شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُراٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَان ج فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ ط وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلـٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَط یُرِیْدُاللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَوَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ ز وَ لِتُکْمِلُواالْعِدَّۃَوَلِتُکَبِّرُوااللّٰہَ عَلـٰی مَا ھَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (پارہ٢، سورۃ البقرہ ، آیت ١٨٥)
رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لئے ہدایت اور راہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں ، تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں اللہ تم پر آسانی چاہتاہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اسلئے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی بولو اس پر اس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو ۔ (کنزالایمان)
یٰاَۤیُّـہَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاکُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (پارہ٢، سورۃ البقرۃ ، آیت ١٨٣)
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے۔ (کنزالایمان)
وجہ تسمیہ:
رمضان المبارک اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے، اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ رمضان ”رمض” سے ماخوذ ہے اور رمض کا معنٰی ”جَلانا ”ہے۔ چونکہ یہ مہینہ مسلمانوں کے گناہوں کو جلا دیتا ہے اس لئے اس کا نام رمضان رکھا گیا ہے۔ یا اس لئے یہ نام رکھا گیا ہے کہ یہ ”رمض” سے مشتق ہے جس کا معنٰی ”گرم زمین سے پاؤں جلنا” ہے۔ چونکہ ماہِ صیّام بھی نفس کے جلنے اور تکلیف کا موجب ہوتا ہے لہٰذا اس کا نام رمضان رکھا گیا ہے۔ یا رمضان گرم پتھر کو کہتے ہیں۔ جس سے چلنے والوں کے پاؤں جلتے ہیں۔ جب اس مہینہ کا نام رکھا گیا تھا اس وقت بھی موسم سخت گرم تھا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ رمض کے معنی برساتی بارش ، چونکہ رمضان بدن سے گناہ بالکل دھو ڈالتا ہے اور دلوں کو اس طرح پاک کردیتا ہے جیسے بارش سے چیزیں دھل کر پاک و صاف ہو جاتی ہیں۔ (غنیۃ الطالبین ، صفحہ ٣٨٣۔٣٨٤)
فضائل رمضان المبارک احادیث کی روشنی میں
حدیث ١:
اِنَّ الْجَنَّۃَ تَزَ حْرَفُ لِرَمْضَانَ مِنْ رَاسِ الََْحَوْلِ حَوْلٍ قَابِلٍ قَالَ فِاذَا کَانَ اَوَّلُ یَوْمٍ مِنْ رَمَضَانَ ہَبَّتْ رِیْحٌ تَحْتَ الْعَرْشِ مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّۃِ عَلَی الْحُوْرِ الْعَیْنِ فَیَقُلْنَ یَا رَبِّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ عِبَادِکَ اَزْوَجًا تَقِرُّبِہِمْ اَعْیُنُنَا وَ تَقِرُّ اَعْیُنُہُمْ بِنَا ( رواہ البیہقی فی شعب الایمان۔ مشکوۃ ص ١٧٤)
بے شک جنت ابتدائے سال سے آئندہ سال تک رمضان شریف کے لئے آراستہ کی جاتی ہے۔ فرمایا جب پہلا دن آتا ہے تو جنت کے پتوں سے عرش کے نیچے ہوا سفید اور بڑی آنکھوں والی حوروں پر چلتی ہے تو وہ کہتی ہیں کہ اے پروردگار اپنے بندوں سے ہمارے لئے ان کو شوہر بنا جن سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور ان کی آنکھیں ہم سے ٹھنڈی ہوں۔
حدیث ٢:
نَادٰی مُنَادٍ مِّنَ السَّمَآءِ کُلَّ لَیْلَۃٍ اِلَی انْفِجَارِ الصُّبْحِ یَا بَا غِیَ الْخَیْرِ تَمِّمْ وَ اَبْشِرْ وَیَا باَغِیَ الشَّرِ اَقْصِرْ وَ اَبْصِرْ ہَلْ مَنْ مُّسْتَغْفِرٍ یَّغْفِرُ لَہ، ہَلْ مَنْ تَائِبٍ یُّتَابُ عَلَیْہِ ہَلْ مَنْ دَاعٍ یُّسْتَجَابُ لَہ، ہَلْ مَنْ سَا ئِلٍ یُّعْطٰی سُؤَا لَہ، فِطْرٍمِّنْ کُلِّ شَہْرِ رَمَضَانَ کُلَّ لَیْلَۃٍ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ سِتُّوْنَ اَلْفًا فَاِذَاکَانَ یَوْمُ الْفِطْرِ اَعْتَقَ فِیْ جَمِیْعِ الشَّہْرِ ثَلَا ثِیْنَ مَرَّۃً سِتِّیْنَ اَلْفًا۔ (زواجر جلد اول)
رمضان المبارک کی ہر رات میں ایک منادی آسمان سے طلوعِ صبح تک یہ ندا کرتا رہتا ہے کہ اے خیر کے طلب گار تمام کر اور بشارت حاصل کراوراے بُرائی کے چاہنے والے رک جا اور عبرت حاصل کر۔ کیا کوئی بخشش مانگنے والا ہے کہ اس کی بخشش کی جائے ۔ کیا کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ اس کی توبہ قبول کی جائے۔ کیا کوئی دعا مانگنے والا ہے کہ اس کی دعا قبول کی جائے ۔ کیا کوئی سوالی ہے کہ اس کا سوال پورا کیا جائے۔ اللہ بزرگ و برتر رمضان شریف کی ہر رات میں افطاری کے وقت ساٹھ ہزار گناہ گار دوزخ سے آزاد فرماتاہے جب عید کا دن آتا ہے تو اتنے لوگوں کو آزاد فرماتا ہے کہ جتنے تمام مہینہ میں آزاد فرماتا ہے۔ تیس مرتبہ ساٹھ ساٹھ ہزار۔(یعنی اٹھارہ لاکھ)
حدیث ٣:
یَغْفَرُ لِاُمَّتِہ فِیْ اٰخِرِ لَیْلَۃٍ فِیْ رَمَضَانَ قِیْلَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَہِیَ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ قَالَ لَا وَلٰکِنَّ الْعَامِلَ اِنَّمَا یُوَفّٰی اَجْرُہ، اِذَا قَضــٰی عَمَلُہ، ۔ رواہ احمد (مشکوٰۃ ص١٧٤)
رمضانِ پاک کی آخری رات میں میری امت کی بخشش کی جاتی ہے۔ عرض کی گئی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا وہ شبِ قدر ہے۔ فرمایا نہیں لیکن کام کرنے والے کا اجر پورا دیا جاتا ہے۔ جب کہ وہ اپنا کام ختم کرتا ہے۔
حدیث ٤:
اُحْضِرُوْ الْمِنْبَرَ فَحَضَرْنَا فَلَمَّاارْ تَقـٰی دَرْجَۃً قَالَ اٰمِیْنَ فَلَمَّا ارْتَقـٰی الدَّرْجَۃَ الثّانِیَۃَ قَالَ اٰمِیْنَ فَلَمَّا ارْتَقـٰی الدَّرْجَۃَ الثَالِثَۃَ قَالَ اٰمِیْنَ فَلَمَّا نَزَلَ قُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ لَقَدْ سَمِعْنَا مِنْکَ الْیَوْمَ شَیْــئًا مَا کُنَّا نَسْمَعُہ، قَال اِنَّ جِبْرَئِیْلَ عَرَضَ لِیْ فَقَالَ بَعُد مَنْ اَدْرَکَ رَمَضَانَ فَلَمْ یُغْفَرُ لَہ، قُلْتُ اٰمِیْنَ فَلَمَّا رَقِیْتُ الثَّانِیَہَ قَالَ بَعُدَ مَنْ ذُکِرْتَ عِنْدَہ، فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْکَ قُلْتُ اٰمِیْنَ۔ فَلَمَّا رَقِیْتُ الثَّالِثَۃَ قَالَ بَعُدَ مَنْ اَدْرَکَ اَبَوَیْہِ عِنْدَہُ الْکِبَرُ اَوْ اَحَدَہُمَا فَلَمْ یُدْ خِلَا ہُ الْجَنَّۃَ قُلْتُ اٰمِیْنَ (زواجر جلد اول)
تم لوگ منبر کے پاس حاضر ہو۔ پس ہم منبرکے پاس حاضر ہوئے ۔ جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم منبر کے پہلے درجہ پر چڑھے تو فرمایا ”آمین”۔ جب دوسرے درجہ پر چڑھے تو فرمایا”آمین”۔ اور جب تیسرے درجہ پر چڑھے تو فرمایا ”آمین”۔ جب منبر شریف سے اترے تو ہم نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج ہم نے آپ سے ایسی بات سنی کہ کبھی نہ سنتے تھے۔ فرمایا بے شک جبرئیل ں نے آکر عرض کی کہ ــ”بے شک وہ شخص دور ہو (رحمت سے یا ہلاک ہو) جس نے رمضان شریف کو پایا اور اس کی مغفرت نہیں ہوئی” میں نے کہا ــ”آمین ”۔ جب دوسرے درجہ پر چڑھا تو اس نے کہا: ”وہ شخص دور ہو جس کے پاس آپ کا ذکر ہو اور وہ درود شریف نہ پڑھے ”میں نے کہا ”آمین”جب میں تیسرے درجہ پر چڑھا تو اس نے کہا کہ” دور ہو وہ شخص جو اپنے بوڑھے والدین کی خدمت کا موقع پائے پھر بھی کوتاہی کے نتیجے میں جنت میں داخل نہ ہوسکے ”میں نے کہا ”آمین”
حدیث ٥:
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عنہ، قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کُلُّ عَمَلِ ابْنِ اٰدَمَ یُضَاعَفُ الْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ اَمْثَا لِہَا اِلـٰی سَبْعِ مِائَۃٍ قَالَ اللّٰہُ تَعَالـٰی اِلَّا الصَّوْمِ فَاِنَّہ، لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِہٖ یَدْعُ شَہْوَتُہ، وَطَعَا مُہ، مِنْ اَجْلِیْ لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ فَرْحَۃٌ عِنْدَ فِطْرِہٖ وَفَرْحَۃٌ عِنْدَ لِقَآءِ رَبِّہٖ وَلَخَلُوْفُ فَمِ الصَّائِمِ اَطْیَبُ عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ رِیْحِ الْمِسْکِ وَالصِّیَامُ جُنَّــۃٌ ۔ الحدیث رواہ البخاری و مسلم (مشکوٰۃ ١٧٣)
سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ راوی ہیں کہ رسول خُداا نے فرمایا کہ ”آدم کے بیٹے کا ہر عمل بڑھایا جاتا ہے ایک نیکی سے دس گنا سے سات سو تک ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”مگر روزہ کہ اس کا ثواب بے شمار ہے ، بے شک وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔” روزہ دار اپنی خواہش اور طعام میرے لئے چھوڑتا ہے ۔ روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ۔ ایک خوشی افطار کے وقت۔ اور ایک خوشی دیدارِ الٰہی کے وقت ۔ اور روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مُشک کی خوشبو سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ اور روزے ڈھال ہیں۔”
حدیث ٦:
اِذَا دَخَلَ رَمَضَانَ فُتِحَتْ اَبْوَابُ الْجِنَانِ وَ غُلِّقَتْ اَبْوَابُ الْجَہَنَّمِ وَسُلْسِلَۃِ الشَّیَاطِیْنَ (بخاری)
جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں ، اور شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں۔

رمضان کے حروف اور ان کی برکتیں:

رمضان کے پانچ حروف ہیں
”ر” رضوان اللہ (اللہ کی خوشنودی) ہے۔
”م” محابۃ اللہ کی ہے (اللہ کی محبت)۔
”ض” ضمان اللہ کا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری)
”الف” الفت کا ہے اور
”ن” سے مراد نور اور نوال ہے (مہربانی اور بخشش) (غنیۃ الطالبین ، صفحہ ٣٩٠)
روزہ نہ رکھنا گناہ کبیرہ ہے:
ارکانِ اسلام کا ایک رکن روزہ ہے۔ سردار دوجہاں سید کون و مکاں صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ سب سے اول توحید و رسالت کا اقرار۔ اس کے بعد اسلام کے چار رکن ہیں۔ ١۔ نماز۔٢: روزہ۔ ٣: زکوٰۃ۔ ٤: حج۔ کتنے مسلمان ہیں جو مردم شماری میں مسلمان شمار ہوتے ہیں۔ لیکن ان چاروں ارکان میں سے ایک کے بھی کرنے والے نہیں ہیں۔ البتہ وہ سرکاری کاغذات میں مسلمان لکھے جاتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کے دفتر میں وہ کامل مسلمان شمار نہیں ہوسکتے۔ اس لئے کہ روزہ نہ رکھنا کبیرہ گناہ ہے یہ بھی اس وقت ہے کہ جب وہ روزے کی فرضیت کا اعتقاد رکھتا ہو۔ اور جو اس کی فرضیت کا انکار کرے تو وہ بلاشبہ کافر ہے۔
سحری کھانے میں برکت ہے:
مسلمانوں کو چاہئے کہ رمضان المبارک میں سحری کے وقت اٹھیں اور حسب ضرورت کھانا تیار کر کے کھائیں۔ اگرچہ ایک دو لقمے ہی ہوں۔ یا کھجور کے چند دانے کھالے۔ کیونکہ یہ کھانا باعث برکت ہے ۔ محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
تَسَحَّرُوْا فَاِ نَّ السُّحُوْرَ بَرْکَۃٌ (مشکوٰۃ ص ١٧٥)
سحری کیا کرو کیونکہ سحری کے کھانے میں برکت ہے۔
نیز سحری کے وقت اٹھنا اور کھانا کھانا اسلام کا شعار ہے۔ اہل کتاب اس سعادت سے محروم ہیں۔ سید الانس و الجان شاہ کون و مکان صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فَصْلُ مَابَیْنَ صِیَامِنَا وَصِیَامِ اَہْلِ الْکِتَابِ اُکْلَۃُ السَّحَرِ ۔ رواہ البخاری و مسلم (مشکوٰۃ ص ١٧٥)
ہم اہل اسلام اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق سحری کا کھانا ہے۔
اہم مسئلہ:
سحری کا وقت صبح صادق سے پہلے ہے اگر صبح صادق ہو جاتی ہے تو پھر سحری سے الگ ہو جائیں ۔کھانا پینا بند کردیں بعض لوگ اذان فجر سن کر یا سائرن سن کر بھی پانی وغیرہ پیتے ہیں یہ درست نہیں فرض کریں کہ سحری کا آخری وقت ٥ بج کر ١١ منٹ ہے تو فجر کی اذان٥ بج کر ١١ منٹ کے بعد ہوگی لہٰذا ٥ـ بج کر ١١منٹ سے قبل ہر حال میں کھانے پینے سے فراغت حاصل کرلینی چاہئے ۔اگر اذان سنتے وقت پانی بھی پیا تو روزہ نہیں ہوگا۔
روزے کی نیت
جو صبح صادق سے پہلے سحری سے فارغ ہوں انہیں یوں نیت کرنی چاہئے
وبِصَوْمِ غَدٍ نَوَیْتُ مِنْ شَہْرِ رَمَضَان
(ترجمہ) میں نے رمضان کے کل کے روزے کی نیت کی
اور سائرن یا اذان سن کر کلّی وغیرہ کرکے اس طرح نیت ہوگی ۔
نَوَیْتُ اَنْ اَصَوْمَ ہٰذَالْیَوْمَ لِلّٰہِ تَعَالٰی مِنْ فَرَضِ رَمَضَان
(ترجمہ) میں نے آج کے روزے کی نیت کی اللہ کیلئے ماہِ رمضان کے فرضوں سے
افطار
جب پوری طرح سورج غروب ہوجائے تو حلال اور طیب چیز سے روزہ افطار کرے اور یہ دعا پڑھے۔
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ لَکَ صُمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ۔
ترجمہ: اے اللہ ! میں نے تیرے لئے روزہ رکھا، اور تجھ پر ایمان لایا ، اور تیرے دیے ہوئے رزق سے افطار کیا۔
سیّدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے روایت ہے کہ مالکِ دو جہاں سرکارِ ابد قرار شافع یوم شمار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا یَزَالُ الدِّیْنُ ظَاہِرًامَّا عَجَّلَ النَّاسُ الْفِطْرَ لِاَنَّ الْیَہُوْدَ وَالنَّصَاریٰ یُؤَْخِّرُوْنَ ۔ رواہ ابو داؤد و ابنِ ماجہ (مشکوٰۃ ص١٧٥)
دین اسلام ہمیشہ غالب رہے گا جب تک لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے ۔ کیونکہ یہودی و نصرانی افطار میں دیر کرتے ہیں۔
نوٹ: اس جلدی کا یہ مطلب نہیں کہ ابھی سورج پوری طرح غروب نہ ہوا ہو تو روزہ افطار کرلیا جائے۔ ایسا کرنے سے سارے دن کی محنت ضائع ہوجائے گی اور نہ ہی ثواب ملے گا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اس پر مزید ہے۔
روزہ کس چیز سے افطار کرنا چاہئے
یوں تو روزہ ہر حلال چیز سے افطار کرنا جائز ہے مگر طاق کھجوروں سے روزہ افطار کرنا بہت ثواب کا باعث ہے اگر کھجوریں وقت پر نہ مل سکیں تو پانی سے روزہ کھولنا چاہئے۔ سرورِ کائنات فخر موجودات حضرت احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:
اِذَا اَفْطَرَ اَحَدُکُمْ فَلْیُفْطِرُ عَلـٰی تَمْرٍ فَاِنَّہ، بَرْکَۃٌ فَاِنْ لَّمْ یَجِدْفَلْیُفْطِرْ عَلـٰی مَآءٍ فَاِنَّہ، طَہُوْرٌ۔ (رواہ احمد والترمذی و ابو داؤد و ابن ماجہ) (مشکوٰۃ ص١٧٥)
جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو چاہئے کہ کھجوروں سے افطار کرے کیونکہ اس میں برکت ہے ۔ اگر کھجوریں نہ پائے تو پانی سے افطار کرے کیونکہ وہ پاک کرنے والا ہے۔
نماز تراویح
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ماہ رمضان کی وسط رات میں ایک بار حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں نماز پڑھی لوگوں نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کی۔ دوسری رات آدمیوں کی اتنی کثرت ہوئی کہ مسجد تنگ ہوگئی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرہ سے برآمد نہیں ہوئے ، صبح کو فجر کی نماز کے لئے تشریف لائے ، فجر کی نماز سے فارغ ہوکر لوگوں سے خطاب فرمایا : ”تمہاری رات کی حالت مجھ سے پوشیدہ نہ تھی ، لیکن اندیشہ یہ تھا کہ نماز ِ تراویح تم پر فرض نہ ہوجائے اور تم اس کے ادا کرنے سے عاجز ہوجاؤ۔” حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو رمضان کی راتوں کو زندہ رکھنے (نماز پڑھنے ) کی ترغیب دیا کرتے تھے بغیر اس کے کہ آپ ان پر لزوم کے ساتھ حکم فرمائیں (یعنی وجوبی حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہیں دیتے تھے) آپ کے وصال کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور عہد فاروقی رضی اللہ تعالی عنہ کے ابتدائی دور میں تراویح کا معاملہ یوںہی رہا ۔حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھ سے تراویح کی نماز کی حدیث جب سنی تو آپ نے اس پر عمل فرمایا۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ اے امیر المومنین وہ حدیث کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ عرشِ الٰہی کے ارد گرد ایک جگہ جس کا نام ”حضیرۃ القدوس” ہے وہ نور کی جگہ ہے اس میں اتنے فرشتے جن کی تعداد اللہ  کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ عبادت الٰہی میں مشغول رہتے ہیں اس میں ایک لمحہ کی بھی کوتاہی نہیں کرتے۔ جب ماہ رمضان کی راتیں آتی ہیں تو یہ اپنے رب سے زمین پر اترنے کی اجازت طلب کرتے ہیں اور وہ بنی آدم کے ساتھ مل کر نماز پڑھتے ہیں ۔ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جس نے ان کو مَس کیایا انہوں نے کسی کو مَس کیاتو وہ ایسا نیک بخت و سعید بن جاتا ہے کہ پھر کبھی بد بخت و شقی نہیں بنتا ۔ یہ سن کر حضرت عمرنے فرمایا جب کہ اس (نماز) کی یہ شان ہے تو ہم اس کے زیادہ حقدار ہیں۔ پھر آپ (حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ) نے تراویح کی جماعت قائم کرکے اس کو سنت قرار دے دیا۔ (غنیہ الطَّالبین ، صفحہ ٣٩٩۔ ٤٠٠)
نماز تراویح بیس رکعات ہیں
رمضان المبارک کے مہینہ میں نمازِ عشاء کے بعد بیس ٢٠ رکعت نماز تراویح پڑھنی صحیح مذہب میں سنت مؤکدہ ہے اور تمام آئمہ دین یعنی امام اعظم ابو حنیفہ اور ان کے تلامذہ ، امام مالک اور ان کے تلامذہ، امام شافعی اور ان کے تلامذہ، امام احمد بن حنبل اور ان کے تلامذہ کے علاوہ وہ دیگر مجتہدین بھی (جن کے مقلدین آج دنیا میں نہیں ہیں) اس کے سنت ہونے اور بیس رکعات ہونے پر متفق ہیں ۔ رافضیوں کے علاوہ کوئی جماعت ِتراویح کامنکر نہیں ہے۔غیر مقلدین (نام نہاد اہلحدیث یا اہل الظواہر) بیس رکعات پر کمزور اعتراض کرتے ہیں اور اپنی ہٹ دھرمی کے باعث آٹھ رکعات پڑھتے ہیں ، جو ثابت نہیں ۔ آٹھ رکعات کوتراویح کہنا بھی غلط اور باطل ہے ، کیونکہ ”تراویح” جمع ہے ”ترویحہ ”واحد ہے ، ایک ترویحہ چار رکعات کا ہوتا ہے توعربی قواعد کے اصولو ں کے مطابق آٹھ رکعات ادا کرنے کے نتیجے میں دو ترویحہ بنتے ہیں جس پرتثنیہ کا اطلاق ہوتا ہے اور لغت کے حساب سے ”ترویحتان” کہا جاتا ہے ۔عربی میںکسی بھی لفظ کی جمع کا اطلاق دو سے زائد پر ہوتا ہے لہٰذا آٹھ رکعات کو کبھی بھی تراویح قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ حضوراکرم نے کبھی بھی رمضان میں آٹھ رکعات تراویح کے طور پر ادا نہیں فرمائیں۔ اور نہ ہی آٹھ رکعات ادا کرنے کی ہدایت فرمائی۔ امام بیہقی علیہ الرحمۃ نے بسند صحیح حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے روایت کی کہ” لوگ فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کے زمانہ میں بیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور عثمان و علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے عہد میں بھی ایسا ہی تھا ”اور ”موطا ”میں یزید بن رومان سے روایت ہے کہ ”عمر رضی اللہ عنہ، کے زمانہ میں لوگ تئیس ٢٣ رکعات پڑھتے ”۔ بیہقی نے کہا اس میں تین رکعتیں وتر کی ہیں اور مولیٰ علی رضی اللہ عنہ، نے ایک شخص کو حکم فرمایا کہ ”رمضان میں لوگوں کو بیس ٢٠ رکعتیں پڑھائے ۔” نیز اس کے بیس رکعت میںیہ حکمت ہے کہ فرائض و واجبات کی اس سے تکمیل ہوتی ہے اور کل فرائض و واجبات کی ہر روز بیس رکعتیں ہیں (یعنی فجر ٢ +ظہر ٤+عصر٤+مغرب٣+عشاء فرض٤+ وتر٣=٢٠رکعات) لہٰذا مناسب تھا کہ یہ بھی بیس ہوں ۔ (بہار شریعت حصہ چہارم ، صفحہ ٣٠)

رمضان المبارک کے اہم، مشہور، اور تاریخی واقعات

* تیسری تاریخ رمضان المبارک میں سیدنا حضرت ابراہیمں پر صحائف نازل ہوئے۔ * چھٹی رمضان المبارک کو سیدنا موسیٰ ں پر توریت نازل ہوئی۔ * اٹھارویں رمضان المبارک میں سیدنا حضرت داؤد ں پر زبور شریف نازل ہوئی۔ * تیرہویں رمضان المبارک کو سیدنا حضرت عیسیٰ ں پر انجیل نازل ہوئی* حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ہجرت ۔۔۔۔۔۔ پہلی صدی ھ/ ٩مارچ ٦٢٢ء اور وصال ١٧ رمضان* ولادت حضرت حسن رضی اللہ عنہ ۔۔۔۔۔۔ ٣ھ/١٥ فروری ٦٦٤ء * فتح مکہ ۔۔۔۔۔۔٢٠ رمضان المبارک٨ھ، ٢٣دسمبر ٦٢٩ء * آیت ربوا(حرمت سود)۔۔۔۔۔۔ ٩ھ* حضرت سید الشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہادت کا جام پلانے والے حضرت وحشی وفد طائف کے ہمراہ آ کر مسلمان ہوئے۔۔۔۔۔۔٩ھ * غزوہ تبوک۔۔۔۔۔۔١٠ھ/یکم دسمبر ٦٣١ء * وفات حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ۔۔۔۔۔۔١١ھ /٢٠نومبر، ٦٣٢ء * وفات سہل بن عمرو رضی اللہ عنہ، ۔۔۔۔۔۔١٨ھ /٥دسمبر ٦٣٩ء * توسیعِ مسجد نبوی شریف۔۔۔۔۔۔٢٦ھ/١٠جون ٦٦٤ء * وفات حضرت عباس رضی اللہ عنہ، ۔۔۔۔۔۔ ٣٢ ھ / ١٥ اپریل ٦٥٢ء * وفات مقداد بن الاسود رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٣٣ھ/٢٦ ماچ ٦٥٣ء * بغاوتِ اہلِ کوفہ۔۔۔۔۔۔٣٤ھ/ ١٥ مارچ ٦٥٤ء * جلسہئ حکمین ۔۔۔۔۔۔٣٧ھ/١٠ فروری ٦٥٧ء * جنگ خوارج۔۔۔۔۔۔٣٨ھ/٣١جنوری ٦٥٨ء * وفاتِ زیاد بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٥٣ھ/٢٠ اگست ٦٧٢ء * وفاتِ حضرت حسان رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٥٤ھ/١٩ اگست ٦٧٣ء * وفاتِ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔۔۔۔۔۔٥٧ھ/٨جولائی، ٦٧٦ء * خلافتِ عبدالملک بن مروان۔۔۔۔۔۔٦٥ ھ/گیارہ اپریل، ٦٨١ء * وفاتِ عبداللہ بن بسر رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٨٨ھ/٥اگست، ٧٠٦ء * وفاتِ سہل بن سعید رضی اللہ عنہ،۔۔۔۔۔۔ ٩١ھ/٥جولائی، ٧٠٩ء * فتحِ اندلس۔۔۔۔۔۔ ٩٢ھ/٧١٠ء * محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا ٩٣ھ/٧١٢ء* وفاتِ عمرہ بن عبدالرحمن(معروف عالمہ و محدثہ، کئی علماء کئی استاد)۔۔۔۔۔۔٩٨ھ* جنگ آرمینیہ۔۔۔۔۔۔ ١٠٥ھ/یکم فروری ٧٢٣ء * فتحِ قیساریہ۔۔۔۔۔۔١٠٧ھ/١٠جنوری، ٧٢٦ء * سمرقند کی تیسری جنگ۔۔۔۔۔۔١١٣ھ * ابو مسلم خراسانی کا اعلانِ بغاوت۔۔۔۔۔۔١٢٩ھ/١٦مئی ٧٤٦ء* عبدالرحمن اموی تیونس آیا۔۔۔۔۔۔١٣٤ھ * وفاتِ حضرت رابعہ بصریہ رحمۃ اللہ علیہا۔۔۔۔۔۔ ١٣٥ھ* مہدی نفس ذکیہ کا قتل۔۔۔۔۔۔١٤٥ھ/٢٣نومبر٧٦٢ء * مرو میں بغاوت۔۔۔۔۔۔١٩١ھ * عباس بن المامون مدعی خلافت ہوا۔۔۔۔۔۔٢١٨ھ* فتحِ صقلیہ ۔۔۔۔۔۔٢١٩ھ* بغاوتِ زنگیانِ بصرہ۔۔۔۔۔۔ ٢٥٥ھ* وفات امام العتبی فقیہ الاندلس ۔۔۔۔۔۔٢٥٦ھ* امام احمد بن حنبل کے صاحبزادے صالح قاضی اصفہان کا انتقال ۔۔۔۔۔۔ ٢٦٦ ھ * قرامطیوں نے مکہ میں حج کیلئے آنے والوں کا قتل عام کیا۔۔۔۔۔۔٢٨٧ھ/٣٠اگست، ٩٠٠ء * عراق میں مظالم قرامطہ۔۔۔۔۔۔٢٩٣ھ* حضرت منصور حلاج کا نعرہئ ”انا الحق” اور گرفتاری۔۔۔۔۔۔٣٠١ھ(جبکہ شہادت ذیقعد٣٠٩ ھ میں ہوئی) * بغداد میں فاقہ سے اموات۔۔۔۔۔۔٣٣٣ھ* وفات عبدالناصر و خلافت مستنصرالاموی ٣٥٠ھ * معروف عربی ادیب و شاعر مُتبّی کا قتل۔۔۔۔۔۔٣٥٤ھ * راجہ جے پال اور سبکتگین کی پہلی جنگ ٣٨٠ھ* وفات ابو نصر الکلاباذی البخاری حنفی (معروف صوفی، اصطلاحِ تصوف کے موجد)٣٨٥ یا ٣٩٨ھ* وفات ابوالطیب صعلوکی(چوتھی صدی کے معاون مجدد) ٤٠٤ھ/١٠١٤ء ٨خلافت عبدالرحمن الرابع(اندلس)۔۔۔۔۔۔٤٠٨ھ* رحلت معروف محدث حافظ ابو بکر بن مردویہ الاصبہانی ٤١٠ھ* رحلت ھبۃ اللہ محدث بغداد ٤١٨ھ ٨بغداد پر اوباشوں کا تسلط۔۔۔۔۔۔٤٢٦ھ* وفات بو علی سینا ٤٢٨ھ* فتنہئ البساسیری۔۔۔۔۔۔٤٥٠ھ * سلطنت عباسیہ کے باغی طغرل بک کی وفات اور اس کی جگہ اس کا بھتیجا الپ ارسلان سلجوقیوں کا حکمران بنا ٤٥٥ھ* وفات ابو الحسن الفقیہہ الامدی ٤٦٥ھ* یوسف بن تاشفین کی فتح عیسائیوں پر ۔۔۔۔۔۔٤٧٩ھ* وفات ابو داؤد اندلسی ٤٩٦ھ * صیدا پر صلیبیوں کا قبضہ اور پسپائی ۔۔۔۔۔۔٥٠١ھ * بیروت اور صیدا پر فرنگیوں کا قبضہ۔۔۔۔۔۔٥٠٤ھ * وفات ابو الفتوح الغزالی (برادر امام محمد غزالی)٥٢٠ھ* مصر و عراق میں ٣٠ رمضان کو بھی شوال کا چاند نظر نہیں آیا ٥٣١ھ * وفات ابو عبداللہ المازری شارح مسلم ٥٣٦ھ * حکومتِ صلاح الدین ایوبی ۔۔۔۔۔۔٥٦٤ھ/مئی ١١٦٨ء * خلافتِ ابو نصر الطاہر العباسی۔۔۔۔۔۔٦٢٢ھ * وفاتِ بہاؤ الدین بلخی (پدر مولانا رومی)۔۔۔۔۔۔٦٢٨ھ ٨معرکہ ”عینِ جالوت”اور تاتاریوں کی فوج کی بربادی ۔۔۔۔۔۔ ٦٥* ھ * وفات فیروز تغلق و تخت نشینی محمد تغلق ٧٩٠ھ* وفات علامہ ابن خلدون ٨٠٨ھ ٨وفات حافظ ولی الدین ابن زرعہ ٨٢٦ھ * وفات ابن البزاری صاحب فتاوٰی ٨٢٧ھ * وفات شمس الدین سعدی ٨٢٨ھ* وفات شمس الدین الغنام مالکی ٨٤٢ھ * وفات احمد بن ارسلان المقدسی ٨٤٤ہجری* وفات تقی الدین المقریزی ٨٤٥ھ ٨قتل الوغ بیگ بن شاہ رخ بن تیمور ٨٥٣ھ* مکۃ المکرمہ میں سیلاب ٨٥٩ھ* ١٤ رمضان ٨٨٦ھ مدینہ منورۃ پر آسمانی بجلی گری * ایران میں صفوی حکومت کا آغاز ٩٠٧ھ * وفات مخدوم ابراہیم بن ادھم سلطان بلخی ٩١٤ھ * وفات احمد شاہ گجراتی ٩١٦ھ* انڈونیشیا ،سماٹرامیں مسلم حکومت کا آغاز علی شاہ نے کیا ٩٢٠ھ * خلافت المتوکل (ثالث)٩٢٢ھ * وفات تقی الدین بن قاضی عجلون ٩٢٨ھ * وفات امام محی الدین القرمانی حنفی ٩٤٢ھ * وفات سعدی چلپی ٩٤٥ھ٨ہمایوں کی سلطنت کی بحالی ٩٦٢ھ/١٥٥٥ء ٨خلافتِ مراد ثالث ۔۔۔۔۔۔٩٨٢ھ ٨شہادت ملک المحدثین محمد طاہرپٹنی الہندی۔۔۔۔۔۔٩٨٦ھ٨اکبر نے کشمیر فتح کیا ۔۔۔۔۔۔ ٩٩٥ھ/٥اگست ١٥٨٦ء * وفات محمد قاسم فرشتہ مؤرخ ١٠٢١ھ * معزولی شاہجہاں و حکومت عالمگیر (اول) ۔۔۔۔۔۔ ٦* ١٠ ھ/١٦٥٧ء * وفات شائستہ خان امیر الامرأ * وفات مجاہد تحریکِ آزادی ، علامہ کفایت علی کافی شہید امیر شریعت ، تلمیذ شاہ ابو سفینہ مجددی رامپوری١٢٧٤ھ/١٨٥٨ء * ندوۃ العلماء کا پہلا اجلاس (کانپور) ۔۔۔۔۔۔١٣١١ھ/٨مارچ، ١٨٩٣ء * پہلی جنگ عظیم ۔۔۔۔۔۔١٣٣٢ھ/٢٤جولائی، ١٩١٣ء * وفات سید سلیمان اشرف بہاری خلیفہ اعلیٰ حضرت ۔۔۔۔۔۔١٣٥٢ھ* قیامِ پاکستان جمعۃ الوداع ،٢٧رمضان۔۔۔۔۔۔١٣٦٦ ھ / ١٤ اگست ١٩٤٧ء* آزادی موریطانیہ ۔۔۔۔۔۔ ١٣٧٨ھ /١١ مارچ ، ١٩٥٨ء * یمن میں امامت کا خاتمہ۔۔۔۔۔۔١٣٨١ھ۔

رمضان المبارک میں وفات پانے والے اولیاء، و بزرگانِ دین

یکم رمضان المبارک :
٭ حضرت شیخ سعید بن عفیر ٢٢٦ھ ٭ حضرت طلحہ بن محمد خراسانی ٣٢٠ھ ٭ حضرت شاہ الہداد عارف ٩١٤ھ ٭ حضرت اخون شہباز قلندر سداسہاگ ١٠٣٣ھ (سومان) ٭ حضرت خواجہ شمس الدین حبیب اللہ ملکی ١١٦٧ھ (سرہند) ٭ حضرت علامہ سید عبداللہ بلگرامی ١٣٠٥ھ ٭ استاذ العلماء علامہ ہدایت اللہ خاں رامپوری(مناظر اہلسنّت، فاتح مناظرہ رُشدآباد بنگال) یکم رمضان١٣٢٦ھ ٭ حضرت سید ظہور الحسنین شاہ قادری علیہ الرحمۃ(اولاد حضرت سخی عبدالوہاب شاہ) ١٤٠١ھ ٭ پیر طریقت حضرت محمد قاسم مشوری ١٤١٠ھ(درگاہ عالیہ مشوری شریف لاڑکانہ، رہنما تحریک پاکستان)
٢ رمضان المبارک
٭ حضرت خواجہ عبدالحق جامی ١٠٢٩ھ (برہان پور) ٭ حضرت شیخ اسماعیل چشتی اکبر آبادی١٠٦٦ھ ٭ حضرت شاہ دولہ دریائی گجراتی ۔
٣ رمضان المبارک
٭ سیدۃ النساء فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا ١١ھ ٭ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا ٦٢ھ ٭ حضرت فضیل بن عیاض۔۔۔۔۔۔١٨٧ھ ٭ حضرت شیخ سری سقطی شیخ سلسلہ قادریت ٢٠٥ھ (بغدادشریف) ٭ حضرت شاہ زین الدین ٣٥٥ھ (دمشق) ٭ حضرت سید قطب الدین محمد چشتی مدنی ثم الکڑوی ٦٦٧ھ ٭ حضرت مظفر بلخی (خلیفہ مخدوم یحییٰ منیری) ٧٨٨ھ ٭ مخدوم راجی سید پور مانکپوری ٩٤٧ھ ٭ حضرت میر عبدالواحدبلگرامی ١٠١٧ھ(گیارہویں صدی میں معاون تجدید دین ، مصنف ”سبع سنابل”) ٭ حضر ت شیخ حاجی رمضان چشتی ١٢٨٢ھ(لاہور) ٭ حضرت سید عقیل ٭ حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی ۔۔۔۔۔۔١٣٩١ھ
٤ رمضان المبارک
٭ حضرت شاہ عبدالہادی صابری ١١٩٠ھ (امروہہ) ٭ حضرت شاہ نبی بخش رامپوری ٭ حضرت علامہ قاضی محمد حسن محدث خانپوری ۔۔۔۔۔۔١٣٠١ھ ٭ حضرت الحاج بخشی مصطفی علی بنگلوری ١٣٩١ھ (مدینہ منورہ)۔
٥ رمضان المبارک
٭ سید عبد الہادی جمیل شاہ گرناری کاظمی (پیر پٹھہ)۔۔۔۔۔۔٦٤٢ھ ٭ حضرت شیخ صدر الدین عرف شاہ سیدو٩٣٣ھ (جونپور) ٭ حضرت شیخ محمد داؤد گنگوہی ١٠٩٥ھ ٭ حضرت میران بھیکہ سید محمد سعید ١١٣٥(خلیفہ شاہ ابو المعالی لاہوری)ھ ٭ حضرت شاہ عنایت جیو ذوقوۃ المتین ۔۔۔۔۔۔١١٩٥ھ (بہاولپور) ٭ حضرت سید صبغت اللہ شاہ اول ولد پیر سید محمد راشد روضے دھنی المعروف پیر پگارو اول ١٢٤٦ھ/٨فروری ١٨٣١ئ ٭ علامہ شائستہ گل مردانی قادری (خلیفہ مانکی شریف ١٤٠١ھ / ١٩٨١ء ٭ خواجہ محمد عبد الحکیم قادری نقشبندی شہداد کوٹ لاڑکانہ
٦ رمضان المبارک
٭ حضرت شیخ داؤد گنگوہی رحیم دل ١٠٨٠ھ (گنگوہ) ٭ حضرت سید عبدالباری اویسی ١٣١٨ھ ٭ علامہ عبدالشکور شیوہ مردانی قادری ۔۔۔۔۔۔١٤٠٣ھ/١٧جون ١٩٨٣ء ٭ حضرت عبداللہ سری سقطی ٭ بابا ابولخیر نولکھ ہزاری شاہ کوٹی ٭ حضرت میاں نثار احمد امیری ۔
٧ رمضان المبارک
٭ حضرت سیدنا داؤد علیہ السلام ٭ حضرت شیخ عبدالقدوس صوفی ٢٩٩ھ (سوس) ٭ حضرت ابو بکر محمد سلمی مدنی ٣٢٧ھ (مدینہ) ٭ حضرت سید عصمت قادری ٩٩٩ھ ٭ مولانا سید محمد ناصر جلالی تلمیذ فرنگی محل لکھنؤ۔۔۔۔۔۔١٣٨٥ھ/٣١دسمبر ١٩٦٥ئ ٭ حضرت مولانا بدرالدین قادری ٭ حضرت سید ہاشم پیر دست گیر بیجا پوری ٭ حضرت شیخ عثمان بن اسحق ۔۔۔۔۔۔٥٤٥ھ(مکہ)۔
٨ رمضان المبارک
٭ حضرت شیخ عماد الدین رفیقی ١٣٠٠ھ (کشمیر) ٭ حضرت بیدم شاہ وارثی۔
٩ رمضان المبارک
٭ حضرت شیخ حبیب عجمی ١٥٦ھ (تابعی۔۔بصرہ) ٭ حضرت ابو علی شفیق بلخی١٩٤ھ (ختلان) ٭ حضرت سیدنا داؤد طائی ١٦٥ھ ٭ قطب الاقطاب شیخ عبدالرشید شمس الحق فیاض دیوان (مصنف مناظرہ رشیدیہ) ١٠٨٣ھ ٭ حضرت مولانا شمس الحق عبدالرشید عرف دیوان رشید جونپوری ١٢٨٣ھ ٭ حضرت سید عبدالعزیز چشتی صابری(سادات و پیرزادگان سہارنپور انبیٹھہ) ١٣٤٤ ھ ٭ حضرت شاہ شرف الدین بو علی قلندر پانی پتی۔
١٠ رمضان المبارک
٭ اُم المومنین سیدتنا خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا ٭ حضرت خواجہ نصیر الدین محمود روشن چراغ دہلی ٭ حضرت سید جان محمد حضوری قادری لاہوری ۔۔۔۔۔۔١٠٦٤ھ
١١ رمضان المبارک
٭ حضرت ابو صالح حمدون قصار ٢٧١ھ (ہرات) ٭ حضرت اسحق بن عمر مدنی ٥٣٠ھ ٭ حضرت منصور ابو القاسم کرمانی کشمیری ٥٦٩ھ ٭ حضرت میاں محمد امین ڈار کشمیری ١٠٩٨ھ ٭ حضرت قطب الدین کمال واحدیت ١١٢١ھ(نارنول) ٭ حضرت محمد حنیف ١٢٥٩ھ ٭ حضرت علامہ عبد الغفور ہمایونی شکارپوری (صاحب فتاوی ہمایونی) ١٣٣٦ھ ٭ شاہ مصباح الحسن پھپھوندوی(خلیفہ شاہ امتیاز احمد خیر آبادی) ١٣٨٤ھ ٭ مادھو لال حسین لاہور ٭ قاضی حمید الدین ناگوری ٭ حضرت سید محمد معصوم قادری
١٢ رمضان المبارک
٭ حضرت ابو عبداللہ مختار ہروی ٢٧٧ھ (ہرات) ٭ حضرت ابو الخیر حمصی ٣١٠ھ ٭ حضرت شاہ ابو العباس ادریس ٣٤٩ھ ٭ حضرت شاہ قدرت اللہ نیشاپوری٤٥٦ھ ٭ حضرت شیخ شریف عبدالسلام بن شیت طرطوسی ٥٧٢ھ ٭ حضرت شیخ ابو الحسن علی ترحم بغدادی ٥٩٨ھ ٭ حضرت ابو الحسن علی بن محمد٦٥٧ھ ٭ حضرت شیخ نظام فرقی ٦٧٧ھ (فیروز پور) ٭ حضرت شاہ شرف الدین بغدادی ٧١٤ھ ٭ حضرت شاہ شرف الدین بو علی قلندری پانی پتی ٧٢٤ھ ٭ حضرت سید حسن شاہ خندہ روح ٩٠٣ھ ٭ حضرت شیخ سید عصمت قادری ٩٩٩ھ(دہلی) ٭ حضرت شاہ زاہد چشتی ١٠٩٥ھ (صفی پوری) ٭ مولانا معشوق علی جونپوری (استاذ شاہ غلام معین الدین جونپوری) ١٢٦٨ھ ٭ حضرت میاں راج شاہ قادری صاحب(سوندھ شریف گوڑ گانواں) ١٣٠٦ھ ٭ حضرت سیدنا سری سقطی ۔
١٣ رمضان البارک
٭ حضرت شیخ ابو داؤد مدنی ۔۔۔۔۔۔٤٠٠ھ ٭ حضرت سید یحییٰ بن احمد طوری دہلوی ۔۔۔۔۔۔٦٠٣ھ ٭ حضرت سید محمد سعید مصطفائی صفات پشاوری ۔۔۔۔۔۔١٠٨٤ھ ٭ مولانا شاہ محمد نور اللہ فریدی ملقب زبدۃ الموحدین، بہادر مناظر جنگ (مصنف ہدایۃ الوہابین)١٢٦٧ھ ٭ حضرت مولوی محمد جعفر سندیلی ۔۔۔۔۔۔١٢٦١ھ ٭ حضرت محمد فارق چشتی صابری ۔۔۔۔۔۔ ١٣٤٠ھ(رامپور) ٭ حضرت شیخ محمد امیر کوہاٹی ۔۔۔۔۔۔١٣٨٨ھ ٭ حضرت صوفی قمر الدین قادری نوشاہی ۔۔۔۔۔۔١٣٩٩ھ
١٤ رمضان المبارک
٭ حضرت ابو محمد نافع ۔۔۔۔۔۔١٢١ھ(مکہ) ٭ حضرت شیخ عاصم بن عبدالصمد ۔۔۔۔۔۔٢٤٧ھ (مکہ) ٭ حضرت شیخ القوام ابو الکایک جنیدن حرّازی ۔۔۔۔۔۔ ٢٩٥ھ (کوہ تبت) ٭ حضرت سید تاج الدین بغدادی ۔۔۔۔۔۔٦٩٩ھ ٭ حضرت ابو الحسن علی خیار عراقی ۔۔۔۔۔۔٦٥٦ھ ٭ حضرت شاہ احمد بن شہاب الدین دہلوی ۔۔۔۔۔۔٧٨٤ھ ٭ حضرت خواجہ مخدوم نصیر الدین خاکی ۔۔۔۔۔۔٨١٧ھ(فتح پور سیکری) ٭ حضرت بہاء الدین باغی جونپوری ۔۔۔۔۔۔٨٣٠ھ ٭ حضرت شیخ حسام الحق عرفان الکوثر مانکپوری ۔۔۔۔۔۔٨٥٣ھ ٭ حضرت بہاؤ الدین پیران شاہ ۔۔۔۔۔۔٩٠٣ھ (جدّہ) ٭ حضرت شیخ محمد اسمٰعیل اودہی ۔۔۔۔۔۔١١١٧ھ (فیض آباد) ٭ علامہ الحاج ابو الشاہ محمد عبدالقادر قادری شہید۔۔۔۔۔۔رمضان ١٣٨٣ھ/ ٣٠ جنوری، ١٩٦٤ء ٭ حضرت سیدنا طیفور بایزید بسطامی ٭ حضرت حافظ عبدالوہاب سچّل سرمست فاروقی ۔۔۔۔۔۔١٢٤٢ھ
١٥ رمضان المبارک
٭ حضرت شاہ ابو العباس ادریس ۔۔۔۔۔۔٣٤٩ھ ٭ حضرت خواجہ ابو علی بن مطرف اندلسی ۔۔۔۔۔۔٧٠٧ھ ٭ حضرت شاہ محمد گوشہ نشین احمد آبادی ۔۔۔۔۔۔٩٠٠ھ ٭ حضرت میر سید علی قوام سوانی الاصل ۔۔۔۔۔۔٩٥٠ھ ٭ حضرت محمد غوث گوالیاری ۔۔۔۔۔۔٩٧٠ھ ٭ صوفی سید اکرم علی شاہ قادری چاٹگامی ابن سید رحمت علی شاہ قادری ١٣٨٨ھ/٧ستمبر ١٩٦٨ء (کراچی)۔
١٦ رمضان المبارک
٭ حضرت عمرو صدیقی بصری ۔۔۔۔۔۔٦٩٢ھ ٭ حضرت ابو المظفرترک طوسی۔۔۔۔۔۔٧٩٨ھ ٭ حضرت شاہ اسحق بن شمس الدین قریشی خراسانی ۔۔۔۔۔۔ ٨٥٦ھ ٭ حضرت سید عقیل کوکانی ۔۔۔۔۔۔٨٤٢ھ ٭ حضرت شاہ عبداللہ بن احمد ۔۔۔۔۔۔٨٩٧ھ (بخارا) ٭ حضرت شاہ احمد محی الخلیقۃ بغدادی ۔۔۔۔۔۔٩٩٩ھ ٭ حضرت خواجہ شمس الدین محمد رومی ۔۔۔۔۔۔٩٠٤ھ (ہرات) ٭ حضرت سیدشاہ حسین خدانما ۔۔۔۔۔۔٩١٥ھ (برہان پور) ٭ حضرت شیخ ابی الصلاح علی بغدادی ۔۔۔۔۔۔١٠٥٧ھ ٭ حضرت سید آل محمد مارہروی۔۔۔۔۔۔١١٦٤ھ ٭ حضرت حافظ موسیٰ چشتی ۔۔۔۔۔۔١٢٤٧ھ ( مانکپور) ٭ حضرت مناظر اہلسنت شاہ امانت اللہ فصیحی۔۔۔۔۔۔١٣١٥ھ (غازی پور)
١٧ رمضان المبارک
٭ شہدائے بدر ٭ سیدہ رقیہ بنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ورضی اللہ عنہا ۔۔۔۔۔۔٢ ھ ٭ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ۔۔۔۔۔۔٦٢ھ ٭ حضرت شیخ محمدطائی ۔۔۔۔۔۔ ٣٠٠ ھ (حلہ) ٭ حضرت ملا حامد قادری ۔۔۔۔۔۔١٠٤٤ھ (لاہوری) ٭ حضرت سید اخلاص احمد پھپھوندوی بدایونی ۔۔۔۔۔۔١٣٣٨ھ ٭ حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی۔۔۔۔۔۔١٤٠١ھ (رہنما تحریک پاکستان)
۱۸ رمضان المبارک
٭ حضرت عبداللہ محض مدنی بن حسن مثنی بن امام حسن مجتبیٰ ۔۔۔۔۔۔١٣٧ھ ٭ حضرت یحییٰ بن معاذ رازی نیشاپوری ۔۔۔۔۔۔٢٥٨ھ ٭ حضرت خواجہ نصیر الدین محمود اودہی روشن چراغ۔۔۔۔۔۔ ٧٥٧ھ(دہلی) ٭ حضرت شاہ بہاؤالدین (قلعہ تمنی)۔۔۔۔۔۔٨٠٢ھ ٭ حضرت سید عابد سنامی دہلوی ۔۔۔۔۔۔١١٦٠ھ ٭ حضرت مولانا محمد عابد لاہوری ۔۔۔۔۔۔١١٦٠ھ ٭ حضرت شاہ ابو صالح پیر محمد پناہ چشتی نظامی ۔۔۔۔۔۔١١٩٣ھ (سیون) ٭ حضرت حافظ شاہ محمد عبداللہ قدوسی ۔۔۔۔۔۔١٢٥٤ھ (جے پور) ٭ مناظر اسلام قاطع شدھی تحریک حضرت علامہ غلام قطب الدین برہمچاری (ماہر علوم اساطیریات، خلیفہ قطب المشائخ شاہ علی حسین اشرفی میاں ١٣٥٠ھ ٭ حضرت مولانا ریحان رضا خاں رحمانی میاں ٭ حضرت یحییٰ بن معاویہ ٭ پیر نوازش علی چشتی صابری ۔۔۔۔۔۔١٣٦٧ھ
١٩ رمضان المبارک
٭ حضرت سید عماد الدین ابو الصمصام حسینی ۔۔۔۔۔۔٥٤٣ھ (صمصام) ٭ ابو شامّہ عبدالرحمن بن اسماعیل المقدسی (معروف عرب مؤرخ ) ٦٦٥ھ ٭ حضرت شیخ نجیب الدین متوکل دہلوی ۔۔۔۔۔۔٦٧١ھ ٭ حضرت شاہ قطب المزار بینا دل ۔۔۔۔۔۔ ٦٧٧ھ (مرزاپور) ٭ حضرت شاہ عمر کابلی ۔۔۔۔۔۔١٢٠٣ھ ٭ حضرت میاں غلام حسین ۔۔۔۔۔۔١٢٥٩ ھ(کانپور) ٭ حضرت علامہ شیخ محمد حسن امروہوی ۔۔۔۔۔۔١٣٢٣ھ(مؤلف تفسیر غایت البرہان) ٭ شیخ طریقت سائیں قمر الدین قادری نوشاہی لاہوری ۔۔۔۔۔۔ ١٣٨٩ھ / ٣٠نومبر١٩٤٩ئ۔
٢٠ رمضان المبارک
٭ حضرت ابو بکر طوسی قلندری ٭ حضرت شیخ قطب الدین چشتی جونپوری ۔۔۔۔۔۔١٠٧٦ھ ٭ حضرت شاہ رکن الدین ابو الحسن اول ۔۔۔۔۔۔١١٨٣ھ ٭ شاہ حبیب الرحمن کانپوری ۔۔۔۔۔۔١٣٢٦ھ۔
٢١ رمضان المبارک
٭ حضرت امیر المؤمنین سیدنا ابو تراب علی مرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم ۔۔۔۔۔۔٤٠ھ (نجف شریف) ٭ حضرت سیدی عبداللہ بن مبارک ۔۔۔۔۔۔١٨١ھ ٭ حضرت شیخ ابو عبداللہ حسین جوہری ۔۔۔۔۔۔٣٢٢ (مکہ) ٭ حضرت شیخ علی بازیاری ۔۔۔۔۔۔٣٨٩ھ ٭ حضرت ابو العباس خراسانی ۔۔۔۔۔۔٤٦٤ھ ٭ حضرت خواجہ عارف پارسائے نجد ۔۔۔۔۔۔٧١٥ھ ٭ حضرت امام الدین ابدال مثالی ۔۔۔۔۔۔٧٥٤ھ(طوسی) ٭ حضرت شاہ داؤد قریشی ۔۔۔۔۔۔٨١٩ھ (کوہ قرشی) ٭ پیر سید علی گوہر شاہ ۔۔۔۔۔۔٨٢٥ھ(خاندان سادات اُچ شریف) ٭ حضرت سید مکارم میرٹھی ۔۔۔۔۔۔٨٨٥ھ ٭ حضرت غیاث الدین گیلانی لاہوری ۔۔۔۔۔۔٩٩٠ھ ٭ حضرت شاہ مرتضیٰ آنند ۔۔۔۔۔۔١٠٣٧ھ ٭ حضرت حجۃ اللہ غیب اللسان دہلوی ۔۔۔۔۔۔١١٧٦ھ ٭ حضرت شاہ عبدالرحیم چشتی صابری ۔۔۔۔۔۔١٢٤٦ھ (ادّہ) ٭ حضرت امام علی موسیٰ رضا ٭ حضرت شاہ علی حسین باقی(پٹنہ) ٭ علامہ پیر محمد ہاشم جان سرہندی (اولاد مجدد الف ثانی ، رہنما تحریک پاکستان)۔۔۔۔۔۔١٣٩٥ھ
٢٢ رمضان المبارک
٭ امام ابو عبد اللہ محمد ابن ماجہ قزوینی ربعی۔۔۔۔۔۔٢٧٣ھ ٭ حضرت شیخ ابو القاسم محمد سراجی ۔۔۔۔۔۔٣٩٩ھ (حلّہ) ٭ حضرت شیخ ابو الحسن علی بن محمود زوری ۔۔۔۔۔۔٤٥١ھ (کرشک) ٭ حضرت شاہ عبداللہ صفات الاکبر ۔۔۔۔۔۔٩٥٥ھ ٭ حضرت بندگی شیخ فخر الدین فخر عالم سہروردی جونپوری ۔۔۔۔۔۔٩٩٥ھ ٭ حضرت شیخ فصیح الدین لاہوری ۔۔۔۔۔۔١٠١٩ھ ٭ حضرت علامہ شیخ محمد حسین فقیر حنفی شاذلی دہلوی ۔۔۔۔۔۔١٣٢٤ھ ٭ حضرت مولانا حسن رضا بریلوی ۔۔۔۔۔۔١٣٢٦ھ(امام السخن، برادرِ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ) ٭ حضرت مو لوی پیر محمد ہاشم جان سرہندی ثم ٹھٹھوی۔۔۔۔۔۔١٣٩٥ھ ٭ حضرت ولایت حکیم امر الحسن سہارن پوری
٢٤ رمضان المبارک
٭ حضرت ابو مصعب احمد زہری ۔۔۔۔۔۔٢٤٢ھ ٭ حضرت سیدی یحییٰ زاہد بغدادی ۔۔۔۔۔۔٤٣٠ھ ۔ ٭ مفتی سعد اللہ رامپوری ۔۔۔۔۔۔١٢٩٤ھ۔
٢٥ رمضان المبارک
٭ حضرت سیدتنا ام کلثوم بنت رسول اللہا وَرضی اللہ عنہا ۔۔۔۔۔۔٩ھ ٭ حضرت سلطان الدین علاؤ الدولہ سمنانی ۔۔۔۔۔۔٧٦٦ھ ٭ حضرت قاضی سید عبد الملک شاہ اجمل (خلیفہ مخدوم جہانیاں جہاں گشت)۔۔۔۔۔۔٨٦٤ھ ٭ شیر بیشہئ سنّت مولانا ہدایت رسول رامپوری ۔۔۔۔۔۔١٣٣٠ھ(جمعۃ الوداع ) ٭ غزالی دوراں حضرت علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی۔
٢٦ رمضان المبارک
٭ حضرت خواجہ محمد حسن انداقی ۔۔۔۔۔۔٥٥٢ھ (بخارا) ٭ حضرت شیخ قلندر شاہ قریشی حارثی ہنکاری لاہوری ۔۔۔۔۔۔١٢٤٤ھ ٭ حضرت مولانا آل احمد پھلواری ١٢٩٥ھ (بقیع) ٭ علامہ لمعان الحق انصاری لکھنوی١٣٢٥ھ ٭ حضرت مولانا سید ایوب علی رضوی قادری (تربیت یافتہ بارگاہِ اعلیٰ حضرت)١٣٩٠ھ، جمعۃ الوداع/٦نورمبر، ١٩٧٠ئ۔
٢٧ رمضان المبارک
٭ حضرت شیخ ابو العطا نفیس عجمی ٢٢٧ھ (کوہِ عطا قیس) ٭ حضرت سیدی ابو عبداللہ محمد ابن ماجہ قزوینی (صاحبِ سنن) ٢٧٣ھ ٭ حضرت شیخ حماد دیاس بن مسلم ٥٢٥ھ (شام) ٭ حضرت خواجہ صدرالدین محمد روز بہاں بصری ٦١١ھ ٭ حضرت شمس الدین محمد حنبلی٧١١ھ (مرشد آباد) ٭ حضرت دیوان محمد نور الدین اجودہنی ٨٢٤ھ ٭ حضرت محمد سلیم چشتی صابری لاہوری ١٠٣٠ھ ٭ حضرت خواجہ ابولعلاسر ہندی ١١٣٩ھ ٭ حضرت ابو الشرف شاہ پیر محمد اشرف سلونی وجدانی ولایت ١١٦٧ھ (سیلون) ٭ حضرت مولانا عبدالغنی بدایونی (خلیفہ شاہ آل احمد اچھے میاں)١٢٠٩ھ ٭ حضرت علامہ شاہ قیام الدین اصدق قادری قمیصی، چشتی، فخری١٣٠١ھ ٭ حضرت مخدوم امین محمد بن مخدوم محمد زماں ثالث ہالائی۔۔۔۔۔۔١٣٠٣ھ ٭ حضرت محمد اسماعیل کرمانوالہ١٣٨٥ھ ٭ حضرت خواجہ عزیز۔
۲۸ رمضان المبارک
٭ حضرت شیخ محمود کانپوری ۔۔۔۔۔۔٧٠٣ھ ٭ حضرت خواجہ غلام رسول ٭ مفتی زمن علامہ سید ریاض الحسن جیلانی (حیدرآباد، مصنف ریاض الفتاویٰ) ۔۔۔۔۔۔١٣٨٨ھ
٢٩ رمضان المبارک
٭ حضرت شیخ الہند بہاؤالدین سلیم چشتی ۔۔۔۔۔۔٩٧٩ھ (فتح پور سیکری) ٭ حضرت شاہ ہدایت اللہ سرست ۔۔۔۔۔۔٨٨٧ھ (سیتا پور) ٭ خواجہ خدا بخش نقشبندی ۔۔۔۔۔۔١٣٥٩ھ ٭ حضرت علامہ سید قمر الہدٰی مونگیری١٣٨٥ھ ٭ حضرت شیخ جمال الاولیاء
٣٠ رمضان المبارک
٭ حضرت ابو عثمان سعید بن منصور مروزی ۔۔۔۔۔۔٢٢٩ھ (مکہ) ٭ حضرت شیخ جمال اولیا ۔۔۔۔۔۔١٠٤٧ھ (کوڑہ)
۔۔۔۔۔۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہم و رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ۔۔۔۔۔۔

Related

Menu