(کلامِ رضا رنگِ عشقی ١٣٢٤ھ)
آ کچھ سُنا دے عِشق کے بولوں میں اے رضؔا
مُشتاق طَبع لذّتِِ سوزِ جِگر کی ہے
بھِینی سہانی صُبح میں ٹھنڈک جِگر کی ہے
کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے
کُھبتی ہوئی نظر میں یہ ادا کس سَحَر کی ہے
چُھبتی ہوئی جِگر میں صدا کس گجر کی ہے
ڈالیں ہَری ہَری ہیں تو بالیں بَھری بَھری
کِشتِ اَمَل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے
ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حَرم کہے
سونپا خدا کو یہ عظمت کس سفر کی ہے
ہم گرد کعبہ پھرتے تھے کل تک اور آج وه
ہم پر نثار ہے یہ ارادت کدھر کی ہے
کالک جَبیں کی سجدهٔ در سے چھڑاؤ گے
مجھ کو بھی لے چلو یہ تمنا حَجَر کی ہے
ڈوبا ہوا ہے شوق میں زَمزم اور آنکھ سے
جھالے برس رہے ہیں یہ حسرت کدھر کی ہے
برسا کہ جانے والوں پہ گوہر کروں نثار
اَبرِ کرم سے عرض یہ مِیزابِ زر کی ہے
آغوشِ شوق کھولے ھے جن کے لیے حَطِیم
وه پھر کے دیکھتے نہیں یہ دُھن کدھر کی ھے
ہاں ہاں رَهِ مدینہ ہے غافل ذرا تو جاگ
او پاؤں رکھنے والے یہ جا چشم و سر کی ہے
واروں قدم قدم پہ کہ ہر دم ہے جانِ نو
یہ راهِ جاں فَزا میرے مولٰی کے در کی ہے
گھڑیاں گنی ہیں برسوں کہ یہ شب گھڑی پھِری
مَرمَرکے پھر یہ سِل مرے سینے سے سَر کی ہے
اللهُ اکبر! اپنے قدم اور یہ خاکِ پاک
حسرت ملائکہ کو جہاں وَضعِ سر کی ہے
معراج کا سماں ہے کہاں پہنچے زائرو....!!
کُرسی سے اُونچی کرسی اِسی پاک گھر کی ہے
سَعدَین کا قر ان ہے پہلوۓ ماه میں
جھرمٹ کیے ہیں تارے تجلی قمر کی ہے
محبوبِ ربِ عرش ہے اس سبز قبہ میں
پہلو میں جلوه گاه عتیق و عمر کی ہے
چھاۓ ملائکہ ہیں لگا تار ہے درود..!!
بدلے ہیں پہرے بدلی میں بارش درر کی ہے
ستر ہزار صبح ہیں ستر ہزار شام
یوں بندگی زلف و رخ آٹھوں پہر کی ہے
جو اک بار آۓ، دوباره نہ آئیں گے
رخصت ہی بارگاه سے بس اس قدر کی ہے
تڑپا کریں بدل کے پھر آنا کہاں نصیب
بے حکم کب مجال پرندے کو پر کی ہے
اے وائے بے کسی یہ تمنا کہ اب امید
دن کو نہ شام کی ہے نہ شب کو سحر کی ہے
یہ بدلیاں نہ ہوں تو کروڑوں کی آس جاۓ
اور بارگاه مرحمت عام تر کی ہے
معصوموں کو ہے عمر میں صرف ایک بار بار
عاصی پڑے رہیں تو صلا عمر بھر کی ہے
زنده رہیں تو حاضری بارگہ نصیب
مر جائیں تو حیاتِ ابد عیش گھر کی ہے
کیوں تاجدارو! خواب میں دیکھی کبھی یہ شے
جو آج جھولیوں میں گدایانِ در کی ہے
طیبہ میں مَر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند
سیدھی سڑک یہ شہرِ شفاعت نگر کی ہے
عاصی بھی ہیں چہیتے یہ طیبہ ہے زاہدو...!
مکہ نہیں کہ جانچ جہاں خیر و شر کی ہے
کعبہ ہے بے شک انجمن آرا دلہن مگر
ساری بہار دولہنوں میں دولہا کے گھر کی ہے
کعبہ دلہن ہے تربت اطہر نئی دلہن
یہ رشک آفتاب وه غیرت قمر کی ہے
دونوں بنیں سَجیلی اَنیلی بنی مگر
جو پی کے پاس ہے وه سُہاگن کنور کی ہے
اتنا عجب بلندی جنت پہ کس لیٔے
دیکھا نہیں کہ بھیک یہ کس اونچے گھر کی ہے
عرش بریں پہ کیوں نہ ہو فردوس کا دماغ
اتری ہوئی شیبہ ترے بام و در کی ہے
وه خلد جس میں اترے گی ابرار کی برات
ادنی نچھاور اس مرے دولہا کے سر کی ہے
اف بے حیائیاں کہ یہ منہ اور ترے حضور
ہاں تو کریم ہے تری خو درگزر کی ہے
تجھ سے چھپاؤں منہ تو کروں کس کے سامنے
کیا اور بھی کسی سے توقع نظر کی ہے
جاؤں کہاں پکاروں کسے کس کا منہ تکوں
کیا پرسش اور جا بھی سگ بے ہنر کی ہے
مجرم بلائے آئے ہیں جَآءُ وْكَ ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے
پہلے ہو ان کی یاد کہ پائے جلا نماز
یہ کہتی ہے اذان جو پچھلے پہر کی ہے
سرکار ہم گنواروں میں طَرزِ ادب کہاں
ہم کو تو بس تمیز یہی بھیک بھر کی ہے
لب واہیں آنکھیں بند ہیں پھیلی ہیں جھولیاں
کتنے مزے کی بھیک ترے پاک در کی ہے
مانگیں گے مانگے جائیں گے منہ مانگی پائیں گے
سرکار میں نہ 'لا' ہے نہ حاجت 'اگر' کی ہے
منگتا کا ہاتھ اٹھتے ہی داتا کی دین تھی
دوری قبول و عرض میں بس ہاتھ بھر کی ہے
جنت نہ دیں، نہ دیں، تری رویت ہو خیر سے
اس گل کے آگے کس کو ہوس برگ وبر کی ہے
شربت نہ دیں، نہ دیں، تو کرے بات لطف سے
یہ شہد ہو تو پھر کسے پروا شکر کی ہے
سنکی وه دیکھ بادِ شفاعت کہ دے ہوا
یہ آبرو رضؔا ترے دامانِ تر کی ہے
اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمة الله علیہ
Download FilesMP3