۔۔۔ ٨١٨ ھ ٭ حضرت شیخ محمد بغدادی۔۔۔۔۔۔٨٨٢ھ ٭ حضرت شاہ سعید اللہ لکھنوی ۔۔۔۔۔۔ ١٢٩٩ھ ٭ حضرت ہرے بھرے شاہ دہلوی٭ شیخ الدلائل علامہ عبد الحق الہ آبادی مہاجر مکی ۔۔۔۔۔۔١٣٣٣ھ٭ پیر حاجی شاہ سید عبد القادر جیلانی (خلیفہ نقیب الاشراف) ۔۔۔۔۔۔١٣٦٣ھ
٢٠ شوال المکرم
٭ حضرت سید برہان الدین گجراتی ٭ حضرت شاہ حیدر قلندر۔۔۔۔۔۔١٢٨٤ ٭ علامہ سید علی نعمت پھلواری جعفری ۔۔۔۔۔۔١٣٣١ھ ٭ حضرت ابو البرکات سید احمد قادری۔۔۔۔۔۔١٣٩٨ھ
٢١ شوال المکرم
٭ حضرت سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام٭ حضرت شیخ عبدالوہاب۔۔۔۔۔۔٦٩٩ھ ٭ حضرت شیخ ابو احمد۔۔۔۔۔۔٧٠٣ھ ٭ حضرت خواجہ احمد عارف صابری بطن الولایت۔۔۔۔۔۔ ٨٥٩ھ٭ حضرت شاہ فتح اللہ رزاق العبود۔۔۔۔۔۔٨٩٧ھ ٭ حضرت سید ضیاء الدین روشن آفتاب ۔۔۔۔۔۔٩٩٨ھ ٭ حضرت خواجہ عبداللہ شاہ۔۔۔۔۔۔١٠٢٥ھ٭ حضرت سرور دین قادری لاہوری ۔۔۔۔۔۔١١٠٠ھ ٭ حضرت سید عبدالوہاب حضوری ۔۔۔۔۔۔١١٣١ھ ٭ حضرت شاہ محمد صالح
٢٢ شوال المکرم
٭ حضرت سیدی ابو حاتم محمد المعروف ابن حبان ۔۔۔۔۔۔٣٥٤٭ حضرت شیخ احمد بن مبارک خادم غوث الاعظم۔۔۔۔۔۔٥٠٧ھ٭ حضرت شیخ شہاب الدین ایہری۔۔۔۔۔۔٧٣٥ھ ٭ حضرت شیخ علی الحسینی۔۔۔۔۔۔٧٥٧ھ٭ حضرت سید محمد ۔۔۔۔۔۔٨٢٧ھ ٭ حضرت شیخ جہانگیر سہروردی ۔۔۔۔۔۔٩١٥ھ ٭ حضرت سید احمد باقی الارواح۔۔۔۔۔۔٩٩٠ھ٭ حضرت پیر محمد اعظم قادری۔۔۔۔۔۔١٣٧٥ھ ٭ حضرت میران سید شاہ نگرامی
٢٣ شوال المکرم
٭ حضرت شیخ فتح السعودی۔۔۔۔۔۔٢٥٧ھ ٭ حضرت میر سید علی بغدادی۔۔۔۔۔۔٧٣٩ھ ٭ حضرت شیخ قطب الدین۔۔۔۔۔۔٨٩٩ھ ٭ حضرت مولانا علاؤالدین اودہی ۔۔۔۔۔۔ ٩٩٨ھ ٭ حضرت شیخ طیب رفیقی۔۔۔۔۔۔١٢٦٦ھ٭ حضرت سیدنا علی قادری ٭ حضرت آدم بنوری٭ علامہ عبد الحق خیر آبادی بن امام فضل حق خیر آبادی ۔۔۔۔۔۔١٣١٨ھ
٢٤ شوال المکرم
٭ حضرت ابو الحسن نوری ہراتی۔۔۔۔۔۔ ٢٩٩ھ ٭ حضرت ابو یعقوب اسحق نہر جوری ۔۔۔۔۔۔٣٣٠ھ٭ حضرت ابو الفضل بن کمتاب۔۔۔۔۔۔٤٦٥ھ ٭ حضرت ابو عبداللہ حمدے ۔۔۔۔۔۔ ٤٦٩ھ ٭ حضرت مولانا عبدالسلام ہنسوی۔۔۔۔۔۔١٢٩٩ھ ٭ حضرت مفتی اعجاز ولی خان بریلوی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٩٣ھ ٭ حضرت سیدنا شاہ محمد صادق مارہ روی ٭ حضرت بسم اللہ شاہ (بمبئی)
٢٥ شوال المکرم
٭ حضرت حبیب اللہ محمد بن امام حسن عسکری۔۔۔۔۔۔٣١٧ھ ٭ حضرت شیخ محمد بن احمد اجوبنی ۔۔۔۔۔۔ ٦٥٨ھ ٭ حضرت قاضی شہاب الدین دولت آبادی۔۔۔۔۔۔٨٤٨ھ ٭ حضرت ولی محمد نار نولی ٭ حضرت چونا شاہ بابا
٢٦ شوال المکرم
٭ حضرت صوفی شاہ دلاور علی ابولعلائی ٭ حضرت شمس الدین عبدالعزیز بن غوث الاعظم۔۔۔۔۔۔٥٨٩ھ٭ شاہ ضیاء الدین قادری دہلوی
٢٧ شوال المکرم
٭ حضرت امام ابو القاسم۔۔۔۔۔۔٢٤٧ھ ٭ حضرت ابو بکر محمد کتانی معروف بہ چراغ حرم ۔۔۔۔۔۔٣٢٣ھ ٭ حضرت محمد اصغر عرف محمد ناصر۔۔۔۔۔۔٣٦٩ھ٭ حضرت ابو القاسم سندوسی ۔۔۔۔۔۔ ٤٣١ھ٭ حضرت خواجہ احمد یسوے ۔۔۔۔۔۔ ٥٦٢ھ ٭ حضرت شیخ نجم الدین رازی۔۔۔۔۔۔٦٦٤ھ ٭ حضرت خواجہ سید حسن رسول تما۔۔۔۔۔۔ ١٠٨٨ھ ٭ حضرت میر محمد ہاشم کشمیری۔۔۔۔۔۔١١٣٥ھ ٭ حضرت خواجہ محمد بخش امرتسری لاہوری نقشبندی ۔۔۔۔۔۔١٣٦٣ھ
٢٨ شوال المکرم
حضرت شیخ جنید ثانی۔۔۔۔۔۔١١٩٦ھ ٭ حضرت مولانا حافظ عبدالعلی نگرامی۔۔۔۔۔۔١٢٩٠ھ
٢٩ شوال المکرم
٭ حضرت خواجہ اسحق چشتی ٭ حضرت شہاب الدین عاشق خدا۔۔۔۔۔۔٦٦٦ھ٭ حضرت محمد سلیمان خراسانی۔۔۔۔۔۔٧٢٥ھ٭ حضرت مولوی غلام محی الدین بگوی۔۔۔۔۔۔١٢٧٣ھ٭  علامہ دوست محمد بن محمد امیر حنفی افغانی ۔۔۔۔۔۔١٣٢٨ھ٭ حضرت فتح محمد اچھروی نقشبندی ۔۔۔۔۔۔١٣٣٥ھ ٭  حضرت سید محمد شاہ الحسینی (دادو) ۔۔۔۔۔۔١٣٧٩ھ ٭ حضرت پیر سید معصوم شاہ ۔۔۔۔۔۔١٣٨٨ھ
٣٠ شوال المکرم
٭ حضرت ملا عبدالغفور خورجوی۔۔۔۔۔۔١٢٥٩ھ
 
 (رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہم ورحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہم اجمعین)
از حضرت علامہ مفتی ابو الفضل بہاء الدین محمد نعمان شیراز السنی الحنفی القادری العراقی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ ان شاء اللہ کو انشاء اللہ کے طرز میں لکھنا کیسا ہے؟ اور ان دو طرز کتابت سے معنی میں کوئی فرق آتا ہے؟۔ بینوا توجروا (عبد اللہ قادری، کراچی)
الجواب بعون الملك الوھاب اللهم هدایة الحق و الصواب أقول و بالله التوفیق
من خلال قراء اتی للعدید من الموضوعات فی المنتدیات وكذلك تحادثی مع العدید من الزملاء فی برنامج الماسنجر وجدت أن اكثر الأخوان یقعون فی خطأ فادح وخطأ یدخل فی شيء من خصائص الله فكان لزاما علیّ أن أبین هذا الخطأ ألا وهو كتابة ” إن شاء الله ” و ” إنشاء الله ” فأیهما أصح وأیهما أوجب للكتابة ومعنی كل جملة منهما .
فقد جاء فی كتاب شذور الذهب لابن هشام أن معنی الفعل إنشاء أی إیجاد ومنه قوله تعالی ” إِنَّآ أَنشَأنَہُنَّ إِنشَآء ً ” سورة الواقعة 35 أی أوجدناها إیجادا . فمن هذا لو كبتنا ” إنشاء الله ” یعنی كأننا نقول أننا أوجدنا الله تعالی شأنه عز وجل وهذا غیر صحیح كما عرفنا ..
أما الصحیح هو أن نكتب ” إن شاء الله ” فإننا بهذا اللفظ نحقق هنا إرادة الله عز وجل فقد جاء فی معجم لسان العرب معنی الفعل شاء ، أی أراد ..فالمشیئة هی الإرادة فعندما نكتب إن شاء الله كأننا نقول بإرادة الله نفعل كذا..
ومنه قول تعالی ” وَمَا تَشَآء ُونَ إِلا أَنْ یَشَآء َ اللہُ ” سورة الإنسان 30 أی ما نرید شیئا إلا إن أراد الله عز وجل .
فهناك فرق بین الفعلین أنشأ أی أوجد والفعل شاء أی أراد فیجب علینا كتابة إن شاء الله وتجنب كتابة إنشاء الله للأسباب السابقة الذكر.وشكرا وتحیاتی للجمیع .
یہ کلمات ہم نے عربی میں کہہ کر دنیائے عرب و عجم کے عربی داں حضرات کو پیغام دے دیا اب ہم پاکستان و ہندستان اور وہ مسلمانان عالم جو اردو زبان جانتے ہیں انہیں سادہ انداز میں سمجھانے کی کوشش کریں گے۔
ان شاء اللہ یہ جملہ تین کلمات پر مشتمل ہے او ر تینوں کلمے الگ الگ علم نحو میں اپنی ایک حیثیت رکھتے ہیں (1) ان شرطیہ ہے (2) شاء فعل ماضی معروف کا صیغہ ہے (3) اللہ اسم جلالت شاء فعل کا ترکیب نحوی کے لحاظ سے فاعل ہے۔ اور ان تین کلمات کو الگ الگ ہی لکھا جاتا ہے ان شرطیہ کو فعل کے ساتھ ملا کر عرب و عجم میں کہیں بھی نہیں لکھا جاتا تھا۔ قرآن و احادیث اور عربی زبان میں تحریر (14) سو سالہ کتابوں میں الگ الگ ہی لکھا گیا ہے۔ لیکن اب عرب و عجم میں یہ ان شرطیہ کو شاء فعل کے ساتھ ملا کر لکھنے کی خطا بہت عام ہو گئی ہے۔ عرب ممالک کی ویب سائٹ اور غیر محتاط طرز کتابت کا یہ عنصر عجم میں خصوصا پاکستان و ہندستان میں بہت پھیل گیا ہے۔ درست رسم الخط ان شاء اللہ ہی ہے۔ انشاء اللہ لکھنا ہرگز ہرگز درست نہیں ہے۔ ایسا لکھنے سے اجتناب کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے کیونکہ اس طرز کتابت سے جو معنی بنتے ہیں وہ کفر ہیں۔

قرآن کریم کی آیات:

 

1. وَإِنَّا إِنْ شَاء َ اللَّہُ لَمُہْتَدُونَ (البقرۃ 2/70)
2. وَقَالَ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شَاء َ اللَّہُ آَمِنِینَ (یوسف 12/99)
3. قَالَ سَتَجِدُنِی إِنْ شَاء َ اللَّہُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِی لَکَ أَمْرًا (الکہف 18/69)
4. سَتَجِدُنِی إِنْ شَاء َ اللَّہُ مِنَ الصَّالِحِینَ (القصص 28/27)
5. سَتَجِدُنِی إِنْ شَاء َ اللَّہُ مِنَ الصَّابِرِینَ (الصافات 37/102)
6. لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاء َ اللَّہُ آَمِنِینَ (الفتح 48/27)
ان مندرجہ بالا آیات سے واضح ہوا کہ قرآن کریم میں ان شرطیہ کو شاء ماضی کے صیغہ سے الگ کر کے لکھا گیا ہے۔
احادیث شریف میں ان شاء اللہ کا رسم الخط:
 1. فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَأَفْعَلُ إِنْ شَاء َ اللَّہُ (صحیح البخاری 407)
2. لِکُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَۃٌ یَدْعُوہَا فَأَنَا أُرِیدُ إِنْ شَاء َ اللَّہُ أَنْ أَخْتَبِئَ دَعْوَتِی شَفَاعَۃً لِأُمَّتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ (صحیح مسلم 295)
3. إِنَّہَا لَرُؤْیَا حَقٌّ إِنْ شَاء َ اللَّہُ (سنن ابی داؤد 421)
4. أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ حَلَفَ عَلَی یَمِینٍ فَقَالَ إِنْ شَاء َ اللَّہُ فَلَا حِنْثَ عَلَیْہِ (الجامع للترمذی 1451)
5. أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَی الْمَقْبُرَۃِ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِینَ وَإِنَّا إِنْ شَاء َ اللَّہُ بِکُمْ لَاحِقُونَ (سنن النسائی 150)
6. اجْتَمَعَ عِیدَانِ فِی یَوْمِکُمْ ہَذَا فَمَنْ شَاء َ أَجْزَأَہُ مِنْ الْجُمُعَۃِ وَإِنَّا مُجَمِّعُونَ إِنْ شَاء َ اللَّہُ (سنن ابن ماجۃ 1301)
وضاحت معنی (انشاء اللہ) :
ان کو جب شاء سے ملا کر لکھیں تو اس کی شکل (انشاء) ہو جاتی ہے جو کہ باب افعال کا مصدر ہے جس کا معنی ہے پیدا کرنا ، ایجاد کرنا۔ اس کا ماضی اور مضارع (انشأ ینشیٔ) ہے ۔ جس کا معنی ہے پیدا کرنا ایجاد کرنا ، ایسی اختراع جس کی سابق میں کوئی مثال نہ ہو۔ اللہ کریم فرماتا ہے۔
1. وَہُوَ الَّذِی أَنْشَأَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَۃَ قَلِیلًا مَا تَشْکُرُونَ (المؤمنون 78)
2. قُلْ سِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَانْظُرُوا کَیْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللَّہُ یُنْشِئُ النَّشْأَۃَ الْآَخِرَۃَ إِنَّ اللَّہَ عَلَی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیرٌ (العنکبوت 20)
3. إِنَّا أَنْشَأْنَاہُنَّ إِنْشَاء ً (الواقعۃ 35)
ان تین آیات میں انشاء مصدر باب افعال اور انشأ ماضی معروف ینشء فعل مضارع آیا ہے جس کے معنی ہیں پیدا کرنا۔ اب تیسری آیت کو پیش نظر رکہیں جس میں کہ انشاء مصدر موجود ہے اس مصدر کی ہیئت اور انشاء اللہ لکھنے میں انشاء کی ہیئت ایک ہے۔ اب ہم ان شرطیہ کو جب شاء فعل سے ملا کر لکھیں گے تو معنی کفر کی طرف چلے جائیں گے اور ان شاء اللہ کہنے کا مقصد فوت ہو جائے گا بجائے مشیئت و ارادے کہ اس کا معنی کچھ اس طرح ہوجائے گا۔ انشاء اللہ ای کاننا نقول اننا اوجدنا اللہ (العیاذ باللہ) یعنی ہم نے اللہ کو ایجاد کیا پیدا کیا۔ ان شاء کا معنی مشیئت الہی اور ارادہ ہے جب کہ انشاء کا معنی پیدا کرنا ایجاد کرنا ہے۔ ان کو شاء کہ ساتھ ملا کر لکھنے میں اتنے سخت قبیح معنی بنتے ہیں لہذا اس طرز کتابت سے اجتناب تمام مسلمانوں پر لازم ہے۔ اور جہاں کہیں ایسا لکھا دیکھیں فوری درست کریں۔ کسی مسلمان کہ دل میں اس معنی کا خیال تک نہیں گزرتا ہوگا یہ ہمارا حسن ظن ہے لیکن لکھنے میں انشاء کے بجائے ان شاء الگ الگ کر کے لکھا جائے جیسا کہ قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں لکھا ہے۔ تاکہ ملا کر لکھنے سے جو معنوی قباحت کا شائبہ ہے وہ پیدا نہ ہو۔ ہم یہاں نحوی بحث نہیں چھیڑنا چاہتے ورنہ بات طول اختیار کر جائے گی۔ ورنہ انشاء مصدر کو مضاف اور اسم جلالت کو مضاف الیہ کہہ کر ایک نئی بحث کا آغاز کیا جا سکتا ہے البتہ اس کا یہاں کوئی محل نہیں ہے۔ ہمیں عوام کو سمجھانا مقصود ہے علماء کرام اور دینی علوم حاصل کرنے والوں سے التماس ہے کہ وہ اس مسئلہ سے عوام اہلسنت کو آگاہ فرمائیں۔
انشاء مضاف اور اسم جلالت مضاف الیہ:
تفسیر طبری میں ہے: (إن عجبتم من إنشاء اللہ إیاکم ) ایک دوسرے مقام پر ہے: (إنّ فی إنشاء اللہ السحاب) ان دو عبارات میں انشاء موجود ہے اور دونوں میں معنی ہے پیدا کرنا۔ ان دونوں عبارات میں انشاء مصدر اسم جلالت فاعل کی طرف مضاف ہے اور معنی ہے اللہ کریم کا تم کو پیدا کرنا اور اللہ کریم کا بادل کو پیدا کرنا۔ ہمارا مقصد اس بات کو بیان کرنے سے یہ ہے کہ انشاء کو اگر مضاف بھی مان لیا جائے تب بھی ان شاء اللہ کہنے کا جو مقصد ہے وہ فوت ہو جاتا ہے کیونکہ ہم جب ان شاء اللہ کہتے ہیں تو گویا اپنے کام کو اللہ کی مشیئت اور ارادے پر معلق کرتے اور مدد طلب کرتے ہیں۔ جب کہ انشاء اللہ لکھ کر مضاف مضاف الیہ کا معنی کریں تو معنی ہوا اللہ کا پیدا کرنا جو کہ ہمارا مقصد نہیں ہے۔ جب ہم کسی بھی نیک کام کا ارادا کرتے ہیں تو ان شاء اللہ کہتے ہیں یہ ایک اسلامی طریقہ ہے سنت ہے۔ ہم اپنے ارادے کو اللہ کی مشیئت کے تابع کرتے ہیں یہاں ہمارا مقصد اللہ کریم کا خالق و باری ہونا بیان کرنا نہیں ہوتا۔
حضرت مفتی سید ابن مسعود شجاعت علی قادری علیہ الرحمہ کی ایک کتاب ہے جس کا نام ہے (انشاء العربیۃ) اس کا معنی ہے عربی زبان میں مہارت پیدا کرنا۔ جس طرح انشاء العربیہ میں انشاء لکھا جاتا ہے اگر یہی طرز انشاء اسم جلالت کے ساتھ لکھ دیں گے تو ہمارا مطلوب حاصل نہیں ہوگا ۔ مشیئت و ارادے سے پیدا کرنے ایجاد کرنے کی طرف معنی چلا جائے گا۔
قصیدہ بردہ شریف میں ہے: الحمد للہ المنشی الخلق من عدم
اس میں (المنشی) اسم فاعل کا صیغہ ہے انشاء سے جس کا معنی ہے پیدا کرنا۔ ترجمہ ہوگا تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو خلق کو عدم سے وجود بخشنے والا ہے۔ منشی کا معنی پیدا کرنے والا عدم سے وجود میں لانے والا۔ جوفرق نشأ اور انشأ میں ہے اتنا ہی فرق ان شاء اللہ اور انشاء اللہ لکھنے میں ہے۔ اس قدر وضاحت کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ عوام اہل سنت سمجھ گئے ہوں گے کہ آئندہ ان شاء اللہ ہی لکھنا ہے ۔ اور ہر اس لفظ سے اجتناب کرنا ہے جس میں لفظی یا معنوی خلل ہو خصوصا جب شان الوہیت و رسالت کا مسئلہ ہو تو بہت احتیاط چاہیئے۔ آخر میں ایک بات اور عرض کروں گا کہ موبائل یا ای میل کے ذریعہ جو پیغامات ارسال کیے جاتے ہیں ان میں ان شاء اللہ ہی لکھیں اور اگر انگریزی میں لکھیں تو (insha ALLAH) نہ لکھیں اور نہ ہی ملا کر (inshaAllah) لکھیں بلکہ اس طرح لکھیں: ان شاء اللہ (in -sha-Allah)  — — —
کتبه: ابو الفضل محمد نعمان شیراز القادری العراقی
الجمعة، 21 ذو الحجة، 1432 ھجری

 

Menu