آزادی کی بنیاد ڈالنے والا سب سے بڑا مجاہد جس کو تاریخ دانوں نے بُھلا دیا، مؤرّخین نے جس کے ساتھ انصاف نہیں کہا، لکھنے والوں نے جس کے ساتھ عدل نہیں کیا۔ وہ آپ جانتے ہیں کون ہے جس نے آزادی کا سب سے پہلا پتھر رکھا؟ جس نے آزادی کا سب سے پہلے سنگ بنیاد رکھا؟ وہ مرد مجاہد حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اﷲ علیہ تھے۔

ہندوستان کی سر زمین پر فرنگی نصرانیوں کی آمد عہد جہانگیری میں شروع ہوئی جبکہ اس کیلئے اکبری دو رمیں راہ ہموار ہوچکی تھی۔ دولتِ ہندوستان کی طمع نے برطانیہ کے انگریزوں، فرانسیسیوں اور پرتگالیوں کو ایشیاء کے اس خطہ برصغیر کی طرف متوجہ کیا۔ انگریزوں نے تجارت کی آڑ میں ایسٹ انڈیا کمپنی قائم کی اور اپنے مفادات کے اہداف کا دائرہ وسیع کرتے کرتے پہلے جنوبی ہندوستان پر اپنا تسلط قائم کرنیکی کوشش کی ، ہندوستان کے مغل فرمانرواؤں کی خاموشی سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے دیگر ریاستوں کے حکمرانوں (جن میں ہندواور مسلمان دونوں شامل ہیں) سے دوستی شروع کی۔ ولی صفت مغل فرمانروا حضرت مجدد مأتہ اثنا عشر محی الدین اورنگزیب عالمگیر علیہ الرحمۃ کے وصال کے بعد انگریزوں کی ریشہ دوانیوں اور مکاریوں کا دائرہ وسیع ہوگیا، اورنگزیب عالمگیر علیہ الرحمۃ کے جانشینوں کی کمزوری کے باعث مغل سلطنت سمٹنے لگی دیگر ہندو راجاؤں اور مسلمان نوابوں کو انگریزوں نے آپس میں ایک دوسرے سے بر سر پیکار کردیا اور ہر دو فریق مسلمانوں اور ہندؤوں کو جدید وسائل کے لالچ میں مکارانہ دوستی اختیار کرنے کی تلقین کرنے لگے ۔ ایسے ہی موقع پر اللہ تعالیٰ نے سلطان حیدر علی علیہ الرحمۃ ، سلطان ٹیپو شہید علیہ الرحمۃ اور سراج الدولہ علیہ الرحمۃ کو اسلامیانِ برصغیر کی قیادت عطا کی لیکن نظام دکن، راجہ پونا، نواب اراکاٹ اور مغلوں کی عدم توجہ ، سلطنتِ عثمانیہ کے اپنے مسائل اور بعض غدارانِ وطن (میر جعفر، میر صادق وغیرہ) کے باعث پورے ہندوستان پر انگریزوں کا غاصبانہ قبضہ ہوگیا ازاں بعدہندوستان کے وسائل سے اہل ہندوستان کو محروم رکھا جانے لگا، ظلم و ستم سے عوام و خواص، نوابین و حکما ء اور دانشور وعلماء کوئی بھی محفوظ نہ رہے۔ سلطنت مغلیہ کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کو ایک صبح ناشتے میں ان کے شہزادگان کے کٹے ہوئے سر پیش کئے ۔ ایسے موقع پر اسلامیانِ ہندوستان کی قوت کو ایک مرکز پر مجتمع کرنے کیلئے اور روح جہاد پھونکنے کیلئے علماء اہلسنّت کا ایک گروہ بطلِ حریت امام المتکلمین علامہ فضل حق خیر آبادی کی قیادت میں انگریزوں کے خلاف صف آراء ہوا۔ ہندو فطرتاً بزدل واقع ہوئے ہیں لہٰذا ان سے کسی خیر کی توقع نہ تھی اس لئے مسلمانوں میں جذبہ حریت بیدار کرنے کیلئے علامہ فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمۃ نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا۔ ہندوستان کے تمام اجلّہ و مقتدر علماء کرام نے اس کی تائید و توثیق فرمائی۔

بطلِ حریّت، مجاہد ملت، میرکاروان جنگِ آزادی علامہ فضل حق خیر آبادی عمری حنفی ماتریدی چشتی ١٢١٢ھ بمطابق ١٧٩٧ء میں اپنے آبائی وطن خیر البلاد خیر آباد میں پیدا ہوئے، آپ کے والد ماجد مولانا فصل امام خیر آبادی علماءِ عصر میں ممتاز اور علوم عقلیہ کے اعلیٰ درجہ پر سرفراز تھے، حضرت علامہ کے دادا حضرت مولانا راشد ہرگام پور سے خیر آباد تشریف لا کر سکونت پذیر ہوئے تھے۔ (سیرت علامہ فضل حق خیر آبادی، ماخوذ از خون کے آنسو، ص٦، تذکرہ علماء ہند، ص١٦٤)

تمام علوم عقلیہ و نقلیہ اپنے والد حضرت فضل امام خیر آبادی سے حاصل کئے اور حدیث شریف محدِّث شہیر شاہ عبدالقادر محدّث دہلوی سے دہلی میں حاصل کی (مقدمۃ الیواقیت المہریہ، ص٤)، چنانچہ حضرت علامہ نے ١٢٢٥ھ بمطابق ١٨٠٩ء تیرہ سال کی عمر میں تمام مروجہ علوم عقلیہ و نقلیہ کی تکمیل کی اور چار ماہ کچھ روز میں قرآن شریف حفظ کیا۔ (سیرت علامہ فضل حق خیر آبادی، ص١٢۔ مقدمۃ الیواقیت المہریہ، ص٤)

علامہ مشتاق احمد نظامی لکھتے ہیں: مولانا فضل حق نے آنکھ کھولی تو گرد و پیش علم و فضل، عمارت و ریاست کو جلوہ گر دیکھا۔۔۔۔۔۔جس وقت علامہ فضل خیر آباد سے دہلی پہنچے تو ایک سے بڑھ کر ایک باکمال نظر آئے، مُفسِّرین، محدِّثین، فقہاء، فلاسفہ، اولیاء، شعراء۔۔۔۔۔۔ جس طبقے پر نظر ڈالئے تو سب ہی موجود تھے، آپ کے والد ماجد مکان کے علاوہ ہاتھی اور پالکی پر بھی دربار جاتے وقت ساتھ بٹھا کر درس دیتے تھے، اور صغر سنی ہی سے معقولات میں اپنے جیسا یگانہ روزگار بنا لیا تھا اور منقولات کی تحصیل کے لئے شاہ عبدالقادر مُحدِّث رحمۃ اللہ علیہ، شاہ عبدالعزیز مُحدِّث رحمۃ اللہ علیہ کی درس گاہ تک پہنچا دیا۔ (سیرت علامہ فضل حق خیر آبادی، ص١٢)

حضرت کے علمی مقام اور ان کی علمی جلالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ اپنے معاصرین میں بی نظیر اور حد درجہ ممتاز تھے۔ آپ تقدیس الٰہی جلّ و علا اور ناموسِ رسالت علیہ التحیۃ و الثناء کے محافظ اور اسلام اور اہلِ اسلام کے خیر خواہ اور اہلسنّت کے ان علماء میں سے تھے جن کا نام ”تاریخ ہند” میں ہمیشہ سنہری حرفوں سے لکھا جائے گا۔

علامہ محمد فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمۃ میں ایمانی غیرت و حمیت دیگر علماء کے مقابلہ میں بام عروج پر نظر آتی ہے، اس کی وجہ یقینا یہ ہے کہ آپ بتیس ٣٢ واسطوں سے خلیفہ ثانی سید نا فارقِ اعظم رضی اللہ عنہ، کی اولاد میں سے ہیں۔

آپ علیہ الرحمہ دہلی آئے اور تاریخ سے آپ کی بہادر شاہ ظفر سے ملاقات بھی ثابت ہے۔ منشی جیون لال کا ”روزنامچہ” ١٦/ اگست ، ٢ ستمبر، ٦ ستمبر اور ٧ ستمبر ١٨٥٧ء کو ملاقات ثابت کرتا ہے (دیکھئے غدر کی صبح و شام، ”روزنامچہ منشی جیون لال”، ص٢١٧، ٢٤٠، ٢٤٦، ٢٤٧)

اور علامہ عبد الحکیم شرف قادری اس کے تحت لکھتے ہیں: اس ”روزنامچہ” سے علامہ کی باخبری اور انقلابی سرگرمیوں کا اندازہ ہوتا ہے، اور علامہ نے موجودہ صورت حال کے متعلق بادشاہ سے گفتگو کی۔ (باغی ہندوستان ترجمۃ الثورۃ الہندیۃ،حرف آغاز، ص١٤١، مطبوعہ: الممتاز پبلی کیشنز، لاہور)

اور اس کے بعد میں علامہ فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمہ نے دیکھا کہ یہ انگریز ہمارے ذہنوں میں چھا جائے گا۔ مسلمان کی نسل کشی کرے گا۔ ہمارے مذہب اور تشخّص کو تباہ وبرباد کردے گا۔ علامہ فضل حق خیر آبادی نے ١٨٥٧ء میں دہلی میں بیٹھ کر انگریز کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا۔ علامہ مشتاق احمد نظامی نے اسے اِ ن الفاظ میں بیان کیا کہ ”آخر علامہ فضل حق نے ترکش سے آخری تیر نکالا، بعد نمازِ جمعہ جامع مسجد میں علماء کے سامنے تقریر کی اور استفتاء پیش کیا، مفتی صدر الدین خان، مولوی عبدالقادر، قاضی فیض اللہ، مولانا فیض احمد بدایونی، وزیر خان اکبر آبادی، سید مبارک حسین رامپوری نے دستخط کر دئیے”۔ (سیرت فضل حق خیر آبادی، ص٢٣)

جب فتویٰ مرتّب کیا سب اکابر علماء سے اس فتویٰ پر دستخط کرائے۔ سارے اکابر علماء نے اس جہاد کے فتوے پر دستخط فرمائے۔ علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اﷲ علیہ کا جہاد کا فتویٰ جاری کرنا تھا کہ ہندوستان بھر میں انگریز کے خلاف ایک بہت بڑی عظیم لہر دوڑگئی اور گلی گلی، قریہ قریہ، کوچہ کوچہ، بستی بستی، شہر شہر وہ قتال وہ جدال ہوا کہ انگریزحکومت کی چولہیں ہل گئیں۔ مگر آپ جانتے ہیں کہ انگریز بڑا مکار اور خبیث ہے اس نے اپنی تدبیر یں لڑا کر بڑے بڑے لوگوں کو خرید کر اور ڈرا دھمکا کر بے شمار لوگوں کو قتل کرنے کے بعد اس نے تحریک کو کُچل دیا۔ آزادی کی تحریک کوکُچل تودیا مگر حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی نے آزادی کا سنگ بنیادرکھ دیا تھا اس کو بظاہر انگریز نے وقتی طور پر کُچل دیا۔

 

مجاہدِ اہلسنّت نے جہاد کا فتویٰ واپس نہ لیا


انگریزوں کے دلوں میں یہ بات تھی کہ اگر چہ ہم نے اس تحریک کو بظاہر کچل دیا ہے مگر مسلمانوں کے دلوں سے جذبہ جہاد نہیں نکال سکتے یہ بہت مشکل کام ہے ملکہ وکٹوریہ نے ایک مکارانہ چال چلی وہ مکارانہ چال یہ تھی کہ ہندوستان میں یہ اعلان کردیا جائے کہ جتنے بھی باغی ہیں سب کو معاف کردیا ہے چنانچہ انگریزوں نے یہ اعلان کردیا علامہ فضلِ حق خیر آبادی صاحب ابھی گرفتار نہیں ہوئے تھے وہ مجاہدین کی دہلی میں تربیت کرتے تھے دہلی سے آپ علی گڑھ تشریف لے گئے علی گڑھ میں آپ کچھ عرصے رہے وہاں مجاہدین کی مدد کرتے رہے جب انگریزنے یہ اعلان کیا کہ باغیوں کو معاف کردیا گیا ہے سارے مجاہدین باہر آگئے علامہ فضلِ حق خیر آبادی صاحب بھی اپنے وطن خیرآباد تشریف لے آئے۔

آپ خیر آباد پہنچے تھے کہ کچھ دنوں کے بعد کسی نے یہ مُخبر ی کردی کہ یہ وہی علامہ فضلِ حق صاحب ہیں جنہوں نے انگریزکے خلاف جہاد کا پہلا فتویٰ دیا تھا چنانچہ سازش کے تحت آپ کو گرفتار کرلیا گیا۔ گرفتار کرنے کے بعد آپ کو لکھنو لے جایا گیا وہاں آپ پر بغاوت کا مقدمہ چلا۔ جیسے ہی کاروائی شروع ہوئی گواہ نے آپ کو پہچاننے سے انکار کردیا جس جج کے سامنے آپ پیش ہوئے اس جج نے بھی آپ سے کچھ کتابیں پڑھیں تھیں وہ جج بھی یہی چاہتا تھا کہ علامہ صاحب کسی طرح مقدمے سے نکل آئیں اورسزا سے بچ جائیں۔

چنانچہ گواہ نے کہا کہ انگریز کے خلاف جنہوں نے جہاد کا فتویٰ دیا تھا وہ عالم دین نہیں ہیں یہ ساری کاروائی کے بعد جب آپ کے رہا ہونے کی منزل قریب آئی تو جج نے آپ کے کان میں کہا کہ علامہ صاحب آپ صرف اتنا کہہ دیں کہ یہ فتویٰ میں نے نہیں دیا ،آپ سزا سے بچ جائیں گے جج یہ کہہ کر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا یہ سمجھ کر کہ علامہ صاحب میری بات سمجھ گئے ہوں گے، جب جج نے آ پ سے پوچھا کہ آپ نے انگریز حکومت کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا ہے؟

آپ نے گرج دار لہجے میں کہا کہ اس گواہ نے مروت میں آکر مجھے پہچاننے سے انکار کردیا ہے میں نے ہی انگریز حکومت کے خلاف جہاد کافتویٰ دیا ہے اوراس کے عوض مجھے جو سزاملے گی میں قبول کروں گا۔

جج اورگواہ سرپکڑ کر بیٹھ گئے آپ کو اس جرم کی سزا عمر قید سنائی گئی. آپ علیہ الرحمہ کو انگریزوں نے (فتویٰ جہاد اور اہلِ ہند کو انگریز کے خلاف جہاد کے لئے تیار کرنے کے جُرم میں) فسادِ ہند کے زمانے میں جزیرہ رنگون (یعنی جزیرہ انڈمان جسے کالا پانی کہا جاتا تھا) میں قید کر دیا، وہیں تین برس کے بعد ١٢ صفر المظفر ١٢٧٨ھ بروز پیر بمطابق ۱۹ اگست ١٨٦١ء کو امام حریت نے عالم کو فیضیاب فرمانے کے بعد اسیری ہی کی حالت میں جزائر انڈیمان میں جام شہادت نوش فرمایا اور وہیں آپ کا مزار شریف ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مجاہد کو انگریز کی آزادی سے پہلے ہی اپنے نیک بندے کو آزاد کرلیا۔ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ونوراللہ مرقدہ)۔ (تذکرہ علماء ہند فارسی، مصفنہ مولوی رحمان علی، ص١٦٥)

جہاد آزادی کے فتویٰ دینے پر انگریزوں نے آپ کو گرفتار کیا اور آپ کے کئی رفقاء علماء بھی اسیر ہوئے جن میں حضرت مولاناکفایت علی کافی (انہیں انگریزوں نے پھانسی دے کر شہید کیا) ، علامہ مفتی عنایت احمد کا کوروی علیہ الرحمۃ جبکہ بعض ترک وطن (ہجرت) کرکے مکہ یا مدینہ آباد ہوئے (جن میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی، شیخ الدلائل مولانا عبدالحق مہاجر مکی ،شاہ احمد سعید مجددی ، مولوی ڈاکٹر وزیر خاں اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہم اللہ شامل ہیں) جبکہ مولانا فیض احمد بدایونی علیہ الرحمۃ کے بارے میں تا حال محققین کو علم نہیں کہ انگریزوں نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا۔

 

اسلامیانِ ہند کی سیاسی آزادی کے محاذ کے علاوہ علامہ فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمۃ نے مسلمانوں کے عقیدہ کی حفاظت و صیانت کی جنگ بھی لڑی، ہندوستان میں وہابی تحریک کے آغاز ہی میں (جب انگریزوں کی سر پرستی میں مسلمانوں کے اندر سے عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کو نکالنے کی سازش شروع ہوئی) امام حُریت نے سب سے پہلے مولوی اسماعیل دہلوی کی کتاب ”تقویۃ الایمان” کے کئی رد لکھے جس میں آپ کی تصنیف ”تحقیق الفتویٰ” قابلِ ذکر ہے جس کے آخر میں کئی مشاہیر کے علاوہ حضرت شاہ احمد سعید مجددی علیہ الرحمۃ کی مُہریں ثبت ہیں۔ مولوی اسماعیل دہلوی، مولوی محبوب علی جعفری، مولوی اسحق دہلوی (نواسہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمۃ) اور مولوی عبدالحئی نے جب مل کر مسلمانانِ ہند کی خوش عقیدگی پر حملے کئے ، میلاد، توسل، عقیدہ شفاعت اور اعراس بزرگانِ دین کو شرک و بدعت کہنا شروع کیا تو مولانا فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمۃ اور ان کی تحریک پر ہم عصر علماء، سیف اللہ المسلول، معین الحق، مولانا شاہ فضل رسول بدایونی (مصنف سیف الجبار علی الاعداء الابرار مکتوبہ ١٢٦٥ھ، بوارق محمدیہ، المعتقد المنتقد شرح فصوص الحکم، حاشیہ میر زاہد و ملا جلال وغیرہ) مولانا شاہ احمد سعید مجددی (مصنف اثبات مولد و القیام عربی، سعید البیان فی سید الانس و الجان اردو، الذکرا الشریف فی اثبات المولد المنیف فارسی) حضرت مولانا غلام محی الدین قصوری (ماموں حضرت مولانا غلام دستگیر قصوری)، مولانا مفتی نقی علی خاں بریلوی (والد اعلحٰضرت) اور دیگر (رحمہم اللہ) نے تحریر اور تقریر کے میدان میں نکل کر علمی جہاد کیا اور اسلامیان ہند کے مسلک حق اہلسنّت و جماعت کے عقائد کا دفاع کیا۔ مولوی اسماعیل دہلوی کے نظریہ امکان کذب اور امکانِ نظیر رسول پر حضرت العلام نے قتیل بالا کوٹ کی پہلے فہمائش کی ۔ہر طرح سمجھایا لیکن وہ نہ مانے تو تحریری و تقریری ردّ فرمایا۔

آپکے مشہور تلامذہ میں حضرت تاج الفحو ل مولانا شاہ عبدالقادر بدایونی، حضرت مولانا شاہ عبدالحق ابن مولانا شاہ غلام رسول، مولانا رسول نما کانپوری، مولانا سید عبداللہ بلگرامی، حضرت مولانا سید ہدایت علی بریلوی، حضرت مولانا خیر الدین دہلوی (والد ابولکلام آزاد)، حضرت مولانا ہدایت اللہ خاں رام پوری، مولانا فیض الحسن سہارنپوری، نواب یوسف علی خاں رام پوری، مولانا عبدالعلی رامپوری، (استاد اعلیٰ حضرت ) نواب کلب علی رامپوری اور فرزند ارجمند شمس العلماء مولانا عبدالحق خیر آبادی شامل ہیں۔

تصانیف:

(١) تاریخ فتنہ الہند (فارسی)
(٢) الثورۃ الہندیہ (عربی)
(٣) عقائد فتنہ الہند
(٤) الجنس العالی فی شرح الجوہرالعالی
(٥) حاشیہ افق المبین
(٦) حاشیہ تلخیص الشفاالابن سینا
(٧) حاشیہ قاضی مبارک شرح
(٨) رسالہ فی تحقیق الاجسام
(٩) رسالہ فی تحقیق الکلی الطبعی
(١٠) الروض المجود فی مسئلہ وحدۃ الوجود
(١١) الہدیہ السعیدیہ
(١٢) تحقیق الفتویٰ فی ابطال الطغویٰ
(١٣) امتناع النظیر

Related

Menu