نام و نسب:
مصلح اہل سنت حضرت مولانا قاری محمد مصلح الدین صدیقی قادری جنہیں گھر کی بزرگ عورتیں پیار سے ”محبوب جانی” کہا کرتی تھیں۔ صبح صادق، بروز پیر ١١/ربیع الاول سن ١٣٣٦ھ سن ١٩١٧ء قندھار شریف ضلع نانڈھیڑ، ریاست حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے ۔ والد ماجد کا نام نامی غلام جیلانی تھا، جنہوں نے گھریلو تعلیم کے علاوہ حکومت دکن کے تحت امامت کا امتحان پاس کیا تھا۔ نہایت دیندار صوفی باصفا خطیب عالم تھے۔ اپنے وطن کے اندر قلعہ کی مسجد اور دیگر مساجد میں ٥٥/سال تک امامت و خطابت کے فرائض بحسن و خوبی انجام دیتے رہے پاکستان پہنچ کر ٢٥/ نومبر ١٩٥٥ء کو کراچی میں انتقال فرمایا اور میوہ شاہ قبرستان میں مدفون ہوئے ۔ علم و ادب کے قدرداں اور علماء و سلف کے جوہر شناس تھے۔ حافظ ملت علیہ الرحمہ سے گہری عقیدت رکھتے تھے۔
مصلح اہل سنت کے آباء و اجداد شرفاء دکن میں سے تھے اور پشتہا پشت سے خدمت دین اور فروغ اسلام کے فرائض سر انجام دیتے آرہے تھے، شاہان سلف نے انہیں جاگیریں دے رکھی تھیں اس لیے ”انعامدار” کہلاتے تھے۔ جاگیریں ان کے معاش کا ذریعہ تھیں خاندانی شجرہ اس طرح ہے حضرت قاری مصلح الدین بن غلام جیلانی بن محمد نور الدین بن شاہ محمد حسین بن شاہ غلام جیلانی عرف شبر استاد (آپ فضیلت جنگ بہادر مولانا انوار اللہ خان کے استاذ عربی ہیں ) بن شاہ غلام محی الدین بن شاہ محمد یوسف بن شاہ محمد بن شاہ محمد یوسف۔
صدر الشریعہ کا فیضان علمی و روحانی :
مصلح اہل سنت کے مقدر میں اسلام اور سنیت کی عظیم خدمات لکھی تھیں ، اسی لحاظ سے رب تعالیٰ نے ان کی تعلیم و تربیت کے وسائل پیدا فرمائے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ بر صغیر ہندو پاک میں چودھویں صدی ہجری کے آخری ٧٥/سالہ دور کو خلفائے امام احمد رضا بریلوی بالخصوص صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی اور ان کے تلامذہ نے اسلاف کرام کے طریقہ پر تعلیم و تربیت سے بہرہ ور کرنے میں مثالی کارنامے انجام دیئے ہیں ۔
جنہیں سیراب کرنے بدلیاں رحمت کی آتی ہیں:
(حافظ ملت علیہ الرحمہ دارالعلوم معینیہ عثمانیہ کے دور میں صدر الشریعہ سے حصول علم فرمارہے تھے۔ اسی دور کی بات ہے) قندھار شریف ریاست حیدر آباد کے ایک بزرگ مولانا سید شاہ اسماعیل صاحب قبلہ خاندانی مرشد تھے، اس علاقے میں ان کے اہل ارادت کی خاصی تعداد موجود تھی سید صاحب ہر سال عرس خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کے موقع پر ، پابندی سے اجمیر مقدس حاضری دیتے تھے۔ حضرت صدرالشریعہ علیہ الرحمہ سے بھی پیر صاحب قبلہ کے گہرے مراسم تھے۔ انہوں نے حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ سے درخواست کی کہ رمضان المبارک کے موقع پر قندھار شریف کے تعلقہ شہر میں کسی اچھے حافظ قرآن کو روانہ فرمائیں ۔ چنانچہ حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے اپنے شاگرد رشید ”حافظ ملت” کو قندھار روانہ فرمایا ۔ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے قندھار پہنچ کر صرف قرآن مجید نہیں سنایا بلکہ نہ جانے کتنے قلوب کی محرابوں کو بیداری فکر کی دولت عطا کردی ۔ قندھار شریف ، محراب سنانے کے بہانے حافظ ملت کی تشریف ارزانی کا سلسلہ پانچ سال یا اس سے زیادہ قائم رہا اور اگر ہم یہ کہیں کہ حافظ ملت سال میں ایک ماہ ایک ایسے روحانی پودے کی داشت و پرداخت کے لئے صرف کیا کرتے تھے۔ جسے آگر چل کر ”مصلح دین” اور ”مصلح ملت” بننا تھا تو غلط نہ ہوگا۔ اس کمسن بچے کے ضمیر میں قرآن عظےم کے نور کے ساتھ ساتھ اخلاق قرآن کی حلاوتیں کس طرح اتریں اسے خود قاری صاحب کی زبان سے سنئے:
”ہمارے خاندان میں ایک مولانا علیم الدین صاحب تھے ۔ ان کو میں قرآن کریم سنایا کرتا تھاتو انہوں نے کہا کہ میں باہر جارہا ہوں لہٰذا آپ ان (حافظ ملت حضرت علامہ مولانا حافظ عبدالعزیزمبارکپوری علیہ الرحمہ) کو قرآن کریم سنائیے ۔ میں ان کو قرآن کریم سنانے کے لیے گیا تو انہوں نے بڑی شفقت کا اظہار کیا اور بڑی اچھی اچھی باتیں کیں میں نے گھر آکر اپنی والدہ کو بتایا اور والدہ نے والد سے کہا ، آپ جائیے ایسے بزرگ اور شفیق آئے ہیں ، ان سے ملاقات کریں ۔ والد صاحب آئے اور ان سے بہت متاثر ہوئے اور کہا اپنی آخرت کی درستگی کے لیے میں نے اپنے بچے کو حفظ قرآن کی طرف لگایا ہوا ہے۔ آپ (حافظ ملت علیہ الرحمہ ) نے مشورہ دیا ، بچے کی تعلیم کے لیے دو چیزیں بہت ضروری ہیں یا تو اس شخص سے پڑھایا جائے جس کو خود غرض ہو یا وہ پڑھا سکتا ہے جس کو درد ہو اور باپ سے زیادہ غرض بھی کسی کو نہیں ہو سکتی اور باپ سے زیادہ درد بھی کسی کو نہیں ہوتا۔ بہتر یہی ہے کہ آپ خود پڑھائیں”
اندازہ ہوتا ہے کہ قاری مصلح الدین صاحب علیہ الرحمہ کی عمر اس وقت آٹھ یا نو سال رہی ہوگی ۔ اس وقت حضور حافظ ملت بھی جامعہ معینیہ اجمیر شریف میں مصروف درس تھے۔ اس پہلی ملاقات نے قاری مصلح الدین صاحب اور ان کے والدین کریمین کے دل میں حافظ ملت علیہ الرحمہ کی شفقت و مروت اور اخلاص و محبت کے وہ انمٹ نقوش ثبت کیے جو تاریخ کا ایک عظےم الشان دور بن کر ابھرے۔ وہ اس طرح کہ اس کم سن بچے کے تحفیظ قرآن کا سلسلہ حافظ ملت کی ہدایات کے مطابق خود اس کے والد کے ذریعہ شروع کرادیاگیا اور پانچ سال کے عرصے میں وہ بچہ حافظ قرآن بن گیا وہ کس طرح قاری صاحب خود فرماتے ہیں:
”سال بھر میں پانچ پارہ ناظرہ ، استاد صاحب پڑھادیا کرتے تھے ، اور والد صاحب مجھے وہ پانچ پارے یاد کرادیا کرتے تھے اور اگلے رمضان میں استاذ مکرم (حافظ ملت) وہاں سے آتے تھے وہ سن بھی لیا کرتے تھے اور اس میں جو غلطیاں ہوتی تھیں وہ درست بھی کرادیا کرتے تھے اس طرح پانچ سال میں حفظ کرلیا”
اس طرح ننھا مصلح الدین چودہ سال یا اس سے بھی کم عمر ہی میں حافظ قرآن بن گیا اور حافظ ملت نے اس کے سرپر دستار باندھی تکمیل حفظ کے بعد حضرت قاری صاحب پرائمری اسکول میں داخل کرادیئے گئے ۔ آپ اپنے والدین کے اکلوتے چشمہ و چراغ تھے ، اس لیے وہ لوگ انہیں آنکھوں سے اوجھل نہیں کرنا چاہتے تھے۔ مگر حافظ ملت جیسے روحانی اور عرفانی باغباں نے قاری صاحب کے باطن میں علوم دینیہ اور عرفان و حق شناسی کے جو بیج بوئے تھے اسے پروان تو چڑھنا تھا۔ اسکول کی تعلیم بھی قاری صاحب نے نہایت سرعت سے حاصل کی اور اپنی ذہانت اور ذکاوت سے دو دودرجات ایک سال میں طے کیے تا آنکہ جماعت ہفتم میں جا پہنچے۔ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی سرپرستی اور ہدایت کے زیر سایہ قاری صاحب نے جب تکمیل حفظ کلام اللہ کرکے درجہ ہفتم تک کی پرائمری تعلیم بھی پالی ، اور اس وقت تک سن شعور کی دہلیز تک پہنچ گئے تو انہوں نے قاری صاحب کو ان کے والدین سے اپنی روحانی اور علمی فرزندی میں پروان چڑھانے کے لیے مانگ لیا۔ اس واقعہ کو قاری صاحب کی زبان ہی سے ملاحظہ کیجئے :
”استاذ مکرم کا مسلسل اصرار رہا کہ جس طرح آپ نے اپنے لڑکے کو حافظ قرآن بنایا ہے اسی طرح اسے عالم دین بھی بنائیے۔ چونکہ میں اپنے ماں باپ کا اکلوتا تھا اس لیے باہر بھیجنے کے لیئے والدہ ماجدہ راضی نہ تھیں ۔ البتہ والد صاحب کچھ راضی تھے بہر حال قسمت میں لکھا تھا یہ دونوں حضرات راضی ہوگئے اور میں اپنی دینی تعلیم حاصل کرنے کیلئے مبارک پور اعظم گڑھ روانہ ہوا ۔ اس وقت استاذ مکرم حافظ ملت مولانا عبدالعزیز مبارکپوری (علیہ الرحمہ ) فارغ التحصیل ہوکر مبارک پور میں صدر المدرسین کے عہدے پر فائز تھے اور میں نے وہاں جاکر تعلیم حاصل کی اور اس تعلیم کا سلسلہ تقریباً آٹھ سال تک رہا ”
دستار بندی:
مصلح اہل سنت نے اپنی پوری تعلیم مبارک پور میں مکمل کی اور حافظ ملت کچھ روز کے لیے مبارک پور چھوڑ کر ناگپور تشریف لے گئے تو وہاں دورئہ حدیث پڑھ کر دستار فضیلت حاصل کی قاری صاحب کے انٹرویو میں ہے:
”اور یہیں سے فراغت حاصل کی البتہ دستار بندی اس وقت وہاں نہ ہو سکی ۔ اس لیے کہ ١٩٤٢ء میں گاندھی کا سینہ گرہ شروع ہوا تھا۔ جس کی وجہ سے مدارس بھی بند رہے ۔ ٹرینیں بھی الٹ دی گئیں ۔ لائنیں بھی اکھاڑی گئیں ۔ آمد و رفت بہت دشوار ہو چکی تھیں اتفاق سے میں اس سے کچھ پہلے ہی اپنے گھر چلا گیا تھا ۔ تقریباً کئی مہینے یہ سلسلہ جاری رہا ۔ والد محترم نے ہمیں پھر دوبارہ جانے نہیں دیا اور کہا تم یہاں رہو۔ اسی عرصہ میں میری شادی ہوئی اور شادی کے بعد پھر معاش کی فکر لگی ۔ اتفاق سے استاذ محترم (حافظ ملت علیہ الرحمہ) مبارکپور سے کچھ اختلاف کی وجہ سے ناگپور تشریف لے آئے ۔ وہاں سے دورئہ حدیث جاری ہوچکا تھا ”
استاد مکرم نے خط لکھا کہ :
”تمہارے جتنے ساتھی ہیں سب واپس آچکے ہیں اور کچھ آنے والے ہیں ، بہتر یہی ہے کہ تم بھی یہاں آکر دورئہ حدیث کی تکمیل کرو اور اس کے بعد جہاں بھی تمہارے روزگار کا ارادہ ہو وہاں جا سکتے ہو”
چنانچہ میں ناگپور آیا اور وہاں تین چار مہینے درس حدیث کی تکمیل کی اس کے بعد دستار فضیلت کاجلسہ ہوا جو ١٩٤٣ء میں ہوا۔
والدہ کا انتقال اور ناگپور میں تقرری:
حضرت مصلح اہلسنت ناگپور سے دستار بندی کے بعد ابھی اپنے وطن نہیں گئے تھے بلکہ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ اور دیگر اساتذہ کرام کی خدمت ہی میں تھے کہ انہیں ان کی والدہ کی علالت کا ٹیلیگرام ملا اور وہ فوراً چل پڑے والدہ ماجدہ عرصہ سے علیل رہتی تھیں۔ ایک ماہ کے بعد ہی ان کا انتقال ہوگیا ۔ حضرت قاری صاحب مبارکپور سے ١٩٤٢ء میں آنے کے بعد ہی چونکہ ازدواجی بندھن سے منسلک ہوچکے تھے اور گھر میں ایک بیٹی بھی تولد ہوچکی تھی ۔ اس لیئے انہیں ذریعہ معاش کی فکر لاحق ہوئی۔ضعیف باپ اور اہل و عیال کے خیال سے انہوں نے حیدر آباد ہی کے اندر کوئی ملازمت تلاش کی مگر جس ماحول میں ان کی ذہنی و فکری اور علمی نشو و نما ہوئی تھی اس کے لحاظ سے دکن کا ماحول مختلف تھا۔
خود حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ بھی قاری صاحب کو بے حد پیار کرتے تھے اس لحاظ سے ان کی یہ بھی خواہش تھی کہ وہ حضرت سے قریب ہی کہیں رہ کر علمی مشاغل کو جاری رکھیں چنانچہ ان کی خواہش کے مطابق قدرتی طور پر ناگپور ہی میںقاری صاحب کے لیے ایک جگہ نکل آئی ، اس طرح وہ پھر حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ اپنے محسن و مربی کے قریب پہنچ گئے ، خود فرماتے ہیں:
”بہرحال ہم کوشش میں تھے کہ حیدر آباد دکن میں کہیں کوئی نہ کوئی سروس مل جائے لیکن اسی اثناء میں ناگپور میںجامع مسجد کی امامت و خطابت کی جگہ خالی تھی ، تو مفتی عبدالرشید خاں صاحب جو وہاں کے بانی تھے ادارے کے تو انہوںنے حافظ ملت سے کہا ”ان کو یہاں بلا لیجئے، وہ یہاں کے لیئے موزوں ہوں گے”۔ استاذ مکرم نے حیدر آباد دکن خط لکھا آپ جو کچھ بھی وہاں کوشش کررہے ہیں ، بہر حال کوشش کرتے رہیں ۔ البتہ یہاں ایک جگہ خالی ہے اور ہمارا خیال ہے کہ آپ یہاں آئیں گے تو آپ ہمارے قریب بھی رہیں گے۔ چنانچہ والد صاحب سے اجازت لے کر میں ناگپور گیا ۔ وہاں جانے کے بعد ایک جمعہ وہاں پڑھایا ، تو انہوں نے کہا یہ ٹھیک ہیں ہمارے لیے خوشی کی بات ہے کہ یہ یہاں پر امامت و خطابت کرتے رہیں۔ چنانچہ میں وہاں امام مقرر ہوا اور وہاں پانچ سال تک خطیب رہا”
جامع مسجد سکندر آباد کی خطابت:
اتحاد المسلمین کے عروج کا دور تھا سید تقی الدین صاحب اور صدر یار جنگ کے توسط سے قاری صاحب سکندر آباد مسجد کے خطیب مقرر ہوگئے شہر حیدر آباد کے نواحی شہر سکندرآباد کی اس جامع مسجد کے ہر چہار جانب آریہ سماجی متعصّب غیر مسلم کثرت سے آباد تھے اور مسلمان اقلیت میں تھے اس لیے وہاں اکثر ہندو مسلم فسادات ہوا کرتے تھے۔اس جامع مسجد کی بنیاد حضرت مولانا قاری عثمان علی شاہ قادری نے رکھی تھی اور مدتوں انہی کے خانوادہ کے علماء وہاں امامت کرتے آرہے تھے۔ تقسیم ہندوپاک کے زمانے میں دکن کے سیاسی افق پر بھی نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں اور نواب بہادر یار جنگ نے وہاں کے مسلمانوں کو متحرک کرنے کیلئے مجلس اتحاد المسلمین کی بنیاد رکھی تھی ۔ آج بھی اتحاد المسلمین پورے ہندوستان میں مسلمانوں کی نمایاں تنظیم ہے ۔ قاری صاحب نے اس پر آشوب دور میں اپنی مجاہدانہ تقاریر کا سلسلہ شروع کیا ۔ مہاجر مسلمانوں کے لٹے پٹے قافلے حیدرآباد میں آکر پناہ لے رہے تھے۔ حیدر آباد دکن ایک آزاد مسلم ریاست تھی اس لحاظ سے مسلمان اسے اپنی ایک پناہ گاہ خیال کرتے تھے۔ قاری صاحب فرماتے ہیں :
”اتحاد المسلمین نے جو اپنا محاذ بنایا تھا، اس کے لحاظ سے خطباء بھی مقررین بھی سیاسی موضوع پر بولنے لگے تھے۔ چونکہ جوش تھا اور میں خود بھی بڑی پر جوش تقریر کرتا تھا، اور جمعہ کے خطبوں میں وزیر عبدالحمید خان بھی آیا کرتے تھے اور اطراف میں بڑی بڑی چھاؤنیاں تھیں وہاں کے بڑے بڑے عہدیداران و افسران بھی آیا کرتے تھے تو میں نے وہاں ڈیڑھ سال تک خطابت بھی کی اور وہاں حیدر آباد میں پڑھاتا بھی رہا ۔ پھر وہاں حیدر آباد کے خلاف ہنگامہ بھی ہوا ، ہنگامے کے وقت عجیب و غریب کیفیت تھی ”
سقوط حیدر آباد اور قاری صاحب کا سفر پاکستان:
سقود حیدر آباد سے قبل دکن کے مسلمانوں نے پولیس ایکشن کے نام پر کی گئی زیادتی کے جواب میں جو مدافعانہ قدم اٹھایا اس میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ہندوستانی فوج سے مقابلہ کرتے ہوئے سات لاکھ مسلمان شہید ہوئے دور طالب علمی میں حضرت مفتی ظفر علی نعمانی صاحب حضرت قاری صاحب کے جگری دوست تھے۔ دونوں ایک دوسرے سے والہانہ تعلق رکھتے تھے۔ مبارک پور سے حافظ ملت نے جب ناگپور کا سفر کیا تو وہ اس وقت ناگپور بھی گئے ۔ وہ پاکستان پہلے ہی آچکے تھے سقوط حیدر آباد کے بعدحضرت قاری صاحب کو پاکستان بلوانے کے سلسلہ میں انہوں نے سلسلہ جسبانی (بہت محنت) کی جس کے نتیجہ میں قاری صاحب کراچی آگئے۔ قاری صاحب کے ذاتی انٹرویوکی روشنی میں سفر کی کچھ باتیں یہ ہیں ۔
سقوط حیدر آباد کے چار ماہ بعد ١٩٤٩ء میں بحری جہاز کے ذریعہ قاری صاحب کراچی پہنچے۔ پورٹ پر مفتی ظفر علی نعمانی صاحب نے ان کا استقبال کیا اور انہیں اپنے مدرسہ میں لاکر اتارا۔ اس کے ایک ماہ بعد سے قاری صاحب نے اخوند مسجد کی امامت و خطابت شروع کی ۔
پاکستان میں خطابت و تدریس:
اخوند مسجد کی خطابت کے دور میں ہی حضرت مولانا مفتی مظہر اللہ صاحب دہلوی کے نام سے آرام باغ میں دارالعلوم مظہریہ میں قاری صاحب نے تدریس بھی شروع کردی ۔ اس وقت حضرت مولانا عبدالحفےظ صاحب آگرہ صدر مدرس تھے قاری صاحب ان کے نائب کی حیثیت سے درس دیتے تھے۔ واہ کینٹ جامع مسجد کی خطابت سنبھالنے سے قبل تک آپ اس دارالعلوم سے وابستہ رہے ۔ واہ کینٹ سے واپس آکر آپ نے اخوند مسجد کی امامت سنبھال لی ۔ اس وقت دارالعلوم امجدیہ بن چکا تھا۔ کچھ عرصہ بعد امجدیہ سے وابستہ ہوگئے اور یہ وابستگی آخری عمر تک قائم رہی ۔
حضرت قاری صاحب دارالعلوم امجدیہ کے محض ایک مدرس ہی نہیں تھے بلکہ انہیں اس ادارے سے قلبی لگاؤ تھا، اپنی علالت کے زمانے میں بھی دارالعلوم ضرور جاتے تھے۔ ٢٨/اپریل کو انہیں جب ہارٹ اٹیک ہوا اور ڈاکٹروں نے آنے جانے پر پابندی عائد کردی تو قاری صاحب نے پہلے تو پندرہ روز کی پھر اس کے بعد ڈیڑھ ماہ کی رخصت حاصل کی ۔ مگر طلبہ کے تعلیمی نقصان کا خیال کرکے قاری صاحب نے دارالعلوم کے ارکان کو اپنا استعفیٰ نامہ پیش کردیا انتظامیہ نے اسے منظور نہیں کےااس وقت انہوں نے فرمایا:
”میں دارالعلوم آنے کے لئے تیار ہوں آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے طاقت دے اور صحت اچھی ہوجائے کیوں کہ گذشتہ دنوں میں بعض اوقات جب کبھی میری طبیعت خراب بھی رہتی تھی جب بھی میں دارالعلوم امجدیہ جاتا تھا کیونکہ یہ میرے پیرومرشد کا مدرسہ ہے ”
بیعت:
حضرت قاری صاحب علیہ الرحمہ نے اپنی پوری زندگی کو حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی ہدایات کے مطابق استوار کیا ۔ ابتدائی تعلیم سے لے کر تکمیل دورہ حدیث تک اور روحانی میدان میں داخل ہونے کے لئے بھی ان کے مرشد اولین حافظ ملت ہی تھے وہ حافظ ملت کے سانچے میں ڈھل جانا چاہتے تھے۔ دوسری جانب حضور حافظ ملت کو ان سے اس قدر والہانہ پیار تھا کہ وہ انہیں اپنے مربی و مقتداء اور مرشد کامل کے دامن سے بلا واسطہ مربوط کرنا چاہتے تھے۔ قاری صاحب فرماتے ہیں :
”میری عمر تقریباً ٢١/سال یا اس سے کچھ کم تھی ، اس وقت میں ہدایہ کا امتحان دے چکا تھا، استاذ مکرم (حافظ ملت) سے ہم نے کہا کہ حضرت ہمیں مرید بنادیجئے ، تو انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے میں وقت پر تمہیں لے چلوں گا۔ جیسے ہی امتحان سے فارغ ہوئے تو مجھے اور میرے ساتھ مولانا سید عبدالحق جو انڈیا میںپیر طریقت کے نام سے مشہور ہیں ، ہم دونوں سے کہا کہ تم لوگ تیار ہوجاؤ میں تمہیں لے چلتا ہوں صدر الشریعہ سے بیعت کرنے کے لئے چنانچہ راستہ میں ہمیں ، پیر کے ساتھ کیا کرنا چاہیے بتاتے رہے مغرب کے بعد گاڑی پہنچی ۔ حضرت (صدر الشریعہ ) سے ملاقات ہوئی ۔ حافظ ملت نے حضرت سے عرض کی کہ میں ان کو سلسلہ میں داخل کرنے کے لئے لایا ہوں ، حضرت نے فرمایا ٹھیک ہے ، عشاء کی نماز کے بعد حضرت نے ہمیں اپنی غلامی میں لے لیا، یہ تقریباً ١٣٥٨ھ کا واقعہ ہے”
اس طرح حضور حافظ ملت نے قاری صاحب اور مولانا سید عبدالحق صاحب گجہڑوی کو گھوسی ”قادری منزل” لے جاکر خود حضرت صدر الشریعہ بدر الطریقہ علامہ حکیم ابو العلاء امجد علی قادری رضوی قدس سرہ کے دست مبارک پر بیعت کرایا ، قاری صاحب کے شجرہ شریف پر شعبان ١٣٥٨ھ تحریر ہے۔
سلسلہ بیعت کے علاوہ حافظ ملت علیہ الرحمہ کی کرم فرمائیوں سے ان حضرات نے حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ سے بخاری شریف کی آخری حدیث کا سبق بھی پڑھا اور شرف تلمذ حاصل کیا۔ اپنے ان محبوب تلامذہ کو صدر الشریعہ علیہ الرحمہ سے شرف تلمذ دلانے کے لئے بھی حافظ ملت نے ان کے ساتھ گھوسی کا سفر فرمایا۔
خلافت:
جس ہونہار بچے نے کمسنی میں حافظ ملت علیہ الرحمہ کے ہاتھوں علم کی چاشنی پالی تھی اور انہی کی زیر تربیت مبارکپور میں علوم اسلامیہ کی آگہی میںلگا ہوا تھا۔ شعور کی پختگی کے ساتھ اس میں توجہ الی اللہ اور سلوک کی راہ پر چلنے کا اشتیاق خود بخود ابھرنے لگا۔ چنانچہ بیعت کے بعد ایک مرتبہ حضور دصدر الشریعہ علیہ الرحمہ مبارکپور تشریف لائے تو قاری صاحب نے خدمت میں التجا کی کہ مجھے کچھ وظیفہ وغیرہ تعلیم فرمائیں۔
حضور صدر الشریعہ نے مسکرا کر جواب دیا:
”یہ جو کچھ کام (حصول علم دین) آپ کررہے ہیں آپ کے لئے یہی سب سے بڑا وظیفہ ہے ۔ ان شاء اللہ آگے چل کر میں آپ کو وظیفہ بتاؤں گا”
ناگپور کے زمانہ خطابت میں حضرت قاری صاحب کو اپنے پیرومرشد سے ملاقات کے مواقع ملتے رہے اور وہ اپنی روحانی ارتقائی منازل پر گامزن رہے۔ جامعہ رضویہ کا سالانہ اجلاس ہوا۔ حضرت صدر الشریعہ کی تشریف آوری ہوئی ۔ پروانوں کی بھیڑ میںحضرت قاری صاحب نے بھی قدمبوسی کا شرف پایا ۔ اختتام جلسہ کے بعد حضرت چھلواڑہ کے لئے روانہ ہوئے اور قاری صاحب کو بھی ہمراہ چلنے کا حکم فرمایا ۔ وہاں پہنچ کر جناب حاجی عبدالقادر صاحب کے دولت کدہ پر بزم نعت پاک کا انعقاد ہوا۔ حضور صدر الشریعہ کے جلو میں حضرت مولانا اشرف علی قادری اور مولانا نثار احمد مبارکپوری بھی موجود تھے۔ حب رسول کی سرمستی کا عالم تھا۔ لوگوں پر کیف و سرور چھایا ہوا تھا اور آنکھیں نم تھیں ۔ نعت خواں حضرات حضور سرور عالمیان محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں قصائد پڑھ رہے تھے اور مجلس پر وجد طاری تھا۔ اتنے میں حضرت قاری صاحب اپنی جگہ سے اٹھ کر پیرومرشد کے روبرو پہنچے اور عرض گزار ہوئے کہ سرکار ! آپ کے وسیلہ سے حضرت جامی علیہ الرحمہ کے اشعار کا سہارا لے کر میں بھی بارگاہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں ۔
پیرو مرشد نے اجازت دے دی ، پھر کیا تھا حضرت قاری صاحب نے اپنے محبت و عقیدت بھرے لہجے میں
غوث اعظم بمن بے سرو ساماں مددے
قبلہ دیں مددے کعبہ ایماں مددے
عشق رسول کے سوزو گداز نے قاری صاحب کی آواز کو تیرونشتر بنادیا تھا۔ ہر سینہ چھلنی اور ہر قلب بے قرار ہو اٹھا حضرت خود بھی روئے اور قاری صاحب نے بھی ہچکےاں بھر کر نعت نا تمام چھوڑ دی ۔ حضور صدر الشریعہ یہ دیکھ کر اپنی مسند سے اٹھے اور قاری صاحب کو بٹھالےا اور اسی روز اپنی خلافت سے سرفراز کیا۔ حضرت قاری صاحب کہنے لگے حضرت ! میں اس لائق نہیںہو ںیہ بوجھ بھلا میںکےسے برداشت کر سکتا ہوں ، فرمایا! جس کا کام ہے وہی اٹھائے گا۔ یہ واقعہ ١٩٤٦ء کا ہے ۔ اس وقت حضرت قاری صاحب کی عمر تقریباً ٢٩/سال تھی ۔
اس کے علاوہ آپ کو شہزادہ اعلیٰ حضرت حضور مفتی اعظم ہند مصطفی رضا خاں صاحب بریلوی قدست اسرار ہم نے ١٣٧٦ھ میں اپنی خلافت سے سرفراز کیا ۔ نیز ضیاء الامت حضرت مولانا ضیاء الدین صاحب مدنی خلیفہ امام احمد رضا قادری علیہ الرحمہ مقیم مدینہ منورہ کی طرف سے بھی حضرت قاری صاحب قبلہ کو سلسلہ قادریہ ، رضویہ ، سلسلہ سنوسیہ سلسلہ شاذلیہ ، سلسلہ منوریہ سلسلہ معمریہ اور سلسلہ اشرفیہ کی اجازت و خلافت سے نوازا گیا۔
حضرت مولانا ضیاء الدین مدنی اور مصلح اہلسنّت:
اپنی مودبانہ شرست (سادہ طبیعت) اور حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی اعلیٰ تربیت کے طفیل قاری صاحب کو شیخ العرب و العجم حضرت علامہ ضیاء الدین احمدمدنی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں بڑا قرب حاصل تھا، بلکہ وہ ان کے فرزند کی طرح تھے۔ قاری صاحب مدینہ طیبہ حاضری کے دوران مسجد نبوی شریف کے بعد سب سے زیادہ وقت حضرت کی خدمت میں دیتے اور حضرت کی خانقاہ ہی میں قیام کرتے اور خود حضرت کا یہ عالم تھا کہ وہ بھی حضرت قاری صاحب کو بہت پیار کرتے تھے اور مجلس ہوتی تو قاری صاحب سے زیادہ نعت سماعت فرماتے تھے۔ مدینہ طیبہ کی ملاقات کے دوران قاری صاحب نے راقم الحروف کو بتایا کہ حضرت ضیاء الملت علیہ الرحمہ اپنے کرم خاص سے فرماتے ہیں کہ میرے تمام مریدین آپ کے ہیں
واہ کینٹ کی خطابت:
پاکستان کے اکابر علماء اہلسنت کی نگاہ میں حضرت قاری صاحب کی کتنی وقعت اور قدرومنزلت تھی اس کا اندازہ لگانے کے لئے ایک واقعہ حاضر خدمت ہے ۔ علامہ عبدالحامد بدایونی محدث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد لائلپوری ، حضرت مولانا عارف اللہ شاہ صاحب اور حضرت پیر صاحب دیول شریف ، غزائی دوراں علامہ احمد سعید کاظمی ، پیر طریقت علامہ سید قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین اہلسنت کی ٹھوس بنیادی خدمات کے لئے آپ پر بے حد اعتماد کرتے تھے۔
واہ کینٹ کی جامع مسجد پاکستان میں بڑی مرکزی مساجد میں شمار ہوتی ہے جہاں بد مذہب گھسنے کی کوششیں کرتے رہے۔ ایک مرتبہ وہاں کے لئے امام کا تقرر ہونے والا تھا، جس کے لئے بڑی تعداد میں امیدوار تھے ۔
اس سلسلہ میںحضرت محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمہ نے قاری صاحب کو ٹیلی گرام بھجوایا کہ آپ اخوند مسجد میں کسی کو اپنی جگہ رکھ کر واہ کینٹ مسجد امامت کےلئے انٹرویو میں ضرور تشریف لے جائیں ، دوسری طرف سے حضرت مولانا عارف اللہ شاہ صاحب اور پیر صاحب دیول شریف نے بھی اسی مقصد کے لئے قاری صاحب کو ٹیلی گرام بھیجے ۔ بعد میں محدث اعظم پاکستان نے قاری صاحب کو اس بارے میں خط بھی تحریر فرمایا۔ بہر حال قاری صاحب نے اس معرکہ کو کسی طرح سر کیا اور صرف ڈیڑھ سال کے قلیل عرصے میںکتنی مقبولیت حاصل کی اور لوگوں کے دلوں میں کےسا مقام پیدا کیا کہ اس کے بعد جب انہیں اپنی کچھ ذاتی دشواریوں کے باعث وہاں کی خطابت سے ہٹنا پڑا تو وہاں کے لوگ دھاڑیں مار مار کر روتے تھے اور قاری صاحب کی راہ میں آنکھیں بچھاتے تھے۔ فیکٹری کی اس شاندار جامع مسجد میں ائمہ کو مسجد کمیٹی کے لوگ خود ہی تقریرکا موضوع دیتے تھے اور ائمہ کو ان ہی موضوعات پر تقریر کرنی ہوتی تھی ۔ حضرت قاری صاحب کی یہ خصوصیت تھی کہ وہ ہر موضوع کو عشق رسول ، اور محبت مصطفی کے سانچے میں ڈھال لیا کرتے تھے اور قرآن و احادیث کے حوالوں میںجب درد و سوز بھری آواز سے نعت حبیب پڑھتے تھے تو سننے والوں پر وجدانی کیفیت طاری ہوجایا کرتی تھی ۔
وہاں تقرری سے لے کر سبکدوشی تک کے واقعہ کو قاری صاحب خود بیان کرتے ہیں :
”ان حضرات کا اصرار تھا کہ آپ وہاں خو دجائیں ۔ چنانچہ میں وہاں پہنچا ، بارش بڑی شدید تھی ۔ بہر حال شام کے وقت میں وہاں پہنچا اور اس وقت مولانا عارف اللہ صاحب نے گاڑی کا بندوبست کیا اور ہم رات کو واہ کینٹ پہنچے اور وہاں رات کو سرکاری بنگلے میں قیام ہوا اور دن میں پھر وہاں پہنچے ۔ بہر حال یہ کہ پہلی تقریر مفتی لدھیانوی کی اور اس کے بعد دوسری تقریر میری ہوئی ۔ اس کے علاوہ اور تقریریں بھی ہوئیں اور اس کے بعد جو کمیٹی نے فیصلہ کیا ۔ زیادہ میرے حق میں دیا کہ آپ کو بحیثیت خطیب کے یہاں رکھا جاتا ہے ۔ چنانچہ میں ڈیڑھ سال تک خطیب رہا اور مغرب کے بعد درس قرآن ہوتا تھا اور صبح درس حدیث ہوا کرتا تھا۔ لوگ کثرت سے حاضر ہوا کرتے تھے اور پانچ دن کی محنت سے فیکٹری کا دیا ہوا موضوع جو ہوتا تھا۔ اس موضوع پر میں پوری تیاری کر کے آتا تھا۔ تو چنانچہ جب میں واہ کینٹ میں تھا، اجتماع بڑھتا رہا، چنانچہ حکومت کو مجبوراً ٣٥/ہزار کے شامےانے خریدنے پڑے اور بہت کافی انہوں نے انتظام کیا اور تقریباً مسجد بھری ہوتی تھی ۔ تقریباً ١٨/یا ١٩/ ہزار کا مجمع ہوا کرتا تھا اور ڈیڑھ سال کے بعد ہم پھر واپس اخوند مسجد آگئے ۔ کچھ اپنی مجبوریوں کی وجہ سے لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے”
زبان اہل دل سے بات جو باہر نکلتی ہے
تو لگتا ہے دلوں پر حیدری شمشیر چلتی ہے (بدر)
لائیں کہاں سے دوسرا تم سا کہیں جسے؟:
میمن مسجد میں عرس حامدی کی تقریب تھی ، بریلی شریف سے حجۃ الاسلام کے پوتے حضرت مولانا اختر رضا خاں ازہری مدظلہ العالی بھی آئے ہوئے تھے قاری صاحب نے ”روح اور موت” کے عنوان پر تقریر کی ۔ رات گزری دوسرا دن آیا ظہر کی امامت کرکے دولت خانے میں گئے تاکہ فاتحہ غوث الاعظم کی محفل میں شرکت کے لئے تیاری کریں ۔ اچانک دل کا دورہ پڑا اعزہ فوراً علاج کے لئے شفاء خانے لے کر چلے۔ مگر شافی حقیقی نے وہاں پہنچنے سے قبل ہی اپنے قرب میں بلالیا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون (بروز چہار شنبہ ساڑھے چار بجے دن ٧/جمادی الثانی ١٤٠٣ھ/ ٢٣/مارچ ١٩٨٣ء)
دوسرے روز ساڑھے دس بجے دن کم و بیش تیس ہزار مسلمانوں نے نماز جنازہ ادا کی جس کی امامت حضرت علامہ اختر رضا خاں قادری بریلوی جانشین مفتی اعظم ہند مدظلہ العالی نے فرمائی ۔ حکومت پاکستان نے آپ کے اعزاز میں کھوڑی گارڈن کا نام تبدیل کرکے آپ کے نام پر مصلح الدین گارڈن رکھا۔
کراچی میں حضرت قاری صاحب علیہ الرحمہ سیدنا امام احمد رضا قدس سرہ کے مشن کے مبلغ تھے۔ آج ان کے روضے کا گنبد ، بریلی شریف کے رضوی گنبد کا مثنی اہل محبت کی نگاہوں کا نور بنا ہوا ہے ۔ حضرت مصلح اہلسنت نے اپنی نیابت و خلافت کا باقاعدہ اعلان اپنی حیات ہی میں پنج شنبہ ٢٧/ جمادی الثانی ١٤٠٢ھ /٢٢/اپریل ١٩٨٢ء عشاء کی نماز کے بعد بمقام میمن مسجد مصلح الدین گارڈن ، بہت سے علماء مشائخ کی موجودگی میں ، اپنی روانگی عمرہ سے قبل کی تقریب سعید میں اپنے داماد حضرت مولانا سید شاہ تراب الحق قادری دامت برکاتہم العالیہ کے حق میں فرمادیا تھا اور انہیں خلافت نامے اور دستار سے سرفراز کردیا تھا۔ انتقال کے بعد سوئم کی فاتحہ کے موقع پر اس کی تجدید کے طور پر حضرت علامہ اختر رضا قادری قبلہ نے شاہ صاحب کی دستار بندی فرمائی اور قاری صاحب علیہ الرحمہ کے فرزند مصباح الدین کو ان کے سپرد کیا ۔ حضرت مصلح اہلسنت کے وصال پر جناب راغب
مراد آبادی نے تاریخ وفات لکھی
خوشا مصلح تھے قاری مصلح الدین
ہوئے دنیا سے رخصت سن کے یاسین
یہ تاریخ وفات ان کی ہے راغب
”تھے جان عصر قاری مصلح الدین” ٣ ٠ ٤ ١ ھ
حضرت مصلح اہلسنت علیہ الرحمہ نے ١٢/ حج کیے پہلا حج ١٩٥٤ء میں کیا اور ١٩٧٠ء میں سرکارغوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے دردولت پر بغداد شریف حاضری دی اور اپنا دامن شوق مرادوں سے بھرا۔
ازواج اور اولاد:
آپ کا پہلا نکاح والدین کریمین کی مرضی سے مبارک پور دارالعلوم اشرفیہ سے فراغت کے بعد ٢٤/ سال کی عمر میں ہوگیا تھا۔ اہلیہ محترمہ ٢/صاحبزادیاں چھوڑ کر انتقال کر گئیں ۔ ٣٠/سال کی عمر میں دوسرا نکاح جناب صوفی محمد حسین صاحب عباسی کی صاحبزادی سے ہوا۔ رب تعالیٰ نے حضرت قاری صاحب کو چار صاحبزادیاں اور تین فرزند محمد صلاح الدین ، محمد مصباح الدین ، محمد معین الدین عطا کیے۔ (اسعدھم اللہ تعالیٰ)
کہتی ہے ان کو خلق خدا غائبانہ کیا کیا:
حضرت مصلح اہلسنت نے دنیا میں اپنا مہد سے لحد تک کا وقفہ پور اکرلیا ، اب ہم لوگوں میں ان کی یادیں ان کے تذکرے اور کارناموں کے نقوش باقی ۔ لوگ زبان خلق کو نقارہ خدا کہتے ہیں ۔ حضرت مصلح اہلسنت کی ذات و صفات اور ان کے اخلاق و کردار کے بارے میں علماء مفکرین اور اہل دین و دیانت کیا کہتے ہیں ۔ اس آئینے میں ان کی گرانقدر شخصیت کو دیکھنا آسان ہے ۔ اس لئے ہم ”عرفان منزل ” کے ”مصلح الدین نمبر” سے کچھ اقوال منتخب کرتے ہیں
زر بکف ، گل پیرہن رنگین قباء آتش بجام
ایک قطرہ سو طرح سے سرخرو ہوکر رہا
٭۔۔۔۔۔۔ وہ حضرت مولانا قاری مصلح الدین صاحب ، اسم بامسمی ہیں۔ (حضرت شیخ ضیاء الدین مدنی علیہ الرحمہ)
٭۔۔۔۔۔۔ دنیا چند لوگوں کی وجہ سے قائم ہے اور ان میں سے ایک قاری مصلح الدین صدیقی ہیں۔ (حضرت شیخ ضیاء الدین مدنی علیہ الرحمہ)
٭۔۔۔۔۔۔ اگر کسی کو نیک طالب علم دیکھنا ہو تو مصلح الدین کو دیکھے، مصلح الدین میرا بیٹا ہے ۔(حافظ ملت محدث مبارکپوری علیہ الرحمہ )
٭۔۔۔۔۔۔ آپ کی ذات گرامی ایسی نہیں تھی جسے باآسانی فراموش کیا جاسکے ، یا اعتداد زمانہ ان کی یاد قلوب و اذہان سے محو کر سکے ۔ اس لئے کہ آپ صرف عالم ہی نہیں بلکہ عالم با عمل تھے۔ (حضرت علامہ تقدس علی خاں علیہ الرحمہ)
٭۔۔۔۔۔۔ انہوں نے مسلمانوں کو اپنی عملی زندگی کے ذریعہ اسلاف کی تعلیمات کے مطابق یہ درس دیا کہ وہ دین پر سختی سے قائم رہیں ۔ (علامہ مفتی وقار الدین علیہ الرحمہ)
٭۔۔۔۔۔۔ مختصر سی ملاقات ہوئی تھی دیکھنے سے علماء سلف کی یاد تازہ ہوگئی ۔( مولانا فیض احمد فیض ، گولڑہ شریف ، مصنف مہر منیر)
٭۔۔۔۔۔۔ وہ ایک عاشق رسول تھے تقویٰ عبادت اور ریاضت یہ تمام خوبیاں (ان میں) بدرجہ اتم موجود تھیں ۔ (علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری علیہ الرحمہ)
٭۔۔۔۔۔۔ اپنے معمولات کو انہوںنے خاص ترتیب سے رکھا ہوا تھا اور وہ ان پر تقریباً آخری دم تک قائم رہے۔ (علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری علیہ الرحمہ)
٭۔۔۔۔۔۔ (انہوں نے ) اپنے پیچھے اہلسنت کا ایک فیض و تربیت یافتہ عظیم قافلہ چھوڑا ہے جو ان کی پوری زندگی کا سرمایہ ۔ (مولانا مشاہد رضا خان قادری علیہ الرحمہ )
٭۔۔۔۔۔۔ وہ کبھی بھی بدمذہبوں اور بد عقیدہ افراد کے میل جول کو قطعاً پسند نہیں فرماتے تھے بلکہ ملنے جلنے سے بھی پرہیز فرماتے تھے۔ (ظفر علی نعمانی)
٭۔۔۔۔۔۔ قابل رشک ہے وہ شخصیت جس کی ہم نشینی خدا و رسول کی محبت سے سرشار کردے۔ (علامہ عبدالحکیم شرف قادری لاہور)
٭۔۔۔۔۔۔ آپ کی ذات گرامی علماء اورصوفیائے کرام میں خاص توجہ اور عقیدت و محبت کا مظہر تھی جسے بھی آپ کی صحبت اور محبت میسر آئی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گرویدہ اور شیدائی بن کر رہ گیا ۔ (مولانا سید شاہ تراب الحق قادری )